کفار کے اسلام کے ساتھ دو متضاد روئیے

سوال نمبر 1598

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ دارالاحسان - برمنگھم

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ


سوال:

آپ ﷺ کی وہ برکات جو اس دنیوی زندگی سے متعلق ہیں، وہ آپ ﷺ کے دور میں کفار کو بھی نظر آرہی تھیں اور اس وقت سے لے کر اب تک اسلام کے دنیوی فوائد کا اقرار ہر دور میں کفار بھی کرتے ہیں، لیکن ان دنیوی فوائد کا اقرار کرنے کے باوجود وہ اسلام کے دشمن ہیں، اور ان کی دشمنی میں روز بروز شدت آرہی ہے۔ آپ ﷺ اور آپ ﷺ کے لائے ہوئے دین کے فوائد کا اقراری ہونے کے باوجود دشمنی کرنا بظاہر متضاد نظریات کا جمع کرنا ہے جو ہر دور میں کفار کرتے آرہے ہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ کفار کو اس بے عقلی سے نکالنے میں مسمانوں کو کیا کردار ادا کرنا چاہئے؟

جواب:

اللہ جل شانہٗ نے خود ہی قرآن میں فرمایا ہے:

﴿كَلَّا بَلْ تُحِبُّوْنَ الْعَاجِلَةَ ۝ وَتَذَرُوْنَ الْاٰخِرَةَ﴾ (القیامۃ: 20-21)

ترجمہ:1 ’’خبردار (اے کافرو) اصل بات یہ ہے کہ تم فوری طور پر حاصل ہونے والی چیز (یعنی دنیا) سے محبت کرتے ہو۔ اور آخرت کو نظر انداز کرتے ہو‘‘۔


یعنی کفار دنیا کی زندگی میں اتنے گم ہیں کہ وہ ہمارے دین کے بھی دنیاوی فوائد حاصل کرتے ہیں اور دنیاوی فائدے بالکل نہیں چھوڑتے۔ لیکن وہ ان دنیاوی فائدوں کے لئے آخرت کے فائدوں کو چھوڑ دیتے ہیں اور آخرت کے فائدوں کے لئے دنیا کے فائدے نہیں چھوڑتے۔ چونکہ ایمان کا تعلق آخرت کے ساتھ ہے، اس وجہ سے وہ اس کی طرف نہیں آتے یا اگر آنا بھی چاہتے ہیں تو دیر کرتے ہیں اور بس سوچتے رہتے ہیں یعنی اسی طرح لٹکے رہتے ہیں اور دوسری طرف یہ جو مسلمان ہیں ان میں سے جو نیک لوگ ہیں وہ تو ہیں، لیکن جو برے لوگ ہیں وہ بھی اپنی برائی اسی وجہ سے کرتے ہیں کہ ان کو جو فوری چیز دنیا میں نظر آتی ہے وہ اس کو چھوڑ نہیں سکتے اور بعض لوگ چھوڑنے کا ارادہ تو کرتے ہیں، لیکن بس وہ ارادہ ارادہ ہی رہتا ہے، وہ تمنا ہی رہتی ہے لیکن عمل میں نہیں آتا۔ اور وہ اسی طرح سے دنیا سے چلے جاتے ہیں۔ لیکن صحبتِ صالحین اس کا توڑ ہے کیونکہ صحبتِ صالحین سے انسان کو وہ فائدہ ہوتا ہے کہ وہ پھر دوسروں کو دیکھتا ہے کہ یہ کس طریقے سے دین پر عمل کرتے ہیں اور اس کے ساتھ کیا کیا معاملہ ہورہا ہے؟ پھر ان کی برکات کا اس کے قلب پر اثر ہوتا ہے۔ لہٰذا ایک تو یہ بات ہے کہ صحبتِ صالحین مہیا ہو اور ان کے پاس اسے لایا جائے اور دوسری بات یہ ہے کہ ترغیب کا جو سلسلہ چلتا رہتا ہے، جیسے تبلیغی جماعت والے کرتے ہیں۔ لہٰذا ’’امر بالمعروف و نہی عن المنکر‘‘ وہ جاری رکھنا چاہئے، پھر جس جس کو بھی سمجھ آئے گی اس کو اللہ پاک اس سے نکالے گا اور حق کی طرف لائے گا اور جو نہیں آتے تو وہ اپنے قول و عمل کے ذمہ دار ہیں۔ اللہ جل شانہٗ ہم سب کی حفاظت فرمائے۔


وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ


  1. ۔ (آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب)

    تمام آیات کا ترجمہ آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم سے لیا گیا ہے۔