وحدت الوجود اور راہِ عشق کی حقیقت
درس نمبر 36، دفتر اول حکایت نمبر 1 (شرح کلید مثنوی، جلد اول، شعر نمبر 33 تا 35) - یہ بیان 31 مئی 2008 کو ہوا تھا جو دوبارہ براڈکاسٹ کیا گیا
اس بیان میں بنیادی طور پر انسان کے دل میں دنیا کی محبت اور نفس کے پردوں کی وجہ سے پیدا ہونے والی غفلت کو بیان کیا گیا ہے۔ یہ فرمایا گیا کہ عشقِ حقیقی ان پردوں کو توڑ کر انسان کو حقیقت تک پہنچا سکتا ہے۔ اس غفلت کی جڑ مخلوق پر نظر اور دنیا کی محبت ہے، اور انسان کی نفسانی خواہشات اس کے دل پر غالب آجاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی محبت اور عظمت جب دل میں جاگزیں ہوتی ہے تو اس کے عشق کی شدت سے نفسانی خواہشات اور مخلوق کی محبت کا اثر ختم ہو جاتا ہے۔
بیان میں بتایا گیا کہ انسان دنیاوی معاملات میں الجھ کر اللہ کو بھول جاتا ہے اور مخلوق کا خوف اور رضا اس کے دل میں اللہ کے خوف اور رضا پر غالب آجاتے ہیں۔ اس غفلت کو توڑنے کے لیے اللہ کی بے پناہ محبت درکار ہوتی ہے، جسے حاصل کرنے کو طریقِ عشق کہا جاتا ہے۔ جب انسان نفسانیت کے غلبے سے نکل کر روحانی ترقی کی جانب بڑھتا ہے تو اس کی روحانیت اور نفسانیت میں کشمکش جاری رہتی ہے، جسے گومگو کی کیفیت کہا جاتا ہے۔ اس مقام کے بعد عشاق کا بلند مرتبہ ہے، جہاں انکے قلوب پر اللہ کی عظمت کا انکشاف ہوتا ہے، اور انسان اپنے وجود اور کائنات میں اللہ کی قدرت و تصرفات کو دیکھتا ہے۔ اللہ کی تجلی کے غلبے سے دیگر چیزیں بے حقیقت محسوس ہونے لگتی ہیں، جسے ہمہ اوست کی کیفیت کہتے ہیں۔
بیان میں یہ بھی وضاحت کی گئی کہ شریعت پر عمل ضروری ہے، مگر اللہ کی عظمت کے سامنے انسان کے اعمال کی حقیقت کچھ بھی نہیں۔ وحدت الوجود کا اصل مفہوم اپنے نفس کو مٹانا ہے، مگر کچھ لوگوں نے اس کا غلط مفہوم لیا اور نعوذ باللہ شریعت کو مٹانے یا اللہ کو ہر چیز میں موجود سمجھنے کا تصور بنا لیا۔ حقیقت میں، وحدت الوجود ایک حال ہے، فلسفہ نہیں، اور اسے فلسفہ بنانے سے زندقہ کے قریب لے جانے کا خطرہ ہے۔
بیان کے آخر میں سلوک اور جذب کے رموز بیان کیے گئے اور اس سلسلے کی خصوصیات کو واضح کیا گیا۔ اس کے بعد مثنوی شریف کا درس شروع کرنے کی اہمیت اور رومی کانفرنس کی روداد بھی سنائی گئی۔ بلا شبہ مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ راہِ عشق کے عظیم سرخیل تھے، اور ان کے الہامی کلام مثنوی شریف کو ہمارے مشائخ نے اسی وجہ سے بہت اہمیت دی۔