ربیع الاول کے اعمال کثرت درود شریف اور کثرت ذکر

جمعہ بیان

جمعہ بیان
جامع مسجد الکوثر - ریلوے جنرل ہسپتال، راولپنڈی

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ


﴿فَاذْكُرُوْنِیْۤ اَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُوْا لِیْ وَلَا تَكْفُرُوْنِ﴾ (البقرۃ: 152)

ترجمہ:1 ’’لہٰذا مجھے یاد کرو، میں تمہیں یاد کروں گا۔ اور میرا شکر ادا کرو اور میری ناشکری نہ کرو‘‘۔

وَقَالَ اللہُ تَعَالیٰ ﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اذْكُرُوْا اللّٰهَ ذِكْرًا كَثِیْرًا وَّسَبِّحُوْهُ بُكْرَةً وَّاَصِیْلًا﴾ (الأحزاب: 41-42)

ترجمہ: ’’اے ایمان والو! اللہ کو خوب کثرت سے یاد کیا کرو۔ اور صبح و شام اس کی تسبیح کرو‘‘۔

وَقَالَ اللہُ تَعَالیٰ ﴿اِنَّ اللّٰهَ وَمَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ-یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا﴾ (الأحزاب: 56)

ترجمہ: ’’بیشک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود بھیجو، اور خوب سلام بھیجا کرو‘‘۔

اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّعَلٰى اٰلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلٰى إِبْرَاهِيْمَ وَعَلٰى اٰلِ إِبْرَاهِيْمَ إِنَّكَ حَمِيْدٌ مَّجِيْدٌ۔ اَللّٰهُمَّ بَارِكْ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّعَلٰى اٰلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلٰى إِبْرَاهِيْمَ وَعَلٰى اٰلِ إِبْرَاهِيْمَ إِنَّكَ حَمِيْدٌ مَّجِيْدٌ

میں نے آپ کے سامنے جو آیاتِ مبارکہ تلاوت کی ہیں، ان میں اللہ جل شانہٗ کے واضح احکامات موجود ہیں، اللہ کے حکم کے آگے سب کو سر جھکانا چاہئے اور اس میں اپنی عقل نہیں لڑانی چاہئے۔ کیونکہ بعض دفعہ وسوسے انسان کو بہت بڑے اجر سے محروم کردیتے ہیں۔ لہٰذا ہمیں صحیح علم حاصل کرنا چاہئے تاکہ حق کو حق کہیں اور باطل کو باطل کہیں۔ صحیح عمل کریں، صحیح عقیدہ رکھیں۔ اور عمل میں صرف بعض خصوصی اعمال نہیں بلکہ پورے دین کے اعمال ہوں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ كَآفَّةً وَّلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ﴾ (البقرۃ: 208)

ترجمہ: ’’اے ایمان والو! اسلام میں پورے کے پورے داخل ہوجاؤ، اور شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو، یقین جانو وہ تمہارا کھلا دشمن ہے‘‘۔

لہٰذا شیطان ہمیں صرف وسوسوں کی وجہ سے بعض اجر کی باتوں سے محروم کردیتا ہے، اس لئے وسوسوں سے بچنا ہے۔ اب میں اصل موضوع کی طرف آتا ہوں۔ اللہ جل شانہٗ نے ارشاد فرمایا:

﴿اُذْكُرُوْا اللّٰهَ ذِكْرًا كَثِیْرًا وَّسَبِّحُوْهُ بُكْرَةً وَّاَصِیْلًا﴾ (الأحزاب: 41-42)

ترجمہ: ’’اللہ کو خوب کثرت سے یاد کیا کرو۔ اور صبح و شام اس کی تسبیح کرو‘‘۔

یعنی کثرت سے اللہ کو یاد کرو۔ کثرت کسے کہتے ہیں، اس میں ذرا غور فرمائیں! عربی قاعدہ کے لحاظ سے ایک ہوتا ہے واحد اور ایک ہوتا ہے تثنیہ، یعنی دو چیزیں، اور ایک ہوتا ہے جمع، یعنی دو سے زیادہ۔ اب دو سے زیادہ جمع میں آگئے، یعنی تین بھی جمع ہے، پانچ بھی جمع ہے، دس بھی جمع ہے، بارہ بھی جمع ہے، کروڑ بھی جمع ہے، ارب بھی جمع ہے، کھرب بھی جمع ہے، اور اس کی کوئی حد نہیں ہے، سب جمع میں آتے ہیں۔ اب اگر میں آپ کو کہتا ہوں کہ آپ جمع عمل کرلیں، تو آپ تین کرکے کہیں گے کہ بس جمع ہوگیا، اور یہ بالکل صحیح ہے، غلط نہیں ہے، لیکن تین کے مقابلہ میں پانچ، پانچ کے مقابلہ میں دس، دس کے مقابلہ میں سو، سو کے مقابلہ میں ہزار زیادہ ہے۔ اسی طرح کثرت ہے، اور کثرت بہت کو کہتے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ کو بہت زیادہ یاد کرو۔ اب کسی کے نزدیک سو بہت ہوتے ہیں، کسی کے نزدیک ہزار بہت ہوتے ہیں، کسی کے نزدیک پچاس بہت ہیں، کسی کے نزدیک لاکھ بہت ہیں، یعنی ’’بہت‘‘ کی بھی کوئی حد نہیں ہے۔ لیکن کمال کی بات یہ ہے کہ جو بہت عمل کرتا ہے، اس پر وہ شخص رد کرتا ہے جو تھوڑا عمل کرتا ہے، یعنی یہ عجیب بات ہے کہ جو تھوڑا عمل کرتا ہے وہ اس کو برا کہہ رہا ہے جو زیادہ عمل کر رہا ہے اور پھر اس زیادہ عمل کا حکم اللہ نے دیا ہے۔ یہ میں آج کل کے دور کی بات کر رہا ہوں کہ آج کل ایسا ہی ہے، اور یہ آج کل کا مرض ہے کہ نہ خود عمل کرو نہ دوسروں کو عمل کرنے دو۔ اور پھر جس چیز کو نہ کرنا ہو تو اس سے متعلق قرآنی آیات اور صحیح احادیثِ شریفہ کے دلائل کو چھوڑ کر جو ضعیف حدیث ہیں اس کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ ضعیف ہے۔ خدا کے بندے! آپ نے آگے بھی پڑھا ہے یا صرف اتنا پڑھا ہے؟ ہمیں ضعیف روایت سے انکار نہیں ہے، کیونکہ ضعیف روایت ہوتی ہے، لیکن ضعیف روایت کی وجہ سے آپ ان اعمال کے متعلق جو صحیح روایات ہیں ان کو تو رد نہیں کرسکتے، قرآنِ پاک کی آیت کو تو نہیں چھوڑ سکتے۔ اس لئے یہ جو بات میں عرض کر رہا ہوں یہ بہت اہم ہے۔ دیکھو! اللہ جل شانہٗ نے ذکر کے بارے میں کثرت کا فرمایا ہے، لہٰذا جو شخص جس ذریعہ سے بھی کثرت کرے گا وہ اللہ کے حکم پر عمل کرنے والا ہوگا، کیونکہ اللہ پاک نے فرمایا ہے کہ کثرت کے ساتھ اللہ کو یاد کرلیا کرو، یعنی بہت زیادہ اللہ کو یاد کیا کرو۔ اور انگلیوں پر ذکر کرنا سنت ہے، اس میں کوئی شک نہیں ہے، نہ ہی اس سے انکار ممکن ہے، کیونکہ یہ آپ ﷺ کا عمل ہے اور صحابہ کا عمل ہے۔ لیکن کثرت سے ذکر کرنا اللہ کا حکم ہے، اب اگر آپ انگلیوں پر گن کر کثرت کا عمل کرسکتے ہیں تو سبحان اللہ! سر آنکھوں پر، اور یہ ہو بھی سکتا ہے، ایسا نہیں کہ نہ ہوسکتا ہو اور اگر کوئی سیکھنا چاہے تو ہم سکھا بھی سکتے ہیں۔ یعنی انگلیوں کے ذریعہ سے ہزاروں، لاکھوں کی تعداد میں ذکر کرنے کا بالکل طریقہ کار موجود ہے، اس کو عقدِ انامل کہتے ہیں۔ لیکن جو لوگ یہ اعتراض کر رہے ہیں کیا ان کو یہ طریقہ معلوم ہے؟ اگر یہ طریقہ ان کو معلوم نہیں ہے، تو یہ لوگ جب انگلیوں پر کریں گے جبکہ ان کو یہ طریقہ معلوم نہیں ہے تو لازمی بات ہے کہ یہ کثرت میں نہیں لا سکیں گے۔ کیونکہ جو عمل گن کر کیا جاتا ہے وہ ایک target ہوتا ہے، اور اس target کو جو لوگ پورا کرتے ہیں ان کو عمل نصیب ہوجاتا ہے اور جو لوگ target اپنے سامنے نہیں رکھتے وہ بہت جلدی اکتا جاتے ہیں۔ یہ روزمرہ کی باتیں ہیں۔ ڈاکٹر لوگ exercise کا کہتے ہیں کہ آپ نے روزانہ تین کلومیٹر walk کرنی ہے یا پانچ کلومیٹر روزانہ آپ نے walk کرنی ہے۔ لیکن ایک آدمی کہتا ہے کہ میں گن کے نہیں کرتا بلکہ میں ویسے ہی کرتا ہوں، تو یہ بات تجربے کی ہے کہ وہ رہ جاتے ہیں اور اپنی walk پوری نہیں کرسکتے۔ اس لئے target اپنے سامنے رکھنا چاہئے کیونکہ target کے ذریعہ سے کام کرنا آسان ہوجاتا ہے۔ اسی طرح جو لوگ target رکھتے ہیں کہ میں نے روزانہ دس ہزار مرتبہ درود شریف پڑھنا ہے تو وہ ہوجاتا ہے۔ لیکن جو اس target کو نہیں رکھتے آپ ان سے پوچھیں کہ کتنا پڑھا ہے؟ وہ زیادہ نہیں پڑھ سکتے۔ آپ دیکھیں کہ اگر کوئی سفر پر جاتا ہے، لیکن دورانِ سفر اس کے پاس تسبیح نہیں ہے یا counter نہیں ہے، وہ اگر وہ ذکر کرنا چاہے گا تو بغیر گنے کتنا کرے گا؟ جو بغیر گنےکرتے ہیں وہ کتنا کرتے ہیں؟ اگرچہ ہمیں کرنے کا طریقہ بھی آتا ہے لیکن وہ میں بعد میں بتاؤں گا۔ کیونکہ اس کو لوگ تصوّف کی بات کہتے ہیں اور اس کے ساتھ تو چڑ ہے۔ مثلاً اگر کوئی شخص گاڑی میں بیٹھ کر یہ کہے کہ میں نے دس ہزار مرتبہ یہ پڑھنا ہے، تو جب تک وہ پورا نہیں ہوتا اس کو آرام نہیں آتا، بلکہ وہ پورا کرتا ہے اور پورا ہو بھی جاتا ہے۔

ایک دفعہ تبلیغی جماعت کے ساتھ میں گیا، وہاں میں شیخ الحدیث رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ’’فضائل اعمال‘‘ میں پڑھا کہ جو شخص ستر ہزار مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘ پڑھے گا، اللہ تعالیٰ اس سے دوزخ کے عذاب کو دور کردے گا اور پھر اس کے بارے میں کچھ واقعات بھی حضرت نے بتائے، مجھے بھی شوق ہوا اور میں نے کہا کہ میں بھی یہ عمل کرتا ہوں، میں نے وہ شروع کرلیا، اور 35 ہزار مرتبہ میں نے جماعت ہی میں چلتے چلتے پڑھ لیا، اور 35 ہزار رہ گیا، لیکن جب وقت پورا ہوگیا اور میں واپس آرہا تھا تو میں نے کہا کہ راستہ میں اس کو میں نے پورا کرنا ہے، کیونکہ اگر گھر چلا گیا تو پھر پتا نہیں یہ ہوتا ہے یا نہیں ہوتا، لہٰذا میں بھی ڈٹ گیا۔ رائیونڈ سے ہمارے گاؤں تک کا یہ نو گھنٹے کا سفر تھا، اس نو گھنٹے میں ایک گھنٹہ میں نے نماز پڑھی ہوگی، کھانا کھایا ہوگا یا کسی نے کچھ پوچھا ہوگا تو اس کا جواب دیا ہوگا، باقی آٹھ گھنٹے تقریباً میں نے ذکر کیا۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ! اور جب واپس آیا تو 35 ہزار مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘ پورا ہوگیا تھا۔ آٹھ گھنٹے میں سے ہر ایک گھنٹے میں کتنا ہوا ہوگا یہ آپ خود ہی حساب کرلو۔ تقریباً چار ہزار مرتبہ ہوگا۔ اب دیکھیں! اگر یہ ارادہ میں نے نہ کیا ہوتا تو کیا اتنا مجھے نصیب ہوتا؟ یعنی ایک target اگر میرے سامنے نہ ہوتا تو اتنا نصیب ہر گز نہ ہوتا۔ لہٰذا پتا چلا کہ کثرت کو حاصل کرنے کے لئے target میں زبردست انتظام ہے۔ اور کثرت کا چونکہ حکم ہے، اس لئے اس حکم پر عمل کرنے کے لئے اگر آپ کا تجربہ کام آجائے تو اس کو شریعت ناجائز نہیں کہتی۔ بس یہی بات ہے جو لوگوں کو سمجھ نہیں آتی جس کی وجہ سے وہ اعتراض کرلیتے ہیں کہ یہ تسبیح پر پڑھنا کہاں سے ثابت ہے۔ حالانکہ تسبیح پر پڑھنے کو ہم نے فرض تو قرار نہیں دیا، بلکہ یہ تو صرف ایک تجرباتی چیز ہے کہ اس سے یاد رہتا ہے، اور بلکہ اس کو عربی میں مذکِّرہ کہتے ہیں یعنی یادہانی کروانے والی، جس کے ذریعہ سے انسان کو یادہانی ہوتی ہے کہ میں نے ذکر کرنا ہے، اور آج کل counter بھی مذکِّر ہے۔

قرآنِ پاک میں ہے:

﴿وَذَكِّرْ فَاِنَّ الذِّكْرٰى تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِیْنَ﴾ (الذّٰریٰت: 55)

ترجمہ: ’’اور نصیحت کرتے رہو، کیونکہ ںصیحت ایمان والوں کو نفع دیتی ہے‘‘۔

یعنی یادہانی کروایا کرو کہ یادہانی مومنین کو نفع دیتی ہے، اور یہ تسبیح بھی مذکِّرہ بن گئی، اس لئے نفع دے رہی ہے، اور جب یہ نفع دے رہی ہے تو خدا کے بندو! یہ اللہ کے حکم پر عمل ہے یا نہیں ہے۔ اس لئے اعتراض کرنے سے پہلے تھوڑا سا سوچ بھی لیا کرو۔ لہٰذا یہ اس قسم کی باتیں ہوتی ہیں اور یہ چونکہ عملی چیزیں ہیں اس لئے عملی طور پر سمجھ میں آتیں ہیں، کتابوں سے سمجھ میں نہیں آتیں۔ یہ چونکہ theoretical چیز نہیں ہے بلکہ اس کی theory صرف اتنی ہے جتنی میں نے بتا دی اور وہ یہ قرآنِ پاک کی آیت ہے۔

﴿اُذْكُرُوْا اللّٰهَ ذِكْرًا كَثِیْرًا وَّسَبِّحُوْهُ بُكْرَةً وَّاَصِیْلًا﴾ (الاحزاب: 41-42)

ترجمہ: ’’اللہ کو خوب کثرت سے یاد کیا کرو۔ اور صبح و شام اس کی تسبیح کرو‘‘۔

یعنی یہ اس کی theory ہے۔ اس سے آگے کا عمل کس طرح ہوگا یہ practical ہے، اس لئے جو practical لوگ ہیں ان سے آپ یہ سیکھیں گے، یعنی جنہوں نے اس چیز کو حاصل کیا ہے ان سے آپ یہ سیکھیں گے۔ اب میں آپ کو بغیر گنے کثرت کے ساتھ ذکر کا طریقہ بتاتا ہوں کہ وہ کیسے ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو نصیب فرما دے۔ ہماری کاکاخیل فیملی کے ایک بہت بڑے بزرگ تھے ’’مولانا عزیر گل صاحب رحمۃ اللہ علیہ‘‘ یہ حضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ کے خصوصی حضرات میں سے تھے، اسیر مالٹا میں سے تھے یعنی ان کے ساتھ مالٹا کی جیل میں قید ہوئے تھے، بڑی نسبت تھی، بڑی دور دور سے لوگ ملنے کے لئے آتے تھے، ان کی ایک بیوی انگریز نومسلم تھی، شاہی خاندان کی تھی، اپنی choice پر مسلمان ہوئی تھی اور چونکہ جو choice پر مسلمان ہوجائے ان کے حالات بالکل مختلف ہوتے ہیں، یہ بڑی نیک خاتون تھی، ہمارے خاندان والے ان کو mother کہتے تھے، mother مرحومہ بڑی ذاکرہ شاغلہ تھی، انہوں نے اپنے سوتیلے بیٹے کو جب وہ دس سال کے تھے (جو مولانا عزیر گل صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی پہلی بیوی میں سے تھے، کیونکہ پہلی بیوی فوت ہوگئی تھی) ذکر کرنا سکھایا۔ ان کا نام مولانا عبدالرؤف تھا۔ اور ذکر بھی سانس کے ذریعہ سے کرنا سکھایا کہ ہر سانس ذکر کے ساتھ ہو۔ سبحان اللہ! انہوں نے یہ سکھایا اور یہ کہہ کر کہ بیٹا! سیکھ لو، اتنی سانسیں کیا اللہ کے ذکر کے بغیر لو گے؟ یہ بتا کر اس کو سکھایا اور اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ! اس نے سیکھا۔ ستر سال کی عمر میں انہوں نے وفات پائی، 60 سال انہوں نے ہر سانس کے ساتھ اللہ کا ذکر کیا تو یہ کثرت پر عمل بھی ہوا اور انہوں نے گنا بھی نہیں، بلکہ بغیر گنے کثرت پر عمل نصیب ہوا، لہٰذا کثرت پر عمل کرنے کے لئے پھر یہ کرنا پڑے گا، اس لئے پھر یہ کرو، البتہ میں نہیں کہتا کہ تم ضرور کرو، لیکن میں صرف اتنا کہتا ہوں کہ جو کرتے ہیں ان پر اعتراض نہ کرو، ان کو روکو نہیں، یہ بات میں صرف اس لئے کہتا ہوں کہ اگر کسی کی قسمت میں یہ نہیں تو ہم زبردستی اس کی قسمت میں نہیں لا سکتے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿اِنَّكَ لَا تَهْدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ﴾ (القصص: 56)

ترجمہ: ’’(اے پیغمبر) حقیقت یہ کہ تم جس کو چاہو ہدایت تک نہیں پہنچا سکتے‘‘۔

یہ آپ ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جس کو آپ چاہیں اس کو ہدایت ہو یہ ضروری نہیں، بلکہ ہدایت تو اللہ تعالیٰ دیتے ہیں جس کو چاہیں۔ لہٰذا اگر کوئی نہیں کرنا چاہتا تو ہم اس کو کچھ نہیں کہتے، کیونکہ ہمارے لئے کچھ کہنے کا موقع نہیں ہے، نفلی عمل ہے اور نفلی عمل اگر کوئی نہ کرے تو اس پر کوئی ملامت نہیں ہے۔

خطبے میں میں نے ایک آیت اور تلاوت کی ہے:

﴿اِنَّ اللّٰهَ وَمَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ-یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا﴾ (الأحزاب: 56)

ترجمہ: ’’بیشک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود بھیجو، اور خوب سلام بھیجا کرو‘‘۔

اس حکم کی وجہ سے پوری زندگی میں ایک دفعہ درود شریف پڑھنا فرض ہے۔ اور جو نماز پڑھتے ہیں نماز میں ان کا یہ فرض پورا ہو ہی جاتا ہے، کیونکہ نماز میں درود شریف موجود ہے، لہٰذا یہ فرض ادا ہوجاتا ہے۔ اور ایک مجلس میں بار بار آپ ﷺ کا نام لیا جائے تو ایک دفعہ درود پڑھنا واجب ہے، اس کے بعد جتنی دفعہ آپ ﷺ کا نام مبارک لیا جائے تو ہر بار درود شریف پڑھنا مستحب ہے یعنی ثواب کا باعث ہے۔ اور یہ کیسا ثواب ہے! سبحان اللہ! بعض دفعہ ایسا موقع نصیب ہوجاتا ہے کہ آدمی حیران ہوجاتا ہے یعنی اللہ تعالیٰ جب قبولیت نصیب فرما دیتے ہیں۔ مثلاً ایک شخص نے آپ ﷺ کا نام سنا، وہ مجلس میں بیٹھا ہوا تھا، اس نے بآواز بلند درود شریف پڑھ لیا (کیونکہ بعض دفعہ اضطراری طور پر ایسا ہوجاتا ہے کہ انسان کو پتا نہیں ہوتا لیکن زبان سے نکل جاتا ہے جیسے محمد کہا تو ﷺ زبان سے نکل گیا) جب اس نے درود شریف پڑھا تو تمام حاضرینِ مجلس کو درود شریف پڑھنا یاد آگیا اور ان سب نے بھی درودِ پاک پڑھ لیا، ان سب کا ثواب اس کے کھاتے میں بھی لکھا گیا۔ حالانکہ یہ کوئی فرض نہیں تھا، واجب نہیں تھا، بلکہ مستحب تھا لیکن مستحب پر عمل کی وجہ سے اس کو کتنا ثواب ملا۔ اور پھر مستحب کس چیز کو کہتے ہیں! مستحب اس چیز کو کہتے ہیں جو اللہ کی پسندیدہ ہو۔ اور اللہ کی پسندیدہ چیز کی کیا آپ کچھ بے ادبی اور گستاخی کرسکتے ہیں؟ آج کل اس انداز سے کہتے ہیں کہ مستحب ہی تو ہے۔ بھائی! اگر یہ مستحب ہے تو میٹھا کھانا فرض ہے یا واجب ہے یا سنت ہے؟ یہ مٹھائی کھانا، حلوہ کھانا کیا ہے؟ یہ بھی تو مباح ہے، لیکن لوگ کھاتے ہیں اور چھوڑتے نہیں ہیں۔ لیکن اگر یہ کسی کو نصیب نہ ہو مثلاً اسے شوگر کی بیماری ہو (اللہ ہم سب کو بچائے، ہسپتال میں بیٹھے ہوئے ہیں، سب مریضوں کی طرف سے دعا کرتے ہیں کہ اللہ پاک سب کو شفا دے دے) اور ڈاکٹر نے یہ چیزیں بند کی ہوں کہ تو نے یہ نہیں کھانا، یہ مٹھائی نہیں کھانی، یہ تجھے منع ہے کیونکہ اگر تو یہ کھائے گا تو تجھے یہ بیماری ہوجائے گی، یا فلاں بیماری ہوجائے گی۔ اب یہ بیچارہ اس چیز کو دیکھتا رہتا ہے لیکن کھا نہیں سکتا۔ کیا خیال ہے کہ جب وہ نہیں کھا سکتا، کیا وہ یہ کہہ سکتا ہے کہ جو مٹھائی کھاتا ہے وہ غلط کرتا ہے یا مٹھائی کھانے والوں کو وہ ناپسند کرتا ہے؟ نہیں! بلکہ وہ کہتا ہے کہ کاش! میں بھی ایسا ہوتا کہ میں بھی مٹھائی کھا سکتا، حلوہ کھا سکتا، یا یہ چیزیں کھا سکتا۔ چنانچہ وہ ان پر افسوس کرتا ہے، رشک کرتا ہے بلکہ بعض دفعہ ان کو نظر بھی لگاتا ہے۔ بس یہی چیز مستحب میں ہے کہ وہ نہ کوئی فرض ہے، نہ واجب ہے، نہ سنت مؤکدہ ہے بلکہ مستحب ہے۔ اگر وہ آپ کی قسمت میں نہیں ہے تو جن کی قسمت میں ہے ان پر رشک کیا کرو، شکر کیا کرو کہ اَلْحَمْدُ للہ! ان کو اللہ نے عطا کیا، اللہ مجھے بھی نصیب فرما دے۔ جیسے ایک آدمی کثرت کے ساتھ روزے رکھ رہا ہے تو آپ اپنے لئے بھی دعا کریں کہ اے اللہ! مجھے بھی یہ نصیب فرما دے۔ حالانکہ نفلی روزہ رکھنا فرض، واجب نہیں ہے۔ ایسے ہی قرآنِ پاک کی تلاوت اگر کوئی بہت زیادہ کرتا ہے، تو اس کو ثواب مل رہا ہے، آپ بھی اس پر رشک کریں کہ کاش! اتنا ثواب میں بھی حاصل کرسکتا، میں بھی اتنی قرآنِ پاک کی تلاوت کرسکتا۔

میں ایک دفعہ راستے پر جا رہا تھا کہ ایک حافظِ قرآن کا گزر ہوا جو چلتے ہوئے تلاوت کر رہا تھا، مجھے اس کے اوپر بہت رشک آیا اور میرے دل نے کہا کہ کاش! میں بھی حافظِ قرآن ہوتا تو میں بھی اس طرح چلتے چلتے قرآن پاک کی تلاوت کیا کرتا۔ کیونکہ جو پکے حافظِ قرآن ہوتے ہیں وہ چلتے چلتے بھی قرآن کی تلاوت کرتے ہیں اور جو کچے ہوتے ہیں، وہ بیچارے رمضان شریف کا انتظار کرتے رہتے ہیں، اور رمضان شریف میں قرآن کی تلاوت کرتے ہیں، لہٰذا پھر وہ کچے ہی رہتے ہیں کیونکہ انہوں نے رمضان شریف کا انتظار کرنا ہے اور پھر رمضان ہی میں پڑھنا ہے۔ اس لئے ایک دفعہ قرآن کو پکا کرلو، پھر چلتے چلتے پڑھو گے اور بھولو گے بھی نہیں، کیوںکہ کثرت کے ساتھ جب آپ اس کو پڑھیں گے تو پھر بھولنا ہی کیوں ہے، بھولتا تو انسان تب ہے جب وہ نہ پڑھے۔ لہٰذا یہ رشک بڑی زبردست چیز ہے۔ حضرت ابراہیم بن ادہم رحمۃ اللہ علیہ بہت بڑے ولی اللہ گزرے ہیں۔ انہوں نے بادشاہی فقیری کے لئے چھوڑی تھی، جب وہ فوت ہوگئے تو کسی نے ان کو خواب میں دیکھا اور پوچھا کہ حضرت! آپ کے ساتھ کیا معاملہ ہوا؟ فرمایا: اللہ نے بہت اکرام کیا اور اللہ نے بہت دیا، مگر میرا پڑوسی مجھ سے آگے چلا گیا۔ خواب دیکھنے والا حیران کہ آپ کا پڑوسی وہ آپ سے کیسے آگے چلا گیا، وہ کیا عمل کرتا تھا؟ فرمایا: وہ عیال دار تھا، کثیر الاولاد تھا اور ان کے لئے رزقِ حلال کمانے میں مگن رہتا تھا، فرض نماز، فرض روزہ، سنت مؤکدہ تک یہ ساری چیزیں کرتا تھا اور مجھے دیکھ دیکھ کر رشک کرتا تھا کہ کاش! میں بھی اس طرح کرسکتا جس طرح ابراہیم بن ادہم کر رہے ہیں، اس رشک کی وجہ سے اللہ پاک نے اسے مجھ سے آگے بڑھا دیا۔ سبحان اللہ! اب بتائیں کہ نیک عمل کرنے والے پر رشک کرو گے یا ان کے ساتھ حسد کرو گے؟۔ رشک کرنا چاہئے اور اپنے لئے بھی دعا کرنی چاہئے۔ بہرحال میں عرض کر رہا تھا کہ مجھے اس حافظ کے اوپر رشک ہوا، یکدم اللہ پاک نے دل میں یہ بات ڈالی اور یہ اللہ پاک کا فضل ہوا کہ دل میں یہ بات آئی کہ قرآن کے حافظ تو تم نہیں ہو لیکن کیا ذکر بھی نہیں کرسکتے؟ ذکر تو تم ہر وقت کرسکتے ہو۔ اور یہ بات بالکل صحیح ہے کیونکہ ذکر کرنا کس کو نہیں آتا، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘ پڑھنا کس کو نہیں آتا، درود شریف پڑھنا کس کو نہیں آتا، ’’سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللہِ الْعَظِیْمِ‘‘ کس کو نہیں آتا، یہ تو سب کو آتا ہے اور اگر نہیں آتا تو سیکھ لیں، پھر جس وقت سیکھا ہوا ہوگا اور کرتا بھی ہوگا تو پھر عادت بن جائے گی، تو پھر وہ ہر وقت ذکر کرتا ہوگا۔ جیسے مولانا عبدالرؤف صاحب رحمۃ اللہ علیہ سانس کے ذریعے سے ہر وقت ذکر کرتے تھے۔ اسی طرح بعض لوگ خوش نصیب ہوتے ہیں کہ جن کا دل ہر وقت ذکر کر رہا ہوتا ہے۔ یہ میں مبالغتاً بات نہیں کرتا، بلکہ اس چیز کو میں اَلْحَمْدُ للہ جانتا ہوں کہ یہ ہوتا ہے، بلکہ اس سے بھی بڑھ کے بات کرتا ہوں کہ بعض خوش نصیبوں کا پورا جسم ذکر کر رہا ہوتا ہے۔ لیکن یہ آپ کو سمجھ ہی نہیں آئی ہوگی، بیشک نہ آئے کوئی بات نہیں، البتہ جب آپ ایسے لوگوں کے ساتھ ملو گے تو خود ہی سمجھ آجائے گی۔ البتہ یہ دور دور سے تو پتا نہیں چلے گا کیونکہ انہوں نے لاؤڈ سپیکر تو نہیں لگا رکھے کہ میرا پورا جسم ذکر کررہا ہے۔ بلکہ آپ جب ان کے ساتھ بیٹھے ہوں گے، ان کے ساتھ ملتے جلتے ہوں گے تو پھر کبھی سمجھ میں آجائے گا۔ مجھے خوب یاد ہے میں حرم شریف میں حضرت مولانا فقیر محمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت پر مامور تھا، یہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ تھے۔ یہ حرم شریف میں دو زانوں بیٹھے ہوتے تھے اور تسبیح ان کے ساتھ ہوتی تھی کہ خانہ کعبہ کی طرف دیکھ رہے ہوتے تھے اور ذکر کر رہے ہوتے تھے۔ ایک دن میں نے دیکھا کہ تھک گئے تھے یعنی ظہر کی نماز کے بعد تھک گئے اور لیٹ گئے، ویسے بھی قیلولہ کرنا سنت ہے تو وہ لیٹ گئے، میں نے دیکھا کہ ان کا پیر بالکل ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘ کی طرح حرکت کر رہا تھا۔ یعنی وہ سو رہے تھے اور ان کا پورا جسم ذکر کر رہا تھا۔ اب یہ ویسے تو نہیں تھا بلکہ بعض خوش نصیب ایسے ہوتے ہیں کہ کثرتِ ذکر کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ان کو یہ انعام نصیب فرما دیتے ہیں کہ ان کا پورا جسم ہر وقت ذکر کرنے لگتا ہے۔ بلکہ وہ ذکر کرنے کی کنجی بن جاتے ہیں کہ ان کو دیکھ کر لوگ ذکر کرنے لگتے ہیں، یہ ایسے خوش نصیب ہوتے ہیں۔ مثلاً جب میرا مکان بن رہا تھا تو اس وقت میرے ایک دوست جو میرے شاگرد تھے وہ میرے پاس آئے، جو قرآن کے حافظ تھے اور پکے حافظ تھے، اسی دوران ایک بزرگ بھی مجھ سے ملنے کے لئے آئے اور انہوں نے آکر میرے کان میں کہا کہ یہ کون ہے؟ کہ اس کے اوپر قرآن کے انوارات ہیں۔ اس حافظِ قرآن نے مجھ سے پوچھا کہ یہ بزرگ کون ہیں؟ ان کو دیکھ کر میرا دل جاری ہوگیا ہے۔ لہٰذا یہ باتیں ہوتی ہیں، اگر آپ لوگوں نے یہ باتیں سنی ہوتیں تو اعتراض نہ کرتے، کیونکہ سنی نہیں ہوتیں اس لئے پھر اعتراض کرتے ہو۔ تھوڑا سا ان لوگوں کے قریب آجاؤ تو پھر اعتراض نہیں کرو گے۔ اب میں آخری بات کرنے والا ہوں جس پر لوگ بہت اعتراض کرتے ہیں۔

درود شریف کی کثرت کا حکم اس آیتِ کریمہ کے مطابق موجود ہے۔

﴿اِنَّ اللّٰهَ وَمَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ-یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا﴾ (الاحزاب: 56)

ترجمہ: ’’بیشک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود بھیجو، اور خوب سلام بھیجا کرو‘‘۔

اس آیت میں درود شریف کا حکم ہے اور حکم مضارع کے صیغے کے ساتھ ہے۔ آپ عربی دانوں سے پوچھو کہ اس میں مضارع کا صیغہ ہے ﴿اِنَّ اللّٰهَ وَمَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ﴾ یعنی ہر وقت، ہر دم درود بھیجتے رہتے ہیں، اور تم بھی یہ کرو یعنی تم بھی مسلسل یہ کرو کیونکہ اللہ پاک کر رہے ہیں اور ملائکہ بھی کر رہے ہیں۔ پتا چلا کہ درود شریف تو ہونا چاہئے۔ لیکن عادت ڈالنے کے لئے کیا کریں؟ یہ بتاتا ہوں، جیسا کہ میں نے آپ کو بتایا کہ یہ تجرباتی باتیں ہیں، ان کو آپ نے قرآن میں نہیں دیکھنا، حدیث میں نہیں دیکھنا، کیوںکہ یہ تجرباتی باتیں ہیں۔ اور میرا تجربہ، آپ کا تجربہ یا سب کا تجربہ یہ قرآن میں تو نہیں ہوگا کیونکہ تجربات تو مختلف ہوتے رہتے ہیں، اس لئے یہ ساری چیزیں قرآن میں نہیں ہوں گی۔ البتہ جو شخص کسی طریقہ سے بھی درود شریف کثرت کے ساتھ پڑھے گا تو اس کی عادت ہوجائے گی، اس پر عمل نصیب ہوجائے گا۔ اب ذرا آسانی کے ساتھ اس پر آنے کے لئے میں اپنا تجربہ عرض کرتا ہوں ۔ چونکہ ربیع الاول کا مہینہ ہے، اور یہ ربیع الاول کا مہینہ سب کو یاد ہے، ربیع الاول کا مہینہ وہ مہینہ ہے جس میں آپ ﷺ اس دنیا میں تشریف لائے اور جس میں آپ ﷺ اس دنیا سے تشریف لے گئے، جس میں آپ ﷺ نے ہجرت کی ابتدا کی اور جس میں آپ ﷺ کی ہجرت پوری ہوئی یعنی مدینہ منورہ پہنچ گئے اور یہ سب کام پیر کے دن ہوئے ہیں۔ اس سے پتا چلا کہ پیر کے دن کو پیر کیوں کہتے ہیں۔ جب پیر کے دن کو پیر کہتے ہیں تو ربیع الاول کو بھی کچھ کہنا چاہئے، اس کے بارے میں بھی کچھ تاثرات ہونے چاہئیں۔ سارے شہر اللہ کے ہیں، ہم سب کی قدر کرتے ہیں لیکن ’’مدینہ منورہ کی اپنی شان ہے۔ ’’مدینہ منورہ‘‘ اللہ کا وہ شہر ہے جس میں آپ ﷺ تھے، آپ ﷺ ہیں، اس لئے ’’مدینہ منورہ‘‘ کو ایک خاص سعادت حاصل ہے، وہ یہ کہ جو ’’مدینہ منورہ‘‘ جاتا ہے وہ درود شریف پڑھتا ہے اور جو ’’مدینہ منورہ‘‘ میں بھی درود شریف نہ پڑھے، اس کے بارے میں کیا کہتے ہو کہ اس کا دل بڑا سخت ہے، جو اثر نہیں لے رہا، اس کو نرم ہونا چاہئے تاکہ اثر لے سکے۔ لہٰذا ’’مدینہ منورہ‘‘ میں جو درود شریف ہم کثرت کے ساتھ پڑھتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ’’مدینہ منورہ‘‘ کو ایک خاص نسبت حاصل ہے اور وہ نسبت ہے مکان کی، یعنی آپ ﷺ اس میں تھے اور آپ ﷺ اس میں ہیں۔ اس نسبت کی وجہ سے ہمیں اس کے ساتھ محبت بھی ہے اور آپ ﷺ پر کثرت کے ساتھ درود شریف پڑھنا بھی اس میں نصیب ہوجاتا ہے۔ لہٰذا اگر ’’مدینہ منورہ‘‘ کو مکانی نسبت ہے تو ربیع الاول کو زمانی نسبت حاصل ہے، کیونکہ آپ ﷺ اس ماہ میں اس دنیا میں تشریف لائے اور آپ ﷺ اسی ماہ اس دنیا سے تشریف لے گئے، اب کوئی ولادت کا دن مناتا ہے اور کوئی وفات کا دن مناتا ہے۔ ہمارے علاقوں میں اس کو 12 وفات کہتے ہیں یعنی پشتو میں ربیع الاول کے مہینے کو 12 وفات کہتے ہیں۔ گویا کوئی وفات مناتا ہے اور کوئی ولادت مناتا ہے۔ لیکن خدا کے بندو! آپ ﷺ کی محبت کو مناؤ کہ آپ ﷺ کی محبت ہر وقت ہونی چاہئے۔ آپ ﷺ نے خود فرمایا ہے کہ: ’’تمہارا ایمان اس وقت تک کامل نہیں ہوسکتا جب تک مجھ سے اپنے بچوں سے زیادہ، اپنے والدین سے زیادہ بلکہ تمام لوگوں سے زیادہ محبت نہ کرو‘‘۔ (ابن ماجہ: 67)

اور یہ بھی علماءِ کرام نے بہت احتیاط سے ترجمہ کیا ہے، ورنہ الفاظ تو بہت ہی سخت ہیں۔ وہ یہ ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’لَا یُؤْمِنُ اَحَدُکُمْ‘‘ یعنی ’’تم میں سے کوئی مومن ہی نہیں اس وقت تک‘‘ یہ ترجمہ ہے اس کا۔ لیکن علماءِ کرام قرآنی آیات اور احادیث شریفہ کی وجہ سے احتیاط کررہے ہیں کہ کہیں کسی کے اوپر ہم کفر کا فتویٰ نہ لگا دیں۔ اس وجہ سے انہوں نے کہا کہ تمہارا ایمان اس وقت تک کامل نہیں ہوسکتا۔ ان علماء کی نیت کو سلام، یہ بالکل ٹھیک ہے، لیکن پھر بھی زور تو زور ہے کہ آپ ﷺ نے جس انداز میں یہ بات کی ہے وہ تو سمجھ میں آنی چاہئے۔ اور وہ یہ ہے کہ آپ ﷺ کے ساتھ محبت ہر حال میں ہونی چاہئے۔ اور جب محبت ہو تو مجھے بتاؤ جس کو آپ ﷺ کے ساتھ محبت ہو، کیا اس کو درود شریف پڑھنے میں کسی دلیل کی ضرورت ہے؟ نہیں! بلکہ محبت خود تجھے آداب سکھا دے گی۔ لہٰذا جس کو آپ ﷺ کے ساتھ محبت ہوگی وہ آپ ﷺ پر کثرت کے ساتھ درود شریف پڑھے گا اور اس مہینے میں تو پڑھ ہی لے گا، کیونکہ آپ ﷺ اس مہینے میں یاد تو آئیں گے اور جب یاد آئیں گے تو پھر پڑھ ہی لے گا۔ بہرحال میں نے کہا ایک تو کثرت کا حکم اللہ نے دیا ہے کیونکہ درود شریف ذکر بھی ہے اور ذکر کا میں نے بتا ہی دیا ہے کہ کثرتِ ذکر کا حکم اللہ پاک نے دیا ہے اور آپ ﷺ نے ایمان کے بارے میں بتا دیا کہ محبت ہونی چاہئے اور محبت کی وجہ سے درود شریف پڑھنا چاہئے۔ درود شریف کے مزید فضائل بھی ہیں، جس کے بیان کرنے کا موقع نہیں ہے، کیونکہ وقت نہیں ہے، اس لئے میں اسی پر بیان ختم کرتا ہوں۔ لیکن یاد رکھو! اگر اس مہینے میں کثرت کے ساتھ درود شریف پڑھو گے تو ان شاء اللہ! یہ عادت ہوجائے گی اور اس عادت کو پھر ختم نہیں کرنا بلکہ پڑھتے رہنا۔ اور یہ بھی یاد رکھو کہ درود شریف بغیر وضو سے بھی پڑھ سکتے ہیں۔ میں ایک دفعہ ایک عالم کے ساتھ جا رہا تھا، انہوں نے پیچھے مڑ کر مجھے کہا کہ شبیر! درود شریف بغیر وضو کے بھی پڑھا جاسکتا ہے، کیونکہ شیطان پہلے وضو نہیں رہنے دیتا، پھر کہتا ہے کہ تمھارا وضو نہیں ہے اس لئے درود شریف نہ پڑھو، اس طرح وہ درود شریف سے محروم کردیتا ہے۔ لہٰذا بغیر وضو جیسے ذکر ہوسکتا ہے، اللہ کا نام لیا جاسکتا ہے اسی طرح درودِ پاک بھی پڑھا جاسکتا ہے۔ بغیر وضو درود شریف نہ پڑھنا اس کو محبت کے غلبے کی صورت میں محرومی کہتے ہیں۔ بہرحال ہم لوگوں کو آپ ﷺ پر کثرت کے ساتھ درود شریف پڑھنا چاہئے، چاہے وضو ہو، چاہے وضو نہ ہو اور ایک تعداد مقرر کرلیں تاکہ یہ پڑھنا نصیب ہوجائے۔ اور تعداد میں بتا دیتا ہوں۔ ہم نے اپنے ساتھیوں کو بتایا ہوتا ہے کہ ڈھائی لاکھ مرتبہ اس ماہ میں کرلیا کرو، لیکن ڈھائی لاکھ نہ ہو تو سوا لاکھ تو کر ہی لیا کرو، یہ تجربہ کی بات ہے، منصوص بات نہیں ہے، لیکن حکمِ منصوص کیا ہے؟ یہ میں نے بتا دیا کہ کثرت کے ساتھ اللہ کو یاد کرو۔ اور درود شریف کا حکم مضارع کے صیغے کے ساتھ ہے جس کا مطلب کثرت کے ساتھ درود شریف ہونا چاہئے۔ لہٰذا جب حکم ثابت ہوگیا تو اب بات یہ ہے کہ کثرت کیسے حاصل کی جائے؟ تو یہ تجربہ کی بات ہے جو میں نے آپ کو بتا دی۔ لہٰذا اس مہینہ میں پورے طور پر متوجہ ہوکر آپ ﷺ کی سنتوں پر چلنے کی نیت کر کے، آپ درود شریف کی کثرت کریں۔ ایک بات مزید اور بتاتا ہوں اگر آپ لوگ مانتے ہیں تو مان لیں نہیں مانتے تو بے شک نہ مانیں لیکن ہمارا تجربہ ہے کہ ہم اَلْحَمْدُ للہ جمع کرتے ہیں اور کروڑوں کی تعداد میں جمع ہوجاتا ہے ایک دفعہ 63 کروڑ جمع ہوگیا تھا، یہ ساتھیوں نے پڑھا تھا، عورتوں نے، مردوں نے سب نے پڑھا تھا پھر اَلْحَمْدُ للہ ’’مدینہ منورہ‘‘ میں ایک اللہ والے موجود ہیں، جن کو ہم جانتے ہیں اور ان کے پاس یہ بھیج دیتے ہیں وہ روضہ اقدس پر پیش کردیتے ہیں۔ یاد رکھو! ہر وقت درود شریف روضہ اقدس پر پیش ہوتا ہے، اس لئے اس کی ضرورت نہیں ہے، لیکن میں آپ کے دل سے پوچھتا ہوں کہ اگر کوئی شخص ’’مدینہ منورہ‘‘ جاتا ہو تو آپ اس کو کہتے ہیں کہ میرا روضہ اقدس پر سلام کہنا۔ بتائیں! کہتے ہو یا نہیں کہتے؟ کہتے ہو۔ بتائیں یہ کیوں کہتے ہو؟ حالانکہ ادھر سلام پڑھو تو پہنچ جائے گا یا نہیں پہنچے گا؟ بالکل پہنچ جاتا ہے، لیکن بات تو اس طریقہ سے پیش کرنے کی ہے، اس لئے ہم بھی اس طرح پیش کرنے کا موقع حاصل کرلیتے ہیں۔ لہٰذا ہم کہہ بھی دیتے ہیں، پیش بھی کرلیتے ہیں اور کچھ بتا بھی دیتے ہیں باقی وہ بتانے پر آپ مانیں یا نہ مانیں یہ آپ کی مرضی ہے۔ اَلْحَمْدُ للہ ہمیں تو فائدہ ہوتا ہے۔ اللہ پاک ہم سب کو نصیب فرمائے۔

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ



  1. (آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب)

    تمام آیات کا ترجمہ آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم سے لیا گیا ہے۔