دلوں کی صفائی کرنے والا ذکر کونسا ہے

سوال نمبر 1587

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
ڈارنلے مصلیٰ مسجد - 70 وڈ ہیڈ روڈ، گلاسکو، G53 ، 7NN، یو کے

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ ال

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال:

ایک حدیث شریف میں آپ ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ ہر چیز کے لئے کوئی صاف کرنے والی اور میل کچیل دور کرنے والی چیز ہوتی ہے تو دلوں کی صفائی کرنے والی چیز اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے۔

”وَعَنْ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ عُمَرَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ: «لِكُلِّ شَيْءٍ صِقَالَةٌ وَصِقَالَةُ الْقُلُوبِ ذِكْرُ اللّٰهِ وَمَا مِنْ شَيْءٍ أَنْجَى مِنْ عَذَابِ اللّٰهِ مِنْ ذِكْرِ اللَّهِ» قَالُوا: وَلَا الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللّٰهِ؟ قَالَ: «وَلَا أَنْ يَضْرِبَ بِسَيْفِهٖ حَتّٰى يَنْقَطِعَ“۔ (مشکاۃ المصابیح: 2286)

ترجمہ: ”عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فرمایا کرتے تھے: ہر چیز کے لئے ایک صفائی کرنے والی چیز ہوتی ہے، جبکہ دلوں کی صفائی کرنے والی چیز اللہ کا ذکر ہے، اور اللہ کے ذکر سے بڑھ کر، اللہ کے عذاب سے بچانے والی کوئی چیز نہیں۔ صحابہ نے عرض کیا، اللہ کی راہ میں جہاد کرنا بھی نہیں؟ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نہیں، اگرچہ وہ اپنی تلوار اس قدر چلائے کہ وہ ٹوٹ جائے“۔

اس حدیث شریف میں دلوں کی صفائی اللہ تعالیٰ کے ذکر کو فرمایا گیا ہے۔ کیا اس سے مراد قلبی ذکر ہے یا کوئی اور بھی ذکر ہوسکتا ہے؟

جواب:

یہاں اس چیز کو دیکھنا چاہئے کہ صفائی سے کیا مراد ہے؟ تو صفائی اور میل کچیل دور کرنے سے مراد یہ ہے کہ، جو انسان کی دنیا سے محبت ہے، جس کی وجہ سے انسان کا دل دنیا میں مبتلا ہوجاتا ہے، اس کو دل سے نکالا جائے کیونکہ دنیا تو گند ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خواب میں اگر کوئی پاخانہ دیکھے تو اس کی تعبیر دنیا ہوتی ہے۔ چنانچہ دنیا تو گند ہے، لہٰذا اس کو دور کرنے کے لئے ذکر کیا جاتا ہے۔ لیکن ذکر میں یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ کون سا ذکر ہو، کیونکہ وہ ذکر علاجی ہوگا جس کے بارے میں فرمایا گیا ہے، کیونکہ ذکر ثوابی اور ہے۔ ایک دفعہ ہم رائیونڈ میں تھے، وقت لگا رہے تھے، وہاں مولانا مصطفیٰ صاحب رحمۃ اللہ علیہ ہوا کرتے تھے بہت پرانے بزرگوں میں تھے، وہ اکثر ہدایات بھی دیا کرتے تھے اور کارگزاری بھی سنتے تھے۔ تو ایک دفعہ ہدایات دے رہے تھے ہدایات میں فرمایا کہ بزرگو اور دوستو! ہم بھی ذکر بتاتے ہیں اور مشائخ بھی ذکر بتاتے ہیں، دونوں کرنے چاہئیں۔ اور پھر فرمایا اگر وقت کم ہو جائے یعنی تھوڑا رہ جائے اور صرف ایک ذکر کرسکو تو ہمارے والا ذکر مؤخر کر لو، مشائخ والا ذکر ضرور کرو، کیونکہ مشائخ کا دیا ہوا ذکر علاج ہے یعنی دوا ہے اور جو ہمارا دیا ہوا ذکر ہے یہ غذا ہے اور اگر کوئی وقت ایسا آجائے کہ غذا اور دوا میں مقابلہ ہو جائے تو دوا کو فوقیت حاصل ہوتی ہے اور ساتھ یہ بھی فرمایا کہ ترجمہ نہیں ہونا چاہئے۔ کیونکہ عرب حضرات بھی بیٹھے تھے اس لئے فرمایا کہ ترجمہ نہیں ہونا چاہئے۔ گویا حضرت نے بالکل واضح طور پہ فرمایا کہ جو مشائخ کا دیا ہوا ذکر ہے وہ علاج ہے۔ تو علاج والا ذکر چونکہ علاج کے مقصد کے لئے کیا جاتا ہے۔ اس لیے اس میں پھر علاج کی چیزوں کو مدنظر رکھا جائے۔

کیونکہ علاج صرف ایک ذریعہ ہے مقصد نہیں ہے، مقصد تو صحت ہے، تو نتیجہ یہ نکلا کہ مقصد صحت ہے اور علاج اس کا ذریعہ ہے، کیونکہ ذریعے پر پابندی نہیں ہوتی، بلکہ وہ مسلسل تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ مثلاً آج سے پانچ سو سال پہلے کی دوائی آج کل کام نہیں کرتی، اس لئے کہ لوگ بدل گئے، حالات بدل گئے، زمانہ بدل گیا، وقت بدل گیا، لوگوں کی صلاحیتیں بدل گئیں، وہ لوگ جو کچھ کرسکتے تھے، اب ہم نہیں کرسکتے، وہ سب چیزیں بدل گئیں۔ لہٰذا اب وہ چیزیں نہیں ہوسکتیں۔ مثلاً پہلے وہ لوگ جلاب دیا کرتے تھے، مگر اب نہیں دے سکتے۔ بہت ساری چیزوں کا علاج جلاب سے کرتے تھے، اب تو جلاب کے ساتھ ہی طبیعت خراب ہوجائے گی۔ کیونکہ وہ چیزیں بدل گئی ہیں۔ تو اس طریقے سے علاج بدلا کرتے ہیں، ایک جیسے نہیں ہوتے، مختلف اوقات میں مختلف لوگوں کے لئے مختلف علاج ہوتے ہیں۔ اس لئے ڈاکٹر حضرات بھی اور حکیم حضرات بھی کہتے ہیں کہ اگر کسی کو کسی چیز سے شفا ہوچکی ہو تو وہ دوسروں کو نہ بتائے کہ مجھے اس سے شفا ہوگئی، تم بھی استعمال کرلو۔ کیونکہ عین ممکن ہے کہ تمھارے لئے دوائی ہو، مگر اس کے لئے زہر بن جائے۔ کیونکہ اس طرح ہونا ممکن ہے۔ مثلاً ایک دفعہ ایسا ہوا تھا کہ میں D-Watson پر گیا جو کہ دوائیوں کی ایک مشہور دکان ہے، میں دوائی لینے کے لئے کھڑا تھا، وہاں ایک آدمی آیا، اس نے کہا کہ مجھے کھانسی کی دوا دو، اس نے کھانسی کا ایک شربت اٹھا کر دے دیا، میں نے اس شخص کا ہاتھ پکڑا اور اس سے کہا کہ میں ڈاکٹر نہیں ہوں، لیکن میں نے ڈاکٹروں سے سنا ہے کہ تین قسم کی کھانسیاں ہیں، جو ایک دوسرے سے مختلف ہیں، ایک کا علاج دوسرے کے لئے بیماری ہے، مثلاً ایک expectorant ہوتا ہے ایک suppresent ہوتا ہے، ایک cardic کا ہوتا ہے، کیونکہ اس کی الگ دوائی ہوتی ہے۔ تو میں نے دکان دار سے کہا کہ آپ کو کیا پتا کہ اس کو کون سی کھانسی ہے؟ آپ نے اسے دیکھا ہے؟ تو وہ فوراً سمجھ گیا، اس نے دوائی واپس لے لی اور پیسے واپس دیئے اور کہا کہ جاؤ ڈاکٹر سے لکھوا کے لے آؤ۔ اصل بات یہی ہے کہ عوام کو جو بھی کوئی بیماری ہوتی ہے عوام بالکل پروا نہیں کرتی، ان کو کیا پتا ہوتا ہے ان چیزوں کا، وہ سمجھتے ہیں کہ ساری چیزیں ایک جیسی ہیں۔ حالانکہ ساری چیزیں ایک جیسی نہیں ہوتیں، ہر چیز کا باقاعدہ اپنا حساب ہوتا ہے۔ اسی طرح یہاں پر بھی جو ذکر علاجی ہے وہ ہر ایک کے لئے مختلف ہوسکتا ہے۔ جب میں بھی اپنے شیخ سے بیعت ہوا تھا تو مجھے میرے شیخ نے تین تسبیحات کا ذکر دیا تھا اور پھر میں نے اپنے کچھ اپنے احوال بتائے، تو فوراً حضرت نے روک دیا، پھر میرا ذکر نہیں بڑھاتے تھے، سب لوگوں کو ذکر دیتے تھے، بلکہ جو لوگ میرے ہاتھ سے حضرت سے بیعت ہوتے تھے، ان کو ذکر زیادہ دیتے اور مجھے ذکر نہیں دیتے تھے۔

میں جب حضرت سے پوچھتا کہ ذکر بڑھا دیں؟ وہ کہتے "تیرے پاس ٹائم ہے؟" بس بات ختم ہوجاتی، پھر میں کیا کرسکتا تھا۔ تو بہت عرصہ کے بعد ایک تسبیح بڑھا دی، چار تسبیحات کردیں، پھر بس اسی پہ رک گئے، پھر اللہ پاک کی شان کہ ایک دن مجھے فرمانے لگے، جونسا ذکر کرنا چاہو کرسکتے ہو، حالانکہ مجھے دیکھ بھی نہیں رہے تھے، کسی اور کی طرف دیکھ رہے تھے، بس وہ مکمل فرما دیا اور پھر کبھی کبھی میں کسی مراقبہ کا بتاتا کہ حضرت اب تو یہ ہو رہا ہے، فرماتے: اچھا یہ فلاں مراقبہ ہے، چلو اس کو ثواب کی نیت سے کرلیا کرو۔تو میرا طریقہ لوگوں سے الگ تھا، اب اگر میں اپنا طریقہ بتا دوں کہ یہ طریقہ ہے، تو کیا اس سے ان کو فائدہ ہوگا؟ نہیں ہوگا، یہ تو ہر ایک کا اپنا اپنا طریقہ ہے، ہر ایک کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو مختلف بنایا ہے، اس وجہ سےجو علاج والا ذکر ہے یہ بالکل مختلف ہے، اس کو کتابوں سے دیکھ کر نہ کیا جائے، ثوابی ذکر تو بالکل کتابوں سے کرنا چاہئے، کیونکہ اس کی فضیلت کتاب میں بتائی گئی ہوتی ہے، اس وجہ سے اس کو تو کتاب سے دیکھ کر کرنا چاہئے، اپنی طرف سے نہیں کرنا چاہئے، لیکن جو علاج والا ذکر ہے، وہ کتاب سے نہیں کرنا چاہئے، بلکہ وہ باقاعدہ کسی معالج سے پوچھ کر کرنا چاہئے، اور اگر روک دے تو بالکل رکنا چاہئے۔

جب حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس ایک شخص آئے، انہوں نے کہا کہ حضرت مجھے تو کچھ روشنیاں بھی نظر آتی ہیں، کچھ آوازیں بھی سنائی دیتی ہیں، بڑی مزیدار آوازیں ہیں حضرت نے فرمایا اچھا! اس طرح کر لو کہ ذکر روک دو، اور تفریح وغیرہ کرلیا کرو، دودھ وغیرہ پی لیا کرو، تھوڑا سا آرام کرلیا کرو، سو لیا کرو۔ تو ان کو خیال آیا کہ حضرت کو میرے ساتھ حسد ہوگیا، دیکھو میں بزرگ بن رہا ہوں، اور حضرت روک رہے ہیں۔ یہ بیوقوفی ہوتی ہے، اس نے حضرت کی بات نہیں مانی۔ تو وہ ایک ہفتہ بعد پاگل ہوگیا، حضرت کو جب اطلاع ہوگئی، تو حضرت نے فرمایا :او ہو! میں نے تو روکا تھا، کاش وہ سمجھ جاتا، کیوںکہ میں نے دیکھ لیا کہ دماغ کی خشکی کی وجہ سے اس کے اوپر جنون کے آثار شروع ہونے والے ہیں، تو میں نے فوراً روک دیا، کہ نہ کیا کریں۔ اس وجہ سے مشائخ جتنے بھی ہوتے ہیں، وہ اپنے فن کو جانتے ہیں، اور اسی لئے وہ بعض دفعہ مزید اس طرح کا حکم دیتے ہیں۔یہ عجیب و غریب بات ہے، دراصل یہ اللہ تعالیٰ کی حفاظت ہوتی ہے، ایک دفعہ میں جا رہا تھا، راستہ میں دو ڈرائیور آپس میں باتیں کر رہے ہیں، حلانکہ ڈرائیوروں کا ذکر کے ساتھ کیا تعلق! وہ آپس میں باتیں کررہے ہیں، ایک آدمی ادھر آیا، دوسرے سے کہتا ہے، اگر اترائی میں بریک فیل ہو جائے تو پھر کیا کرو گے؟ تو دوسرا ڈرائیور اس کو کہتا ہے کہ میں gear بدلوں گا، پہلے third gear پھر اس کے بعد second، پھر اس کے بعد first gear، پھر اخیر میں کسی چیز کے ساتھ میں ٹکرا دوں گا، نقصان تو ہوگا، لیکن کم ہوگا۔یہ بات میرے دماغ میں بیٹھ گئی، میں مغلہ آباد کے علاق میں ذکر جہری کراتا تھا، ایک دفعہ ایسا ہوا کہ ایک بڑے میاں تھے غالباً 60-70 سال کے آدمی تھے، اس کو حال طاری ہوگیا، کیونکہ میں نے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ سے سنا تھا کہ جس پہ حال طاری ہو تو اس کا ساتھ دینا چاہئے، اس کو روکنا نہیں چاہئے۔ کیونکہ اس سے بعض دفعہ سخت انقباض ہوجاتا ہے، اس سے موت بھی آسکتی ہے، لہٰذا اس کو فوراً روکنا نہیں چاہئے۔ اب مجھے حضرت کی یہ بات بھی یاد تھی، اور یہ ڈرائیور والی بات بھی یاد تھی۔ تو میں نے ایسا کیا کہ ذکر کا tune change کردیا، وہی ذکر چلاتا رہا، لیکن اس ذکر کا tune change کردیا، پھر اس کے تھوڑی دیر بعد پھر اور tune change کردیا، پھر اس کے تھوڑی دیر بعد اور tune change کردیا، ہوتے ہوتے جب رک گیا تو وہ بھی رک گئے، تو میں نے کہا ''اَلْحَمْدُ لِلّٰہ'' landing ہوگئی۔ چنانچہ اس قسم کی چیزیں ہوتی ہیں۔ لہذا اگر کوئی نہ جانتا ہو تو وہ تو کہے گا بڑا مزہ ہے، ''سُبْحَانَ الله'' اچھل رہا ہے، کود رہا ہے۔حالانکہ بیچارے کا کباڑا ہو جائے گا، آج کل اس قسم کے لوگ ہیں، جو اچھلتے کودتے ہیں، اور لوگ سمجھتے ہیں کہ شاید یہ بزرگ ہیں، بلکہ انہوں نے اس قسم کی باتیں چلائی بھی ہیں، لوگ بعض دفعہ کہتے ہیں کہ پچاس ہزار سال ایک ولی اللہ عبادت کرے تو اس مقام پر جو پہنچ سکتا ہے، ہم لوگ آن کی آن میں پہنچا دیتے ہیں، تو واقعی آن کی آن میں پہنچا تو دیتے ہیں، لیکن کہیں اور پہنچا دیتے ہیں، تو وہ چیزیں نہیں ہیں، یہ بہت ہی غلط بات ہے۔ جو شیخ نہ ہو، اور شیخ بنے، یہ انتہائی غلط بات ہے، یہ بالکل ایسا ہے، جیسے ڈاکٹر نہ ہو، اور ڈاکٹر بنے، جیسے یہ قانونی جرم ہے، اس طرح یہ اخلاقی جرم ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں پوچھا جائے گا کہ کیوں تو نے یہ کام کیا، تو یہ سب چیزوں کے لئے اپنے قوانین ہیں۔ تو یہ جو فرمایا گیا ہے، اصل میں حدیث شریف میں اجمال ہوتا ہے، اور بعد میں تفصیلات اس فن کے ماہرین بتاتے ہیں۔تو یہاں پر اجمال سے ثابت ہوگیا کہ ذکر وہ ہے جو دل کو صاف کرتا ہے، میل کچیل کو دور کرتا ہے۔ لیکن کیسے صاف کرتا ہے، یہ مشائخ بتاتے ہیں، اور مشائخ بھی ایسے ہوتے ہیں، جو قرآن و حدیث کو جانتے ہیں۔ بعض لوگ کہتے ہیں یہ کہاں سے آگیا؟ خدا کے بندو! یہ علماء سے ثابت ہے، جیسے مفتی زین العابدین صاحب رحمۃ اللہ علیہ تھے، حضرت مولانا زکریا صاحب رحمۃ اللہ علیہ، حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ، کیا یہ علماء نہیں تھے؟ کیا ان کو حدیث شریف کا پتا نہیں تھا؟ کیا ان کو قرآن کا پتا نہیں تھا؟ ان سب چیزوں کا پتا تھا، پھر وہ یہ ذکر بالجہر کیوں کراتے تھے، بارہ تسبیح کا ذکر ہے، اور دوسرے اذکار ہیں۔ آخر وہ جانتے تھے کہ کس چیز کا کیا مقام ہے، اور اس کے حساب سے علاج کرتے تھے، آج کل دو کتابیں پڑھ لیں اور کہتے ہیں کہ یہ کیا چیز ہے؟ اور یہ کیا چیز ہے؟ گویا وہ جو بڑے بڑے مجتہدین ہیں، ان کی ساری باتوں کو چھوڑ دیتے ہیں، اور دو کتابیں پڑھنے کے بعد جو ان کو علم حاصل ہوچکا ہوتا ہے اس پر مجتہد بن بیٹھتے ہیں، اور کہتے ہیں فلاں نے غلط کیا۔ ایسا نہیں ہونا چاہئے، ہر چیز کا اپنا ایک معیار ہے، حدیث شریف میں بھی یہ اصول ہے کہ سب حدیثوں کو سامنے رکھنا ہوتا ہے، اگر کوئی آدمی ایک حدیث پر فیصلہ کرے گا، تو کیا نتیجہ ہوگا، کیونکہ احادیث شریفہ کا پورا ذخیرہ ہوتا ہے، اس میں سے پھر یہ دیکھا جاتا ہے کہ کس چیز کا، کس مقصد کے لئے، کس وقت کیا حکم ہے، وہ دیکھا جاتا ہے، بہت ساری تفصیلات ہوتی ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ آج کل ایک عجیب دور آچکا ہے کہ بس کہہ دیتے ہیں کہ یہ ضعیف حدیث ہے، یہ حکم لگا دیتے ہیں اور بس ختم۔ مثلاً ذکر کے بارے میں بات کرو تو کہتے ہیں کہ یہ روایت ضعیف ہے۔ تو ذکر کے بارے میں قرآن پاک کی آیت ہے کیا وہ بھی ضعیف ہے۔ ذکر کے بارے میں قرآن کریم میں ہے:

﴿فَاذْكُرُوْنِیْۤ اَذْكُرْكُمْ وَ اشْكُرُوْا لِیْ وَلَا تَكْفُرُوْنِ﴾ (البقرۃ: 152)

ترجمہ: ’’لہذا تم مجھے یاد کرو، میں تمھیں یاد رکھوں گا اور میرا شکر ادا کرو، اور میری ناشکری نہ کرو‘‘۔

اور بہت ساری آیت مبارکہ ہیں۔ تو کیا وہ سب ضعیف ہیں؟ اور اس طرح صحیح احادیث شریفہ بھی موجود ہیں۔ تو یہ بہت عجیب حالات ہیں، آج کل بغیر کسی علم کے کوئی اس قسم کی بات کرنا بہت خطرناک بات ہے، اللہ جل شانہ ہم سب کی حفاظت فرما دے۔

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ