سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر673

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال نمبر1:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ فلاں UK سے۔ میرا ذکر دو سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘، چار سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘، چھ سو مرتبہ ’’حَقْ‘‘ اور اڑھائی ہزار مرتبہ ’’اَللہ‘‘ ہے۔ سارے مکمل ہیں، سوائے دو دن بیماری کی وجہ سے۔ ایک مرتبہ ساری رات کوشش ہوئی، لیکن سو گیا اور ایک دن میں نے نیت کی فجر سے پہلے اٹھنے کی، لیکن اٹھ نہ سکا۔ ذکر میں کچھ بھی محسوس نہیں ہوتا۔ قرآن ہر دن پڑھتا ہوں، سوائے جب بھول جائے اور منزل پڑھنے کی کوشش کرتا ہوں، لیکن آدھا وقت، وہ یا تو ادھوری رہی یا چھوٹ گئی۔

جواب:

بہرحال اس میں اب آپ یوں کر لیں کہ ’’اَللہ‘‘ تین ہزار مرتبہ کر لیں اور باقی وہی رکھیں۔ لیکن اس دفعہ ناغہ سے بچیں اور ناغہ سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ آپ تجربہ کر کے دیکھیں کہ کون سی وجوہات تھیں، جن کی وجہ سے یہ اذکار آپ سے رہ گئے، پھر ان وجوہات سے بچنے کی کوشش کریں اور وہ مجھے بھی بتا دیں کہ کون سی وجوہات تھیں۔ ان شاء اللہ العزیز! پھر آئندہ اس قسم کی غلطی نہیں ہوگی۔ اپنی غلطیوں سے سبق سیکھنا ہر مسلمان کا شیوہ ہے۔

سوال نمبر 2:

السلام علیکم۔ حضرت جی! میرا مراقبہ لطیفۂ قلب، لطیفۂ روح، لطیفۂ سر، لطیفۂ خفی اور لطیفۂ اخفیٰ پر پانچ پانچ منٹ اور مراقبۂ احدیت دس منٹ، پانچوں لطائف پر محسوس ہوتا ہے اور مراقبۂ احدیت شروع کرتی ہوں تو مجھے سکون محسوس ہوتا ہے، دل کرتا ہے کہ اور زیادہ کروں۔ السلام علیکم۔

جواب:

ٹھیک ہے، یہ اچھی بات ہے کہ آپ کا دل چاہتا ہے کہ اور کروں، لیکن اصل بات یہ ہے کہ اس میں فیض کا تصور کرنا ہوتا ہے کہ آپ کو فیض آتا ہوا محسوس ہوجائے۔ فیض ہر اس چیز کو کہتے ہیں جس سے انسان کو فائدہ ہوتا ہے اور یقیناً ہر فائدہ اللہ تعالیٰ پہنچاتا ہے، اور وہ فائدہ ہمیں کسی طریقہ سے تو پہنچتا ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ اس مراقبہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے فیض آپ ﷺ کی طرف آرہا ہے، چونکہ آپ ﷺ قاسم ہیں، تقسیم فرماتے ہیں، تو آپ ﷺ کی طرف سے فیض شیخ کی طرف آتا ہے اور شیخ مریدین کے لئے ذریعہ ہے، لہٰذا شیخ کی طرف سے آپ کے لطیفۂ قلب کے اوپر آرہا ہے۔ یہ آپ کر لیں۔

سوال نمبر 3:

صبح کے اذکار، سلسلہ کی تسبیحات، آیت الکرسی، صبح و شام کے سنت اذکار اور دعائیں، سورۃ یس، دعائے مستجاب، سورۃ مزمل ایک مرتبہ اور سورۃ الفجر ایک دفعہ اور سورۃ النور کی آیت 35 ایک مرتبہ، اس کے ساتھ ایک مرتبہ سورۃ الحشر کی آخری آیت، ایک مرتبہ تیسرا کلمہ، درود شریف، استغفار کی ایک تسبیح اور تفکرات کے کچھ خاص وظائف اور دعائیں۔

جواب:

یہ جو آپ نے مجھے بھیجی ہیں، مجھے ان کی وجوہات بتا دیں کہ آپ نے اتنے وظائف کس سے لئے ہیں اور کیوں کر رہی ہیں، وجہ کیا ہے؟ کیونکہ وظائف صرف کرنا مقصود نہیں ہے، بلکہ اس وقت سب سے بڑی بات اپنی اصلاح ہے۔ اس لئے اپنی اصلاح کی کوشش کرنی چاہئے، باقی ساری چیزیں ثانوی چیزیں ہیں۔ لہٰذا آپ اس وقت مجھے بتا دیں کہ آپ نے اتنے سارے وظائف جو شروع کیے ہیں، یہ کس سے لئے ہیں اور کس مقصد کے لئے ہیں؟ اس کی تفصیل مجھے بتا دیں، اس کے بعد پھر میں آپ کو کچھ کہہ سکتا ہوں۔ کیونکہ مجھے تو لگتا ہے کہ آپ نے بس کتابوں سے شاید یہ لئے ہیں، بس جو آپ کو پسند آگیا، آپ نے اس کو شروع کر لیا۔ جبکہ طریقہ یہ نہیں ہے، کیونکہ کتابوں میں تو سارا کچھ دیا ہوتا ہے، جیسے Medical books میں بہت ساری چیزیں لکھی ہوتی ہیں کہ یہ کرنا چاہئے یہ کرنا چاہئے، تو کیا ہر مریض ایسا کرے گا؟ وہ سارا کرے گا؟ نہیں، بلکہ اس کے لئے جتنا مناسب ہے، اتنا کرے گا، ہر چیز وہ نہیں کرے گا۔ لہٰذا اپنی طرف سے جو choice ہے، یہ ٹھیک نہیں ہے، آپ مجھے یا تو لکھ دیں کہ آپ نے کس سے لئے ہیں اور یہ کس لئے ہیں؟ پھر اس کے بعد میں کچھ عرض کرسکوں گا۔

سوال نمبر 4:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت جی! یہ سارے وظائف مجھے کسی نے دیئے تو نہیں، لیکن یس، سورۃ مزمل، سورۃ واقعہ کی حدیثیں پڑھ رکھی تھیں کہ اللہ کو یہ پسند ہیں، نبی کریم ﷺ نے بتائی ہیں کہ آپ کو پڑھنی چاہئیں۔ اس لئے کالج کے زمانہ سے میں پڑھ رہی ہوں اور عادت بن گئی ہے۔ باقی دعائیں وغیرہ تو صرف دعائیں ہیں، اس لئے پڑھتی ہوں کہ کافی پرانی پڑھ رہی ہوں، اب ان کو چھوڑنے سے ڈرتی ہوں کہ اللہ کو وہ عمل پسند ہے جو مستقل کیا جائے۔ حصار اس لئے کرتی ہوں کہ اس کے ذریعہ آیت الکرسی، چاروں قل پڑھے جاتے ہیں، بس ان کو حفاظت کی غرض سے پڑھ لیتی ہوں۔ سورۃ بقرہ بھی اس حدیث کی وجہ سے پڑھتی ہوں کہ اس کو کرنے سے حفاظت ہوجاتی ہے، اس لئے پڑھ لیتی ہوں۔ اب اگر ان میں سے کوئی چیز میرے لئے اچھی نہیں ہے تو آپ مجھے guide کر دیں، میں ان شاء اللہ! اتنا ہی پڑھوں گی۔ لیکن ساری چیزوں کو پڑھنے میں کوئی دنیا کی خواہش شامل نہیں ہے، بس برائی سے حفاظت کے لئے اور قرآن سے جڑا رہنا چاہتی ہوں، کیونکہ ان کے پڑھنے سے مجھے کافی فائدہ ہوا ہے۔ لیکن وقت بہت لگتا ہے، تو اب تھوڑی بہت تنگی ہوتی ہے اور سمجھ نہیں آتی کہ اس میں کیا رکھوں اور کیا چھوڑوں؟ حضرت والا! قرآن پڑھنے اور پڑھانے والوں میں شامل ہونا چاہتی ہوں یعنی ایسے لوگ جن کا مقصد صرف اور صرف یہ ہو:

﴿اَطِیْعُوْا اللّٰهَ وَاَطِیْعُوْا الرَّسُوْلَ﴾ (المائدہ: 92)

ترجمہ1: ’’اللہ کی اطاعت کرو، اور رسول کی اطاعت کرو‘‘۔

لہٰذا بے مقصد زندگی نہیں گزارنا چاہتی، بہترین productive امتی بننا چاہتی ہوں، اس کے لئے میں عربی زبان سیکھ رہی ہوں، جو سیکھ چکی ہوں، وہ دوسروں کو سیکھا رہی ہوں، لیکن مجھ میں focus کی کمی ہے اور وقت کی بھی درست تقسیم نہ ہونا سب سے بڑی رکاوٹ ہے، کچھ غلطیاں ہو رہی ہیں، جن کی مجھے سمجھ نہیں آرہی۔

جواب:

ماشاء اللہ! یہی بات میں سمجھنا چاہتا تھا اور یہ آپ نے ماشاء اللہ بہت اچھی طرح مجھے بتا دیا۔ آپ میں انفعالیت ہے۔ انفعالیت اس کو کہتے ہیں کہ چیزوں سے زیادہ اثر لینا، یعنی کچھ لوگوں میں انفعالیت بالکل نہیں ہوتی، ان کو بیشک آپ لاکھ lectures دے دیں، کتابیں پڑھائیں، لیکن ان کے اوپر اثر نہیں ہوتا۔ اور کچھ لوگوں میں (جیسا کہ آپ میں) انفعالیت ہوتی ہے۔ بس تھوڑی سی بات سے متأثر ہو کر بہت زیادہ متأثر ہوجاتے ہیں۔ لہٰذا یہ اچھی بات ہے، یہ بری بات نہیں ہے۔ لیکن management کرنا یہ دنیا کا ایک بہترین اصول ہے۔ کہتے ہیں کہ اس طریقہ سے چلو کہ اس میں دوام آسکے اور کوئی اور ضروری کام متأثر نہ ہو۔ اس لئے اعمال کے اندر درجات مقرر کیے گئے ہیں، چنانچہ فرائض ہیں، واجبات ہیں، سنن ہیں اور مستحبات ہیں۔ تو یہ درجات کیوں مقرر کیے گئے ہیں؟ اس لئے مقرر کیے گئے ہیں، تاکہ ہم لوگ اس میں selection کرسکیں یعنی باقاعدہ ہمیں معلوم ہوسکے کہ کون سا کام ہمیں کرنا ہے اور کون سا ضروری کرنا ہے اور کون سا کام اگر نہ کریں تو کوئی مسئلہ نہیں ہوگا اور کون سا کام کرنے میں فائدہ ہے۔ تو اس میں فرض کا تو انکار بھی کفر ہے، واجب کا انکار کفر نہیں ہے، لیکن نہ کرنے میں بہت بڑا نقصان ہے اور گناہ ہے اور سنتیں چھوڑنے سے آپ ﷺ کی شفاعت سے محرومی کا خطرہ ہے۔ لہٰذا وہ بھی بہت ضروری ہیں، نہ کرنے پر ملامت کی گئی ہے۔ لیکن جو مستحبات ہیں، ان میں میدان بہت کھلا ہوا ہے، اس میں عبادات میں بھی مستحبات ہوتے ہیں، ذکر اذکار میں بھی مستحبات ہوتے ہیں، معاملات میں بھی مستحبات ہوتے ہیں یعنی ہر چیز میں مستحبات ہیں، تو کسی کے اوپر کون سے مستحبات زیادہ کھلے ہوتے ہیں، کسی کے اوپر کون سے مستحبات زیادہ کھلے ہوتے ہیں۔ لیکن یہ بات ہے کہ جس range کے بھی مستحبات کسی کے اوپر کھلے ہوں، وہ اس کے فرائض، واجبات اور سنتوں کو متأثر نہ کریں۔ بلکہ یہاں تک فرماتے ہیں کہ اگر کسی مستحب پر گمان ہونے لگے کہ یہ اس کو واجب سمجھنے لگا ہے، تو اس کا ترک واجب ہوجاتا ہے، تاکہ صحیح بات سامنے آجائے۔ بہرحال میں آپ سے عرض کروں گا کہ آپ سورۃ یس کو پڑھتی رہیں، ماشاء اللہ! بہت اچھا ہے اور سورۃ واقعہ بھی پڑھ لیا کریں، سورۃ ملک بھی پڑھ لیا کریں۔ باقی جہاں تک آیت الکرسی اور چاروں قل ہیں، اس کے لئے ’’منزل جدید‘‘ ہمارے پاس ہے، وہ ’’منزل جدید‘‘ ہمارے معمولات میں شامل ہے۔ لہٰذا ایک تو ’’منزل جدید‘‘ شام کو مغرب کے بعد پڑھ لیا کریں، اس میں آپ کی حفاظت کی ساری چیزیں آجائیں گی ان شاء اللہ۔ اور صبح کے وقت ہمارا ایک خاص معمول ہے، جس میں ماشاء اللہ! بہت ساری چیزوں سے حفاظت ہوجاتی ہے، جیسے ڈینگی وغیرہ اور جو متعدی امراض ہیں۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اس میں حفاظت ہے، یہ صبح کے وقت ہم پڑھتے ہیں۔ لہٰذا آپ صبح کے وقت وہ پڑھ لیا کریں اور شام کے وقت ’’منزل جدید‘‘ پڑھ لیا کریں۔ باقی آپ قرآن پاک کی تلاوت حسبِ استطاعت کر لیں، کم سے کم ایک پاؤ، اگر ایک پارہ تک ہوسکے تو بہت بہتر ہے، یعنی رواں تلاوت کرلیا کریں۔ اور باقی فی الحال آپ مؤخر کر لیں، کیونکہ اس سے آپ کے دوسرے کاموں میں اثر پڑے گا۔

سوال نمبر 5:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت جی! میں فلاں ہوں۔ اللہ پاک آپ سے راضی ہو۔ آپ کا فیض سارے عالم میں پھیلا دے۔ حضرت جی! مراقبہ شانِ جامع میں کیا تصور کروں؟ جو ایپ میں ہے، ویسے ہی یعنی اس ذات سے فیض آرہا ہے، (جو اپنی شان کے مطابق تمام صفات و شیونات کی جامع ہے، اس سے) آپ ﷺ کے قلب پر، آپ ﷺ سے شیخ کے قلب اور شیخ کے قلب سے میرے لطیفۂ اخفیٰ پر۔ دوسری ایک بات ذہن میں آرہی ہے کہ مجھے ایسا لگتا ہے کہ اللہ کی کوئی مثال تو نہیں دے سکتے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ اللہ کی مدد اور محبت سورج جیسی ہے، اس کے سامنے مسائل، پریشانیاں، ستاروں جیسے ہیں، جو اس کی روشنی اور نور کے سامنے کچھ حیثیت نہیں رکھتے۔ کیا یہ سوچ ٹھیک ہے؟ حضرت جی! رہنمائی فرما دیں۔

جواب:

آپ اس طرح کر لیں کہ تھوڑی سی اس میں بہتری لے آئیں، وہ یہ ہے کہ جو پریشانیاں ہیں، ان کو ستاروں کی طرح نہ قرار دیں، بلکہ آپ ظلمت کو پریشانیاں سمجھ لیں، جیسے اندھیرا ہوتا ہے، تو سورج جس وقت چڑھ جاتا ہے، تو اس کے بعد اندھیرا ختم ہوجاتا ہے۔ لہٰذا اندھیرا پریشانیاں اور مسائل ہیں اور یہ ستارے یہ دوسرے ذرائع ہیں۔ اور جو دوسرے ذرائع ہیں، وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے کچھ بھی نہیں ہیں۔ جیسے ہم کہتے ہیں، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہےـ

﴿اِیَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُ﴾ (الفاتحۃ: 4)

ترجمہ: ’’ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے ہی مدد مانگتے ہیں‘‘۔

لہٰذا جب اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق ہوجائے، تو پھر کسی اور چیز کی کیا بات ہے؟ پھر تو ماشاء اللہ! بس اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق ہونا چاہئے۔ تو اس طرح آپ سوچ رکھیں۔

سوال نمبر 6:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔

I pray you are well! Sheikh previously I told you that I had an addiction of watching حرام things and you told me to stay away from it for three weeks which would cure my disease. However I keep on failing and after a week I find that I am unable to stop myself. Afterward, I feel regret but I am scared that my regret is only because of my exams knowing that if Allah سبحانہ و تعالیٰ is angry with me I will do bad in my exams. I feel that this regret is not a true regret for توبہ and is only selfish so, will not be accepted by Allah. Please advise me on some way that I can fight against my نفس. I have considered making it واجب on myself to pray two نفل for every time I watch but I thought it would be best to check with you.

جواب:

ماشاء اللہ! آپ نے اپنی مرض کو صحیح بیان تو کیا، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ آپ نے دوائی کو صحیح طور پر اختیار نہیں کیا۔ دیکھیں! میں آپ کو ایک بات بتاؤں، addiction جو ہوتی ہے، یہ بہت بڑی problem ہوتی ہے۔ یہ جو نشئی لوگ ہوتے ہیں، ان کو بھی یہی کہا جاتا ہے کہ آپ اتنا عرصہ اس کو نہ کریں، پھر آپ کی addiction ختم ہوجائے گی۔ اور اس کے لئے کچھ دوائیاں وغیرہ بھی دیتے ہیں اور پھر اس کے بعد وہ ان کو روکتے ہیں یا پھر ان کو ہسپتال میں داخل کیا جاتا ہے۔ اس لئے یا تو آپ کو خانقاہ آنا پڑے گا یعنی خانقاہ میں رہ کر آپ تمام چیزوں سے توبہ کریں۔ تین ہفتے کم از کم آپ کو ادھر رہنا پڑے گا یا پھر اپنے اندر اتنی ہمت پیدا کر لیں اور اپنا ماحول وہاں پر کم از کم تین ہفتے کے لئے ایسا بنا دیں کہ آپ بالکل اس چیز کے قریب نہ جائیں۔ اور یہ ایسا option نہیں ہے کہ اگر آپ نہیں کرسکیں تو آپ کو معاف ہیں۔ You will have to face the consequences بیشک آپ نہ کرسکیں، لیکن چونکہ آپ کا ارادہ صحیح نہیں ہے، ہمت پوری طرح نہیں کر رہے، ورنہ صحیح بات میں آپ کو بتاؤں کہ اگر کوئی آپ کو کہہ دے کہ زہر کھا لو۔ تو کھا لیں گے آپ؟ اس وقت آپ کی ہمت کدھر سے آتی ہے؟ چونکہ آپ جانتے ہیں کہ یہ زہر ہے۔ تو گناہ بھی زہر ہے اور گناہ کا جو زہر ہے، وہ جہنم لے جاتا ہے، جبکہ یہ زہر صرف موت تک لے جاتا ہے۔ تو موت سے تو آپ ڈرتے ہیں، لیکن جہنم سے نہیں ڈرتے۔ لہٰذا آپ اپنے آپ کو اس مسئلہ میں convince کر لیں کہ میں نے اپنے آپ کو بچانا ہے، کیونکہ کوئی بھی اور مجھے بچانے کے لئے نہیں آئے گا، اللہ کے سامنے کوئی بھی نہیں ٹہھر سکتا۔ اس وجہ سے آپ اپنے آپ کو اس گناہ سے بچائیں اور اپنے آپ کو یہ تصور دلا دیں کہ اللہ مجھے دیکھ رہے ہیں اور میری ہر چیز اللہ کے سامنے ہے اور مجھے کیا شرم نہیں آنی چاہئے اللہ تعالیٰ کے سامنے ہوتے ہوئے اس کے حکم کی خلاف ورزی کرنے اور گناہ میں مبتلا ہوجانے میں؟ بس یہی آپ اپنے آپ کو سمجھا لیں۔ چنانچہ دو راستے ہیں کہ یا تو اپنے آپ کو اس تنبیہ کے ساتھ اور ماحول کی تبدیلی کے ساتھ بچا لیں یا پھر یہ ہے کہ خانقاہ آنے کی کوئی ترتیب بنا لیں۔ چونکہ آپ کے لئے خانقاہ آنا بڑا مشکل ہے، یہ مجھے پتا ہے، کیونکہ دوسرا ملک ہے، اس وجہ سے آپ کو وہیں پر ہی یہ کام کرنا پڑے گا یا پھر یہ ہے کہ اگر وہاں پر کوئی اس قسم کا خانقاہی نظام ہو کہ کم از کم آپ تین ہفتے یا چار ہفتے ادھر رہ سکیں، تو وہ بھی ٹھیک ہے، لیکن مجھے نظر نہیں آتا کہ وہاں پر کوئی اس قسم کی صورتحال آپ کے لئے ہوگی، کیونکہ آپ کی studies وغیرہ متأثر ہوں گے۔ اس وجہ سے پھر آپ کے پاس یہی ایک ہی option ہے اور اس میں آپ کو pass ہوجانا ہے۔ بات وہی ہے کہ زہر آپ نہیں کھاتے، کیونکہ آپ کو پتا ہے کہ اس سے میں مر جاؤں گا، تو بس گناہ بھی نہ کریں۔ اور تین ہفتے یا چار ہفتے تک اپنے آپ کو روکے رکھیں، ان شاء اللہ! اللہ پاک مدد فرمائیں گے۔

سوال نمبر 7:

جزاک اللہ خیرا۔ ان شاء اللہ!

I will do as you said and change my environment. Most of the time it is because I am on my phone and I accidentally see something حرام or I am alone and شیطان comes to me. I will actively avoid those websites and those places from now on ان شاء اللہ and let you know every week. Also Sheikh اَلْحَمْدُ للہ I have completed four weeks consecutively the following.

Quietly: One hundred times third کلمہ hundred times درود شریف and hundred times استغفار.

Loudly: Two hundred times ‘‘لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ’’ three hundred times ‘‘لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ’’ three hundred times ‘‘حَقْ’’ and hundred times ‘‘اللہ’’. Please advise for the next.


جواب:

ماشاء اللہ، ماشاء اللہ، ماشاء اللہ!

Very good. Allah سبحانہ و تعالیٰ grant you توفیقات as much as possible and may Allah grant you توفیقات as you wish! Now you should do two hundred times ‘‘لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ’’ four hundred times ‘‘لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ’’ four hundred times ‘‘حَقْ’’ and hundred times ‘‘اللہ’’

ان شاء اللہ

سوال نمبر 8:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت جی! میں لاہور سے فلاں آپ سے مخاطب ہوں۔ میں نے آپ کا بتایا ہوا ذکر (تیس روز کا عمل) شروع کیا تھا، جس میں ذکر بھی شامل تھا۔ اَلْحَمْدُ للہ! مؤرخہ 11 مئی کو تیس روز پورے ہوجائیں گے۔ مزید رہنمائی فرما دیں۔ دعاؤں کی خصوصی درخواست ہے۔

جواب:

ماشاء اللہ! اب آپ اس طرح کر لیں کہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ دو سو مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ دو سو مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ دو سو مرتبہ اور ’’اَللّٰہ‘‘ ایک سو مرتبہ، یہ آپ ایک مہینہ کے لئے کریں۔ اور ساتھ تیسرا کلمہ، درود شریف، استغفار جیسے پہلے بتایا تھا، وہ بھی جاری رکھیں۔ اور ہر نماز کے بعد کا جو ذکر ہے، وہ بھی جاری رکھیں۔ اور قرآن پاک کم از کم ایک پاؤ روزانہ، یہ بھی کر لیا کریں۔ ان شاء اللہ العزیز! اس کے بعد پھر آپ کو بتائیں گے۔ آپ فی الحال یہ شروع کر لیں۔

سوال نمبر 9:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضور! آج میرے ذکر کو ایک ماہ مکمل ہوگیا ہے۔ دو سو، چار سو، چھ سو اور تین ہزار۔ حضور! تمام مسلم امت سمیت میرے لئے اس دنیا سے با ایمان رخصتی کی درخواست ہے۔ اللہ پاک میرے لئے ذکر میں آسانی عطا فرمائے۔ آپ کی دعاؤں کا طالب۔

جواب:

ماشاء اللہ! دو سو، چار سو، چھ سو اور ساڑھے تین ہزار آپ ذکر شروع کر لیجئے گا۔ قرآن پاک کی تلاوت کتنی آپ کرتے ہیں؟ یہ ذرا آپ بتا دیجئے گا۔ ابھی ہمت کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو ان تمام کاموں کی توفیق عطا فرما دے۔ اور آپ میرے لئے دعا کریں، میں بھی آپ کے لئے دعا کرتا ہوں۔


سوال نمبر 10:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔

How should I react when someone lower in status and position than me finds fault in me? What should I do and say if the fault is really present in me and also if not present?

جواب:

آپ کو اس کا شکریہ ادا کرنا چاہئے کہ ماشاء اللہ! آپ نے اس کو صحیح بات بتائی اور اس کے inform کرنے پر اس fault کو دور کرنے کی کوشش کی جائے۔ خود اگر آپ کو fault دور کرنا سمجھ میں آجائے تو اچھی بات ہے، نہیں تو پھر مجھ سے رابطہ کرسکتی ہیں۔ بہرحال شکریہ کے ساتھ آپ کو اس کی جو بات ہے، وہ قبول کرنی چاہئے، چاہے وہ چھوٹی ہی کیوں نہیں، کیونکہ علم یہ چھوٹے اور بڑے پر نہیں ہے۔ مثال کے طور پر میرے ماتھے کے اوپر کوئی نشان ہے اور مجھے نظر نہیں آتا اور آئینہ میں نے پکڑا نہیں، لیکن ایک چھوٹا مجھے کہتا ہے کہ یہ نشان کیا ہے؟ تو کیا خیال ہے! میں کہتا ہوں کہ بھائی تم چھوٹے ہو، تمہاری بات کیوں میں مانوں؟ لہٰذا آپ تحقیق کر لیں، اگر واقعی ایسا ہے، تو اس کو دور کرنے کی کوشش کر لیں، چھوٹے بڑے کی بات نہیں ہے، بلکہ اصل بات یہ ہے کہ واقعی وہ چیز ہے یا نہیں ہے۔

سوال نمبر 11:

السلام علیکم۔ حضرت! ذکر کے متعلق سوال تھا کہ بظاہر لگتا ہے کہ ایک طریقہ سے زیادہ ملے گا اور دوسرے سے کم۔ تو کیا یہ اصلاً ہوتا ہے یا نہیں ہوتا؟ یعنی جو بھی طریقہ انسان اپنائے، عمر بھر میں ملنا تو آخر میں اتنا ہی amount ہے۔

جواب:

آپ نے اپنی طرف سے best کو لینا ہے، ہونا وہی ہے جو کہ طے ہو چکا ہو، بس That solves۔

سوال نمبر 12:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت! آج صبح کے بیان پر آپ نے شکر کی بات کی، تو میرے دل میں اللہ نے ڈالا کہ میں تو صرف زبان سے شکر ادا کرتی ہوں۔ لیکن شکر کی حقیقت تو یہ ہے کہ میرے ہاتھ، پاؤں، میری زبان، میری آنکھیں اور میرے اعضا اللہ کی مرضی سے استعمال ہوں، لیکن میں تو اللہ کی مرضی کے مطابق نہیں استعمال کر رہی، یعنی میرے اندر شکر نہیں ہے۔

جواب:

آپ یہی کہہ سکتی ہیں کہ پورا پورا شکر نہیں ہے، تو اس کے لئے آپ اپنی ہمت جاری رکھیں اور پورا پورا کرنے کی کوشش کر لیں، جتنے پر عمل ہو رہا ہے، اتنے پر شکر کرنا چاہئے، کیونکہ وہ بھی شکر کا موقع ہے، مثلاً کسی کو اللہ پاک توفیق دے دے کہ نماز پڑھ رہا ہے، تو اس پر شکر کرنا چاہئے یا نہیں کرنا چاہئے؟ یہ بھی تو اللہ کی توفیق سے ہے، تو اس پر تو اللہ کا شکر ادا کریں اور اگر اس میں خشوع خضوع نہیں ہے، تو اس پر اللہ تعالیٰ سے مانگیں یا اس میں کوئی اور کمی ہے تو اس کو اللہ تعالیٰ سے مانگیں۔ لہٰذا جتنا آپ کو مل رہا ہے، اس پر شکر کریں اور جتنا نہیں ہے (جو آپ سمجھ رہی ہیں) تو وہ اللہ تعالیٰ مانگیں اور اس کے لئے ہمت کریں۔

سوال نمبر 13:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت جی! میرے نفس پر کفرانِ عشیر کے شر کا غلبہ ہوا ہے، اس سے کیسے چھٹکارا پاؤں؟ برائے مہربانی۔

جواب:

ذرا تھوڑی سی تفصیل بتا دیں گے، تو پھر بتاؤں گا۔

نمبر 1:

اس خاتون نے ابتدائی وظیفہ بلاناغہ مکمل کر لیا تھا، اس کے بعد بھی ان کو آپ نے اذکار دیئے تھے، لیکن یہ بھول گئی ہے کہ کیا ذکر تھا۔ اب انہوں نے مدرسہ شروع کر لیا ہے اور علاجی ذکر کو بھی کرنا شروع کرنا چاہتی ہیں۔

جواب:

ٹھیک ہے، اب اس طرح کر لیں کہ اگر اس نے ابتدائی وظیفہ مکمل کیا ہے، تو اس کو پہلے والا سبق دے دیں یعنی دس منٹ لطیفۂ قلب والا، تیسرا کلمہ، درود شریف اور استغفار کا اور ساتھ نماز کے بعد والا۔

نمبر 2:

لطیفۂ قلب دس منٹ، لطیفۂ روح دس منٹ، لطیفۂ سر دس منٹ، لطیفۂ خفی دس منٹ اور لطیفۂ اخفیٰ پندرہ منٹ، تمام لطائف پر ذکر محسوس ہوتا ہے۔

جواب:

اب اس کو مراقبۂ احدیت بتا دیں۔

نمبر 3:

السلام علیکم۔ حضرت جی! اللہ تعالیٰ آپ کے علم اور عمل، عمر اور صحت میں برکت عطا فرمائے۔ (آمین) حضرت جی! بارہ تسبیحات کے ساتھ لطائف کے مراقبے جاری ہیں اور مراقبہ تجلیاتِ کعبہ کا فیض پچھلے ماہ سے جاری ہے۔ حضرت جی! مزید رہنمائی فرمائیں۔

جواب:

تجلیاتِ کعبہ کے بعد آپ حقیقتِ قرآن کا مراقبہ کر لیں، اس کے بارے میں اگر تفصیل معلوم نہ ہو تو کتاب میں موجود ہے، اگر نہ ہو تو پھر مجھ سے پوچھیں، میں بتاؤں گا۔

سوال نمبر 14:

میرے پیارے شیخ و مکرم دل و جان سے زیادہ محترم! آپ کو اور آپ کے تمام گھر والوں کو درجہ بدرجہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ میں یہاں آپ سب کے لئے دعائیں کرتا ہوں اور آپ سب سے دعاؤں کی درخواست ہے۔ مجھے دعاؤں میں یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے مقبول حج نصیب فرمائے اور رکاوٹیں دور فرمائے۔ اس وقت یہاں رات کے ساڑھے بارہ بجے ہیں، میں طواف سے فارغ ہوکر میزابِ رحمت کے سامنے بیٹھا ہوں۔ آپ سب کے لئے دعائیں کرتا ہوں، اللہ تعالیٰ قبول فرمائے۔ (آمین ثم آمین)

جواب:

سبحان اللہ، سبحان اللہ، سبحان اللہ، اللہ تعالیٰ آپ کو مقبول حج نصیب فرمائے اور مقبول اعمال وہاں پر نصیب فرمائے اور اللہ جل شانہٗ کی محبت آپ کو اللہ تعالیٰ وہاں پر نصیب فرمائے۔ اور ہمیں اپنی دعاؤں میں ماشاء اللہ! اسی طرح یاد رکھیں۔ ان شاء اللہ! آپ سے پھر رابطہ ہوگا۔

سوال نمبر 15:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ ایک عالم ہیں اور تبلیغ میں بھی بہت آگے ہیں۔ آج کل فلاں پیر صاحب کے ساتھ بیعت ہیں اور مزید علماء کے کورس کر رہے ہیں، انہوں نے مجھے بتایا کہ اخلاص کے ساتھ مدرسہ میں پڑھنے والوں اور تبلیغ میں چلنے والوں کے لطائف خود بخود جاری ہوجاتے ہیں۔ کیا یہ بات صحیح ہے؟ میں نے ان سے پوچھا کہ یہ کہاں پڑھا ہے؟ انہوں نے کہا: پڑھا تو نہیں، لیکن کچھ سنا اور کچھ تجربہ بھی ہے۔

جواب:

یہ اس کا حسن ظن ہے، اللہ تعالیٰ اس کے حسن ظن کے مطابق سارا کچھ ایسا کر لے، اگرچہ ہمیں تو ایسا نظر نہیں آتا، کیونکہ یہ تو طلب سے ملتا ہے، جن کو طلب ہوتی ہے، ان کو ملتا ہے، بغیر طلب کے نہیں ملا کرتا، بلکہ بغیر طلب کے تو خانقاہوں میں بھی نہیں ملا کرتا۔ مثلاً مختلف شعبے ہیں، ہر شعبے کا اپنا اپنا کام ہے اور اس میں وہی چیز ملتی ہے، جس کا وہ شعبہ ہوتا ہے۔ تو بہرحال چونکہ یہ شعبے بھی اہم ہیں، مدرسے کا شعبہ بہت زیادہ اہم ہے، لیکن ذرا تھوڑا سا سارے اساتذہ سے انٹرویو کر لیں کہ ان کو ملا ہے یا نہیں ملا؟ ہمارے پاس تو استاذ آتے ہیں اور وہ خود روتے ہیں کہ یہ جاری نہیں ہو رہا اور یہ نہیں، وہ نہیں ہو رہا وغیرہ، تو وہ کہاں سے آرہے ہیں! وہ انہی مدرسوں سے آرہے ہیں۔ اور تبلیغ والوں کا بھی ہمیں پتا ہے، وہ بھی ہمارے پاس آتے ہیں اور وہ بھی کہتے ہیں۔ اب پتا نہیں یہ ان کا حسن ظن ہے۔ بہرحال حسن ظن کو ہم challenge نہیں کرتے، اللہ تعالیٰ کرے کہ اس کو مزید نصیب ہوجائے، لیکن حقیقت حقیقت ہے، جو حقیقت ہے اس سے انکار نہیں ہے کہ اس کے لئے محنت ہے اور اس کے لئے طلب ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

﴿وَالَّذِیْنَ جَاهَدُوْا فِیْنَا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَا﴾ (العنکبوت: 69)

ترجمہ: ’’اور جن لوگوں نے ہماری خاطر کوشش کی، ہم ان کو ضرور بالضرور اپنے راستوں پر پہنچا دیں گے‘‘۔

اس میں ’’جَاهَدُوْا فِیْنَا‘‘ پہلے ہے اور ’’لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَاؕ‘‘ بعد میں ہے۔

سوال نمبر 16:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔

How are you? حضرت جزاک اللہ خیرا for your answers. They always make me think and provide deeper insight and understanding

میں ’’مکتوب نمبر 287‘‘ کی آڈیو سن رہا ہوں، سمجھنے کی کوشش کر رہا ہوں، اللہ سے دعا کریں، کیونکہ سمجھ اور توفیق اسی کی طرف سے ہے۔ اس میں جذب کے ساتھ خدا کی طرف سے کشش یا کھینچنے کے بارے میں بھی آپ بات کرتے ہیں۔ آپ تفصیل سے بتائیں کہ یہ کیا ہے اور اس میں کیا ہوتا ہے؟ کیا سلوک سے پہلے کچھ لوگوں کے لئے ایسا ہوسکتا ہے کہ وہ خدا کی طرف سے یہ حاصل کریں؟ یا یہ مولانا روم جیسے نایاب لوگوں کے لئے ہے؟ جب آپ نفس سے روح کی طرف سفر شروع کرنے کی بات کرتے ہیں، تو کیا اس کا مطلب صرف خواہشات اور انا سے نیکی اور معرفت کا سفر ہے یا اس میں روح کے اصل تک کا سفر بھی شامل ہے لطیفۂ قلب کے اوپر اور لطیفۂ سر کے نیچے۔ میرے ساتھی کو معاف کر دیں، میں یہ سوچ رہا ہوں کہ حدیث میں ہم سب سنتے ہیں کہ اگر قلب صحیح ہو تو پورا جسم ٹھیک ہوجاتا ہے اور اگر خراب ہو تو سارا جسم خراب ہوتا ہے۔ تصفیہ اور تزکیہ کے لئے لطیفۂ قلب کا ذکر کیوں کافی نہیں ہے؟ ذکر نفس کی اصلاح کے لئے کیوں ہے؟ شاید میں اس حدیث کو اکیلا دیکھنے کی غلطی کر رہا ہوں کہ دوسری احادیث اور قرآنی آیات کے ساتھ ہوسکتا ہے کہ ذکر سے دل اچھا ہو، لیکن دل کو بہتر رکھنے کے لئے تزکیۂ نفس ضروری ہے۔

جواب:

بھائی صاحب! میں اتنا نہیں جانتا، جتنا حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ جانتے ہیں۔ شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے اس پر پوری کتاب لکھی ہے ’’الطاف القدس‘‘۔ اس میں حضرت نے لطائفِ ثلاثہ کا نام دیا ہے۔ لطائفِ ثلاثہ میں دل، نفس اور عقل ہے، ان تینوں کو لطائف بتایا ہے۔ یہ تین نظام ہیں اور یہ تینوں باہم مربوط ہیں۔ حضرت فرماتے ہیں کہ آپس میں ایسے مربوط ہیں جیسے کہ جانور آپس میں سینگ لڑاتے ہیں کہ ایک ایک کو دباتا ہے، دوسرا دوسرے کو دباتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ عقل نفس کو متأثر کرتی ہے اور نفس عقل کو، پھر عقل قلب کو متأثر کرتی ہے اور قلب نفس کو اور پھر قلب نفس کو متأثر کرتی ہے اور نفس قلب کو۔ یعنی یہ آپس میں بالکل ایک triangle بنتا ہے۔ اور اس سے آپس میں باقاعدہ زور آزمائی ہوتی ہے، ایک دوسرے کو متأثر کرتے ہیں، تو ایک تدبیر کے ساتھ ان تینوں کو معتدل طریقہ پر لانا ہوتا ہے، اسی کو اصلاح کہتے ہیں۔ اور یہ کام شیخ کی نگرانی میں ہوتا ہے۔ اور پھر ذرا تھوڑا سا غور کر لیں کہ دل میں ایمان کا نور آتا ہے، کیونکہ ایمان دل میں ہوتا ہے یعنی ایمان، تصدیق یہ دل میں ہوتے ہیں۔ بلکہ اقرار بالسان اور تصدیق بالقلب یہ باقاعدہ ایمان مجمل میں ہے۔ لہٰذا اگر دیکھا جائے تو ایمان دل میں ہوتا ہے، اور دل سے جو روشنی عقل کے اوپر پڑتی ہے، تو وہاں یقین پیدا ہوتا ہے اور یقین کی وجہ سے پھر نفس کے اوپر زور لگانا پڑتا ہے کہ فلاں کام کرو، فلاں کام نہ کرو۔ اور نفس کی اپنی خواہشات ہوتی ہیں۔ نفس قلب کو بھی متأثر کرتا ہے، اس کے جذبات خراب کرتے ہیں اور اس کو نقصان پہنچاتے ہیں، کیونکہ فرماتے ہیں کہ جب کوئی انسان برا عمل کرتا ہے، تو دل پر ایک سیاہ نقطہ لگ جاتا ہے۔ اب یہ برا عمل کہاں سے آرہا ہے، یہ دل سے تو نہیں آرہا، بلکہ نفس کی وجہ سے آرہا ہے۔ تو نفس کی وجہ سے جو آرہا ہے اس کا اثر دل کے اوپر ہوتا ہے اور دل کے اوپر نقطہ لگ جاتا ہے۔ اور یہ بات بھی ہے کہ جب انسان توبہ کرتا ہے، تو وہ نقطہ دور ہوجاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نفس سے انسان کا دل متأثر ہوتا ہے اور جس وقت دل کے اندر اللہ کی محبت آتی ہے، تو اس سے نفس متأثر ہوتا ہے یعنی وہ نفس کی خواہشات کا مقابلہ کرنا شروع کر لیتا ہے، تو یہ دونوں ایک دوسرے کو متأثر کرتے ہیں۔ اور پھر عقل اور نفس بھی ایک دوسرے کو متأثر کرتے ہیں۔ تو اگر اس ترتیب کو سمجھ لیں، جو حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ترتیب بتائی ہے کہ جس وقت انسان ذکر کرتا ہے، تو اس کو جذب کی کیفیت حاصل ہوتی ہے اور جذب کی کیفیت حاصل ہونے کے بعد دل میں ایک ہنگامہ برپا ہوجاتا ہے، جس کو مقامِ قلب کہتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ روح نفس کے چنگل سے نکلنا چاہتی ہے یعنی اس کے اثر سے نکلنا چاہتی ہے، لیکن وہ نکل نہیں سکتی، کیونکہ نفس کی طاقت بہت تیز ہوتی ہے، وہ روح کو نہیں چھوڑتا، لہٰذا اس کے لئے آپ کو اس کی help کرنی ہوتی ہے اور help کرنا کیا ہے؟ سلوک طے کرنا۔ تو سلوک طے کرنا یہ اصل میں نفس کی جو شرارتیں ہیں، نفس کے جو رذائل ہیں، ان کو زبردستی روکنا ہے، جس کو مجاہدہ کہتے ہیں۔ کیونکہ اس کو زبردستی روکنا ہوتا ہے۔ جب آپ اس کو زبردستی روکتے ہیں، تو آہستہ آہستہ وہ ماننے کے لئے تیار ہوجاتا ہے۔ یعنی جتنا اس کے اندر شر ہے، جب آپ اس کی نہیں مانتے، تو پھر اس میں اتنا شر نہیں رہتا، بلکہ کم ہوجاتا ہے۔ پھر جب آپ دوبارہ نہیں مانتے، تو اور شر کم ہوجاتا ہے، پھر نہیں مانتے تو اور شر کم ہوجاتا ہے، اس طرح اگر کوشش کریں تو شر کم ہوتے ہوتے zero level پر آسکتا ہے۔ اس کو سیر الی اللہ کہتے ہیں۔ یہ سیر الی اللہ میں باقاعدہ دس مقامات طے کرنے ہوتے ہیں یعنی دس مقامات گویا کہ دس دروازے اس نفس کے بند کرنے ہیں۔ وہ آپ نے جب بند کر لئے تو نفس کی اصلاح ہوگئی۔ چنانچہ جیسے اللہ پاک فرماتے ہیں:

﴿قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا﴾ (الشمس: 9)

ترجمہ: ’’فلاح اسے ملے گی، جو اس نفس کو پاکیزہ بنائے‘‘۔

لہٰذا اَلْحَمْدُ للہ! اللہ کی طرف سے اعلان ہوگیا کہ یہ کامیاب ہوگیا۔ تو ایسے شخص کے اوپر پھر ماشاء اللہ! جذبِ وہبی شروع ہوجاتا ہے، پہلے جذبِ کسبی ہے یعنی آپ نے خود جذب پیدا کرنے کی کوشش کی ہے، پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے جذب آتا ہے اور ساری عمر بھر رہتا ہے اور ماشاء اللہ! اس کے ذریعہ سے پھر انسان اعمال کرتا ہے۔ میں نے مختصر بتا دیا ہے، ورنہ آپ چاہتے ہیں تو ’’الطاف القدس‘‘ آپ کو بھیجی جاسکتی ہے۔ آپ اس کی study کر لیں۔ ان شاء اللہ! آپ کو یہ باتیں سمجھ میں آجائیں گی۔

سوال نمبر 17:

السلام علیکم۔ شاہ صاحب!

I have a question. There is a page on instagram on which a person claims to have تبرکات (belongings) of رسول اللہ ﷺ for example, blessed hat شریف blessed نعلین شریف etc. There are pictures and videos of these blessed things. I asked if they can give me blessed hair of رسول اللہ ﷺ موئے شریف. They said that they are building a foundation for the تبرکات and you can donate it to that. I said that I will give an amount of gold I have. He agreed to give me the blessed hair of رسول ﷺ. If this is ok should I proceed with that? Kindly guide me جزاک اللہ خیرا. I can show you pictures of تبرکات شریفہ in case you want it.

جواب:

Who will prove that it is hair of رسول اللہ ﷺ

کون prove کرے گا؟ آپ کے پاس کوئی source ہے؟ میرے خیال میں تو فی الحال آپ اس میں نہ جائیں، کیونکہ آپ ﷺ کے بال مبارک کو کون خرید سکتا ہے؟ یہ تو سوال ہی نہیں پیدا ہوسکتا، کیونکہ یہ اصل میں تاریخی طور پر نسل در نسل آتے ہیں، عموماً جن لوگوں کے پاس آتے ہیں، وہ اس کو بیچتے نہیں ہیں، کبھی میں نے نہیں سنا کہ آپ ﷺ کے موئے مبارک کو کسی نے بیچا ہو، بلکہ یہ donate کیے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو دیندار گھرانے کے ہوتے ہیں، لیکن بعض دفعہ اولاد جو ہوتی ہے وہ اتنی زیادہ دین پر نہیں ہوتی، اس کی وجہ سے وہ ڈر جاتے ہیں، بلکہ بعض دفعہ ان کو ڈرا بھی دیا جاتا ہے، تو وہ ڈر جاتے ہیں، تو پھر وہ کسی نیک آدمی کے پاس لے جاتے ہیں کہ آپ اس کو رکھ لیں، کیونکہ ہم اس کا پورا ادب نہیں کر پا رہے۔ تو بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے، چونکہ یہ امانت ہوتی ہے، اس وجہ سے اس قسم کی باتیں ہوتی ہیں۔ اس لئے میرا اپنا خیال اور میرا شرح صدر تو فی الحال اس پر نہیں ہے کہ آپ اس کو خریدیں۔ البتہ تحقیقات کر لیں، اگر confirm ہوجائے تو پھر دوسری بات ہے، پھر اس پر مفتیان کرام کے ساتھ مشورہ کیا جاسکتا ہے اور اللہ والوں کے ساتھ۔ فی الحال اس کے بارے کم از کم مجھے یہ اطمینان نہیں ہو رہا کہ اس کو کیسے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ آپ ﷺ کا موئے مبارک ہے۔

سوال نمبر 18:

السلام علیکم۔ حضرت! میں امید کرتا ہوں کہ آپ خیریت سے ہوں گے۔ بدنظری کی حفاظت کے لئے update دینی تھی۔ آپ نے ہر ہفتے بعد بتانے کا فرمایا تھا، اَلْحَمْدُ للہ! اس سے پوری طرح بچ رہا ہوں۔ باقی رذائل کی detail بھی ہے۔ حکم کے مطابق آپ سے شئیر کی ہوئی ہے۔

جواب:

ماشاء اللہ، ماشاء اللہ!

سوال نمبر 19:

السلام علیکم۔

I pray you are well حضرت جی. My احوال currently are very bad. I am currently punctual with my عبادت and listening to all your blessed بیانات daily اَلْحَمْدُ للہ.Bbut with regards to my دنیاوی studies and other free time I have repeatedly found myself wasting it although I deleted youtube a long time ago through your barka. During these free times, I find a very strong urge from my نفس to download it with the excuse that I will only watch one video which turns into an hour being wasted. Sometimes, I even go on to study something but get distracted. In this way I have lost a lot of time. It's practically a wait on the weekend where there is not so much business in my routine and your بیان on Saturday, you mentioned the need for ہمت. Despite trying to implement this, I fell for the same trap of my نفس yesterday. I have therefore done the following today. I have gotten a second simple phone which I will keep and this will keep me away. Only checking my WhatsApp once at night after عشاء, made it daily timetable for myself for natural relaxation such a spending time with family. I hope things will get better. So as with each Salah I pray and the بیان that I listen to, I feel very regretful and do توبہ on each time. May اللہ تعالیٰ grant me نفس مطمئنہ and along it to bring the entire deen to my life through your فیض and His grace.

جواب:

سبحان اللہ، ماشاء اللہ، یہ بڑی اچھی بات ہے۔ اللہ جل شانہٗ آپ کو مزید توفیقات سے نوازے۔ اصل بات یہ ہے کہ ہمت ہی سے یہ کام ہوگا اور یہ جو addiction ہوتی ہے، اس addiction کی ابتدا میں بڑا urge ہوتا ہے، لیکن اس کا جو ٹائم ہے، اگر آپ نے وہ پورا کر لیا یعنی تین سے چار ہفتے اگر آپ نے اس کو avoid کر لیا، تو پھر اس کا urge بہت کم ہوجاتا ہے، negligible ہوجاتا ہے۔ لہٰذا اس صورت میں آپ کو بہت زیادہ ہمت کرنی پڑے گی۔ ان شاء اللہ! اللہ تعالیٰ آپ کو اس سے بچا دیں گے اور جو آپ کا وقت بچ جائے، اس کو اچھے کاموں میں لگا دیا کریں۔ بیشک اچھی تفریح ہو، ایسی کوئی بات نہیں ہے یعنی اچھی تفریح ہوجائے، جیسے اپنی family کے ساتھ گپ شپ لگانا، جس میں کوئی گناہ نہ ہو اور بچوں کے ساتھ ان کے حال کے مطابق بات چیت کرنا، یہ وقت تو ماشاء اللہ! اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمت ہے، اس کو صحیح طور پر استعمال کرنا چاہئے اور مناسب حد تک تفریح بھی کرنی چاہئے۔ ہر قسم کے جو غلط کام ہیں، اللہ جل شانہٗ ان سے ہم سب کو محفوظ فرما دے۔

سوال نمبر 20:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت جی! اللہ پاک سے دعا ہے کہ آپ سلامت رہیں اور اللہ پاک مجھے ہمیشہ آپ کے قدموں میں رکھے۔ (آمین) حضرت جی! ابھی میری فیملی اوپر والے portion میں shift ہو رہی ہے۔ میری فیملی میں بیوی اور دو بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔ بیٹی کی عمر سات سال اور اڑھائی سال ہے جبکہ بیٹا ساڑھے چار سال کا ہے۔ اب گھر کی ساری ذمہ داری میرے اوپر ہے۔ آپ سے درخواست ہے کہ مجھے ہدایت فرما دیں کہ گھر کے نظام کو کیسے چلایا جائے؟ اور دعا بھی فرما دیں۔

جواب:

یہ ذرا لمبی بات ہے۔ ان شاء اللہ! آپ سے پھر بات کر لیں گے۔

سوال نمبر 21:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ تلاوتِ قرآن پاک میں routine ہے کہ سوا پارہ اردو معنی کے ساتھ اور تین پارے تلاوت روزانہ پڑھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ کبھی سفر یا بیماری کی وجہ سے routine میں خلل پڑ جاتا ہے۔ صبح نماز کے بعد سورۃ یس، عشاء کے بعد سورۃ ملک اور جمعہ کے دن سورۃ کہف پڑھتا ہوں۔ اس میں بھی کبھی بیماری کی وجہ سے ناغہ ہوجاتا ہے۔ اس کے ساتھ صبح پندرہ سو مرتبہ درود شریف پڑھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ باقی فرض نماز کے بعد آپ کے بتائے ہوئے اوراد اور ساتھ میں گزشتہ ایک سال سے آپ کے بتائے ہوئے اوراد جاری ہیں۔ اللہ پاک مجھے ان اعمال کو جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنی بارگاہ ایزدی میں قبول فرما کر اپنی شان کے مطابق اس کا اجر نصیب فرمائے۔

جواب:

ماشاء اللہ، ماشاء اللہ! بالکل ٹھیک ہے۔ اللہ تعالیٰ مزید توفیقات سے نوازے۔

سوال نمبر 22:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت جی! میرے معمولات میں لطیفۂ قلب، لطیفۂ روح، لطیفۂ سر، لطیفۂ خفی دس دس منٹ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ’’دلائل الخیرات‘‘ کی منازل شامل ہیں۔ حضرت جی! میرے ناغے کی وجہ سے یہ سبق کافی عرصے سے ٹہھرا ہوا ہے۔ لطیفۂ خفی کچھ محسوس نہیں ہوتا۔ دوسری عرض یہ تھی کہ کچھ وقت سے خواب میں مدینہ شریف دیکھ رہا ہوں، کبھی گنبد خضرا کا نظارہ، کبھی کعبہ شریف، لیکن کسی وجہ سے روضۂ پاک تک نہیں پہنچ پاتا ہوں اور آنکھ کھل جاتی ہے، مجھے ان خوابوں کے بعد کسی بڑائی کا احساس نہیں، بلکہ بہت خوف ہے کہ کیا میرے گناہ مجھے اس سعادت سے دور رکھنے کا باعث تو نہیں بن رہے، بس یہی خوف پریشان کر رہا ہے، جس وجہ سے آپ کی خدمت میں عرض کیا ہے۔

جواب:

اصل بات یہ ہے کہ ’’بر صراط مستقیم ہرگز کسے گمراہ نیست‘‘ یعنی اگر سیدھے راستے پر کوئی جا رہا ہے، تو وہ گمراہ نہیں ہے۔ سیدھا راستہ کیا ہے؟ شریعت پر چلنا۔ اور درود شریف کی کثرت کر لیا کریں اور ذکر کی۔ اور جو اللہ تعالیٰ کے احکامات ہیں، ان کو پورا کریں، تو پھر آپ کو کیا فکر ہے؟ خوابوں کے اوپر تو نہیں ہے، اگر آپ بہت اچھا خواب بھی دیکھ لیں، لیکن حقیقت اس کے خلاف ہو، تو اس سے آپ کو کیا فائدہ ہے؟ اور اگر آپ بالکل خواب نہ دیکھیں اور آپ کی زندگی شریعت کے مطابق ہو، تو ماشاء اللہ! بہت مبارک ہیں۔ لہٰذا خوابوں کے پیچھے زیادہ نہ جائیں، بس عملی دنیا میں رہیں۔

سوال نمبر 23:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت والا! میرے معمولات یہ ہیں، دو، چار، چھ اور چار ہزار، اَلْحَمْدُ للہ فجر کی نماز کے بعد سے اشراق تک مسجد میں بیٹھے رہنے سے یہ ذکر اس وقت مکمل ہوجاتا ہے۔

جواب:

ماشاء اللہ، ماشاء اللہ! بہت اچھی بات ہے۔

سوال نمبر 24:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت جی! اللہ پاک سے آپ کی اور آپ کے جملہ متعلقین کی صحت اور تندرستی اور بلندیٔ درجات کے لئے دعاگو ہوں۔ مسئلہ یہ ہے کہ جو عیوب ظاہر ہوجاتے ہیں، ان کے بارے میں آپ کو اطلاع کرنا اور آپ کی رہنمائی سے ان رذائل میں کافی کمی بھی آنا شروع ہوجاتی ہے، لیکن بہت سے عیوب ایسے ہیں جو ذہن میں آتے ہیں اور پھر ذہن سے محو ہوجاتے ہیں، کیونکہ میری یاداشت بہت خراب ہو چکی ہے، ایک منٹ پہلے کی بات یاد نہیں رہتی، جب لکھنے بیٹھوں تو ذہن بالکل خالی ہوتا ہے۔ میرے اندر طعنہ زنی کی بہت بری عادت ہے، بالخصوص اپنی اہلیہ کو بہت طعن و تشنیع کرتا ہوں، بہت چھوٹی چھوٹی غلطیاں بھی نظر انداز نہیں کرتا، وہ بیچاری مجھے برداشت کرتی ہے اور اکثر خاموش رہتی ہے۔ صبر کی عادت تو بالکل بھی نہیں ہے۔ کوئی بات، کوئی تکلیف بالکل برداشت نہیں ہوتی اور واہی تباہی بولنے لگتا ہوں۔ البتہ بعد میں افسوس بھی ہوتا ہے کہ اپنے اوپر قابو نہیں پا سکتا۔ برائے مہربانی اس بارے میں رہنمائی فرمائیں۔ اللہ پاک آپ کو اور جملہ متعلقین کو بھی دنیا اور آخرت کی بہترین نعمتوں سے نوازے اور آپ کی کوششوں کا بہترین اجر نصیب فرمائے۔

جواب:

یہ بات سن لیں کہ یہ جو اطلاع آپ دے رہے ہیں کہ اس سے آپ کو فائدہ ہوجاتا ہے، اس کو جاری رکھیں، اس کا طریقہ یہ ہے کہ ballpoint وغیرہ اپنے ساتھ رکھا کریں، جو بھی آپ کو پتا چل جائے، فوراً اس کو لکھ دیا کریں اور پھر ہفتے میں جو آپ کے سامنے آجائے، وہ پورا مجھے بھیج دیا کریں۔ ان شاء اللہ! اس سے آسانی ہوجائے گی۔ باقی ہمت کی بات ہے۔ جو چیز بری ہے، اس کو اگر آپ جانتے ہیں، تو اس وقت اپنے اوپر قابو پانا سب سے بڑی نیکی سمجھیں، کیونکہ گناہ سے بچنا سب سے بڑی نیکی ہے۔ ایک آدمی ایک ہزار رکعت نفل پڑھ لے، لیکن وہ گناہ سے نہ بچے، جبکہ دوسرا آدمی اپنے آپ کو گناہ سے بچائے، تو یہ دوسرا آدمی اس سے بہتر ہے۔ کیوں، وجہ کیا ہے؟ کیونکہ گناہ سے بچنا فرض ہے اور جو دوسرا ہے وہ نفل اور مستحبات میں ہے۔ تو بتاؤ! کون سا کام ٹھیک ہے؟ بس اس کو مکمل کر لیں، ایک app ہے، ’’معمولات سالکین‘‘ وہ آپ download کر لیں، اس میں یہ ساری چیزیں موجود ہیں۔

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ


  1. ۔ نوٹ! تمام آیات کا ترجمہ آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم سے لیا گیا ہے۔