اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال:
آپ ﷺ کے دور میں کفار مسلمانوں پر ظلم کیا کرتے تھے۔ تاکہ مسلمان اسلام کو چھوڑ کر دوبارہ کفار کے دین کو اپنائیں۔ آج کل کے کفار مسلمانوں کو دین چھوڑنے پر مجبور نہیں کرتے، لیکن غیر محسوس انداز سے مسلمانوں کے دلوں سے ایمان کی روشنی کو ختم کرنے کی کوشش میں لگے ہیں۔ اس قسم کے حالات کے بعد ہمیں سیرت سے کیا رہنمائی مل رہی ہے؟
جواب:
چیزیں اپنا رخ بدلتی رہتی ہیں، اپنا style بدلتی رہتی ہیں، لیکن ہوتی وہی ہیں۔ مثال کے طور پر بالکل ابتدائی دور میں جو فرقے تھے، وہی فرقے اب بھی چلے آرہے ہیں، لیکن ان کی صورتیں بدل جاتی ہیں۔ یعنی ان کی جو techniques ہیں وہ بدل جاتی ہیں، ان کے جو styles ہیں وہ بدل جاتے ہیں، اس وجہ سے لوگ اس کو نیا سمجھنے لگتے ہیں۔ اور کفار تبدیل نہیں ہوئے بلکہ کفار وہی ہیں۔ لیکن اس وقت ان لوگوں نے لبادہ اوڑھا ہے کہ ہم جمہوری ہیں اور ہم جمہوریت پسند ہیں، اور ہم لوگ حقوق کی نگہبانی کرتے ہیں، اور حقوق کا خیال رکھتے ہیں، اور جہاں لوگ حقوق کی پروا نہیں کرتے۔ اب اس طریقے سے ان چیزوں کا پرچار کرتے ہیں کہ سامنے ان کی plannings ہوتی ہے، وہ سب ان کے خلاف ہوتی ہے۔ یعنی جو بے ایمانی ہے، جو جھوٹ ہے، اور جو مکر ہے، وہ آج کل کے عالمی سیاست میں بہت زیادہ ہے، اس وجہ سے ان کے مسلمانوں کے خلاف جتنے ذرائع ہیں، وہ بھی تبدیل ہوگئے ہیں۔ مثلاً اسرائیل ہے، وہ دھڑا دھڑ وہاں مسلمانوں کو شہید کررہا ہے، اور ظلم کررہا ہے، لیکن مختلف بہانوں سے جو لوگ ان کے حامی ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ان کو اپنی جگہ چاہئے۔ اور جب تک آپ ان کو مانیں گے نہیں، اس وقت تک مسئلہ حل نہیں ہوسکتا۔ پوری دنیا ایک طرف، وہ لوگ دوسری طرف، اس وقت وہ نہ انصاف کی بات سنتے ہیں، نہ خیر خواہی کی بات سنتے ہیں، اس وقت صرف ان کو اپنے مطلب سے غرض ہے، اس کے لئے وہ سارے منصوبے بناتے ہیں، اور میڈیا کے زور سے لوگوں کے ذہنوں میں وہ بات بٹھاتے ہیں جو وہ چاہتے ہیں۔ اور اس طرح بٹھاتے ہیں کہ لوگ سمجھیں کہ شاید یہ ہماری cause ہے، تو وہ یہ طریقہ اختیار کررہے ہیں۔ اس لئے اس وقت مسلمانوں کو ہوشیار رہنا ہوگا، کیونکہ اس وقت مکر کا دور ہے۔ ایک تو مسلمانوں کے پاس اتنے وسائل بھی ہوں کہ وہ لڑ سکیں۔ کیونکہ کہتے ہیں کہ اگر امن چاہتے ہو تو جنگ کے لئے تیار رہنا پڑتا ہے۔ قرآن کریم میں ہے:
﴿اَعِدُّوْا لَهُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّةٍ﴾ (الأنفال: 60)
ترجمہ: ”دشمن کے لئے جتنی طاقت ہو تیار رکھو ہے“۔
قرآن پاک کا حکم ہے کہ تمہارے پاس وہ وسائل ہونے چاہئیں، جو دشمن کے پاس ہیں۔ ایک تو یہ ہونا چاہئے کہ انسان کے پاس وہ وسائل ہوں، دوسری بات یہ ہے کہ اتنا ہوشیار ہو کہ اس کو کوئی دھوکہ نہ دے سکے۔ جیسے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں ہے کہ: ’’لَایَخْدَعُ وَلَا یُخْدَعُ‘‘ کہ وہ نہ کسی کو دھوکہ دیتے اور نہ کسی سے دھوکہ کھاتے۔ تو مسلمانوں کو اتنا ہوشیار ہونا چاہئے کہ وہ اپنے دشمنوں کو پہچان لیں۔ اور دشمنوں کی حرکات کو بھی جان لیں۔ اب ان کی ساری planning نفس کے اوپر ہوتی ہے کہ نفس کی جو خواہشات ہوتی ہیں ان کے مطابق چیزوں کو مسلمانوں کے سامنے اس طرح لاتے ہیں کہ مسلمان بھی ان کے پیچھے پڑ جائیں، اور مسلمان کو ان کے ذریعے سے گمراہ کیا جائے۔ مثلاً عورت کو استعمال کریں گے، اور مختلف قسم کے کھانوں کے ذریعے سے حرام چیزیں ان کے پیٹ میں پہنچائیں گے۔ آج کل ان کا جو style ہے ingredients لکھنے کا، وہ انہوں نے E نمبر پہ رکھ دیا ہے، تو اس میں ہر ایک کو پتا تو نہیں چلتا کہ کون سی چیز حلال ہے، اور کون سی چیز حرام ہے۔ نتیجتاً ہر ایک کھاتا ہے۔ اور انسان کے پیٹ کے اندر اگر ناواقفی میں بھی حرام مال چلا جائے تو بے شک اس کو گناہ نہ ہو، لیکن پھر بھی اس کا اثر تو ہوجاتا ہے۔ جیسے کوئی غلطی سے زہر کھالے، تو ظاہر ہے اس کو نقصان تو ہوگا۔ اسی طریقے سے اس کو حرام سے بچنا ہے۔ اس کے لئے انسان کو بہت alert رہنا پڑتا ہے، اور ایسی چیزوں کو جاننا پڑتا ہے کہ کون سی چیز حلال ہے، اور کون سی چیز حرام ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ بھی مدد فرماتے ہیں۔ جو بچنا چاہتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کو بچاتے ہیں۔ بہرحال ہم لوگوں کو ہوشیار رہنا پڑے گا اور ان کے تمام مکروں کو جاننا پڑے گا، اور اپنے خیر خواہوں کو پہچاننا پڑے گا۔ ان کی ایک technique یہ بھی ہے کہ اپنے خیر خواہوں سے کاٹتے ہیں۔ مثلاً علماء سے کاٹ دیں، مشائخ سے کاٹ دیں، جو اپنے صحیح cause والے ہیں، صحیح فکر والے ہیں، ان سے کاٹ دیں، اور وہ بھی سیاسی اغراض سے۔ اسی طرح مختلف طریقوں سے منصوبہ بندی کرکے لوگوں کو ان ذرائع سے کاٹتے ہیں جن سے ان کو خیر مل سکتی ہے، مثلاً مدارس کے خلاف منصوبہ بندی کرتے ہیں کہ لوگ ان سے کٹ جائیں۔ اس لئے ہم لوگوں کو بہت ہوشیار رہنا پڑے گا۔ اللہ جل شانہٗ اپنے فضل وکرم سے ہمیں دجال اور دجالی فتنوں سے محفوظ فرما دے، اور جو ہدایت کے راستے ہیں ان کے ساتھ ملا دے، یعنی اگر ہمارے وقت میں امام مہدی علیہ السلام آ جائیں تو ان کے ساتھ ہوں اور ان کے طریقوں پر چلنے کے ہمیں توفیق عطا فرما دے۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ