سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 669

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال نمبر 1:

حضرت السلام علیکم گزشتہ کئی سالوں سے رمضان میں بہت زیادہ جسمانی اور اعصابی کمزوری ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے غیرِ رمضان والے اعمال بھی نہیں ہوپاتے اور علاج سے بھی غیرِ رمضان والی تندرستی نہیں ہوپاتی۔ اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ جَزَاکَ اللہ۔

جواب:

میں اس بارے میں کچھ نہیں کہ سکتا، ڈاکٹر ہی بتا سکتے ہیں کہ کیا صورتحال ہے۔ فی الحال اتنا تو ہونا چاہئے کہ جو فرائض، واجبات اور سننِ مؤکدہ ہیں ان میں تو فرق نہیں پڑنا چاہئے۔ باقی حسبِ توفیق ہے۔ اگر انسان واقعی معذور ہو تو اس سے اعمال کا نہیں پوچھا جائے گا، لیکن ویسے ہی صرف کم ہمتی کی وجہ سے سستی ہورہی ہو تو پھر محرومی کی بات ہے۔ اس بارے میں آپ خود تعین کر سکتے ہیں یا پھر کسی ماہر ڈاکٹر سے جو شریعت کا پابند بھی ہو اس سے consult کرکے تعین کرسکتے ہیں، وہی زیادہ بہتر بات بتا سکتے ہی۔

سوال نمبر 2:

نمبر 1:

السلام علیکم! حضرت میں فلاں آپ کو اپنی اصلاح کی خاطر message لکھ رہا ہوں۔ عرصۂ دراز سے میں شش و پنج کی حالت میں تھا کہ آپ سے رابطہ کروں یا نہیں، آپ کہیں غصہ تو نہیں کریں گے۔ میں نے سن رکھا ہے کہ آپ ناراض بھی ہوجاتے ہیں اور بھی بہت سارے سوالات تھے، مگر پھر ہمت کرکے معمولات کا form پُر کرنے کی ٹھان لی تھی۔ خیر بعد ازاں معلوم ہوا کہ اس میں نمازوں کی تفصیل بھی درکار ہے، جیسا کہ نماز انفرادی ادا کی جاتی ہے یا جماعت کے ساتھ وغیرہ وغیرہ۔ اِنْ شَاءَ اللہ آئندہ اس کا خیال رکھوں گا۔ میں آپ سے اس لئے اپنی حالت بیان کررہا ہوں کیونکہ میں آپ کو متبعِ سنت وشریعت مانتا ہوں، میں آپ کے بیانات بھی سنتا رہتا ہوں جس سے بہت فائدہ ہوتا ہے اور برائی سے بچ جاتا ہوں۔ اس کے ساتھ ساتھ میں فلاں شاہ صاحب سے بہت متاثر ہوا ہوں، اس کی اصل وجہ ان کی شاعری ہے۔ ان سے ملنے کا بہت شوق تھا مگر معلوم ہوا کہ ان کی وفات ہوچکی ہے۔ میں نے ان کے بہت سے بیانات سنے ہیں اور ان سے اللہ کے لئے محبت کرتا ہوں، ان کے متعلق آپ کا کوئی مشورہ یا رائے ہو تو میری اصلاح فرمائیے گا۔ عقائد میں یہ کہ میں اللہ کو ایک مانتا ہوں اور محمدﷺ کو آخری نبی اور پیغمبر مانتا ہوں، میں تمام آسمانی کتابوں اور انبیاء کرام پر یقین رکھتا ہوں۔ میرا ایمان ہے کہ آپ بھی اللہ تعالیٰ کے محتاج ہیں، میں بھی اللہ کا محتاج ہوں، کائنات کی ہر شے اللہ کی محتاج ہے، آپ بھی اللہ کی مرضی کے بغیر کسی کو نفع نہیں پہنچا سکتے۔ بہت لوگ پیروں کو مجذوب سمجھتے ہیں اور یہ کہ وہ مدد کرتے ہیں، حاجت روا ہیں، پیروں سے مانگنا وغیرہ۔ میں آپ کو روحانی طبیب سمجھتا ہوں، اگر عقائد میں کچھ غلطی ہے تو درست فرمایئے گا۔

جواب:

جو بتائے ہیں اس میں تو کوئی غلطی نہیں ہے۔

نمبر 2:

حالات: کچھ عرصہ پہلے حالت یہ تھی کہ نماز تک بھی پڑھنے کا دل نہیں کرتا تھا، اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ سے بہت دوری ہوگئی تھی، عشق مجازی نے جکڑ رکھا تھا، اور یہ حالت سب نہیں جانتے، مگر اللہ تعالیٰ کے ڈر کی وجہ سے بہت مجاہدہ کیا، خود کو اس سے نکالنے کے لئے بہت محنت کی ہے۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ نامحرم سے نہیں ملا، نہ براہِ راست رابطہ کیا ہے۔ نفس نے بہت کوشش کی لیکن اب اس کوشش میں ہوں کہ اس سے کیسے نجات حاصل کروں اور عشقِ حقیقی میں فنا ہوجاؤں۔ میں یہ سمجھ چکا ہوں کہ یہ دنیا عارضی ہے، ہر شے کو موت آنی ہے اور ایسی چیز کے لئے خود کو فنا کرنا جو خود فنا ہوسکتی ہے کج فہمی ہے۔ بہت سی روحانی بیماریوں کا علاج کروانا چاہتا ہوں، جیسے کبھی کبھار خود کو بہت بہتر سمجھنے لگ جاتا ہوں اور دوسروں کو کمتر، حالانکہ میں جانتا ہوں کہ یہ سب غلط ہے اور بھی بہت ساری بیماریاں ہیں۔ نظر کی حفاظت کرنے کی بہت کوشش کرتا ہوں، اَلْحَمْدُ لِلّٰہ میں نے سنتِ رسولﷺ پر عمل کرتے ہوئے داڑھی بھی رکھ لی ہے، میں نے قرآن حفظ کیا ہوا ہے مگر بیماریوں کی وجہ سے بہت نقصان ہوا، بہت مرتبہ یاد کرنے کی کوشش کی مگر رائیگاں رہی۔ ابھی اطلاع دی ہے تو منزل یاد کررہا ہوں، میرا ایمان تھا کہ جب تک میری اصلاح نہیں ہوجاتی یہ عظیم کلام اس قلب میں نہیں سما سکتا۔ اس پر بہت پریشان ہوں، والد صاحب صرف چند چیزوں سے واقف ہیں، جہاں تک ہوسکا آپ کو حالات بیان کر دیئے ہیں اور بھی بہت کچھ کہنا چاہتا ہوں مگر یہ message بہت طویل ہوجائے گا۔ اللہ ہم سب کی مدد فرمائیں اور ہمیں سیدھی راہ دکھائیں۔

جواب:

مَاشَاءَ اللہ! آپ کے خیالات بہت اچھے ہیں، میں ان سے بڑا متاثر ہوا ہوں اور اگر آپ خانقاہ آکر اس کا reference دے دیں تو زیادہ بہتر ہوجائے گا کیونکہ بعض اوقات بہت ساری باتیں انسان کو خط وکتابت سے صحیح طرح سامنے نہیں آتیں۔ اگر ایسا ہوسکے تو بہت بہتر ہے ورنہ اصلاح کے لئے تو آپ کوشش کر رہے ہیں اور مَاشَاءَ اللہ اس میں help کے لئے اگر آپ کسی سے رابطہ کرتے ہیں تو یہ بہت اچھی بات ہے، اس سلسلہ میں کوشش شروع کی جاسکتی ہے۔ بہرحال پہلے آپ مجھے بتائیں کہ آپ آسکتے ہیں تو یہ بہت زیادہ بہتر ہے، ورنہ پھر میں ادھر سے شروع کروا دوں گا لیکن diagnosis کے لئے اور تمام چیزوں کی بہتری کے لئے ایک دفعہ کم ازکم خانقاہ آنا زیادہ بہتر رہے گا۔

سوال نمبر 3:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! آپ نے 27 فروری کو جو وظیفہ بتایا تھا وہ میں نے مکمل کر لیا ہے، وظیفہ مندرجہ ذیل ہے: ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ دو سو، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ چار سو، ’’حَقْ‘‘ چھ سو اور ’’اَللّٰہ‘‘ ایک ہزار مرتبہ، مراقبہ پانچ منٹ کا، باقی وظائف معمول کے مطابق، دونوں مراقبہ میں کچھ محسوس نہیں ہوا۔

جواب:

آپ ایک مہینے کے لئے یہ مراقبہ دس منٹ کا کر دیں اور باقی چیزیں یہی رکھیں، پھر اِنْ شَاءَ اللہ دیکھیں گے۔

سوال نمبر 4:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! اَلْحَمْدُ لِلّٰہ

I have complete four weeks consecutively of quietly: Hundred times third کلمہ hundred times درود شریف hundred times استغفار. Loudly: Two hundred times ‘‘لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ’’ two hundred times ‘‘لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ’’ two hundred times ‘‘حَقْ’’ and hundred times ‘‘اَللّٰہ’’. Please advise for the next.

جواب:

Ok. Now you can do two hundred times ‘‘لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ’’ three hundred times ‘‘لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ’’ three hundred times ‘‘حَقْ’’ and hundred times ‘‘اَللّٰہ’’ for one month اِنْ شَاءَ اللہ

سوال نمبر 5:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! حضرت جی میں فلاں ہوں، اللہ پاک آپ سے راضی ہوں۔ آپ کی بات سمجھ آئی اَلْحَمْدُ لِلّٰہ، ایسے ہی شکر کروں گی اِنْ شَاءَ اللہ۔ حضرت جی میری عجیب کیفیت ہو رہی ہے، آپ سے محبت محسوس ہو رہی ہے، زیادہ تر بیانات نہ سن سکی، بہت کمزوری ہے صحت بھی مناسب رہتی ہے۔ اتوار کا بیان کبھی لیٹ کر اور کبھی نیند میں بس جیسے ہمت ہو سن لیتی ہوں اور جوڑ کے لئے ہمت کر لیتی ہوں، جتنی توفیق ہو عمل میں لگی رہتی ہوں۔ چونکہ کمزور ہوں اس لئے بہت زیادہ تو نہیں کر پاتی البتہ رمضان میں خاص کر اعتکاف میں آپ کی دعاؤں کی مجالس اور تشریح والی کلام کی مجالس میں شامل ہوجاتی تھی، اس سے بہت فائدہ ہوتا تھا۔ حضرت جی بیان کے دوران کئی بار جو کلام میرے ذہن میں آرہا ہوتا آپ وہی اس مجلس میں لگاتے تھے، میں بہت حیران ہوتی تھی کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے، میں ایک بار پرانے سال کا سن لیتی تھی تو دوسری بار آپ پھر لگا دیتے، مجھے اس سے خوشی ہوتی تھی اور ایسا لگتا تھا کہ آپ کی معرفت وقت کے ساتھ ساتھ بہت بڑھ رہی ہے۔ مَاشَاءَ اللہ جو آپ سب اکابر کے فیض کو اکٹھا کر رہے ہیں اللہ پاک آپ سے بہت کام لے رہے ہیں۔ آپ کی دعا سے مجھے ایسا لگتا ہے کہ میں ایک گاڑی ہوں، خود کمزور ہوں، اپنے آپ کو نہیں چلا سکتی۔ پہلے لوگ مجھے چلا رہے تھے اور اب اس کا steering اللہ کے پاس ہے اور میں مطمئن ہوں کہ اب کوئی گڑبڑ نہیں ہوسکتی، اس کو زیادہ پتا ہے کہ کب رفتار تیز، آہستہ کرنی ہے، بریک لگانی ہے۔ مجھے کچھ نہیں پتا۔ ایک راستے پر چل پڑی ہوں وہ بھی اللہ نے آپ کے طفیل دکھا دیا ہے یعنی میں منزل تک پہنچ جاؤں گی، بس راستے میں آندھی، بارش، ٹریفک سب ہوں گے لیکن مجھے ہمت نہیں ہارنی۔ کبھی میرے انجن، بریک، تیل، ٹائر وغیرہ میں مسئلہ آسکتا ہے جیسے نفس، عقل اور دل میں تو ساتھ ساتھ ٹھیک کرتے ہوئے گاڑی چلتی رہے گی۔ آگے پیچھے لوگوں کی باتوں میں نہیں آنا، دوسری گاڑیوں کو بھی نہیں دیکھنا، نہ اپنے اندر کمی دیکھنی ہے، موازنہ کرکے چلتے ہیں سب آسان ہوجائے گا۔ آپ دعا فرما دیں کہ میری اصلاح ہوجائے، دوسروں سے نظر ہٹ جائے اور دائمی تعلق صرف اللہ تعالیٰ سے جڑ جائے۔ دنیا کی آزمائشوں سے نہ گھبراؤں بس صرف اللہ پر نظر رکھوں۔ ابھی جو تفویض کی کیفیت محسوس ہورہی ہے پہلے ایسی نہیں ہوئی، مجھے نہیں پتا یہی حال ہے یا کیا ہے، بس اللہ پاک اس پر موت تک استقامت دے دیں۔

جواب:

ٹھیک ہے مَاشَاءَ اللہ! تفویض کی حالت تو بہت اچھی بات ہے، البتہ تفویض کے ساتھ یہ ہے کہ جن چیزوں کا اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ہے یعنی اوامر ونواہی، اس میں انسان کو اس طرح نہیں رہنا چاہئے کہ بس اگر ہوگیا تو ٹھیک ہے اور نہیں ہوا تو بھی ٹھیک ہے، بلکہ اس میں جتنی ہمت انسان کے اندر ہو اتنی ہمت کرنی ہے اور اگر کوئی مسئلہ ہو تو پھر شریعت کے مطابق جو اس کا علاج ہو وہ کرنا چاہئے اور پھر اللہ پہ چھوڑنا چاہئے۔ جیسے انسان بیماری میں دوائی استعمال کرکے پھر اللہ پہ چھوڑتا ہے، اسی طریقے سے آپ کو شریعت کے اعمال میں بھی کرنا چاہئے۔ اللہ جل شانہٗ توفیق عطا فرمائیں، باقی بہتری کے لئے دعا کرتا ہوں۔

سوال نمبر 6:

السلام علیکم! میرے پیارے حضرت جب بھی میں باقاعدگی کے ساتھ کوئی اچھا کام کرنا شروع کرتا ہوں تو مجھے بزرگی کا مسئلہ ہونے لگتا ہے اور محسوس ہوتا ہے کہ میں کچھ خاص ہوں اور جب کوئی میری تعریف کرتا ہے تو میرے نفس کو بہت خوشی ہوتی ہے جو کہ مجھے اچھے سے اعمال روکنے کی طرف لے جاتی ہے۔ کیا میں اس راز کو رکھنے کے لئے کچھ کر سکتا ہوں؟ برائے مہربانی رہنمائی فرما دیں۔

جواب:

بالکل کر سکتے ہیں۔ وہ یہ ہے کہ جب آپ کو پتا ہے کہ عُجب یعنی اپنے آپ کو بزرگ اور اچھا سمجھنا یہ برا ہے تو جب آپ کو پتہ ہے کہ مجھ میں یہ مرض ہے تو پھر اپنے آپ کو آپ کیسے بزرگ سمجھ سکتے ہیں؟ یعنی جو اس کا output ہے، وہی اس کے لئے input ہے۔ آپ جب سمجھیں کہ میں اپنے آپ کو بزرگ سمجھ رہا ہوں تو بزرگ سمجھنا تو اچھا نہیں ہے، لہٰذا میں اچھا نہیں ہوں، بس بزرگی ختم۔

سوال نمبر 7:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! حضرت جی میں لاہور سے فلاں آپ سے مخاطب ہوں۔ میں نے آپ کا بتایا ہوا چالیس روز کا عمل شروع کیا تھا اَلْحَمْدُ لِلّٰہ کل مورخہ 11 اپریل کو چالیس دن پورے ہوجائیں گے، مزید رہنمائی فرمائیں، دعاؤں کی خاص درخواست ہے۔ لاہور خانقاہ کا tour اور آپ سے ملاقات کا schedule بھی بتا دیجئے گا۔

جواب:

ٹھیک ہے جب اِنْ شَاءَ اللہ ہمارا لاہور کا پروگرام بنے گا تو پھر اِنْ شَاءَ اللہ آپ سے عرض کروں گا اور جن کے ہاں یہ پروگرام ہوتے ہیں وہ فی الحال بیمار ہیں، تو اِنْ شَاءَ اللہ جیسے ہی ان کی طبیعت درست ہوگی تو عرض کروں گا۔ بہرحال آپ نے چونکہ چالیس روز کا معمول پورا کر لیا ہے تو اب آپ جہری ذکر کرنا شروع کریں، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ یہ سو دفعہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ سو دفعہ، ’’حَقْ‘‘ سو دفعہ، ’’اَللّٰہ‘‘ سو دفعہ۔ یہ آپ نے ایک مہینے کے لئے کوئی وقت مقرر کرکے سو، سو دفعہ کرنا ہے اور بغیر ناغے کے کرنا ہے اِنْ شَاءَ اللہ، اور تیسرا کلمہ، درود شریف، استغفار سو، سو دفعہ، یہ آپ نے عمر بھر کے لئے کرنا ہے اور ہر نماز کے بعد کا جو ذکر بتایا تھا وہ بھی کرنا ہے، اِنْ شَاءَ اللہ ایک مہینے کے بعد آپ مجھے احوال بتائیں گے۔

سوال نمبر 8:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! حضرت آپ کو اور تمام اہل وعیال کو میری طرف سے عید مبارک ہو۔

جواب:

آپ کو بھی گزشتہ عید مبارک ہو، اللہ جل شانہٗ اس کی برکات برقرار رکھیں اور ہماری کوتاہیوں سے ضائع نہ ہوجائیں۔

سوال نمبر 9:

السلام علیکم! حضرت شاہ صاحب اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند فرمائیں آمین۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ آپ کی برکت سے میرا ذکر دو سو، چار سو، چھ سو، نو ہزار اور دس منٹ کا مراقبہ تھا، جس کو دو ماہ ہوگئے ہیں۔ دیر سے اطلاع کی معذرت چاہتا ہوں لیکن آپ کی برکت سے آپ کے ساتھ اصلاحی اعتکاف نصیب ہوا اَلْحَمْدُ لِلّٰہ۔ ایّام اعتکاف کی تروایح میں دل کے مقام پر اَللہ اَللہ محسوس ہوتا ہے، جبکہ رمضان سے پہلے مراقبہ میں کبھی کبھار اتنا ممکن ہوتا تھا کہ وقتی طور پر یاداشت چلی جاتی تھی کہ میں کون ہوں، کہاں ہوں، آپ کی برکت سے اللہ تعالیٰ کا دھیان نصیب ہوا ہے جو کہ نماز میں کم اور غیرِ نماز میں زیادہ ہوتا ہے۔ اعتکاف کے بعد اس دھیان میں تھوڑا سا لطف محسوس ہوتا ہے۔ آپ سے پوچھنا تھا کہ نماز میں خشوع وخضوع کا حکم ہے، اس میں تو دھیان کم ہوتا ہے جبکہ غیرِ نماز میں زیادہ ہوتا ہے، اس کی کیا حقیقت ہوسکتی ہے؟ اعتکاف میں خلافت کے وسوسے آتے تھے اور اس پر نفس کو ڈانٹتا کہ تم نے بہت تیر چلائے، ہوسکتا ہے کہ اب شاہ صاحب شاید تمہارے ہاتھ پر بیعت کریں، پھر اس کے بعد نفس کے وسوسے بند ہوگئے۔

جواب:

دیکھیں! جب آپ نماز میں نہیں ہوتے تو آپ کسی چیز پر اپنی مرضی سے focus کر سکتے ہیں۔ مثلاً ذکر، تو اس لئے زیادہ محسوس ہوتا ہے جبکہ نماز میں آپ کو مسلسل نماز کے اعمال کی طرف حرکت ہوتی ہے۔ تو اس میں خشوع و خضوع یہی ہے کہ آپ کا دل نماز کے حالات سے نا ہٹے، بس نماز کی طرف رہے۔ اور یہ کہ آپ سکون کے ساتھ نماز پڑھیں یعنی اس میں بے جا جلدی نہ ہو اور جس رکن میں اعضاء جس حالت میں ہونے چاہئیں اسی حالت میں ہوں، اس کو خشوع وخضوع کہتے ہیں۔ بس یہی ہونا چاہئے، اگر یہ ہو تو بس کافی ہے۔ باقی جہاں تک خلافت کے وسوسے ہیں تو وسوسوں کی پروا ہی نہیں کرنی چاہئے یعنی کہاں بزرگی اور کہاں ہم، ہم تو بس عام لوگ ہیں۔ حضرت تھانوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: کہ بزرگوں کے نصاب پہ نہ رہیں، عام لوگوں کے نصاب پہ رہیں تو سہولت ہے، ورنہ اللہ تعالیٰ نے اگر بزرگوں والا نصاب تم پر ڈال دیا تو پھر کیا کرو گے۔

سوال نمبر 10:

حضرت شیخ صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! عید الفطر مبارک ہو۔ جیسا کہ آپ نے فرمایا تھا میں نے تیس دن ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ دو سو، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ دو سو، ’’حَقْ‘‘ دو سو اور ’’اَللّٰہ‘‘ سو مرتبہ کا وظیفہ پورا کر لیا۔

جواب:

اب ایک مہینے کے لئے ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ دو سو، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ تین سو، ’’حَقْ‘‘ تین سو اور ’’اَللّٰہ‘‘ سو دفعہ کا وظیفہ کریں۔

سوال نمبر 11:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! حضور کل اس ذکر کو میرا ایک ماہ مکمل ہوگیا ہے، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ دو سو مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ چار سو مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ چھ سو مرتبہ اور ’’اَللّٰہ‘‘ دو ہزار مرتبہ۔ حضور تمام مریضوں سمیت میرے لئے بھی صحت یابی اور دنیا سے باایمان رخصتی کے لئے دعاؤں کی درخواست ہے، اللہ پاک میرے لئے اس ذکر میں آسانیاں عطا فرمائیں۔ حضور! اس ذکر کو جاری رکھنے کی اجازت عطا فرمائیں، آپ کی دعاؤں کا طالب اَللّٰھُمَّ آمِیْن۔

جواب:

اب آپ ایک مہینے کے لئے ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ ڈھائی ہزار مرتبہ کرلیں، باقی سب وہی رکھیں۔

سوال نمبر 12:

السلام علیکم! حضرت میرا نام فلاں ہے۔ میرے شوہر بھی آپ سے بیعت ہیں، وہ دبئی میں ہوتے ہیں، ان کا نام فلاں ہے، ہم فلاں جگہ کے ہیں۔ میں نے فلاں سے چالیس دن کا ذکر بھی لیا ہے، اب آپ اگر مجھے ذکر بتا دیں۔ میری شادی کو تین ماہ ہوئے ہیں، میرے شوہر شادی کے ایک ماہ بعد دبئی چلے گئے تھے، اب ان کے لئے بہت روتی ہوں لیکن میرے شوہر اکلوتے ہیں اور گھر میں کوئی اور کمانے والا نہیں ہے۔ اب ان کی تو مجبوری ہے لہٰذا میں اکیلی ہوتی ہوں تو صبر نہیں آتا، اس لئے بہت روتی ہوں، آپ رہنمائی فرما دیں۔

جواب:

بات بہت simple ہے کہ حالات سے comparison کرنا ہے یعنی آپ نے خود ہی بتایا کہ ان کی مجبوری ہے، لہٰذا مجبوری تو مجبوری ہوتی ہے۔ اگر آپ کو تکلیف ہے تو آپ اس میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنا تعلق قائم رکھیں تاکہ آپ کا اس چیز کا زیادہ استحضار وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق میں تبدیل ہوجائے۔ اس کے لئے آپ ذکر کریں اور چالیس دن جو ذکر آپ نے کیا ہے، اگر اس میں ناغہ نہیں ہوا تو پھر تیسرا کلمہ، درود شریف اور استغفار یہ سو، سو دفعہ روزانہ پوری عمر آپ جاری رکھیں اور ہر نماز کے بعد جو ذکر بتایا ہے وہ بھی آپ جاری رکھیں۔ اس کے علاوہ دس منٹ کے لئے آنکھیں بند، زبان بند، قبلہ رخ بیٹھ کر آپ نے یہ تصور کرنا ہے کہ میرا دل ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کررہا ہے، بس یہ تصور کرنا ہے کروانا نہیں ہے، کیونکہ آپ تصور کروا نہیں سکتیں، لیکن اگر ہونا شروع ہوجائے تو کم ازکم آپ کو پتا چل جائے، بس اس طرف focus رکھیں۔ یہ دس منٹ کا مراقبہ ایک مہینہ کرکے مجھے اطلاع کر دیں اِنْ شَاءَ اللہ۔

سوال نمبر 13:

السلام علیکم!

Sheikh as per your instructions I was continuing to do the following حسنات deeds for the last one and a half months.

Read two pages of تفسیرِ قرآن daily

Teach Quran recitation to some brothers and sisters

I was trying to help مسجد to organize افطار for the people during the رمضان. After doing the above, I have more good and strong feelings, that is, I feel more confidence, patience and feel that Allah is so kind to me and gives me countless برکات all the time. Even though I have a small health problem and challenge during the رمضان, I feel it is a test and also a kind of برکات to me from Allah. I have more self-control اَلْحَمْدُ للہ Sheikh. Kindly let me know what I should do for the next? اِنْ شَاءَ اللہ

جواب:

مَاشَاءَ اللہ!

You are doing well and Allah سبحانہٗ وتعالیٰ grant you توفیق to continue this. When you get up in the morning you should think what better thing you can do for people and for their Akhira and when you sleep in the night, you should think how much you were in this. You should repeatedly do daily اِنْ شَاءَ اللہ and beside the other what you are doing

سوال نمبر 14:

السلام علیکم! حضرت آپ سے ملنا چاہتا ہوں، وقت عنایت فرما دیں اور مہربانی فرما کے خانقاہ کا Adress بھی بھیج دیں جَزَاکُمُ اللہ۔

جواب:

آپ اگر تشریف لانا چاہتے ہیں تو تشریف لے آئیں اِنْ شَاءَ اللہُ الْعَزِیْز وقت کا تعین بھی ہوجائے گا۔ آپ خانقاہ آجائیں میں آپ کو location بھیج دیتا ہوں۔

سوال نمبر 15:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! اللہ تعالیٰ آپ کو خوش اور سلامت رکھے آمین۔ حضرت جی کچھ وقت خانقاہ میں لگانے سے زندگی بدل گئی ہے، اللہ آپ پر اپنی رحمتیں اور برکتیں نازل فرمائیں۔ میرے کچھ دنیاوی معاملات لوگوں کے ساتھ خراب تھے ان سے صلح صفائی کر لی ہے، ابھی بھی دل میں دیکھتا ہوں کہ کسی کے لئے بغض یا کینہ تو نہیں رہا۔ نمبر 2: ذکر اور دعا میں دل لگتا ہے۔ نمبر 3: فرض نماز میں کوشش کے باوجود توجہ نہیں ہوئی، آپ کے دیئے ہوئے ذکر کا وقت پورا ہوگیا ہے۔ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ، لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ، حَقْ، اَللّٰہ‘‘ بالترتیب سو، سو بار کررہا ہوں، حضرت دل و دماغ ابھی تک خانقاہ میں ہے دل چاہتا ہے کہ پھر کچھ وقت آکر خانقاہ میں لگاؤں۔ تیسرا کلمہ جو بالترتیب تین سو، دو سو ہے۔ آپ کے کارڈ والے ذکر کا چلہ پورا ہوگیا ہے، گھر میں نماز واذکار کی اَلْحَمْدُ لِلّٰہ پوری پابندی چل رہی ہے، آپ سے دعا کی گزارش ہے۔

جواب:

مَاشَاءَ اللہ! اب آپ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ دو سو مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ دو سو مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ دو سو مرتبہ اور ’’اَللّٰہ‘‘ سو مرتبہ، یہ ایک مہینے کے لئے آپ روزانہ کر لیا کریں۔ اور اپنی اہلیہ کو بتا دیں کہ تیسرا کلمہ، درود شریف اور استغفار سو، سو دفعہ روزانہ عمر بھر کے لئے اور نماز کے بعد والے اذکار بھی عمر بھر کے لئے کرنے ہیں۔ اس کے علاوہ دس منٹ کے لئے آنکھیں بند، زبان بند، قبلہ رخ بیٹھ کے آپ تصور کریں کہ میرا دل ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کررہا ہے۔ یہ آپ نے کروانا نہیں ہے کیونکہ آپ کروا نہیں سکتیں، لیکن اگر وہ ہونا شروع ہوجائے تو کم ازکم آپ کو پتا چل رہا ہو، یہ focus دس منٹ کے لئے روزانہ آپ نے کرنا ہے۔ اور ایک مہینے کے بعد آپ دونوں مجھے بتائیں گے اِنْ شَاءَ اللہ۔

سوال نمبر 16:

حضرت تکبر کو دور کرنے کا طریقہ ہے؟

جواب:

اس کو دور کرنے کے لئے اعلیٰ درجہ کی تواضع چاہئے یعنی اپنے آپ کو بالکل کچھ نہ سمجھنا اور جب تک آپ اپنے اندر تکبر دیکھیں تو اپنے آپ کو کچھ بھی نہ سمجھیں۔

سوال نمبر 17:

السلام علیکم! سر جی آپ خیریت سے ہیں؟ میں نے 25 اپریل کو اِنْ شَاءَ اللہ عمرے کے لئے جانا ہے، آپ سے دعا کی اپیل ہے کہ اللہ سب سیدھا فرما دیں اور سب اعمال صحیح طریقے سے ادا کرنے کی توفیق ہوجائے۔ آپ کے page پر لکھا ہے کہ عورت کو احرام میں چہرہ ڈھانپنا حرام ہے اور سلا ہوا نقاب نہیں پہن سکتی، جبکہ ڈاکٹر فرحت ہاشمی کہتی ہیں کہ سلا ہوا نقاب پہننا حرام ہے اور چہرہ نامحرم سے چھپانا چاہئے۔ یہ واضح فرمائیں۔ اور عورت کو مکہ اور مدینہ میں نماز کدھر پڑھنی چاہئے مسجد میں یا اپنے ہوٹل میں؟

جواب:

ایک چھجی والی ٹوپی سی ہوتی ہے وہ اگر کوئی پہن لے اور اس کے اوپر اپنا نقاب ڈال لیں تو سلا ہوا کپڑا چہرے پہ نہیں لگے گا اور غیر محرم سے بھی چھپ جائے گا، بس اتنا کر سکتی ہیں۔ اور جیسے انسان عام طور پہ پورا جسم چھپاتا ہے، اس طریقے سے آپ لوگوں سے چھپائیں گے۔ ہر وقت کمرے میں ہیں تو لوگوں سے تو نہیں چھائیں گی، اس وقت تو آپ چہرہ بھی کھول سکتی ہیں۔ یہ بہت آسان ہے، آپ کے لئے کوئی مشکل نہیں ہے۔ البتہ نماز مکہ اور مدینہ منورہ میں کیسے پڑھنی ہے، تو آپ ﷺ کی حدیث شریف ہے:

’’صَلَاةُ الْمَرْأَةِ فِيْ بَيْتِهَا أَفْضَلُ مِنْ صَلَاتِهَا فِيْ حُجْرَتِهَا، وَصَلَاتُهَا فِيْ مَخْدَعِهَا أَفْضَلُ مِنْ صَلَاتِهَا فِيْ بَيْتِهَا‘‘ (سنن ابی داؤد: 570)

ترجمہ: ’’عورت کی اپنے گھر کی نماز اس کی اپنے صحن کی نماز سے افضل ہے، اور اس کی اپنی اس کوٹھری کی نماز اس کے اپنے گھر کی نماز سے افضل ہے‘‘۔

سوال نمبر 18:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

Respected حضرت صاحب I pray that you are well. Ameen. I have completed this month ذکر without miss اَلْحَمْدُ لِلّٰہ

’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ two hundred times ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ four hundred times ’’حَقْ‘‘ six hundred times ’’اَللّٰہ‘‘ thousand times مراقبہ ten minutes Allah Allah on لطیفۂ قلب fifteen minutes on لطیفۂ روح. Regarding مراقبہ I feel the ذکر more as compared to last month on both لطائف in recent days but my thoughts still tend to stray away from the ذکر which then I tried to keep focused.

جواب:

مَاشَاءَ اللہ!

This try is actually required. So you should continue this try and now I think, you should do ten minutes Allah Allah on the لطیفۂ قلب and ten minutes on لطیفۂ روح and fifteen minutes on لطیفۂ سر and the rest will be the same اِنْ شَاءَ اللہ

سوال نمبر 19:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! حضرت جی میں جہلم سے فلاں بات کررہا ہوں، اِنْ شَاءَ اللہ آپ خیریت سے ہوں گے۔ حضرت نے جو مجھے ذکر دیا تھا ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ دو سو مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ چار سو مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ چھ سو مرتبہ، ’’اَللّٰہ‘‘ پندرہ سو مرتبہ، دو مہینے میں نے کیا ہے، پہلے مہینے میں کچھ ناغے ہوئے تھے اور رمضان میں بھی ناغے ہوئے ہیں، لیکن دوسرے اذکار اور قرآن مجید پر کافی توجہ رہتی ہے، میری رہنمائی فرما دیں۔

جواب:

اب آپ اس طرح کریں کہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ دو سو مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ چار سو مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ چھ سو مرتبہ اور ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ دو ہزار مرتبہ کرلیں اور ایک مہینے کے بعد پھر مجھے اطلاع دیں اِنْ شَاءَ اللہ۔

سوال نمبر 20:

السلام علیکم! محترم حضرت جی میرے اس مہینے کے سارے اذکار پورے ہوگئے ہیں، دو، چار، چھ اور چار ہزار، تمام لطائف پر دس دس منٹ مراقبہ اور ﴿وَھوَ مَعَکُمْ اَیْنَ مَا کُنْتُمْ کا مفہوم پندرہ منٹ، چند ماہ سے جاری ہے۔ اس مراقبے میں میری وقوفِ قلبی والی کیفیت مزید بڑھ گئی ہے اور موت کا خیال بھی ہمیشہ رہتا ہے، میرے اندر صبر بھی بہت زیادہ بڑھ گیا ہے، الحمد للہ۔

جواب:

مَاشَاءَ اللہ اب اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو یاد کرکے شکر کا مراقبہ کریں کہ کتنی نعمتیں اللہ تعالیٰ نے آپ کو دی ہیں، اس پر شکر اگر کم ہیں تو اس پہ شکر کرنا چاہئے اور اپنے آپ کو سمجھانا چاہئے کہ اللہ پاک جو نعمتیں بغیر استحقاق کے ہمیں دے رہے ہیں، ان پر شکر کرنا چاہئے۔ باقی چیزیں یہی جاری رکھیں۔

سوال نمبر 21:

السلام علیکم! حضرت جی کیا عورت احرام میں سلا ہوا کپڑا نہیں پہن سکتی؟ اور یہ بھی فرما دیں کہ منزلِ جدید پڑھنے کا کون سا وقت بہتر ہے؟

جواب:

آپ پر سلے ہوئے کپڑے کی پابندی نہیں ہے وہ مردوں پر ہوتی ہے تو آپ سلا ہوا کپڑا پہن سکتی ہیں۔ ہاں! البتہ جو چہرہ کھلا رکھنے کا حکم ہے، اس کے لئے میں نے آپ کو بتایا ہے کہ چھجے والی ٹوپی پہن کر اس کے اوپر نقاب لٹکا لیں۔ عورتوں کے لئے الگ حکم ہے۔ اور منزلِ جدید مغرب کے بعد بہتر ہے کیونکہ رات شروع ہو رہی ہوتی ہے اور یہ چیزیں رات کو ہی زیادہ ہوتی ہیں۔ البتہ اگر مغرب کے وقت آپ کے پاس ٹائم نہیں ہوتا تو عشاء کے بعد پڑھ لیں۔

سوال نمبر 22:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! حضرت جی معمولات اَلْحَمْدُ لِلّٰہ معمول کے مطابق جاری ہیں، حضرت جی میرا ذکر ایک مہینے کے لئے دو سو، چار سو، چھ سو اور ساڑھے سولہ ہزار تھا، پانچ منٹ کے لئے یہ سوچنا تھا کہ اللہ مجھے محبت کے ساتھ دیکھ رہے ہیں۔ یہ اللہ کے فضل اور آپ کی دعاؤں کی برکت سے مکمل ہوگیا ہے۔ کیفیت میں کچھ خاص تبدیلی محسوس نہیں ہورہی، نمازیوں کے جوتے سیدھے کرنے کا مجاہدہ ابھی جاری ہے اَلْحَمْدُ لِلّٰہ۔

جواب:

اب آپ روزانہ صبح اٹھتے وقت یہ سوچا کریں کہ میں آج لوگوں کی جائز بھلائی کے لئے کیا کر سکتا ہوں اور پھر رات کو سونے سے پہلے اس کا محاسبہ کریں کہ میں نے آج کیا کچھ کیا۔ یہ شروع فرما لیں، تقریباً پندرہ منٹ کے لئے سوچیں کہ میں کیا کر سکتا ہوں، باقی چیزیں وہی رہیں گی اِنْ شَاءَ اللہ۔

سوال نمبر 23:

السلام علیکم! حضرت آپ نے جو اذکار دیئے تھے اَلْحَمْدُ لِلّٰہ ان کو ایک مہینہ مکمل ہوچکا ہے، لیکن کچھ دن اذکار کی تعداد مکمل نہیں کر سکا، مزید رہنمائی کی درخواست ہے۔ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ دو سو، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ چار سو، ’’حَقْ‘‘ چھ سو اور ’’اَللّٰہ‘‘ تیرہ ہزار، اس کے ساتھ پانچ منٹ تصور کرنا کہ دل ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کررہا ہے، لیکن حضرت مجھے ابھی ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ دل اَللہ اَللہ کررہا ہو۔

جواب:

پھر آپ ’’اَللہ اَللہ‘‘ ساڑھے تیرہ ہزار کرلیں اور باقی چیزیں وہی رکھیں۔

سوال نمبر 24:

السلام علیکم! حضرت جی میرا month complete ہوگیا ہے۔ آپ کو مراقبے کا بتانا تھا، پانچ پانچ منٹ چاروں لطائف پہ اور لطیفۂ خفی پر خاص فیض والا پندرہ منٹ کا۔

جواب:

یہ میرے خیال میں آپ سے تھوڑی سی غلطی ہوئی ہے، یہ پانچ پانچ منٹ چاروں لطائف پر اور پندرہ منٹ آپ کا لطیفۂ خفی پر، وہ خاص فیض والا نہیں ہے بلکہ یہ بھی ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ والا ہے۔ اگر خاص فیض والا ہے تو وہ دل کے اوپر ہوتا ہے اور لطائف کے بعد ہوتا ہے۔

سوال نمبر 25:

السلام علیکم! حضرت آپ نے ایک ماہ کے لئے مجھے بیس منٹ کا مراقبہ دیا تھا، یہ تصور کرنا کہ میرا دل ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کررہا ہے ابھی تک مجھے کچھ محسوس نہیں ہوا۔

جواب:

آپ اس کو جاری رکھیں اور ناغہ بالکل نہ کریں۔

سوال نمبر 26:

السلام علیکم! حضرت خانقاہ میں رہنے کے لئے ساتھ کیا سامان لانا ضروری ہے؟ رہنمائی فرما دیں۔

جواب:

موسم کے لحاظ سے اگر آپ اپنے ساتھ کوئی بستر لانا چاہیں تو لے آئیں اور اپنی ذاتی ضرورت کا سامان لا سکتے ہیں۔ بہرحال نیچے بچھانے کے لئے یہاں فوم مل ہی جاتا ہے، لیکن اپنے طور پہ بعض لوگ اپنی چیزیں اپنے ساتھ رکھتے ہیں، وہ آپ لا سکتے ہیں۔

سوال نمبر 27:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! حضرتِ اقدس مزاج بخیر وعافیت ہوں گے۔ بندہ کی اہلیہ کو جو ذکر دیا تھا وہ ایک مہینہ بلاناغہ پورا ہوگیا ہے اور جو پانچ منٹ ’’اَللہ اَللہ‘‘ کا مراقبہ ہے، وہ محسوس ہوتا ہے۔

جواب:

ماشاء اللہ! اب ان کو دس منٹ کے لئے دل کا بتا دیں اور پندرہ منٹ کے لئے لطیفۂ روح کا بتا دیں، اگر لطیفۂ روح کا آپ کو معلوم نہ ہو تو بتا دیں، میں رہنمائی کر دوں گا اِنْ شَاءَ اللہ۔

سوال نمبر 28:

السلام علیکم! حضرت جی میرا نام فلاں ہے۔ میرا ذکر دو سو، چار سو، چھ سو، ایک ہزار ہے، ایک ماہ مکمل ہوگیا ہے۔ مزید رہنمائی فرما دیں۔

جواب:

اب دو سو، چار سو، چھ سو اور پندرہ سو کرلیں۔

سوال نمبر 29:

السلام علیکم!

I pray you are well dear Sheikh. I want to ask you a question about understanding tasawuf. Why is understanding tasawuf فہم التصوف important and what benefits are there for the سالک in its understanding? Also how deep should a سالک try to understand it because tasawuf is obviously a practical field جَزَاکَ اللہ. Humble request for your duas.

جواب:

مَاشَاءَ اللہ بہت اچھی بات ہے کہ آپ نے سوال کیا۔ اصل میں فہم التصوف اس لئے ضروری ہے کہ آج کل فتنوں کا دور ہے اور فتنوں کے دور میں تصوف کو مختلف رنگوں میں پیش کیا جا رہا ہے، جس میں بعض بالکل ہی غلط ہیں۔ اگر وہ کسی کو معلوم نہ ہوں تو ان کی ساری کوششیں practical رائیگاں چلی جاتی ہیں۔ مثلاً کوئی آدمی کشف کو ضروری سمجھتا ہے، اور اب وہ کشف کو ہی حاصل کرنے کی کوشش کررہا ہو، تو اس کی ساری کوششیں رائیگاں چلی جائیں گی۔ کیونکہ کشف تو انسان کے اختیار میں نہیں ہے، کچھ چیزیں اختیاری ہوتی ہیں، جیسے معاملات کی صفائی اختیاری چیز ہے لیکن اس کی پروا نہیں کرتا اور کشفوں کے پیچھے پڑا رہتا ہے۔ اسی طرح بہت ساری چیزیں ہیں جن میں غلط فہمی بڑی نقصان دہ ہوتی ہے۔ اس وجہ سے آج کل understanding اتنی ضروری ہے کہ کم از کم کوئی اس کو دھوکہ نہ دے سکے اور نہ خود دھوکہ میں آئے۔ اس وجہ سے اس کی اشد ضرورت ہے۔

سوال نمبر 30:

حضرت مرشدی ایک Nigerian ڈاکٹر صاحب کو رہنمائی درکار ہے۔

The question has to do with my profession. I am a medical doctor and I am the only one in my hospital. I attend to female clients in the clinic. I do ultrasound for pregnant women and perform SZ for those who require it. I am sometimes called upon by midwives to conduct delivery if they failed to do it. All these mean I have to touch them with gloves without desire. Sir my question is, do these things affect my progress in my training to attain قرب of Allah سبحانہٗ وتعالیٰ. You had given me forty days of ذکر. I made fifteen days of ذکر. Sir, I want to note that I always remember you in my five days of prayers. Kindly pray for my successes and pray for me. Your توجہ.

والسلام

جواب:

As far as your ذکر is concerned, I think its okay. You should continue it for forty days and then you will inform me. As for the other question, this requires فتویٰ so, I shall contact some علماء for this purpose and then they will answer me. I shall inform you اِنْ شَاءَ اللہ.

سوال نمبر 31:

شیخِ طریقت حضرت شیخ شبیر کاکاخیل صاحب، خلیفۂ مجاز عارف بِاللہ حضرت صوفی اقبال مدنی صاحب نوراللہ مرقدہٗ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ! شَیْخُنَا امید ہے کہ آپ باعافیت ہوں گے۔ سید عبدالمالک ندوی دہلی سے ہے، بندہ نے سوشل میڈیا پر آپ کے بیانات سنے اور آپ کی تصنیفات اور تعلیمات سے استفادہ کیا تو آپ سے قلبی مناسبت محسوس ہوئی، ایک دن آپ سے روحانی رشتہ جوڑنے کی خواہش ہوئی۔ بندہ سوشل میڈیا پر آپ کے بیانات سے استفادہ کرتا ہے، آپ کے بیانات اور تحریریں واقعی چشم کشا اور معلومات افزاء ہوتی ہیں اور سامعین کے اندر عمل کا جذبہ پیدا کرتی ہیں۔ خاص طور پر تصوف کے حوالے سے آپ کے مضامین قرآن وسنت پر مبنی اور نفع بخش ہوتے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ اس دور میں حقیقی تصوف کو عام کرنے والے خال خال لوگ ہی ملتے ہیں، ورنہ اکثر غیر مستند باتیں نشر کرتے ہیں۔ سیدی بندہ اہل اللہ اور مشائخِ طریقت سے قلبی محبت رکھتا ہے، بندہ کا بیعت اور ارشاد کا تعلق شیخ الحدیث مولانا شاہ عبدالقادر مظاہری گجراتی سے رہا ہے۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ چار سال سفر و حضر میں حضرت کی رفاقت رہی، خوب استفادہ کیا، انہوں نے احقر کی نالائقیوں اور نااہلی کے باوجود سلاسلِ اربعہ چشتیہ، نقشبندیہ، قادریہ اور سہروردیہ میں اجازت وخلافت عطا فرمائی۔ ان کے علاوہ عارف باللہ حضرت اقدس مولانا منیر احمد کالینا نور اللہ مرقدہٗ، شیخ الحدیث حضرت اقدس مولانا فریدالدین دیوبندی خلیفہ حضرت مظفر حسین سہارنپوری رحمۃ اللہ علیہ سے بھی اجازت وخلافت کی نعمت حاصل ہے۔ سیدی بندہ کو ہمارے اکابر مشائخ کی نسبتوں کی بہت قدر ہے، بندہ کا خیال ہے کہ اکابر سے وابستہ رہنے سے نیک اعمال کی توفیق ملتی ہے اور ایمان پر استقامت نصیب ہوتی ہے۔ سیدی چونکہ آپ کو شیخ المشائخ حضرت صوفی اقبال مدنی نور اللہ مرقدہٗ کے سلسلہ سے نسبت اور اجازت حاصل ہے، اسی طرح حضرتِ اقدس تنظیم الحق حلیمی رحمۃ اللہ علیہ اور متعدد مشائخ کے سلسلے کی نسبت کے بھی امین ہیں۔ خواہش ہے کہ آپ کے سلسلے کی کچھ برکات اس ناکارہ کو نصیب ہوں، آپ اس ناکارہ پر دستِ شفقت فرما دیجئے گا۔ اکابر کا شیوہ ہے کہ چھوٹوں پر شفقت فرماتے ہیں۔ اللہ آپ کو سلامت رکھے، آپ کا فیضانِ روحانی چار دانگِ عالم میں عام فرمائے۔ حق تو یہ تھا کہ آپ کی خدمت میں براہِ راست حاضر ہو کر استفادہ کرتا، لیکن بہت زیادہ امکان ہے کہ اس فرض سے محروم رہوں۔ بندہ دہلی میں قرآن پاک کی تعلیم میں مشغول ہے، سکول کے طلباء پر زیادہ focus ہے، ان کے عقیدہ اور ایمان کے سلسلے میں زیادہ محنت ہورہی ہے۔

جواب:

مَاشَاءَ اللہ! اللہ تعالیٰ آپ کو اس مبارک محنت کے لئے قبول فرمائیں۔ طلباء کے اوپر بہت زیادہ محنت کی ضرورت ہے، اس وقت نوجوانوں میں بہت زیادہ بد اخلاقیاں اور اعمال کے لحاظ سے قصداً غلط باتیں پھیلائی جا رہی ہیں اور لوگ نشوں میں مبتلا ہورہے ہیں، برائیوں میں مبتلا ہورہے ہیں۔ تو اس کو دور کرنا آپ کی اور ہماری ذمہ داری ہے۔ ہمارے شیخ مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ ان کا بھی یونیورسٹی میں یہی کام تھا، یونیورسٹی میں مَاشَاءَ اللہ ان سے ہم سب نے استفادہ کیا اور وہ مَاشَاءَ اللہ students کے درمیان میں students ہی کی طرح کام کرتے تھے اور ان کے ساتھ گپ شپ میں بہت ساری باتیں ان کو پہنچاتے تھے۔ آپ اگر چاہیں تو ہمارے شیخ مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے جو مقالے ہیں وہ میں اِنْ شَاءَ اللہ کوشش کرتا ہوں کہ آپ کو send کر دوں، آپ ان سے استفادہ کریں اور students کے اندر کام کریں۔ اس طریقے سے آپ کو ہمارے سلسلے کی برکات نصیب ہوتی رہیں گی اِنْ شَاءَ اللہ۔ میں آپ کے لئے دعاگو ہوں اور آپ مجھے بھی اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ہر فتنے سے محفوظ رکھیں، اللہ جل شانہٗ ہم سب کا حامی وناصر ہو۔

سوال نمبر 32:

حضرت رمضان شریف میں قرآن پاک سنانے کا سلسلہ رہا تو ذکر میں کچھ ناغے ہوگئے ہیں، ذکر بالجہر تو چلتا رہا لیکن باقی جو لطائف تھے ان میں ناغہ ہوگیا تھا۔

جواب:

اس کو شروع فرما لیں اور کوشش کریں کہ اس کی تلافی ہوجائے۔ بہرحال رمضان شریف میں تو اللہ تعالیٰ قرآنِ پاک کے انوارات نصیب فرما دیں یہ بہت بڑی سعادت ہے۔ البتہ ذکرکے جہاں سے ناغے ہوئے ہیں وہیں سے آپ شروع فرما لیں، اِنْ شَاءَ اللہ واپس ہوجائیں گے۔

سوال نمبر 33:

حضرت دو باتیں پوچھنی تھیں ایک تو ہمیشہ ذہن میں یہ خیال آتا ہے کہ میرے گردے ختم ہوجائیں گے، بیماری لگ جائے گی، بیوی بچوں کا کیا بنے گا، یہ پریشانی ذہن سے نکلتی نہیں ہے، زیادہ تر یہی رہتی ہے، اس کا کچھ بتا دیں۔ اور ذکر بھی پوچھنا تھا کہ مہینے سے زیادہ ہوگیا ہے دو سو، چار سو، چھ سو اور تین سو تھا۔


جواب:

ذکر دو سو، چار سو، چھ سو اور پانچ سو دفعہ کرلیں۔ باقی ایک آیتِ کریمہ ہے ’’وَاُفَوِّضُ اَمْرِیْۤ اِلَى اللّٰهِؕ اِنَّ اللّٰهَ بَصِیْرٌۢ بِالْعِبَادِ‘‘ (المؤمن: 44) اس کو آپ ایک سو گیارہ مرتبہ پڑھیں، ہر نماز کے بعد گیارہ دفعہ ’’سَلٰمٌ قَوْلًا مِّنْ رَّبٍّ رَّحِیْمٍ‘‘ (یٰس: 55) پڑھ لیں تاکہ بلاوجہ وساوس نہ آئیں، یہ بلاوجہ وساوس سے شیطان صرف ڈراتا ہے۔ قرآنِ پاک میں ہے:

﴿اَلشَّیْطٰنُ یَعِدُكُمُ الْفَقْرَ﴾ (البقرۃ: 268)

ترجمہ: ’’شیطان تمہیں مفلسی سے ڈراتا ہے‘‘۔

اس کا تو کام ہی یہی ہے، کبھی آپ کو بیماری سے ڈرائے گا، کبھی فقر سے ڈرائے گا، کبھی کسی چیز سے ڈرائے گا تو کبھی کسی چیز سے، آپ اس کی پروا نہ کریں۔ (سالک کا سوال) ایک سو گیارہ دفعہ کتنے دن کرنا ہے؟ (حضرت کا جواب) ابھی چلتا رہے جب تک کہ آپ اِنْ شَاءَ اللہ بیماری سے نکل نہ جائیں۔

سوال نمبر 34:

شیخ صاحب میرا سوال ہے کہ جیسے آذان ہوتی ہے ہم ساتھ ساتھ اس کا جواب دیتے ہیں، جیسے ’’حَيَّ عَلَی الصَّلَاة، حَيَّ عَلَی الْفَلَاح‘‘ اس میں ہم ’’لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّةَ اِلَّا بِاللہ‘‘ کہتے ہیں، تو اسی طرح جب فجر کی آذان ہوتی ہے تو اس میں ’’اَلصَّلٰوۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْم‘‘ کی جگہ کیا کہا جائے؟

جواب:

’’صَدَقْتَ وَبَرَرْتَ‘‘ آپ نے سچ کہا اور نیکی کی۔

سوال نمبر 35:

حضرت یہ ایک چیز دیکھنے میں آئی ہے کہ جب آپ اللہ کے راستے میں چل رہے ہوتے ہیں چاہے جس طرح بھی ہو، تو بہت سے لوگ ایسے ملتے ہیں جو مایوسیاں پھیلاتے ہیں۔ مثلاً مسجد میں ہوں یا تصوف میں ہوں، تو وہ ایسی ایسی باتیں کرتے ہیں، اسی طرح بعض لوگ بہت حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور بعض اتنی مایوسیاں پھیلا دیتے ہیں کہ بندہ پھر دائیں بائیں دیکھتا ہے۔ مثلاً جس لائن میں آپ چل رہے ہیں اس میں جتنے غلط قسم کے لوگ ہیں ان کو بھی سامنے لے آتے ہیں کہ دیکھیں فلاں آدمی تھا اس نے یہ کیا، وہ غلط آدمی تھا، فلاں غلط آدمی تھا، آپ اس میں چل کے کون سا تیر چلا لیں گے۔ تو بعض دفعہ انسان مایوس ہوجاتا ہے، لیکن اللہ کا راستہ تو حق اور سچ ہے۔

جواب:

اگر کوئی غلط کام کررہا ہے تو اس غلط کام کی وجہ سے یہ تو نہیں کہ جو صحیح کام کرنے والے ہیں وہ بھی کام کرنا چھوڑ دیں، بلکہ اس وقت تو صحیح کام کرنا زیادہ اہم ہوجاتا ہے۔ بازار میں لوگ اگر غلط طریقے سے تجارت کر رہے ہوں تو صحیح تجارت کرنے والوں کو ثواب بھی زیادہ ملے گا، اور ان کی محنت میں اللہ تعالیٰ مدد بھی بہت فرمائیں گے۔ لہٰذا اس وقت تو زیادہ کوشش کرنی چاہئے، یہ تو عجیب بات ہے کہ بروں کی وجہ سے اچھے بھی اپنا کام چھوڑ دیں۔ کبھی دنیا میں ایسا ہوا ہے؟ دنیا میں تو اس طرح نہیں کرتے، تو پھر دین میں اس طرح کیوں کرتے ہیں۔ یہ صرف اور صرف شیطانی وساوس ہیں کیونکہ شیطان مختلف لوگوں کو استعمال کرتا ہے، کبھی بھائی کو، کبھی ماں کو کرے گا کبھی باپ کو کبھی دوست کو، یعنی جس طریقے سے بھی ہو وہ استعمال کرتا ہے۔ کیونکہ شیطان کا کام مایوسی پھیلانا ہے اور ہمت دلانا اللہ تعالیٰ کا کام ہے کہ اللہ جل شانہٗ ہمت دلاتا ہے اور نیک لوگ بھی ہمت دلاتے ہیں۔ تو ایسے لوگوں کی پروا نہیں کرنی چاہئے، ہم لوگ ان کے لئے تو کام نہیں کر رہے، ہم تو اللہ کے لئے کام کر رہے ہیں۔ جو اللہ کے لئے کام کرتا ہے وہ ناکام بھی ہوجائے تو ناکام نہیں ہے۔ بزرگوں نے اس کے لئے ایک شعر کہا ہے:

میخانے کا محروم بھی محروم نہیں ہے

یعنی جو لوگ کام شروع کریں اور بالکل ناکام ہوجائیں، پھر بھی اللہ کے ہاں وہ بہت بڑا انعام پائیں گے۔ کیونکہ انہوں نے دنیا کے لئے تو کام نہیں کیا تھا، انہوں نے تو اللہ کے لئے کام کیا تھا اور اللہ تعالیٰ تو حیّ وقیّوم ہے۔ بعض پیغبر ایسے ہیں جنہوں نے ابھی بعثت کا اعلان ہی کیا تھا کہ لوگوں نے ان کو شہید کر دیا، تو کیا وہ پیغمبر نہیں رہے؟ ظاہر ہے پیغبر ہیں کیونکہ اللہ کے ہاں تو ان کا مقام ویسا ہی تھا۔ ہم جو کہتے ہیں کہ لوگ خراب ہیں، تو خراب لوگوں کا علاج یہ ہے کہ اور اچھے لوگوں کو produce کرو تاکہ وہ غالب آجائیں۔ اس کی وجہ سے مایوس نہیں ہونا چاہئے، کیونکہ مایوسی شیطان کی طرف سے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِؕ﴾ (الزمر: 53)

ترجمہ: ’’اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں‘‘۔

تو ہمیں اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہئے، ہمیں ہمت سے کام کرنا چاہئےْ۔

سوال نمبر 36:

شیخ صاحب! جو نماز کے اوقات بنے ہوئے ہیں تو اس میں اشراق سے پہلے ایک منٹ دیا ہوا ہے، پہلے جو بزرگ ہوتے تھے وہ اس وقت میں چائے کی چھننی یا آٹا چھننی لگا کر آدھے سر کے درد کا علاج کرتے تھے۔ جو آپ کے اوقات میں ایک آدھا منٹ دیا ہوا ہے یہ وہ والا ٹائم تو نہیں ہے؟

جواب:

وہ عامل لوگ کرتے تھے، بزرگ نہیں کرتے تھے۔ عامل تو شاید اب بھی کرتے ہوں گے لیکن ہمارا عملیات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ (سالک کا سوال) تو اس وقت اشراق کی نماز پڑھ سکتے ہیں؟ (حضرت کا جواب) اشراق کی نماز اس وقت پڑھ سکتے ہیں جب اشراق کا وقت داخل ہوجائے یعنی مکروہ وقت ختم ہوجائے، مکروہ وقت سورج طلوع ہوتے ہی شروع ہوجاتا ہے اور تقریباً بارہ تیرہ منٹ کے لگ بھگ ہوتا ہے۔ بہر حال اس میں جو اشراق کا وقت لکھا ہے وہ اصل میں یہی ہے کہ اس میں مکروہ وقت ختم ہوجاتا ہے۔

بعض دفعہ اچھی چیزوں کو بھی مجبوراً ترک کرنا پڑتا ہے کیونکہ اس کے ساتھ اور بہت ساری چیزیں confuse ہوجاتی ہیں۔ مثلاً بزرگوں نے بعض دفعہ عملیات کی ہیں تاکہ لوگ برے عاملوں کے پاس نہ جائیں، لیکن وہ چیز اتنی عام ہوگئی ہے کہ اب لوگ پیروں کو عامل اور عاملوں کو پیر سمجھنے لگے ہیں۔ تو ان کے لئے ہمارے جیسے لٹ قسم کے لوگ بھی چاہیں تو فرق کرلیں کہ پیر، پیر ہوتا ہے اور عامل، عامل ہوتا ہے۔ ہم عامل نہیں ہیں، وہ پیر نہیں ہیں یعنی یہ فرق واضح ہونا چاہئے تاکہ غلط فہمی دور ہوجائے۔ مجھے بعض دفعہ فون پہ کوئی اپنا نفسیاتی مسئلہ بتاتا ہے تو میں کہتا ہوں: بھائی میں نفسیاتی ڈاکٹر نہیں ہوں، کوئی عملیات کے بارے میں بات کرتا ہے تو میں کہتا ہوں: بھائی میں عامل نہیں ہوں، کوئی اپنی بیماری بتاتا ہے تو میں کہتا ہوں: بھائی میں ڈاکٹر نہیں ہوں۔ مجھ سے اگر بات کرتے ہو تو اصلاح کی کرو، اگر آپ اصلاح چاہتے ہوں تو بسر وچشم حاضر ہیں۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ اس کے لئے بزرگوں نے ہمیں بیٹھایا ہے، باقی ذمہ داریاں ہماری نہیں ہیں۔ اس کے لئے ڈاکٹر موجود ہیں، مَاشَاءَ اللہ اچھے، نیک عامل موجود ہیں۔ ہم لوگ صرف اور صرف ایک ہی چیز کے لئے ہیں اور وہ کیا ہے؟ جو بندہ اخلاص سے اپنی اصلاح کے لئے آتا ہے، ان کی خدمت ہمارے ذمے لازم ہے۔ اگر وہ ہمارے پاس آتا ہے تو ہم کوشش کر سکتے ہیں اور یہ ایسی چیز ہے کہ آپ کو سمجھ تو نہیں آئے گی کیونکہ میں تو عرصہ دراز سے یہ باتیں کررہا ہوں لیکن لوگوں کو سمجھ نہیں آتی اور شاید اب بھی سمجھ نہ آئے۔ لیکن آپ کی اصلاح کے لئے میں عرض کروں گا، کہ آپ کا ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ پڑھنا عاملوں کے چلّوں سے زیادہ طاقت رکھتا ہے۔ کیونکہ ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ میں جو طاقت ہے وہ ان کے پاس نہیں ہے۔ لیکن آپ اپنے آپ کو بنائیں تو سہی، اس میں یہ نیت نہ کریں کہ میری بِسْمِ اللّٰه میں طاقت آجائے کیونکہ پھر وہ عملیات کی نیت ہوجائے گی۔ آپ نے صرف اللہ کے ساتھ اپنا تعلق مضبوط کرنا ہے، جیسے بِسْمِ اللّٰه میں ب اور س آپس میں ملے ہوئے ہیں۔ اصل میں یہ اِسْمُ اللہ ہے، ب کو ملایا تو بِسْمِ اللّٰه ہوگیا۔ جس طرح یہ ملے ہوئے ہیں اسی طرح اپنا تعلق اللہ کے ساتھ جوڑ لیں۔ جب تعلق بن جائے گا تو پھر اس میں یہ طاقت آجائے گی، پھر سُبْحَانَ اللہ، مَاشَاءَ اللہ کیا چیز ہے، آپ اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ یہ جو مسلمانوں کے لئے لازم ہے کہ کھانا شروع کریں تو بِسْمِ اللّٰه سے شروع کریں، کپڑے پہننا شروع کریں یا اور کوئی نیک کام کرنا شروع کریں تو بِسْمِ اللّٰه سے شروع کریں۔ کیونکہ اس میں سب کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق کی ضرورت ہے، اگر ہم صحیح معنوں میں سُبْحَانَ اللہ کہیں تو اس سُبْحَانَ اللہ میں طاقت آجائے گی، اَلْحَمْدُ لِلّٰہ کہنے میں طاقت آجائے گی، اَللہُ اَکْبَر کہنے میں طاقت آجائے گی۔ جو صحیح معنوں میں دل سے ادا ہو اور آپ کا اس پہ یقین ہو تو پھر یہ چیزیں ہوں گی سُبْحَانَ اللہ۔ پھر یہ آپ کو کہاں سے کہاں پہنچا دیں گی۔ لیکن میں نے پہلے کہا کہ ان کی نیت نہیں کرنی، بلکہ نیت تو اللہ تعالیٰ کے تعلق کی کرنی ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ یہ چیز خود ہی ڈال دیتے ہیں۔ جیسے: ’’مَنْ کَانَ لِلّٰہ کَانَ اللہُ لَہٗ‘‘ یعنی جو اللہ کا ہوگیا اللہ اس کا ہوگیا۔ تو اللہ کی ساری خدائی اس کے لئے استعمال ہوتی ہے، پھر کوئی پریشانی نہیں ہے۔ پریشانی اس وقت ہے جب اس سے دور ہوں، پھر شیطان سوار ہوجاتا ہے، نفس سوار ہوجاتا ہے، اس سے پھر مسائل پیدا ہونے لگتے ہیں، اللہ ہماری حفاظت فرمائیں۔

سوال نمبر 37:

شیخ صاحب ایک مسجد گورنمنٹ کی زمین پر بنی ہوئی ہے تو اس میں نماز پڑھ سکتے ہیں؟

جواب:

چونکہ میں بہت دور ہوں، مجھے نہیں معلوم کہ کیا معاملہ ہے۔ اصل میں جو لوگ باتیں کرتے ہیں وہ اپنی سوچ کے مطابق بات کرتے ہیں، حقیقتِ حال کیا ہے وہ تو اللہ کو پتا ہے۔ تو اس علاقہ کے جو صحیح مخلص مفتیانِ کرام ہیں، ان سے اس کے بارے میں پوچھیں، وہ اس کے بارے میں تحقیق کرکے بتائیں گے کہ کیا بات ہے، پھر یہ مسئلہ بھی معلوم ہوجائے گا۔ (سالک کی بات) کراچی بنوریہ سے فتوٰی آیا تھا، انہوں نے کہا کہ صحیح نہیں ہے۔ (حضرت کا جواب) بس پھر اس پر عمل کریں۔ ظاہر ہے اس میں، میں تو کچھ نہیں کہہ سکتا، کیونکہ مجھے تو نہیں پتا کہ کیا صورتِ حال ہے۔ وہ لوگ جانتے ہیں جو لوگ وہاں اس کو دیکھ چکے ہیں، وہاں کے حالات ان کو معلوم ہیں۔ بعض لوگ دشمنی بھی کرتے ہیں تو اپنی طرف سے بات بنا لیتے ہیں۔ تو اس وجہ سے ایسی بات کی ذمہ داری ہم کیوں لیں؟ (سالک کی بات) اس علاقے کے عالم یہ کہہ رہے ہیں کہ زمین تو اللہ کی ہے۔ (حضرت کا جواب) آپ ہر ایک کے گھر پہ قبضہ کرکے دکھاؤ پھر پتا چل جائے گا کیونکہ زمین تو ساری اللہ کی ہے۔ مسجدِ نبوی کیسے بنی تھی، اس کو دیکھ لیں۔

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ