اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال نمبر 1:
السلام علیکم۔ حضرت! آپ کی حج سے کب واپسی ہوگی؟ اللہ آپ کا حج اپنی بارگاہ میں قبول و منظور فرمائے۔ (آمین) اور ہمیں بھی اپنے نبی حضرت محمد ﷺ اور ابراہیم علیہ السلام اور آپ کے وسیلے سے حج کی سعادت نصیب فرمائے۔ (آمین) اور آپ کو بھی شاہ صاحب۔ (آمین)
جواب:
اَلْحَمْدُ للہ! حج سے واپسی ہوگئی ہے اور آج ہم نے اَلْحَمْدُ للہ! اپنی خانقاہ سے یہ جواب دیا ہے اور آپ کی ساری دعاؤں پر آمین۔
سوال نمبر 2:
حضرت جی! سارے اذکار اس مہینے کے پورے ہوگئے ہیں۔ اذکار یہ ہیں دو، چار، چھ اور چار ہزار اور تمام لطائف پر دس دس منٹ مراقبہ اور مراقبۂ شکر پندرہ منٹ دو ماہ سے جاری ہے۔ اس مراقبہ سے حالت اب ایسی ہے کہ چاہے اچھا حال ہو یا بظاہر برا حال ہو، بہرصورت شکر کرنے کی توفیق ملتی ہے۔ حضرت جی دامت برکاتھم! آگے کچھ حکم فرمائیں۔
جواب:
اسماء الحسنیٰ کا مراقبہ آہستہ آہستہ شروع فرما لیں اور ان میں سب سے پہلے ’’یَا غَفُوْرُ یَا رَحِیْمُ‘‘ کا مراقبہ کرلیں کہ اللہ پاک کی غفوریت اور رحیمیت میرے حال پر اور پوری امت کے حال پر متوجہ ہے۔ بس یہ مراقبہ اب اس کی جگہ شروع فرما لیں۔
سوال نمبر 3:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت جی! اللہ پاک سے آپ کے جملہ متعلقین کی صحت و تندرستی اور بلند درجات کے لئے دعاگو ہوں۔ (آمین) میں اکثر سوچتا ہوں کہ اللہ پاک نے ماشاء اللہ! شاہ صاحب کو بہت علم سے نوازا ہے۔ کچھ دن پہلے خواب دیکھا کہ ایک بڑی سی کتاب ہے، جس کے بڑے بڑے صفحات ہیں اور ان میں موٹے موٹے الفاظ تحریر ہیں، لیکن یہ نہیں معلوم ہوا کہ زبان کون سی ہے، بظاہر عربی اور اردو معلوم ہوتی تھی، کسی نے کہا کہ شاہ صاحب اس میں سے پڑھتے ہیں، تو میں نے بھی ارادہ کیا کہ میں بھی اسی سے پڑھا کروں گا، لیکن پھر میری آنکھ کھل جاتی ہے۔ برائے مہربانی اس بارے میں رہنمائی فرمائیں۔ اللہ پاک آپ کے درجات بلند فرمائے اور آپ کو اجر عظیم عطا فرمائے۔ (آمین)
جواب:
بس اچھا خواب ہے، اللہ تعالیٰ ہم سب کے لئے اس کو اچھا کردے۔
سوال نمبر 4:
سلام تاسو به دَ حج نه واپسی کله کوئ؟
جواب:
الحمد للہ واپسی وشوه اؤ مونږ نن دا جواب تاسو ته دَ خپلې خانقاه نه درکؤ۔
سوال نمبر 5:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ شاہ صاحب! ایک کتاب ہے ’’دلائل الخیرات‘‘ محمد بن سلیمان بن ابوبکر الجزولی کی، اس کے بارے میں کیا حکم ہے، کیا اس کو پڑھنا ٹھیک ہے؟ جزاک اللہ خیراً۔
جواب:
بڑا اچھا سوال آپ نے کیا ہے۔ یہ درود شریف کی کتاب ہے، اَلْحَمْدُ للہ! اور درود شریف مقبول عمل ہے، اس لئے کوئی پڑھنا چاہے تو یہ بہت اچھی کتاب ہے، البتہ ایک بات یاد رکھنی چاہئے کہ جب میں نے اپنے شیخ سے اس کتاب کی اجازت مانگی تھی تو حضرت نے مجھ سے فرمایا کہ کیا درود شریف نہیں پڑھ سکتے؟ میں نے کہا جی پڑھ سکتا ہوں، فرمایا درود شریف پڑھا کریں، یہ بھی درود شریف ہے۔ لہٰذا پتا چلا کہ تھوڑا سا اپنے concept کو درست کرنے ضرورت ہے۔ باقی جو درود شریف آپ ﷺ سے براہ راست منقول ہو، تو یقیناً اس کی فضیلت زیادہ ہے اور پھر جس درود پاک کو نمازوں کے لئے چن لیا گیا ہے یعنی درود ابراہیمی جو کہ چھ کی چھ صحاح ستہ کی کتابوں سے ثابت ہے، اس کی فضیلت یقیناً سب پر ہے اور اس پر بھی ہے۔ دیکھیں! ہر ایک کا اپنا حال ہوتا ہے، جیسے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے حال کے مطابق درود شریف پڑھا، جس کو درود شافعی کہتے ہیں۔ اب یہ ان کے لئے تو یقیناً اس حال اور کیفیت کی وجہ سے بہت اونچا ہے، لیکن امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا درود پاک اور آپ ﷺ سے منقول درود پاک میں سے مجھے کس کو چننا ہے؟ کیونکہ وہ میرا حال تو نہیں ہے، وہ تو امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا حال ہے، اس لئے مجھے دونوں میں سے چننا ہے کہ آپ ﷺ سے منقول درود پاک کو لوں یا امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے درود کو، تو اس کا کیا جواب ہوگا؟ یہی کہ آپ ﷺ سے منقول جو ہے اسے لوں، اس وجہ سے یہ پڑھ لیں اور اس کا میں آپ کو ایک اچھا طریقہ بتاتا ہوں کہ آپ اس طرح کرلیں کہ ہر منزل پر کتنا وقت لگتا ہے، ایک دن پڑھ کر دیکھ لیں، مثلاً اس پر اگر بیس منٹ لگتے ہیں تو روزانہ بیس منٹ درود ابراہیمی پڑھا کریں، اس کا ثواب یقیناً زیادہ ہوگا۔ اللہ جل شانہٗ ہم سب کو عمل کی توفیق دے۔ دراصل حدیث شریف سے لوگ اتنے متأثر نہیں ہوتے، جتنے خواب سے متأثر ہوتے ہیں اور یہ کچا پن ہے، کیونکہ جس چیز کی بشارت حدیث شریف میں دی گئی ہو، یقیناً وہ بہت اعلیٰ ہے، کیونکہ حدیث شریف کی باقاعدہ سند ہوتی ہے اور پھر جو صحیح حدیث شریف ہوتی ہے، تو اس کی بڑی فضیلت ہوتی ہے، جبکہ خواب ایک ظنی چیز ہے، اور قطعی اور ظنی میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ یہ میں اس لئے کہتا ہوں کہ لوگ اصل میں رواج پر چلتے ہیں، سنی سنائی باتوں پر چلتے ہیں، لیکن اَلْحَمْدُ للہ، ثم اَلْحَمْدُ للہ! اللہ پاک نے ہمیں جو مشائخ دیئے ہوئے ہیں، انہیں اللہ تعالیٰ نے بہت عجیب علم عطا فرمایا ہے اور بصیرت عطا فرمائی ہے اور وہی چیز اَلْحَمْدُ للہ! ان کے ذریعہ سے ہم تک پہنچی ہے کہ ہم اصولی باتوں کو لے لیا کریں بس۔ مثلاً میں نے ایک نعت شریف لکھی تھی، جو بڑی اچھی کیفیت والی نعت شریف تھی، وہ میں نے ادھر بھی پڑھی تھی، اس پر میرے شیخ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ہاں یہ اچھی کیفیت ہے، لیکن ثواب جو درود و سلام کا مسنون طریقہ ہے اس پر زیادہ ہے۔ تو یہ چیزیں اگر ہم سیکھ لیں تو ان شاء اللہ! بہت فائدہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو نصیب فرما دے۔
سوال نمبر 6:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ آپ سے اصلاحی تعلق کا خواہاں ہوں۔ پیشہ کے اعتبار سے سول انجینئر ہوں اور پرائیویٹ فرم NESPAK میں بطور جنرل منیجر کام کررہا ہوں۔ رہائش لاہور میں ہے اور دو بچیاں ہیں، بڑی بچی شادی شدہ ہے اور ماشاء اللہ! دو نواسے اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائے ہیں اَلْحَمْدُ للہ! آپ کی app معمولات سالکین سے کچھ نہ کچھ ذکر کا معمول ہے۔ عمر تقریباً 58 سال ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو صحت و عافیت میں رکھے، (آمین) والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
جواب:
ماشاء اللہ! بڑی خوشی ہوئی اور بڑے سادہ طریقہ سے آپ نے ماشاء اللہ! اپنے کوائف بتائے ہیں اور ایسا ہی ہونا چاہئے اور پھر اصلاحی تعلق کا خواہاں ہونا اس پر تو مزید اللہ کا فضل ہے، کیونکہ اپنی اصلاح فرضِ عین ہے اور اس فرضِ عین کی طرف اللہ پاک نے آپ کو متوجہ فرمایا ہے، اس لئے یہ بہت ہی اللہ کا فضل ہے، اور جو جتنا جلدی اس کے ساتھ attach ہوگیا، تو اتنا جلدی فائدہ ہونا شروع ہوجاتا ہے، یہ میں نہیں کہتا کہ مجھ سے ہی بیعت ہوجائیں، بلکہ کسی بھی مستند شیخ سے آپ کو مناسبت ہو تو اس سے ضرور بیعت ہوجائیں اور کام شروع کرلیں، البتہ یہ بات ضرور ہے کہ آپ نے چونکہ اصلاحی تعلق کا فرمایا ہے تو میں آپ کو ابتدائی وظیفہ دے دیتا ہوں، بعد میں اگر آپ کو مناسبت محسوس ہو تو آپ مجھ سے بھی بیعت کرسکتے ہیں، ورنہ جس سے بھی آپ کو مناسبت ہو، اس سے بیعت کرسکتے ہیں۔ ابھی آپ تین سو دفعہ ’’سُبْحَانَ اللهِ، وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ، وَلَآ إِلٰهَ إِلَّا اللهُ، وَاللهُ أَكْبَرُ‘‘ اور دو سو دفعہ ’’لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيْمِ‘‘ بلاناغہ ایک وقت اس کے لئے منتخب کرکے اسی وقت پر چالیس دن تک کرتے رہیں اور بلاناغہ کریں، اگر ناغہ ہوگیا تو پھر دوبارہ کرنا پڑتا ہے، کیونکہ اس سے انسان کے معمولات کی بہت پختگی بنتی ہے، جو کہ ماشاء اللہ! ترقی میں بہترین ذریعہ ہے۔ لہٰذا اس وظیفہ پر اگر آپ ماشاء اللہ! مستقل مزاجی سے کام کرنا شروع کرلیں تو ان شاء اللہ! اس سے آپ کو بڑا فائدہ ہوگا۔ دوسرا آپ ہر نماز کے بعد تینتیس بار ’’سُبْحَانَ اللهِ‘‘، تینتیس بار ’’اَلْحَمْدُ للهِ، چونتیس بار ’’اَللهُ أَكْبَرُ‘‘ یعنی تسبیحات فاطمی اور تین دفعہ کلمہ طیبہ، تین دفعہ درود ابراہیمی، تین دفعہ استغفار اور ایک مرتبہ آیت الکرسی پڑھیں۔ ماشاء اللہ! یہ بڑا زبردست combination ہے کہ کلمہ طیبہ کے تکرار سے تجدید ایمان، درود پاک سے آپ پر اللہ پاک کی رحمت کا نزول اور استغفار سے گناہوں کی معافی اور آیت الکرسی سے ماشاء اللہ! اپنی حفاظت ہوتی ہے، لہٰذا یہ ساری چیزیں اس مختصر وظیفہ میں جمع ہیں، اس لئے آپ یہ شروع فرما لیں اور اپنے بارے میں رابطہ رکھیں، اپنے احوال و کیفیات اسی طرح بتایا کریں، جس طرح آپ نے یہ لکھا ہے، اللہ جل شانہٗ ہم سب کو بہترین راستے پر قائم رکھے۔
سوال نمبر 7:
کچھ دن سے ’’ھُوْ‘‘ کا ذکر شروع ہوجاتا ہے یا ایسا ہوتا ہے کہ ’’ھُوْ‘‘ کہہ کر بدن سے سستی اور کاہلی کو جھٹک دیتا ہوں اور ’’ھُوْ‘‘ کہہ کر energy اور حدت میں آتا ہوں یا ’’ھُوْ‘‘ کہہ کر ذہن اللہ کی طرف آجاتا ہے۔ اور یہ چند دن پہلے لیٹے لیٹے شروع ہوا تھا اور اب کبھی کبھی بیٹھے بیٹھے ہوجاتا ہے۔ اس کے بارے میں ہدایت فرما دیجئے۔ نیز اس سے related یہ ہے کہ اللہ کی طرف عود کرانے کے لئے ایک دم سے کبھی ’’اَللہ‘‘ کہہ دیتا ہوں اور کبھی قلب میں محبت اور شدت لے آتا ہوں اور کبھی یہ ہوجاتا ہے کہ یہ نفسانیت، بدنیت، سستی اور غفلت کے مقابلہ میں اللہ کی طرف آنا ہے، اس کا بھی بتا دیجئے۔
جواب:
ماشاء اللہ! یہ بہت اچھی چیزیں ہیں اور یہ سب ہمارے بزرگوں کے اذکار ہیں، جو وہ کرتے ہیں، چاہے ’’ھُوْ‘‘ کا ذکر ہے، چاہے ’’اَللہ‘‘ کا ذکر ہے، لیکن ایک بات یاد رکھنی چاہئے کہ یہ اذکار علاجی اذکار ہیں اور علاجی اذکار معالج کے مشورہ سے کرنا ضروری ہوتے ہیں، اس لئے خود بخود کسی چیز کو شروع کرنا، اس کو اچھا نہیں سمجھا جاتا یعنی جب تک انسان راستے میں ہو۔ باقی اس میں کوئی غلطی کی بات نہیں ہے، لیکن آپ دیکھیں! کہ اگر کوئی کہہ دے کہ میں روزانہ آملہ کھاتا ہوں تو کوئی بھی حکیم اس کو غلط نہیں کہے گا، مگر اس وقت آپ کے لئے کون سی چیز زیادہ بہتر ہے؟ یہ دیکھنا ہے، کیونکہ یہ آملے کی خلاف بات نہیں ہے، لیکن جو آپ کے لئے مناسب ہے، وہ کیا ہے؟ مثلاً ایک ذکر ایسا ہے جس سے آپ کو lift ملتی ہے یعنی آپ بسط کی کیفیت میں آتے ہیں، مگر کتنا بسط آپ برداشت کرسکتے ہیں؟ کوئی اندازہ ہے؟ ہمارے حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے ایک شخص نے پوچھا کہ حضرت! میں باہر ملک جا رہا ہوں، تو کیا میں ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کرلیا کروں؟ حضرت نے فرمایا اچھا! کرلیا کرو، مگر جب وہ باہر چلا گیا، تو تھوڑی دیر کے بعد حضرت نے فرمایا کہ بھائی! اس کو دوبارہ لے آؤ، آدمی دوڑ کے چلا گیا اور اس کو دوبارہ لے آیا تو فرمایا: بھائی! درود شریف پڑھا کرو۔ پھر جب وہ چلا گیا تو فرمایا: بھئی! ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ اپنی مرضی سے جب کوئی کرتا ہے تو بعض دفعہ آدمی دیوانہ ہوجاتا ہے۔ اس لئے آپ کی صحت کے پیش نظر مجھے ذرا تھوڑا سا خیال رہتا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ کوئی میرے گلے ڈال دے کہ دیکھو! شاہ صاحب نے اس کو روکا نہیں۔ اور آپ کو اپنے خاندان کا پتا ہے کہ وہ کیسے ہیں، اس لئے مجھے بھی ڈر لگتا ہے کہ اگر میں منع نہ کروں تو پھر بھی مسئلہ اور اگر منع کروں تو پھر بھی مسئلہ ہے، لہٰذا آپ میری اس کے بارے میں رہنمائی فرمائیں کہ میں کیا کروں؟
سوال نمبر 8:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت جی! جہلم سے فلاں عرض کررہا ہوں، بارہ تسبیحات ذکر جہری کے ساتھ پانچ منٹ ہر لطیفے پر مراقبہ کررہا ہوں اور پندرہ منٹ مراقبۂ معیت بھی کرتا ہوں، جس میں کبھی کبھی چند منٹوں کی کمی ہوجاتی ہے، کبھی ایسا لگ رہا ہوتا ہے کہ جیسے مجھ میں صرف اللہ کی یاد ہے اور کچھ نہیں ہے اور کبھی کسی پریشانی کے وقت بالکل غفلت ہوجاتی ہے اور کچھ دنوں سے تو بہت مایوسی کی کیفیت ہے، لیکن آپ کی مجلس میں آنے سے بہت حد تک افاقہ ہوگیا، اَلْحَمْدُ للہ! رہنمائی کا محتاج ہوں۔
جواب:
ماشاء اللہ! بارہ تسبیحات کا ذکر جہری جاری رکھیں اور جو لطائف پر آپ کا ذکر ہے، وہ بھی جاری رکھیں اور مراقبۂ معیت کے ساتھ دعائیہ بھی شامل کردیں یعنی جب آپ محسوس کررہے ہوں کہ اللہ میرے ساتھ ہیں، تو اس وقت اللہ سے مانگنا شروع کرلیں اور یہ بہترین طریقہ ہے، اس لئے مراقبہ دعائیہ بھی ساتھ رکھیں یعنی زبان سے نہیں، بلکہ دل سے۔ اور افاقہ آپ کو جس کیفیت میں ہوجاتا ہے تو یہ ایک پیغام ہے کہ کس طریقہ سے آپ کو ماشاء اللہ! زیادہ بہتری محسوس ہوگی۔
سوال نمبر 9:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ میرے پیارے مرشد و مربی حضرت والا، حضرت شاہ صاحب دامت برکاتھم! بعد از سلام اللہ تعالیٰ آپ پر بے شمار رحمتیں برسا دے، اللہ تعالیٰ آپ کی عبادت اور حج قبول فرمائے اور ہر سال حج مقبول آپ کو نصیب فرمائے، (آمین) مجھے بہت خوشی ہوئی کہ حضرت والا! خیر خیریت سے پہنچ گئے ہیں۔ حضرت والا! آپ سے دعاؤں کی درخواست ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے اپنی نسبت عطا فرمائے اور آپ کا سایہ ہمارے سروں پر قائم رکھے، اللہ تعالیٰ آپ کی زندگی اور علم میں برکت عطا فرمائے۔ (آمین) میں فلاں ہوں۔
جواب:
آمین ثم آمین۔
سوال نمبر 10:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ میری بڑی بیٹی جو آپ سے بیعت ہے، وہ اب یونیورسٹی میں پڑھ رہی ہے۔ اَلْحَمْدُ للہ! اپنی نماز کی پابندی، پردے کا اہتمام اور تمام مرد حضرات سے limit میں رہنا اور اپنی قابلیت کی وجہ سے ایک مقام بنا ہوا ہے۔ ان کا ایک Class fellow ہے، جس کا نام فلاں ہے، اس نے رابطہ کیا ہے اور آپ حضرت کے متعلق پوچھا ہے اور آپ سے تعلق قائم کرنا چاہتا ہے، تو کیا ہم آپ حضرت کا نمبر اسے دے دیں؟ آپ حضرت کی اجازت کے بعد اگر وہ آپ حضرت سے رابطہ کرے گا تو ان کا حوالہ دے گا، جس سے آپ حضرت کو اندازہ ہوجائے گا کہ اس نے فون کیا ہے۔ جزاکم اللہ۔
جواب:
بالکل ٹھیک ہے، اگر اصلاحی نسبت کے لئے کوئی رابطہ کرتا ہے اور مناسبت ہے تو سبحان اللہ! بالکل ٹھیک ہے۔
سوال نمبر 11:
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ پیارے حضرت! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ میں فلاں UK سے آپ کو لکھ رہا ہوں۔ میں نے حال ہی میں خواب دیکھا کہ میں شادی میں شرکت کررہا ہوں اور دکھایا گیا کہ ان دنوں میں شادی میں تین چیزیں حرام قرار دے دی گئی ہیں، پہلا مسئلہ مردوں اور عورتوں کا آزادانہ اختلاط ہے، دوسرا موسیقی بجانا اور تیسرا مسئلہ شادی میں ضرورت سے زیادہ چیزوں پر پیسہ خرچ کرنا ہے۔ خواب میں میں نے محسوس کیا کہ مجھے ان وجوہات کی بنا پر شادیوں میں شرکت کرنے سے روکا گیا ہے۔ اب کیا اس سے ملتی جلتی تمام شادی اور تقریبات میں شرکت کرنا چھوڑ دوں؟ جس میں ایک جیسے مسائل ہیں، یہاں تک کہ اگر خاندان بھی ان مسائل کا سبب بنتا ہے۔ برائے مہربانی آپ کے مشورے کی ضرورت ہے۔ جزاک اللہ خیراً۔
جواب:
ماشاء اللہ! خواب میں بہت اچھا مشورہ آپ کو دیا گیا ہے اور یہ بالکل ایسا ہے جیسے آپ کو سامنے سے کوئی بتا رہا ہو، کیونکہ حالات یہی ہیں کہ شادیوں میں شرکت نہ کی جائے، بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ بلاضرورت اجتماعات میں شرکت بھی مسئلہ ہے کہ یہ دور بہت خطرناک دور ہے، اس میں چند لوگ اکٹھے ہوجائیں تو کوئی نہ کوئی مسئلہ بن ہی جاتا ہے، کوئی نہ کوئی ایسی فسق و فجور کی باتیں، غیبت کی مختلف اقسام اور غفلت کی چیزیں، جیسے آپ نے جو بتایا ہے تو اسباب غفلت بتائے جارہے ہیں اور اسباب غفلت میں موسیقی بہت بڑا سبب ہے غفلت کا۔ اور عورتوں، مردوں کا آزادانہ اختلاط یہ تو اس سے بھی بڑھی ہوئی چیز ہے اور ضرورت سے زیادہ خرچ کرنا یہ اسراف ہے اور اسراف کرنا بھی حرام ہے۔ لہٰذا آپ کو بالکل صحیح بتایا گیا ہے، بس اب آپ اس طرح کرلیں کہ avoid کریں کہ اگر رشتے داروں کا مسئلہ ہو تو وہاں کوئی لطائف الحیل کے ذریعہ سے آپ تھوڑا سا avoid کرنے کی کوشش کرلیں، کیونکہ رشتے داروں کی شادیوں میں شرکت کرنے میں زیادہ مسائل ہوتے ہیں کہ وہاں پر اپنے کچھ interests بھی ہوتے ہیں، مزید اور مسائل بھی ہوتے ہیں، اسی لئے میں خود بھی آج کل شرکت نہیں کررہا ہوں۔ پہلے مجھے نکاح کے لئے بلایا جاتا تھا تو میں چلا جاتا تھا کہ چلو اس ذریعہ سے کوئی بات دین کی اگر ہوجائے تو اچھی بات ہے، لیکن وہاں میں نے دیکھا کہ لوگ کوئی بھی دین کی بات سننے کے لئے تیار نہیں ہوتے، بلکہ اس کو بوجھ سمجھتے ہیں، اور وہ اپنی باتوں کو تھوڑی دیر کے لئے بھی روکنا نہیں چاہتے، بس ایک مستی کے عالم میں ہوتے ہیں، اس لئے ایسی حالت میں اپنے آپ کی حفاظت ضروری ہے، دوسروں کی حفاظت کیا انسان کرے گا؟ بس اپنے آپ کو بچاؤ والی بات ہے۔ خیر آپ کو بہت اچھا بتایا گیا ہے، اللہ پاک عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
سوال نمبر 12:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت! آپ نے ایک ماہ کے لئے مجھے بیس منٹ کا مراقبہ دیا تھا کہ یہ تصور کریں کہ دل ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کررہا ہے، لیکن ابھی تک مجھے کچھ محسوس نہیں ہوا۔ آگے کیا حکم ہے؟
جواب:
یہی چیز جاری رکھیں، البتہ اس سے پہلے تین سو مرتبہ ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ زبان سے کرلیا کریں، پھر اس کے بعد یہ مراقبہ کرلیا کریں۔
سوال نمبر 13:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
I replied to your question about my health. I was admitted to hospital for a surgery for the removal of two tubers in my leg. Unfortunately the surgery couldn’t be performed due to abnormal test parameters which need to be treated first before the surgery could be performed. Therefore, I have been discharged from the hospital and the health issue remains. Perhaps you may like to advise ذکر or anything else for this purpose. جزاک اللہ
جواب:
Yes, you can recite سورۃ فاتحہ eleven times daily with ‘‘بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ، اَلْحَمْدُ للہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ’’ and then blow on water and drink that daily ان شاء اللہ and follow the instructions of your doctor.
سوال نمبر 14:
Sheikh I know that doing this مراقبہ is very good but sometimes I couldn’t do it properly as per your guidance due to this reason. I feel it is hard for me for example, doing ذکر ’’اَللہ اَللہ’’ for ten minutes and reach four points. Actually I know this is my problem. I feel my body is very weak. Sheikh please guide. Let me know what should I do for future. جزاک اللہ خیراً
جواب:
I think you should discuss this with your husband and he should tell me clearly what the problem is because I couldn’t understand it. What are you speaking about?
سوال نمبر 15:
حج کی مبارک ہو۔ حضرت جی! آپ جب حج پر گئے تو شدید خواہش تھی کہ آپ کے ساتھ حج پر جانے کا موقع اللہ دے دے۔ بس اللہ سے دعا ہے کہ اللہ اس سال کے تمام حجاج کرام کو قبول فرمائے۔
جواب:
آمین، ثم آمین۔
سوال نمبر 16:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ محترم! آپ کو حج مبارک ہو۔ حضرت! میں نے پچھلے تین مہینوں سے اپنے معمولات کی report نہیں دی۔ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق اور آپ کی دعاؤں کی برکت سے مراقبات بلاناغہ کررہا ہوں، مگر اس طرح نہیں ہورہا جس طرح آپ کی ہدایت ہے۔ پچھلے ماہ معمولات ہدایت کے مطابق کرکے report دینے کی کوشش کررہا تھا، مگر میں نہیں کرسکا، اس Time management سے نہیں ہوسکتا۔ اب معمولات اور دوسرے کام ایک ساتھ کررہا ہوں اور Time management میرے اختیار میں ہے، لیکن میری کم ہمتی کی وجہ سے manage نہیں ہورہا، ذکر مراقبات اور دوسرے معمولات کی تفصیل درج ذیل ہے۔
جواب:
آپ اس طرح کرلیں کہ اس چیز کو جاری رکھیں اور time management کو آپ ذرا preference دیں اور اس کو اپنے حالات میں adjust کرلیں کہ کس طرح best طریقے سے ہوسکتا ہے تو پھر report دیں، بے ہمتی نہیں ہونی چاہئے، اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے۔
سوال نمبر 17:
السلام علیکم۔ حضرت جی! میرا مراقبہ ہے، لطیفۂ قلب، لطیفۂ روح، لطیفۂ سر، لطیفۂ خفی اور لطیفۂ اخفیٰ پر پانچ پانچ منٹ اور پانچوں لطائف ماشاء اللہ! محسوس ہورہے ہیں۔ اور مراقبۂ احدیت پر دس منٹ ہے اور حضرت جی! مراقبۂ احدیت میں مجھے فیض آتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ حضرت جی! میری اصلاح کے لئے دعا کریں۔
جواب:
ماشاء اللہ! مراقبۂ احدیت میرے خیال میں آپ کو پندرہ منٹ کا بتایا تھا، لیکن آپ دس منٹ کا بتا رہے ہیں۔ خیر اب اس کو پندرہ منٹ کر لیا کریں، باقی چیزیں وہی ہیں۔
سوال نمبر 18:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔
Sir اَلْحَمْدُ للہ I did the مراقبہ Allah Allah on heart for ten minutes and fifteen minutes on the right side soul. It seems like the heart and soul felt the need of Allah Allah who created them and I have to improve in it. Tears were coming as I felt that my heart and soul will only get direction when I do with the mind-set that this is the only way to the right path and tears automatically come out.
جواب:
Ok. Carry on. You should do مراقبہ for ten minutes on heart and then soul and after that on سر for fifteen minutes. It means ten minutes on heart and soul and fifteen minutes on سر.
سوال نمبر 19:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اللہ تعالیٰ آپ کے حج کو قبول فرمائے، (آمین) اور اس کو مبارک کردے۔ حضرت جی! معمولات اَلْحَمْدُ للہ! معمول کے مطابق ہورہے ہیں۔ حضرت جی! میرا ذکر ایک مہینہ کے لئے یہ تھا: دو سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘، چار سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘، چھ سو مرتبہ ’’حَقْ‘‘ اور ساڑھے سولہ ہزار مرتبہ ’’اَللّٰہ‘‘ اور پانچ منٹ کے لئے یہ سوچنا ہے کہ اللہ مجھے محبت کے ساتھ دیکھ رہا ہے۔ یہ اللہ کے فضل اور آپ کی دعاؤں کی برکت سے مکمل ہوگیا ہے۔ اور صبح اٹھنے کے بعد یہ سوچنا ہے کہ میں مخلوق کی کیا خدمت کرسکتا ہوں؟ پندرہ منٹ کے لئے یہ بھی جاری ہے اور رات کو پھر اس کا محاسبہ کرنا کبھی نصیب ہوجاتا ہے اور کبھی کبھار سو جاتا ہوں۔ کیونکہ حضرت جی! میرے عمل کا دائرہ کار یونیورسٹی تک محدود ہے، بس میں سوچتا ہوں کہ میں اچھا کیسے پڑھا سکتا ہوں، کوئی نئی ترتیب اس طرح ذہن میں نہیں آرہی، جو میں کرسکوں، مثال کے طور پر اچھا پڑھانا ہو یا کوئی مالی مدد حسبِ استطاعت کسی کی کر لیتا ہوں، بس یہ بات ذہن میں آجاتی ہے۔ اس کے علاوہ ہر ہفتے دو رکعت صلوٰۃ الحاجت پڑھ کر اپنے عیوب کے بارے میں سوچتا ہوں اور پانچ منٹ کے لئے یہ بھی اَلْحَمْدُ للہ! جاری ہے۔ لذات کی طرف میلان کا شبہ اپنے اوپر ہوتا ہے اور عورتوں کی طرف اور مرد کی طرف بھی میلان ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ مجھے اپنے اندر برائی کی سوچ آتی ہے۔ اور مولانا تقی عثمانی کا بتایا ہوا وظیفہ جو گروپ میں شیئر ہوا تھا: ’’لَّاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنْتَ سُبْحٰنَكَ اِنِّیْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ‘‘ یہ ہر روز دس منٹ کے لئے فلسطین کے لئے اَلْحَمْدُ للہ جاری ہے۔ کیفیت میں کچھ خاص تبدیلی محسوس نہیں ہوئی۔ نمازیوں کے جوتے سیدھے کرنے کا مجاہدہ بھی جاری ہے۔ میرے لئے اور کیا حکم ہے؟
جواب:
ماشاء اللہ! یہ چیز جاری رکھیں، البتہ یہ جو آپ نے فرمایا ہے کہ مجھے کوئی اور چیز سمجھ میں نہیں آتی، تو دیکھیں! ایک بات سن لیجئے، وہ یہ کہ ماشاء اللہ! آپ استاد ہیں اور استاد سے شاگرد بڑے attach ہوتے ہیں، ہمارے بھی انگلش کے ٹیچر تھے مسرت حسین شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ، ان سے ہم نے بہت کچھ سیکھا ہے یعنی اصلاحی لحاظ سے، دینی لحاظ سے، لہٰذا آپ اپنے شاگردوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ کرنے کا indirect طریقہ اختیار کریں۔ indirect طریقہ یہ ہے کہ کبھی logic سے، کبھی محبت سے، کبھی دلائل سے یعنی مختلف طریقوں سے کہ جس کے لئے جو بہتر ہو اور آپ کی سمجھ میں آجائے تو ان کو بتا دیا کریں۔ اور یہ نہیں کہ کلاس میں بتا دیا کریں، نہیں! کلاس میں کبھی کوئی comment وغیرہ آجائے تو سہی، لیکن اس کے علاوہ بھی ٹیچر سٹوڈنٹ interaction تو ہوتا ہے، اس میں آپ ان کے ساتھ یہ بہترین طریقہ کرسکتے ہیں، اس طریقہ سے ان شاء اللہ! ان کو فائدہ ہوگا۔
سوال نمبر 20:
السلام علیکم۔ کیا ذکر اور مجاہدہ کو آپس میں ملا سکتے ہیں؟ مثلاً نگاہوں کی حفاظت کا مجاہدہ میں نگاہوں کو جھکا کر ذکر کرنا اور بعد میں علیحدہ بھی مجاہدہ کرنا۔ اور کیا نگاہوں کی حفاظت کے مجاہدہ سے نامحرموں سے اختلاط بھی ہے، چاہے انٹرنیٹ پر ہو؟ اس کا بھی مجاہدہ بتائیں۔ جزاک اللہ۔
جواب:
مجاہدہ یہ ہے کہ ہر وہ چیز جو نفس کے لئے گراں ہو اور نفس اس کو کرنے نہ دے، تو اس وقت ہمت سے کام لے کر اس کام کو کرنا یہ مجاہدہ ہے۔ اب مجاہدہ کی دو قسمیں ہیں، اختیاری اور غیر اختیاری۔ غیر اختیاری میں یہ ہوتا ہے کہ آپ کے لئے ناخوش گوار حالت آگئی، مثلاً بیماری آگئی یا کوئی تکلیف آگئی، کوئی غیر معمولی چیز جس کو آپ برداشت نہ کر پا رہے ہوں، تو اس وقت استقامت رکھنا اور بے صبری کا مظاہرہ نہ کرنا اور اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ رہنا، یہ بہت بڑا غیر اختیاری مجاہدہ ہے۔ اور اس میں فائدہ بھی بہت زیادہ ہوتا ہے۔ اور اختیاری مجاہدات میں یہی ہوتا ہے کہ آہستہ آہستہ اس کو بڑھاتے جائیں، مثلاً نگاہوں کی حفاظت کا جو مجاہدہ ہے، اس کا میں نے بتایا ہے کہ آپ ابتدا میں پانچ منٹ کے لئے کمرے کے اندر بیٹھ جائیں اور نیچے دیکھیں اور اس وقت کچھ بھی نہ کریں، صرف نیچے دیکھیں، پھر اس کے بعد اگلے دن چھ منٹ اور اگلے دن سات منٹ اور اگلے دن آٹھ منٹ یعنی اس طرح ہوتے ہوتے اس کو ماشاء اللہ! بیس منٹ تک بڑھائیں، پھر اس کے بعد آپ باہر آجائیں اور باہر آکر پانچ منٹ سے شروع کرلیں کہ لوگوں سے رابطہ ہو، بات چیت بھی ہو، لیکن نیچے دیکھیں، یہ پانچ منٹ ابتدا میں، پھر اس کے بعد چھ منٹ، پھر اس کے بعد سات منٹ یعنی روزانہ بڑھاتے جائیں اور بیس منٹ تک بڑھائیں، تو یہ چالیس دن ہوگئے، اب چالیس دن میں اتنی capability حاصل ہوجاتی ہے کہ آپ بیس منٹ کے لئے گویا کہ اپنے آپ کو ماحول کے اندر بھی disconnect کرسکتے ہیں ماحول سے اور یہ بڑی بات ہے یعنی اگر خطرے کی گھنٹی بج چکی ہو تو بیس منٹ بڑا ٹائم ہے، اس میں آگے پیچھے ہوا جاسکتا ہے، لہٰذا اس سے بڑا فائدہ ہوجاتا ہے اور یہ بہت کام کا مجاہدہ ہے۔ ایک دفعہ یہ مجھے indirectly کرنا پڑا، ہوا یوں کہ مغرب کا وقت تھا اور مجھے اپنے گھر پہنچنا تھا، مغرب کی نماز کو دیر ہورہی تھی اور عمومی جو راستہ تھا، وہ تقریباً کچھ سات منٹ کا بن جاتا ہوگا، وہ اس طرح تھا کہ ایک سیدھا راستہ جاتا، پھر بائیں طرف مڑتا تو اپنے گھر میں پہنچ جاتا اور درمیان میں ایک diagonal راستہ بھی تھا، اب میں نے کہا کہ ذرا جلدی پہنچ جاؤں، لیکن اس پر پہلے کبھی میں گیا نہیں تھا، خیر diagonal راستہ پر چلا گیا، اب جب چلا تو مجھے نہیں پتا تھا کہ وہ تو بازارِ حسن تھا، بس پھر رومال تو میرے پاس ہوتا تھا، تو میں نے اپنے سر کے اوپر رومال ڈالا اور پشتو میں کہتے ہیں: دوه مې خپلې کړے اؤ دوه پردۍ (یعنی دو اپنے پاؤں اور دو دوسرے کے پاؤں) یعنی بہت تیز چلنا، اگرچہ مجھ پر آوازیں بھی کسی گئیں، لیکن پھر توبہ کرلی کہ اس راستہ سے آئندہ نہیں آنا۔ لہٰذا یہ چیزیں ہر جگہ ہوتی ہیں، اس لئے اس کی ضرورت پڑتی ہے، تو اگر انسان اس پر کچھ کام کرچکا ہو تو ماشاء اللہ! آسانی ہوجاتی ہے، ورنہ لوگ کہتے ہیں کہ ہماری آنکھ اٹھ ہی جاتی ہے، ہم کیا کریں؟ یعنی لوگ اس طرح کہہ دیتے ہیں کہ ہم کیا کریں؟ ہم تو کوشش کررہے ہیں، لیکن آنکھ اٹھ ہی جاتی ہے۔ اور اس کا حضرت تھانوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے بہت زبردست جواب دیا تھا، چونکہ حضرت تو بڑے logician تھے، چنانچہ حضرت نے ان سے پوچھا کہ اچھا! اگر جس کو دیکھ رہے ہو، اس کا باپ بھی موجود ہو تو دیکھ سکتے ہو؟ یا تمھارا باپ موجود ہو، پھر دیکھ سکتے ہو؟ پھر آنکھ کیوں نہیں اٹھ سکتی؟ اگر اس وقت آنکھ کو روک سکتے ہو، تو کیا اللہ میاں نہیں دیکھ رہے؟ یہ خیال تمھیں نہیں آرہا کہ اللہ پاک بھی دیکھ رہے ہیں، اس لئے یہ ساری چیزیں understandable ہیں، لیکن گڑبڑ اپنے نفس کی ہی ہے، اس لئے اس کو ٹھیک کرنا پڑے گا اور اس کے لئے مجاہدہ ہوتا ہے۔ باقی مراقبہ ہر حال میں ہوسکتا ہے، لیکن اس کے لئے ہم لوگ جو حفاظتی انتظامات کرتے ہیں، یہ صرف beginners کے لئے ہیں، ورنہ مراقبہ تو انسان چلتی گاڑی کے ساتھ لٹک کر بھی کرسکتا ہے اور وہی صحیح مراقبہ ہوتا ہے۔ کیوں، وجہ کیا ہے؟ کہ جب آپ کے اوپر مسئلہ آجائے، اس وقت اللہ کی طرف آپ کی توجہ ہو، وہ اصل مراقبہ ہے، practical وہی ہے، لیکن اس کے لئے پھر آپ کو prepare کرنا پڑے گا، ابتدا میں تو beginner والا ہی مراقبہ ہوگا، لیکن آہستہ آہستہ اس میں قوت آتی جائے گی اور یہ بڑھتی جائے گی، بڑھتی جائے گی، یہاں تک کہ پھر ہر حال میں آپ مراقبہ کرسکتے ہوں گے۔ مسرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ہمیں بڑی عجیب بات بتائی۔ اللہ تعالیٰ حضرت کے درجات بلند فرمائے۔ ایک دفعہ میں ساتھ جا رہا تھا، تو حضرت نے فرمایا کہ کمال ہے، لوگوں کا دل اس وقت جاری ہوتا ہے جب اچھے ماحول میں ہوتے ہیں، لیکن ہمارا دل اس وقت جاری ہوتا ہے، جب برے ماحول میں ہوتے ہیں۔ اس پر میں نے سوچا اور میں نے کہا کہ حضرت نے بڑے کام کی بات بتائی ہے، یہ بعد میں میں نے سوچا، کیونکہ اچھے ماحول میں جاری ہونے کا مطلب یہ ہے کہ یہ ابتدائی ہے اور برے ماحول میں جاری ہونا یہ انتہائی ہے۔ لہٰذا لوگ رک جاتے ہیں اپنی جگہ پر، آگے نہیں بڑھتے۔ او یہ ابتدائی کیسے ہے؟ دیکھو! زیرو سے پہلے کچھ بھی نہیں ہے، مثال کے طور پر آپ پہلے کھڑے ہیں، پھر سائیکل پر چل رہے ہیں، تو کیا محسوس ہوگا یا نہیں ہوگا؟ اور پھر آپ سائیکل سے کار میں بیٹھ جائیں تو اس میں کم محسوس ہوگا اور کار سے پھر آپ جہاز میں بیٹھ جائیں تو جہاز میں محسوس ہی نہیں ہوگا، بلکہ سمجھیں گے جیسے جہاز کھڑا ہے اور اگر آپ کھڑکی سے نہ دیکھیں تو کچھ پتا نہیں چلتا کہ جہاز چل رہا ہے یا نہیں، اس کا مطلب ہے frequency بہت زیادہ ہوجائے تو پھر پتا نہیں چلتا، کیونکہ magnitude کم ہوجاتا ہے یعنی گویا کہ beginner سے وہاں تک آجائیں تو بالکل پہلے زیرو تھا، پھر اس کے بعد کم ہوتے ہوتے بالکل زیرو کی طرح ہوگیا یعنی زیرو ہے نہیں، لیکن زیرو کی طرح ہوگیا۔ اب اگر اس کے بعد گناہ کے ماحول میں آگئے تو اس وقت پھر وہ لطافت سے کثافت کے mode میں چلے گئے، تو وہ magnitude بڑھنا شروع ہوگیا اور وہی محسوس ہونا شروع ہوگیا، لہٰذا یہ اصل ہے۔ وہ اصل کیوں ہے؟ اس لئے کہ مراقبہ وہ ہے جو آپ کو گناہ سے بچائے، اس لئے جس وقت آپ کے لئے یہ indicator بن جائے تو اس کا مطلب ہے کہ اس وقت فائدہ ہوگا، آپ اس سے فائدہ اٹھا سکیں گے، ورنہ آپ کو اگر مراقبہ یہ بتائے کہ آپ بزرگ بن گئے ہیں، تو یہ آپ کو کیا دے گا؟ کوئی فائدہ نہیں ہوگا، بلکہ نقصان ہوجائے گا، لیکن جس وقت آپ کو آئینہ دکھائے کہ بھائی تم کدھر جارہے ہو؟ تو پھر ماشاء اللہ! آپ کے لئے ایک گارڈ بن گیا کہ جو آپ کو inform کرتا ہے، آپ کو alarm کرتا ہے کہ بھائی! خبردار، خبردار! کچھ خطرناک چیزیں اندر آنا شروع ہوگئی ہیں، اس کے لئے اپنے آپ کو تیار رکھو۔
سوال نمبر 21:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
نمبر 1: تینوں نے ابتدائی وظیفہ بلاناغہ مکمل کرلیا اَلْحَمْدُ للہ!
جواب:
اب اس کو پہلا مراقبہ بتائیں۔
نمبر 2: اسم ذات کا دو ہزار مرتبہ زبانی ذکر مکمل ہوگیا۔
جواب:
ماشاء اللہ! اس کو ڈھائی ہزار مرتبہ بتائیں۔
نمبر 3: ڈھائی ہزار مرتبہ زبانی ذکر ہوگیا۔
جواب:
اس کو تین ہزار کا بتا دیں۔
نمبر 4: ہزار مرتبہ زبانی ذکر ہے۔
جواب:
پندرہ سو مرتبہ کرلیں۔
نمبر 5: تمام لطائف پر دس منٹ ذکر اور صفات ثبوتیہ پندرہ منٹ ہے، ان صفات پر عقیدہ پختہ ہوگیا ہے اور مراقبہ سے نیک اعمال کی توفیق نصیب ہوئی ہے۔
جواب:
ماشاء اللہ! اب شیونات ذاتیہ کا بتائیں۔
نمبر 6: تمام لطائف پر دس منٹ ذکر اور مراقبہ صفات سلبیہ پندرہ منٹ ہے، ان صفات کا ادراک ہوگیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو نیند نہیں آتی اور نہ اس نے کسی کو جنا ہے اور نہ وہ کسی سے جنا گیا ہے۔
جواب:
سبحان اللہ! اب باقی صفات کا بھی ذرا تھوڑا سا ادراک لینا شروع کرلیں۔
نمبر 7: تمام لطائف پر دس منٹ ذکر اور مراقبۂ معیت پندرہ منٹ ہے، مگر محسوس نہیں ہوتا۔
جواب:
اس کو جاری رکھیں۔
نمبر 8: تمام لطائف پر پانچ منٹ ذکر اور ثناء کا مفہوم پندرہ منٹ ہے، اور محسوس نہیں ہوتا۔
جواب:
اس کو جاری رکھیں۔
نمبر 9: تمام لطائف پر پانچ منٹ ذکر اور آیت الکرسی اور ثناء کا مفہوم پندرہ منٹ ہے۔ آیت الکرسی اور ثناء میں جن صفات کا بیان ہوا ہے، ان کا ادراک نصیب ہوا ہے۔
جواب:
ماشاء اللہ! ماشاء اللہ! اب ’’لَاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنْتَ سُبْحٰنَكَ اِنِّیْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ‘‘ کا شروع کرلیں۔
نمبر 10: تمام لطائف پر دس منٹ ذکر اور مراقبہ صفات ثبوتیہ پندرہ منٹ ہے، اور یہ محسوس نہیں ہوتا۔
جواب:
اس کو جاری رکھیں۔
نمبر 11: کم کھانے کا مجاہدہ جاری ہے، ہفتے میں تین دن دو دفعہ جبکہ چار دن ایک دفعہ کھانا کھایا ہے۔ کھانے کے اوقات تو کم کر لئے ہیں، لیکن ایک وقت میں کم کھانے پر گزارا کرنا بھی مشکل لگتا ہے، اکثر لوگ کہتے ہیں کہ تینوں وقت تھوڑا تھوڑا کھایا کرو، تو میں یہی جواب دیتی ہوں کہ ایسا نہیں کرسکتی۔ اور یا بالکل نہ کھاؤں اور کھاؤں تو سیر ہوکر کھاؤں؟ اور کم بولنے کا مجاہدہ بھی اَلْحَمْدُ للہ! جاری ہے، اب تھوڑا تھوڑا یاد رہنے لگا ہے کہ مجلس میں بولنا نہیں ہے، صرف سننا ہے، اس کے علاوہ دوسروں کو تکلیف دینے والے سے بھی بچنے کی کوشش کرتی ہوں۔ آپ کو اپنے مجاہدات کی تفصیل دینا نفس پر بہت بھاری ہوتا ہے، خاص کر جب کمی ہوتی ہے عمل کرنے میں۔
جواب:
اللہ تعالیٰ مزید توفیقات سے نوازے۔ پہلی بات کہ آپ ان کو بتا دیا کریں کہ تم ڈاکٹر نہ بنو، میں ڈاکٹر سے پوچھ کر کررہی ہوں۔ اور دوسری بات تو اس کا مطلب یہ ہے آپ میں Show off موجود ہے، لہٰذا اس کو ختم کریں۔ آپ مجھے بتاؤ! کہ ڈاکٹر کو اپنی بیماری بتانے میں آپ کو کتنا بوجھ محسوس ہوتا ہے؟ اگر وہاں بھی بوجھ محسوس ہوتا ہے تو پھر اس کا علاج کرنا پڑے گا اور اگر وہاں بوجھ محسوس نہیں ہوتا اور یہاں محسوس ہوتا ہے تو پھر Show off ہے۔
سوال نمبر 22:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
Name فلاں from Scotland.
I am missing you deeply and looking forward to meet you in the UK soon ان شاء اللہ. I ask Allah that He brings you in the best state of health and facilitates your journey with خیر and عافیہ. I have three matters I wish to discuss with you. Firstly, for the last couple of weeks I have missed several days of my معمولات. This is the first time that this has happened since the start of this year. I have no excuse. It was my own laziness and poor time management. Is there any way that I can make up for this great loss? اَلْحَمْدُ للہ I have started again today and don’t intend to ever make mistakes again. Secondly, could you explain what I should imagine when doing my جہری ذکر. My mind often wanders away and my mouth moves automatically without me remaining focused. Lastly, after listening to what you say about naats and sound like music I wish to stop listening to the nasheeds I was listening to before as although they have no music. They sound like they do have music. On the tazkia.org website there are so many اشعار. Are there any you would recommend to me to start from? Apologies for the long message.
جواب:
سبحان اللہ! سبحان اللہ!
Congratulations that you are on the right track and سبحان اللہ I wish you to be on this for a long time and get all its benefits. First of all, I think you should take this as an experience as to why you missed اذکار and معمولات? This will become your experience because when the person is getting experience from any loss, it is compensation for this because he will not be committing that mistake again if he uses his experience. So, I think you should understand what the reasons were, for example, if there is laziness so you can say alertness is the علاج for laziness. So you should be alert and do it at the proper time. Ok. You can think before you start what time is best for it so decide it and then stick to it ان شاء اللہ. It will help you and I think I shall guide you for the other personal matters later ان شاء اللہ.
سوال نمبر 23:
السلام علیکم۔ پہلے تو آپ کو حج کی بہت مبارک ہو، اللہ اس کو قبول فرمائے۔ حضرت! پہلے آپ سے مشورہ بھی کیا تھا کہ میری GIGA MALL میں job ہوگئی ہے اَلْحَمْدُ للہ! لیکن سر! ادھر ایک مسئلہ ہے جو مجھے ابھی پتا چلا ہے کہ وہ سر سولر کی کمپنی ہے اور ان کے پاس جو clients آتے ہیں، وہ بینک کے through بھی آتے ہیں، اور اس میں سودی قرضہ وغیرہ بھی ہوتا ہے، اس لئے مجھے اس بات میں تردد تھا کہ آیا یہاں پر job کرنا ٹھیک ہے یا نہیں؟ میں وہاں ڈیزائن انجینئر ہوں۔
جواب:
آپ کا اپنی کمپنی کے ساتھ کام ہے، ان کے ساتھ کام نہیں ہے، اور کمپنی ان کے ساتھ deal کرتی ہے یعنی جو Operational type لوگ ہوں گے، وہ ان کے ساتھ deal کریں گے، اس میں آپ کا کوئی کام نہیں ہے، آپ کا تو صرف technical کام ہے۔
سوال نمبر 24:
اس میں وہ enforce کرتے ہیں کہ آپ clients کو بھی لائیں اور آپ کو اس میں کمیشن بھی ملے گا، اگرچہ میں تو avoid کرتا ہوں اس چیز کو، مگر یہ بھی ایک مسئلہ۔
اس مسئلے کے حوالے سے مفتی صاحب سے مکالمہ:
(مفتی صاحب) اس پر حضرت! یہی ہے کہ یہ نہ لائیں، (حضرت صاحب) بس ٹھیک ہے، اپنے آپ کو مصروف رکھیں اپنے کام میں، ان کو یہی بتائیں کہ مجھے نہیں ملا، بس کمیشن ہی نہیں ملے گا تو کیا ہوا۔ (حضرت صاحب) اچھا! پہلے والا مسئلہ تو ٹھیک ہے کہ ان کا کام تو technical کام ہے، ان کا ان لوگوں کے ساتھ کوئی واسطہ ہی نہیں، وہ تو sale والوں کا کام ہے کہ ان کے ساتھ کیا deal کرتے ہیں؟ (مفتی صاحب) حضرت! جتنے بھی کاروبار آن لائن ہورہے ہیں، اس میں یہی ہے کہ بس لوگوں کو لاؤ اور star بناؤ اور اپنے پیسے لیتے جاؤ یعنی پچھلے لوگوں سے لیتے ہیں اور اگلے کو دیتے جاتے ہیں اور اسے آگے بڑھاتے جاتے ہیں، اور یہ سب میں ہے۔ اور بعض تو اس طرح ہیں کہ آپ ایک کروڑ روپیہ لے کے آئیں، تو پچیس لاکھ اسی وقت اس لانے والے بندہ کو دے دیتے ہیں، باقی پھر اس کا کمیشن طے ہوجاتا ہے (جو بھی اس کے ساتھ طے کرتے ہیں) کہ آپ کو کروڑ کے ساتھ اتنا monthly دیا جائے گا، اب اس کو بھی دیتے ہیں اور پچھلے آدمی کو بھی اور اس کے ساتھ ان کی مدت طے ہوتی ہے کہ اتنے عرصہ کے بعد آپ دوسرا بندہ لائیں گے، بس اس طرح اس کو پھنسائے رکھتے ہیں اور پھر وہ اور لے آتا ہے۔ (حضرت صاحب) حضرت! اب میرا ایک اور سوال ہے کہ اس سوال سے میرے ذہن میں ایک سوال پیدا ہوا کہ جو لوگ مدارس کے لئے چندہ کرتے ہیں، اس میں بھی وہ حصہ لیتے ہیں یعنی کچھ percentage ہوتا ہے، جو وہ لیتے ہیں، اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟ (مفتی صاحب) پتا نہیں حضرت! میرے علم میں نہیں ہے کہ کس طرح لیتے ہیں، اگر دہاڑی لیتے ہیں تو دہاڑی علیحدہ چیز ہے، اس کی گنجائش ہے، لیکن percentage والا معاملہ صحیح نہیں ہے، لہٰذا دہاڑی لیں یا montly لیں، تو یہ Service charges ہیں یعنی جیسے میں ایک ملازم ہوں، چندہ ہو یا نہ ہو، مجھے وہ دیں، لیکن جو percentage ہے، وہ اس میں سے نہیں لے سکتا۔ (حضرت صاحب) گویا کہ چندہ جمع ہوگیا تو کس مقصد کے لئے جمع ہوا؟ مسجد کے لئے جمع ہوا ہے، اس لئے اب اس میں سے نہیں لے سکتے percentage۔ (مفتی صاحب) اس میں سے تنخواہ اس کو دے سکتے ہیں۔ (حضرت صاحب) بس یہ جمع کرکے ان کو دے دیں، دیانتداری کے ساتھ، جیسے زکوٰۃ کے جو عاملین ہیں، ان کے لئے ہوتا ہے۔ (مفتی صاحب) عاملین میں ایک صحابی کو کسی نے تحفہ دے دیا تھا، تو وہ بھی ان سے واپس لیا گیا تھا۔ (حضرت صاحب) اور یہ تو تحفہ نہیں ہوسکتا چونکہ تنخواہ اور چیز ہے اور یہ اور چیز ہے اور میرے خیال میں یہ تحفہ ہی اس بات کا ثبوت ہے کہ percentage نہیں لے سکتے، کیونکہ وہ اس سے direct لے رہا ہے۔ اسی لئے آپ ﷺ نے اس کے لئے فرمایا: جاؤ تم اپنے گھر میں بیٹھ جاؤ، پھر جو تمھیں تحفہ دے لے لینا۔ ویسے چندے کے بارے میں حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے جو ارشادات مبارک ہیں، وہ بڑے واضح ہیں، میرے خیال میں اس پر عمل بالکل نہیں ہورہا، ان ارشادات میں حضرت کا جو ارشاد مجھے یاد پڑتا ہے کہ حضرت نے فرمایا کہ اگر چندے کا بیان کرنا ہو تو پہلے بتا دیں کہ میں چندے کی بات کروں گا، جو حضرات بیٹھنا چاہیں وہ بیٹھیں اور جو حضرات نہ بیٹھنا چاہیں، نہ بیٹھیں۔ لیکن اس میں لوگوں کا خیال ہوتا ہے کہ پھر لوگ کوئی نہیں بیٹھے گا، حالانکہ ایسی بات نہیں ہے، کیوںکہ کچھ لوگ تلاش میں ہوتے ہیں کہ ان کو کوئی مل جائے کہ وہ اپنا خرچ کرسکیں یعنی اس سے وہ لوگ alert ہوجائیں گے اور وہی لوگ بیٹھ جائیں گے کہ بھئی! دیکھتے ہیں کہ کیا project ہے؟ اور دوسری بات یہ ہے کہ بڑی گرم جوشی کے ساتھ خطابت کرتے ہیں، ان کے لئے حضرت نے فرمایا کہ وہ چندہ خود اکٹھا نہ کریں، بلکہ وہ وکیل بتا دیں کہ میں جارہا ہوں اور فلاں صاحب کو کل دے دینا۔ اب کل تک لوگوں کو سوچنے کا موقع مل جاتا ہے کہ دینا چاہئے یا نہیں دینا چاہئے، کیونکہ وہ دینا اب واقعی اللہ کے لئے ہوتا ہے اور اگر گرم جوشی کی وجہ سے لے لیا تو وہ تو خطابت کے زور پر لے لیا، بعد میں پچھتائے گا۔ اب دیکھیں! حضرت نے اس کا بھی فرما دیا کہ وہ خود لے بھی نہ۔ لہٰذا اس سے جو مال جمع ہوتا ہے، اس میں واقعی بڑی برکت ہوتی ہے، تھوڑے سے کام میں بہت فائدہ ہوجاتا ہے، ورنہ پھر اس قسم کی چیزیں ہورہی ہوتی ہیں، لیکن چکر چلتے رہتے ہیں، اس لئے حضرت اس کے بارے میں بہت particular تھے۔ ایک دفعہ students آگئے کہ حضرت! آپ کی بہن فوت ہوگئی ہے، ہم اس کے لئے ایصال ثواب میں قرآن پڑھنا چاہتے ہیں، آپ کی اجازت ہے؟ فرمایا بالکل اجازت ہے، بس میری ایک شرط ہے کہ پابندی آپ پر نہیں ہے کہ آپ پورا قرآن پڑھیں، بس جتنا آپ پڑھ سکتے ہیں، اتنا پڑھیں اور مجھے نہ بتائیں، بس اللہ تعالیٰ کو کہیں کہ یا اللہ! اس کا ثواب ان کو پہنچا دیں۔ کسی نے کہا کہ حضرت! اس سے تو بہت کم پڑھیں گے، فرمایا نہیں وہ بہت زیادہ ہوگا، کیونکہ وہ جو بھی ہوگا، اللہ کے لئے ہوگا، اخلاص ہوگا، میری بہن کو زیادہ فائدہ ملے گا۔ ایک دفعہ میں کسی بیان کے لئے گیا، وہاں پر یہ معاملہ تھا تو مجھے دعا کے لئے کہا جی! دعا کریں فلانہ فوت ہوگیا ہے، تو ایک بوڑھا آدمی بیٹھا ہوا تھا، اس نے کہا جس نے جتنا جتنا پڑھا ہے، وہ بتا دیں، میں نے کہا خبردار! بتایا تو، پہلے میں نے یہ کہا، پھر میں نے سمجھا دیا کہ بتانے سے آپ کا سارا ثواب ضائع جائے گا، تو پھر کیسے ایصال ثواب کرو گے؟ اس لئے جتنا ہے، اپنے ساتھ رکھو اور اللہ جل شانہٗ کو بتا دو کہ اس کا ثواب فلاں کو پہنچا دے۔ (مفتی صاحب) اس میں حضرت جی! ایک خرابی یہ بھی ہوتی ہے کہ بہت سارے لوگ بتا رہے ہوتے ہیں تو جس نے کچھ نہیں پڑھا ہوتا، وہ ویسے ہی بتا دیتا ہے کہ دو قرآن میرے بھی شامل کرلیں۔ (حضرت صاحب) یعنی جھوٹ بھی ہوجاتا ہے۔ اور شاندار طریقے سے آج کل تو اس کے باقاعدہ انتظامات ہیں کہ کچھ دو سو تین سو قرآن جمع کیے ہوتے ہیں۔ طالب علم پڑھتے ہیں تو یہ حساب لگا کے جمع کر لیتے ہیں (پتا نہیں اصل بھی ہوتا ہے کہ جھوٹ ہوتا ہے) بہرحال پھر باقاعدہ پندرہ سو روپے کا قرآن، دو ہزار روپے کا قرآن یعنی اس کے حساب سے ریٹ لگاتے ہیں، پھر جو دو تین قرآن لینا چاہتے ہیں، پانچ قرآن لینا چاہتے ہیں، تو اس کے حساب سے پیسے جمع کرکے دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ان کو پہنچ گیا۔ لہٰذا یہ آج کل کاروباری دور ہے، انسان کو پتا نہیں کیوں سمجھ نہیں آتی، بس یہ سب عقل کے سمجھنے کی باتیں ہیں یعنی ایک موٹی سی بات ہے اس میں کوئی ایسی بات نہیں ہے کہ اس کے لئے بہت بڑی فقاہت کی ضرورت ہے، بلکہ ایک عام آدمی بھی اس کو جان سکتا ہے کہ کیا بات کررہا ہے، کیا قرآن کو بیچنے کا طریقہ ہے۔ ایک دفعہ مجھے ایک ساتھی لے گئے کہ حضرت! ہماری دکان شروع ہے، ذرا دعا فرما دیں، میں چلا گیا، اس وقت ہم بات کررہے تھے کہ ایک صاحب آئے، ہمارے ساتھ ہاتھ ملایا، پھر bench پر بیٹھ کر تھوڑی دیر تک زیر لب کچھ پڑھتا رہا، پھر اس کے بعد اجازت مانگی اور چلا گیا، تو میں نے دوست سے کہا یہ کیا کیا ہے؟ یہ کون سا آدمی تھا؟ وہ کہتے کہ اس کو میں نے کہا ہے کہ یہ یہاں آکر روزانہ آدھا پارہ پڑھ لیتا ہے برکت کے لئے، پھر میں اس کو مہینہ میں کچھ پیسے دے دیتا ہوں۔ میں نے کہا خدا کے بندے! اس کو بھی تباہ کیا اور اپنے آپ کو بھی غرق کردیا۔ میں نے کہا کیا آپ کو سورۃ فاتحہ نہیں آتی؟ کہتا ہے: آتی ہے۔ میں نے کہا آکر سورۃ فاتحہ پڑھ لیا کرو، اس کی برکت ہوگی۔ کیونکہ پیسوں پر قرآن پڑھوانا، تو اس کا آپ کو کیا ثواب ملے گا؟ بس جو پڑھے، اللہ کے لئے پڑھے پھر اس پر دعا کرے یا ایصال ثواب کرلے، پھر بات ہوگی۔ باقی آپ نے پیسے دے کر تو اس کو کاروبار بنا دیا، اور یہ تو بہت بڑی توہین ہے، جو آپ قرآن پاک کی کررہے ہیں۔ لہٰذا اس قسم کی چیزیں آج کل رواج پا رہی ہیں، حالانکہ یہ موٹی موٹی باتیں ہیں، اس میں کوئی ایسی بات نہیں ہے کہ کسی کو سمجھ نہ آتی ہوں، لیکن بس آنکھیں بند کرکے بیٹھے ہیں۔
سوال نمبر 25:
حضرت تقدیر کے بارے میں تقدیر کے بارے میں سوال ہے۔
جواب:
یہ واقعی مشکل سوال ہے، اس کے جواب میں تقدیر کے بارے میں کلام سناتا ہوں۔ تقدیر کے بارے میں ایک متردد شخص کے اشکالات کے جوابات کے لئے یہ کلام سوال و جواب کی صورت میں ہے۔
تقدیر کے بارے میں ایک متردد شخص کے اشکالات
میں ایک بے آسرا حالت اپنی بیان کروں
سوچ ماؤف، ذہن گندہ یہ میں عیان کروں
میرا کاموں پر کسی طرح جب نہیں اختیار
اپنے جرموں پر پھر میں کیسے بن جاؤں سزاوار
سب کچھ ہونے میں جو ہو اس کے فیصلے پہ مدار
مجھے کیوں میرے کئے پر سمجھا جائے گنہگار؟
میں جو کرتا ہوں اگر، لکھا مجھے ایسا ہے
پھر میرے بارے میں کیوں یہ کہے کہ کیسا ہے؟
گناہ میں نے کئے وہ جو لکھے تھے ایسے
غلط صحیح کو نہ دیکھ، تھے ہی فیصلے ایسے
مجھے برا نہ کہو، تھے میرے نصیبے ایسے
اٹھے دعا کے لئے ہاتھ پر گرے ایسے
لکھا ہے پہلے سے تو پھر دعا میں کیسے کروں؟
مرے تو ہاتھ میں کچھ بھی نہیں، رہوں یا مروں؟
میں ہر طرف سے خود کو قید میں بند پاتا ہوں
میں زندہ تو ہوں پر مر مر کے جیا جاتا ہوں
جواب چاہوں، چپ اب میں رہا نہ جاتا ہوں
میں روز روز تحیر سے بھرا جاتا ہوں
میں ہوں مایوس ہر طرف سے کدھر دل جائے؟
کاش کچھ میرے سوالوں کا جواب مل جائے
ان کے سوالوں کے جوابات:
میرے بھائی! نہ ہو مایوس تجھے قریب کروں
تو بد نصیب نہیں تجھ کو خوش نصیب کروں
دیکھ کتے کو، جب کاٹتا ہے سمجھ دار ہے وہ
پتھر مجبور پہ کرتا نہیں وار ہے وہ
جو پتھر پھینکے انسان، سمجھے با اختیار ہے وہ
اس لئے اس کو ہی دوڑ کاٹنے پہ تیار ہے وہ
یعنی پتھر کو نہیں کاٹتا، بلکہ اس انسان کو کاٹتا ہے، جو پتھر پھینک رہا ہے، کیونکہ اس کو پتا ہے کہ مجبور کون ہے اور مختار کون ہے، یعنی کتے کو پتا ہے۔
جب یہ کتا ہم میں دیکھے جبر بھی، اختیار بھی
تو انسان ہوکے کرے اس سے کبھی انکار بھی
صرف ایک پیر آسانی سے اٹھا سکتے ہیں ہم
دراصل یہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول ہے کہ:
صرف ایک پیر آسانی سے اٹھا سکتے ہیں ہم
نہیں دوسرا برابر اس کے لا سکتے ہیں ہم
اختیار اتنا عمل میں دکھا سکتے ہیں ہم
جتنا اختیار ہے اس پر آسکتے ہیں ہم
یعنی اگر کوئی دوسرا پیر بھی ساتھ اٹھانا چاہے تو ایسا نہیں کرسکتا، بس اتنا اختیار ہے اور اتنا مجبور ہے۔
لَا یُکَلِّفُ اللہُ نَفْساً کو پڑھ اب قرآن میں
اور اِلَّا وُسْعَھَا کو بھی سمجھے اس فرقاں میں
ہم سے پوچھیں گے اتنا، جتنا اختیار تھا ہمیں
اس لئے جتنا وقت ہے پاس، اس کو ضائع نہ کریں
اپنا مال کیسے کمایا، اس کا حساب رکھیں
اور پھر خرچ کرتے کیسے ہیں، یہ دیکھتے رہیں
اعضائے جسم استعمال ہم کیسے کرتے ہیں؟
علم حاصل کے مطابق کیا ہم چلتے ہیں؟
دیکھئے وضو اگر مشکل ہو، تیمم کرنا
عذر ہو تم کو اگر، بعد میں روزہ رکھنا
بے استطاعت فرض نہیں حج کو ترا چلنا
جو کر سکو وہی کر، پھر ہے کیوں تم کو ڈرنا؟
جو لکھے پر، تو بے پروا اگر اعمال سے ہے
گھر میں پھر بیٹھ، کیا فائدہ کام کے جنجال سے ہے؟
یعنی اگر سب کچھ تقدیر سے مل رہا ہے، تو پھر یہ کام، یہ job کیوں کرتے ہو؟ گھر میں بیٹھو، مل جائے گا۔ لیکن نہیں، دنیا کے معاملہ میں تم ایسا نہیں سمجھتے ہو، صرف دین کے معاملہ میں تم تقدیر پر چلتے ہو یعنی دین ہی ایسا ہے، اسی میں انسان سستی دکھاتا ہے، ورنہ تو وہ دو دو jobs کرتے ہو، آخر یہاں ہمت کیوں نہیں کرسکتے؟
جو کیلکولیٹر اور کمپیوٹر بھی ہینگ ہوجاتے ہیں
کبھی سوال بڑے ان کی حد سے جب آتے ہیں
تقدیر کی بات ساری کوئی اگر سمجھاتے ہیں
دماغ اپنے کہاں ان کو سمجھ پاتے ہیں
اس لئے اس کا جو اجمال ہے، پر یقین کرنا
اور جو تفصیل ہے، اس میں جانے سے، اے دوست! ڈرنا
یعنی بس ان اجمالی باتوں کو سمجھ لیں اور اپنے آپ کو control کریں۔
تردد کا دور ہونا۔
ماشاء اللہ! آپ کی بات میں سچائی ہے
کچھ کچھ شاید یہ میری بھی سمجھ میں آئی ہے
روشنی دل میں سے تھوڑی بہت آئی ہے
آگے تو تیرنا ممکن نہیں، گہرائی ہے
میں نے شیطان کے وساوس کو دل میں پالا تھا
حال تو حال، مسقبل بھی میرا کالا تھا
اپنے اختیار کو بہتر اب استعمال کروں
مستقبل کے لئے میں درست اپنا حال کروں
جو دل پہ تھا، شیطان کا تار تار وہ جال کروں
بے ہودہ گفتگو میری کیا مجال کروں
میرے اللہ میری غلطی جو تھی معاف کرے
شیطانی وسوسوں سے میرے دل کو صاف کرے
یعنی تقدیر کی بات بس اتنی ہمیں جاننی چاہئے، اس سے زیادہ کی ضرورت ہی نہیں ہے، کیونکہ آگے کا مسئلہ ہمارے بس کا نہیں ہے۔
سوال نمبر 26:
حضرت! اگر تقدیر پر ایمان رکھتے ہوے اور یقین کرتے ہوئے ہم بچوں کی شادی وغیرہ میں اچھے رشتوں کی کوشش کریں یا نہ؟ کیونکہ ہونا تو وہی ہے جو تقدیر میں لکھا ہوا ہے۔
جواب:
دیکھیں! بات تو صحیح ہے کہ واقعی ہوتا تو وہی ہے جو لکھا ہے، لیکن آپ کو اسباب کا مکلف بنایا گیا ہے، اس لئے آپ نے پوری تحقیق کرکے اپنے بچوں کے رشتے کرنے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کہ لوگ مال کے لئے شادی کرتے ہیں، جمال کے لئے کرتے ہیں، دین کے لئے کرتے ہیں، لیکن اس میں بہتر ہے کہ دین کو دیکھ کر کریں۔ (سنن نسائی، حدیث نمبر 3232) لہٰذا آپ ﷺ نے طریقہ بتا دیا، اب اگر کوئی اس پر عمل کرے تو اس کو فائدہ ہوگا، کیونکہ جو مال کو دیکھ کر کرتا ہے، تو اس نے آپ کو پہلے سے مال سے خرید لیا ہے، اب آپ نے مالدار سے کیا شکایت کرنی ہے، کیونکہ اس نے مال سے آپ کو خرید لیا ہے، بس اس کے بعد تو آپ ایک بکے ہوئے مال ہیں، پھر آپ کا ان کے ساتھ کیسے معاملہ چلے گا؟ اور اگر جمال سے کرنا ہے تو ٹھیک ہے، پھر جمال کے اپنے ناز نخرے ہوتے ہیں، ان کے سامنے آپ کی کیا بات چلے گی۔ باقی جہاں تک دین ہے تو جس میں دین ہوگا تو سبحان اللہ! وہ آپ کی ساری چیزوں کا خیال رکھے گا۔ اس لئے آپ ﷺ نے طریقہ بتا دیا ہے، اس لئے خود کوشش یہی کرنی ہے، باقی واقعی فیصلہ جو ہوتا ہے، وہ وہیں ہوتا ہے یعنی آخری فیصلہ ادھر کا ہی ہوتا ہے، اس میں ہم لوگ کچھ نہیں کہہ سکتے، بس وہ جو ہوچکا ہوتا ہے، اسی طرح ہوتا ہے، لیکن آپ اس کے مکلف ہیں کہ آپ صحیح طریقے سے چلیں، کوشش کریں۔ ہم نے بالکل ایسا کھلی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ اس میں کسی کو شک بھی نہیں ہے۔ اللہ جل شانہٗ کا انتظام ہے، قرآن میں اللہ فرماتے ہیں:
﴿وَالطَّیِّبٰتُ لِلطَّیِّبِیْنَ﴾ (النور: 26)
ترجمہ1: ’’اور پاکباز عورتیں پاکباز مردوں کے لائق ہیں‘‘۔
لیکن لوگ اصل میں سستی خود کرتے ہیں، پھر تقدیر کو بدنام کرتے ہیں۔ مثلاً ہمارے پاس لوگ آتے ہیں، جبکہ میں صحیح بات عرض کرتا ہوں کہ نہ میں عامل ہوں، نہ میں ڈاکٹر ہوں، لیکن ہمارے پاس مسئلے لے کر آتے ہیں کہ جیسے ہم عامل ہوں یا جیسے ہم ڈاکٹر ہوں، اگرچہ اول تو ہم یہ بات ہی نہیں بتاتے، بلکہ ہم کہتے ہیں کہ بھائی! جو اس field کے لوگ ہیں، ان کے پاس جاؤ، اگر بیماری ہے تو ڈاکٹر کے پاس جاؤ، کوئی مسئلہ ہے تو عامل کے پاس جاؤ، اس مسئلہ میں ہم آپ کے لئے کچھ نہیں کرسکتے، لیکن بہت ہی مجبور ہوجائے اور مجبور کرے تو ہم اس کو جو دل میں آجائے بتا دیتے ہیں، لیکن ساتھ کہتے ہیں کہ بھئی! علاج اپنا جاری رکھو۔ کیوں؟ مسئلہ کیا ہے؟ میں شادی کی بات کروں کہ جیسے شادی آپ نے کسی کی کرا دی یعنی بتا دیا کہ فلاں جگہ ہے۔ اب وہاں اگر سب اچھا ہوا تو کوئی اس کا خیال نہیں کرے گا، بلکہ اپنی قسمت سمجھ کر خاموش ہوجائے گا۔ لیکن اگر کوئی کمزوری آگئی تو آپ ذمہ دار ہیں، کیونکہ آپ نے بتایا تھا، چونکہ لوگوں میں ظرف نہیں ہے۔ اب ایسے لوگوں کو بتایا جاسکتا ہے؟ ایسے لوگوں کو بتانا تو مصیبت ہے، اس سے تو خاموش رہنا بہتر ہے کہ آدمی خاموش رہے، بس خود دیکھو اپنے معاملات، خود طے کرو۔ دیکھو! اگر ٹھیک ہے تو آپ کرلو، البتہ اصول ہم بتا دیتے ہیں، generally بتا دیتے ہیں کہ بھائی! اصول یہ ہیں، طریقہ یہ ہے، شریعت کے مطابق یہ باتیں ہیں، اس کے بعد فیصلہ ان کے اوپر چھوڑتے ہیں کہ وہ خود ہی فیصلہ کرلیں۔ دوسری بات ایک اور بتاتا ہوں کہ کوئی ہمارے پاس لڑکا آتا ہے یا لڑکی رشتہ کے لئے آتی ہے، یا کوئی مرید ہے اور وہ ہم سے پوچھے اور ہم ان کو کچھ بتائیں، تو وہ مرید ہے لیکن اس کا باپ مرید نہیں ہے، اس کی ماں مرید نہیں ہے، لہٰذا پھر مسائل وہی create کریں گے، پھر آکر ہمارے پاس کہیں گے کہ ہمارے بیٹے کو یہ کہہ دیں، ہماری بیٹی کو یہ کہہ دیں یعنی بات اپنی چلائیں گے، لیکن ہمیں استعمال کریں گے، جبکہ ہونا یہ چاہئے تھا کہ اگر ہمارے پاس آتے ہو اور ہمیں سمجھتے ہو کہ ان کا فیصلہ ٹھیک ہوگا، تو پھر ہمیں خود فیصلہ کرنے دو، پھر اپنے فیصلے ہم سے کیوں منواتے ہو؟ اس کا مطلب ہے کہ دل میں کوئی چور ہے، اس لئے ایسے لوگوں کے لئے ہم کیا کریں، کیوں سوچیں اور کیوں اپنے ذہن کو استعمال کریں؟ ایسے لوگوں کے لئے بہتر یہ ہے کہ جاؤ اپنا کام خود کرو، ہمارے پاس اتنا ٹائم نہیں ہے، البتہ اگر واقعی پورا خاندان ہو، کیونکہ بعض دفعہ خاندان پورا ہوتا ہے اور ہمیں پتا ہو کہ ان کا ماشاء اللہ! ایک اصلاحی تعلق ہے، تو پھر ماشاء اللہ! ان کے لئے اللہ تعالیٰ دل میں صحیح بات لے بھی آتے ہیں، یعنی دینے والی ذات اللہ کی ہے، اس لئے وہ پھر صحیح بات لے بھی آتے ہیں، ان کا فائدہ ہو بھی جاتا ہے، لیکن وہ ہمارا کام نہیں ہوتا، وہ اللہ تعالیٰ کی بات ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ دیتے ہیں، لیکن اکثر ایسے معاملات میں نقصان ہوتا ہے۔ ماشاء اللہ! یہ تو پنڈی ہے، جو کے پی کے قریب ہے، آپ تھوڑا سا پنجاب میں آگے جاؤ تو پیر کی نسبت ایک کمی سے زیادہ نہیں ہوتی، جتنا کمی ہوتا ہے، اتنا پیر بھی ہوتا ہے، جیسے کمی کو یا لوہار کو پیسے دیتے ہیں، پھر ان سے کام لیتے ہیں یا ترکان ہوتا ہے، تو ان سے کام لیتے ہیں، بس پیر صاحب کو بھی رکھا ہے کہ بس ان کے پاس صرف دعا کے لئے جائیں، وہ دعا کرلیا کریں، اخیر میں کچھ پیسے دے دیتے ہیں۔ لیکن میں ایسا پیر نہیں بننا چاہتا، ہم یہی صاف کہتے ہیں کہ ہمارے پاس آؤ تو اصلاح کے لئے آؤ، ایک ہی project ہے، دوسرا project ہمارا کوئی نہیں ہے، اگر کوئی اصلاح کے لئے آنا چاہتا ہے تو آئے، ہمیں اللہ نے اور بزرگوں نے اس مقصد کے لئے بٹھایا ہوا ہے، کسی اور مقصد کے لئے نہیں بیٹھایا ہوا یعنی ہم خود نہیں بیٹھے، بزرگوں نے بٹھایا ہے، اس لئے انکار بھی نہیں کرسکتے، کیونکہ امتثالِ امر تو ہوگا۔ چنانچہ صوفی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے جب اجازت دی تو ابھی شاید چند مہینے بھی نہیں ہوئے تھے کہ ہمارے ٹیکسلا کے جو حکیم صاحب ہیں، ان سے فون پر بات ہورہی تھی کہ شاہ صاحب! کو ایک ذمہ داری دی تھی، وہ ذمہ داری پوری کررہے ہیں یا نہیں کررہے؟ انہوں نے کہا کہ حضرت ہم جب بھی ان کو فون کرتے ہیں تو یا کسی مجلس سے آرہے ہوتے ہیں یا مجلس میں جارہے ہوتے ہیں۔ حضرت نے کہا اچھا! پھر ٹھیک ہے۔ لہٰذا اگر ذمہ داری دی ہے تو وہ چاہتے بھی ہیں کہ ذمہ داری کو پورا کرو، اس وجہ سے ہمیں جو بزرگوں نے اس مقصد کے لئے بٹھایا ہے، تو اس مقصد کے لئے ہم تیار ہیں، باقی نہ ہماری ذمہ داری ہے، نہ ہماری دکانداری ہے، بس آسان کام ہے، اللہ کا شکر ہے، اَلْحَمْدُ للہ! ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ جو مخلص لوگ ہوتے ہیں، ان کو اللہ اتنا دیتے ہیں کہ آدمی حیران ہوجاتا ہے۔ کوئی صاحب تھے، دبئی میں ان کی job ہوگئی تھی، انہوں نے مجھ سے کہا کہ دبئی میں میری job ہوگئی ہے، میں کیا کروں؟ میں نے کہا نہ پوچھا ہوتا تو پھر بات الگ تھی، مگر اب پوچھا ہے تو میں اپنے ہاتھ سے آپ کو ذبح نہیں کرسکتا، نہ جاؤ بس۔ لہٰذا وہ نہیں گیا، تو پھر ماشاء اللہ! بہت اچھی جگہ ان کی job ہوگئی، وہ بڑا خوش ہے ماشاء اللہ! کہ کام اللہ تعالیٰ نے کروا دیا، کیونکہ دینے والی ذات اللہ کی ہے، ہم کچھ نہیں دیتے، ہم تو سب سے پہلے یہی ذہن سے نکلوا دیتے ہیں کہ کوئی اور نہیں دیتا۔ اللہ دیتا ہے۔
﴿اِیَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُ﴾ (الفاتحۃ: 4)
ترجمہ: ’’ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے ہی مدد مانگتے ہیں‘‘۔
لہٰذا اس آیت کا تقاضا یہی ہے کہ اللہ ہی سے مانگو اور اللہ ہی دے گا، باقی اسباب کو اختیار کرنا ہے اور ساری چیزوں کے اپنے اسباب ہیں، ایسے ہی اصلاح کے بھی اپنے اسباب ہیں، ان اسباب کو اختیار کرلو، تو اللہ پاک دے گا۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ
۔ (آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب)
نوٹ! تمام آیات کا ترجمہ آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم سے لیا گیا ہے۔