اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال نمبر 1:
السلام علیکم۔
حضرت! آپ سفر میں تھے، میں نے message کیا تھا، کچھ حالات آئے ہوئے ہیں، جن کی وجہ سے میں بہت مایوس ہوں، میں ان سب حالات سے کیسے نکلوں؟ شریعت پر مکمل عمل کیسے کروں اور تقویٰ کا حصول کیسے ہو؟
جواب:
جی! میں سفر میں تھا اور آپ کا message کھل بھی گیا تھا۔ حالات میں مایوس ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے، کیوں کہ جس کا اللہ پہ یقین ہو، وہ کیوں مایوس ہو۔ مایوس تو وہ ہوتا ہے جس کو اللہ پر یقین حاصل نہیں ہوتا۔ اگر گناہ کی وجہ سے کوئی مایوس ہے، تو توبہ کا دروازہ کھلا ہوا ہے۔ قرآن میں ہے:
﴿لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ اِنَّ اللّٰهَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا﴾ (الزمر: 53)
ترجمہ:1 "اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔ یقین جانو اللہ سارے کے سارے گناہ معاف کردیتا ہے"۔
یہ بشارت ہے۔ جو بھی توبہ کرتا ہے، تو اللہ پاک اس کی سنتے ہیں اور توبہ قبول فرماتے ہیں۔ اگر مسائل اور مشکلات ہیں، تو دعا ان کے حل کا ذریعہ ہے۔ اسباب کو اختیار کرنا ہوتا ہے اور مسببُ الاسباب کے ساتھ رابطہ کرنا ہوتا ہے۔
﴿اُدْعُوْنِیْۤ اَسْتَجِبْ لَكُمْ﴾ (المومن: 60)
ترجمہ: "مجھے پکارو، میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا"۔
اس کا مزدہ کھلا ہوا ہے۔ انسان ہمت کرے، ایسے نہیں ہوتا کہ انسان کے پاس کھانا پڑا ہو اور وہ کہے کہ میں کیسے کھاؤں۔ ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں پھر اس کو کیا کہا جائے گا۔ ہمت تو کرنی ہوتی ہے، لیکن ہمت بھی اللہ کے اوپر بھروسہ کے ساتھ ہو۔ لہٰذا آپ اللہ پر بھروسہ کریں اور ہمت کریں، ان شاء اللہ اللہ کی مدد آپ کے ساتھ ہے۔ آپ نے جو دوسرا سوال کیا ہے کہ شریعت پر مکمل عمل کیسے کروں اور تقویٰ کا حصول کیسے ہو؟ ہم تو خیر چھوٹے لوگ ہیں، جو بڑے لوگ ہیں، انہوں نے اس کے حصول کے طریقے کے بارے میں بات کی ہے اور وہ بات یہ ہے کہ شریعت پر عمل کرنے کے لئے طریقت کو استعمال کرنا ہوتا ہے۔ طریقت کیا ہے؟ اپنے نفس کی اصلاح، اپنے دل کی اصلاح، اپنی عقل کی اصلاح؛ ان تین چیزوں کی اصلاح کرنی ہوتی ہے۔ اور یہ ایک دن کا کام نہیں ہے، یہ کافی لمبا کام ہے، لیکن شروع کرنا ہوتا ہے اور پھر اللہ پاک کی مدد سے پورا ہوتا ہے۔ اللہ پاک مدد فرماتے ہیں۔ پس آپ ہمت کرکے شروع کرلیں، اللہ جل شانہٗ اس کو پورا کروائے گا، ان شاء اللہ۔ تقویٰ کا حصول بھی اس سے ہوتا ہے، کیونکہ تقویٰ فجور کی ضد ہے اور فجور نفس میں ہوتا ہے، لہٰذا اگر کوئی نفس کی اصلاح کرلے، تو فجور ختم ہوجائے گا اور تقویٰ حاصل ہوجائے گا۔
سوال نمبر 2:
میرے مربی حضرت شاہ صاحب دامت برکاتھم!
السلام علیکم۔ آپ کا سفر مبارک ہو، اللہ قبول فرمائے، آمین۔ الحمد للہ! مجھے بہت خوشی ہوئی کہ حضرت والا خیریت سے واپس پہنچ گئے۔ حضرت والا! میں آپ کی ہدایت کے مطابق ذکرِ خفی قلب پر کررہا ہوں، لیکن ابھی تک کچھ محسوس نہیں ہوتا۔ اور فالتو گفتگو کی عادت بھی ہے، اس وجہ سے پریشانی ہے۔ آپ سے دعاؤں کی درخواست ہے۔ اللہ تعالیٰ مجھے اللہ والا بنا دے۔
جواب:
بزرگوں نے فرمایا ہے کہ جتنے لوگ ہیں اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کے اتنے راستے ہیں۔ بعض لوگوں نے بعض چیزوں کو ذہن میں رکھا ہوتا ہے کہ اگر یہ نہیں ہے تو پھر کچھ بھی نہیں ہے۔ حالانکہ ایسی بات نہیں ہے۔ میں اپنے سفر میں جب گیا تھا تو بعض لوگ ہوتے ہیں کہ جو گندم نہیں کھا سکتے، کیوں کہ اس کے اندر protein ہوتا ہے، جو ان کو منع ہوتا ہے۔ تو وہاں ما شاء اللہ ایسی چیزیں انہوں نے بنائی ہوئی تھیں، جن میں یہ چیز نہیں ہوتی۔ آپ حیران ہوں گے کہ چاول اور کچھ اور چیزوں کو ملا کر وہ روٹی بنا لیتے ہیں۔ پس ایسی بات نہیں ہے کہ کوئی چیز ہو نہ سکتی ہو۔ لہٰذا آپ صرف ایک چیز پہ ذہن نہ رکھیں۔ یہ تو ہم ٹیسٹ کررہے ہیں کہ آپ کے لئے کون سا راستہ مناسب ہے۔ اگر آپ کے لئے اللہ پاک نے یہ راستہ نہیں بنایا، تو بہت سارے راستے دوسرے بھی ہیں۔ مثال کے طور پر دل پر ضرب لگا کے جو ذکر جہری کا طریقہ ہے، یہ بھی تو ایک مستند طریقہ ہے اور چشتی سلسلہ کے ہاں بہت مجرب طریقہ ہے اور اس کے ذریعہ سے پتا نہیں کتنے لوگ اللہ تک پہنچے ہوئے ہیں۔ لہذا آپ یہ سوچیں کہ جن کا قلب جاری نہیں ہوگا، تو بس ان کا راستہ بند ہے۔ یہ بات نہیں ہے۔ اللہ پاک نے بہت سارے راستے بنائے ہیں۔ کہتے ہیں کہ فقیر کے لئے "ایک در بند سو در کھلے"۔ اس وجہ سے آپ مایوس نہ ہوں، آپ ضربوں والا طریقہ جاری رکھیں اور ساتھ اس کی بھی کوشش جاری رکھیں۔ اگر کسی وقت اللہ نے چاہا تو کھل جائے گا اور اگر نہیں بھی کھلے گا تو آپ پروا نہ کریں۔ دوسرا طریقہ بھی موجود ہے، بلکہ کئی دوسرے طریقے موجود ہیں۔ سانس کے ذریعہ ذکر ہوتا ہے۔ اور بہت سارے مختلف طریقے ہیں۔ لہذا آپ بالکل مایوس نہ ہوں، اپنے طور پہ کام جاری رکھیں، جو ضرب و جہر والا طریقہ ہے، اس کو استعمال کریں اور اس پر بھی کوشش جاری رکھیں۔ اگر اللہ نے چاہا، تو اسی کے ذریعے سے جاری ہوجائے گا۔ مجھے تو حضرت نے ذکر جہری بھی اتنا نہیں کرایا تھا۔ الغرض ہر ایک شخص کا اپنا اپنا مسئلہ ہوتا ہے، لہٰذا آپ فکر نہ کریں۔
سوال نمبر 3:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔
I pray that you are in the best condition and that your journey back from the UK to Pakistan was comfortable. May Allah reward you immensely for putting yourself through so much trouble just to appreciate Muslims in the west. شیخ I have a few things I wish to discuss.
Since you left, I have been struggling to stay consistent with my معمولات and have missed many صلوٰۃ which I had to say قضا of. I have also gone back to the sin of watching حرام but I have made full intention not to ever again ان شاء اللہ. I am going to start using the معمولات چارٹ to keep myself on track and have done توبہ for missing these صلوٰۃ. My first question is that I have missed months of صلوٰۃ in my life before doing bi’aya with you, do I still have to fast three days for every single one of these? When I leave صلوٰۃ in my local مسجد many good people commit me for my voice, one person is even insisting that I sent him recording of my voice. My question is how I should respond to these complementary words internally and externally and should I give this person a recording of my voice? I fear this will cause عجب and remove any اخلاص I may have جزاکم اللہ خیرا.
جواب:
ما شاء اللہ! آپ کے ان جذبات کو دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔ ایک بات یاد رکھیں کہ گناہ اختیاری چیز ہے اور اختیاری چیز کا علاج بھی اختیاری ہوتا ہے۔ یعنی جو چیز انسان اختیار کے ساتھ کرسکتا ہے، اسے اختیار کے ساتھ روک بھی سکتا ہے۔ اگر گاڑی میں acceletor ہے تو break بھی ہے، لہٰذا آپ اس کو اس وقت break لگا دیں اور اس چیز سے اپنے آپ کو بچائیں۔ سب سے بڑا جہاد یہی ہے کہ آپ اپنے آپ کو گناہ سے بچائیں۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ آپ جو معمولات کی بات کررہے ہیں، یہ بالکل ضروری ہے۔ معمولات کا چارٹ ہی استقامت کا ایک ذریعہ ہے، لہٰذا اس کو ضرور استعمال کرنا چاہئے۔ تیسری بات آپ نے پوچھی ہے کہ جو نمازیں آپ سے بیعت سے پہلے قضا ہوچکی ہیں، ان کا کیا حکم ہے؟ ان کی آپ صرف قضا پڑھیں، کیونکہ اس کے لئے آپ کو یہ طریقہ بعد میں بتایا گیا ہے، لہٰذا آپ صرف ان کی قضا پڑھیں۔ شریعت کی طرف سے آپ پر صرف قضا ہے، البتہ جو تین روزے ہم رکھواتے ہیں، یہ صرف نفس کی اصلاح کے لئے تنبیہ کے طور پر رکھواتے ہیں، تاکہ آئندہ ایسا نہ ہو۔ آئندہ اگر خدا نخواستہ ایسا ہوجائے، تو پھر تین روزے بھی رکھنے پڑیں گے۔ اور اگر بار بار ایسا ہونے لگے، تو پھر تین روزوں سے زیادہ بھی ہوسکتے ہیں، کیونکہ نفس کو تو سنبھالنا ہے۔ چوتھی بات جو آپ نے ریکارڈنگ والی پوچھی ہے، تو ان کو کہہ دیں کہ آپ ماشاء اللہ ہمارے ساتھ ہیں، نماز میں ہماری قرأت سنیں، تو آپ کو ثواب ملے گا، کیونکہ قاری کی زبان سے جو تلاوت نکلتی ہے، اس کا ثواب ہے اور جو قاری کی تلاوت نہیں ہے، Tape recorder سے ہوتی ہے، اس کا ثواب نہیں ہے، البتہ آپ اس سے علم حاصل کرسکتے ہیں۔ Tape recorder سے تلاوت ایسے ہی ہے، جیسے کوئی طوطے سے کوئی تلاوت سن لے، تو کیا اس کا ثواب ہوگا؟ ثواب نہیں ہوگا، کیونکہ تلاوت کرنے والا انسان نہیں ہے، لہٰذا آپ ان سے کہہ دیں کہ آپ نماز میں میری قرأت سنا کریں، ان شاء اللہ اس پر آپ کو ثواب بھی ملے گی اور آپ کی نماز بھی اچھی ہوگی۔ اس طریقے سے آپ بھی عجب سے بچ جائیں گے اور وہ بھی اس سے بچ جائے گا۔ ان سے آپ کہہ دیں کہ آپ قرآن کے ساتھ اپنی محبت کا زور اس پہ نکالیں کہ آپ نماز میں قرآن کو سنیں، اس کا زیادہ فائدہ ہے۔
سوال نمبر 4:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔
نمبر 1: طہارت کے لئے ہر وقت باوضو رہنے کی مشق جاری ہے، چالیس دن پورے ہوگئے ہیں۔ اب ہر وقت باوضو رہنا نسبتاً آسان محسوس ہورہا ہے، لیکن پیشاب کے قطروں کی وجہ سے مشکلات پیش آرہی ہیں، بعض اوقات وضو کرلیتا ہوں، لیکن وضو کرنے کے بعد قطرے آجاتے ہیں تو دوبارہ وضو کرلیتا ہوں۔ عموماً دو دفعہ وضو کرنے کے بعد پھر قطرے نہیں آتے۔ نماز میں وضو ٹوٹنے کا جو احساس ہوتا ہے، اس پر قسم کھانا تو مشکل ہوتا ہے۔ نماز کے بعد جب دیکھتا ہوں، تو بعض اوقات قطرے ہوتے ہیں اور بعض اوقات نہیں ہوتے۔ جب ہوتے ہیں، تو نماز دوہرا لیتا ہوں اور جب نہیں ہوتے تو اس وقت کبھی یہ خیال آتا ہے کہ شاید کپڑے خشک ہوچکے ہوں۔ کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ قطرے نہیں ہیں، دیکھنے کے بعد قسم کھا سکنے یا نہ کھا سکنے کا اعتبار کرتا ہوں۔ اس اصولی بات پر عمل کرتا ہوں۔ روزانہ دو رکعت صلوٰۃ الحاجت بھی پڑھ لیتا ہوں۔ مزید رہنمائی کی درخواست ہے۔
جواب:
ما شاء اللہ! بڑی اچھی بات ہے، لیکن یہ بات یاد رکھیں کہ بلا وجہ شک میں بھی پڑنا ٹھیک نہیں ہوتا اور بے احتیاطی بھی ٹھیک نہیں ہوتی۔ ان دونوں چیزوں کو اس طرح جمع کیا جاسکتا ہے کہ آپ جو کہتے ہیں کہ دو دفعہ وضو کرنے کے بعد قطرے نہیں آتے، تو دو دفعہ وضو نہ کریں، بلکہ دو دفعہ استنجا کریں۔ ایک دفعہ استنجا کرکے تھوڑی دیر بعد پھر چلیں جائیں اور جا کر دیکھ لیں۔ وضو کے بغیر بھی آپ کا مسئلہ اس طرح حل ہوسکتا ہے۔ اس کے لئے وضو ضروری نہیں ہے۔ اس کا باقاعدہ ایک نام ہے، اس کو اٹھوانی کہتے ہیں۔ یہ اٹھوانی والا طریقہ ٹھیک ہے۔
نمبر 2: آپ نے جمعہ کے دن واپس تشریف لانا تھا، لیکن میں آپ کی زیارت سے مشرف نہ ہوسکا، کیونکہ میرا اس دن گاؤں جانے کا ارادہ تھا۔ پروگرام یہ تھا کہ جمعہ کے دن دفتر میں جمعہ پڑھ کر چلا جاؤں گا اور ہفتہ کے دن واپس آ جاؤں گا، تاکہ جوڑ میں بھی شرکت ہوسکے اور اتوار کے دن مدرسہ میں بیٹی کو بھی لے جا سکوں۔ ان دونوں ضرورتوں کو آپ کی صحبت پر مقدم کیا اور آپ کی صحبت کی افادیت کو بھول گیا۔ آپ کی صحبت کی نعمت کو ضائع کرنے کا دنیاوی نقصان یہ ہوا کہ فلاں interchange پر پہنچ کر گاڑی گرم ہوکر بند ہوگئی۔ گاڑی کے گرم ہونے کا اندازہ پہلے سے مجھے ہوگیا تھا، لیکن میں دو وجوہات کی وجہ سے نہیں رکا۔ ایک یہ کہ اگر میں رک جاؤں، تو گاڑی کو کیسے ٹھنڈا کروں گا اور دوسری یہ کہ اتنی گرم نہیں ہے، مجھے پہنچا دے گی۔ فلاں interchange پر رکنے کے بعد گاڑی کو ایک ٹیکسی کے ساتھ Tough chain کیا اور گھر کے قریب ورکشاپ پر لے گیا۔ چونکہ جمعہ کا دن تھا تو ورکشاپ بھی بند تھی۔ ہفتہ کے دن مغرب کے بعد مجھے گاڑی ملی، جس کی وجہ سے ہفتہ کے دن بھی نہ آسکا۔ آج اتوار کے دن فلاں بھی آگئی اور خواتین بھی جوڑ کے لئے پہنچ گئیں۔ گاڑی کا نقصان میں سمجھتا ہوں کہ آپ کی صحبت کی اہمیت کا احساس نہ کرنے کی وجہ سے ہوا اور شاید میں نے سفر کی دعا بھی نہیں پڑھی تھی اور گاڑی کا پانی وغیرہ بھی check نہیں کیا تھا۔ آپ کی صحبت کی افادیت کا احساس نقصان کے بعد ہوا۔
جواب:
ما شاء اللہ! ہر ایک کا اپنا اپنا حال ہوتا ہے اور ہر ایک کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنا تعلق ہوتا ہے، تو اس کے ساتھ وہی معاملہ ہوتا ہے، لہٰذا اس میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے، اللہ پاک ہی تربیت فرماتے ہیں۔
سوال نمبر 5:
السلام علیکم۔
حضرت جی! کچھ دنوں پہلے ایک مولانا صاحب کی ویڈیو نظروں سے گزری، جس میں انہوں نے فرمایا کہ میلاد خوشی منانے کو کہتے ہیں، تو آپ ﷺ کی خوشی چاہے جیسے مرضی مناؤ، چاہے گھر بیٹھے مناؤ، چاہے بچوں کو پیسے دے کر مناؤ۔ گو ایک خاص مکتبۂ فکر کے حوالہ سے انہوں نے پھر باتوں کو جوڑا۔ اس ماہ ربیع الاول کی مناسبت سے آپ ﷺ کی دنیا میں تشریف آوری پر خوشی بھی ہو اور عمل سنت پر ہو، تو اس کیفیت کو کیسے اپنایا اور بڑھایا جاسکتا ہے؟
جواب:
ما شاء اللہ! اس دفعہ اگر آپ نے ہمارا جمعے کے بیان سنا ہوگا، تو اس میں اس سوال کا تفصیلاً جواب دیا گیا ہے۔ اگر اس کو نہیں سنا، تو وہ upload ہو چکا ہے، آپ اس کو سن لیں، میرے خیال میں آپ کو معلوم ہوجائے گا۔
سوال نمبر 7:
آپ کی تعلیمات کی روشنی میں روز و شب شیطانی وساوس اور نفسانی خواہشات کا مقابلہ کرنے میں گزرتے ہیں، آپ نے حبِ جاہ اور حبِ باہ سے رکنے کا کہا تھا، پوری کوشش ہے کہ روگردانی نہ ہو، مگر نفس میں خواہشات موجود ہیں، جن سے ابھی تک خلاصی نہیں ملی۔
جواب:
خواہشات تو یقیناً موجود ہوں گی، کیوں کہ اللہ پاک نے فرمایا ہے:
﴿فَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَتَقْوٰىهَا﴾ (الشمس: 8)
ترجمہ: "پھر اس کے دل میں وہ بات بھی ڈال دی جو اس کے لئے بدکاری کی ہے اور وہ بھی جو اس کے لئے پرہیزگاری کی ہے"۔
ان کو تو آپ ختم نہیں کر سکتے، لیکن آپ کو صرف ان کے اوپر غالب ہونے کا حکم ہے۔
سوال نمبر 9:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔
حضرت جی! امید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گے۔ حضرت جی! آپ کے ہاں خواتین کے لئے جو فرضِ عین علم کی تعلیم کا نظام ہے، اس تک رسائی کا کیا ذریعہ ہے؟ برائے مہربانی رہنمائی فرما دیں، کیونکہ میں بھی کورس کرنا چاہتی ہوں۔ جزاک اللہ خیرا
جواب:
ما شاء اللہ! بالکل ٹھیک ہے، میں آپ کا نمبر ان کو send کردوں گا، وہ آپ کو اپنے گروپ میں شامل کرلیں گی اور اس کے بعد پھر خود ہی طریقہ بتا دیں گی۔
سوال نمبر 10:
السلام علیکم۔
حضرت! تیسرا کلمہ، درود شریف اور استغفار سو سو دفعہ اور ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘ 200 مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ 400 مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ 600 مرتبہ اور ’’اَللہ‘‘ 10500 مرتبہ؛ ان اذکار کو مہینے سے زیادہ ہوگیا ہے، آگے کیا حکم ہے؟
جواب:
اب 1100 ہزار مرتبہ کر لیں اور باقی اذکار کو اسی طرح رکھیں۔
سوال نمبر 11:
السلام علیکم۔
حضرت! آپ نے جو اذکار دیئے تھے، الحمد للہ ان کو ایک مہینے سے زیادہ ہوچکا ہے، لیکن کچھ دن اذکار کی تعداد مکمل نہیں کرسکا۔ مزید رہنمائی کی درخواست ہے۔
’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘ 200 مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ 400 مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ 600 مرتبہ، ’’اَللہ‘‘ 14000۔ اس کے ساتھ پانچ منٹ تصور کرنا کہ دل اللہ اللہ کررہا ہے، لیکن ابھی تک ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ دل اللہ اللہ کررہا ہے۔
جواب:
ما شاء اللہ! ابھی اس طرح کر لیں کہ ’’اَللہ‘‘ 14500 کرلیں اور باقی سب اذکار بھی جاری رکھیں۔
سوال نمبر 12:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔
حضرت! مزاج بخیر و عافیت ہوں گے۔ بندہ کو جو ذکر دیا تھا، اس کا ایک مہینہ بلا ناغہ پورا ہوگیا ہے اور وہ ذکر یہ تھا: 200 مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘ 400 مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ 600 مرتبہ ’’حَقْ‘‘ اور 1000 مرتبہ ’’اَللہ‘‘ اور پندرہ منٹ مراقبہ صفاتِ سلبیہ۔ جس کا اثر محسوس ہوا ہے اور وہ یہ کہ کسی سخت مشکل میں بھی دل کو تسلی ہوتی ہے اور اللہ کے بارے میں اچھے خیالات ہوتے ہیں، کیونکہ اس مراقبہ کی وجہ سے دل میں خیال جم گیا ہے کہ یہ اپنے گناہ کی وجہ سے ہے یا حکمتِ الہٰی ہے، ظلم نہیں ہے، جو کہ ایک صفتِ سلبی ہے، کیونکہ اللہ اس سے منزہ ہے۔
جواب:
ما شاء اللہ! اب آپ اس طرح کرلیں کہ اب اس کی جگہ پر مراقبہ شانِ جامع شروع کرلیں یعنی جتنے بھی مشارب ہیں، ان سب کا فیض اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ ﷺ کی طرف آرہا ہے اور آپ ﷺ کی طرف سے شیخ کی طرف اور شیخ کی طرف سے آپ کے لطیفۂ اخفیٰ پہ آرہا ہے۔
سوال نمبر 13:
ان شاء اللہ، ایک دو ہفتہ کے بعد مقامی خانقاہ میں سہ روزہ لگانے کا ارادہ ہے، ہفتہ اور اتوار کا پورا دن خانقاہ میں ہوگا۔ دو دن کرنے کے معمولات بتا دیں۔
جواب:
آج کل درود شریف ہم زیادہ پڑھتے ہیں، تو بس درود شریف کے لئے target بنا دیں۔ ہم نے target رکھا ہے کہ اس مہینہ میں ڈھائی لاکھ مرتبہ ہم پورا کریں گے، لہٰذا آپ اس میں سے جتنا پڑھ سکتے ہیں، اتنا پڑھ لیں۔ باقی عام معمول جو آپ پہلے سے ہیں، وہ ہوں گے، ان شاء اللہ۔
سوال نمبر 14:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔
نمبر 1: لطیفۂ قلب پر دس منٹ کے مراقبہ کا معمول ہے، ذکر محسوس ہوتا ہے۔
جواب:
ما شاء اللہ، اس کو پندرہ منٹ کردیں۔
نمبر 2: ان سب طالبات نے ابتدائی ذکر بلا ناغہ پورا کرلیا ہے۔
جواب:
اب ان کو اگلا وظیفہ بتا دیں۔
نمبر 3: تمام لطائف پر دس منٹ ذکر اور مراقبہ شانِ جامع کا مراقبہ پندرہ منٹ کے لئے کرتی ہوں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے سفید کلیاں مجھ پر برس رہی ہیں، اور کچھ محسوس نہیں ہوتا۔
جواب:
ابھی آپ ان کو مراقبہ احدیت بتا دیں۔
نمبر 4: لطیفۂ قلب پر دس منٹ، لطیفۂ روح پر دس منٹ، لطیفۂ سر پر دس منٹ، لطیفۂ خفی پر دس منٹ اور لطیفۂ اخفیٰ پر پندرہ منٹ کا مراقبہ کرتی ہوں۔ خفی تک مراقبہ محسوس ہوتا تھا، اب معدہ کے درد کی وجہ سے مراقبہ کی طرف توجہ نہیں رہتی۔ اور کسی لطیفہ پر ذکر محسوس نہیں ہوتا۔
جواب:
معدہ کا علاج کرالیں اور صرف یہ مراقبہ کریں کہ اللہ تعالیٰ محبت کے ساتھ میرے دل کو دیکھ رہے ہیں اور تمام لطائف پہ اللہ پاک کی رحمت نازل ہورہی ہے۔
نمبر 5: تمام لطائف پر پانچ پانچ منٹ ذکر اور مراقبہ شکر پر پندرہ منٹ۔ اس بار مراقبہ سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا شکر زبان کے ساتھ تمام اعضاء سے ادا کرنا چاہئے۔ اس کے لئے چاشت کی دو رکعت نماز پڑھتی ہوں۔ جب چاشت کی نماز پڑھ لیتی ہوں، تو اطمینان نصیب ہوجاتا ہے کہ الحمد للہ جوارح سے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرلیا ہے۔ اور جب چاشت کی نماز رہ جائے، تو بہت افسوس ہوتا ہے اور ظہر کے ساتھ بھی دو رکعت نماز پڑھ لیتی ہوں۔ اس کے علاوہ جب کبھی کوئی نعمت یا خوشی نصیب ہوتی ہے، تو دو رکعت شکرانہ کی نماز پڑھ لیتی ہوں اور اگر نماز کا وقت نہ ہو، تو درود شریف پڑھ لیتی ہوں۔
جواب:
شکر میں یہ بھی ہے کہ جس چیز کا شکر ادا کرنا ہے، اس چیز کو اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق استعمال کیا جائے۔
نمبر 6: تمام لطائف پر پانچ منٹ ذکر اور مراقبہ حقیقتِ قرآن پر پندرہ منٹ ذکر۔ ذکر و مراقبہ میں یکسوئی بالکل نہیں ہوتی، اس لئے کچھ محسوس نہیں ہوتا۔ (جواب: آپ اس کو جاری رکھیں۔)
الحمد للہ! کم کھانے کا مجاہدہ جاری ہے۔ اب دن رات میں ایک ہی وقت کھاتی ہوں، صرف کل دو وقت کھانا پکایا تھا۔ اور جمعہ کو والدہ کی زیارت کے لئے گئی تھی، تو وہاں دوپہر کے کھانے کے علاوہ عصر کے وقت کی چائے بھی پی تھی۔ بولنا بھی الحمد للہ! کم ہوگیا ہے۔
جواب:
ما شاء اللہ! آپ ذکر اور مجاہدہ دونوں کو ابھی جاری رکھیں۔
نمبر 7: یہ طالبات درود شریف پڑھتی تھیں، اب بڑی ہوگئی ہیں۔
جواب:
ما شاء اللہ! ان کو پہلا وظیفہ بتا دیں۔
نمبر 8: لطیفۂ قلب اور لطیفۂ روح پر دس دس منٹ اور لطیفۂ سر پر پندرہ منٹ مراقبہ۔ تمام لطائف پر ذکر محسوس ہوتا ہے۔
جواب:
ان کو اب چوتھا لطیفہ پندرہ منٹ کے لئے بتا دیں اور باقی لطائف پر دس دس منٹ۔
نمبر 9: تمام لطائف پر دس منٹ ذکر اور مراقبہ صفاتِ ثبوتیہ پر پندرہ۔ تمام صفات کا عقیدہ پختہ ہوگیا ہے اور کہتی ہیں کہ جب کائنات میں غور و فکر کرتی ہوں تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ سب کچھ کرنے والا اللہ ہے اور جب کوئی کام کرتی ہوں، تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے دیکھ رہا ہے۔
جواب:
ما شاء اللہ! اب ان کو شیوناتِ ذاتیہ والا مراقبہ دے دیں۔
نمبر 10: تمام لطائف پر دس منٹ ذکر اور مراقبہ صفاتِ سلبیہ پندرہ منٹ۔ اس بات کا یقین ہوگیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات عیب اور حاجت کی تمام باتوں سے پاک ہے۔
جواب:
ما شاء اللہ! اب ان کو شانِ جامع والا مراقبہ بتا دیں۔
نمبر 11: 9500 اسمِ ذات کا ذکر ہے، لیکن کہتی ہیں کہ اتنی دیر بیٹھ نہیں سکتی، کیا لیٹ کر بھی یہ ذکر کرسکتی ہیں؟
جواب:
جی، بالکل کر سکتی ہیں۔
سوال نمبر 15:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔
حضرت جی! اللہ پاک آپ کو سلامت رکھے، آمین۔ حضرت جی! ستمبر کے معمولات کی شیٹ مندرجہ ذیل ہے، اس کا رنگ زرد کردیا ہے۔ حضرت جی! احوال بہت خراب ہیں، ذکر نہیں ہو رہا، جس کی وجہ سے بہت پریشانی شروع ہوگئی ہے۔ تہجد تو عشاء کے ساتھ پڑھ رہا ہوں اور فجر کی نماز بھی گھر پر ادا ہورہی ہے۔ دعا فرمائیں، میرے پاس تو کچھ بھی نہیں ہے۔
جواب:
جو چیزیں اختیاری ہیں، ان میں اختیار کو استعمال کرنا ان کا علاج ہوتا ہے۔
سوال نمبر 16:
السلام علیکم۔
حضرت جی! میرا نام فلاں ہے، میرا ذکر 200، 400، 600 اور 2000 ہے، ایک ماہ مکمل ہوگیا ہے۔ مجھے رہنمائی فرمائیں۔
جواب:
اب ’’اَللہ‘‘ کا ذکر 2500 کر لیں اور باقی اذکار اسی طرح رکھیں۔
سوال نمبر 17:
ایک سالک اگر اپنی پوری کوشش کرنے پر بھی اپنے شیخ کو تکلیف پہنچائے، تو کیا اس کا نقصان ہوتا ہے؟
جواب:
میرے خیال میں آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ اپنے شیخ کو تکلیف پہنچائے، بلکہ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ شیخ کو تکلیف پہنچ جائے۔ کیونکہ جو کوشش کررہا ہے تو وہ تکلیف نہیں پہنچا رہا، بلکہ وہ پہنچ جاتی ہے۔ تکلیف پہنچنا کسی بھی وجہ سے ہوسکتا ہے۔ ایک آدمی کوشش نہ بھی کررہا ہو، تو کسی وجہ سے تکلیف پہنچ جاتی ہے۔ ایسی صورت میں اللہ پاک اس کو معاف کردیں گے، ان شاء اللہ۔ البتہ کوشش پوری جاری رکھیں، بلکہ اس سے experience حاصل ہونا چاہئے کہ تکلیف کس چیز سے ہوئی ہے، تاکہ آئندہ اس کو نہ کرے۔
نمبر 2: میں اس حال میں رہنا چاہتا ہوں کہ اپنے شیخ کو اپنی تمام حالتوں سے آگاہ رکھوں، جیسا کہ شیخ سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا تھا۔ تاہم مجھے اپنے شیخ کا وقت ضائع کرنے اور تکلیف پہنچانے کا بھی خوف ہے۔ اپنے شیخ کو اپنی تمام حالت سے آگاہ رکھنے کا عملی طریقہ کیا ہے؟
جواب:
آپ اپنے احوال لکھتے جائیں، جب انہیں موقع ملے گا، وہ پڑھ لیا کریں گے، جواب کا انتظار نہ کریں، اس کی وجہ یہ ہے کہ مقصود آپ کا اطلاع پہنچانا ہے، جس وقت جواب دینا ضروری ہوگا، جواب دے دیا جائے گا۔ بعض دفعہ جواب دینا ضروری نہیں ہوتا۔ بس صرف observation یا اس کا علم کافی ہوتا ہے۔ وہ حالت نوٹ کرلی جاتی ہے۔ لہٰذا آپ اپنے احوال لکھ دیا کریں۔ آج کل تو واٹس ایپ پر text میسج کا جو طریقہ ہے، یہ بہت زبردست نکلا ہے، جن کو انسان ہر وقت استعمال کرسکتا ہے، البتہ ایک وقت میں بہت زیادہ لمبی بات نہیں کرنی چاہئے۔
سوال نمبر 18:
السلام علیکم۔
حضرت! لاہور سے میں فلاں عرض کررہا ہوں۔ حضرت! ایک نجی معاملہ میں آپ سے رہنمائی کی درخواست ہے۔ حضرت! میری عمر تقریباً چالیس سال ہے اور لاہور کی فلاں یونیورسٹی میں پڑھاتا ہوں۔ الحمد للہ! مناسب تنخواہ ہے، مگر علاج کے باعث اکثر مشکل سے یا والدین کی مدد سے گزارا چلتا ہے، اس لئے میں کوئی extra کام یا ٹیوشن پڑھانا چاہتا ہوں۔ کچھ دن ہماری مسجد کے ساتھی نے اپنی بیٹیوں کو Maths, Physics کی ٹیوشن پڑھانے کے لئے درخواست کی تھی، تو میں نے حامی بھر لی۔ ایک 9th اور ایک 11th کلاس میں ہے۔ وہ دونوں شرعی پردہ کرتی ہیں۔ نظریں نیچے رکھنے کی حد تک میں بھی کوشش کرتا ہوں اور اپنی بیوی کو ساتھ بیٹھنے کی درخواست کرتا ہوں، لیکن اکثر وہ اٹھ جاتی ہیں۔ ان کے والد نے مجھے ایڈوانس فیس بھی دے دی ہے، جو خرچ ہوچکی ہے۔ حضرت! مجھے آپ کی رہنمائی اور دعا کی درخواست ہے۔
جواب:
اس میں اور تو میں کوئی بات نہیں کروں گا، کیونکہ آپ نے جو وعدہ کیا ہے، اس کو تو احتیاط کے ساتھ پورا کریں، آئندہ کے لئے اس سے بچنے کی کوشش کریں، کیونکہ یہ معاملہ بہت نازک ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اپنے اخراجات کو control کرنے کی کوشش کریں۔ اس سلسلے میں اگر آپ کو مدد کی ضرورت ہو، تو اپنی تفصیلات مجھے بتا دیں کہ آپ کے اخراجات کیا ہیں۔ معقول تنخواہ ہونے کے باوجود آپ کے اخراجات آخر کیوں زیادہ ہوتے ہیں، کیونکہ اس کے علاوہ بظاہر کوئی بات نہیں ہوتی۔ اپنے اخراجات کو جو انسان control نہیں کرتا، وہ بہت ساری غلطیوں میں مبتلا ہوسکتا ہے۔ اخراجات کے بارے میں آپ مجھے بتا دیجئے گا۔
سوال نمبر 19:
Thank you۔
بَارَکَ اللہُ فِیْکُمْ۔ مَوْلُوْدٌ مُباَرَکٌ، وَصَلَّی اللہُ وَبَارِکْ عَلٰی سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا عَدَدَ خَلْقِہٖ وَزِنَۃَ عَرْشَہٖ وَمِدَادَ کَلِمَاتِہٖ۔
جواب:
Thank you. You should remember this ’’مَوْلُوْدٌ مُبَارَکٌ، ہٰذَا لَیْسَ بمَعْمُوْلٍ عِنْدَ الْعُلَمَاءِ الْحَقَّۃِ، لِاَنَّہٗ لَیْسَ بَمَعْمُوْلٍ بِہٖ فِی الصَّحَابَۃِ‘‘۔
that this was not a معمول in the time of صحابہ and the other thing is that at least what we should do to recite as much as possible صلوۃ النبی and this is I think مبارک because with one time صلوٰۃ النبی ten رحمت I think come to us so therefore this is مبارک ان شاء اللہ. So you should recite many times صلوٰۃ النبی. We tell people to make a target which has been given to them which I think is 2.5 lacs. It means 25 hundred thousand for the whole month. If this is not possible then 1.25. So, I think this will be very good and we should stick to سنت of رسول اللہ ﷺ. These are the things you can do۔
سوال نمبر 20:
میرے ذکر کو ایک ماہ مکمل ہوگیا ہے۔ آگے ذکر کی رہنمائی فرما دیں۔
جواب:
ما شاء اللہ! ابھی تیسرا کلمہ، درود شریف اور استغفار روزانہ پورے مہینے کے لئے سو سو دفعہ پڑھ لیں اور اس کے ساتھ پندرہ منٹ کے لئے اپنے دل پر تصور کریں کہ میرا دل اللہ اللہ کررہا ہے اور اللہ پاک میرے دل کو محبت کے ساتھ دیکھ رہے ہیں۔ یہ آپ ایک مہینے کے لئے شروع فرما لیں اور نماز کے بعد والے اذکار بھی جاری رکھیں۔
سوال نمبر 21:
حضرت جی! مولانا فخر الدین صاحب آپ کے پرانے جاننے والے ہیں، آج ان سے ملاقات ہوئی تھی، وہ آپ کو سلام کہہ رہے تھے۔ مولانا عبد الکریم صاحب کے ساتھ جب آپ ہوتے تھے، تو اس وقت وہ وہاں پڑھاتے تھے۔ فرما رہے تھے کہ میں نے مصریال میں مسجد بنائی ہے، افتتاح حضرت نے کیا تھا۔ وہ کہہ رہے تھے کہ میں ان شاء اللہ حاضر ہوں گا۔
حضرت جی! اپنے جو حالات بتانے ہوتے ہیں، ان میں اور لوگ بھی بیچ میں شامل ہوتے ہیں، جیسے گھر والے یا بچے یا کوئی اور۔ ان کی وجہ سے بعض چیزیں جو رکاوٹ ہوتی ہیں، تو وہ بھی شیخ کو بتانی ہوتی ہیں؟ مثال کے طور پر ہم کوئی کام کرنا چاہتے ہیں اور اس میں بچے یا گھر والے یا اور کوئی رکاوٹ ہے، تو وہ بھی شیخ کو بتائیں؟
جواب:
اپنے احوال تو انسان بتاسکتا ہے۔ اور یہ صورتِ حال بھی احوال میں شامل ہوجاتی ہے۔ مثلاً: ایک شخص ذکر کررہا ہے، اس کو والد روک رہا ہے، تو وہ بتاسکتا ہے کہ مجھے میرا والد اس سے روک رہا ہے۔ تو پھر اس کو طریقہ بتایا جائے گا کہ اب کیا کرنا ہوگا۔
سوال نمبر 22:
اور اپنے بچوں اور گھر والوں کے بھی تفصیلی حالات بتا سکتے ہیں؟
جواب:
سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ یہی تو فرماتے تھے کہ میری کوئی چیز حضرت سے چھپی ہوئی نہیں ہے۔ ابھی کسی نے اس کا reference دیا ہے۔
سوال نمبر 23:
حضرت! میں ذکر کررہا تھا، جس میں ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ‘‘ 200 دفعہ تھا، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ 500 دفعہ تھا، ’’حَقْ‘‘ 600 دفعہ اور ’’اَللہ‘‘ 500 دفعہ اور پھر دس منٹ کے لئے اللہ کا دل میں ذکر کرنا ہوتا ہے۔ وہ بھی الحمد للہ ہو رہا ہے، دل میں محسوس بھی ہورہا ہے۔
جواب:
ٹھیک ہے۔ اب اس طرح کر لیں کہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘ 200 مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ 400 مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ 600 مرتبہ، ’’اَللہ‘‘ 100 مرتبہ۔ اور دل میں جو دس منٹ کا ذکر ہے، اس کو اب پندرہ منٹ کر لیں۔
سوال نمبر 24:
کبھی کبھار یہ ہوتا ہے کہ بیچ میں خیالات آجاتے ہیں۔
جواب:
خیالات کی پروا ہی نہ کریں۔
سوال نمبر 25:
تو کیا واپس دوبارہ پھر focus کروں کہ دل اللہ اللہ کررہا ہے؟
جواب:
جی، یہ ٹھیک ہے۔ دراصل خیالات شور کی طرح ہوتے ہیں، جیسے انسان کو noise باہر سے آتا ہے، تو اس کو پتا ہوتا ہے کہ یہ noise ہے، لہٰذا وہ اس کی پرواہ نہیں کرتا۔ کہتے ہیں: I have to live with it۔ پس ظاہر ہے کہ پھر انسان کو اس کے ساتھ گزارا کرنا ہوتا ہے۔
سوال نمبر 26:
اور اذکار کی وجہ سے الحمد للہ کافی positivity چیزیں آ رہی ہیں۔ اور دوسرا یہ کہ میں ان شاء اللہ، اگر اللہ کی رضا ہوئی، تو اگلے مہینے کے first ہفتے میں اگر میرا ویزا آ گیا، تو میں انگلینڈ میں لندن میں studies کے لئے جا رہا ہوں۔
جواب:
ٹھیک ہے، ان شاء اللہ۔ اللہ آسانی فرما دے۔ جو آپ کے لئے بہتر ہو، اللہ تعالیٰ وہی کردے۔
سوال نمبر 27:
حضرت جی! یہ جو چاروں مشارب کا اکٹھا تصور کرنا ہوتا ہے کہ مشارب کا فیض چاروں طرف سے آ رہا ہے، اس میں بعض اوقات ان کا مفہوم ذہن میں تھوڑی دیر کے لئے نہیں رہتا، تو اس کا کیا طریقہ ہے؟
جواب:
یہ بہت آسان ہے۔ یہ سوچیں کہ اللہ سب کچھ کرتا ہے، اس کے لئے تمام صفات ثابت ہیں، اسی کی ذات کی طرف توجہ ہے اور وہ تمام کمزوریوں، تمام عیوب سے پاک ہے، اس کا فیض آرہا ہے۔
سوال نمبر 28:
اس پوری عبارت کو اس کے دوران پورا ذہن میں لانا پڑتا ہے، جس کی وجہ سے پریشانی کا سامنا ہے۔
جواب:
آپ بار بار نہ لائیں، صرف ایک دفعہ لائیں اور پھر سوچیں کہ اس کا فیض آ رہا ہے۔
سوال نمبر 29:
کیا پھر اس کے بعد دوسری مرتبہ اور پھر تیسری مرتبہ میں بھی سوچنا پڑتا ہے؟
جواب:
نہیں نہیں، بس صرف شروع کرتے وقت پہلی دفعہ اپنے آپ کو سمجھا دیں اور پھر سوچیں کہ اس کا فیض آرہا ہے۔
سوال نمبر 30:
اگر ان کے متعلق جو آیات ہیں، جیسے: ﴿فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ﴾ (البروج: 16) ہے، ﴿كُلَّ یَوْمٍ هُوَ فِیْ شَاْنٍ﴾ (الرحمٰن: 29) ان آیات کو اگر ذہن میں رکھ لیں، تو پھر ان کی وجہ سے وہ مفہوم بھی ذہن میں آ جاتا ہے۔
جواب:
ٹھیک ہے، اگر کسی کے لئے آسان ہے، تو کوئی مسئلہ نہیں۔ بس مفہوم ذہن میں ہونا چاہئے۔ اس آیت کی وجہ سے بھی مفہوم ذہن میں رکھنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ
(آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عمثانی صاحب)
تمام آیات کا ترجمہ آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم سے لیا گیا ہے۔