علی الاعلان گناہ کرنے والے کے ساتھ برتاؤ کا طریقہ

سوال نمبر 1597

مطالعۂ سیرت بصورتِ سوال
خانقاہ دارالاحسان - برمنگھم

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال:

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ’’رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کہ تم سے پہلی امتوں میں جب کوئی خطا کرتا تو روکنے والا اس کو دھمکاتا اور کہتا کہ خدا سے ڈر۔ پھر اگلے ہی دن اس کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا، کھاتا پیتا گویا کہ کل اُس کو گناہ کرتے ہوئے دیکھا ہی نہیں۔ جب حق تعالیٰ شانہٗ نے ان کا یہ برتاؤ دیکھا تو بعض کے قلوب کو بعض کے ساتھ خلط کردیا اور ان کے نبی داؤد اور عیسیٰ بن مریم علیہم السلام کی زبانی ان پر لعنت کی اور یہ اس لئے کہ انہوں نے خدا کی نافرمانی کی اور حد سے تجاوز کیا۔ قسم ہے اس ذات پاک کی جس کے قبضہ میں محمد ﷺ کی جان ہے، تم ضرور اچھی باتوں کا حکم کرو اور بری باتوں سے منع کرو اور چاہئے کہ بیوقوف اور نادان کا ہاتھ پکڑو اور اس کو حق بات پر مجبور کرو، ورنہ حق تعالیٰ تمہارے قلوب کو بھی خلط ملط کردیں گے اور پھر تم پر بھی لعنت ہوگی جیسا کہ پہلی امتوں پر لعنت ہوئی ہے‘‘۔ (سننِ ابی داؤد: 4336)

اس روایت میں آپ ﷺ نے انتہائی بلیغ انداز میں نہی عن المنکر کی اہمیت بیان فرمائی ہے۔ آج کل ہمارا طرز بھی یہی ہے کہ علی الاعلان گناہ کرنے والے کو منع تو کرتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ تعلق کو منقطع نہیں کرتے۔ بعض حضرات گناہگار کے ساتھ تعلق برقرار رکھنے کو مصلحت قرار دیتے ہیں۔ لیکن اس حدیث شریف کی روشنی میں علی الاعلان گناہ کرنے والے کے ساتھ کس طرح کا برتاؤ کرنا چاہئے؟ کیا اس میں عوام اور خواص کا طرزِ عمل ایک ہی ہوگا یا اس میں فرق ہوگا؟

جواب:

واقعتاً یہ سوال بہت اہم ہے، کیونکہ عموماً لوگ امر بالمعروف کرتے ہیں لیکن نہی عن المنکر نہیں کرتے اور نہی عن المنکر کو اپنے طور پر لازم نہیں سمجھتے۔ اور یہ سمجھتے ہیں کہ یہ کام تو علماء کا ہے۔ جبکہ تین باتیں حدیثِ پاک میں بیان فرمائی گئی ہیں۔ فرمایا: ’’اگر تم کسی کو کوئی غلط کام کرتے دیکھو تو ہاتھ سے روکو، ہاتھ سے نہیں روک سکتے تو زبان سے روکو، ورنہ دل میں اس کو برا سمجھو اور یہ ایمان کا سب سے کمزور درجہ ہے‘‘۔ (مسلم شریف: 177) لیکن ہاتھ سے روکنا یہ تو حکام کا کام ہے کیونکہ دوسری صورت میں فتنہ ہے اور زبان سے روکنا علماء کا کام ہے، کیونکہ یہ ان کو طریقے سے روک سکتے ہیں، لیکن دل سے برا سمجھنا ہر ایک کا کام ہے اور یہ ہر ایک کرسکتا ہے۔ اب اکثر لوگ اگر دنیاوی مصلحت کی وجہ سے ان کے ساتھ یہ برتاؤ کرتے ہیں کہ ان کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے ہیں تو یہ لعنت کی بات ہے۔ کیونکہ حدیث شریف واضح ہے۔ البتہ اگر دنیاوی مصلحت کے لئے نہیں بلکہ دینی مصلحت کے لئے یہ کرتے ہیں، مثلاً اُس کے لئے طریقہ اِس طرح کا اپنا رہے ہوں کہ اس کو آہستہ آہستہ دین کی طرف لا رہے ہوں، تو پھر یہ ٹھیک ہے۔ اور اگر ایسا نہیں ہے تو پھر معاملہ خراب ہے۔ لہٰذا کوشش کرنی چاہئے کہ ایسے لوگوں کے ساتھ اگر تعلق بالکل ختم نہیں کرسکتے تو بادلِ نخواستہ تھوڑا بہت جو ہوسکتا ہے وہ تو ٹھیک ہے، لیکن دل والا تعلق کم از کم ان کے ساتھ نہیں ہونا چاہئے۔ یا پھر ان کے متعلق پراُمید ہوں تو پھر بات بنتی ہے ورنہ بات خراب ہے۔ اور جہاں تک خواص کا تعلق ہے، تو خواص کے لئے تو (جیسے میں نے عرض کیا کہ) زبان سے روکنے والی بات ہے، کیونکہ وہ مقتدیٰ ہیں، وہ بھی اگر ان کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا شروع کردیں تو پھر لوگ بھی کہیں گے یہ بات غلط نہیں ہے۔ اللہ جل شانہٗ ہم سب کو صحیح سمجھ عطا فرما دے۔

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ