اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال نمبر 1:
نمبر 5:
تمام لطائف پر پانچ منٹ ذکر اور مراقبہ حقیقتِ کعبہ پندرہ منٹ، یہ بات محسوس ہوئی ہے کہ خانہ کعبہ کی عظمت اللہ تعالیٰ کی نسبت کی وجہ ہے۔ اس کے علاوہ اپنے اندر کافی تبدیلی محسوس ہوئی لیکن ان تبدیلیوں کو میں بیان نہیں کر سکتی۔
جواب:
مَاشَاءَ اللہ آپ اس کو فی الحال جاری رکھیں۔
نمبر 6:
ابتدائی وظیفہ بلاناغہ پورا کر لیا ہے۔
جواب:
اب ان کو دس منٹ کے لئے دل والا مراقبہ بتا دیں۔
نمبر 7:
تمام لطائف پر دس منٹ ذکر اور مراقبۂ شیوناتِ ذاتیہ پندرہ منٹ۔ صفات کے بارے میں یقین حاصل ہوگیا ہے کہ اللہ تعالیٰ میں یہ صفات موجود ہیں، تمام کائنات کا خالق اور فنا کرنے والی ذات اللہ تعالیٰ کی ہے۔ لیکن شیونات کے بارے میں کچھ محسوس نہیں ہوتا۔
جواب:
اصل میں شیونات شان کی جمع ہے اور شان سے صفات وجود میں آتی ہیں۔ جیسا کہ کسی میں کچھ خاص صفات ہوں تو لوگ کہتے ہیں اس کی بڑی شان ہے۔ تو اس شان کے ساتھ ہی تمام صفات کا تعلق ہوتا ہے۔ تو یہ اللہ جل شانہٗ کی صفاتِ ثبوتیہ کا آپ نے مراقبہ کیا ہے۔ اس کے بعد پھر ان صفات کی جو شان ہے اس کی طرف آپ متوجہ ہو رہی ہیں، گویا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کی طرف متوجہ ہو رہی ہیں۔ تو اس میں اب آپ کو صفات کے بجائے ذات کی طرف توجہ لانی چاہئے۔ اس کو فی الحال جاری رکھیں اسی طرح جس طرح میں نے بتا دیا ہے۔
نمبر 8:
تمام لطائف پر پانچ منٹ ذکر اور مراقبۂ شانِ جامع پندرہ منٹ، اللہ تعالیٰ کی تمام ثبوتی اور سلبی صفات پر یقین پختہ ہوگیا ہے اور یہ ادراک نصیب ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ہر شان بہت اعلیٰ ہے۔
جواب:
سبحان اللہ ٹھیک ہے۔ ابھی آپ ان کو مراقبۂ معیت کا بتا دیجئے گا۔
نمبر 9:
تمام لطائف پر دس منٹ ذکر اور مراقبۂ شیوناتِ ذاتیہ پندرہ منٹ، یہ محسوس ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی شان ہر وقت مختلف ہے۔ مراقبہ میں کبھی کبھی ایسا استغراق نصیب ہوجاتا ہے کہ معین وقت سے مراقبہ بڑھ جاتا ہے۔
جواب:
ماشاء اللہ یہ بالکل صحیح ہے، اب مراقبۂ شیوناتِ ذاتیہ کے بعد سلبیہ کا ان کو بتا دیجئے گا۔
نمبر 10:
اسمِ ذات کا زبانی ذکر دو ہزار ہے۔
جواب:
تو اب اڑھائی ہزار کر لیں۔
نمبر 11: تمام لطائف پر دس منٹ ذکر اور مراقبۂ صفاتِ ثبوتیہ پندرہ منٹ، اللہ تعالیٰ کی تمام صفات کا یقین ہوگیا ہے۔
جواب:
اب ان کو شیوناتِ ذاتیہ کا بتا دیں۔
نمبر 12: اسمِ ذات کا زبانی ذکر پندرہ سو۔
جواب:
اب ان کو دو ہزار بتا دیں۔
نمبر 13: لطیفۂ قلب پندرہ منٹ، لطیفۂ روح پندرہ منٹ دونوں پر محسوس ہوتا ہے۔
جواب:
اب ان کو لطیفۂ سِر کا بتا دیں۔
سوال نمبر 2:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! حضرت جی میں نے چالیس دن پورے کر لیے ہیں اب آگے کیا حکم ہے؟ جَزَاکَ اللہُ۔
جواب:
اب آپ اس طرح کر لیں کہ تیسرا کلمہ، درود شریف اور استغفار کا وظیفہ روزانہ سو سو دفعہ عمر بھر کے لئے آپ کریں گی، اور ہر نماز کے بعد جو ذکر آپ کو بتایا ہے وہ بھی عمر بھر جاری رکھیں گی۔ البتہ اب یہ ہے کہ دس منٹ کے لئے آپ نے آنکھیں بند کر کے، زبان بند اور قبلہ رخ بیٹھ کے یہ تصور کرنا ہے کہ میرا دل اَللہ اَللہ کر رہا ہے۔ ذکر کوئی دل کو کروا نہیں سکتا لیکن جب خود بخود شروع ہوجائے تو پھر کم از کم آپ کو اس کا پتہ چلنا چاہئے، اس وجہ سے دس منٹ آپ اس کی طرف متوجہ ہوکر بیٹھ جایا کریں کہ اگر شروع ہوا ہو تو کم از کم آپ کو محسوس ہو۔ تو یہ دس منٹ کے لئے آپ روزانہ تصور کر لیں کہ میرا دل ذکر کر رہا ہے، یہ ایک مہینہ کے لئے کر کے پھر مجھے بتانا ہے۔
سوال نمبر 3:
السلام علیکم! شیخ جیسا کہ آپ نے حکم دیا کہ رمضان کے بعد آپ کو اطلاع کروں تو ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘ دو سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ چار سو مرتبہ ’’حَقْ‘‘ چھ سو مرتبہ ’’اَللہْ‘‘ پانچ سو مرتبہ اور تیسرا کلمہ، درود شریف، استغفار سو سو مرتبہ، لطیفۂ قلب دس منٹ، لطیفۂ روح دس منٹ، لطیفۂ سِر پندرہ منٹ، یہ مراقبات مکمل ہوگئے ہیں۔ کیفیات: حضرت مراقبہ کے دوران کبھی کبھی نیند آجاتی ہے۔ لطیفۂ قلب، لطیفۂ روح، لطیفۂ سِر پر حرارت محسوس ہوئی ہے، دل میں پہلے کچھ درد سا محسوس ہوتا تھا جو اب نہیں ہو رہا، نماز اور اذکار میں پوری توجہ نہیں رہتی۔
جواب:
ابھی آپ اس طرح کریں کہ لطیفۂ سِر کے بعد آپ لطیفۂ خفی کا ذکر شروع کر لیں، بس شرط یہ ہے کہ ان تینوں پر ہو رہا ہو، اگر نہیں ہو رہا ہے تو پھر مجھے بتا دیں، لیکن آپ کہتے ہیں کہ حرارت محسوس ہوتی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ہو رہا ہوگا، اس لئے اسے confirm کر لیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ جو نیند آجاتی ہے تو آپ fresh وقت میں اس کو کر لیا کریں تھکے ہوئے وقت میں نہ کیا کریں، یا پھر اس سے پہلے کچھ چائے وغیرہ پی لیا کریں تاکہ آپ کو اپنا آپ fresh محسوس ہو اور مراقبہ میں alert رہیں کیونکہ مراقبہ سونے کے لئے نہیں ہے یہ تو alert ہونے کے لئے ہے۔
سوال نمبر 4:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! میں فلاں ہوں۔ اللہ پاک آپ سے راضی ہو علاجِ ذکر کو دو ماہ ہوگئے تھے، پانچ منٹ سب لطائف کا ذکر اور مراقبۂ تنزیہ و صفاتِ سلبیہ کا ملا ہوا تھا ساتھ ہی مراقبۂ دعائیہ دس منٹ۔ حضرت جی خیالات تھوڑے بہتر ہوئے ہیں لیکن ابھی بھی رہتے ہیں ذکر محسوس ہوتا ہے اَلْحَمْدُ للہ شکر کی کیفیت میں مزید بہتری آئی ہے۔ حضرت جی فلاں صاحب کے ذریعہ علاج بھی کر رہے ہیں اس بارے میں دوائی کے اثر سے نیم بے ہوشی کی کیفیت میں پہلے لگا کہ اس دنیا میں میرا کوئی نہیں ہے، بہت دکھی تھی پھر سب سے نا امید ہونے کے بعد اللہ پاک نے دل میں ڈالا کہ اگر میں تمہارا ہوجاؤں تو کیا پھر بھی تمہیں کوئی چاہئے؟ جس کو میں مل جاؤں اس کو سب مل جاتا ہے۔ یہ دنیا غلیظ ہے، یہ تمہارے لئے نہیں ہے، میرے پاس آ کر سب مل جائے گا۔ پھر ایک دم مجھے یہ لگا کہ مجھے واقعی اللہ مل گئے، میں اس خوشی اور سکون کی کیفیت میں شکر سے بھر گئی اور اتنا زیادہ روئی کہ کبھی زندگی میں اتنا نہیں روئی تھی، وہ اتنے سکون کی کیفیت تھی میں پوری دنیا اس کیفیت پر قربان کر دوں۔ مجھے یقین آیا کہ اللہ تعالیٰ کے سب وعدے سچے ہیں اور میں جتنی بھی کمزور اور گناہگار ہوں لیکن اللہ مجھ سے بہت پیار کرتا ہے اور میرا دل کر رہا تھا کہ پوری دنیا کو چیخ کر بتاؤں کہ مجھے وصال ہوگیا ہے، میں نے اللہ پاک کو پا لیا ہے۔ میری دوائی کا اثر بھی تھا، شکر سے دل بھر گیا اور بوجھل ہوگیا، وہ وقتی طور پر تھا لیکن اب نعمتوں پر توجہ زیادہ جا رہی ہے کہ ان کا ہونا کتنی آزمائش ہے اور ہم شکر کرنا بھول جاتے ہیں۔ اب کھانا کھاتے اور موسم کو دیکھتے ہوئے آسائشوں پر غور کرتے ہوئے دل میں اللہ پاک سے باتیں کرتی ہوں، اس کا شکر اد کرتی ہوں اور کبھی موازنہ کرتی ہوں کہ مسائل زیادہ ہیں، اپنے آپ کو سمجھاتی ہوں کہ مسائل کو حل کرنے والا سب سے بڑا اللہ ہی ہے اور قادر بھی ہے، پھر کوشش کرتی ہوں کہ ایسا کیوں، کب، کیسے جیسے سوالات پر توجہ نہ کروں بس اللہ پر توجہ کروں اور اسباب کے لئے دعا کروں پھر جلدی نہ مچاؤں، انتظار کروں کہ اللہ نے میرے لئے جو بھی خیر رکھی ہے اس پر نظر رکھوں، ساتھ ہی میں عربی میں موسیٰ علیہ السلام والی دعا کرتی ہوں کہ جو خیر بھی میرے لئے ہے میں اس کے لئے محتاج ہوں۔
جواب:
سُبْحَانَ اللہ! بہت اچھی بات ہے اللہ تعالیٰ نے آپ کو بہت کچھ کا نظارہ کرا دیا ہے اَلْحَمْدُ لِلّٰہ ثُمَّ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ۔ بس اس پر بھی اللہ کا شکر ادا کریں کہ اللہ پاک نے آپ کو یہ نظارہ کرا دیا ہے، اس سے اللہ کے فضل سے کم از کم آپ کو یقین ہوگیا کہ جو تکالیف ہوتی ہیں وہ کچھ دینے کے لئے آتی ہیں، وہ ویسے نہیں ہوتیں۔ ہم لوگ جلدی گھبرا جاتے ہیں لیکن اصل میں تو اللہ پاک ہی دیتے ہیں۔ تو بس اب اس طرح کر لیں کہ مراقبۂ سلبیہ کے بعد مراقبۂ شانِ جامع کر لیں اِنْ شَاءَ اللہُ الْعَزِیْز۔
سوال نمبر 5:
السلام علیکم! حضرت جی میرا بیٹا اس سال جنوری میں سات سال کا ہوگیا ہے، اس کو نماز کا پابند کیسے بنا سکتی ہوں، بیٹے کو کیسے سمجھانا چاہئے کہ Opposite gender سے دور رہنا ہے؟
جواب:
ماشاء اللہ بڑا اچھا جذبہ ہے، بس آپ فی الحال یہ کر لیں کہ اگر کوئی مرد مسجد میں جاتا ہے تو بیٹے کو اس کے ساتھ بھیج دیا کریں اور اگر مرد اس طرح کوئی نہیں ہے تو پھر آپ جس وقت خود نماز پڑھتی ہیں تب اسے اپنے ساتھ ہی کھڑا کرلیا کریں۔ کیونکہ یہ تو ابھی فی الحال بچہ ہے تو وہ بھی نماز پڑھ لیا کرے اور نماز کا طریقہ اچھی طرح بتا دیا جائے۔ باقی یہ بات ہے کہ اس قسم کے جو بیان ہوتے ہیں وہ بیان ان کو سنوا دیا کریں جس میں اس قسم کی باتوں کا تذکرہ ہو۔
سوال نمبر 6:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
I hope and pray that my مشفق، مربی، سیدی شیخ is in good health! Dear Sheikh اَلْحَمْدُ لِلّٰہ I feel my رمضان was excellent in connecting myself with Allah سبحانہٗ وتعالیٰ and refraining myself from sins. But since رمضان I have felt that I am losing this connection with Allah سبحانہٗ وتعالیٰ. How can I keep this connection strong? Also I am struggling to maintain a balance between my ذکر, Salah, tilawat and Islamic Studies with university studies in exams and work. At times, I miss فجر salah because I stay awake at night studying. I feel really guilty because I want to get up but sleep through my alarm. I make sure to قضا, first thing in the morning. How to keep a good balance between deeni requirements and the requirements of دنیا. Please keep me in your special duas that Allah سبحانہٗ وتعالیٰ ease my exams and the exams of my entire family and relatives and please make دعا that Allah سبحانہٗ وتعالیٰ grant us all close نسبت with you!
جواب:
اس طرح ہے کہ مَاشَاءَ اللہ آپ کو رمضان شریف میں جو تقویٰ ملا ہے اللہ تعالیٰ اس کو جاری رکھے اور مزید تقویٰ نصیب فرما دے، تو جو تقویٰ والے اعمال ہیں وہ آپ جاری رکھیں کیونکہ اعمال کے ذریعہ سے تقویٰ حاصل ہوتا ہے، مثلاً آنکھ کی حفاظت کریں گے تو تقویٰ ملے گا، کان کی حفاظت کریں گے تو تقویٰ ملے گا، زبان کی حفاظت کریں گے تو تقویٰ ملے گا ان کی حفاظت نہیں ہوگی تو تقویٰ destroy ہوگا۔ یہ بالکل صاف صاف باتیں ہیں۔ اس کے لئے آپ اپنے چوبیس گھنٹے میں کچھ پندرہ بیس منٹ کوئی ایسے بیان کے لئے مختص کر لیں جس میں ان چیزوں کا تذکرہ ہو اور اس کو miss نہ کیا کریں، اس کو باقاعدگی کے ساتھ سن لیا کریں اور کوشش کریں کہ ایسے لوگوں کے ساتھ آپ کا اٹھنا بیٹھنا ہو جس سے آپ کا تقویٰ برقرار رہے۔ تیسری بات یہ ہے کہ آپ جو study کی بات کر رہے ہیں تو یہ میرا experience ہے کہ جو انسان صبح کے وقت study کرتا ہے، مثلاً تقریباً تین بجے جب اٹھتا ہے یا پتہ نہیں آپ کی timings کیا ہیں اس وقت تو مجھے یاد نہیں ہیں، لیکن Early in the morning جس وقت انسان اٹھتا ہے اس وقت انسان بڑا fresh ہوتا ہے، اس وقت کی study بہت آسانی کے ساتھ ہوجاتی ہے اور اس میں آپ کو نماز کا وقت بھی مل جائے گا۔ بہرحال آپ اپنی timings کا مجھے بتا دیں تو اس کے حساب سے پھر میں آپ کو guide کر دوں گا، اس طریقہ سے انسان کو دونوں چیزیں حاصل ہوسکتی ہیں لیکن چونکہ آپ جب early سوئیں گے تو پھر آپ کسی کو بتائیں گے کہ وہ آپ کو جگا دیا کریں، کیونکہ alarm والی بات میں خطرہ ہے آپ نے جیسے بتایا ہے، تو ان چیزوں کو ensure کر لیں پھر اس کے بعد ان شاء اللہ آگے بات چلے گی۔
سوال نمبر 7:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ حضرت !
I hope you are well and have wonderful رمضان and happy eid. Please pray that Allah سبحانہٗ وتعالیٰ grant توفیق to complete the six شوال fast!
Question 1: Can the قلب or other لطیفہ become ذاکر without توجۂ شیخ and can the روح start its journey back to its origin عالمِ امر without توجہ of شیخ?
جواب:
میں اگر آپ سے کہہ دوں کہ شیخ کی توجہ تو سارے مریدوں کی طرف ہوتی ہے لیکن وہ توجہ ایسی نہیں ہوتی جس کو عام لوگ توجہ سمجھتے ہیں، جیسا کہ آپ سمجھتے ہوں گے کہ آپ کو اپنے سامنے بیٹھا دیں اور توجہ کر لیں، تو وہ توجہ نہیں ہے، وہ تصرف ہے۔ تصرف بعض جگہوں پر ہوتا ہے بعض جگہوں پر نہیں ہوتا، آج کل تصرف والا معاملہ مشکل ہے۔ اس کی وجہ ہے کہ جو تصرف کا عادی ہوجاتا ہے تو پھر وہ اپنا کام چھوڑ دیتا ہے یہ انعکاسی فیض ہوتا ہے، انعکاسی فیض بہت کمزور ہوتا ہے وہ جس وقت آپ شیخ سے جدا ہوجائیں گے پھر کمزور پڑ جائے گا اور پھر آپ انتظار کریں کہ شیخ پھر توجہ کریں۔ تو اس طرح آپ ہمیشہ کچے ہی رہیں گے، بہت مشکل میں رہیں گے لیکن اگر القائی فیض کے ذریعہ سے آپ کی مَاشَاءَ اللہ یہ چیزیں چل پڑیں تو اس سے جو حاصل ہوگا پھر کبھی بھی miss نہیں ہوگا۔ تو اب میں آپ کو اپنی بات نہیں بتاتا اگرچہ میرا اپنا مسلک یہی ہے لیکن میں اپنی بات نہیں کروں گا، اپنے reference سے نہیں کروں گا۔ شوڈاگو بابا جی رحمۃ اللہ علیہ یہاں پاکستان میں غالباً 106 سال کی عمر میں فوت ہوئے ہیں، ان کے ایک خلیفہ نے مجھے یہ بات بتائی ہے۔ چونکہ انہوں نے مجھ سے یہ بات سن لی تو اس نے کہا کہ شوڈاگو بابا جی بھی تو یہی کہہ رہے ہیں، انہوں نے فرمایا کہ میں آپ کو اپنی تمام عمر کا experience بتاتا ہوں کہ کثرت ذکر سے جو لطائف جاری ہوجائیں وہ کبھی ختم نہیں ہوتے اور جو توجہ سے جاری ہوتے ہیں وہ بس توجہ تک ہی ہوتے ہیں اس کے بعد پھر ختم ہوجاتے ہیں، تو اس کو بار بار توجہ کی ضرورت رہتی ہے۔ لہٰذا ایک تو dependent ہوجاتا ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ وہ کمزوری ہوتی ہے۔ اس طرح جو کثرت ذکر آپ کریں گے تو ان شاء اللہ اس کے ذریعہ سے جو جاری ہوگا پھر کبھی ختم نہیں ہوگا اس میں تمام لطائف کی بات آجاتی ہے۔
Question 2: From previous science, تصفیہ is possible without تزکیہ but is تزکیہ without تصفیہ possible?
جواب:
اصل بات یہ ہے کہ تصفیۂ قلب کافی ہے ہی نہیں۔ لوگوں کے تصفیہ سے مراد دو ہیں، لہٰذا میں دونوں کی تشریح کروں گا پھر آپ کو بات سمجھ آئے گی۔ پہلی بات یہ ہے کہ تصفیۂ قلب سے اگر آپ کی یہ مراد ہے کہ آپ کا دل بیدار ہوجائے اور وہ اچھے برے کا احساس کرنے لگے تو یہ بغیر تزکیۂ نفس کے بھی ہوسکتا ہے۔ لیکن اگر اس سے مراد یہ ہے کہ دل میں پھر دنیا کی محبت ہی نہ رہے، یہ بغیر تزکیۂ نفس کے نہیں ہوسکتا، اس کے لئے تزکیۂ نفس کا ہونا ضروری ہے۔ اب میں آپ سے عرض کرتا ہوں کہ چونکہ شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ دل، نفس اور عقل یہ تینوں آپس میں باہم مربوط ہیں، ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ لہٰذا اگر عقل کی اصلاح نہیں ہوئی تو دل پر بھی اثر اس کا ہوگا اور نفس پر بھی اثر ہوگا اور اگر نفس کی اصلاح نہیں ہوئی تو دل پر بھی ہوگا، عقل پر بھی ہوگا اور اگر قلب کی اصلاح نہیں ہوئی تو دل پر بھی ہوگا، نفس پر بھی ہوگا۔ گویا کہ تینوں کی اصلاح ہونی چاہئے، ترتیب اس کی یوں بن سکتی ہے کہ پہلے انسان کے دل میں ایمان کی روشنی ہوتی ہے، اس کی روشنی میں عقل کو theoretically حقیقت نظر آنے لگتی ہے، یعنی قرآنی احکامات اور حدیث شریف کے بارے میں اس کو نظریاتی طور پہ پتہ چل جاتا ہے کہ حق کیا ہے اور غلط کیا ہے، نقصان کیا ہے، فائدہ کیا ہے، اس کا پتہ چل جاتا ہے اب جب اس کا پتہ چل جاتا ہے تو اب عقل اگر فیصلہ کرنے کی position میں ہو اور فیصلہ کر سکتی ہو تو پھر وہ نفس کی اصلاح چاہتا ہے کیونکہ اس کی وجہ سے انسان گناہوں کی زندگی گزارتا ہے۔
تو نفس کی اصلاح کے لئے چونکہ صرف عقل کی input کافی نہیں ہے بلکہ اس کے لئے دل کی توجہ بھی چاہئے یعنی دل اس کی طرف آجائے، دل کی اتنی اصلاح تو ہوسکتی ہے کہ اچھے برے کو جان لے اور اتنا بیدار ہوجائے کہ برائی اور اچھائی میں تمیز کر سکے، تو اس کو جب تمیز ہوجاتی ہے پھر وہ خود چاہتا ہے کہ میرے نفس کی بھی اصلاح ہو تاکہ وہ برائی جو اس کی طرف سے آتی ہوئی نظر آتی ہے۔ یہ میں نے بڑی عجیب بات کی ہے لیکن بات تو ایسی ہے کیونکہ جب انسان کا دل اچھے ماحول سے پاک ہوجائے اور پھر وہ برے ماحول میں جاتا ہے تو اس کو ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے ظلمت کا پہاڑ اس کے اوپر گر گیا ہے، جب یہ محسوس ہونے لگے تو وہ ڈر جاتا ہے، وہ کہتا ہے کہ میرا تو نفس گڑبڑ ہے، اس کی اصلاح ہونی چاہئے۔ تو اس اصلاح کے لئے پھر سلوک طے کرنا ہوتا ہے جس کو ہم تزکیۂ نفس کہتے ہیں۔ اس تزکیۂ نفس کے بعد پھر واقعی جب دل کے اوپر محنت ہوتی ہے اور دل کے اندر جو گندگی پہلے سے آئی ہو اس کو صاف کیا جائے تو دل بھی صاف ہوجاتا ہے۔ اور پھر مَا شَاءَ اللہ ان دونوں کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ عقل کی بھی اصلاح فرماتے ہیں اور پھر کیا ہوتا ہے؟ پھر ماشاء اللہ قلب کا بھی اور عقل کا بھی ملاءِ اعلیٰ کے ساتھ رابطہ ہوجاتا ہے اور وہاں سے رہنمائی ہونے لگتی ہے اور بصیرت بھی حاصل ہوجاتی ہے تو یہ چیزیں سب interrelated ہیں اس کو علیحدہ علیحدہ understand کرنا ممکن نہیں ہے۔
Question 3:
If the claims and the authenticity of سلسلہ are doubtful but their company and through their توجہ person's heart becomes more inclined towards goodness and less towards sins, will this excuse issues they may have such as absurd claims?
جواب:
اصل میں انسان اچھائی کس کو سمجھتا ہے، برائی کس کو سمجھتا ہے؟ یہ بھی ایک الگ بات ہے۔ یہی جو میں نے آپ کو عقل والی بات بتائی ہے، اس میں یہی تو بات ہے کہ انسان کی عقل کمزور ہو یا understanding weak ہو یا کسی چیز کو وہ گناہ ہی نہ سمجھتا ہو یا گناہ سمجھتا ہو لیکن اس کے بارے میں احساس کم ہو تو سمجھتا ہے کہ میں گناہوں سے بالکل پاک ہوگیا ہوں۔ میں اس کی ایک مثال دیتا ہوں، مثلاً ایک آدمی عبادات میں بہت اچھا چل پڑا ہے اور سمجھتا ہے کہ میں بزرگ ہوگیا ہوں۔ لیکن وہ معاملات میں کھوٹا ہے، معاملات میں گڑبڑ کرتا ہے۔ تو کیا خیال ہے وہ صحیح ہوگیا؟ صحیح تو نہیں ہوا لیکن اس کو پتا ہی نہیں ہے کہ میں صحیح نہیں ہوا ہوں۔ معاملات میں اچھا ہے تو معاشرت کے اندر گڑبڑ کر رہا ہے تو وہاں پر بھی مسئلہ ہے، اخلاق کے اندر بات ہوگئی، مثلاً عورتوں کے ساتھ اختلاط سے اس کو مسئلہ نہیں ہو رہا، معاملات میں گڑبڑ سے اس کو مسئلہ نہیں ہو رہا، تو یہ misunderstandings ہیں۔ ان misunderstandings کے ہوتے ہوئے صرف چند مخصوص گناہوں سے اپنے آپ کو پاک سمجھ کر کوئی کیسے کہہ سکتا ہے کہ میں گناہوں سے پاک ہوگیا ہوں۔ بہت سارے لوگ تو صرف لباس کی حد تک آجاتے ہیں کہ لباس سنت کے مطابق استعمال کر لیتے ہیں، پگڑی استعمال کر لیتے ہیں، تسبیح ہاتھ میں آجاتی ہے اور مَا شَاءَ اللہ کپڑے مسنون طریقہ سے ہوجاتے ہیں، تو دوسرے لوگ بھی سمجھتے ہیں اور خود بھی سمجھنے لگتا ہے کہ میں بالکل ٹھیک ہوگیا ہوں حالانکہ ایسا نہیں ہے۔
﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ كَآفَّةً ۪ وَّ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ ؕ اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ﴾ (البقرۃ: 208)
ترجمہ1: ’’اے ایمان والو! اسلام میں پورے کے پورے داخل ہوجاؤ، اور شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو، یقین جانو وہ تمہارا کھلا دشمن ہے‘‘۔
تو پورے پورے دین میں داخل ہونا یہ ان تمام چیزوں کی بنیاد ہے۔ اللہ ہم سب کو نصیب فرمائے۔
سوال نمبر 8:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! حضرت جی میں جہلم سے فلاں بات کر رہی ہوں، ان شاء اللہ آپ خیریت سے ہوں گے۔ حضرت جی یہ تفسیر کا کورس ہے جو کہ آن لائن ہے میں قرآن پاک کی تفسیر پڑھنا چاہتی ہوں، اس بارے میں رہنمائی فرمائیں۔ جزاک اللہ۔
جواب:
ہاں ٹھیک ہے آپ یہ کورس کر سکتے ہیں اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے، البتہ یہ ہے کہ اس کو خالص اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے کریں اور اپنی تربیت کا تعلق وہ صرف اپنے شیخ کے ساتھ رکھیں۔
سوال نمبر 9:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! میرا ذکر دو، چار، چھ اور تین ہے۔
جواب:
اب آپ اس کو ایک مہینہ کے لئے دو، چار، چھ اور پانچ کر لیں۔
سوال نمبر 10:
السلام علیکم حضرت جی میرا ذکر دو، چار، چھ اور ساڑھے چودہ ہے۔
جواب:
اب اس کو پندرہ کر لیں۔
سوال نمبر 11:
نمبر 1:
السلام علیکم! حضرت دعا ہے کہ آپ خیریت سے رہیں، حضرت میں عمرہ پہ نہیں جا سکی ویزہ نہیں لگا، پاکستانیوں کے ویزے ban کیے ہوئے ہیں۔ آپ دعا کیجئے گا اللہ پاک آسانی فرما دے۔
جواب:
میرے خیال میں ایسا نہیں ہے آپ نے 25 اپریل کا بتایا تھا، 25 اپریل تو پھر شوال کے مہینے میں آجاتا ہے۔ کیونکہ 10 اپریل کو تو عید تھی، اس کے بعد حج کی تیاریاں شروع ہوجاتی ہیں۔ تو عمرہ کے ویزے پہلے تو نہیں دیتے تھے اور اب شاید جو پہلے سے گئے ہوں ان کو تو رہنے دیتے ہیں لیکن بعد میں جانے والوں کو نہیں دیتے۔ یہ شاید اس وجہ سے ہوگا، میرے خیال میں صرف پاکستانیوں کی بات نہیں ہوگی۔
نمبر 2:
اور حضرت آج کل میں اپنی مشکلات پہ بہت زیادہ tension اور stress out ہوجاتی ہوں ایسا لگتا ہے کہ مجھے گناہوں کی سزا مل گئی ہے۔
جواب:
گناہوں کی سزا تو ملتی ہے لیکن اس پہ استغفار کرنا چاہئے اور ہر چیز کا ایک مثبت تجزیہ کرنا چاہئے منفی نہیں، آپ خود ڈاکٹر ہیں آپ کو پتہ ہے کہ مثبت اور منفی تجزیہ کیا ہوتا ہے۔
نمبر 3:
ذکر جو بھی کرتی تھی وہ چھوڑ دیا تھا اب مہینہ سے تقریباً کر رہی ہوں۔
جواب:
یہ بھی آپ کی منفی سوچ ہے، اس کو ٹھیک کر لیں۔
نمبر 4:
میرا ذکر پانچ لطائف پہ دس دس منٹ اور پندرہ منٹ تجلیاتِ افعالیہ کا فیض محسوس کرنا تھا، یہ سارا ذکر میں ایک سے دو منٹ میں ختم کر دیتی ہوں کیونکہ اللہ کے کرم سے میرے پورے جسم میں پہلے سے ذکر محسوس ہوتا ہے، میں زیادہ دیر ذکر کروں تو وہ ذکر پورے جسم پہ زور زور سے ہوتا ہے جو پتہ نہیں مجھے کرنا چاہئے یا نہیں! تھوڑا آرام دہ نہیں لگتا۔
جواب:
ہاں ٹھیک ہے صحیح ہے، آرام دہ نہیں لگے گا لیکن آپ کا جسم اس کے ساتھ عادی ہوجائے گا۔ آپ اس کو جہاں تک ہوتا ہے اس کے ساتھ دو تین منٹ اور کر کے دیکھیں تو آہستہ آہستہ اس کے ساتھ آپ adjust کر لیں گی۔
نمبر 5:
میں آج کل UK میں ہوں لیکن صبر شکر نہیں کر پاتی، جلدی بے صبری ہوجاتی ہے اور بہت زیادہ tension لیتی ہوں۔
جواب:
تو tension نہ لیا کریں اللہ پاک پہ بھروسہ رکھیں اور ہر چیز میں اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ رہیں۔
سوال نمبر 12:
السلام علیکم حضرت! میں فلاں لندن سے بات کر رہی ہوں امید ہے کہ آپ خیر وعافیت سے ہوں گے۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ حضرت جی میں نے آپ کی دعاؤں کی توجہ سے ایک مہینہ دو سو، چار سو، چھ سو، تین ہزار کی تسبیحات کی پابندی کی ہے، اَلْحَمْدُ للہ باقی اعمال کی پابندی جاری ہے، آپ سے دعاؤں اور مزید رہنمائی کی درخواست ہے۔ ایک سوال یہ ہے کہ اپنے شیخ کو احوال بتاتے وقت کون سی چیزوں کا تذکرہ کرنا چاہئے اور کون سی چیزوں کا تذکرہ اگر کرنا ہو تو کر سکتے ہیں اور کون سی چیزوں کا تذکرہ نہیں کرنا چاہئے؟
جواب:
دیکھیں! سب سے بڑی بات شیخ کو آپ ڈاکٹر سمجھیں اور اپنی روحانی بیماریاں اپنے سامنے رکھیں، روحانی بیماریاں کیا ہیں؟ یعنی جن کی وجہ سے گناہ ہوتے ہیں وہ روحانی بیماریاں ہیں مثلاً حسد ہے، کینہ ہے، بغض ہے اور اس قسم کی دوسری چیزیں ہیں، نماز نہ پڑھنا ہے یا جلدی جلدی پڑھنا ہے، اس طرح کچھ اور مسائل ہیں، یہ ساری چیزیں discussable ہیں۔ اپنے شیخ کو ان چیزوں کے بارے میں بتانا چاہئے اور زیادہ تر آپ وہ چیزیں بتائیں جو آپ کو اچھی نہیں لگ رہی ہیں لیکن ہو رہی ہیں تو ایسی چیزوں کا شیخ کو ضرور بتانا چاہئے۔ اور باقی ما شاء اللہ آپ نے ابھی جو فرمایا کہ دو سو، چار سو، چھ سو، تین ہزار یہ ایک مہینہ ہوگیا ہے، تو اب ساڑھے تین ہزار کا اسمِ ذات کا ذکر کریں باقی سب وہی رکھیں۔ اِنْ شَاءَ اللہ۔
سوال نمبر 13:
السلام علیکم! میں فلاں کی زوجہ ہوں، مجھے صبح تین بجے خواب آیا کہ مجھے ابھی تین چار مہینے ہوئے ہیں اور میں بیمار ہوگئی ہوں۔ میں صبح کی بہت پریشان ہوں۔
جواب:
یہ خواب میں سمجھا نہیں آپ کیا کہنا چاہتی ہیں، پوری تفصیل بتا دیں اس کا کچھ مطلب نہیں بنتا۔
سوال نمبر 14:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! حضرت جی مراقبۂ شانِ جامع کے بارے میں رہنمائی کریں، کیونکہ میں نے tazkia.org پر بھی تلاش کیا لیکن طریقہ نہیں پایا۔
جواب:
یہ اصل میں الفاظ کا مسئلہ ہے کہ آپ نے اس کو جامی سمجھا، یہ جامی نہیں ہے یہ مراقبۂ شانِ جامع عین اس میں آتا ہے۔ تو شانِ جامع میں مشارب کا ذکر جو باقی گزشتہ چاروں لطائف کے اوپر کرتے ہیں وہ ان سب کے اوپر جمع ہوجاتا ہے یعنی دل والا، روح والا، سر والا، خفی والا۔ تو ان سب کا جو فیض ہے وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ ﷺ کی طرف آرہا ہے اور آپ ﷺ کی طرف سے شیخ کی طرف آرہا ہے اور شیخ کی طرف سے آپ کے لطیفۂ اخفیٰ کے اوپر آرہا ہے۔
سوال نمبر 15:
السلام علیکم! حضرت میں لاہور سے فلاں عرض کر رہا ہوں، حضرت جی میرا ذکرِ جہری دو سو، چار سو، چھ سو اور گیارہ ہزار مرتبہ ہے جو محض اللہ کے فضل سے مکمل ہوا، مگر دھیان مسلسل دنیاوی خیالات میں منتشر رہتا ہے۔ حضرت آپ نے عیوب کی فہرست بھیجنے کا فرمایا تھا، میرے خصوصی عیوب میں چند درج ذیل ہیں۔ لوگوں کی رائے کی فکر، احساسِ کمتری میں منتشر سوچ، حبِ دنیا، آرام پسندی، ماضی اور ماحول کا فوری منفی اثر۔ آپ سے رہنمائی کی درخواست ہے۔
جواب:
آپ نے مَاشَاءَ اللہ بالکل صحیح تجزیہ کیا ہے، یہ سب آپس میں interrelated ہیں، ایک ہی چیز ہے، وہ یہ ہے کہ دنیا کی جو محبت ہے وہ سب مصیبتوں کی جڑ ہے، ساری بیماریوں کی جڑ ہے، اس کو دور کرنے کی ضرورت ہے، آرام پسندی بھی یہی چیز ہے اور لوگوں کی رائے کی فکر کہ میرے بارے میں کیا کہتے ہیں، یہ بھی بالکل وہی ہے، احساس کمتری بھی اسی سے آتی ہے اور سوچ بھی اسی سے منتشر ہوجاتی ہے یہ سب اسی ایک کی وجہ سے ہے۔ تو اب دنیا کی جو محبت ہے اس کو دل سے دور کرنے کی کوشش کریں۔ اس کے دو طریقے ہیں ایک تو یہ کہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ کا جو ذکر آپ کر رہے ہیں اس میں آپ یہ تصور کرلیں کہ دنیا کی محبت میرے دل سے نکل رہی ہے اور ’’اِلَّا اللّٰہ‘‘ کے ساتھ اللہ کی محبت دل میں آرہی ہے اور ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ میں یہ تصور رکھیں کہ کسی کا بھی مجھے راضی کرنا مطلوب نہیں ہے کہ خواہ مخواہ ان کو کیوں راضی کروں، مجھے صرف اللہ پاک کی رضا مطلوب ہے۔ ’’حَقْ‘‘ باطل کے اوپر چوٹ ہے باطل اس سے ٹوٹ رہا ہے۔ ایک تو ذکر کے ذریعے سے اپنی سوچ کو بہتر کرنا ہے، دوسری یہ بات کہ جو دنیا کی محبت کا تقاضا ہے مثلاً آرام کرنا، اس کی مخالفت کریں گویا کہ مشقت برداشت کریں اور اس طرح منتشر سوچ کے لئے یہ کر لیں کہ آپ جب اللہ پاک ہی کو راضی کرنے کی خواہش کریں گے تو پھر منتشر نہیں ایک ہی سوچ ہوجائے گی۔
وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات
احساسِ کمتری یہ ہے کہ دنیا کی کسی چیز کی وجہ سے اپنے آپ کو کم سمجھنا، یہاں تو دنیا مطلوب ہی نہیں ہے لہٰذا اس میں پھر کیوں احساس کمتری ہو؟ آخرت کا تو پتہ ہی ادھر لگے گا۔ لہٰذا اس طرح آپ اس تقاضے کی مخالفت کریں اس کو مجاہدہ کہتے ہیں، یہ مجاہدہ جب آپ کریں گے تو اس سے اِنْ شَاءَ اللہ یہ بہتر ہوجائے گا۔ بہرحال آپ کو میں نے جو چیزیں بتائی ہیں یہ ذہن میں رکھیں اور اِنْ شَاءَ اللہ اب سلوک پہ آہستہ آہستہ چلنے کی کوشش کی جائے گی۔
سوال نمبر 16:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ! جناب محترم شاہ صاحب اللہ تعالیٰ خیر وعافیت والی زندگی عطا فرمائے حضرت آپ صاحب کا دیا ہوا ذکر یعنی تیسرا کلمہ، درود شریف، استغفار سو سو دفعہ اور ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ دو سو مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ چار سو مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ چھ سو مرتبہ، ’’اَللّٰہ‘‘ سات ہزار مرتبہ اور دس منٹ یہ تصور کہ اللہ تعالیٰ رحمت کی نظر سے مجھے دیکھ رہے ہیں یہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ مکمل ہوگیا ہے۔
جواب:
اب اسمِ ذات کا ذکر ساڑھے سات ہزار کر لیں باقی ایک مہینہ کے لئے بالکل یہی رکھیں اِنْ شَاءَ اللہْ۔
سوال نمبر 17:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! حضرت جی اللہ کے فضل سے میرا ذکر مکمل ہو چکا ہے دو سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘، چار سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘، چھ سو مرتبہ ’’حَقْ‘‘ اور ساڑھے پانچ ہزار مرتبہ ’’اَللّٰہ‘‘، اس کے ساتھ پانچوں لطائف پر دس دس منٹ ذکر اور پندرہ منٹ مراقبۂ دعائیہ، آپ نے زبان، کان اور آنکھ کو control کرنے کا سبق دیا تھا جس میں کوشش جاری ہے مگر کمی ہوتی ہے، اس کے ساتھ میں نے اپنے طور پہ نظر کو قابو کرنے کے لئے جو آنکھ والا مجاہدہ آپ بتاتے ہیں وہ بھی کر رہا ہوں، آج 18 منٹ پر پہنچا ہوں جس میں پورا وقت آنکھیں جھکا کے رکھتا ہوں۔ یہ بغیر اجازت کے کیا ہے اگر آپ کی اجازت ہو تو اس کو جاری رکھوں؟
جواب:
بالکل اس کو جاری رکھیں اللہ تعالیٰ آپ کو اس پہ استقامت نصیب فرمائے، اِنْ شَاءَ اللہ اس سے بڑا فائدہ ہوگا اور باقی فی الحال وہی رکھیں جو آپ کر رہے ہیں۔
سوال نمبر 18:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
I pray you are well dear Sheikh.
علاج: I have completed my seventh month of مراقبہ imagining my heart saying Allah Allah تعالیٰ looking at which love for twenty minutes with love. I missed one or two days unfortunately.
کیفیت: I am generally still struggling to maintain focus on most days but on some days I probably maintain focus for 88% of the time. I implemented your advise on doing it at a set time and while ہشاش بشاش and اَلْحَمْدُ للہ this has certainly made a difference. Whatever time I maintain focus, I feel a direct impact on my heart as soon as I am able to focus. My heart feels warm and as if it has come to life and started beating after being completely dead. Kindly advise for the next. I have had a very difficult week. I have struggled to readjust to my routine especially with Salahs. I missed two فجر this week and ظہر once. I just want to come back to your blessed company and I don’t feel like I am ready at all to face the world. I have never felt like this before when coming from Pakistan. Part of the reason for this was that I was quite unwell and this has depressed me greatly and I feel like I have lost everything gained in رمضان and had upset اللہ تعالیٰ greatly. The strange thing is that I am better able to wake up for تہجد and actually enjoy عبادات such as تلاوت and Salah. I have done صلوٰۃ توبہ and I will focus on trying to better myself and start being consistent as I can’t join all مجالس due to work. Can I still take part in the ذکر at the end of the مجلس if it is from recording and not live.
جواب:
مَاشَاءَ اللہ! اصل میں ہر چیز آپ کے ساتھ موجود ہے صرف اس کو recall کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، ایمان بھی انسان کے ساتھ موجود ہوتا ہے آپ اس کی طرف توجہ کر لیں تو یہ کام میں آجاتا ہے، اس طرح اور بہت ساری چیزیں ہیں جو ہمارے اندر موجود ہوتی ہیں۔ تو آپ کو ماشاء اللہ، اللہ تعالیٰ نے جو توفیق عطا فرمائی ہے، چونکہ دنیا میں جب انسان دوبارہ آجاتا ہے تو یکدم بہت difference تو feel ہوتا ہے لیکن آپ آہستہ آہستہ adjust کر لیتے ہیں اور وہاں پر اس چیز کا جو benefit ہے وہ آنا شروع ہوجاتا ہے۔ یہ آپ نے بھی نوٹ کیا ہوگا اس کے لحاظ سے آپ اپنی کوشش جاری رکھیں، جتنا ذکر وغیرہ آپ کر رہے ہیں وہ ذکر آپ جاری رکھیں اور اپنا رابطہ بھی جاری رکھیں اور جو مجالس آپ چاہتے ہیں کہ آپ سے miss نہ ہوں، وہ جس وقت آپ کام پہ نہ ہوں اس وقت آپ سن لیا کریں اور ذکر تو ویسے بھی انسان اپنے طور پر بھی کر سکتا ہے۔ اگر آپ اس کے ساتھ کر لیں تو بھی بالکل ٹھیک ہے کوئی مسئلہ نہیں، کیونکہ وہ تو اصل میں آپ کا ذکر ہوگا، یعنی بے شک آپ کسی اور کے ساتھ کر رہے ہوں لیکن آپ کی توجہ اس کے ساتھ بن جاتی ہے تو بالکل صحیح ہے اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے آپ اس کو کر سکتے ہیں۔ بہرحال اللہ پاک نے آپ کو صلوٰۃ التوبہ اور تہجد کی توفیق عطا فرمائی ہے، اللہ جل شانہٗ اس کو اور بھی بڑھا دے اور اِنْ شَاءَ اللہ اپنے ذکر و اذکار جاری رکھیں، امید ہے کہ اِنْ شَاءَ اللہ مزید ترقی بھی ہوگی۔
سوال نمبر 19:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
I pray you are well! Today in the masjid the imam spoke about the ayah
﴿رِجَالٌ ۙ لَّا تُلْهِیْهِمْ تِجَارَةٌ وَّ لَا بَیْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ﴾ (النور: 38)
I am currently preparing for my university exams and spend most of the days studying. This means that I am always thinking about the exams even in Salah and when doing علاجی ذکر. I try to refocus on Allah جل جلالہ but fail a lot of the time. Do you have any advice on how I could do ذکر even when studying and how I can focus more on my islah?
جواب:
اصل میں بات یہ ہے کہ تین conditions ہیں، بالکل آپ پہ دنیا کا اثر نہ ہو، ہر وقت دنیا کا اثر ہو، کبھی دنیا کا اثر ہو کبھی دنیا کا اثر نہ ہو۔ اب اگر مثال کے طور پر آپ کسی وجہ سے پہلی والی condition میں نہیں آسکتے تو یہ دوسری condition تو نہ چھوڑیں یہ تو جاری رکھیں۔ جیسے خواجہ صاحب کے اشعار ہیں جس میں فرمایا کہ اگر آپ کو پوری روٹی نہیں مل رہی تو آدھی تو نہ چھوڑو۔ اور کبھی نفس کو تو دبا دے، کبھی نفس تجھے دبا دے۔ یہ جنگ تو جاری رہے گی، یہ عمر بھر کے لئے شیطان اور نفس کے ساتھ ہماری جنگ ہے، لہٰذا یہ جنگ تو جاری رہے گی۔ اگر کوئی ہمت ہار دے تو پھر اس کے بعد اصل شکست وہی ہے، جو ہمت نہیں ہارتا وہ شکست نہیں کھاتا، جیسے آپ نے دیکھا ہوگا جو دنگل وغیرہ میں پہلوان ہوتے ہیں وہ بہت سخت پٹخ دیتے ہیں لیکن وہ پھر دوبارہ اٹھ کے اسی کو پٹخ دیتے ہیں، تو آدمی حیران ہوجاتا ہے آدمی جب اس کو پہلے گرتا ہوا دیکھتا ہے آدمی کہتا ہے بس یہ ختم ہوگیا لیکن وہ دوبارہ اٹھ جاتا ہے اور پھر وہ بدلہ لیتا ہے۔ تو اسی طریقے سے تو بھی ہمت نہ ہار اور جو آپ کے ساتھ شیطان یا نفس کر رہا ہے تو اس سے پورا پورا بدلہ لے لیا کر۔ وہ یہی ہے کہ اپنے ذکر کے اندر اپنی سی پوری کوشش کر لیا کریں کہ آپ ذکر میں متوجہ رہیں، مثلاً جس وقت آپ ذکر کریں ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ تو آپ یہ تصور کر لیں کہ اللہ جل شانہٗ کی طرح طاقت تو کسی میں بھی نہیں، شیطان میں بھی نہیں، میں اس کی کیوں پروا کروں۔ لہٰذا آپ اپنے ذکر میں متوجہ رہیں اور شیطان کی پروا نہ کریں کیونکہ آپ جو شیطان کے ساتھ لڑ رہے ہیں وہ آپ کی tension کو divert کر رہا ہے، اس لئے اس کے ساتھ لڑنا ہی آپ کو ذکر سے ہٹا دیتا ہے۔ اس وجہ سے آپ اس کے ساتھ لڑنے کے بجائے آپ کہہ دیں کہ اللہ تعالیٰ میرا معاملہ درست کر رہا ہے تو میں کیوں اس کے ساتھ لڑوں، میرا تو کام صرف ذکر کی طرف متوجہ ہونا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ذکر کے لئے بیٹھنے سے پہلے آپ یہ تصور کر لیں کہ یہ ٹائم میں نے اللہ کو دیا ہے میں اس میں کسی اور کو شامل نہیں کرنا چاہتا، لہٰذا بس میں نے ذکر ہی کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرما دے آمین۔
سوال نمبر 20:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! حضرت جی آپ نے فرمایا تھا کہ اللہ کو راضی کروں۔ تو حضرت اللہ کو کیسے راضی کروں؟
جواب:
شریعت پر عمل کرنے سے۔
سوال نمبر 21:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! حضرت جی آج کل مجھ سے قرآن پاک کی تلاوت رہ جاتی ہے، میں منزل جدید بھی پڑھ لیتی ہوں، سورۃ یٰس بھی، لیکن قرآن پاک کی تلاوت نہیں کر پاتی، پہلے صرف ایک صفحہ پڑھتی تھی اب تو وہ بھی رہ جاتی ہے آپ اصلاح فرمائیں جزاک اللہ۔
جواب:
ایک صفحہ پڑھنے میں کتنی دیر لگتی ہے مجھے حیرت ہوتی ہے آپ کیسے اس کو miss کر رہی ہیں! اگر ایسا ہے تو پھر میں آپ کو سورۃٔ یٰس پڑھنے سے روک دوں گا، کیونکہ سورۃ یٰس پڑھنا ٹھیک ہے لیکن وہ صرف ایک سورۃ ہے، اور قرآن پاک، پورا قرآن پاک ہے، لہٰذا پورے قرآن پاک کو تو آپ نہیں چھوڑ سکتیں۔ تو آپ قرآن پاک کو ضرور پڑھ لیا کریں کم از کم ایک پاؤ پڑھ لیا کریں، اس کے بعد جتنا وقت آپ کے پاس ہے اس میں پھر یہ سورۃٔ یٰس پڑھ لیا کریں، سورۃٔ واقعہ پڑھ لیں، اور جو دوسری سورتیں ہیں وہ پڑھ سکتی ہیں، لیکن ایک پاؤ قرآن پاک کی تلاوت ضرور کر لیا کریں۔
سوال نمبر 22:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! حضرت جی میرا نام فلاں ہے، حضرت جی آپ نے جو علاجی ذکر کرنے کے لئے دیا تھا اَلْحَمْدُ للہ ٹھیک چل رہا ہے، حضرت جی جو ثوابی ذکر ہے اس میں تیسرا کلمہ فجر سے پہلے پڑھتا ہوں، درود شریف ظہر کے بعد۔ یہ ترتیب ٹھیک چل رہی ہے لیکن سو مرتبہ استغفار میں مسئلہ پیش آرہا ہے اور میں رات کو عشاء کے بعد سونے سے پہلے پڑھتا ہوں۔ حضرت جی مسئلہ یہ ہے کہ میں decide نہیں کر پا رہا ہوں کہ کون سا استغفار پڑھنا چاہئے؟
جواب:
استغفار کئی قسم کا ہے، لیکن ’’اَسْتَغْفِرُ اللهَ رَبِّىْ مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ وَّاَتُوْبُ اِلَيْهِ‘‘ یہ کافی ہے۔ (سائل کا سوال) کبھی میں صرف ’’اَسْتَغْفِرُ اللهَ‘‘ پڑھتا ہوں۔ (حضرت کا جواب) نہیں یہ کافی نہیں ہے۔ (سائل کا سوال) ’’اَسْتَغْفِرُ اللہَ الَّذِیْ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ الْحَیُّ الْقَیُّوْمُ‘‘ (حضرت کا جواب) یہ ٹھیک ہے۔ (سائل کا سوال) کبھی ’’رَبَّنَا ظَلَمْنَاۤ اَنْفُسَنَاٚ‘‘ (حضرت کا جواب) یہ بھی ٹھیک ہے۔ (سائل کا سوال) اور کبھی ’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ سُبْحٰنَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْن‘‘ (حضرت کا جواب) یہ بھی ٹھیک ہے۔ (سائل کا سوال) حضرت جی میری رہنمائی فرمائیں کون سا استغفار پڑھوں؟ (حضرت کا جواب) تو جیسے میں نے کہا ’’اَسْتَغْفِرُ اللهَ رَبِّىْ مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ وَّاَتُوْبُ اِلَيْهِ‘‘ یہ پڑھ لیا کریں۔
سوال نمبر 23:
اللہ تعالیٰ کے مجھ پر بڑے انعامات ہیں اس کا شکر کیسے ادا کیا جائے؟
جواب:
کم از کم یہ کہ گناہ سے بچیں یہ اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا شکر ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ شکر ادا نہیں ہوتا تو وہ بات صحیح ہے۔ لیکن کیا انسان گناہ سے نہیں بچ سکتا؟ بچ سکتا ہے تو کم از کم یہ تو ہونا چاہئے کہ گناہ سے بچے تاکہ کم از کم شکر کا وہ حصہ تو ادا ہوجائے گا۔
سوال نمبر 24:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاته! حضرت جی اللہ پاک سے آپ کی صحت اور تندرستی اور بلند درجات کے لئے دعاگو ہوں۔ حضرت جی میرا مسئلہ یہ ہے کہ آج کل بزرگی کے خیالات بہت زیادہ آتے ہیں کبھی لوگوں کو فائدہ پہنچانے کا سوچ رہا ہوتا ہوں، تو کبھی خیال آتا ہے کہ فلاں نے میرے ساتھ برا سلوک کیا اس کا یہ نقصان ہوگیا۔ اس کے علاوہ جنگلی حیات کے بارے میں جاننے کا کافی شوق ہے، انٹرنیٹ پر اس کے بارے میں videos آتی ہیں تو نہ چاہتے ہوئے بھی دیکھ لیتا ہوں اور بعد میں پچھتاتا بھی ہوں۔ اخبارات اور آن لائن خبریں پڑھنے کا شوق بھی ہے اس میں تصاویر بھی ہوتی ہیں لیکن خبریں پڑھنے کا شوق غالب آجاتا ہے۔ برائے مہربانی اس بارے میں رہنمائی فرمائیں، اللہ پاک آپ کو اور آپ کے جملہ متعلقین کو دنیا اور آخرت میں اجرِ عظیم عطا فرمائے آمین۔
جواب:
بزرگی کے بارے میں میں کیا کہوں! بزرگی ایسی چیز ہے جو دوسروں کے ہاتھ میں ہے آپ کے ہاتھ میں نہیں ہے یعنی آپ دوسروں کے دل میں بزرگ بننا چاہتے ہیں اور دوسرے آپ کو بزرگ نہ سمجھ رہے ہوں تو پھر کتنے بڑے بزرگ بن گئے ہو؟ وہ تو آپ کے بس میں ہے ہی نہیں۔ لہٰذا جو چیز آپ کے بس میں نہیں تو اس کی فکر ہی چھوڑ دو بس اللہ تعالیٰ آپ کے بارے میں کیا فیصلہ کرتے ہیں اسی کی فکر کر لو۔ اس وجہ سے ان چیزوں کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ باقی یہ ہے کہ لوگوں کو فائدہ پہنچانا! لوگوں کو فائدہ پہنچانے کا کم از کم یہ ہے کہ آپ اپنے شر سے ان کو بچا لیں، یہ بھی بڑی بات ہے۔ جیسے ہماری پشتو میں کہتے ہیں (ستا دَ خیر ته مې توبه ده خو دا سپی دې رانه کرے کړه) تیرے خیر سے تو میری توبہ ہے، ذرا یہ کتے اپنے control میں کرو مجھے اپنے کتوں سے بچاؤ۔ الغرض اپنے شر سے لوگوں کو بچاؤ بس یہ ان کو بہت بڑا فائدہ پہنچانا ہے۔
یہ جو آپ نے کہا کہ کبھی یہ خیال کہ فلاں نے میرے ساتھ برا سلوک کیا تو اس کا یہ نقصان ہوگیا کسی اور کے نقصان پر خوش ہونا یہ تو آپ کا نقصان ہوگیا کہ آپ نے ایسا سوچا۔ تو آپ اپنے نقصان کا نہیں سوچ رہے دوسرے کے نقصان کا سوچ رہے ہیں۔ وہ تو ایسا ہے جیسے کسی کو مچھر لڑ جائے اور آپ کو سانپ کاٹ رہا ہو تو آپ کو اپنے سانپ کے کاٹنے کی فکر نہ ہو دوسرے کے مچھر کی فکر ہو تو پھر ہم کیا کہیں گے۔ جہاں تک جنگلی حیات کا سوال ہے تو ٹھیک ہے اللہ پاک نے یہ چیزیں پیدا کی ہیں لیکن کیا خیال ہے جو ویسے آپ کے سامنے بلیاں، کتے پھر رہے ہیں یہ جنگلی جانور نہیں ہیں؟ ان کے بارے میں سوچو کہ اللہ پاک نے مجھے جانور نہیں بنایا یہ اللہ پاک کا اتنا احسان ہے، اس پر اللہ پاک کا شکر ادا کرو۔ باقی ویڈیوز وغیرہ دیکھنا چھوڑ دو۔ آن لائن خبریں پڑھنے کا جو شوق ہے تو خبریں سننے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن اس کے ساتھ گناہ کی چیزیں ہوتی ہیں ان سے بچنے کی ضرورت ہوتی ہے، پھر اس کے لئے کوئی ایسا طریقہ سوچیں جس میں گناہ کی چیزیں نہ ہوں۔ میرے خیال میں اسلام اخبار بھی ہوتا ہے اس میں تصویریں نہیں ہوتیں، تو ضروری خبریں تو اس میں آہی جاتی ہیں تو آپ اس کو دیکھ لیا کریں اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے، صرف خبریں دیکھ لیا کریں، سٹوریاں ان کی بھی نہ سنیں وہ بھی ادھر ادھر ہوجاتے ہیں لیکن کم از کم خبروں کا آپ کو اس سے پتہ چل جائے گا۔ جیسے ایک دفعہ مجھ سے کسی نے پوچھا کہ آپ ٹی وی دیکھتے ہیں؟ میں نے کہا: نہیں، کہتے ہیں پھر آپ کو خبروں کا کیسے پتہ چلتا ہے؟ میں نے کہا: آپ لوگ بتا دیتے ہیں۔ جو آپ لوگ مجھے بتا رہے ہیں یہ خبریں نہیں ہیں۔ تو جو خبر ہوتی ہے وہ واقعی پوری دنیا میں پہنچ جاتی ہے، لیکن جو خبر نہیں ہوتی ادھر ادھر کی باتیں ہوتی ہیں وہ اگر آپ کو نہیں بھی معلوم تو کیا مسئلہ ہے۔
سوال نمبر 25:
السلام علیکم! حضرت جی میں بہت مسائل میں پھنسا ہوں، ذکر شروع کرتا ہوں مگر مکمل نہیں کر پاتا ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ دو سو مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ چار سو مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ چھ سو مرتبہ اور ’’اَللہْ‘‘ پانچ ہزار مرتبہ، یہ شرمندگی کی وجہ سے رابطہ نہیں کر سکا۔
جواب:
دیکھیں شرمندگی تو وہ ہے جو قیامت میں ہو اس کا کیا جواب دیں گے؟ اس میں تو واپس آنا ہی ممکن نہیں ہے۔ لہٰذا جو شرمندگی یہاں ہو رہی ہے اس کو تو برداشت کر لیں اور اطلاع کردیا کریں۔ اور دوسری بات یہ کہ ذکر کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ شروع کرتا ہوں لیکن مکمل نہیں کر پاتا۔ مجھے بتائیں آپ دنیا کے جو کام شروع کرتے ہیں وہ مکمل کرتے ہیں یا نہیں کرتے؟ اصل بات تو دنیا کی ہے کہ دنیا کو آپ نے priority دی ہے، تو priority آخرت کے کام کو دے دیں پھر اِنْ شَاءَ اللہ مکمل ہوں گے۔
سوال نمبر 26:
السلام علیکم! حضرت میں نے جو مراقبۂ سِر کیا تھا وہ میں نے بائیں پستان کے دائیں طرف دو انگلیاں نیچے کیا تھا، لیکن اب جب میں مراقبۂ خفی کا مقام دیکھ رہا تھا تو یہاں خفی کے دو مقام دِکھ رہے ہیں ایک forehead اور ایک لطیفۂ روح کے اوپر اور دو ہی مقام لطیفۂ سِر کے بھی ہیں۔
جواب:
یہ ٹھیک ہے، یہ اصل میں جو ہمارا بنوری سلسلہ ہے اس میں ایسا ہی ہے، یعنی جو سِر ہے وہ heart یعنی لطیفۂ قلب اور لطیفۂ روح کے درمیان ہے اور اس طرح جو لطیفۂ خفی ہے وہ forehead پر ہے یعنی روح کے اوپر ہے۔ تو آپ صرف ایک کو پکڑیں یعنی جو معصومی ہیں اس کو فی الحال پکڑیں، بنوریہ پھر بعد میں ہوجائے گا اِنْ شَاءَ اللہ۔
سوال نمبر 27:
السلام علیکم! میں نے ایک ایسے مسئلہ کے بارے میں آپ سے مشورہ کرنا تھا کہ کیسے اپنے روزمرہ کے معاملات میں توازن تلاش کروں؟ کئی سالوں کے بعد میں روزانہ اپنی بات پر توجہ دے کر اور کام کے دنوں کو کم کر کے وقت نکال کر اپنے دل میں بہت سکون اور اپنی عبادت میں بہتری پائی ہے۔ اب میرے پاس پیسے ختم ہو چکے ہیں اور دوبارہ کام کرنے کی کوشش کر رہا ہوں لیکن جب بھی کام پر توجہ دینے کی کوشش کرتا ہوں تو عبادت میں ارتکاز اور استقامت کھو دیتا ہوں، جب بھی اپنی عبادت پر زیادہ توجہ دیتا ہوں تو ایسا لگتا ہے کہ پیسے کے لئے کام کرنا ہے، مجھے کوئی وقت یا توجہ نہیں ملتی۔ براہِ کرم مشورہ دیں کہ میں اس میں توازن کو کیسے برقرار کروں؟
جواب:
توازن کا مطلب یہ ہے کہ اپنا timetable بنا لیں، timetable بنانے سے مراد یہ ہے کہ آپ کے آفس کا ٹائم ہے جس میں آپ earning کرتے ہیں اور یہ آپ کی عبادت کا ٹائم ہے اس میں آپ ان دونوں کو آپس میں mix نہ کریں اور تھوڑا یہ اور تھوڑا یہ اس طریقہ سے کر لیا کریں، کیونکہ جو عبادات ہیں وہ آپ کا زیادہ سے زیادہ ٹائم لیں گی تو دو اڑھائی گھنٹے لیتی ہیں، باقی وقت یا آرام کا ہوتا ہے یا کام کا ہوتا ہے، اگر آپ اس طرح کر لیں تو کوئی مسئلہ نہیں ہوگا اِنْ شَاءَ اللہ۔
سوال نمبر 28:
نمبر 1:
حضرت میں استغفار کا ذکر تین ہزار مرتبہ کر رہا ہوں تو میں ’’اَسْتَغْفِرُ اللهَ‘‘ ’’اَسْتَغْفِرُ اللهَ‘‘ پڑھ رہا ہوں اور درمیان میں ’’اَسْتَغْفِرُ اللهَ رَبِّىْ مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ وَّاَتُوْبُ اِلَيْهِ‘‘ یہ مکمل کر رہا ہوں۔ کیا اس طریقے سے پڑھا جائے یا مکمل پڑھا جائے؟
جواب:
مکمل پڑھنا چاہئے: ’’اَسْتَغْفِرُ اللهَ رَبِّىْ مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ وَّاَتُوْبُ اِلَيْهِ‘‘ پڑھنا چاہئے۔
نمبر 2:
اس کے علاوہ درود شریف ’’صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمْ‘‘ یہ پڑھ رہا ہوں۔
جواب:
یہ بھی پڑھ سکتے ہیں اور ’’صَلَّی اللہُ عَلَی النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ‘‘ بھی پڑھ سکتے ہیں۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ
۔ نوٹ! تمام آیات کا ترجمہ آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم سے لیا گیا ہے۔