اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال نمبر 1:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ امید ہے کہ تمام دوست احباب خیریت سے ہوں گے۔ ایک مکتوب شریف میں حضرت خواجہ محمد معصوم صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے پیر و مرشد کو ﴿وَابْتَغُوْۤا اِلَیْهِ الْوَسِیْلَةَ﴾ (المائدۃ: 35) (اور اس تک پہنچنے کے لئے وسیلہ تلاش کرو) کا مصداق قرار دیا ہے، جبکہ تمام اہل سنت والجماعت کا اجماع ہے کہ ﴿وَابْتَغُوْۤا اِلَیْهِ الْوَسِیْلَةَ﴾ سے اعمال صالحہ مراد ہیں۔ اس مکتوب کی کیا توجیہ ہوسکتی ہے؟
جواب:
اگر شیخ اعمال صالحہ کا ذریعہ بنے اور اعمال صالحہ اللہ تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ بنیں، تو پھر کیا اشکال ہے؟ یعنی ایک ذریعہ بنا دوسرے کا اور دوسرا ذریعہ بنا تیسرے کا، تو گویا پہلے والا اس کا ذریعہ بن گیا، اب اس میں کون سا اشکال ہے؟
سوال نمبر 2:
السلام علیکم۔ حضرت جی! میرے مراقبے کا month complete ہوگیا ہے۔ میرا مراقبہ پانچ پانچ منٹ چار لطائف کا تھا اور لطیفۂ خفی پر خاص فیض کا پندرہ منٹ کا مراقبہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کی صفت تنزیہ کا خاص فیض آپ ﷺ کی طرف آرہا ہے۔
جواب:
ایک تو آپ لوگ جو Roman میں لکھتے ہیں، یہ میرے لئے بہت بڑا مسئلہ ہوتا ہے، کیونکہ یہ Roman والی بات مجھ سے پڑھی نہیں جاتی، میں اس کا عادی نہیں ہوں۔ لہٰذا اردو keyboard استعمال کر لیں اور یہ سیکھ لیں، کوئی اتنا مشکل نہیں ہے، باقی چیزیں سیکھی ہیں، تو یہ بھی سیکھ لیں۔ بلکہ میرے خیال میں یہ Roman خط پوری ایک سازش ہے، کیونکہ اس میں آپ کو اپنی تمام کتابوں سے کاٹا جاسکتا ہے، جیسے ترکی کو کاٹا گیا تھا۔ اس لئے اپنے رسم الخط کو support کریں اور سیکھیں اور اس کو آگے لے جائیں۔ یہ کون سا طریقہ ہے کہ انگریزوں کی حروفِ تہجی میں آپ اردو لکھ رہے ہیں، یعنی آدھا تیتر آدھا بٹیر۔ یہ مناسب نہیں ہے۔ بہرحال مجھے اس کو پڑھنے میں بڑی کوفت ہوتی ہے ذہنی بھی اور عملی بھی، اور پڑھنا بھی میرے لئے مشکل ہے۔ لہٰذا یا تو پھر صحیح انگریزی لکھو، کیونکہ انگریزی میں جانتا ہوں، اور میں انگریزی پڑھ سکتا ہوں یا پھر اردو keyboard کے ذریعے سے اردو لکھو۔ بہرحال میں دوبارہ اعمال بتاتا ہوں، خصوصاً تنزیہ کا مراقبہ کیونکہ اس میں آپ سے الفاظ کی گڑبڑ ہو رہی ہے یا آپ کی سمجھ میں گڑبڑ ہو رہی ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔ اس لئے میں دوبارہ آپ کو بتاتا ہوں۔ پانچ پانچ منٹ تمام لطائف پر آپ ذکر محسوس کریں۔ اور یہ جو فیض کا مراقبہ ہے، یہ اصل میں مراقبہ تنزیہ ہے۔ مراقبہ تنزیہ اس طرح ہے کہ مخلوق کی وہ صفات جو اللہ کے لئے ثابت نہیں ہیں، جیسے کھانا، پینا اور سونا اور اس طریقے سے اولاد وغیرہ کی صفات یہ مخلوق کی ہیں، اللہ تعالیٰ کی نہیں ہیں، اس سے اللہ تعالیٰ منزہ ہے۔ تو تنزیہ اس کو کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس سے منزہ ہے، اللہ اس سے پاک ہے۔ جیسے ہم کہتے ہیں ’’سُبْحَانَ اللهِ‘‘ (اللہ تعالیٰ پاک ہے) یعنی اللہ ان تمام چیزوں سے پاک ہے۔ تو آپ پندرہ منٹ کے لئے لطیفۂ خفی پر یہ تصور کریں گے کہ اس کا فیض اللہ جل شانہٗ کی طرف سے آپ ﷺ کی طرف اور آپ ﷺ کی طرف سے شیخ کی طرف اور شیخ کی طرف سے آپ کے چوتھے لطیفہ یعنی لطیفۂ خفی پر آرہا ہے۔
سوال نمبر 3:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت جی! صلوٰۃ حاجت پڑھ کے دس منٹ کے لئے اپنے عیوب کے بارے میں سوچتا ہوں۔ فی الحال مجھے مندرجہ ذیل عیوب کا ادراک ہوگیا ہے۔
نمبر 1: تعجیل۔
جواب: بالکل صحیح بات ہے، یہ واقع ہی ایک عیب ہے، اس میں کوئی شک نہیں، یہ موانع میں سے ہے۔
نمبر 2: چغل خوری۔ حضرت جی! یہ عارضہ گھریلو مشکلات کی وجہ سے ہے، کیونکہ یہ مجھے تنگ کرتے ہیں تو پھر پیٹھ پیچھے ان کے خلاف میں بھی زبان درازی کر لیتا ہوں کہ فلاں ایسا ہے اور ویسا ہے۔ اس کے علاوہ بھی لوگوں کے نقائص نکالتا ہوں۔
نمبر 3: طبیعت کی بھی خشکی ہے۔ اکثر لوگ مجھ سے سخت گفتار کی شکایت کر لیتے ہیں۔
نمبر 4: حضرت جی! نامحرم کو پڑھانے کا ایک غیر محسوس نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ انجانے میں تصنع کا شکار رہتا ہوں۔
نمبر 5: مجھے اپنے اوپر غرور اور بزرگی کا زبردست شبہ ہے۔ حضرت جی!judgemental ہوں، لوگوں کے بارے میں اجتماعی فیصلے صادر ہوتے ہیں، جیسے کہ فلاں جگہ کے لوگ ایسے ہیں اور فلاں جگہ کے ایسے ہیں اور جو اچھائی ہوتی ہے، اس کو اپنی جھولی میں ڈالتا ہوں۔
نمبر 6: خود فہمی اور خود رائی کا شدت سے شکار ہوں۔
نمبر 7: حضرت جی! مجھ میں ضد اور انا بہت ہے۔ اختلاف کی صورت میں ناراضگی ہوجائے تو کسی کو میں خوش نہیں کرتا۔ البتہ سلام میں میری کوشش ہوتی ہے کہ اپنے مخالف کو بھی کروں، اس پر اللہ نے بڑی حد تک توفیق دی ہے، لیکن پچھلے کچھ عرصہ سے اپنے بڑے بھائی سے سلام دعا بھی چھوڑ رکھی ہے۔ حضرت جی! وہ مجھے تنگ کرتا ہے، اس لئے سلام چھوڑ دیا ہے، میں اپنی خیر اس میں سمجھتا ہوں۔
نمبر 8: زیادہ چیزیں میں نہیں خریدتا، لیکن جب خریدتا ہوں تو پسند نہیں آتیں۔ نفیس مزاجی بہت ہے، جس کی وجہ سے مجھے شبہ لاحق ہے کہ مجھ میں حب دنیا ہے۔ حضرت جی! مجھے لگتا ہے کہ مجھے اپنے عیوب کم نظر آتے ہیں۔ اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ اللہ سارے عیوب کھول دے اور سب کے علاج کی بھرپور توفیق دے۔ حضرت جی! کوتاہیوں پر معافی کا طلبگار ہوں۔
جواب:
ماشاء اللہ! بالکل صحیح آپ نے سوچا ہے، کیونکہ اپنے عیوب کی اصلاح ہی کے لئے انسان اس سلسلے کو پکڑتا ہے۔ ماشاء اللہ! آپ نے جو کیے ہیں، اس میں ان شاء اللہ العزیز! امید ہے کہ آپ کی اصلاح ہوجائے گی۔ بہرحال سب سے پہلے آپ ذرا خود اپنے آپ کو سمجھائیں کہ یہ عیوب اگر آپ کو معلوم ہوگئے ہیں، تو پھر بزرگ کی کیا صورت بن سکتی ہے؟ پھر تو بزرگی کی کوئی صورت ہی نہیں بن سکتی۔ لہٰذا فی الحال آپ یہ سوچیں کہ اگر مجھ میں یہ عیوب ہیں تو پھر بزرگی مجھ میں نہیں ہے، اگر بزرگی ہے تو پھر عیوب نہیں ہیں، کیونکہ یہ دونوں آپس میں ضد ہیں۔ لہٰذا یہ چیز فی الحال آپ کر لیں اور بزرگی کا جو کانٹا ہے وہ دماغ سے نکال لیں۔ اور یہ اختیاری بات ہے، اس لئے آدمی سوچ سکتا ہے کہ میں کہاں بزرگ ہوں، مجھ سے روز پتا نہیں کتنی غلطیاں ہوتی ہیں، ان کا اگر حساب کیا جائے تو پتا چل جائے گا۔ بس اللہ تعالیٰ مجھ سے حساب نہ کرے۔ اور بزرگی کی سوچ بالکل ذہن سے نکال لیں۔ ہمارے حضرت مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ بھائی! عام لوگوں کی طرح اپنے آپ کو سمجھو، فائدے میں رہو گے، ورنہ اگر اپنے آپ کو بزرگ سمجھ لیا اور اللہ تعالیٰ نے بزرگوں کا نصاب دے دیا تو پھر کیا کرو گے؟ بزرگوں کا نصاب بڑا سخت ہوتا ہے، اس وجہ سے اس سے اپنے آپ کو بچانا چاہئے۔ بہت سارے لوگ کہتے ہیں کہ مجھے اپنے میں عجب محسوس ہوتا ہے، تو میں کہتا ہوں کہ بھائی! عجب اچھی چیز ہے یا بری چیز ہے؟ تو کہتے ہیں بری چیز ہے۔ پھر میں کہتا ہوں کہ جب بری چیز ہے تو پھر عجب کیسے؟ یعنی جب آپ سمجھتے ہیں کہ بری چیز مجھ میں ہے، تو اس پر عجب کیسا ہے؟ عجب تو خود ہی اس کے ساتھ ختم ہوگیا، اس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوسکتا۔ بہرحال کہتے ہیں کہ خیال کا علاج خیال ہے۔ اس لئے آپ اس طرح اس پر شروع کر لیں، باقی کبھی اور وقت پر ان شاء اللہ! بتایا جائے گا۔ بس اس طرح کریدتے رہئے اپنے آپ کو۔
سوال نمبر 4:
السلام علیکم۔
My dear and respected مرشد دامت برکاتھم I hope you are well ان شاء اللہ. My mother-in-law suffered from a heart attack a few days ago and has been readmitted to the hospital today. She will be undergoing heart surgery in the next few days. Request for dua.
جواب:
اللہ جل شانہٗ اس کو جلد صحت عطا فرما دے۔ ماشاء اللہ! کافی سارے ساتھیوں نے آمین کہی ہے۔
سوال نمبر 5:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت! آج کل میرے دل کی حالت ایسی ہے کہ کپڑے، جوتے، جیولری یعنی ان چیزوں کو خریدنے کا دل نہیں کرتا، میں جب دوسری عورتوں کو دیکھتی ہوں کہ کپڑوں کے علاوہ کوئی بات ہی نہیں کرتیں تو مجھے ان پر ترس آتا ہے کہ یہ کتنی بے چین ہیں۔ میں نے تین عدد جوتے لئے، پھر ایک عدد میں نے کسی کو ہدیہ کردیا، کیونکہ مجھے لگا کہ ایک عدد اگر خراب ہوجائے تو دوسرا پہن لوں گی، اس لئے تیسرے کی ضرورت نہیں ہے۔ طبیعت پر بوجھ ہوتا ہے جب بہت سارے کپڑے دیکھتی ہوں۔ سب عید کے لئے خریداری کر رہے تھے، مجھے بھی خریداری کا کہا، لیکن میں نے کہا کہ میرے پاس ہیں، انہوں نے کہا کہ یہ کافی نہیں ہیں اور بھی لے لو، میں نے کہا میرے لئے کافی ہیں، اس پر سب نے کہا کہ یہ ناشکری میں آتا ہے کہ جب اللہ نے دیا ہے تو خرچ کرو۔ پھر میں نے سوچا کہ ہوسکتا ہے کہ میری حالت درست نہ ہو، اس لئے آپ کو بتاؤں۔ آپ رہنمائی فرمائیں۔
جواب:
اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ یہ عجیب بات ہے۔ اس کو ناشکری کیسے کہہ سکتے ہیں؟ ناشکری تو وہ ہوتی ہے کہ کسی نعمت کو غلط چیز کے لئے استعمال کیا جائے۔ اگر اسراف کے لئے کوئی چیز استعمال ہوتی ہے، تو وہ صحیح استعمال ہے یا غلط استعمال ہے؟ بہرصورت اس سے بچنے پر شکر کرنا چاہئے۔ لوگوں کی عجیب و غریب چیزیں ہیں، اب اس پر کیا کہا جائے، یہ بیچارے تو خود قابل علاج ہیں، لیکن کہنا نہیں ہے، ورنہ اپنے لئے مصیبت بنا لو گی۔ صرف یہ بات ہے کہ آپ خود سمجھ لیں کہ اللہ پاک نے اگر آپ کو اسراف سے بچنے کے لئے توفیق دی ہے، تو اس پر شکر کریں تاکہ اللہ تعالیٰ مزید توفیق عطا فرما دے۔
سوال نمبر 6:
السلام علیکم۔ حضرت جی! میں فلاں ہوں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو ہر طرح کی دین و دنیا کی عافیت نصیب فرمائے۔ حضرت جی! اللہ کے فضل اور آپ کی برکت سے اعتکاف کی توفیق ملی ہے۔ دعا فرمائیں کہ اللہ پاک مکمل فیض عطا فرمائے۔ (آمین) حضرت جی! تراویح کے کلام اور آپ کی زبان کی تشریح سے اَلْحَمْدُ للہ! بہت فائدہ ہوتا ہے۔ گھر میں جو درود پاک کی مجلس کر رہے ہیں، اس سے بھی فائدہ ہوا ہے اَلْحَمْدُ للہ! عام حالت میں خاص طور سے دعائیں مانگنے میں سستی رہتی تھی، توجہ نہیں ہو پاتی تھی، جبکہ آپ نے مراقبۂ دعائیہ بھی دیا ہوا تھا، لیکن نہیں کر پاتی تھی۔ اب درود شریف کی مجلس کے بعد شجرہ مبارک کے ایصال ثواب کے ساتھ دعاؤں کی توفیق ہوجاتی ہے، اَلْحَمْدُ للہ۔ مسنون دعائیں، اور ساتھ میں اپنے آپ کے لئے، سلسلے کے سب ساتھیوں کے لئے اور پتا نہیں کس کس کے لئے دعائیں زبان پر آجاتی ہیں، اَلْحَمْدُ للہ۔ اور کئی بار ایسا بھی لگتا ہے کہ مراقبۂ دعائیہ ہو رہا ہے، گویا کہ اللہ پاک کے بالکل سامنے دعا مانگ رہی ہوں، یہ سب آپ کے فیض سے اللہ پاک دے رہے ہیں، اس سے تعلق محسوس ہوتا ہے، اس پر بہت شکر ادا کرتی ہوں۔ عام طور سے کیفیات وغیرہ سے اللہ تعالیٰ نے پہلے بھی حفاظت فرمائی ہے، اپنے اوپر نظر سے بھی اللہ پاک بچا لیتے ہیں، شکر کی توفیق ہو رہی ہے، اکثر نفلی اعمال کرنا چاہ رہی ہوتی ہوں، لیکن کوئی نہ کوئی تکلیف ہوتی ہے، اکثر توفیق مل جاتی ہے تو خوش ہوجاتی ہوں، نہ ملے تو بہت پریشان ہوجاتی ہوں۔ پھر تکلیف کا سوچ کر کہ یہ بھی تو اللہ نے دی ہے، تو اس پر خوش ہوتی ہوں کہ وہ مجھے یاد کر رہا ہے۔ بس دل چاہتا ہے کہ کام میں لگی رہوں، کیونکہ جان بوجھ کر کبھی سستی کی ہو، ایسا یاد نہیں ہے، دنیا کی رنگینوں کی وجہ سے کمی تو شاید آ گئی ہو۔ لیکن اللہ نے شاید اس لئے سب سے الگ کردیا کہ دنیا کو سوار کر لیا تھا، اب یہی سوچ آرہی ہے کہ سب اللہ کے حوالے کردیا ہے تو وہ ہمارے لئے خیر ہی کریں گے، اس سے ایک دم سکون آجاتا ہے، لوگوں سے نظر ہٹ جاتی ہے اور ساری پریشانی ختم ہوجاتی ہے۔ دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ حقیقی طور حالاً نصیب فرما دے، میری ذہنی صحت بالکل ٹھیک ہوجائے اور اللہ پاک پریشانیوں کو آسانیوں سے مبدل فرمائے۔
جواب:
اَلْحَمْدُ للہ! یہی ذہنی صحت کا علاج بھی ہے۔ وہ یہ کہ شکر سے ذہنی صحت کا علاج ہوجاتا ہے، تو یہ اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا فضل ہے۔ کیونکہ شکر سے نعمت بڑھتی ہے، یہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔ لہٰذا جب انسان شکر کرتا ہے تو اس سے ماشاء اللہ! مزید نعمتیں نصیب ہوتی ہیں اور یہ سب آپ کو اعتکاف کی برکت سے ملا ہے، کیونکہ اعتکاف اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے، جو اللہ تعالیٰ نے کسی کو نصیب فرمائی ہوتی ہے۔ اور اس کے ذریعہ سے آپ کا رخ اپنی نعمتوں کی طرف کردیا کہ اس کا آپ کو ادراک ہوگیا اور آپ کو اللہ نے شکر کی توفیق نصیب فرمائی ہے۔
دوسری بات آپ نے یہ کی ہے کہ دعا کی توفیق ہوگئی ہے۔ ہمارا جو تصوف ہے، وہ سارے کا سارا دعا اور شکر ہے، کیونکہ شکر مقام رضا کے بعد حاصل ہوتا ہے اور یہ جو دعا ہے، یہ عبدیت اور بندگی ہے۔ لہٰذا یہ دو چیزیں بہت بڑی ہیں، اس لئے تصوف کے اندر عبدیت نصیب ہوجائے اور شکر نصیب ہوجائے، تو بہت اچھا ہے۔ اللہ جل شانہٗ ہم سب کو نصیب فرمائے، آپ اس پر مزید شکر کریں، تاکہ مزید عطا ہو۔
سوال نمبر 7:
السلام علیکم۔ کیا حال ہیں حضرت! میرا ذکر تیسرا کلمہ، درود شریف، استغفار سو سو دفعہ اور ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ 200 دفعہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ 400 چار سو دفعہ، ’’حَقْ‘‘ 600 دفعہ اور ’’اَللّٰہ‘‘ 10000 مرتبہ ہے۔ اسے مہینے سے زیادہ ہوگیا ہے۔ آگے کیا حکم ہے؟
جواب:
فی الحال آپ اس کو جاری رکھیں، رمضان کے بعد پھر مجھے یہ بھیج دیں، پھر ان شاء اللہ! آپ کو بتا دوں گا۔
سوال نمبر 8:
پیارے حضرت، شیخ! السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کی رمضان المبارک میں تمام عبادات اور دعائیں قبول فرمائے (آمین) اَلْحَمْدُ للہ! مجھے آپ کے اعتکاف کے دوران والے آپ کے بیان اور دعائیں سن کر بہت فائدہ ہوا ہے۔ اور آپ کے زیادہ تر بیانات کو براہِ راست سننے کی پوری کوشش کی ہے، تاکہ مجھے محسوس ہو کہ میں آپ کے ساتھ اعتکاف میں ہوں۔ اَلْحَمْدُ للہ! میں نے وہ مجاہدہ شروع کردیا ہے جو آپ نے میری بیوی سے کھانے کی پلیٹ بنانے کے لئے دیا تھا، تاکہ وہ مجھے کھانے کے اوقات میں زیادہ نہ لینے دیں۔ اس سے مجھے کھانے کو مقرر مقدار میں رکھنے اور زیادہ نہ کھانے میں مدد مل رہی ہے اور اس سے میری عبادت کو بڑھانے میں بھی مجھے مدد ملی ہے۔ اَلْحَمْدُ للہ! میں اپنی تمام عبادات ادا کر رہا ہوں۔ میرا سوال یہ ہے حضرت! اگرچہ میرے لئے اپنی نماز اور معمولات جیسے نماز سنت کے ساتھ پڑھنا اور سورۃ یس، واقعہ اور سورۃ ملک باقاعدہ سے پڑھنا اور ثوابی ذکر کرنا آسان ہوگیا ہے، لیکن جب بھی ذکر علاجی کرنا چاہتا ہوں تو مجھے معلوم ہوتا ہے کہ میرا دل اور نفس اس سے بہت لڑتا ہے اور اس میں تاخیر کرتا رہتا ہوں، یہاں تک کہ وہ قضا ہوجائے۔ اس کی وجہ سے مجھے اس راستہ پر آگے بڑھنے میں بہت تاخیر ہو رہی ہے۔ براہ کرم مشورہ دیں کہ میں اس کو کیسے ٹھیک کروں؟ اور اس پر قائم رہوں۔ جب میرے لئے عبادت کی دوسری صورتیں آسان ہوگئی ہیں تو یہ ذکر میرے لئے اتنا مشکل کیوں ہو رہا ہے؟ جزاک اللہ خیراً۔ طویل پیغام کے لئے معذرت۔
جواب:
علاجی ذکر کیا ہے؟ اس کو ذرا تھوڑا سا سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ علاجی ذکر اپنے نفس، اپنے دل اور اپنی عقل کے علاج کے لئے ہے۔ نفس پابندی برداشت نہیں کرتا۔ یہ اپنے اوپر پابندی کیوں برداشت کرے؟ جبکہ شیطان کو پتا ہے کہ اس سے اس کا علاج ہوجائے گا اور پھر یہ میرے ہاتھ سے نکل جائے گا، اس لئے وہ آپ کو کیوں کرنے دے گا؟ ثوابی ذکر میں تو آپ کے دل میں عجب ڈال سکتا ہے کہ اوہ! میں نے تو اتنا ذکر کر لیا، بس اس طرح آپ کا سارا نظام ترک کردے گا یعنی اس کے پاس اس کی کنجی ہے، لیکن علاجی ذکر کی کنجی اس کے پاس نہیں ہے۔ کیونکہ علاجی ذکر سے تو آپ کا علاج ہوجائے گا، اس لئے وہ آپ کے لئے اسے مشکل بنائے گا، اور نفس بھی نہیں مانے گا اور شیطان بھی نہیں مانے گا۔ لیکن آپ نے اس کو علاج سمجھ کے کرنا ہے، علاج سمجھ کر کرنے سے مراد یہ ہے کہ بھائی! اگرچہ تکلیف ہو رہی ہے، لیکن علاج کے لئے تکلیف تو انسان اٹھاتا ہے۔ مثلاً آپریشن وغیرہ جو ہوتے ہیں، ان کے بارے میں کیا خیال ہے؟ کوئی خوشی خوشی آپریشن کراتا ہے؟ نہیں، بلکہ جب اس کو پتا چلتا ہے کہ میں مر جاؤں گا اگر آپریشن نہیں کرتا تو، بس پھر اس کے لئے بہت آسان ہوجاتا ہے۔ اسی طرح آپ یہ تصور کر لیں کہ اگر یہ علاجی ذکر میں نہیں کرتا تو یہ تو جہنم جانے کے لئے تیاری ہو رہی ہے، اس وجہ سے مجھے علاجی ذکر کرنا چاہئے، تاکہ ان رذائل سے بچ کر میں جہنم سے بچ جاؤں۔ اس تصور کے ساتھ آپ ذکر کریں، پھر ان شاء اللہ! مشکل نہیں رہے گا، یعنی اس کو اپنے ذہن کے اوپر سوار کر لیں کہ میرا علاجی ذکر جہنم سے بچنے کے لئے ہے، یہ کوئی سیر سپاٹا نہیں ہے کہ چلو ہوگیا تو ہوگیا، نہیں ہوا تو نہیں ہوا، بلکہ یہ تو لازمی چیز ہے، کیونکہ اپنے نفس کا علاج فرض عین ہے اور فرض عین کے لئے جو چیز ہوگی، وہ بھی اتنی اہمیت والی ہوگی۔ مثلاً آپ کسی ایسی جگہ جائیں اور وہاں وضو کا انتظام نہ ہو، تو آپ کتنے پریشان ہوجاتے ہیں وضو کا انتظام کرنے کے لئے، کیونکہ آپ کو نماز پڑھنی ہے، نماز فرض عین ہے، اور وضو کے لئے جو نظام ہے، وہ اس کے لئے ذریعہ ہے، اگر وہ آپ کو نہ ملے تو آپ کے لئے نماز مشکل ہوگی، اس لئے آپ کتنا اس کے لئے تگ و دو کرتے ہیں۔ اسی طریقے سے جو بھی فرض عین چیزیں ہیں، ان کے لئے جو چیزیں ضروری ہیں، ان کو آپ اس کا مقدمہ سمجھیں اور اس کے لئے اتنی اہمیت اپنے ذہن میں رکھیں، تاکہ آپ کو یہ چیزیں نصیب ہوجائیں۔ اور صحیح بات عرض کرتا ہوں کہ علاجی ذکر جو ہے، یہ آپ کے ثوابی ذکر کو بچانے کے لئے ہے، کیونکہ عجب سے آپ تب بچیں گے، جب آپ کا علاجی ذکر ہوگا، اس وجہ سے اپنے ثوابی ذکر کو بچانے کے لئے علاجی ذکر کرنا چاہئے۔
سوال نمبر 9:
سلام۔ uncle آپ سے بات کرنے کے لئے کال کرسکتے ہیں کیا؟
? When? Time
جواب:
اس وقت تو رمضان شریف ہے اور رمضان شریف میں ہم لوگ ٹیلی فون کال attend نہیں کرتے۔ البتہ رمضان شریف کے بعد ہمارا جو ٹائم ہوتا ہے، وہ 2 بجے سے 3 بجے تک روزانہ ہوتا ہے، لیکن جمعہ کے دن نہیں ہوتا۔ اور یہ landline پر کرنا ہوتا ہے، ہمارا landline نمبر میں آپ کو send کرتا ہوں، اسی پر کال کرنی ہوگی۔
سوال نمبر 10:
السلام علیکم۔ شیخ!
I have completed ‘‘لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ’’ two hundred times ‘‘لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ’’ four hundred times ‘‘حَقْ’’ six hundred times and ‘‘اَللّٰہ’’ thousand time. Please guide further. جزاک اللہ خیراً
جواب:
اب آپ اس طرح کر لیں کہ ’’اَللّٰہ‘‘ 1500 دفعہ کر لیں اور باقی چیزیں وہی رکھیں۔
سوال نمبر 11:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت جی دامت برکاتھم! اگر کوئی شخص آپ کی خانقاہ میں وقت لگانا چاہتا ہے، تو اس کی ترتیب کیا ہوگی؟ جزاک اللہ۔
جواب:
ماشاء اللہ! اس کے لئے کوئی پابندی نہیں ہے، بس آپ اپنے کوائف بھیج دیں کہ آپ کیا کرتے ہیں، کہاں پر ہوتے ہیں؟ آپ سارا اپنا تعارف وغیرہ بھیج دیں اور آئی ڈی کارڈ کا نمبر بھی بھیج دیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہماری جو خانقاہ ہے، یہ Self financed بنیاد پر ہوتی ہے یعنی اس میں حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے طریقہ پر اپنے اخراجات خود کرنے ہوتے ہیں۔ لہٰذا اس میں ہمارا جو روزانہ کا خرچ ہوتا ہے، وہ آپ کو بتا دیا جائے گا۔ آپ بتا دیں گے کہ کتنے دن آپ نے رہنا ہے، اس کے حساب سے آپ خانقاہ کے جو ذمہ دار ہیں ان کو رقم دے دیں۔ پھر ماشاء اللہ! آپ کی ساری چیزیں شروع ہوجائیں گی، اور جتنے دن آپ نے اس کے لئے کہا ہے، تو آپ بے فکر ہوکر اس میں وقت لگا سکیں گے۔ البتہ خانقاہ کے جو معمولات ہیں، اس کی پابندی کرنی ہوتی اور وہ آپ کو آنے پر بتا دیئے جائیں گے، ان شاء اللہ!
سوال نمبر 12:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
May اللہ تعالیٰ grant me توفیق to do شکر for having you in my life and grant توفیق for my complete اصلاح. I was wanting to ask three questions dear Sheikh,
No. 1 Through your barka I have a lot of concern for my family. Oftentimes, despite trying my best to be gentle and use حکمت over conversation, it turns into arguments as I get upset on coming from work and seeing no discipline in the house. I see with my own eyes the British and Jews having work discipline in their houses which makes me more upset that we as Muslims are generally quite lazy and have fallen behind. How can I manage this situation so that I am not too soft and not too harsh on the women? And what are the requirements to create a good ماحول at home?
(ماشاء اللہ)
No. 02. I ask this question with utmost respect and please forgive for any wrong in it as our اکابر such as Sheikh Zakriya, Maulana Ashraf رحمۃ اللہ علیہ would stop everything in Ramadan and only focus on the Quran. What is the reason that we still have programs and bayans (lectures) running in Ramadan in اعتکاف?
سبحان اللہ Very good question
No. 3 I received some money for doing تراویح without asking for it. What should I do with it and what is your general advice for the future in this regard? I apologize for the lengthy message. I am just in so much need of your guidance. Please forgive me for the sake of Allah.
جواب:
ماشاء اللہ! بہت اچھا ہے جو آپ نے ان چیزوں کو سوچا ہے۔ سب سے پہلے آپ نے جو سوچا ہے کہ میں جب دوسرے مذہب والوں کو دیکھتا ہوں یعنی جو Jews ہیں اور British لوگ ہیں، وہ Well disciplined ہیں اور ہم لوگ اتنے discipline نہیں ہیں، اس کا مجھے بہت قلق ہے۔ یقیناً قلق ہونا چاہئے۔ لیکن دیکھیں! میں آپ کو بات بتاؤں، جب تک آپ کو اپنے دشمن کی طاقت اور حالات کا اندازہ نہ ہو، اس وقت تک کام نہیں کیا جاسکتا۔ مثلاً شیطان کس کا ساتھ دے گا، آپ کا یا Jews اور British کا ساتھ دے گا؟ ظاہر ہے کہ ان کا ساتھ دے گا، اس لئے کہ وہ ان کو تو چھوڑ دیتا ہے، اور ان کو کچھ نہیں کہتا، لیکن مسلمان کے اوپر ساری کوششیں، ایک ایک منٹ، ایک ایک سیکنڈ کی کوششیں کہ یہ نہ کریں، یہ نہ کریں وغیرہ۔ جب کہ ان کو صرف اس پر رکھتا ہے کہ مسلمان نہ ہوں، باقی ان کو examplary بنانا ہے۔ لہٰذا وہ بہت تھوڑی کوشش سے یہ ساری چیزیں کرسکتے ہیں، کیونکہ رکاوٹ نہیں ہے۔ کیونکہ stream کے ساتھ جانے میں کونسا کمال ہے؟ بہت آسانی کے ساتھ ہوجاتا ہے، لہٰذا ان کے لئے کوئی مشکل نہیں، لیکن ہمارے لئے مشکل ہے۔ کیوں؟ ہم نے ان کے against کرنا ہے، اس لئے وہ ہمیں کریں گے۔ البتہ یہ میں آپ کو اس لئے نہیں کہتا کہ آپ lazy ہوجائیں اور آپ اس کی بہتری کا سوچیں ہی نہیں، میں یہ نہیں کہتا، بلکہ حقیقت جاننے کے لئے بتا رہا ہوں کہ آپ کو حقیقت کا پتا ہو، کیونکہ حقیقت پسندی کی وجہ سے کوشش زیادہ بہتر ہوجاتی ہے۔ اس لئے وہ میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ اس کے لئے آپ Slow but steady کے تحت سوچیں، کیونکہ rule یہی ہے کہ کسی چیز کو پانے کے لئے Slow and steady wins the race ہوتا ہے۔ یعنی consistency ہونی چاہئے، مسلسل ہونا چاہئے لیکن جو Reasonable speed ہو اس کے حساب سے کام ہونا چاہئے۔ دوسری بات یہ ہے کہ جو چیز حاصل ہے اس پر اللہ تعالیٰ کا پورا شکر کریں، تاکہ مزید عطا ہو اور اگر گھر میں کوئی خوبی آجائے شریعت کے مطابق تو اس طرح پورا شکر کریں اور آپ ان کو بتا بھی دیں، یعنی جو لوگ کریں ان کو اچھی طرح داد دے دیں، encourage کریں، اچھائیوں کو encourge کریں۔ اس سے پھر یہ ہوگا کہ اس سے resistance بھی ان کی کم ہوتی جائے گی اور ماشاء اللہ! خیر کی طرف وہ زیادہ بڑھیں گے۔ اور یہ ہم سب کا مسئلہ ہے کہ شیطان ہمیں خیر کی طرف نہیں جانے دیتا، لہٰذا ہم نے شیطان کا بھی مقابلہ کرنا ہے اور ماحول کا بھی مقابلہ کرنا ہے، اس لئے اس چیز کو جانتے ہوئے ہم یہ latitude ان کو بھی دیں کہ ان پر بھی سارے forces موجود ہیں۔ لہٰذا آپ ان کے ساتھ Slow and steady طریقے سے manage کرلیں۔ اور مختلف جگہوں کی اچھائیوں اور ماحولوں کی کارگزاریاں سنانے سے زیادہ بہتری آتی ہے اور پھر ایسی چیزوں کی طرف ترغیبی باتیں کرنے سے آہستہ آہستہ ماشاء اللہ! بہتری آتی ہے۔ اور تقریباً یہ ہر گھر کا مسئلہ ہے، یہ صرف آپ کے گھر کا نہیں ہے، بلکہ تقریباً ہر گھر کا مسئلہ ہے کہ اس کو چلانا پڑتا ہے، سارے لوگ آپ کی طرح نہیں سوچیں گے، لیکن آپ نے ان کو اپنی سوچ پر لانا تو ہے، اور اس کے لئے راہ اعتدال اختیار کرنی پڑے گی۔ دوسرا سوال بڑا insteresting ہے کہ میں حضرت مولانا زکریا صاحب رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے طریقہ پر کیوں نہیں چلا؟ straightforward جواب تو یہ ہے کہ نہ میں مولانا اشرف صاحب ہوں، نہ میں مولانا زکریا صاحب ہوں، میں تو شبیر احمد کاکاخیل ہوں اور میرا اپنا ماحول ہے، ان کا ماحول اور تھا، اور ان کے پاس جو آتے تھے وہ اور لوگ تھے، جبکہ میرے پاس جو آتے ہیں، وہ اور لوگ ہیں۔ لہٰذا اپنی حد میں جانتا ہوں۔ دوسری بات بہت بڑی ہے، اس پر میں نے استخارہ کیا تھا اور اسی point پر کیا تھا کہ مولانا زکریا صاحب اور مولانا اشرف صاحب رمضان شریف میں سب کچھ چھوڑ دیتے تھے (آپ کو پتا نہیں کہ کیسے کشف ہوگیا اس کا؟ کیونکہ میں نے باقاعدہ اس دفعہ استخارہ کیا ہے) لیکن میں کیوں اس طرح یہ سارا پروگرام چلاتا رہوں؟ کیا وجہ ہے؟ اب جواب سنیں۔ جواب دیا گیا اور کیا عجیب جواب دیا گیا کہ آپ ان بزرگوں کے طریقہ پر چلیں جن کے رمضان شریف میں معمولات بالکل نہیں بدلتے تھے۔ اب بتاؤ! یہ کون تھے؟ یہ مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ تھے۔ اس پر ایک تو مجھے خوشی ہوئی کہ حضرت کے نقش قدم پر اللہ تعالیٰ نے مجھے ڈالا ہے، یہ بہت بڑی نعمت ہے اور مناسبت ہے۔ بلکہ کئی چیزوں میں اَلْحَمْدُ للہ! یہ مناسبت اللہ تعالیٰ نے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ عطا فرمائی ہے، اس لئے اس میں بھی جو مجھے اشارہ ہوا ہے تو مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ ہمارے پروگرام بالکل نہیں بدلتے۔ اور یہ صرف رمضان میں ہی نہیں بدلتے، بلکہ حج پر جاتے ہیں، پھر بھی یہی پروگرام ہوتے ہیں، جبکہ وہاں کتنا مشکل ہوتا ہے یعنی منیٰ میں، عرفات میں، لیکن وہاں بھی ہم نے پروگرام جاری رکھے ہیں۔ آخر اللہ پاک کی توفیق سے ہی ہے۔ اور پھر مختلف سفروں میں بھی یعنی جتنے بھی سفر ہمارے ہوتے ہیں، لیکن پروگرام ہمارے یوں ہی چلتے ہیں اور اللہ نے اس کے حساب سے سارے انتظامات نصیب فرمائے ہیں، اس پر اللہ کا کتنا شکر ادا کروں۔ آپ اندازہ کر لیں کہ جب سے میں نے یہ پروگرام شروع کیے ہیں یعنی اجتماعی بیانات وغیرہ تو اس دور کا بہترین ریکارڈر اللہ میرے ہاتھ میں پہنچا دیتا تھا، باقی یہ کیسے ہوتا تھا، یہ تو اللہ کا کام ہے۔ اور کئی دفعہ میں نے سوچا کہ بس بہت ریکارڈنگ ہوگئی ہے، اب مزید نہیں کرنی، لیکن پھر کیا ہوتا ہے؟ کوئی ایسا بیان ہوجاتا ہے، جس پر میں خود کوفت کرتا ہوں کہ میں نے کیوں ریکارڈ نہیں کیا، اب اس کو دوبارہ کون reproduce کرے گا، کیونکہ reproduce تو ہو نہیں سکتا۔ لہٰذا یہ اللہ پاک کی دین ہے، اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم ہے، اللہ نے اگر ہمیں اس لائن پر رکھا ہے اور اس طریقے سے رکھا ہے تو یہ اس کا فضل ہے، ہماری تو کوئی حیثیت ہی نہیں ہے کہ ہم کہیں کہ ہمیں فلاں کی طرح بنادو، اللہ تعالیٰ جس طرح بھی جس کو رکھے، تو وہ اس طرح رکھ لیتا ہے۔ بہرحال یہ تو مقام شکر ہے، اَلْحَمْدُ للہ۔ اور پیسوں والی بات پھر ان شاء اللہ! میں آپ کے ساتھ کر لوں گا۔
سوال نمبر 13:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت جی! میں اسلام آباد سے فلاں عرض کر رہا ہوں۔ سب سے پہلے آپ سے معذرت خواہ ہوں کہ رمضان المبارک کے دوران آپ کے پاس حاضر نہیں ہوسکا۔ حضرت جی! ایک لمبے عرصے کے بعد اس رمضان المبارک کی برکت اور آپ کی دعا سے مجھے معمولات دوبارہ شروع کرنے کی توفیق نصیب ہوئی ہے۔ گزشتہ دو ہفتے سے میں نے ان اسباق کو وہیں سے شروع کردیا ہے جہاں سے چھوڑا تھا۔ اس کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے۔ دو سو دفعہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘، چار سو دفعہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘، چھ سو دفعہ ’’حَقْ‘‘ اور سو دفعہ ’’اَللّٰہ‘‘، اور پندرہ منٹ کا مراقبہ ہے۔ حضرت جی! اللہ کا شکر ہے کہ معمولات جاری رکھنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئی۔ ایک دن کا ناغہ ہوا تھا، جو میری اپنی سستی کی وجہ سے ہوا تھا۔ اذکار کے دوران اس طرح تصور کرنے سے میں قاصر ہوں جیسا کہ آپ نے ہدایت کی ہے۔ توجہ ذکر پر ہی مرکوز رہتی ہے، لیکن ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ کے اذکار کے دوران میرا تصور الگ الگ نہیں ہوتا، بالکل ایک سا ہوتا ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور صرف اس کی موجودگی کا میرے دل میں تصور ہوتا ہے۔
جواب:
ماشاء اللہ! اچھی سوچ کے ساتھ کر رہے ہیں یعنی وہ چیزیں catch کر رہا ہے۔ البتہ یہ بات سمجھ لیں کہ ایک ہوتا ہے اسم ذات اور ایک ہوتا ہے اسم ضمیر۔ اسم ذات تو اللہ کا نام ہے یعنی یہ اللہ کا ذاتی نام ہے، باقی صفاتی نام ہیں۔ اور اسم ضمیر وہ ہوتا ہے جو انسان کے دل میں ہوتا ہے یعنی میں جس کے بارے میں کہہ رہا ہوں، بس وہی ہوتا ہے، مثلاً آپ کہیں: وہ۔ تو اس وہ سے کیا مراد ہے؟ وہ سے مراد وہی ہے جو آپ کے دل میں ہے یا جس کی طرف آپ اشارہ کر رہے ہیں۔ لہٰذا وہ اسم ضمیر ہے، اس میں انسان کے اندر جو سوچ ہے یا جس کی طرف وہ اشارہ کر رہا ہوتا ہے، وہی اس کے ساتھ شامل ہوتا ہے۔ اب یہی بات اگر دیکھیں تو بعض حضرات اسم ذات کا ذکر کر کے بھی غافل ہوتے ہیں یعنی وہ ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کر رہے ہوتے ہیں، لیکن سوچیں ان کی دوسری ہوتی ہیں، اس کا مطلب ہے کہ بس وہ عادی ہوجاتے ہیں، صرف وہ زبان پر چل رہا ہوتا ہے، لیکن ذہن اس کے ساتھ نہیں ہوتا۔ لیکن ھُو میں ایسا نہیں ہوسکتا، کیونکہ ھُو complete ہی نہیں ہوگا، اس لئے کہ اس ھُو میں آپ نے ایک side متعین کرنی ہے کہ کس کا میں کہہ رہا ہوں۔ اس لئے ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ کا ذکر بہت powerful ذکر ہے، یہ قادری سلسلے کا ذکر ہے اور اس میں ماشاء اللہ! کیفیتِ حضوری نصیب ہوجاتی ہے۔ اور ماشاء اللہ! یہ بات اگر کسی کو نصیب ہوجائے تو بڑی بات ہے۔ ھُو کے ذکر کے ساتھ مناسبت اللہ کی دین ہے، بس جس کو بھی نصیب ہوجائے، اور یہ قادری سلسلے کا خصوصی ذکر ہے۔
سوال نمبر 14:
حق کے ذکر کے دوران میں یہ تصور قائم کرنے کی کوشش کرتا ہوں کہ میرے دل پر باطل چیز نکل کر صرف حق کی جگہ بن رہی ہے، لیکن میرا اصل تصور جو ذکر کے دوران قائم رہتا ہے وہ یہ ہے کہ حق کے علاوہ سب کچھ non-existence ہے یعنی صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے، جس کا ایک صفاتی نام حق ہے، اس حق کے علاوہ سرے سے کوئی موجود ہی نہیں ہے اور اگر ہے تو صرف نظر کا دھوکہ ہے، حق اگر عیاں ہے پھر بھی موجود ہے۔ آخر میں حق نے ظاہر بھی ہوجانا ہے اور فاتح بھی ہوجانا ہے، یہی Ultimate truth ہے، اس کے علاوہ سب باطل ہے۔
جواب:
اس انداز میں ٹھیک ہے کہ یا تو باطل ہوگا یا حق ہوگا، اور جو حق ہے، وہ حق ہے۔ اور باطل کے مقابلہ میں تو حق ہے، اس لئے اللہ پاک نے قرآن پاک میں فرمایا ہے:
﴿جَآءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُؕ- اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوْقًا﴾ (بنی اسرائیل: 81)
ترجمہ: ’’حق آن پہنچا، اور باطل مٹ گیا، اور یقیناً باطل ایسی ہی چیز ہے جو مٹنے والی ہے ‘‘۔
اور آپ ﷺ نے بھی اس کا حق ایسے ادا فرمایا کہ خانہ کعبہ میں جو بت پڑے ہوئے تھے، وہ جب توڑ رہے تھے تو یہی فرما رہے تھے:
﴿جَآءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُؕ- اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوْقًا﴾ یعنی آپ یہ پڑھتے جاتے اور بت کو توڑتے جاتے۔ لہٰذا اگر ہم بھی اس سوچ کے ساتھ اس کو کریں کہ ہمارے دل کے اندر جو بت ہیں وہ اس کے ذریعہ سے ٹوٹ رہے ہیں، جیسے ’’حَقْ حَقْ حَقْ‘‘ کہتے ہوئے آپ کو محسوس ہو رہا ہو کہ باطل کے جو بت ہیں وہ ٹوٹ رہے ہیں۔
سوال نمبر 15:
اللہ کے ذکر کے دوران مجھے یوں محسوس ہوا کہ میرے ساتھ دو لوگ اور ہیں جو میرے اندر موجود ہیں اور میرے ساتھ ذکر کر رہے ہیں، ایک مرتبہ تو ایسے محسوس ہوا کہ جیسے لوگوں کا ایک گروپ میرے پیچھے بیٹھ کر ذکر کر رہا ہے۔ کبھی یہ گمان ہوتا ہے کہ میرے سینے کے کسی نقص کی وجہ سے تین آوازیں سنائی دیتی ہیں۔
جواب:
فرشتے ہر وقت موجود ہوتے ہیں۔
سوال نمبر 16:
پندرہ منٹ مراقبہ کو میں پورا نہیں کر پاتا، کبھی دس منٹ، کبھی بارہ منٹ، کبھی اس سے بھی کم پر آنکھیں کھول لیتا ہوں۔ مراقبہ کے دوران میری توجہ اپنے دل کی دھڑکن پر مرکوز ہوجائے تو ایسے محسوس ہوتا ہے کہ یہ دل کی دھڑکن ہی ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کا ذکر ہے۔ کبھی گمان ہوتا ہے کہ یہ تو دھڑکن کی آواز ہے۔ گزشتہ تین دن سے دھڑکن کی آواز یا حرکت محسوس کیے بغیر ایسے محسوس ہوتا ہے کہ ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کا ذکر ہوتا ہے اور ذکر پر زیادہ توجہ مرکوز نہیں رہ سکی۔
جواب:
ٹھیک ہے، یہ آہستہ آہستہ بڑھے گا ان شاء اللہ!
سوال نمبر 17:
حضرت جی! میں نے تقریباً دو سال کے بعد معمولات شروع کیے ہیں۔ براہِ کرم میری رہنمائی فرمائیں اور میرے لئے استقامت کی دعا بھی فرمائیں۔
جواب:
(آمین)
سوال نمبر 18:
السلام علیکم۔ حضرت! کیا تجلی صوری کسی بھی شکل میں ہوسکتی ہے؟ اور کیا یہ شیخ کی شکل میں بھی ہوسکتی ہے؟
جواب:
اصل میں یہ بہت complicated نظام ہے۔ اس میں ہم کچھ تصور نہیں کرسکتے، کیونکہ جو کچھ ابھی ہوا نہیں، اس کے بارے میں ہم کیا کہہ سکتے ہیں کہ یہ کیا چیز ہوسکتی ہے؟ البتہ یہ بات ہے کہ تجلی تنزل ہے اور اس میں تشبیہ ہے، اور جب تشبیہ والی بات ہوتی ہے تو پھر اس سے آہستہ آہستہ تنزیہ کی طرف لایا جاتا ہے۔ اس وجہ سے آپ اپنے ذہن کو اس کی حقیقت پر مرکوز کریں اور شکل کو آپ اہمیت نہ دیں، کیونکہ شکل کوئی بھی ہوسکتی ہے، وہ شکل حقیقی نہیں ہے، اصل اس کے پیچھے اس کی حقیقت ہے، اس کی طرف آپ دھیان رکھیں۔
سوال نمبر 19:
السلام علیکم۔ حضرت! میں فرانس سے فلاں ہوں۔ آپ نے مجھے دس منٹ کا مراقبہ دیا تھا، جو میں نے تین دن بہت مشکل سے کیا، کیونکہ مجھے دس منٹ زیادہ لگے ہیں۔ میں شروع میں دل پر غور کرتی ہوں تو دل ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کرتا محسوس ہوتا ہے، اور اس دوران بار بار سو جاتی ہوں۔ اور مراقبہ کرتے ہوئے منہ کا خانہ کعبہ کی طرف ہونا ضروری ہے؟
Second question یہ ہے کہ میرا سات سال کا بیٹا ہے، اسے نماز کا پابند کیسے کروں؟ سکول میں co-education ہے، اس کا کیسے concept clear کروں کہ Opposite gender سے دور رہے۔
جواب:
ہاں! مراقبہ کرتے ہوئے خانہ کعبہ کی طرف منہ کرنے میں فائدہ ہے اور اس طرح کرنے میں concentration بھی بڑھتی ہے اور اس میں اور بھی فائدے ہیں، لیکن اگر مجبوری ہو، جیسے آپ train میں جا رہی ہوں، تو اس وقت چونکہ آپ کے بس میں نہیں ہوگا، اس وقت آپ جس طرف بھی رخ کریں تو وہ ٹھیک ہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿فَأَیْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْهُ اللّٰهِ﴾ (البقرہ: 115)
ترجمہ: ’’لہٰذا جس طرف بھی تم رخ کرو گے، وہیں اللہ کا رخ ہے‘‘۔
لیکن اگر آپ کے بس میں ہے، تو پھر آپ اس کو کر لیا کریں۔ باقی سو جانے والی جو بات ہے، اس میں آپ یہ کریں کہ تھکاوٹ میں مراقبہ نہ کیا کریں، بلکہ Fresh time میں کیا کریں۔ ان شاء اللہ! پھر ایسے نہیں ہوگا۔
سوال نمبر 20:
السلام علیکم۔ حضرت جی! صدقۂ فطر عید کی نماز سے پہلے دینا چاہئے یا صدقۂ فطر عید سے کچھ دن پہلے بھی دے سکتے ہیں؟ اگر دے سکتے ہیں تو کتنے دن پہلے دینے کی اجازت ہے؟
جواب:
جی دے سکتے ہیں۔ ابھی بھی دے سکتے ہیں، اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
سوال نمبر 21:
السلام علیکم۔ جناب! آپ سے ایک سوال تھا کہ اکثر جب میں نماز اور ذکر کرتا ہوں تو مجھے یہ خیال آتا ہے کہ جو کوئی بھی مجھے دیکھ رہا ہے، تو وہ مجھے نیک سمجھ رہا ہوگا۔ مجھے ڈر ہے کہ کہیں مجھے شرک کی بیماری نہ لگ جائے۔ اس لئے مہربانی فرما کر کوئی ایسا حل بتا دیں جس سے میرے اندر اخلاص پیدا ہوجائے۔
جواب:
اخلاص پیدا کرنے کے لئے تو یہ سارا تصوف ہے، لیکن ایک دو باتوں سے یہ حاصل نہیں ہوسکتا، البتہ کوشش جاری رہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ جو ریا ہے، یہ اختیاری عمل ہے، غیر اختیاری چیز نہیں ہے یعنی یہ خود بخود نہیں لگتا۔ اس لئے اگر آپ کا ارادہ نہیں ہے کہ لوگ آپ کو دیکھیں تو پھر ریا کا وسوسہ ریا نہیں ہے، اس لئے آپ اس کی پروا نہ کریں۔ چاہے ہزار لوگ آپ کو دیکھیں، آپ کو اس سے کیا! مجھے حضرت نے فرمایا تھا کہ کبھی آپ نے سوچا ہے کہ چٹائیاں آپ کو دیکھ رہی ہیں؟ میں نے کہا نہیں۔ فرمایا: بس لوگوں کو چٹائیاں سمجھو، لوگ آپ کو کیا دے سکتے ہیں؟ لہٰذا آپ لوگوں کی پروا ہی نہ کریں، لوگ دیکھیں، بلکہ لوگوں کے دیکھنے کی وجہ سے رک جانا وہ بھی ریا شمار کیا گیا ہے۔
سوال نمبر 22:
السلام علیکم۔ حضرت! آپ نے فرمایا تھا کہ بعض خاندانوں میں صبر ہوتا ہے، اور اسی طرح بعض لوگ خاندانی طور پر غصے والے ہوتے ہیں۔ لہٰذا اب غصے کا علاج ہر فرد کے لئے الگ ہوتا ہے یا کوئی ایک ہی عمل سب کے لئے کافی ہوگا؟
جواب:
جب شیخ کے ساتھ تعلق ہوتا ہے تو شیخ کو اپنی ساری چیزیں بتانی ہوتی ہیں، جب وہ جان لیتا ہے کہ ان کے یہ احوال ہیں، تو پھر وہ اس کے مطابق dose دیتا ہے۔ لہٰذا اپنے شیخ سے آپ رابطہ کریں، ان شاء اللہ! ایسے ہی ہوگا۔ اور ہر شخص اپنے شیخ سے فرداً فرداً رابطہ کرتا ہے، کیونکہ سب لوگ ایک جیسے نہیں ہوتے، بلکہ دو بھائی بھی ایک جیسے نہیں ہوتے۔ میرا تجربہ ہے کہ ایک جیسے نہیں ہوتے۔ اس لئے ہر ایک کا علاج اپنے طور پر ہوتا ہے۔ کیوں کیا خیال ہے؟ ایک دوائی سے اگر علاج ہوجائے اور بندہ ٹھیک ہوجائے تو پھر دوسرے کو بھی وہی دوائی دے دیں؟ پھر تو ڈاکٹروں کی ضرورت کم پڑے گی، سارا کچھ ٹھیک ہوتا چلا جائے گا۔ لہٰذا اس طرح ٹھیک نہیں ہے۔
سوال نمبر 23:
اگر اصلاحی ذکر میں ناغہ ہوجائے تو کیا کرے؟
جواب:
استغفار کرے۔ اور اس چیز کو experience بنا دے کہ ناغہ کس وجہ سے ہوا تھا اور پھر آئندہ اس experience سے فائدہ اٹھا کر ناغہ بالکل نہ کرے، لیکن اس علاج کو آپ دوبارہ نہیں کرسکتے کہ دوسرے دن کے ساتھ ملا کے آپ یہ کر لیں۔ مثال کے طور پر اگر آپ کو ڈاکٹر نے antibiotics دی ہو اور اس میں ناغہ ہوگیا ہو تو کیا اگلے دن آپ اس کو ڈبل کھا سکتے ہیں؟ نہیں، اگلے دن کے ساتھ آپ نہیں کھا سکتے، ورنہ وہ overdose ہوجائے گی، کیونکہ پہلے والی underdose ہو اور دوسری overdose ہو تو دونوں اعتدال سے باہر ہیں، دونوں کا کام خراب ہے۔ اس کی مثال تو ایسے ہے جیسے ایک شخص کو lose motion لگے تھے، آگے نہر آئی تو اس نے اس سے jump لگایا، دوسرے ساتھی نے کہا بھائی! اس میں jump نہیں لگانا ہوتا، تو وہ واپس jump لگا کر کہتا ہے کہ چلو نہ سہی۔ تو یہ Double dose ہوجائے گا، اس لئے دوبارہ نہ کرے، البتہ آئندہ اس سے عبرت سیکھیں، Experience gain کریں کہ یہ مجھ سے ہوا کیوں تھا؟ تاکہ آئندہ اس چیز کو نہ ہونے دیں، اور پھر دوبارہ ناغہ نہ ہو۔
سوال نمبر 24:
السلام علیکم۔ حضرت جی! اللہ پاک سے دعا ہے کہ آپ سلامت رہیں۔ رہنمائی فرمائیں۔
نمبر 1: ہر لطیفے کا سالک کی طبیعت کے اوپر کوئی اثر ہوتا ہے؟ مثلاً غصہ، خاموشی، اللہ پاک کی محبت کا غالب ہونا وغیرہ وغیرہ یا نہیں؟
نمبر 2: اللہ پاک بے نیاز ہے، ہماری کوئی بھی عبادت اللہ کی شان کے مطابق نہیں ہوسکتی، ہم کمزور بھی بہت ہیں۔ اس لئے ہم جو عبادت کرتے ہیں، تو کیسے کہہ سکتے ہیں کہ اللہ پاک کے ہاں قبول بھی ہو رہی ہے؟
جواب:
اللہ کے فضل کو بھول رہے ہو، اللہ تعالیٰ کا فضل بھی ہوتا ہے اور جب اللہ کا فضل ہو تو پھر اللہ پاک اپنے فضل سے قبول بھی فرماتے ہیں۔
نمبر 3: حضرت جی! آپ کی معیت میں زیارت بیت اللہ کی خواہش ہے اور اس تمام سفر کو قلمبند بھی کرنا چاہتا ہوں۔ اللہ پاک سے دعا فرمائیں کہ اس کے اسباب بنا دے۔ (آمین)
جواب:
بہرحال یہ ہے کہ ہر لطیفہ کا سالک کی طبیعت کے اوپر اثر ضرور ہوتا ہے، لیکن یہ اثر جذبی ہوتا ہے۔ جذبی سے مراد یہ ہے کہ یہ وقتی ہوتا ہے، اس سے آپ نفس کی اصلاح میں فائدہ اٹھا سکتے ہیں، اور اس کے لئے مجاہدہ کرنا پڑتا ہے اور پوری ترتیب بنانی پڑتی ہے، پھر اس سے inspire ہوکر آپ وہ کام آسانی کے ساتھ کر لیتے ہیں، ورنہ بعض لوگ تو کہتے ہیں کہ فلاں لطیفے کے ساتھ فلاں نفس کی اصلاح ہوگئی، تو بس وہ بے فکر ہوگئے۔ نہیں بھائی! ایسے نہیں ہے، بلکہ نفس کا علاج مستقل ایک چیز ہے اور نفس باقاعدہ ایک مستقل لطیفہ ہے، اس لئے اس کا مستقل علاج ہوتا ہے۔ اور نفس کا علاج علاج بالضد ہے یعنی اس کی خواہش کے خلاف کرنا، جو مجاہدہ کہلاتا ہے۔ مجاہدہ کے ذریعہ سے نفس کا علاج ہوتا ہے، لیکن وہ شیخ بتاتا ہے۔ جس طرح بھی وہ بتائے، اس طریقہ سے کام کرنا ہوتا ہے۔ باقی جو جذب حاصل ہو، تو جذب اس میں استعمال کیا جاتا ہے۔
سوال نمبر 25:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت جی! اللہ پاک سے آپ کی صحت اور تندرستی اور بلند درجات کے لئے دعاگو ہوں۔ میرا مسئلہ یہ ہے کہ کچھ عرصہ سے لوگوں کے لئے دل میں حقارت پیدا ہوگئی ہے، جس کو بھی غلطی کرتے ہوئے دیکھتا ہوں، اس کو جاہل اور اس طرح کے دوسرے القابات سے نوازنا شروع کردیتا ہوں، جبکہ اپنی جہالت ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ لوگوں سے بہت جلدی بدگمان ہوجاتا ہوں۔ برائے مہربانی اس بارے میں رہنمائی فرمائیں۔ اللہ پاک آپ کو اور آپ کے جملہ متعلقین کے لئے بے حد آسانیاں پیدا فرمائے اور دنیا اور آخرت میں اجر عظیم عطا فرمائے۔
جواب:
اس کا جواب یوں سمجھ لیجئے کہ چونکہ آپ اس کو خود برا سمجھ رہے ہیں، اس لئے اس کی ضد موجود ہے۔ دراصل یہ حقارت کا وسوسہ بھی ہوسکتا ہے، وسوسہ سے مراد یہ ہے کہ وہ غیر اختیاری چیز ہے۔ لہٰذا اگر غیر اختیاری ہو تو اس کی پروا نہ کریں اور اگر آپ کا ارادہ اس کے ساتھ شامل ہے تو اپنے ارادہ کے مطابق اس کو نہ ہونے دیں، کیونکہ اختیاری کا علاج بھی اختیاری ہوتا ہے، اس لئے اس کا علاج آپ کے پاس خود موجود ہے۔
سوال نمبر 26:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
Respected Hazrat Sheikh, I pray that you and your loved ones are well آمین. Hazrat I have completed this month ذکر without miss اَلْحَمْدُ للہ.
’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ two hundred times ‘‘لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ’’ four hundred times ‘‘حَقْ’’ six hundred times ‘‘اَللّٰہ’’ thousand. مراقبہ ten minutes Allah on لطیفۂ قلب, fifteen minutes on لطیفۂ روح. One day I had a bad cough so I wished the جہری ذکر that day would not trigger the cough.
جواب:
(Ok بالکل correct)
Question: While sitting in your صحبت listening live can we focus on your heart and imagine a ray of energy فیض transferred from your heart to increase focus?
جواب:
میں بزرگوں کی بات بتا سکتا ہوں، وہ یہ ہے کہ شیخ کی مجلس میں اس نیت سے بیٹھیں کہ جو فیض میرے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے شیخ کے دل پر آرہا ہے، وہ ان کے دل سے میرے دل کی طرف آرہا ہے۔ بلکہ یہاں تک فرماتے ہیں کہ ذکر لسانی شیخ کی مجلس میں اس لئے نہ کریں، تاکہ اس چیز میں کمی نہ ہو، کیونکہ یہ جو focus والی کیفیت ہے یعنی شیخ سے لینے والی، یہ آپ کو شیخ کی مجلس میں مل سکتی ہے، کسی اور جگہ نہیں مل سکتی، آپ چونکہ شیخ کی مجلس میں ہیں، اس وجہ سے اس چیز کو حاصل کریں، جبکہ لسانی ذکر تو آپ ہر جگہ کرسکتے ہیں۔ تو یہ بات بزرگ فرماتے ہیں، اس لئے اس پر انسان عمل کرسکتا ہے۔ باقی جو ذکر ہے، وہ فی الحال یہی رکھیں، ان شاء اللہ! رمضان کے بعد change کریں گے۔
سوال نمبر 27:
حضرت جی! سہروردی سلسلے کے کلام اور اذکار سے دل میں عجیب کیفیت پیدا ہوتی ہے۔
جواب:
ماشاء اللہ! ممکن ہے کہ آپ کو سہروردی نسبت دی گئی ہو۔ اللہ جل شانہٗ اس کو اور بھی بڑھا دے۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ