اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال نمبر 1:
میری بیگم کا 100 بار استغفار، 100 بار ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘، 100 بار تیسرا کلمہ، 100 بار درودِ پاک اور 10 منٹ تک بیٹھنا پورا ہوگیا ہے، آگے رہنمائی فرمائیں۔
جواب:
یا تو آپ کو بیگم نے صحیح بتایا نہیں ہے یا آپ کو صحیح سمجھ نہیں آئی ہے۔ کیونکہ تیسرا کلمہ یہ 100 بار ہے، درود شریف بھی 100 بار ہے، استغفار 100 بار ہے، یہ ثوابی ذکر ہے۔ اور 10 منٹ کے لیے جو مراقبہ ہے وہ اس طرح کہ 10 منٹ کے لیے آنکھیں بند، زبان بند، قبلہ رخ بیٹھ کر یہ تصور کرنا کہ میرا دل ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کر رہا ہے، کروانا نہیں ہے بس یہ تصور کرنا ہے کہ اگر اس نے اَللّٰه اَللّٰه کرنا شروع کر دیا ہے تو مجھے پتا چلے، اور 10 منٹ اس پر توجہ کرنی ہے۔ اب اگر 10 منٹ انہوں نے کیا ہے تو 15 منٹ کرلیں اور اگر 10 منٹ نہیں کیا جس طرح میں نے بتایا ہے، تو یہ ایک مہینے تک 10 منٹ ہی کریں، اس کے بعد مجھے بتائیں۔
سوال نمبر 2:
السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ! حضرت جی جہلم سے فلاں عرض کر رہا ہوں۔ نمبر 1: گفتگو کرتے ہوئے میں غیر ضروری باتوں میں مشغول ہوجاتا ہوں اور پھر کبھی گناہ کی بات بھی منہ سے کہہ جاتا ہوں، گھر سے باہر کی نسبت گھر کے اندر بات چیت میں ایسا مسئلہ زیادہ پیش آتا ہے۔ نمبر 2: دنیاوی نقصان پر دیر تک رنج دل میں رہتا ہے۔ نمبر 3: کوشش کرتا ہوں کہ ہر کام اللّٰہ کی رضا کی نیت سے ہو لیکن کام کے دوران اکثر ریا کاری یا کسی دنیاوی نیت کا وسوسہ آنے لگتا ہے، رہنمائی کا محتاج ہوں۔
جواب:
دیکھیں جو چیز اختیار میں ہو اس میں اختیار استعمال کرنا چاہیے اور جو اختیار میں نہ ہو اس کی پروا نہیں کرنی چاہیے۔ چونکہ بات کرتے ہوئے انسان کو اختیار ہوتا ہے کہ کون سی بات کرے اور کون سی بات نہ کرے۔ تو اس میں اختیار کو استعمال کرتے ہوئے غلط باتوں میں انسان کو مشغول نہیں ہونا چاہئے، بالخصوص گناہ کی بات کہنا مثلاً جھوٹ ہو یا غیبت، تو اس کا طریقہ یہ کہ انسان خاموش رہنا سیکھے، آپ خاموشی کا مجاہدہ کریں۔ خاموشی کا مجاہدہ یہ ہے کہ جہاں پر آپ کا گفتگو کو بہت جی چاہتا ہو وہاں پہلے 15 منٹ خاموش رہیں، اس کے بعد جو ضروری بات کرنی ہو تو کرلیں، اس طریقے سے اِنْ شَاءَ اللّٰہ آپ کو سوچنے کا موقع مل جایا کرے گا۔ دوسری بات یہ ہے کہ دنیاوی نقصانات پر دیر تک رنج کرنا یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے کیونکہ یہ غیر اختیاری ہے، طبعی ہے، اس وجہ سے اس پر کوئی پریشانی نہیں۔ لیکن اس کی وجہ سے اپنے دین کو نقصان نہ پہنچے، بس اس کا خیال رکھنا چاہیے۔ تیسری بات کہ ریا کا وسوسہ ریا نہیں ہوتا، ریا باقاعدہ ارادے سے ہوتی ہے یعنی کوئی کام کسی اور مقصد کے لئے کر رہا ہو، اللّٰه کی رضا کے لئے نہ کر رہا ہو تو وہ اس کی نیت پر ہے اور اگر نیت خالص اللہ کی رضا ہے ویسے ہی خیال آجائے تو وہ وسوسہ ہے اور وسوسے کی پروا نہیں کرنی چاہیے۔
سوال نمبر 3:
اسلامی شہریت کی ایک بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ اس کی تعلیمات روزِ روشن کی طرح واضح، رموز اور باریکی، اسرار و رموزِ بلیغ سے پاک ہوتے ہیں، جبکہ انسانی تعلیمات میں لازمی طور پر یہ کمی موجود ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شرعی تعلیمات کو ہر چھوٹا بڑا طالبِ علم اور دیہاتی بھی سمجھ سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں 20 سے زائد مقامات پر اپنی کتاب کی خوبی بتائی ہے کہ وہ واضح اور روشن ہے، اسی طرح 10 سے زائد مقامات پر اپنے نبیﷺ کی یہ صفت بتائی کہ وہ واضح کرنے والے رسول ہیں۔ تمام تعریفات اللّٰه کے لئے اس بات پر کہ اس کا دین نہایت واضح ہے اور لوگوں کے لئے اس کا سیکھنا بہت آسان ہے۔ اس کے باوجود مسلمانوں کی اکثریت نہ صحیح طریقے سے دین کو سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور نہ اتنی اہمیت دیتے ہیں جتنی دینی چاہیے۔ ہر مسلمان کی انفرادی واجتماعی ذمہ داری کیا بنتی ہے؟
جواب:
دیکھئے! جو چیز آسان ہو ضروری نہیں کہ ہر کوئی اس کو لے۔ بہت ساری باتیں ایسی ہوتی ہیں جو آسان ہوتی ہیں، ضروری بھی ہوتی ہیں لیکن ہمارا نفس ان کو نہیں چاہتا تو نہیں کرتا، تو یہ ہمارے نفس اور شوق پر ہے۔ اگر کوئی اپنے نفس کی بات مانتا ہے تو ظاہر ہے وہ انہی چیزوں کی کوشش کرے گا جو اس کے نفس کی خواہشات ہوں گی اور جو اللّٰه کو راضی کرنے کی کوشش کرے گا تو وہ اسی میں لگا ہوگا۔ جیسے فرضِ عین علم ہے، یہ کوئی مشکل نہیں ہے، جیسے میں نے عرض کیا کہ 2 مہینے میں بہت آسانی کے ساتھ حاصل کیا جاسکتا ہے، بلکہ 2 مہینے تو میں نے تفصیلی بتائے ہیں۔ اگر نماز سیکھنی ہو تو کتنے دن میں سیکھی جاسکتی ہے؟ جو نماز کا صحیح طریقہ ہے میرے خیال میں ایک دن میں سیکھا جاسکتا ہے۔ ایک تو یہ ہے کہ غلطی ہوجائے، پھر معلوم کرے کہ اس میں کیا ہے۔ اس میں پھر تفصیلات ہوتی ہیں، وہ پھر مفتی صاحب سے پوچھنا پڑتا ہے، جیسے اگر آپ حج صحیح طریقے سے ادا کرلیں جس طرح بتایا جاتا ہے پھر تو کوئی مسئلہ نہیں ہے بہت آسان ہے۔ لیکن اگر آپ نے درمیان میں کوئی گڑبڑ کی تو اس کا پتا لگانا کہ اس میں کس حد مسئلہ ہے، اس میں پھر مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ اسی طرح نماز اور روزے میں بھی ہے۔ چنانچہ ان چیزوں کو سیکھنا بہت آسان ہے، لیکن ان کی طرف کون توجہ دیتا ہے۔ اول نماز ہی کو لے لیں، کتنے لوگ ہیں جو اپنی نمازوں کو درست کرتے ہیں؟ اتنی موٹی موٹی باتیں ہیں کہ انسان حیران ہوجاتا ہے کہ ان کی طرف توجہ کیسے نہیں ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے:
’’إِنَّ الرَّجُلَ لَيُصَلِّيْ سِتِّيْنَ سَنَةً مَا تُقْبَلُ لَهٗ صَلَاةٌ، لَعَلَّهٗ يُتِمُّ الرُّكُوْعَ وَلَا يُتِمُّ السُّجُوْدَ، وَيُتِمُّ السُّجُوْدَ وَلَا يُتِمُّ الرُّكُوعَ‘‘ (سلسلة الصحيحة: 2535)
ترجمہ: ’’ایک آدمی ساٹھ سال تک نماز پڑھتا رہتا ہے، لیکن اس کی نماز قبول نہیں ہوتی، شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ وہ رکوع تو پورا کرتا ہو لیکن سجدے مکمل نہ کرتا ہو یا سجدے تو پورے کرتا ہو لیکن رکوع پورا نہ کرتا ہو‘‘۔
یعنی کوئی نہ کوئی غلطی اس سے ایسی رہ جاتی ہے جس سے اس کی نماز ضائع ہوجاتی ہے۔ انسان اس کے لئے کیوں کوشش نہیں کرتا؟ ہے تو بہت آسان لیکن نفس کی وجہ سے بہت مشکل ہے، صرف نفس کی باتوں میں آکے اس کی طرف توجہ نہیں دیتا۔ مثلاً آپ کے سامنے پوری مجلس بیٹھی ہوگی اور سر بھی ہلا رہی ہوگی کہ بالکل یہ بات صحیح ہے پھر بھی کوشش نہیں کریں گے، بےشک آپ تجربہ کرلیں، پوری مسجد کو سنائیں سب سر ہلائیں گے کہ جی جی ایسا ہے۔ میں نے ایک دفعہ CDA ہیڈ کوارٹر میں مسجد امیرِ معاویہ میں آدھا گھنٹہ جمعے کا بیان کیا اور دین کی ضروری باتیں سیکھنے اور اپنی اصلاح کی باتیں کی، اس کے بعد ایک شخص آیا کہ جی سر میں درد ہے دم کر دیں، میں نے ابھی اس کو کچھ نہیں کہا تھا کہ دوسرا آگیا کہ جی میرا کاروبار کا مسئلہ ہے، جب تیسرا بھی آیا تو میں نے کہا: خدا کے بندو! میں نے جس چیز پر آدھا گھنٹہ بیان کیا اس کے لئے کوئی بھی نہیں آرہا، جو بھی آتا ہے وہ اس کے علاوہ بات کرتا ہے۔ کیا میں نے اعلان کیا ہے کہ میں سر درد کا دم کرتا ہوں؟ اس آدھے گھنٹے میں، میں نے کوئی ایسی بات کی ہے کہ میں کاروبار کے مسائل حل کرتا ہوں؟ جو بات میں نے نہیں کی آپ اس کی مجھ سے توقع رکھتے ہیں اور جو بات میں نے کی ہے اس پہ کوئی ایک بھی آنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ جب میں نے غصے سے کہا تو پھر 2، 3 آدمی اس کے لئے بھی آگئے، میں نے کہا چلو غصہ کرنے کا فائدہ ہوگیا۔
ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے
انجامِ گلستاں کیا ہوگا
یہ صرف اور صرف اپنی ضرورت کو نہ پہچاننے کی وجہ سے ہے۔ اللّٰه تعالیٰ ہم سب کی حفاظت فرمائیں اور ہم سب کو ایسے اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائیں جن سے ہمیں آخرت کا فائدہ ہو۔
سوال نمبر 4:
السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبركاتہ! حضرت جو لوگ دنیاوی مقاصد کے لئے شیخ کو نذرانے دیتے ہیں یا کچھ لوگ تبرکات کے لئے شیخ کی چیزیں اپنے پاس رکھ لیتے ہیں۔ مثلاً شیخ کی جائے نماز یا تسبیح، کہ ہم اس پر نماز پڑھیں گے یا ہم اس تسبیح پر ذکر کریں گے تو ہمیں شیخ کا فیض ملے گا۔ بظاہر وہ شیخ کے حکم کے مطابق نہیں چلتے، بجائے حکم ماننے کے ان چیزوں میں زیادہ ملوث ہیں کہ شیخ کے رومال یا جائےنماز سے ہمیں فیض ملے۔ اکثر لوگ ان چیزوں میں زیادہ پڑے ہوئے ہیں اور کوشش ہوتی ہے کہ کسی طرح ان کو یہ چیزیں مل جائیں۔ اور شیخ سے اگر کوئی پیسے یا ہدیہ مل جائے تو لوگ اس کو بھی تبرک سمجھتے ہیں اور استعمال کرنے سے گریز کرتے ہیں، صرف تبرکات کے طور پر وہ تحفے رکھے ہوتے ہیں، کیا یہ سب چیزیں جائز ہیں؟ اس کی اصلاح فرمائیں۔
جواب:
اصل میں لوگ shortcut مارنا چاہتے ہیں۔ ایک صاحب ترکی سے یہاں visit پہ آئے تھے، جو کہ ترکی کے صدر اردوان صاحب کے مشیر تھے۔ مجھے بھی پشاور یونیورسٹی میں بلایا تھا، وہاں پر تقریب میں ان کے ساتھ کوئی collaboration کی بات تھی۔ خیر انہوں نے تقریر کی اور کہا کہ ترکی میں آپ لوگوں کے لئے یہ یہ مواقع ہیں، کیونکہ education یونیورسٹی تھی تو education کی بات ہورہی تھی۔ تو لوگ ان سے اپنے ذاتی مسائل پر بات کرنے لگ گئے کہ ہمیں داخلہ مل جائے گا یا نہیں، تو انہوں نے simple ایک بات کی کہ:
No shortcut. You have to appear in the test. If you qualify. Okay, you can get admission. If you don't qualify, it will be given to other people.
انہوں نے صاف صاف کہہ دیا کہ short cut نہیں ہے۔
لیکن لوگ short cut مارنا چاہتے ہیں کہ ہمیں by pass کروا دیا جائے، کوئی ایسا طریقہ ہو جس میں ہمیں کوئی محنت نہ کرنی پڑے۔ میں ایک عجیب بات عرض کرتا ہوں۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ چونکہ اس صدی کے مجدد ہیں، انہوں نے یہ ساری باتیں بتائی ہیں کہ بعض لوگ کہتے ہیں مصافحے سے سب کچھ مل جائے گا، بعض لوگ کہتے ہیں معانقے سے سب کچھ مل جائے گا، بعض لوگ کہتے ہیں دنیاوی خدمت کرنے سے سب کچھ مل جائے گا، بعض لوگ کہتے ہیں کہ سلام کرنے سے سب مل جائے گا، یہ ساری چیزیں additional ہیں، core چیزیں نہیں ہیں۔ ایک کسی چیز کا core ہوتا ہے اور ایک اس کے peripheral چیزیں ہوتی ہیں، جیسے اگر ہم ایک reactor لیں، تو ایک reactor کا core ہوتا ہے اور ایک اس reactor کو assimilate کرنے کے لیے بہت ساری peripheral چیزیں ہوتی ہیں، ان کا بھی اثر ہوتا ہے۔ لیکن اگر core نہ ہو تو پھر وہ چیز کس کام کی۔ تو core کیا ہے؟ وہ اصلاح ہے۔ اور اصلاح کس چیز کی ہے؟ نفس کی اصلاح ہے۔ نفس کی اصلاح کس طرح ہوتی ہے؟ مجاہدے اور ریاضت سے ہوتی ہے۔ اگر کوئی یہ نہ کرے اور صرف رومال سے یا جائےنماز سے، مصافحے سے یا معانقے سے لینا چاہیں تو ان سے یہ چیزیں حاصل نہیں ہوتی ہیں۔
تبرکات سے میں انکار نہیں کرتا، حدیث شریف اور قرآن سے بھی ثابت ہے یعنی اس میں بالکل انکار ممکن نہیں ہے، بلکہ اس پر تو ہم بیان کرتے ہیں کیونکہ بعض لوگ ان چیزوں کا انکار کرتے ہیں۔ قرآن پاک میں ہے:
﴿وَقَالَ لَهُمْ نَبِیُّهُمْ اِنَّ اٰیَةَ مُلْكِهٖۤ اَنْ یَّاْتِیَكُمُ التَّابُوْتُ فِیْهِ سَكِیْنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَبَقِیَّةٌ مِّمَّا تَرَكَ اٰلُ مُوْسٰی وَاٰلُ هٰرُوْنَ تَحْمِلُهُ الْمَلٰٓىِٕكَةُ ؕ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنْ﴾ (البقرۃ: 248)
ترجمہ: ’’اور ان سے ان کے نبی نے یہ بھی کہا کہ: طالوت کی بادشاہت کی علامت یہ ہے کہ تمہارے پاس وہ صندوق (واپس) آجائے گا جس میں تمہارے پروردگار کی طرف سے سکینت کا سامان ہے، اور موسیٰ اور ہارون نے جو اشیاء چھوڑی تھیں ان میں سے کچھ باقی ماندہ چیزیں ہیں۔ اسے فرشتے اٹھائے ہوئے لائیں گے، اگر تم مومن ہو تو تمہارے لیے اس میں بڑی نشانی ہے‘‘۔
اور اسی طرح آپﷺ سے بھی ثابت ہے کہ آپﷺ کے موئے مبارک صحابۂ کرام سنبھال کے رکھتے تھے، ہماری ماؤں میں سے ایک ماں نے آپ ﷺ کا ایک موئے مبارک رکھا ہوا تھا، اس کو وہ پانی میں ملا کے باقاعدہ دوائی کے طور پر لوگوں کو دیتی تھیں، لیکن وہ دنیاوی چیزیں ہیں۔ جہاں تک اصلاح کا تعلق ہے وہ کس چیز کے ساتھ تھا؟ وہ ان چیزوں کے ساتھ ہے اور بنیادی چیز یہی ہے۔ اگر آپ کو دنیاوی چیزیں بہت ساری مل جائیں لیکن آپ کی اصلاح نہ ہو، تو آپ نے کیا پایا؟ ظاہر ہے آپ نے تو نقصان اٹھایا، وقت ضائع کردیا۔ چنانچہ بزرگوں سے جو چیز لینے کی ہوتی ہے وہ یہی (اصلاح) ہوتی ہے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے اپنے آپ کو ان تمام چیزوں سے دور کرلیا تھا، کچھ لوگوں نے کہا حضرت ہمیں سینے سے کچھ عطا فرما دیں، فرمایا: میرے سینے میں تو بلغم ہے۔ یعنی انہوں نے مذاح فرمایا۔ اب دیکھیں سینے سے کیا ملتا ہے؟ سینے سے علوم ملتے ہیں۔ آپ شیخ کے علوم کی قدر کریں اور اس پر عمل کریں، کیونکہ علم برائے عمل ہے۔ آپ کو علم مل گیا اور عمل نہیں کیا تو پھر بھی آپ کو فائدہ نہیں ہوگا، مثلاً آپ کو دوائی مل گئی لیکن آپ نے استعمال نہیں کی، پھر بھی آپ کو فائدہ نہیں ہوگا تو ان تمام چیزوں کو دیکھنا چاہیے۔ اگر کوئی اصل چیز کو سنبھالتے ہوئے، اصل چیز کو حاصل کرتے ہوئے ان چیزوں کی قدر کرتا ہے تو سُبْحَانَ اللّٰہ! پھر کوئی شک نہیں، فائدہ ہوتا ہے۔ لیکن ان چیزوں کو مقصود بنانا اور اصل چیز سے جی چرانا، یہ دل کے کھوٹ کی بات ہے، نا سمجھی اور بے عقلی کی بات ہے، پھر ایسی چیزوں سے باز رہنا چاہیے۔
میں ایک اور بات عرض کرتا ہوں۔ حضرت سعید تسنیم الحق صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کے پاس میں جایا کرتا تھا، کبھی میں نے حضرت سے ٹوپی نہیں مانگی، کبھی حضرت سے رومال نہیں مانگا بس اَلْحَمْدُ لِلّٰہ حضرت کے پاس بیٹھتا تھا تو حضرت اصلاحی باتیں فرماتے رہتے تھے اور ہمیں فائدہ ہوتا تھا۔ بالکل آخری وقت شاید آخری ایک یا دو مہینے کی بات تھی، حضرت نے اپنا قرآن شریف جو چھوٹے سائز تھا کا وہ مجھے عطا فرمایا کہ یہ اپنے پاس رکھ لو۔ میں نے کہا: حضرت کیوں؟ کہتے بس رکھ لو۔ یعنی مجھے کچھ نہیں بتایا، بس یہی فرمایا رکھ لو۔ پھر بعد میں مجھے سمجھ آیا کہ حضرت نے تبرک کے طور پر مجھے اپنا قرآنِ پاک عطا فرمایا تھا سُبْحَانَ اللّٰہ، اَلْحَمْدُ لِلّٰہ، جس میں حضرت خود تلاوت فرمایا کرتے تھے۔ ایک دن مجھے فرمایا: آپ کے پاس علمِ لدنّی تو ہے لیکن علمِ کسبی کی بھی ضرورت ہوتی ہے، لہٰذا میں آپ کو یہ رسالہ پڑھاتا ہوں۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آیا کہ حضرت ایسا کیوں کر رہے ہیں، لیکن حضرت نے مجھے وہ رسالہ پڑھا دیا۔ کبھی ایسا نہیں ہوا تھا بس اچانک ہی ایسا ہوا، اس وقت مجھے سمجھ نہیں آیا۔ بعد میں سمجھ آئی کہ یہ تو حضرت مجھے اپنی دیوبند والی شاگردی کی سند میں لانا چاہتے تھے، مجھے کیا پتا تھا وہ تو حضرت کی اپنی بات تھی۔ میرا بتانے کا مقصد یہ ہے کہ اگر آپ اخلاص کے ساتھ کسی کے ساتھ ہیں اور وہ اپنی بصارت سے یہ چیزیں دے دے تو پھر بہت قدر کرنی چاہی۔ کیونکہ اس میں بہت کچھ ملتا ہے، یہ ایک نسبت ہوتی ہے جو کہ اس ذریعے سے عطا ہوتی ہے۔ ہر وہ چیز جو اللّٰه کی طرف سے آتی ہے، اس کی قدر کرنی چاہیے۔ تو جو چیز اللّٰه والوں کی طرف سے آتی ہے وہ اللّٰه کی طرف سے ہی ہوتی ہے، کیونکہ اللّٰه تعالیٰ ہی ان کے دل میں ڈالتے ہیں۔ یہ برکت والی چیزیں ہوتی ہیں اگر وہ خود سے دے دیں۔ لیکن اگر آپ ان کے پیچھے لگ جائیں کہ ہمیں عطا کر دیں، یہ معاملہ تھوڑا سا کمزور ہے، یہ نا سمجھی کی باتیں ہیں، ایسی چیزوں کے پیچھے نہیں پڑنا چاہیے۔ آپ کا اخلاص کے ساتھ جس سے تعلق ہے، آپ اس سے تعلق رکھیں۔ جو یہ کہتے ہیں کہ کوئی بزرگ پیسے دے تو اس کو خرچ نہ کریں، اس کا میں کچھ نہیں کہ سکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر یہ غلطی ہے تو یہ غلطی میں بھی کر چکا ہوں، اس لئے اس پہ میں کوئی گفتگو ہی نہیں کرتا، کیونکہ نہ میں مفتی ہوں، نہ قاضی ہوں۔ لہٰذا اس سلسلے میں تو میں کچھ نہیں کہہ سکتا، کیونکہ خواجہ خان محمد صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ نے مجھے بیس روپے بھیجے تھے، حاجی یعقوب صاحب نے مجھے دیئے، تو میں نے ان سے کہا: حضرت یہ میں لے لوں؟ حضرت نے فرمایا: او خدا کے بندے لے لو، یہ تو ہدیہ ہے، یہ تو آپ کی خوش قسمتی ہے، رکھ لو۔ تو وہ میرے پاس پڑے ہوئے ہیں۔ یہ محبت کی بات ہے، اس کو میں عقل پہ justify نہیں کر سکتا، کیونکہ محبت کی باتیں عقل سے justify نہیں ہوتیں۔ لیکن اس کو مقصد بنانا تو عقل کے ذریعے سے ہوتا ہے۔ لہٰذا ان چیزوں کی باقاعدہ دلیل ہونی چاہیے۔
سوال نمبر 5:
حضرت یہ میرے فروری کے معمولات کا پرچہ ہے۔ مراقبے سے پہلے جو 4500 مرتبہ اسمِ ذات کا لسانی ذکر کرتی ہوں، 10 منٹ مراقبہ لطیفۂ قلب پر محسوس ہوتا ہے، مگر مسلسل اور واضح نہیں ہوتا۔ البتہ سوتے وقت زیادہ محسوس کرتی ہوں۔ 10 منٹ مراقبہ لطیفۂ روح ایک مہینے سے شروع کیا ہوا ہے، ابھی کچھ بھی محسوس نہیں ہو رہا۔ 10 منٹ مراقبہ صفاتِ ثبوتیہ کہ اللّٰه سن رہے ہیں، اللّٰه دیکھ رہے ہیں اور اللّٰه کی قدرت ہر چیز پر حاوی ہے۔ یہ فیض نبی پاکﷺ کے قلبِ اطہر پر اور وہاں سے میرے شیخ کے قلب پر اور میرے شیخ کے قلب سے مجھ پر آرہا ہے۔ میں خود میں تبدیلی محسوس نہیں کرتی، بس یہ بات دل میں آگئی ہے کہ میرے شیخ ہی مجھے اللّٰه کے قریب کریں گے، اس میں مجھے کسی اور سہارے کی ضرورت نہیں ہے۔ جب میں اپنے شیخ کی ہر بات پر عمل کروں گی تو نبیﷺ سے محبت ہوگی اور وہی محبت مجھے اللّٰه تعالیٰ تک پہنچا دے گی۔ میں کوشش کرتی ہوں اور ہمت نہیں ہاری، اپنی پسندیدہ چیزوں میں رغبت کم ہونے لگی ہے یہاں تک کہ پسندیدہ کھانا بھی اب شوق سے نہیں کھاتی، جو کچھ ہو اس پر صبر کرتی ہوں اور جو نعمت اللّٰه نے دی ہے اس پر شکر کرتی ہوں، آپ کی دعاؤں کا طلبگار۔
جواب:
مَاشَاءَ اللّٰہ بہت اچھی بات ہے۔ بس اس میں تھوڑی سی یہ اصلاح فرما لیں کہ جو 10 منٹ کا مراقبۂ ثبوتیہ آپ کر رہی ہیں اس میں یہ ہے کہ اللّٰه پاک کی صفات کا فیض اللّٰه تعالیٰ کی طرف سے آپﷺ کی طرف آرہا ہے اور آپﷺ کی طرف سے شیخ کی طرف آرہا ہے اور شیخ کی طرف سے آپ کے لطیفۂ روح پر آرہا ہے یعنی قلب پہ نہیں بلکہ لطیفۂ روح پہ آرہا ہے۔ باقی مَاشَاءَ اللّٰہ ٹھیک ہے۔ آپ نے کہا کچھ محسوس نہ ہوتا۔ یہ مطلب نہیں ہوتا، کیوںکہ جیسے آپ نے لطیفۂ قلب کا بتایا کہ سوتے وقت محسوس ہوتا ہے یہ بھی اسی طرح محسوس ہونے لگے گا۔ البتہ احوال مختلف ہوتے ہیں کسی کو جلدی، کسی کو دیر سے۔
سوال نمبر 6:
السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ! میرا ذکر ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ 200 مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ 400 مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ 600 مرتبہ اور اڑھائی ہزار مرتبہ ’’اَللّٰہ‘‘ سارا مہینہ جاری رہا، دو دن ناغہ ہوا۔ میں آدھی منزل پڑھتا ہوں لیکن ہمیشہ پوری کرنے کی کوشش کرتا ہوں، ذکر کرتے وقت کچھ محسوس نہیں ہوتا۔
جواب:
مَاشَاءَ اللّٰہ! ذکر میں جو اصل چیز ہے وہ یہی ہے کہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ سے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی طرف دل چلا جائے، سُبْحَانَ اللّٰہ یہ تو ہے اور ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ سے اللّٰه پاک کے سامنے حاضر ہونے کا تصور ہو جائے اور ’’حَقْ‘‘ کا مطلب ہے کہ اللّٰه پاک حق ہیں اور وہی حق کو دل میں اتارتے ہیں، تو ظاہر ہے پھر ہی حق پر چلنے کی توفیق ہوتی ہے۔ اور اللّٰہ جل شانہٗ کی طرف محبت کے ساتھ قلبی نگاہ ہونی چاہیے اور اللّٰه تعالیٰ کے بارے میں یہ تصور کرنا چاہیے کہ وہ ہمیں محبت کے ساتھ دیکھ رہے ہیں۔
سوال نمبر 7:
ہمیں کچھ دن پہلے ایک شعر پڑھنے کو ملا جس کا مفہوم کچھ ایسے تھا کہ اللّٰه پاک فرماتے ہیں: ہر وقت مانگنے آتے ہو، کبھی ملنے بھی آیا کرو۔ یہ بات کیسی ہے اور کیا ہمیں ہر وقت مانگنے سے شرمانا چاہیے؟ شرمانے سے اور شعر کے پڑھنے سے مانگنے کا جذبہ بھی کم ہوجاتا ہے، ذہن میں انتشار ہے، اس سلسلے میں رہنمائی فرمائیں۔
جواب:
میں نے پوچھا کہ کون سا شعر اور کس کا ہے؟ تو انہوں نے کہا یہ شعر ہے اور یہ اقبال کا ہے۔ لیکن اس پر میں نے search کی تو کوئی پتا نہیں چلا، پتا نہیں اقبال کا ہے یا کسی اور کا ہے، کیونکہ مشہور شاعر کی طرف ہر شعر کو لگا دیا جاتا ہے چاہے کسی نے بھی کہا ہو۔ ہمارے ایک سکول ٹیچر تھے وہ اسمبلی میں کبھی کبھی بڑا سادہ بیان کرتے تھے، تو وہ جو بھی شعر پڑھتے آخر میں کہتے اے غالب! تو وہ غالب کا شعر بن جاتا۔ تو بہت سارے لوگ اس طرح کرتے ہیں، لیکن بہرحال جس کا بھی ہے اس کے بارے میں، میں عرض کرتا ہوں۔
وہ شعر یہ ہے:
کمال کا شکوہ کیا آج مسجد میں خدا نے
مانگنے ہی آتے ہو کبھی ملنے بھی آیا کرو
اگر یہ شعر واقعی کسی صاحبِ نسبت نے کہا ہے تو اس کا مفہوم یہ بن سکتا ہے، جیسے میں عرض کرتا رہتا ہوں کہ تین قسم کے لوگ ہیں۔ ایک دنیا دار ہیں، دنیا داروں کو دین داروں کی بات سمجھ نہیں آتی کیونکہ انہوں نے دنیا کو مقصد بنایا ہوتا ہے۔ لہٰذا جس نے دین کو مقصد بنایا ہوتا ہے اور اپنی دنیا کو لٹا رہے ہوتے ہیں تو وہ کہتے ہیں: کیسے لوگ ہیں، یہ تو دیوانے ہیں یا پاگل ہیں۔ جیسے ہمارے خاندانوں میں جب کوئی لڑکا دین دار بن جاتا ہے تو اکثر پورے خاندان میں ہل چل شروع ہوجاتی ہے اور کہتے ہیں کہ بھئی پاگل ہوگیا ہے، یہ ہوگیا، وہ ہوگیا وغیرہ، اور اس کے بارے میں منفی خیالات پیدا کرتے ہیں۔ حالانکہ اس میں اخلاص کا جذبہ آچکا ہوتا ہے بے شک وہ balance نہ ہو، بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے، چونکہ ابھی سیکھ رہا ہے لیکن وہ جذبہ تو صحیح ہے۔
ایک دفعہ ایسا ہوا کہ تسنیم الحق صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کے ہاں بیٹھا ہوا تھا، ان کا چھوٹا نواسہ تھا تو اس نے stick لی اور کبھی ایک کو مارتا کبھی دوسرے کو مارتا، تو حضرت نے مجھے فرمایا کہ یہ شجاعت ہے، بچوں میں اگر یہ ہو تو اس کو ختم نہیں کرنا چاہیے، ہاں! اس کی تربیت ہونی چاہیے کہ کہاں مارنا ہے کہاں نہیں مارنا، اس کا طریقہ بتانا چاہیے۔ کیونکہ یہ ان کی شجاعت ہے اور شجاعت اچھی صفت ہے۔ تو جو دیندار ہوتے ہیں ان کی باتیں دنیاداروں کو سمجھ نہیں آتیں۔ پھر دینداروں میں 2 قسم کے لوگ ہیں۔ ایک وہ دیندار ہیں جو کسی غرض کے لئے اللّٰه تعالیٰ کے ساتھ محبت کرتے ہیں، اور دوسرے وہ دیندار ہیں جن کی غرض یہ ہوتی ہے کہ اللّٰه کے ساتھ محبت کریں یعنی وہ کسی اور غرض کی بات نہیں کرتے۔ جیسے صحابہ کرامؓ کے بارے میں آتا ہے: ﴿یَدۡعُوۡنَ رَبَّہُمۡ بِالۡغَدٰوۃِ وَالۡعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْهَهٗؕ﴾ (الانعام: 52)
ترجمہ: ’’جو صبح و شام اپنے پروردگار کو اس کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے پکارتے رہتے ہیں۔‘‘
چنانچہ اگر کوئی اس قسم کی بات ہو تو میرے خیال میں شاید یہ اس کے اوپر بیٹھ سکتی ہے کہ تم صرف غرض کی باتیں کرتے ہو، کبھی ہمیں بھی اپنی غرض بناؤ۔ اس پر ایک شعر تو ہمارے حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ بار بار پڑھا کرتے تھے، جس پر میں نے ایک پوری غزل بھی کہی ہے:
نہ آہ چاہتا ہوں نہ واہ چاہتا ہوں
خدا کے لئے میں خدا چاہتا ہوں
کیونکہ اگر خدا کو آپ اس دنیا کے لئے چاہتے ہیں تو پھر اور بات ہے، اگرچہ وہ بھی غلط نہیں ہے۔ ظاہر ہے اللّٰه پاک نے حکم دیا ہے:
﴿اُدْعُوْنِیْۤ اَسْتَجِبْ لَكُمْؕ﴾ (المؤمن: 60)
ترجمہ: ’’مجھے پکارو، میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا‘‘۔
تو یہ کوئی غلط بات نہیں ہے، دنیا داری کی بات نہیں دینداری کی بات ہے، کیونکہ دعا اگر دنیا کے لئے بھی کی جائے وہ دین ہے۔ اگر ایمان کے ساتھ کوئی دنیا کی دعا بھی کریں تو وہ بھی دین ہے کیونکہ وہ اللّٰه سے مانگ رہا ہے، اس کو یقین ہے کہ اللّٰه دے رہا ہے۔ ﴿اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ﴾ (الفاتحہ: 5) پہ تو عمل کر رہا ہے۔ لہٰذا اس کو ہم غلط نہیں کہیں گے، لیکن اس سے اونچا درجہ بھی ہے، یہ درجہ ﴿یُرِیْدُوْنَ وَجْهَهٗؕ﴾ (الانعام: 52) کا ہے۔ وَاللّٰهُ اَعْلَمُ بِالصَّوَاب۔
سوال نمبر 8:
رمضان کے لئے بھی کچھ بتا دیں، کوئی وظیفہ یا ویسے پڑھنے کے لئے، آج کل کے حالات اور فتنوں سے بچنے کے لئے؟
جواب:
اس کا مطلب ہے کہ آپ ہمارے بیانات نہیں سنتے، اگر آپ ہمارے بیانات regularly سنیں تو آج کل میں رمضان شریف کے بارے میں ہی باتیں کر رہا ہوں، چلیں میں اِنْ شَاءَ اللّٰہ آپ کو گزشتہ 2 ہفتے کے بیانات بھیج دوں گا، آپ ان کو خود سن لیں۔
سوال نمبر 9:
السلام علیکم! حضرت میں فلاں صاحب سے جمعہ کو دوبارہ ملنے گیا تھا مجھے اب اکیس دن کے لئے (وظیفہ) دیا ہے۔ اس حوالے سے رہنمائی فرمائیں اور دعا فرمائیں، اللّٰہ سبحانہٗ وتعالیٰ مجھے یہ پڑھنے کی توفیق عطا فرمائیں۔
جواب:
جی ہاں! یہ صاحبِ فن ہیں۔ صاحبِ فن جب دیتا ہے تو پھر ذمہ داری اسی کی ہوتی ہے۔ جیسے کہا جاتا ہے: ’’لِکُلِّ فَنٍّ رِجَالٌ‘‘ یعنی ہر فن کے لوگ ہوتے ہیں۔ تو جو انہوں نے بتایا ہے اس کے مطابق ہی آپ عمل کریں۔ وہ چونکہ صاحبِ فن ہیں، تو صاحبِ فن اس بات کو جانتا ہے کہ وہ جو چیز دے رہا ہے وہ کیسی ہے۔ بہرحال دعا میں کرتا ہوں کہ اللّٰه تعالیٰ آپ کو صحت عطا فرمائیں۔
سوال نمبر 10:
السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ!
Respected حضرت صاحب I pray that you and your loved ones are well !آمین
حضرت I have completed this month ذکر without miss اَلْحَمْدُ لِلّٰہ. Verbal ذکر is this. Two hundred times ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ four hundred times ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ six hundred times ’’حَقْ‘‘ and thousand times Allah. مراقبہ ten minutes ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ on لطیفۂ قلب and fifteen minutes on لطیفۂ روح.
Regarding مراقبہ I feel the ذکر more as compared to last month but most of the times I cannot concentrate and my mind goes elsewhere. I feel the ذکر more on لطیفۂ روح and less on لطیفۂ قلب. I have been abstaining from sins more. Many of them are stopped like بدنظری. I am becoming more stable and consistent in doing good deeds also. حضرت last week I contacted you saying that I am addicted to some chat forums like whatsApp, emails and phone and you prescribed quitting the phone for three weeks. However on deeper thought, I think I misinformed. I apologise. I was a little addicted to certain chat forums only and not whatsApp and emails. I have pretty much quit the chat forums for the past week and will continue doing so and the result is that معمولات work and life of دین has started to get significantly stable and better اَلْحَمْدُ لِلّٰہ Duas requested.
جواب:
مَاشَاءَ اللّٰہ! بہت اچھی بات ہے۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ آپ نے جو باتیں فرمائی، بالکل صحیح فرمائی ہیں۔ مراقبہ مَاشَاءَ اللّٰہ آپ کرتے رہیں۔ دراصل آپ کو جو feel ہو رہا ہے وہ دل پر ذکر ہے، باقی جو آپ کا دماغ ادھر اُدھر جاتا ہے وہ ایک علیحدہ بات ہے، وہ غیر اختیاری طور پہ جاتا ہے تو اس کی پروا نہ کریں، اختیاری باتوں کو خیال میں رکھیں۔ اور جو آپ کو دل پر ذکر محسوس ہو رہا ہے یا روح کا ذکر محسوس ہو رہا ہے، وہ ٹھیک ہے۔ یہ آپ کو ایک طرف لے آئے گا اِنْ شَاءَ اللّٰہ، دوسری طرف جو میں نے عرض کیا کہ addiction کا کنٹرول اس طرح ہونا چاہیے، تو اگر آپ نے اس پر عمل کر لیا تو یہ بڑی اچھی بات ہے۔ اللّٰه پاک آپ کو مزید استقامت عطا فرمائیں۔
سوال نمبر 11:
السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ! امید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گے حضرت جی دامت برکاتہم کیا بات ہے کہ میں جتنی برکات اور فیض قصیدہ بردہ شریف میں محسوس کرتا ہوں اتنی عام درود شریف میں بھی نہیں محسوس کرتا، حالانکہ میں روزانہ کم سے کم ایک ہزار مرتبہ درود شریف پڑھتا ہوں۔ اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ جَزَاکَ اللّٰہ۔
جواب:
دراصل جو چیز آپﷺ سے براہِ راست آئی ہے، عقلی طور پر اس سے زیادہ فائدہ محسوس ہوتا ہے، طبعی طور پر اس سے کم تر چیز سے بھی فائدہ ہو سکتا ہے۔ مثلاً شیخ آپﷺ سے بہرحال بہت کم ہے، لیکن شیخ کی بات سے انسان زیادہ اثر لیتا ہے اور براہِ راست حدیث شریف سے اتنا اثر نہیں لیتا۔ تو کیا کرنا چاہیے؟ ہم کہیں گے کہ اِنْ شَاءَ اللّٰہ یہی چیز آپ کو اصل چیز تک پہنچا دے گی۔ چنانچہ ابھی آپ اصل تک نہیں پہنچے، لہٰذا اس کے لئے کوشش جاری رکھیں لیکن اس کو بھی ختم نہ کریں، یعنی قصیدہ بردہ شریف آپ کو آہستہ آہستہ اصل تک پہنچا دے گا، چونکہ یہ آپ کے قریب ہے، اس لئے آپ کو اس سے زیادہ فیض ملے گا۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ سے کسی نے اس قسم کی کوئی بات کی تھی کہ حضرت مجھے حضرت گنگوہی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی بنسبت آپ سے زیادہ مناسبت ہے۔ اس وقت حضرت گنگوہی رحمۃ اللّٰہ علیہ بھی حیات تھے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے فرمایا: ہاں! چھوٹوں کو چھوٹوں سے زیادہ اثر feel ہوتا ہے اور بڑوں کو بڑوں سے، تو آپ آپ صحیح کہتے ہیں۔ ہم لوگ چونکہ پیچھے ہیں، لہٰذا پیچھے والوں سے نسبتاً زیادہ اثر محسوس ہوتا ہے لیکن اگر ان پیچھے والوں کے ساتھ رہے تو آگے پہنچا دیں گے اِنْ شَاءَ اللّٰہ۔
سوال نمبر 12:
السلام علیکم! حضرت جی امید ہے کہ آپ خیر وعافیت سے ہوں گے۔ حضرت جی میرا عالمہ کا کورس پچھلے سال اللّٰہ کے فضل سے مکمل ہوا، اساتذہ نے تاکید فرمائی کہ حدیث کی کسی کتاب کو مطالعے میں رکھیں۔ میں نے بخاری شریف کو مطالعے میں رکھا، مگر کل ہی ایک بہت بڑے بزرگ نے بیان میں فرمایا کہ مشکوٰۃ شریف کو مطالعے میں رکھنا زیادہ آسان ہے۔ حضرت جی آپ تجویز فرمائیں کہ کون سی کتاب کا مطالعہ کروں؟ میری بیٹی ابھی 6 ماہ کی نہیں ہوئی، آپ کا ذکر اور اکثر مولانا فاروق صاحب کا ذکر لگا دیتی ہوں۔ کیا بچوں کو ذکر سنانا چاہیے؟ دعاؤں کی درخواست ہے حضرت جی جَزَاکَ اللّٰہِ خَیْرًا وَّاَحْسَنَ الْجَزَاء۔
جواب:
مَاشَاءَ اللّٰہ! انہوں نے آسان کی بات فرمائی ہے، اعلٰی کی بات نہیں فرمائی۔ اعلٰی تو بخاری شریف ہے جس میں ساری صحیح احادیث شریف ہیں۔ لیکن آسان مشکوٰۃ شریف ہے، اس لئے انہوں نے اس کا بتا دیا، کیونکہ اس میں انہوں نے ترتیب کچھ ایسی رکھی ہے کہ وہ انسان کو زیادہ آسانی سے سمجھ میں آسکتی ہے۔ میں تو اس کے بارے میں عرض کروں گا کہ بخاری شریف یا مشکوٰۃ شریف کے مطالعے میں تو کوئی مسئلہ نہیں ہے، لیکن عمل کے لحاظ سے اسوۂ رسولِ اکرم ﷺ جو ڈاکٹر عبد الحیٔ صاحب کی کتاب ہے، متأخرین میں سے ہیں، لیکن اگر آپ کو اس کی ذریعے سے سنتوں پر عمل نصیب ہوگیا تو کیا خیال ہے؟ چونکہ اصل تو عمل ہوتا ہے، اس میں بھی احادیث شریفہ ہی ہیں۔ چونکہ بخاری شریف یا مشکوٰۃ شریف میں جو احادیث شریفہ ہیں ان کی ترتیب علمی اعتبار سے رکھی گئی ہے اور جو ڈاکٹر عبد الحیٔ صاحب نے ’’اسوۂ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ لکھی ہے، اس کی ترتیب عملی اعتبار سے بنائی گئی ہے۔ لہٰذا اب آپ علم حاصل کر چکی ہیں تو آپ مَاشَاءَ اللّٰہ عمل کی طرف آجائیں، تو آپ اسوۂ رسولِ اکرمﷺ کو اپنے مطالعے میں رکھیں اور جس پر فوری عمل ہوسکتا ہے اس پر آپ فوراً عمل شروع کر دیں، اس کی برکت سے جن سنتوں پر عمل کرنا ذرا نسبتاً مشکل ہے اِنْ شَاءَ اللّٰہ وہ بھی آسان ہوجائے گا۔ بہرحال مطالعے کے لیے ان دونوں میں سے جس کتاب کے ساتھ آپ کو زیادہ مناسبت ہو تو آپ مطالعے میں اس کو جاری رکھ سکتی ہیں، لیکن عمل کے لیے میں یہی عرض کروں گا کہ آپ اسوۂ رسولِ اکرمﷺ کو مطالعے میں رکھیں۔ باقی آپ نے جو بچے کو ذکر سنانے کا پوچھا ہے، تو ٹھیک ہے بچے کو ذکر سنایا جاسکتا ہے۔ کیونکہ ان کا دماغ بالکل پلیٹ کی طرح ہوتا ہے یہ الفاظ ان کے دماغ میں settle ہوجائیں گے اور بعد میں اِنْ شَاءَ اللّٰہ ان کے کام آئیں گے۔
سوال نمبر 13:
السلام علیکم!
My name is فلاں. I work in construction and I am surrounded by music. My co-workers always talk about women and drugs and other حرام things. How do I prevent myself from getting affected by these حرام influences? I don't have motivation to do anything. I feel like there is always a restriction when trying to do something. I also have anger problems and get irritated very easily. Do you have any suggestions? What would you suggest for a person with depression and anxiety?
جَزَاکُمُ اللّٰہِ خَیْراً۔
جواب:
First of all, who are you? Introduce yourself. What you are doing, what's your work, what's your qualification, what is your environment? Just a few things you have shared with me about your environment. But it's not complete and these are psychological things and psychological things are such that it needs detailed information to get some conclusions. If you go to a psychiatrist he will ask you many questions and after that he will make mind to give you something for treatment. So therefore, I am not able to suggest anything to you if I don't know who you are, so first of all let you introduce yourself completely to me.
سوال نمبر 14:
السلام علیکم! بڑے عرصے سے میں مختلف انسانوں سے، بیماریوں سے اور مختلف روحانی چیزوں سے مغلوب ہوں، ان سب کی ضد میں مجھے ’’اَللّٰهُمَّ یَاعَزِیْزُ‘‘ کے ورد سے محبت ہوگئی ہے، کیونکہ عَزِیْز کے معنی غالب اور صاحب اقتدار ہیں۔ اَللّٰهُمَّ یَاعَزِیْزُ اس لئے کہ میری روح اور ذہن بیماری پر غالب ہو، بجائے اس کے کہ بیماری مجھ پر غالب ہو۔ اور اس لئے کہ میں بے دینوں پہ غالب ہوجاؤں، بجائے اس کے کہ بے دین لوگ مجھ پر غالب ہوجائیں اور اپنی ہمت بڑھانے کے لئے۔ یا کے ساتھ اسم پڑھنا دعا ہی ہے، تو پھر یہ دعائیہ کلمہ میں پڑھ لیا کروں، جب مجھے ضرورت محسوس ہو؟
جواب:
آپ کسی بھی اسمِ صفت کو یا کے ساتھ لگا کے آپ دعائیہ انداز میں کہہ سکتے ہیں، اس پہ کوئی پابندی نہیں ہے۔ لیکن اپنے لئے self-treatment والا طریقہ جو آپ نے اختیار کیا ہے وہ مناسب نہیں ہے، یہ اصولی غلطی ہے۔ لیکن بہرحال یہ غلط نہیں ہے کہ کوئی شخص اللّٰه تعالیٰ کا نام یا کے ساتھ لے، یہ ٹھیک ہے۔ جیسے یَا کَرِیْم، یَا رَحِیْم، یَا سُبْحَان، یَا اَللّٰه، اگر کوئی کہہ دے تو بالکل ٹھیک ہے اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن آپ اس کو self-treatment کے طور پہ نہ لیں، کیونکہ self-treatment ہمیشہ خطرناک ہوتی ہے۔ اس وقت اس چیز میں خطرہ نہیں ہے لیکن جب آپ کو یہ عادت ہوجائے گی تو پھر بہت ساری چیزوں میں آپ self-treatment کریں گے، جس کا آپ کو نقصان ہوگا۔ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ کوئی چیز اچھی ہوتی ہے لیکن اس کا نتیجہ ٹھیک نہیں نکلتا۔ جیسا کہ ’’کَلِمَةُ الْحَقِّ اُرِیْدُ بِھَا الْبَاطِلُ‘‘ یعنی کوئی کلمۂ حق ہو لیکن اس سے کوئی باطل چیز نکل آئے، ایسا ہوسکتا ہے، تو اس ڈر سے اس کی اجازت نہیں دی جاتی۔ جیسے مجھے حضرت نے فرمایا تھا کہ آپ پر ساری کتابیں بند ہیں، آپ صرف حضرت تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے مواعظ وملفوظات پڑھیں گے، باقی کوئی کتاب آپ نہیں پڑھیں گے۔ پھر فرمایا کہ کتابیں صحیح ہیں لیکن بعض دفعہ ڈاکٹر مریض کے لئے ملائی بھی بند کر دیتا ہے، کیونکہ اس کا ہاضمہ درست نہیں ہوتا، وہ اس کو ہضم نہیں کر سکتا۔ مجھ پر ساری کتابیں بند کردیں تو کیا وہ کتابیں غلط تھیں؟ کیا صرف مواعظ ہی صحیح ہیں؟ اب اگر کوئی Technical question کے طور پر مجھ سے پوچھے کہ کیا صرف مواعظ ہی صحیح ہیں؟ تو میں کہوں گا نہیں! بہت ساری کتابیں صحیح ہیں۔ لیکن حضرت نے مجھے فرمایا کیونکہ میں مریض تھا، وہ کتابیں تو مریض نہیں تھیں، اس لئے مجھ پر پابندی لگ گئی۔ اسی طریقے سے آپ کے تمام environment کو جان کر میں یہsugesty کروں گا کہ آپ self-treatment سے اپنے ہاتھ اٹھا لیں اور جو کچھ آپ کو بتایا جائے صرف وہی کریں۔ نہ خود اپنا علاج کریں، نہ کسی اور کا علاج کریں، بس جس سے آپ کو علاج کروانا مقصود ہو ان سے ہی پوچھ لیا کریں اور ان کی باتوں پر عمل کر لیا کریں۔ بذات خود اس بات میں کوئی غلطی نہیں ہے، لیکن self-treatmet میں بہت ساری غلطیاں ہیں۔
سوال نمبر 15:
السلام علیکم ورحمۃ اللّٰه وبرکاتہ! حضرت جی میں لاہور سے فلاں آپ سے مخاطب ہوں۔ میں کل اللّٰہ پاک کی رحمت سے آپ کے سلسلے میں بیعت ہوا تھا اور کل سے ہی 40 روزہ معمولات شروع کردیئے تھے اَلْحَمْدُ لِلّٰہ۔ آپ نے فرمایا تھا کہ میں اپنے باقی معمولات اور اس بیعت سے آپ کو آگاہ کروں، میں پہلا کلمہ ایک تسبیح، استغفار ایک تسبیح، ’’حَسْبُنَا اللّٰهُ وَنِعْمَ الْوَكِيْلُ‘‘ 313 مرتبہ، ’’لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللّٰهِ‘‘ ہزار مرتبہ، آیتِ کریمہ ہزار مرتبہ، ’’اَللّٰهُمَّ اِنَّا نَجْعَلُكَ فِیْ نُحُوْرِهِمْ‘‘ 313 مرتبہ، آیت الكرسی اکتالیس 41 مرتبہ اور ’’یَا جَبَّارُ یَا قَہَّارُ‘‘ ایک تسبیح، سورۂ فیل 51 مرتبہ، 40 دن کا وظیفہ شروع ہے، 24 دن باقی رہ گئے ہیں۔ آپ سے اپنے حالات کا ذکر کیا تھا، آگے کے لئے میری رہنمائی فرمائیں جَزَاکَ اللّٰہ حضرت جی۔
جواب:
یہ آپ کو جن مقاصد کے لئے دیئے گئے ہیں ان میں سے شاید کچھ پورے ہوچکے ہوں گے اور کچھ ابھی باقی ہوں گے۔ لہٰذا جنہوں نے آپ کو یہ دیئے ہیں ان کے بارے میں مجھے معلوم نہیں ہے کہ کس نے آپ کو دیئے ہیں اور کس چیز کے لئے ہیں۔ اگر آپ نے اس کو معمول بنانا ہے پھر تو میں اس کے بارے میں عرض کروں گا کہ کس چیز کو معمول بنا سکتے ہیں اور کس کو نہیں۔ اور اگر آپ کو کسی نے خاص دنوں کے لئے دیا ہے کہ اتنے دن کریں اس کے بعد چھوڑ دیں، تو پھر وہ مجھے بتا دیں۔ کیونکہ جو صاحبِ فن ہوتا ہے اس کو ہی پتا ہوتا ہے کہ میں اس کو کیا دے رہا ہوں، لہٰذا اس کے بارے میں بھی آپ مجھے آگاہ فرمائیں۔
سوال نمبر 16:
السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ! میں یونیورسٹی کی ایک طالبہ ہوں، اس کے لئے میں تقریباً روز باہر نکلتی ہوں۔ کیا میں رمضان میں تراویح کے لئے ابو کے ساتھ باپردہ لباس میں قریب کی مسجد میں جاسکتی ہوں؟ میں نے گھر میں رہ کر تراویح پڑھنے کی کوشش کی تھی لیکن مجھ سے 8 تراویح بھی بمشکل پڑھی جاتی تھیں اور تراویح میں بہت زیادہ حرج ہونا شروع ہوگیا تھا۔ تو کیا میرا مسجد جانا جائز ہے؟ اگر کوئی صورت نکل سکتی ہے تو رہنمائی فرما دیں، ورنہ گھر میں بھی کوشش کروں گی اِنْ شَاءَ اللّٰہ۔
جواب:
مَاشَاءَ اللّٰہ! چونکہ آپ نے بڑے اخلاص کے ساتھ پوچھا ہے اس لئے میں آپ سے یہ بات عرض کرتا ہوں۔ ویسے عام طور پر اس پر ہم بات نہیں کیا کرتے، کیونکہ لوگ touchy ہیں اور جاننا نہیں چاہتے، صرف چھیڑنا جانتے ہیں، چونکہ آپ نے عمل کے لئے پوچھا ہے اس لئے عرض کروں گا۔
پہلا سوال یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے دور میں جو حالات تھے کیا وہ آج کل کے حالات سے اچھے تھے یا آج کل کے حالات ان سے اچھے ہیں؟ اگر آپ کا جواب ہے کہ یہ حالات اچھے ہیں تو اس کے لئے پھر آپ کو مجھے convince کرنا پڑے گا اور اگر آپ کہتی ہیں کہ وہ حالات بہت اچھے تھے تو اس میں حضرت عمر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے کیا decision کیا تھا؟ جبکہ آپ ﷺ نے ان کے بارے میں فرمایا کہ عمر کی زبان پہ حق بولتا ہے۔ پھر دوسری بات یہ ہے کہ جب انہوں نے خواتین کو مسجد آنے سے روک دیا تو خواتین نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنھا سے شکایت کی، جو سب کی ماں تھیں، تو عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنھا نے حضرت عمر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کی تائید فرمائی اور فرمایا کہ اگر میرے والد کے وقت میں بھی یہ حالات ہوتے یا آپﷺ کے وقت میں یہ حالات ہوتے تو آپﷺ وہی فرماتے جو حضرت عمر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ہے۔ اس سے پتا چلا کہ حضرت عمر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کی دور اندیشی تھی کہ انہوں نے اس وقت حالات بھانپ لیے تھے کہ اس سے کیا بن سکتا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ اس وقت کے حالات خراب تھے، بہت اچھے حالات تھے لیکن اتنی دور اندیشی تھی کہ اس چیز کو اگر جاری رکھیں گے تو اس سے کیا کیا بن سکتا ہے، تو انہوں نے اس وقت وہ decision کر دیا جو ہمارے لئے مینارۂ نور ہے، کہ خواتین کو اپنے گھر میں ہی نماز پڑھنی چاہیے۔ کیونکہ آپﷺ نے فرمایا:
’’صَلَاةُ الْمَرْأَةِ فِيْ بَيْتِهَا أَفْضَلُ مِنْ صَلَاتِهَا فِيْ حُجْرَتِهَا، وَصَلَاتُهَا فِيْ مَخْدَعِهَا أَفْضَلُ مِنْ صَلَاتِهَا فِيْ بَيْتِهَا‘‘ (سنن ابی داؤد: 570)
ترجمہ: ’’عورت کی اپنے گھر کی نماز اس کی اپنے صحن کی نماز سے افضل ہے، اور اس کی اپنی اس کوٹھری کی نماز اس کے اپنے گھر کی نماز سے افضل ہے‘‘۔
میرے خیال میں بس اس کو سمجھ لیں تو اِنْ شَاءَ اللّٰہُ الْعَزِیْز آپ کو خود ہی جواب مل جائے گا۔
سوال نمبر 17:
السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ! حضرت جی اللّٰہ پاک سے آپ کی اور آپ کے جملہ متعلقین کی صحت وتندرستی بلند درجات کے لئے دعاگو ہوں۔ پچھلے کچھ دنوں سے میرا یہ حال رہا ہے کہ اپنے ہر کام میں غلطی اور گناہ ہی نظر آتے ہیں، نماز بھی پڑھتا ہوں تو بھی یہی خیال غالب رہتا ہے کہ پتا نہیں دورانِ نماز کتنے گناہ ہوئے یا پوری نماز ہی گناہ میں گزری ہے۔ کیونکہ دل ودماغ پر دنیا کے خیالات ہی حاوی رہتے ہیں، چند مرتبہ توجہ مکمل اللّٰہ کی جانب مرکوز ہوئی، لیکن ایسا صرف چند سیکنڈ کے لئے ہی رہا اس کے بعد پھر وہی دنیا۔ اس کے علاوہ بعض اوقات اللّٰہ پاک سے انتہائی قربت کا تعلق بھی محسوس ہوتا ہے، ایسی انسیت جیسے کہ والدین سے محسوس ہوسکتی ہے۔ یہ بھی خیال آتا ہے کہ اللّٰه پاک سے جو بھی دعا مانگوں گا وہ ضرور قبول ہو گی لیکن یہ کیفیت کچھ دیر ہی رہتی ہے، اس کے بعد پھر وہی دنیا داری، لہو ولعب والی مشغولیت طاری ہوجاتی ہے۔ برائے مہربانی اس بارے میں رہنمائی فرمائیں اللّٰه پاک آپ کے درجات بلند فرمائیں اور آپ کے لئے انتہائی آسانی اور بہترین اجر عطا فرمائیں، دعاؤں کی درخواست ہے۔
جواب:
سُبْحَانَ اللّٰہ یہ چیز تو رہتی ہے۔ جیسے حضرت حنظلہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا تھا کہ حنظلہ منافق ہوگیا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا کہ یہ کیا کہہ رہے ہو؟ انہوں نے کہا: جب آپﷺ کی مجلس میں ہوتے ہیں تو بالکل ایسا ہوتا ہے کہ جیسے سارا کچھ سامنے ہے اور جب باہر آتے ہیں تو پھر وہ بات نہیں ہوتی، یہ تو منافقت ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ یہ تو مجھے بھی ہوتا ہے، چلو پھر آپﷺ سے پوچھ لیتے ہیں۔ دونوں آپﷺ کے پاس چلے گئے، آپﷺ سے یہ بات عرض کی تو آپﷺ نے فرمایا: ایسا تو گاہے بگاہے ہوتا ہے، اگر آپ کا حال ہر وقت ایسا ہوجائے، پھر تو فرشتے آپ کے ساتھ بستروں پر مصافحہ کرتے رہیں گے۔ (جامع ترمذی: 2514)
چنانچہ یہ برقی کیفیت ہوتی ہے، اس کو اللّٰه پاک کی طرف سے نعمت سمجھ کر اس پر شکر ادا کیا کریں، کیونکہ شکر سے نعمت بڑھتی ہے۔ اور جو چیز غیر اختیاری ہے اس کی پروا نہ کریں اور جو چیز اختیاری ہے اس میں سستی نہ کریں۔ بس یہ قانون سمجھ لیں اِنْ شَاءَ اللّٰہُ الْعَزِیْز بہت کچھ سمجھ میں آجائے گا۔
سوال نمبر 18:
السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ! حضرت فرضِ عین علم حاصل کرنا چاہتی ہوں رہنمائی فرمائیں، آپ نے بیان میں فرمایا تھا کہ شیخ سے پوچھ کے کتاب پڑھیں اور حضرت میرے میاں نے بھی کہا تھا کہ حضرت سے پوچھ لینا۔ تو حضرت فرما دیں کہ کون سی کتاب پڑھا کروں؟
جواب:
سُبْحَانَ اللّٰہ بہت اچھی بات ہے۔ اِنْ شَاءَ اللّٰہ میں شفیق صاحب سے بات کر لوں، پھر اِنْ شَاءَ اللّٰہ جو طے ہوگا بتا دوں گا۔
سوال نمبر 19:
السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ!
I am a Syrian Kurd born and living in Germany and made contact with the فاروق regarding مکتوبات of مجدد الف ثانی. I asked him many questions which were answered and then asked him to formally train this فقیر in تصوف. He began teaching مختصراتِ سلوک to me in Arabic and English and I translated it into German. The مختصراتِ سلوک has proven highly beneficial اَلْحَمْدُ لِلّٰہ. Also, اَلْحَمْدُ لِلّٰہ he instructed me to read some books. For example آپ بیتی one to five. I also listened to سید مجلس of ذکر online and am in my second month of ذکر lesson. Although, I was eager and wanted to give بیعت to سید فاروق he advised waiting and then now HE has instructed me with emphasis that I should give بیعت to his شیخ meaning, you اِنْ شَاءَ اللّٰہ. He has told me about your special connection with Germany and that you loved and worked here also. I wish to act upon the advice of فاروق and so please accept my بیعت. I have greatly benefited from my contact with سید فاروق and with your permission I would like to stay in touch with him.
جواب:
مَاشَاءَ اللّٰہ!
Very good. It is very good that you want to be in contact with him مَاشَاءَ اللّٰہ. It will be very good for you because he understands you and you understand him. As far as بیعت is concerned so okay, as you say you can give بیعت to me because it's the same whether you give it to him or to me because it is the same سلسلہ and it reaches رسول اللّٰہ ﷺ. So اِن شَاءَ اللّٰہ I shall send you a few words about بیعت and then you will read it and then you will send to me your words and then انْ شَاءَ اللّٰہ I shall accept you in بیعت.
سوال نمبر 20:
السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ!
نمبر 1:
تمام لطائف پر 5 منٹ ذکر ومراقبہ، حقیقتِ کعبہ 15 منٹِ نیز نماز میں الفاظ کے معانی پر غور کرنا کم نصیب ہوتا ہے، نفس پر بہت بھاری ہوتا ہے۔ کیونکہ جس نماز میں غور وفکر نصیب ہوجائے وہ کافی طویل ہوجاتی ہے، جب وہ نصیب ہوتا ہے تو یہ ادراک ہوتا ہے کہ میں اللّٰه تعالیٰ سے مناجات کر رہی ہوں، اس لئے کافی سکون واطمینان کے ساتھ نماز کے تمام ارکان ادا کرتی ہوں، جس سے نماز طویل ہوجاتی ہے، جس سے نفس پر بھی بوجھ پڑتا ہے اور تھکاوٹ بھی ہوجاتی ہے۔ جسم تھک جاتا ہے، لیکن دل کو کافی خوشی اور سکون ملتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ بات نصیب ہوئی ہے کہ نفس میں اگر کسی بات پر عجب پیدا ہوجائے تو فوراً تنبیہ ہوجاتی ہے اور نفس کو ٹوکنا نصیب ہوجاتا ہے کہ تیری اس خیانت کی وجہ سے تو کبھی اچھا نہیں بن سکتا، اللّٰہ تعالیٰ سے نفس کے شر سے پناہ مانگنے کی دعا بھی کرتی ہوں، کبھی فوراً ادراک نصیب نہ ہو تو وہ کام جس پر نفس عجب میں مبتلا ہوتا ہے وہ خراب ہوجاتا ہے، جس سے نفس کو زبردست تکلیف پہنچتی ہے اَلْحَمْدُ لِلّٰہ۔ اللّٰہ تعالیٰ کی شانِ استغناء کے استحضار کا غلبہ اکثر رہتا ہے، جس کی وجہ سے اپنے اعمال کی بہت فکر رہتی ہے۔ پہلے تو ڈرتی تھی کہ کہیں اللّٰه تعالیٰ کی رحمت سے مایوسی نہ ہو لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ احساسِ کمتری میں کافی کمی نصیب ہوئی ہے اَلْحَمْدُ لِلّٰہ۔
جواب:
مَاشَاءَ اللّٰہ! یہ حالات اچھے ہیں اور آپ یہی چیز جاری رکھیں، اللّٰہ تعالیٰ اس میں مزید آپ کو نوازیں اور اپنی نماز کو اسی طرح کرلیں جس طرح آپ نے کہا ہے کہ آپ اس میں یہ غور کیا کریں کہ میں اللّٰه کے سامنے کھڑی ہوں اور اللّٰه پاک سے مناجات کر رہی ہوں۔ جیسا کہ حضرت علی کرم اللّٰه وجہہ فرمایا کرتے تھے کہ جب میں یہ سننا چاہتا ہوں کہ اللّٰه کیا کہتے ہیں تو قرآن پڑھتا ہوں اور جب میں اللّٰه سے اپنی بات کرنا چاہتا ہوں تو میں نماز پڑھتا ہوں۔ قرآن کریم میں ہے:
﴿وَاسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوةِؕ﴾ (البقرہ: 153)
ترجمہ: ’’صبر اور نماز سے مدد حاصل کرو‘‘۔
نمبر 2:
تمام لطائف پر 5 منٹ ذکر اور مراقبہ حقیقتِ کعبہ 15 منٹ، کچھ محسوس نہیں ہوتا۔
جواب:
ٹھیک ہے مَاشَاءَاللّٰہ۔ 15 منٹ میں کچھ محسوس نہ ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ کو فائدہ نہیں ہورہا۔ البتہ آپ کو محسوس کچھ نہیں ہورہا کیونکہ آپ اس کی حقیقت نہیں جانتیں۔ اصل میں کعبہ پہ سب سے پہلے رحمت اترتی ہے، پھر وہاں سے پوری دنیا میں پھیلتی ہے اور اس دنیا میں آپ بھی ہیں، تو آپ کی طرف بھی آتی ہے۔ بس آپ اس کو محسوس کریں کہ میری طرف بھی اللّٰہ تعالیٰ کی رحمت خانہ کعبہ سے آرہی ہے۔
نمبر 3:
تمام لطائف پر 5 منٹ ذکر اور مراقبہ حقیقتِ قرآن 15 منٹ۔ جب قرآن پڑھتی ہوں تو ایسا محسوس ہوتا کہ اللّٰه تعالیٰ میرے ساتھ کلام فرما رہے ہیں، اس کے علاوہ قرآن مجید میں تدبر نصیب ہوا ہے، اَلْحَمْدُلِلّٰہ،
جواب:
مَاشَاءَاللّٰہ! بہت اچھی بات ہے، فی الحال اس کو جاری رکھیں۔
نمبر 4:
تمام لطائف پر 5 منٹ ذکر، مراقبۂ معیت ودعائیہ 5 منٹ اور شکر 10 منٹ، ہر وقت اللّٰه تعالیٰ کی معیت کا ادراک ہوتا ہے۔ خاص کر مشکل اوقات میں کبھی ادراک ہوجاتا ہے۔ اللّٰه تعالیٰ کی تمام نعمتوں پر کثرت سے شکر نصیب ہوا ہے اور دعاؤں میں توجہ نصیب ہوئی ہے اَلْحَمْدُ لِلّٰہ۔
جواب:
مَاشَاءَاللّٰہ! مراقبۂ دعائیہ میں آج کل ذرا کوشش کریں کہ غزہ کے مسلمانوں کے جو حالات ہیں، وہ اپنے اس مراقبہ میں پیش کر لیا کریں کہ اللّٰه تعالیٰ مہربانی فرما دے، اور ویسے بھی ان کو بہت کچھ مل رہا ہے لیکن اس میں آسانی نصیب ہوجائے اور آسانی کے ساتھ ان کو کامیابی نصیب ہوجائے۔
نمبر 5:
لطیفۂ قلب 10 منٹ، لطیفۂ روح 10 منٹ، لطیفۂ سِر 10 منٹ، لطیفۂ خفی 10 منٹ اور لطیفۂ اخفیٰ 15 منٹ۔ باجی کہتی ہیں کہ وفاق کے امتحان کی وجہ سے ذکر چھوٹ گیا تھا، اب دوبارہ شروع کرنا چاہتی ہوں۔
جواب:
ٹھیک ہے دوبارہ شروع کرلیں۔
نمبر 6:
لطیفۂ قلب 10 منٹ، لطیفۂ روح 10 منٹ، لطیفۂ سِر 15 منٹ، اس طالبہ نے غلط فہمی سے سر پر بھی 10 منٹ ذکر کیا ہے۔ تینوں لطیفوں پر ذکر محسوس ہوتا ہے۔
جواب:
آپ اس کو تینوں پر 10 منٹ ہی رکھیں اور چوتھے پر 15 منٹ کرلیں۔
نمبر 7:
لطیفۂ قلب 15 منٹ محسوس ہوتا ہے، اَلْحَمْدُ لِلّٰہ۔
جواب:
ان کو اگلا لطیفہ بھی بتا دیں اور یہ 10 منٹ کرلیں۔
نمبر 8:
لطیفۂ قلب 20 منٹ، محسوس ہوتا ہے۔
جواب:
مَاشَاءَ اللّٰہ! ان کو اگلا بتا دیں اور یہ 10 منٹ کرلیں۔
نمبر 9:
لطیفۂ قلب 10 منٹ، لطیفۂ روح 10 منٹ، لطیفۂ سِر 10 منٹ، لطیفۂ خفی 15 منٹ، تمام لطائف پر ذکر محسوس ہوتا ہے۔
جواب:
تو اب ان کو چاروں پہ 10 منٹ اور پانچویں لطیفہ پر 15 منٹ کا بتا دیں۔
نمبر 10:
تمام لطائف پر 5 منٹ ذکر اور مراقبۂ شانِ جامع 15 منٹ، محسوس نہیں ہوتا۔
جواب:
مراقبہ شانِ جامع کا مطلب ہے کہ تمام لطائف پر جو مشارب ہیں یعنی اللّٰه تعالیٰ کی توحید کا، تمام صفات کا، پھر شیونات کا، پھر سلبی صفات کا، ان تمام کا فیض اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے آپﷺ کی طرف اور آپﷺ کی طرف سے شیخ کی طرف اور پھر شیخ کی طرف سے آپ کے لطیفۂ اخفیٰ پر آرہا ہے۔ اس کو اس طرح محسوس کریں۔
نمبر 11:
لطیفۂ قلب 15 منٹ، محسوس ہوتا ہے۔
جواب:
اب ان کو 15 منٹ لطیفۂ روح کا بتا دیں اور لطیفہ قلب 10 منٹ۔
نمبر 12:
لطیفۂ قلب 10 منٹ، محسوس ہوتا ہے۔
جواب:
ان کو لطیفۂ قلب 10 منٹ اور لطیفۂ روح 15 منٹ کا بتا دیں۔
نمبر 13:
تمام لطائف پر 10 منٹ ذکر اور مراقبۂ صفاتِ ثبوتیہ 15 منٹ، تلاوت کرتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ اللّٰه تعالیٰ میری تلاوت سن رہے ہیں۔
جواب:
مَاشَاءَ اللّٰہ! لیکن آپ اس کے ساتھ یہ بھی تصور کریں کہ میں جو بھی کام کر رہی ہوں اس کو اللّٰه تعالیٰ دیکھ رہے ہیں اور اللّٰه پاک ہی کے ارادے سے سب کچھ ہوتا ہے، ان تمام صفات کا خیال رکھیں۔
نمبر 14:
تمام لطائف پر 5 منٹ ذکر اور مراقبۂ شانِ جامع 15 منٹ، یہ بات محسوس ہوئی کہ اللّٰه تعالیٰ ’’فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ‘‘ (البروج: 16) ہے، تمام ثبوتی صفات کا حامل ہے اور سلبی صفات سے پاک ہے۔ اللّٰه تعالیٰ کی مختلف شانیں ہوتی ہیں۔
جواب:
مَاشَاءَ اللّٰہ! بالکل صحیح ہے، اب ان کو مراقبۂ معیت بتا دیں۔
نمبر 15:
تمام لطائف پر 10 منٹ ذکر اور مراقبہ شیوناتِ ذاتیہ 15 منٹ، اس بات کا ادراک ہوتا ہے کہ اللّٰه تعالیٰ کی مختلف شانیں ہوتی ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی شانِ غفوریت کا استحضار زیادہ ہوتا ہے۔
جواب:
صحیح ہے، جس کا استحضار زیادہ ہو لیکن آپ تمام کا سوچیں۔
نمبر 16:
تمام لطائف پر 10 منٹ ذکر اور مراقبۂ صفاتِ سلبیہ 15 منٹ، اس بات کا ادراک نصیب ہوا ہے کہ اللّٰه تعالیٰ سلبی صفات سے پاک ہے جیسے کھانا وغیرہ۔
جواب:
مَاشَاءَ اللّٰہ! اب ان کو شانِ جامع والا بتا دیں۔
نمبر 17:
تمام لطائف پر 10 منٹ ذکر اور مراقبۂ تجلیاتِ افعالیہ 15 منٹ، اس بات کا ادراک نصیب ہوا ہے کہ اللّٰه تعالیٰ تمام خیر کے کاموں کو پیدا کرنے والا ہے۔
جواب:
اس کے علاوہ جتنے بھی کام ہیں سب کا پیدا کرنے والا اللّٰہ تعالیٰ ہے، البتہ ارادے کی وجہ سے جو اچھا ارادہ ہوتا ہے اس کا ثواب ملتا ہے اور جو برا ارادہ ہوتا ہے اس پہ گرفت ہوتی ہے۔
نمبر 18:
کم کھانے کا مجاہدہ چند دن کے لیے ترک کیا تھا کیونکہ ہیضہ ہوگیا تھا، جس کی وجہ سے طبیعت کافی خراب تھی، 3 دن کے بعد طبیعت ٹھیک ہوگئی لیکن کمزوری محسوس ہوتی تھی۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ کل سے دوبارہ اپنا معمول بنا لیا ہے یعنی 16 گھنٹے fasting اور 8 گھنٹے میں 2 دفعہ کھانا۔
جواب:
بالکل صحیح ہے اِنْ شَاءَاللّٰہ، اللّٰہ جل شانہٗ صحت عطا فرمائیں۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ