اخفائے احوال سے حصولِ مرادات اور افشائے راز سے تنزل ہوتا ہے
درس نمبر 9، دفتر اول حکایت نمبر6 شعر نمبر29 تا آخر، حکایت نمبر 7شعر نمبر 1 تا 43 (شرح کلید مثنوی، جلد اول) - یہ بیان 12 جولائی 2008 کو ہوا تھا جو دوبارہ براڈکاسٹ کیا گیا
اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم تمام مخلوقات پر یکساں طور پر محیط ہے، جیسے سورج کی روشنی سب کے لیے ہے۔ تاہم، اس عظیم فیض سے فائدہ اٹھانے کے لیے طلب اور اخلاص کے ساتھ مسلسل کوشش ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات وراء الوراء ہے، اور اس تک پہنچنے کے لیے شیخ کامل کا وسیلہ ناگزیر ہے، جو سالک کی رہنمائی کے لیے نورِ ہدایت فراہم کرتا ہے۔
لا الہ الا اللہ کی معرفت
لا الہ الا اللہ کی معرفت کے مختلف مدارج اور ان کے عبادت پر گہرے اثرات کو بیان کیا گیا ہے، معرفت کے یہ مدارج انسان کو لا معبود الا اللہ، لا مقصود الا اللہ، اور بالآخر لا موجود الا اللہ کی حقیقتوں سے روشناس کراتے ہیں، جس سے عبادت کا ذوق اور اللہ تعالیٰ سے تعلق مزید مضبوط ہوتا ہے۔
شیخ اور اولیاء کرام کی نسبت
شیخ اور اولیاء کرام کے تذکروں کے ذریعے انسان کو تکوینی اور تشریعی دونوں طرح کے روحانی اور عقلی فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ ان تذکروں سے قلب و روح کو تقویت ملتی ہے اور شعور میں وسعت آتی ہے۔ صوفیاء کرام اپنے احوال اور اصطلاحات کو اشاروں اور کنایوں میں بیان کرتے ہیں، تاکہ ہر طالبِ حق اپنے ظرف اور استعداد کے مطابق ان سے رہنمائی لے سکے۔
سلوک کے احوال
دورانِ سلوک سالک کو وحدۃ الوجود، سکر، اور صحو جیسے احوال کا سامنا ہوتا ہے۔ سکر، جذبات کی بلندی اور عشق کے اعلیٰ مقام کا مظہر ہے، جبکہ صحو ان جذبات پر قابو پانے اور ان کی حکمت کو سمجھنے کا نام ہے۔ ان دونوں کا متوازن ہونا روحانی ترقی کے لیے لازم ہے۔
شیخ کامل کی رہنمائی کی اہمیت
شیخ کامل کی رہنمائی کے بغیر مسائل کو خود حل کرنے کی کوشش، روحانی پیچیدگیوں اور نقصان کا سبب بن سکتی ہے۔ اپنے احوال صرف شیخ کو اطلاعاً بیان کرنا ضروری ہے اور ان کی ہدایات پر بھروسہ اور عمل کرنا لازم ہے۔ اپنے راز دوسروں پر ظاہر کرنا یا انہیں پیر بھائیوں سے شیئر کرنا ترقی میں رکاوٹ بنتا ہے اور سالک کو نقصان پہنچاتا ہے۔
سالک کے لیے تاکید
بیان کے اختتام پر سالک کو اس بات کی تاکید کی گئی کہ وہ شیخ کے طے کردہ نظام کی مکمل پابندی کرے اور اس پر اعتماد رکھے۔