پیغمبر اسلام کی بعثت کے وقت دنیا کی مذہبی اور اخلاقی حالت

درس نمبر 237، حصہ چہارم ، تائید و نصرت، باب: شب ظلمت (پیغمبر اسلام کی بعثت کے وقت دنیا کی مذہبی اور اخلاقی حالت)، صفحہ نمبر 132 تا 137

حضرت شیخ سید عبید الرحمٰن صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

بعثتِ محمدی ﷺ کے وقت دنیا کی مذہبی و اخلاقی حالت بہت خراب تھی۔ دنیا مختلف مذاہب میں بٹی ہوئی تھی، مگر کسی میں حقیقی روحانیت یا توحید کا نور باقی نہیں تھا۔ انسانیت پتھر اور دھات کے بتوں کی پوجا اور دیوی دیوتاؤں کی عبادت میں مصروف تھی۔ مصر، یونان، روم، اور ایران میں توہمات اور مشرکانہ عقائد رائج تھے، اور بدھ مت، عیسائیت، و رواقی فلسفے جیسے نظریات حقیقی روحانیت سے کوسوں دور ہو چکے تھے۔ معاشرتی حالت ایسی تھی کہ ہر قوم دوسری کے خون کی پیاسی تھی، حرص و طمع نے عدل و انصاف کا خاتمہ کر دیا تھا، اور دنیا کی روحانیت کی شمعیں بُجھ چکی تھیں۔

فارس کی سلطنت بعثت محمد ﷺ کے وقت شدید سیاسی بدامنی، اخلاقی انحطاط اور مذہبی فساد کا شکار تھی۔ ساسانی سلطنت کی عظمت ماضی کا حصہ بن چکی تھی، اور مذہب میں ستارہ پرستی اور زردشتی عقائد کا غلبہ تھا، جن میں نور و ظلمت کے دو خدا اور اخلاقی انحطاط کی تعلیمات تھیں۔ مزدک کی تعلیمات نے دولت اور عورت کو مشترک قرار دے کر عیش پرستی اور فساد کو مزید فروغ دیا۔ ایرانی معاشرہ میں بے حسی اور اخلاقی گراوٹ کی صورتحال تھی، جہاں سلاطین کو دیوتا سمجھا جاتا تھا اور عوام پر ظلم و ستم کی انتہا تھی۔ یہ ماحول ایک اصلاحی تحریک کی شدید ضرورت کو ظاہر کرتا تھا، جس کے لیے اسلام ایک نیا، بہتر راستہ لے کر آیا۔

ان حالات میں محمد ﷺ کی بعثت اس اندھیری دنیا کے لیے روشنی کی کرن بنی۔ آپ ﷺ نے توحید، عدل، اور اخلاقیات کے نئے اصول دیے، جنہوں نے نہ صرف عرب کو بلکہ پوری دنیا کو ایک نیا پیغام دیا۔