دین میں غلو کے وجوہات

سوال نمبر 1600

مطالعۂ سیرت بصورتِ سوال
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال:

حضرت! آپ ﷺ کی ایک حدیث ہے کہ خبردار! دین میں غلو سے بچو کیونکہ تم سے پہلے لوگوں کو دین میں غلو نے ہی ہلاک کیا تھا۔ (سنن نسائی: 3057) اس حدیث شریف میں آپ ﷺ نے دین کے اندر غلو یعنی حد سے تجاوز کرنے سے منع فرمایا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایک مسلمان کن وجوہات کی وجہ سے دین میں غلو اختیار کرتا ہے اور اس کا تدارک کیسے ہوسکتا ہے؟

جواب:

غلو کا مطلب یہ ہے کہ جو حد بندی کی گئی ہے انسان اس کو نہ جانے یا پھر اس کو نہ مانے، یعنی غلو حد سے نکلنے کو کہتے ہیں۔ اب اگر کچھ حدود مقرر ہیں، مثال کے طور پر آپ سمجھتے ہیں کہ فلاں کو دینا ثواب ہے، جبکہ کسی اور کو دینے میں بھی ثواب ہو۔ ظاہر ہے کہ آپ نے ایک حکم پر عمل کیا اور دوسرے پر عمل نہیں کیا، لہٰذا شریعت نے جو حد بندی کی آپ نے اس کو نہیں مانا۔ اس لئے سب سے پہلے تو اس کا علم ہو کہ شریعت کی رو سے کس جگہ خرچ کرنا چاہئے اور کس کس جگہ خرچ نہیں کرنا چاہئے، کیا کیا کام کرنے چاہئیں اور کیا کیا کام نہیں کرنے چاہئیں، یہ اوامر و نواھی کا علم ہے اور اس کو شریعت کا علم کہتے ہیں، لہٰذا شریعت کے علم کو خوب جان کر اسی طریقہ سے اس پر عمل کرو۔ دوسری بات یہ ہے کہ مستحبات میں اتنا آگے نہ بڑھو کہ فرائض اور واجبات میں خلل پڑنے لگے، کیونکہ یہ بھی غلو ہوتا ہے۔ مثلاً ایک شخص ہے جو پوری رات عبادت کرتا ہے، یہ مستحب ہے، لیکن صبح فجر کی جماعت اس سے رہ جائے جو کہ سنتِ مؤکدہ ہے، چنانچہ اس نے مستحب کے لئے سنتِ مؤکدہ کو چھوڑ دیا جس کی وجہ سے کام خراب ہوگیا۔ اسی وجہ ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک رشتہ دار بچہ تھا جو صبح فجر کی نماز میں حاضر نہیں ہوا، حضرت نے ان کی ماں سے پوچھا کہ فلاں نماز میں نہیں آیا تھا، انہوں نے کہا کہ وہ پوری رات جاگ کر نماز پڑھ رہا تھا جس وجہ سے آنکھ لگ گئی اور جماعت کا وقت نکل گیا۔ فرمایا: میں تو یہ چاہتا ہوں کہ پوری رات سوؤں اور صبح فجر کی نماز جماعت کے ساتھ میں پڑھوں۔ (مشکوٰۃ المصابیح: 1080) اسی وجہ سے فرماتے ہیں کہ مستحب کے اندر اتنا منہمک ہوجانا کہ اس پر واجب کا گمان ہونے لگے، اس وقت اس کا ترک کچھ دیر کے لئے واجب ہوجاتا ہے تاکہ لوگوں کو پتا چل جائے کہ یہ مستحب ہے، واجب نہیں ہے۔ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آخری صحابہ میں سے تھے، یعنی ان دنوں صحابہ کم تھے اور تابعین زیادہ تھے۔ لوگ کپڑوں پر بحث کرنے لگے کہ کتنے کپڑے ہونے چاہئیں اور کتنے نہیں ہونے چاہئیں، جب لوگ بحث میں غلو کرنے لگے تو مسروق رحمۃ اللہ علیہ جو تابعی تھے وہ آئے اور آکر دیکھا کہ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نماز پڑھ رہے ہیں اور کپڑے تکیہ پر رکھے ہوئے ہیں، البتہ ستر کے برابر یعنی جتنے کپڑوں کی ضرورت تھی وہ پہنے ہوئے ہیں اور باقی کپڑے چٹائی پر رکھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے سوال کیا کہ یہ کپڑے ناپاک ہیں؟ فرمایا نہیں، بلکہ پاک ہیں۔ انہوں نے پوچھا کہ پھر آپ نے نماز کے لئے پہنے کیوں نہیں؟ فرمایا تم جیسے بیوقوفوں کو یہ سمجھانے کے لئے کہ تم تو اس میں بحث کررہے ہو کہ یہ کیا اور وہ کیا، جبکہ ہماری حالت تو یہ تھی کہ ہمیں پورے کپڑے اس وقت نہیں ملتے تھے، ہم ایک دوسرے کی اوٹ لیتے تھے۔ اور تم ان چیزوں میں اتنا غلو کرنے لگے ہو کہ یہ ہونا چاہئے۔ (مسلم شریف: 7514) چنانچہ اس وقت مستحب تو یہ تھا کہ وہ پورے کپڑے پہنیں یعنی ستر کے علاوہ جو کپڑے ہیں وہ پہننا مستحب تھا، لیکن چونکہ لوگوں کو یہ گمان ہونے لگا تھا کہ یہ واجب ہے، اس لئے انہوں نے اس وقت سمجھانے کے لئے اسے ترک کردیا تاکہ پتا چل جائے۔ ایسے ہی ایک دفعہ ایک صحابی مسافر تھے اور ان کے ساتھ کوئی صاحب بھی تھے۔ انہوں نے عشاء کی نماز دو رکعت پڑھ لی اور پھر اس کے بعد وتر پڑھے اور چارپائی پر سونے کے لئے چلے گئے۔ ساتھی نے کہا کہ حضرت! آپ نے اس کی سنتیں نہیں پڑھنیں؟ یعنی جو عام طور پر پڑھتے ہیں۔ فرمایا بیٹا! میں نے آپ ﷺ کو ایسے کرتے دیکھا ہے۔ یعنی یہ اعمال اس لئے ہیں تاکہ پتا چل جائے۔ مثلاً آپ سفر میں ہیں اور گاڑی بڑی مشکل سے نماز کے لئے کھڑی کی گئی ہے، اس وقت اگر آپ نفلوں میں شروع ہوجائیں، جبکہ گاڑی میں بچے بھی ہیں، عورتیں بھی ہیں جن کو گھر پہنچنا ہے، کچھ بیمار وغیرہ بھی بعض دفعہ ہوتے ہیں۔ تو کیا خیال ہے کہ جب شریعت نے آپ کو کہا ہے کہ فرضوں کو آدھا کرلو تو آپ اس وقت نفلوں کو کیوں نہیں چھوڑ رہے لوگوں کی رعایت کے لئے؟ اس لئے میں بہت حیران ہوتا تھا جب بسوں پر جاتے تھے کہ بعض دفعہ بڑی مشکل سے ہم گاڑی کو رکواتے تھے ورنہ وہ نہیں روکتے تھے، بڑی مشکل سے گاڑی نماز کے لئے کھڑی ہوتی تھی لیکن لوگ نیچے اتر کر نفلیں پڑھنے لگ جاتے۔ خدا کے بندو! کیا کررہے ہو؟ ہم نے بڑی مشکل سے گاڑی رکوائی ہے، آئندہ کے لئے وہ روکیں گے ہی نہیں اور یہی وجہ ہوتی ہے کہ ڈرائیور تنگ ہوتے ہیں اور پھر وہ روکتے نہیں ہیں۔ یہی بات ہے اور اسی کو غلو کہتے ہیں اور یہ غلو ٹھیک نہیں ہے۔ البتہ اس کا تدارک ایسے کرسکتے ہیں کہ دین کو سیکھیں اور جو دین نے حدیں مقرر کی ہیں اس کے مطابق یہ عمل کرلیں، یہی طریقہ ہے غلو سے نکلنے کا۔ اللہ جل شانہٗ ہم سب کو غلو سے بچائے اور صحیح دین پر چلنے کی توفیق عطا فرما دے۔ اسی کو فقاہت کہتے ہیں۔ جیسے ہمارے امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی ایک دفعہ صبح فجر کی نماز لیٹ ہوگئی تھی اور وقت نکلنے والا تھا، آپ نے امام یوسف رحمۃ اللہ علیہ کو نماز کے لئے آگے کیا جو کہ اس وقت لڑکے تھے، انہوں نے مختصر طور پر سورۃ فاتحہ اور چھوٹی سے چھوٹی سورۃ پڑھ کر جلدی سے نماز ختم کی، جب سلام پھیرا تو امام نے ان سے فرمایا: ’’اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ! صَارَ یَعْقُوْبُنَا فَقِیْہاً‘‘ یعنی اَلْحَمْدُ للہ ہمارا یعقوب آج فقیہ ہوگیا، کیونکہ اس کو دین کی سمجھ آگئی کہ جیسا کرنا چاہئے اسی طرح اس نے کردیا۔ اور یہی چیز ہوتی ہے، اس لئے علماء کے ساتھ ساتھ رہنا چاہئے، اسی میں فائدہ ہے، اور علماء سے استفادہ بھی کرنا چاہئے اور اس بات کو نہیں دیکھنا چاہئے کہ وہ خود عمل کرتے ہیں یا نہیں کرتے۔ کیونکہ اس کے عمل کا حساب اللہ کے ساتھ ہے، تمہارے ساتھ نہیں ہے، تم اس سے صحیح باتیں سیکھو۔ جیسے کتاب سے آپ کچھ سیکھتے ہو ایسے ہی آپ اس کو کتاب سمجھو اور کتاب پر عمل لازمی نہیں ہے۔ البتہ ایسے پیروں سے بچو جو کہ دیندار نہیں ہیں کیونکہ پیر سے عمل لیا جاتا ہے اور عالم سے علم لیا جاتا ہے۔ اس لئے عالم سے عمل کی بنیاد پر ناراض نہ ہوں اور پیر سے علم کی بنیاد پر ناراض نہ ہوں۔ اگر علمِ نافع اس کے پاس ہے یعنی فرضِ عین علم اس کے پاس ہے تو پھر مزید اس سے مطالبہ نہ کرو کہ مجھے فتویٰ بھی دے دو کیونکہ جب وہ مفتی نہیں ہے تو پھر کیسے فتویٰ دے۔ لہٰذا پیروں سے فتوے نہ لیا کرو اگر وہ عالم نہیں ہیں اور عالم سے تربیت نہ کروایا کرو اگر وہ شیخ نہیں ہے۔ تو یہ صاف صاف بات ہے اور آسان سی بات ہے کہ ہر چیز کے لئے اپنا اپنا موقع ہے یعنی جو دکان جس چیز کے لئے ہوتی ہے وہی چیز وہاں سے لینی چاہئے۔ مثلاً سنار کی دکان پر چلے جائیں اور کہیں کہ دو کلو آلو دے دیں، تو وہ کیا کہے گا؟ وہ کہے گا بیوقوف! تو کہاں آیا ہے؟ یہ کوئی آلوؤں کی دکان ہے؟ لہٰذا ہر چیز کی اپنی اپنی جگہ ہوتی ہے، جس جگہ کوئی چیز ملتی ہے، اس جگہ پر صرف وہی چیز لیجائے، یہی فقاہت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو نصیب فرمائے۔


وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ