حفاظتی دعائیں کرنے کے باوجود حادثہ کو کیا سمجھنا چاہئے

سوال نمبر 1601

مطالعۂ سیرت بصورتِ سوال
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ


سوال:

حضرت! آپ ﷺ کی کچھ دعائیں تو عمومی ہیں جبکہ کچھ دعائیں حادثات وغیرہ سے بچنے کے لئے بھی ہیں۔ جیسے دعائے انس ہے اور ایسے ہی دوسری دعائیں ہیں۔ لیکن اگر یہ دعائیں کرنے کے باوجود کسی کو کوئی حادثہ پیش آجائے تو کیا اس کو تقدیر سمجھنا چاہئے اور اس پر اللہ تعالیٰ سے آخرت میں اجر کی امید کرنی چاہئے؟ یا اس حادثہ کو اپنی کسی غفلت کا نتیجہ یا کسی گناہ کا وبال سمجھنا چاہئے؟

جواب:

اصل بات یہ ہے کہ دعاؤں (چونکہ آپ نے اس کو بھی دعا کہہ دیا اس لئے یہ بھی اسی میں شامل ہو گی) ان کی قبولیت کی تین صورتیں ہوتی ہیں جو حدیث شریف میں بیان کی گئی ہیں۔ اس حدیث سے ہمیں اس سوال کا جواب سمجھ آجائے گا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’دعا کی قبولیت تین قسم کی ہوتی ہے یعنی اس کا اثر تین قسم کا ہوجاتا ہے، جو آپ نے مانگ لیا وہ مل جاتا ہے یا اس کی وجہ سے کوئی مصیبت ہٹا دی جاتی ہے اور یا پھر آخرت کے لئے اس کا اجر ذخیرہ کیا جاتا ہے‘‘۔ (مشکوۃ المصابیح: 2259) مثلاً یہ کھانسی ہے تو کھانسی ایک بیماری ہے لیکن بہت ساری بیماریوں کا علاج بھی ہے۔ جیسے heart کا جب problem ہوتا ہے تو اس وقت یہ کھانسی مفید ہوتی ہے جب انسان کھانستا ہے یا جب انسان کے پھیپھڑوں میں کوئی چیز چلی جائے تو پھیپھڑوں کا reaction ہوتا ہے، جو اس چیز کو چھوڑتا نہیں ہے اور کہتے ہیں اس کی جو fluid type چیز ہے وہ اس کے ساتھ چمٹ جاتی ہے۔ لیکن کھانسی کے ذریعے سے وہ باہر آتی ہے۔ اسی وجہ سے کھانسی بھی نعمت ہے کہ اگر یہ کھانسی نہ ہوتی تو وہ کیسے باہر آتی۔ ایسے ہی درد ہے اگرچہ اس درد سے لوگ تنگ ہوتے ہیں لیکن درد بھی اللہ کی رحمت ہے۔ کیونکہ درد کی وجہ سے آپ کو پتا چلتا ہے کہ کہاں پر problem ہے۔ ڈاکٹر کے پاس جب آپ جاتے ہیں تو آپ اس کو بتاتے ہیں کہ درد ہے، پھر وہ پوچھتا ہے کہ کہاں درد ہوتا ہے؟ کیسے درد ہوتا ہے؟ آپ یہ چیزیں بتاتے ہیں تو اس کو پتا چلتا ہے کہ مسئلہ کیا ہے۔ اور جہاں پر درد نہیں ہوتا (اگرچہ اس میں اللہ کی حکمتیں ہیں) تو وہاں پھر مسائل بھی ہوتے ہیں کیونکہ وہاں کا پتا بہت لیٹ چلتا ہے۔ مثلاً کینسر جو ہوتا ہے اس کا پتا لیٹ چلتا ہے، اندر ہی اندر یہ پھیلتا جاتا ہے اور پتا ہی نہیں چلتا (By chance اگر پتا چل جائے تو چل جائے ورنہ) جب limit cross کرلیتا ہے اور اس وقت اس کے اثرات بالکل واضح ہوجاتے ہیں تو پھر پتا چلتا ہے یعنی جب check-up کرو تو پتا چلتا ہے کہ اوہ ہو! یہ تو یہاں تک پہنچ گیا۔ اور اگر وقت سے پہلے اس کا درد شروع ہوجائے یعنی زیادہ دور پھیلنے سے پہلے اس کا درد شروع ہوجائے تو یہ اللہ کی رحمت ہے یا نہیں ہے؟ معلوم ہوا کہ بعض دفعہ کوئی ایک تکلیف بھیج کر بڑی تکلیف سے بچا دیا جاتا ہے۔ لیکن ہم لوگ اس کو جانتے نہیں ہیں اس لئے ہم شکایت کرنے لگتے ہیں، ہم کہتے ہیں یہ کیا ہوگیا۔ حالانکہ اللہ پاک اپنی حکمتوں کو خوب جانتا ہے۔ لہٰذا اللہ پر بھروسہ کرنا چاہئے اور یقین کے ساتھ دعا کرنی چاہئے اور دعا جتنے یقین کے ساتھ کی جائے گی اتنا زیادہ دل اللہ کی طرف متوجہ ہوگا اور پھر اس میں قبولیت کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ لہٰذا دعا یقین کے ساتھ کرنی چاہئے۔ اور یہ جو سوال کیا گیا کہ ’’کیا اس کو تقدیر سمجھنا چاہئے‘‘ تو مجھے بتائیں کہ کون سی چیز کو تقدیر نہیں سمجھنا چاہئے؟ بھائی! تقدیر تو ہر ایک چیز ہے، کون سی چیز ہے جو تقدیر کے مطابق نہیں ہو رہی؟ تقدیر تو ہر حالت میں ہے۔ لہٰذا اس کے لئے اس کو مثال نہیں بنایا جاسکتا۔ اور آخرت میں اجر تو ہر تکلیف پر ہے، تو اس کے لئے بھی ضرورت نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

﴿اِذَاۤ اَصَابَتْهُمْ مُّصِیْبَةٌۙ قالو اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ ۝ اُولٰٓىٕكَ عَلَیْهِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ وَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُهْتَدُوْنَ﴾ (البقرۃ: 156-157)

ترجمہ:1 ’’یہ وہ لوگ ہیں جب ان کو مصیبت پہنچتی ہے تو یہ کہتے ہیں کہ ہم سب اللہ ہی کے ہیں اور ہم کو اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے، یہ وہ لوگ ہیں جن پر ان کے پروردگا کی طرف سے خصوصی عنایتیں ہیں، اور رحمت ہے اور یہی لوگ ہیں جو ہدایت پر ہیں‘‘۔

حدیث شریف میں آتا ہے کہ کوئی بندہ جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے کوئی مقام جنت میں مقرر کیا ہوتا ہے لیکن وہ اپنے عمل سے ادھر نہیں پہنچ پاتا یعنی سستی کرتا ہے تو اس کے لئے پھر اللہ پاک کوئی تکلیف کا بندوبست کرلیتے ہیں اور پھر اس تکلیف پر اس کو صبر کی توفیق عطا ہوجاتی ہے، تو اس کی برکت سے اس مقام تک وہ پہنچ جاتا ہے‘‘ (سننِ ابی داؤد: 3090)

لہٰذا اجر تو ہر تکلیف پر ہے اگر کوئی بے صبری نہ کرے یعنی اگر کوئی صبر کرے تو ہر تکلیف پر اس کو اجر مل سکتا ہے۔ اور جہاں تک دعائے انس ہے یا اس طرح کی دوسری دعائیں ہیں، اس میں اکثر معاملات میں اللہ تعالیٰ کی حفاظت ہوتی ہے۔ ہاں! اگر عقیدے کی کمزوری ہو تو وہ علیحدہ بات ہے۔ جیسے مجھے کسی نے کہا کہ معوذتین کی موجودگی میں جنات سے بچنے کے لئے یا جادو سے بچنے کے لئے کسی اور عمل کی ضرورت ہے؟ میں نے کہا نہیں، کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اس نے کہا پھر کیوں اس کا اثر نہیں ہوتا؟ میں نے کہا آپ نے قرآن پاک میں صرف دو سورتیں سیکھی ہیں؟ کیا بس یہی سورۃ الفلق اور سورۃ الناس ہے اور کوئی سورۃ نہیں ہے؟ وہ کہنے لگے اور بھی ہیں۔ میں نے کہا ان کے ساتھ معاملہ ignore کرنے کا ہو اور صرف ان دونوں کو محض دنیا کے لئے آپ کرنا چاہتے ہوں تو معاملہ تو آپ نے خود خراب کیا ہے، آپ باقی قرآن کو بھی مانیں، پھر دیکھیں معوذتین کام کرتی ہیں یا نہیں کرتیں۔ یعنی یہی بات ہے کہ ہمارا معاملہ گڑبڑ ہے اور گڑبڑ اس طرح ہوتا ہے کہ ہم اپنے مطلب کے مطابق لیتے ہیں۔ جیسے ہماری پشتو میں کہتے ہیں ’’هر يو کس خپله برخه آسمان ته ګوري‘‘ یعنی اپنے حصے کے آسمان کو دیکھنا۔ یعنی ہمیں بس اپنی غرض سے کام ہے، اس سے کوئی کام نہیں کہ اصول کیا ہے۔ مثلاً ہمارے گھر کے سامنے اگر کوئی گاڑی کھڑی کر دے تو ہمیں غصہ آتا ہے لیکن ہمیں دوسرے کے گھر کے سامنے گاڑی کھڑی کرنے کے بارے میں یہ خیال کیوں نہیں آتا کہ اس کو بھی غصہ آتا ہے؟ اگر آپ ایک آدمی سے favor چاہتے ہیں تو دوسرے کو favor کیوں نہیں دیتے؟ بس یہی مسئلہ ہے کہ ہم لوگوں کی گڑبڑ یہی ہے کہ ہم صرف اپنی ذات کے حساب سے سوچتے ہیں کہ ہمارا اس میں کیا فائدہ ہے، یہ نہیں دیکھتے کہ دوسرے کا کیا حق ہے یعنی اپنے حق کے بارے میں سوچتے ہیں اور اپنے فرض کے بارے میں نہیں سوچتے، لہٰذا یہ ہمارا مسئلہ گڑبڑ ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے ہاں ایسا نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کا ہر چیز پر انصاف ہے۔ لہٰذا ہم لوگوں کو یہ دعائیں یقین کے ساتھ پڑھنی چاہئیں۔ یہاں ایک ڈاکٹر ہے ریلوے ہسپتال کا، مجھے کہتے ہیں شاہ صاحب! یہ دعائیں ہم پڑھتے ہیں (وہ جو دعائیں ڈینگی والی ہیں اصل میں کرونا کے لئے آئی تھیں) لیکن کہتے ہیں کرونا کے دنوں میں میرا دل چاہتا ہے کہ تھوڑا سا کرونا ہوجائے اور اس کی وجہ سے anti-bodies کم از کم بن جائے لیکن وہ بن ہی نہیں رہی۔ تو یہ دعا کا اثر ہے۔ میں نے کہا خدا کے بندے! دعا کس لئے پڑھتے ہو؟ اسی لئے تو پڑھتے ہو کہ بچت ہو اور بچت ہو رہی ہے۔ اس لئے ہم لوگوں کو یقین کے ساتھ یہ دعائیں کرنی چاہئیں، اللہ پاک ساری چیزوں پر قادر ہیں۔ حضرت مولانا تقی عثمانی صاحب دامت برکاتھم کے اوپر جب گولیاں چلیں تو انہوں نے پہلا سوال اپنی فیملی سے یہی کیا تھا (جس گاڑی میں بیٹھے ہوئے تھے تو فیملی بھی ان کے ساتھ تھی) کہ کیا تم لوگوں نے دعائے انس پڑھی ہے؟ ان لوگوں نے جواب دیا کہ پڑھی ہے، انہوں نے کہا کہ پھر فکر نہ کریں۔ ڈرائیور بیچارہ زخمی ہوگیا تھا لیکن حضرت کو اور حضرت کے خاندان کو کچھ نہیں ہوا تھا۔ یہ بالکل جیتا جاگتا واقعہ ہے۔ لہٰذا ہمیں یقین کرنا چاہئے۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حجاج بن یوسف کو کیسے کہا تھا کہ تم مجھے کچھ نہیں کہہ سکتے، تم میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ حالانکہ وہ ایسا ظلم کا بادشاہ تھا کہ کسی کا بھی سر فوراً اڑوا دیتا تھا، تو اس نے کہا کہ کیوں میں تجھے کچھ نہیں کہوں گا؟ حضرت نے کہا کہ ایک دعا حضور ﷺ نے ہمیں سیکھائی ہے، وہ میں نے پڑھی ہے، جب میں نے وہ پڑھی ہے تو تم میرا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے۔ اس کے بعد وہ کہتا ہے کہ اچھا مجھے بھی وہ سکھا دیں۔ لیکن حضرت نے کہا نہیں، کیونکہ انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ نااہلوں کو نہیں سکھانا۔ اب دیکھیں! ایسے غصے والے آدمی کو ایسی بات منہ پر کہنا کہ نااہلوں کو نہیں سکھانی، یہ کوئی معمولی بات ہے۔ اور پھر بھی وہ کچھ نہیں کرسکا۔ ایک روایت تو اس میں یہ بھی ہے کہ حجاج سے بعد میں پوچھا گیا کہ آپ نے اس کو کیوں معاف کیا؟ وہ کہنے لگا میں کیا کرتا؟ جب میں اس کے بارے میں فیصلہ کرتا تو ایسا ہوتا جیسے دو شیر آکر مجھ پر حملہ کرنے والے ہوں تو میں پیچھے ہوجاتا۔ اس دعا کو اسی وجہ سے دعائے انس کہتے ہیں۔ لہٰذا حفاظت تو ہے اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ اور دعائے حادثات اس کے اپنے فوائد ہیں۔ ایک اور دعا کے بارے میں حضرت ابن عباسؓ سے منقول ہے انہوں نے فرمایا کہ اگر تمہیں پھر بھی کچھ ہوجائے تو مجھے پکڑ لینا۔ (فیض القدیر: 1613) یعنی ان کا یقین تھا اور جب یقین تھا تو حفاظت بھی تھی اور سب کچھ تھا۔ اب اس یقین کی کمزوری ہو اور آپ نے یقین کی کمزوری کے ساتھ کہا ہو تو پھر آپ کے part پر کچھ مسئلہ ہے۔ لہٰذا ہم لوگوں کو یقین کے ساتھ یہ دعائیں کرنی چاہئیں۔ اور پھر اس کو اللہ پر چھوڑنا چاہئے۔ جیسے قرآنِ پاک میں ہے:

﴿وَاُفَوِّضُ اَمْرِیْۤ اِلَى اللّٰهِؕ اِنَّ اللّٰهَ بَصِیْرٌۢ بِالْعِبَادِ﴾ (المؤمن: 44)

ترجمہ: ’’اور میں اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کرتا ہوں ۔ یقیناً اللہ سارے بندوں کو خوب دیکھنے والا ہے‘‘۔

لہٰذا کبھی بھی اپنے یقین میں کمزوری نہیں لانی چاہئے۔


وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ



  1. ۔ (آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب)

    تمام آیات کا ترجمہ آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم سے لیا گیا ہے۔