اسلام کو عملی صورت میں پیش کرنے کے لئے ابتدائی اقدامات

سوال نمبر 1596

مطالعۂ سیرت بصورتِ سوال
خانقاہ دارالاحسان - برمنگھم

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال:

نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ قریب ہے کہ ایسا زمانہ آ جائے کہ اسلام کا صرف نام ہی باقی رہ جائے گا اور قرآن کے صرف نقوش ہی رہ جائیں گے۔ (مشکوٰۃ شریف: 276) آپ ﷺ نے اس حدیث شریف میں جس زمانہ کی اطلاع دی ہے، اس زمانہ میں اسلام عملی طور پر نظر نہیں آئے گا۔ جب ہم اپنے گرد و پیش کو دیکھتے ہیں تو وہ زمانہ ہمیں بہت قریب نظر آرہا ہے۔ ایسی صورت میں ایک عام مسلمان اسلام کو عملی حالت میں پیش کرنے کے لئے ابتدائی طور پر کیا اقدامات کر سکتا ہے؟

جواب:

طریقہ وہی پرانا ہے، طریقہ تبدیل نہیں ہوتا۔ نفس بنیاد ہے، اخیر میں بھی نفس ہی کے ذریعے سے نظام بگڑ رہا ہے اور پہلے بھی یہی ہوتا تھا۔ البتہ فرق یہ ہے کہ جیسے پاکستان میں اور انڈیا میں یا کسی دوسری جگہ جہاں پر بے حیائی اتنی عام نہیں ہے یا بے حیائی کی قانونی طور پر اجازت نہیں ہے، وہاں پر اگر لوگ بے حیائی کرنا بھی چاہتے ہیں، تو ان کے لئے قانونی رکاوٹیں موجود ہیں یا پھر اخلاقی رکاوٹیں ہیں کہ ایسے لوگ لوگوں کی نظروں میں آجاتے ہیں، ان رکاوٹوں کی وجہ سے وہ لوگ رکے رہتے ہیں۔ لیکن یہاں پر یعنی انگلید میں وہ پابندیاں نہیں ہیں، بلکہ support ہے، لہذا یہاں پر اگر کوئی آدمی آجائے اور اس کے اندر یہ کمزوریاں ہوں، تو وہ بہت جلدی بگڑ جائے گا، کیونکہ اس کو support ہے، کوئی بھی اس کا کچھ نہیں کرسکتا۔ اور اس کی طرح کے بہت سارے لوگ بھی موجود ہیں، لہٰذا اگر وہ خراب ہونا چاہے تو بہت جلدی خراب ہوسکتا ہے۔ لیکن اگر اخلاقی یا قانونی رکاوٹیں ہوں تو اس صورت میں اس کے خراب ہونے پہ کم از کم ٹائم لگے گا۔ یورپ، امریکہ وغیرہ ملکوں میں جو بے حیائی بڑھ رہی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ان ملکوں میں ہر اس چیز کو توڑا جا رہا ہے جس میں شرعی طور پر کچھ خوبی ہو اور ہر اس چیز کو لایا جا رہا ہے جس میں نقصان ہو۔ پوری پلاننگ کے ساتھ ایسا ہو رہا ہے، جس کے نتیجے میں بگاڑ آرہا ہے اور خراب لوگوں کے لئے بگاڑ کا راستہ بنتا جارہا ہے۔ پھر یہاں کا اثر ہمارے ملکوں پر بھی ہو رہا ہے، ہمارے ملکوں میں بھی ایسے لوگ پیدا ہو رہے ہیں جو زنا کو جائز قرار دے رہے ہیں، موسیقی کو جائز قرار دے رہے ہیں۔ ایسے لوگ قرآن اور حدیث سے ایسی باتیں کرتے ہیں، کیوں کہ وہ اس کے لئے باقاعدہ planted ہیں اور وہ اپنا کام کرتے ہیں۔ پس آہستہ آہستہ بگاڑ آرہا ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ یہاں سے نسبتاً تھوڑا ہے، لیکن ہے تو سہی۔ جب اس طریقے سے جتنا جتنا بگاڑ بڑھتا جائے گا، تو لوگوں سے حقیقی اسلام اٹھتا جائے گا۔ ایسی صورت میں اپنی حفاظت کے لئے راستہ یہی ہے کہ اپنے نفس کا علاج کرلیں، کیونکہ جتنی برائی آتی ہے، سب نفس کے ذریعہ سے ہی آتی ہے۔ لہٰذا اگر نفس کا علاج ہوگیا، تو پھر میں کہتا ہوں کہ وہ شخص Mascow یا New York کے اندر یا کسی بھی ایسی جگہ کے اندر جائے گا اللہ تعالیٰ اس کو مزید مضبوط کرے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان جب نفس پر محنت کرچکا ہو، تو پھر جب بگاڑ آتا ہے، تو انسان اس بگاڑ کا مقابلہ کرتا ہے اور مقابلہ مجاہدہ ہے اور مجاہدہ سے مزید ترقی ہوتی ہے۔ لہٰذا وہ بگاڑ اس کے لئے استقامت اور ترقی کا ذریعہ بنتا جاتا ہے۔ کچھ لوگوں کی Critical condition بہت اونچی ہوتی ہے، اس Critical limit سے جب وہ یہاں آ جاتے ہیں تو اور بھی اچھے ہوجاتے ہیں، کیونکہ مقابلہ ہوتا ہے اور مقابلے سے ان کی condition مزید اچھی ہوجاتی ہے۔ اور اگر اس کی value اس critical condition سے کم ہے، تو پھر وہ یہاں آ کر مزید بگڑ جاتا ہے۔ چنانچہ یہاں آ کر مزید ترقی کرنے والے لوگ بھی ہو سکتے ہیں، لیکن ظاہر ہے کہ ایسے لوگ خال خال ہی ہوں گے، لیکن ایسے لوگوں کی اللہ تعالی کے ہاں قیمت بڑھ جائے گی۔ اللہ پاک نے فرمایا:

﴿اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْهِمُ الْمَلٰٓىِٕكَةُ اَلَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّةِ الَّتِیْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ ۝ نَحْنُ اَوْلِیٰٓؤُكُمْ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَةِ وَلَكُمْ فِیْهَا مَا تَشْتَهِیْۤ اَنْفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِیْهَا مَا تَدَّعُوْنَ ۝ نُزُلًا مِّنْ غَفُوْرٍ رَّحِیْمٍ﴾ (حم السجدہ: 30-32)

ترجمہ:1 "جن لوگوں نے کہا ہے کہ ہمارا رب اللہ ہے اور پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے تو ان پر بیشک فرشتے (یہ کہتے ہوئے) اتریں گے کہ: نہ کوئی خوف دل میں لاؤ، نہ کسی بات کا غم کرو، اور اس جنت سے خوش ہوجاؤ جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا"۔

اس آیت میں کرنے کی صرف دو باتوں کا ذکر ہے: اللہ پاک کو رب ماننا اور پھر اس پہ استقامت اختیار کرنا۔ آگے اس کے انعامات ہیں۔ گویا استقامت ایسی چیز ہے، جو انسان کو ہر حالت میں بہتری کی طرف لے جاتی ہے۔ انسان اپنے اندر استقامت کی صلاحیت پیدا کرے اور نفس کی تربیت کر کے اس کے ذریعے سے اپنے رذائل کو دبالے اور فضائل کو انگیخت کرلے، تو پھر جو چیز دوسروں کے لئے خرابی ہوگی، وہ اس کے لئے ان شاء اللہ خیر ہوگی۔ حضرت مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ رذائل اصل میں تقویٰ کے حمام کے خاشاک ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ ان کو جلاؤ تو تقویٰ حاصل ہو جائے گا، یعنی تقویٰ پیدا ہی اسی سے ہوتا ہے۔ مثلًا ایک شخص باہر جائے اور سامنے غیر محرم آ جائے، تو دو باتیں ہوسکتی ہیں کہ یا تو اس کو دیکھے گا یا ڈر کی وجہ سے نہیں دیکھے گا۔ اگر دیکھے گا تو فجور ہے اور اگر نہیں دیکھے گا تو تقویٰ ہے۔ اور تقویٰ بھی ایسا ہے کہ اگر کوئی شخص غیر محرم سے اللہ کے ڈر کی وجہ سے نظر ہٹا لے، تو اللہ پاک فرماتے ہیں کہ میں اس کو ایسی عبادت کی توفیق دوں گا کہ جس سے وہ ایمان کی حلاوت کو محسوس کرے گا۔ پس یہاں پر یہ چیز بہت اہم ہے کہ انسان اپنی نظروں کی حفاظت کرے اور پھر ماشاء اللہ سیڑھیوں پہ چڑھتا جائے۔ لہٰذا مایوس کبھی نہیں ہونا چاہئے۔ قرآن میں ہے:

﴿لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ اِنَّ اللّٰهَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا﴾ (الزمر: 53)

ترجمہ: "اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔ یقین جانو اللہ سارے کے سارے گناہ معاف کردیتا ہے"۔

پس مایوس کبھی بھی نہیں ہونا چاہئے، لیکن بے خوف بھی نہیں ہونا چاہئے۔ بے خوفی یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو سمجھے کہ میں اتنا پھنے خاں ہوں، میں یہ کرسکتا ہوں اور میں وہ کرسکتا ہوں۔ یہ اپنے اوپر نظر چلی گئی، لہٰذا اس کی وجہ سے بھی کام خراب ہوگیا۔ نظر اللہ پر ہو اور استقامت بھی ہو، تو پھر اللہ پاک طریقے عطا فرماتے ہیں۔ اس وقت طریقہ بالکل وہی ہے، طریقہ تبدیل نہیں ہوا۔ جب ہمیں ﴿كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ﴾ (التوبہ: 119) کا حکم ہے، تو صادقین پیدا بھی ہوں گے، اللہ تعالیٰ ان کو پیدا کرے گا، کیوں کہ ہمیں ان کے ساتھ ہونے کا حکم ہے۔ باقی! اپنے نفس کی اصلاح کا اللہ پاک نے خود حکم فرمایا ہے:

﴿قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا ۝ وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَا﴾ (الشمس: 9-10)

ترجمہ: "فلاح اسے ملے گی جو اس نفس کو پاکیزہ بنائے۔ اور نامراد وہ ہوگا جو اس کو (گناہ میں) دھنسا دے"۔

جب قرآن اخیر زمانے تک پڑھا جائے گا اور اس کے اندر یہ حکم موجود ہے، تو یہ چیزیں بھی موجود رہیں گی، لہٰذا ہمیں یہ فکر نہیں کرنی چاہئے کہ یہ چیزیں ختم ہو جائیں گی، ایسا نہیں ہوگا۔ قرآن کے نقوش جب رہیں گے، تو یہ چیزیں بھی رہیں گی۔ صرف یہ ہے کہ عمل نہیں ہورہا، لیکن جو شخص عمل کررہا ہے، تو اس کے لئے تو قرآن ہدایت ہے۔

﴿هُدًى لِّلْمُتَّقِیْنَ﴾ (البقرہ: 2)

ترجمہ: "یہ ہدایت ہے ڈر رکھنے والوں کے لئے"۔

جب متقین نہیں ہوں گے، تو قرآن ہدایت نہیں ہوگا، لیکن جب متقین ہوں گے اور تقویٰ اختیار کریں گے، تو یہی قرآن ان کے لئے آخری وقت تک ہدایت ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو بھی نصیب فرمائے۔

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ


  1. ۔ (آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب)

    تمام آیات کا ترجمہ آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم سے لیا گیا ہے۔