سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 694

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال نمبر 1:

حضرت! دل کی نرمی حاصل کرنے کے لئے اور زبان کی نرمی حاصل کرنے کے لئے اگر کوئی ذکر و اذکار ہے، یا اس کی کوئی اور exercise ہے تو وہ بتائیں۔

جواب:

دیکھیں! جو بھی چیز ضروری ہے، اس کے حاصل کرنے کے دو طریقے ہوتے ہیں، ایک ہوتا ہے Shortcut method یعنی جو فوری چاہئے ہوتا ہے، جیسے ہماری پشتو میں کہتے ہیں: ’’پهٔ جنګ کښې اسونه نهٔ څربيږي‘‘ (یعنی گھوڑے ہر جنگ میں نہیں تیار ہوتے، بلکہ اس کے لئے پہلے سے محنت کرنی ہوتی ہے) لہٰذا ایسا ہی یہاں ہے کہ اس کے لئے پہلے سے ایک باقاعدہ منصوبہ بندی ہوتی ہے، اور جس route کی وجہ سے وہ بیماری آئی ہوتی ہے، اس route کو ختم کرنا ہوتا ہے۔ لہٰذا دل کی سختی جس route سے آتی ہے، اس route کو جب ختم کریں گے، تو پھر یہ سختی ختم ہوگی۔ البتہ ایک shortcut بھی ہوتا ہے، shortcut اس لئے ہوتا ہے تاکہ آپ فوراً عمل کرلیں، مثلاً کسی کو غصہ آتا ہے، تو وہ دس سال تربیت کے لئے انتظار نہیں کرسکتا، بلکہ اُس وقت اسے غصے کو ختم کرنا ہوگا۔ اس کے لئے Shortcut method ہے کہ وہ پانی پی لے، کھڑا ہو تو بیٹھ جائے، بیٹھا ہو تو لیٹ جائے، جگہ تبدیل کر لے اور اپنا topic تبدیل کر لے اور جو چھوٹا ہو اسے علیحدہ کر دے اور جو بڑا ہو اس سے علیحدہ ہوجائے۔ بس بیس پچیس منٹ کا اس میں مسئلہ ہوتا ہے، لہٰذا اگر آدمی control کر لے تو پھر بعد میں ٹھیک ہوجاتا ہے۔ اسی طرح جو دل کی سختی ہے، اس کا علاج درود شریف کی کثرت ہے۔ اور ’’سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللهِ الْعَظِیْمِ‘‘ کے ذکر کی کثرت کرے اور فقراء و غرباء کی خدمت کرے۔ اس سے ان شاء اللہ! دل کی سختی نرمی میں آہستہ آہستہ تبدیل ہوجائے گی، لیکن فوراً ان شاء اللہ! اس کا یہ اثر ہوگا کہ جو نقصان ہونا ہوتا ہے، اس سے انسان بچ جائے گا۔ لیکن بہرحال اصل علاج تو تب ہوتا ہے، جب انسان تین چیزوں کی اصلاح کرے یعنی نفس کی کہ نفس مطمئنہ ہوجائے، قلب کی کہ قلبِ سلیم ہوجائے اور عقل کی کہ عقلِ فہیم ہوجائے۔ بس ان تینوں کی اصلاح جب ہوجائے تو پھر اس کے بعد یہ چیز حاصل ہوتی ہے۔ بلکہ صرف یہ نہیں پھر ساری چیزیں درست ہوجاتی ہیں۔

جب میں جرمنی میں گیا تو وہاں پر عرب حضرات students تھے، میں بھی اس وقت Ph.D کے لئے گیا تھا، اور ان حضرات کا ہمارے ساتھ اٹھنا بیٹھنا تھا۔ ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ میں نے ان کے سامنے بیان کیا، اَلْحَمْدُ للہ چونکہ ہمارے اکابر کی باتیں بڑی پکی ہوتی ہیں، اس لئے میں ان کو translate کرکے بتاتا رہا، تو وہ سمجھے کہ شاید یہ میری باتیں ہیں، اس لئے ان کا میرے بارے میں خیال ہوگیا کہ یہ تو بڑا شیخ ہے اور ایسا ہے اور ویسا ہے۔ لہٰذا مجھ سے انہوں نے پھر کہا کہ بات کرو، تو میں نے جب بات کرنے کا کہا تو وہ بہت خوش ہوگئے، پوچھا کس چیز پر بات کرو گے؟ میں نے کہا تصوف پر، وہ اوجھل پڑے کہ تصوف پر کیسے بات کرو گے؟ یعنی وہ حیران ہوگئے، میں نے کہا ابھی بات کر لوں یا بعد میں بات کر لوں؟ کہتے ہیں نہیں، بس بعد میں بات کر لینا۔ خیر انہوں نے اعلان کرلیا اور کافی لوگ بات سننے کے لئے آگئے۔ بیس منٹ میں نے ٹوٹی پھوٹی عربی میں قرآن کی آیت اور حدیث شریف کو ملا کر بیان کیا، اور جب میں نے بیس منٹ بیان کیا، سب کی زبان سے بیک وقت یہ بات نکلی یعنی جتنے بھی لوگ تھے سب نے یہ کہا کہ اگر یہ تصوف ہے تو پھر ہم صوفی ہیں۔ یعنی جنہوں نے تصوف کا نام بھی ذرا حیرت سے سنا تھا، انہوں نے ایسا کہا۔ اس کا مطلب ہے کہ حق حق ہوتا ہے، وہ اپنا راستہ بناتا ہے، لیکن ذرا تھوڑا سا بتانے کا طریقہ ہونا چاہئے، اپنی طرف سے انسان نہ کہے، بلکہ اللہ کا طریقہ جو ہے، اور اللہ پاک نے اور آپ ﷺ نے جیسے فرمایا ہے، اس طریقے سے کہیں گے تو سب مانیں گے، ان شاء اللہ!

سوال نمبر 2:

دس مقامات طے کیے بغیر کیا ہم مناسب مسلمان نہیں ہوسکتے؟

جواب:

بڑا اچھا سوال ہے۔ بھائی دیکھو! آپ ﷺ سے تین سوال کیے گئے تھے، اور کس نے کیے تھے، جبرائیل علیہ السلام نے انسانی شکل میں آکر کیے تھے۔ پہلا سوال، ایمان کیا ہے؟ آپ ﷺ نے عقائد بتا دیئے کہ ان کو ماننا ایمان ہے۔ پھر پوچھا کہ اسلام کیا ہے؟ آپ ﷺ نے اسلام کے جو ارکان ہیں یعنی نماز روزے کے بارے میں بتایا۔ پھر پوچھا کہ احسان کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا:

’’اَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَاَنَّکَ تَرَاہُ فَاِنْ لَّمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَاِنَّہٗ یَرَاکَ‘‘ (مسلم: 102)

ترجمہ: ’’اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو اور اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے تو وہ یقیناً تمہیں دیکھ رہا ہے‘‘۔

اب دیکھیں! کیا پہلے سوال پر سب کچھ ہم ختم کرلیں؟ دوسرے کی ضرورت ہے یا نہیں ہے؟ پھر دوسرے پر ختم کرلیں گے تو تیسرے کی ضرورت ہے یا نہیں ہے؟ اور تیسرے کی جو بات ہے، یہ تصوف ہے، اور یہ مقامات طے کرنا ہے، کیونکہ کیفیتِ احسان تک پہنچنے کے لئے نفسِ مطمئنہ ضروری ہے اور نفس مطمئنہ کے لئے یہ دس مقامات ضروری ہیں۔ لہٰذا جب تک نفسِ مطمئنہ نہ ہو تو کیفیتِ احسان نہیں آئے گی۔ اب ذرا آسان طور پر سمجھیں کہ ایمان کے ذریعے سے آپ نے اعمال کو مان لیا ہے، لیکن اعمال کو کرنا پڑتا ہے، اور یہ آپ قرآن و حدیث اور فقہ سے معلوم کریں گے اور پھر اس پر عمل کریں گے، لیکن اس عمل میں جان تب آئے گی، جب اس میں اخلاص ہوگا۔ اس اخلاص کو پیدا کرنے کے لئے یہ محنت ہے اور وہ محنت یہی ہے کہ دس مقامات طے کرنے پڑیں گے۔

سوال نمبر 3:

حضرت صاحب! میرے ذہن میں ایک بات آئی تھی کہ آج کل کے ماحول میں اور ہمارے زمانہ کے لحاظ سے (اگرچہ ویسے بھی عام routine میں یہ ہوتا ہے اور پہلے بھی یہ تھا کہ کیا یہ) بیعت ہونا اور صحبت مشائخ کے اختیار کرنے میں کیا فرق ہے؟ جو لوگ صرف بیعت ہوجاتے ہیں اور صحبت اختیار نہیں کرتے مثلاً۔

جواب:

ماشاء اللہ! بہت اچھا سوال ہے۔ دیکھیں! تین قسم کے لوگ ہیں جو اپنی اصلاح چاہتے ہیں اور ان کے ساتھ تین قسم کا معاملہ ہوتا ہے۔ پہلے کو کہتے ہیں اخیار۔ اخیار وہ لوگ ہیں جو اپنی Will power کے ذریعے سے علم حاصل کرلیں، پھر اپنی Will power کو استعمال کرکے اس پر عمل کریں اور Will power کے ذریعے سے اپنی اصلاح کی کوشش کرلیں، لیکن ان میں بھی کچھ لوگ کامیاب ہوتے ہیں، اور اکثر ناکام ہوتے ہیں۔ کیوں، وجہ کیا ہے؟ Faulty meter سے آپ اپنا کام درست نہیں کرسکتے، بلکہ اس کے لئے آپ کو کسی صحیح میٹر والے کے پاس جانا پڑے گا۔ لہٰذا اس میں پھر یہ نقصان ہوجاتا ہے کہ ان کو پتا نہیں چلتا، راستہ معلوم نہیں ہوتا، تو وہ درمیان میں تھک جاتے ہیں، پھر بیٹھ جاتے ہیں۔ دوسرا طریقہ ابرار کا ہے۔ ابرار وہ لوگ ہوتے ہیں جو کسی اللہ والے کے ہاتھ پر بیعت کرکے ان سے سیکھنا شروع کر لیتے ہیں اور اپنی تربیت شروع کر لیتے ہیں۔ ان کو extra دو چیزیں فوراً مل جاتی ہیں، نمبر 1 وہ اس شیخ کے تجربے کو لے لیتے ہیں، کیونکہ وہ اس راستے سے گیا ہے، اس لئے وہ اس کے تجربے سے کام لے لیتے ہیں اور دوسرا اس سلسلے کی برکت سے کام لے لیتے ہیں۔ اب سلسلے کی برکت کیا ہے؟ آپ مجھے بتاؤ! یہ سلسلہ ابھی کا ہے یا آپ ﷺ سے آیا ہوا ہے؟ آپ ﷺ سے آئے ہوئے جتنے بھی اولیاء اس میں گزرے ہیں، انہوں نے اپنے اپنے سلسلے کے لئے دعا کی ہوگی یا نہیں کی ہوگی؟ اور وہ دعا تہجد کی بھی ہوگی، وہ دعا حرم شریف کی بھی ہوگی، وہ دعا عرفات کی بھی ہوگی اور پتا نہیں کون کون سی دعائیں ہوں گی اور وہ دعائیں قبول بھی ہو چکی ہوں گی۔ اب جو بھی اس سلسلے میں آگیا تو اس کو وہ چیز ملے گی یا نہیں ملے گی؟ بس برکت اس کو ہی کہتے ہیں۔ لہٰذا وہ برکت اس کو مل جائے گی۔ اب دو چیزوں میں سے ایک چیز رہ گئی اور وہ Will power ہے۔ اب Will power کا استعمال صرف اس لئے ہوگا کہ میں اپنے شیخ کے ساتھ لگا رہوں، میں اس سے آگے پیچھے نہ ہوجاؤں، بس اتنا کام ضرور کرنا پڑے گا، باقی سارے کام ٹھیک ہوجائیں گے۔ تیسرا جو فریق ہے، اس کو شطاریہ کہتے ہیں۔ شطاریہ وہ لوگ ہیں جن کو اپنے شیخ کے ساتھ عشق ہوتا ہے۔ اب جس کے ساتھ عشق ہو تو مجھے بتاؤ! کہ کیا وہ شیخ بتائے گا یا خود مرید ہی کہے گا کہ مجھے کچھ بتاؤ؟ ظاہر ہے کہ وہ تو کہے گا کہ مجھے کچھ بتائیں تاکہ میں اس پر عمل کروں۔ ایسے لوگوں کو دن دوگنی رات چوگنی ترقی ہوتی ہے۔ آج کل کے دور میں بھی ایسے لوگ ہیں۔ تینوں قسم کے لوگ میں دکھا سکتا ہوں۔ بس بات یہ ہے کہ ہمیں اپنے آپ کو کس میں شامل کرنا چاہئے، یہ اپنی اپنی بات ہے۔

سوال نمبر 4:

حضرت! کبھی کبھار محسوس ہوتا ہے کہ ایمان کے حوالے سے ہم بڑے اچھے جا رہے ہیں اور بڑا اچھا محسوس کر رہے ہیں، جبکہ کبھی کبھی بہت ہی زیادہ خراب محسوس کرتے ہیں کہ ہم سے بڑے گناہ ہو رہے ہیں، بڑے غلط راستہ پر چل رہے ہیں یعنی بار بار یہ ایمان اوپر نیچے ہوتا ہے، اس کی کیا وجوہات ہیں؟

جواب:

ایمان میں فرق نہیں ہوتا۔ حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ’’لَا یَزِیْدُ وَلَایَنْقُصُ‘‘ (نہ ایمان میں اضافہ ہوتا ہے اور نہ ایمان میں کمی ہوتی ہے) البتہ یقین میں فرق پڑتا ہے۔ یقین جس وقت علم الیقین ہوتا ہے، اس وقت معاملہ الگ ہوتا ہے اور جب عین الیقین ہوتا ہے، تو یہ اس سے اوپر کا stage ہے اور پھر جب حق الیقین ہوتا ہے، تو یہ پھر اس سے بھی اوپر کا stage ہے۔ ہمارے نفس کی جو حالت ہوتی ہے، وہ کبھی کچھ حالت اور کبھی کچھ حالت ہوتی ہے۔ جیسے برے ماحول میں بیٹھ کر ایک شریف آدمی بھی بعض دفعہ اپنا نفس control نہیں کرسکتا اور اچھے ماحول میں ایک رذیل آدمی بھی بعض دفعہ اچھا ہوجاتا ہے۔ لہٰذا یہ فرق پڑ گیا، لیکن یہ فرق عارضی ہے، یہ فرق مستقل نہیں ہے، اس لئے کبھی کیا اور کبھی کیا، تو یہ اس طرح ہوتا ہے، لیکن جب انسان کو نفس مطمئنہ حاصل ہوجاتا ہے، تو پہلے جو تلوین ہوتی ہے کہ حالت بدلتی رہتی ہے، اس کے بعد پھر تمکین حاصل ہوجاتی ہے، پھر ماشاء اللہ! وہ سلسلہ چلتا ہے۔

سوال نمبر 5:

امت کا بہت بڑا طبقہ بیعت کے معاملات سے ناواقف ہے، جیسے غیر مقلدین ہوگئے یا باقی حضرات ہوگئے، اس بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں؟

جواب:

دیکھیں! میں غیر مقلدین میں آپ کو بیعت والے دکھا سکتا ہوں، یہ کون سی بات ہے۔ انگلینڈ سے مجھے ایک غیر مقلد نے ٹیلی فون کیا کہ کیا آپ کسی اہلحدیث کو بیعت کرتے ہیں؟ میں نے کہا جی ہاں۔ فرمایا پھر مجھے بھی بیعت کر لو۔ میں نے پھر ان کو بیعت کیا اور پھر جب میں انگلینڈ گیا تو اس وقت ان سے ملاقات ہوگئی۔ ماشاء اللہ! بہت باعمل آدمی ہیں، اَلْحَمْدُ للہ! اس نے ترقی کی ہے۔ پھر اس نے بعد میں مجھے بتایا کہ میں نے 2011 میں آپ کو خواب میں دیکھا تھا، ورنہ ہمارے انگلینڈ والوں کا کبھی تصور بھی نہیں تھا۔ پھر کہتے ہیں کہ 2015 میں دیکھا تھا، پھر مجھے ہمت ہوئی کہ میں نے آپ کو فون کرلیا اور پھر بیعت ہوگئے۔ ہم تقریباً 2019 میں وہاں گئے تھے، تو وہ پھر ماشاء اللہ! ہمارے ساتھ گئے اور پھر ادھر بھی آئے ہیں۔ اور ماشاء اللہ! اس طرح اور حضرات بھی ہیں جو اہلحدیث ہیں۔ بلکہ داؤد غزنوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ لاہور میں جو مشہور اہلحدیث عالم ہیں، وہ ماشاء اللہ! پیر تھے اور باقاعدہ سلسلہ چلاتے تھے۔ اور یہ نواب صدیق حسن خان کی آپ وہ کتاب پڑھیں جو تصوف کی favor میں لکھی ہے۔ لہٰذا یہ چیزیں ہم لوگ سمجھ نہیں پاتے، ہمیں معلوم نہیں ہوتیں، ہمیں routes معلوم نہیں ہوتے، اس لئے ہم بہت جلدی اپنے ذہن کو بنا لیتے ہیں۔ دیکھیں! ایک شخص کا انفرادی نظریہ ہوگا، مثلاً وہ حنفی ہے، لیکن وہ بیعت کے خلاف ہے، تو کیا سارے حنفی مخالف ہوجائیں گے؟ سارے حنفی مخالف نہیں ہوں گے، بس وہ مخالف ہے۔ اسی طرح اگر کوئی اہلحدیث ہے اور وہ مخالف ہے، تو وہ ہوگا، لیکن سارے نہیں ہیں۔

سوال نمبر 6:

بیعت کرنے کے بعد اگر اس پر عمل نہ ہو، تو پھر کیا ہوگا؟

جواب:

دیکھیں! حدیث پاک میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

’’إنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ‘‘ (مسلم: 4927)

ترجمہ: ’’تمام اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے‘‘۔

لہٰذا اگر اس نے بیعت عمل کی نیت سے کی ہے، تو عمل ضرور کرے گا اور اگر عمل کی نیت سے نہیں کی، تو اس کی بیعت ویسے ہی سطحی ہے۔ اس وجہ سے ہمارے اکابر فرماتے ہیں کہ بیعت سنت مستحبہ ہے، لیکن اپنی اصلاح فرض عین ہے۔ ایک شخص بیعت نہیں ہے، لیکن کسی ایک شخص کے ساتھ لگا ہوا ہے اور اپنی اصلاح کروا رہا ہے، تربیت کروا رہا ہے، تو اس کو وہ چیز حاصل ہو رہی ہے۔ دوسرا وہ شخص ہے، جس نے بیعت کر لی ہے، لیکن وہ بھول گیا اور اس کو بیعت کا پتا بھی نہیں کہ بیعت کیا ہوتی ہے، بس صرف اتنی بات ہے کہ وہ بیعت ہو چکا ہے، لیکن اس کو بیعت کے فوائد حاصل نہیں ہوں گے، بلکہ اس کے فائدے حاصل کرنے کے لئے وہ کرنا پڑتا ہے۔

سوال نمبر 7:

بیعت کرنا لازمی ہے؟ اگر نہ کی جائے تو پھر؟

جواب:

دیکھیں! جیسے ابھی میں نے عرض کی ہے کہ اگر آپ اخیار میں ہوں گے تو پھر اخیار کا جو طریقہ ہوگا وہ آپ کو accept کرنا پڑے گا۔

سوال نمبر 8:

بیعت کرنی چاہئے؟

جواب:

فائدہ ہے، مفید ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ دو فائدے آپ کو automatically حاصل ہوجاتے ہیں، ایک یہ کہ آپ کو شیخ کا جو experience ہے یعنی جو تجربہ ہے، وہ آپ کو حاصل ہوگیا، کیونکہ وہ آپ کو تجربہ سے آگے لے جائے گا۔ دوسری بات یہ ہے کہ سلسلے کی جو برکت ہے وہ آپ کو حاصل ہوجائے گی۔ لہٰذا فائدہ تو ہوتا ہے، اس میں کوئی شک نہیں ہے۔

سوال نمبر 9:

حضرت! ذہن میں ایک سوال آیا ہے کہ ایک شخص ہے جو اپنے شیخ سے بیعت ہو چکا ہے، لیکن اگر کسی اور کے بارے میں اس کے دل میں آتا ہے یا ویسے ہی کسی اور شیخ سے بیعت ہونے کا کوئی موقع ملتا ہے، تو وہ برکت کا فیض حاصل کرنے کے لئے ہوسکتا ہے؟

جواب:

نہیں نہیں، یہ فیض برکت کے لئے نہیں ہے، یہ تربیت کے لئے ہے۔ تربیت کے لئے بیعت ہونا چاہئے، برکت والی بات الگ ہے۔ برکت کے لئے آپ ان کے ساتھ اپنا تعلق رکھیں، ان کے ساتھ محبت رکھیں، تو برکت حاصل ہوجائے گی، اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے، لیکن بیعت کسی ایک سے ہوتی ہے۔ البتہ اگر آپ کو اپنے شیخ سے فائدہ نہیں ہو رہا، کسی ذاتی مناسبت نہ ہونے کی وجہ سے یا دور ہونے کی وجہ سے یا اس کے مصروف ہونے کی وجہ سے، کیونکہ بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے، جیسے مولانا تقی عثمانی صاحب ہیں، وہ آج کل بیعت نہیں کرتے، کہتے ہیں کہ میں بہت مصروف ہوں، خواہ مخواہ پھنس جاؤں گا، لہٰذا میں نہیں کرتا۔ اس لئے بعض حضرات بہت مصروف بھی ہوتے ہیں۔ اس لئے اگر کوئی ایسی وجہ ہو تو پھر بہتر تو یہ ہے کہ ان کے مشورہ سے آپ کسی اور سے بیعت ہوجائیں یا پھر اگر ایسا نہ ہو، تو پھر استخارہ کرلیں۔ پھر اگر اللہ پاک کی طرف سے کوئی ایسا اشارہ آجائے کہ ٹھیک ہے آپ کسی اور کے پاس جاسکتے ہیں، تو پھر ٹھیک ہے۔

سوال نمبر 10:

میری انتہائی کوشش ہوتی ہے کہ میرے عزیز و اقارب مجھ سے ناراض نہ ہوں، میں کوئی ایسا عمل نہ کرجاؤں کہ جن سے وہ ناراض ہوجائیں، یعنی صلہ رحمی کی کوشش کرتا ہوں۔ لیکن اس کے باوجود بہت سارے لوگ مجھ سے ناراض ہوجاتے ہیں۔

جواب:

ماشاء اللہ! آپ کو ایک صحابی کے ساتھ مناسبت ہے۔ ایک صحابی آپ ﷺ کے پاس آئے اور آپ ﷺ سے بات عرض کی کہ میں جن کے ساتھ اچھائی کرتا ہوں، وہ میرے ساتھ برائی کرتے ہیں یعنی وہ اچھائی نہیں لیتے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اگر تو اس طرح ہے، تو پھر آپ کو اس کا اجر ملے گا۔ کیونکہ آپ کو اس کا فائدہ دنیا میں نہیں مل رہا، لیکن پھر بھی آپ کر رہے ہیں، تو کس کے لئے کر رہے ہیں؟ اللہ کے لئے کر رہے ہیں۔ ایک دفعہ بہت بڑے بزرگ کے پاس ایک شخص نے خط لکھا کہ حضرت میرا نہ نماز پڑھنے کو جی چاہتا ہے، نہ روزہ رکھنے کو جی چاہتا ہے، نہ زکوٰۃ ادا کرنے کو جی چاہتا ہے، نہ قرآن پڑھنے کو جی چاہتا ہے یعنی دل بالکل پتھر سا بنا ہوا ہے۔ حضرت نے فرمایا: خدا کے بندے! جب سو فیصد نمبر لینے کا وقت آگیا، تو اب تو بھاگ رہا ہے یعنی یہی تو وقت ہے سو فیصد نمبر لینے کا کہ آپ کا دل نہ چاہے، پھر بھی کرو کہ یہ اللہ پاک کا حکم ہے، میں نے کرنا ہے۔ لہٰذا اس پر آپ کو سو فیصد نمبر ملیں گے اور اگر آپ کا دل چاہے گا تو پھر اس کے کچھ نمبر کٹ بھی سکتے ہیں۔

سوال نمبرب 11:

نفس کی کتنی قسمیں ہیں؟

جواب:

نفس کی تین قسمیں ہیں، جو قرآن سے ثابت ہیں۔ ایک نفس امّارہ، ایک نفس لوّامہ اور ایک نفس مطمئنہ ہے۔ نفس امّارہ وہ نفس ہے جو برائی کی طرف مائل ہے۔ اور خود اللہ تعالیٰ نے اس بارے میں موسیٰ علیہ السلام کی زبانی فرمایا ہے کہ بیشک نفس امارہ برائی کی طرف ہی مائل کرتا ہے۔ اور نفس مطمئنہ required ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔

﴿یٰۤاَیَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَىٕنَّةُ ارْجِعِیْۤ اِلٰى رَبِّكِ رَاضِیَةً مَّرْضِیَّةً فَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰدِیْ وَ ادْخُلِیْ جَنَّتِیْ﴾ (الفجر: 27-30)

ترجمہ1: ’’(البتہ نیک لوگوں سے کہا جائے گا کہ) اے وہ جان جو (اللہ کی اطاعت میں) چین پاچکی ہے۔ اپنے پروردگار کی طرف اس طرح لوٹ کر آجا کہ تو اس سے راضی ہو، اور وہ تجھ سے راضی۔ اور شامل ہوجا میرے نیک بندوں میں۔ اور داخل ہوجا میری جنت میں‘‘۔

اور نفس لوامّہ درمیان میں آتا ہے یعنی process ہے کہ اگر آپ نفس لوامہ تک نہیں پہنچے تو نفس مطمئنہ تک نہیں پہنچ سکتے، بلکہ پہلے نفس لوامہ آئے گا۔ لہٰذا یہ تین نفس تو قرآن سے ثابت ہیں، باقی اور بھی قسمیں ہیں، لیکن وہ قرآن کی نہیں ہیں، وہ چیزوں کو سمجھنے کے لئے بعد میں بتائی گئی ہیں۔

سوال نمبر 12:

آج کل کے معاشرے میں کافی برائیاں ہیں، اس میں ہم اپنے نفس کو کیسے control کرسکتے ہیں؟

جواب:

بہت اچھا سوال ہے۔ دیکھیں! نفس مجاہدے سے control ہوتا ہے۔ اس پر میں آپ کو ایک example بتاتا ہوں، کیونکہ example سے چیز زیادہ clear ہوجاتی ہے۔ میرے پاس بہت سارے students بھی بیعت ہیں، مرد بھی ہیں اور عورتیں بھی کافی ساری ہیں۔ لوگ مجھ سے سوال پوچھتے ہیں جیسے آپ نے مجھ سے سوال پوچھ لیا ہے، تو ان میں سے اکثر نوجوان یہ بتاتے ہیں کہ ہماری نظر کی حفاظت نہیں ہوتی، ہم چاہتے بھی ہیں، لیکن پھر بھی نظر اوپر اٹھ جاتی ہے۔ تو ان کو میں نے ایک مجاہدہ بتایا، جو آپ بھی کرسکتے ہیں۔ مجاہدہ یہ بتایا کہ آپ اپنے کمرے کی تنہائی میں بیٹھ کر پانچ منٹ نیچے دیکھیں، چاہے آپ کچھ بھی کریں، لیکن اوپر نہیں دیکھنا، بس نیچے دیکھنا ہے پانچ منٹ کے لئے، پھر اگلے دن چھ منٹ، پھر اگلے دن سات منٹ، پھر اگلے دن آٹھ منٹ، اور اسی طرح کرتے ہوئے اس کو پچیس منٹ تک پہنچائیں۔ اب پانچ منٹ سے کتنے دن میں پچیس منٹ تک پہنچ جاؤ گے؟ بیس دن میں پہنچ جاؤ گے۔ پھر اس کے بعد آپ باہر آجاؤ اور لوگوں کے درمیان رہ کر آپ باتیں کریں، لیکن نیچے دیکھنا ہے، اوپر نہیں دیکھنا، یہ عمل پانچ منٹ کریں، پھر اگلے دن چھ منٹ، پھر سات منٹ، پھر اگلے دن آٹھ منٹ، اگلے دن نو منٹ، اسی طرح اس کو بھی پچیس منٹ تک پہنچانا ہے۔ یہ بھی بیس دن میں ہوجائے گا۔ بیس دن اور بیس دن یہ چالیس دن کا چلہ ہوگیا۔ چلے میں چونکہ برکت ہے، اس لئے یہ چلہ ہوگیا اور اس چلے میں آپ نے پچیس منٹ تک نیچے دیکھنے کی practice کر لی ہے۔

Now you are able to control your نفس for twenty five minutes

لہٰذا آپ نے ایک capability حاصل کر لی ہے۔ اب مثال کے طور پر آپ کسی ایسے علاقہ میں چلے گئے ہیں، جہاں پر خطرہ ہے، وہاں غیر محرم ہے، اور آپ کی نظر اوپر اٹھ سکتی ہے، تو پچیس منٹ تک تو چونکہ آپ کو experience ہے، پھر کیا پچیس منٹ کے اندر اندر آپ thinking نہیں کرسکتے کہ میں کیسے یہاں سے چلا جاؤں؟ کیسے اپنے آپ کو protect کر لوں؟ پچیس منٹ بڑا ٹائم ہوتا ہے، اس لئے اس میں آپ planning کرسکتے ہیں۔ میں آپ کو اپنا ایک واقعہ اللہ تعالیٰ کی مدد کا سناتا ہوں۔ ہمارے کچھ رشتہ دار تھے، جو بہت Ultra modern تھے، چونکہ خاندانوں میں مختلف قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ مجھے وہاں جانے کا کام پڑ گیا، ادھر چونکہ سارے غیر محرم تھے، تو مجھے بڑا مسئلہ ہوگیا، اور میں ڈر گیا، میں نے کہا پتا نہیں کہ کوئی مسئلہ نہ ہوجائے۔ خیر میں نے اندر داخل ہونے سے پہلے یہ دعا پڑھی: ’’اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ فِتْنَۃِ النِّسَاءِ‘‘ (اے اللہ میں تیری پناہ پکڑتا ہوں عورتوں کے فتنے سے) یہ پڑھ کر میں اندر چلا گیا، اب جیسے ہی میں اندر گیا تو میرے اوپر ایک عجیب حالت طاری ہوگئی، جیسے چیونٹیاں لگتی ہیں یعنی میرا پورا جسم چیونٹی چیونٹی ہو رہا تھا، جس کی وجہ سے میں بیٹھ نہیں سکتا تھا۔ اب وہ مجھ سے بات کر رہے ہیں اور میں بیٹھ ہی نہیں پا رہا۔ بہرحال پھر جلدی جلدی میں نے کام کرلیا اور ان سے اجازت لی اور واپس آگیا۔ اور جیسے ہی میں باہر آیا تو فوراً ٹھیک ہوگیا۔ لہٰذا یہ دعا اللہ تعالیٰ سے کوئی بھی مانگ سکتا ہے۔ اچھا! یہ بات میں نے اپنے کچھ دوستوں کو بتائی تھی، ان میں سے ایک دوست میرے ساتھ لاہور جا رہا تھا یعنی پنڈی سے ہم لاہور جا رہے تھے، ان دنوں Tram service ہوتی تھی یعنی وہ جو دو ڈبے ہوتے تھے، وہ چلتے تھے اور چھے گھنٹے میں لاہور پہنچتے تھے۔ جیسے ہم بیٹھے تو سامنے ہی ایک عورت آئی اور ہمارے سامنے بیٹھ گئی (حالانکہ عورتوں کی جگہ تھی، لیکن وہ سامنے بیٹھ گئی،) خیر ہم اس سیٹ پر تین بندے بیٹھے ہوئے تھے، اور وہ آگے جا کر بیٹھ گئی۔ اب ہم ان کو اٹھا بھی نہیں سکتے تھے۔ اس لئے میں نے اپنے دائیں طرف والے ساتھی کو کہا کہ وہ دعا پڑھ لو اور بائیں طرف والے سے بھی کہا کہ وہ دعا پڑھ لو۔ خیر جب ہم تینوں نے یہ دعا پڑھ لی، تو وہ عورت خود بخود بغیر کچھ بات کیے اٹھ کے چلی گئی۔ لہٰذا اللہ پاک کی مدد بھی ہوتی ہے، اس پر میں نے دو چیزیں بتائیں ہیں، ایک مجاہدہ یعنی اپنے نفس کو قابو کرنے کا طریقہ جس میں محنت ہے اور دوسرا اللہ تعالیٰ سے مانگنا۔ یہ دونوں کام کرنے چاہئیں۔ مجاہدہ بھی کرنا چاہئے، اللہ تعالیٰ سے مانگنا بھی چاہئے اور اگر ذکر کی دولت حاصل ہو، تو پھر سبحان اللہ! نور علی نور ہے۔

سوال نمبر 13:


نماز کے متعلق ایک سوال ہے کہ اگر قعدہ اخیرہ میں تشہد کی مقدار بیٹھنے کے بعد ایسا کوئی عمل ہوجائے جس سے نماز باطل ہوجاتی ہے، تو کیا نماز شروع سے دوبارہ پڑھنی پڑے گی یا نہیں؟ ابھی سلام نہیں پھیرا۔

جواب:

دیکھیں! اگر کوئی ایسا عمل ہوگیا جس سے دوران نماز؛ نماز فاسد ہوجاتی ہے، تو قعدہ اخیرہ میں تشہد کی مقدار بیٹھنے کے بعد بھی اس عمل کے ہونے سے نماز تو فاسد ہوگئی، البتہ بعض اماموں کے نزدیک چوں کہ نماز کے احکام مکمل ہوچکے ہیں، اس وجہ سے نماز مکمل ہوجائے گی، یعنی فرض ذمہ سے اتر جائے گا.


سوال نمبر 14:

جن اماموں کے نزدیک نماز مکمل ہوجائے گی، ان کے پر اشکال ہوتا ہے کہ سلام پھیرنا واجب ہے، جب کہ اس نے سلام ابھی نہیں پھیرا، تو نماز کیسے مکمل ہوجائے گی؟

جواب:

اصل میں نماز مکمل ہونے سے مراد فرض کا ساقط ہونا ہے یعنی اگر اس نے نماز دوبارہ نہ دہرائی، تو وہ تارکِ فرض نہیں ہوگا، لیکن ان اماموں کے نزدیک بھی ایسی نماز کا اعادہ واجب ہے.

یعنی بعض کے نزدیک تو بالکل باطل یعنی کالعدم ہوگئی گویا اس نے پڑھی ہی نہیں، اور بعض کے نزدیک فرض اتر گیا، لیکن وہ ناقص ادا ہوا ہے، لہٰذا اس کا اعادہ ضروری ہے.

پس اس صورت میں risk نہیں لینا چاہئے بلکہ اس سے بچنا چاہئے، کیونکہ حدیث پاک میں آتا ہے:

’’اَلْحَلَالُ بَیِّنٌ وَالْحَرَامُ بَیِّنٌ وَبَیْنَھُمَا مُشْتَبِھَاتٌ‘‘ (سنن ابن ماجہ: 3984)

ترجمہ: ’’حلال بھی واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے۔ درمیان میں کچھ مشتبہ امور ہیں‘‘۔

لہٰذا جو آدمی اپنے آپ کو مشتبہ امور سے بچائے گا، اس کا دین مکمل ہوگا۔


سوال نمبر 15:

چار رکعت والی نماز میں دو رکعت پر التحیات پڑھی ہے، پھر تھوڑا سا درود شریف پڑھ لیا تو کیا سجدہ سہو واجب ہوگا؟

جواب:

درمیانی قعدہ واجب ہے۔ اس میں اگر آپ نے التحیات پڑھ لی تو آپ اٹھ جائیں اور درود پاک شامل نہ کریں۔ لیکن اگر وہ ’’اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ‘‘ پڑھ لے تو پھر سجدہ سہو ہوگا، لیکن اگر ’’اَللّٰهُمَّ صَلِّ‘‘ پڑھا ہے تو پھر نہیں ہوگا یعنی فقرہ مکمل ہوجائے تو پھر ہوگا۔ چونکہ ’’اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ‘‘ سے فقرہ مکمل ہوجاتا ہے۔ اس پر میں آپ کو ایک لطیفہ سناتا ہوں، علمی لطیفہ، ہنسنے والا لطیفہ نہیں۔ چونکہ لطیفے کی دو قسمیں ہوتی ہیں، ایک ہوتا ہے ہنسنے والا لطیفہ اور ایک ہوتا ہے علمی لطیفہ، جس میں باریک بات ہوتی ہے، جس سے علم کی گہرائی کا پتا چلتا ہے۔ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے آپ ﷺ نے خواب میں فرمایا کہ تو نے یہ فتویٰ دیا ہے کہ جو درود سہو سے پڑھ لے تو اس پر سجدہ سہو واجب ہوجاتا ہے؟ یہ بڑی زبردست اور نازک بات تھی کیونکہ آپ ﷺ خود پوچھ رہے ہیں اور امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا یہ مسلک ہے۔ امام صاحب نے عرض کیا یارسول اللہ! اگر ارادے سے کوئی کر لے تو وہ تو صحیح ہے، لیکن جو غفلت سے آپ پر درود پڑھ لے تو پھر تو اس پر سہو ہوگیا۔ کیونکہ سجدہ سہو غفلت کی وجہ سے ہوتا ہے۔

سوال نمبر 16:

تقلید یعنی کسی ایک کی پیروی کرنا لازمی کیوں ہے؟

جواب:

سوال بڑا اچھا ہے، لیکن آرام سے سننا پڑے گا، کیونکہ ذرا لمبی بات ہے۔ دیکھیں! تقلید ہوتی کیا ہے؟ یہ بھی سمجھنا چاہئے، کیونکہ صرف اصطلاحات میں لڑنا یہ ٹھیک بات نہیں ہوتی۔ اس لئے جب انسان بات سمجھ لیتا ہے تو پھر بات واضح ہوجاتی ہے۔ دیکھیں! دین آیا ہے آپ ﷺ کے ذریعہ سے اور ہمیں پہنچا ہے صحابہ کرام کے ذریعہ سے۔ صحابہ کرام سے امت نے لیا ہے محدثین کے ذریعہ سے۔ محدثین کے بعد فقہا آئے تو پھر فقہا نے ماشاء اللہ! اس پر مسائل مستنبط کیے۔ اور دوسری بات یہ سمجھیں کہ صحابہ کرام مختلف حالات میں آپ ﷺ کے پاس آئے ہیں، بعض صحابہ کرام ہر وقت موجود تھے، بعض صحابہ کرام مسلمان ہو کر آئے اور پھر چلے گئے، بعض صحابہ کرام عمر میں کم تھے، جبکہ بعض عمر میں زیادہ تھے، اور بعض زیادہ ملنے جلنے والے تھے یعنی صحابہ کرام مختلف قسم کے تھے، لیکن تھے سارے صحابی۔ اب اگر کوئی صحابی ایسا ہے کہ جو ایک دفعہ آپ ﷺ سے ملا اور اس نے آپ ﷺ کو ایک حالت میں دیکھا، پھر وہ اپنے علاقے میں چلا گیا اور اس نے بعد میں آپ ﷺ کو کبھی نہیں دیکھا، جس کی وجہ سے اسلام میں جو تدریجی طور پر احکامات آرہے تھے، وہ سب اس کے سامنے نہیں ہوئے، تو اب اس نے کون سا حکم یا عمل بیان کرنا ہے؟ اس نے تو وہی بیان کرنا ہے جو اس نے دیکھا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ بعض کام کسی کے سامنے ہوئے اور کسی کے سامنے نہیں ہوئے، اب جو کام جس کے سامنے ہوگیا، تو وہی بیان کرے گا، اس سے پھر مختلف قسم کی احادیث سامنے آجاتی ہیں۔ اب اس میں یہ بات ہے کہ جن باتوں پر صحابہ کرام میں اختلاف نہیں ہے، اتفاق ہے، جیسے روزانہ پانچ نمازیں ہیں، ہر رکعت کے اندر دو سجدے ہیں، ہر رکعت کے اندر ایک رکوع ہے، تو اس طرح ان پر کوئی اختلاف نہیں ہے اور بہت ساری باتیں ہیں، جن میں کوئی اختلاف نہیں ہے، لیکن بعض چیزوں پر کسی وجہ سے صحابہ کا بھی آپس میں اختلاف ہے، جیسے کلالہ کے موضوع پر اختلاف تھا، رفع الیدین یا دوسری چیزوں پر اختلاف تھا، کیونکہ جنہوں نے جو چیزیں دیکھیں، وہی چیزیں انہوں نے اسی طریقے سے بتائی ہیں۔ اب جن چیزوں پر اتفاق تھا، تو امت میں بھی اسی طرح اتفاق تھا، ہم نیچے آئیں تو سارے امام اس کو مانتے ہیں، اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے، لیکن جن چیزوں میں صحابہ میں اختلاف تھا، تو وہ اختلاف نیچے اتر آیا۔ اب دیکھیں! ایک ہوتا ہے انسان بغیر کسی سوچے سمجھے ایک کو مانے، ایک کو نہ مانے، یہ بہتری والی آسان بات ہے، لیکن اگر غور کرکے ایک چیز کو چھوڑنا اور ایک کو ماننا ہو تو پھر اس میں اصول ہوتے ہیں، جیسے ناسخ منسوخ، راجح مرجوح اور اس قسم کی تمام اصطلاحات وغیرہ، تو پھر ان کے ذریعے سے discuss کرنا اور decide کرنا کہ یہ لینا چاہئے اور یہ نہیں لینا چاہئے۔ مثال کے طور پر میراث کے جو مسائل تھے، ان میں امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا زیادہ تر رجحان شیخین کی طرف ہے یعنی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف، اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ یہ دونوں حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف گئے ہیں، جبکہ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ یہ زیادہ تر عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت کی طرف گئے ہیں۔ اب بات یہ ہے کہ ان کے اپنے اپنے دلائل ہیں، لیکن جو اختلاف ہے، اس اختلاف میں سوچ کر ایک چیز کو لینا اور دوسری کو چھوڑنا، اس سے اماموں میں اختلاف ہوگیا ہے۔ اب چونکہ ہر طرف صحابی ہے، ادھر بھی صحابی ہے، ادھر بھی صحابی ہے، لہٰذا حق ادھر بھی ہے، حق ادھر بھی ہے، کیونکہ غلط کوئی بھی نہیں ہے۔ اگر آپ محدثین کی کتاب اٹھا کر دیکھیں تو محدثین کی کتابوں میں یہ ہوتا ہے عن فلاں عن فلاں اور پھر آخر میں کہتے ہیں عن فلاں عن صحابی وَالصَّحَابَۃُ کُلُّھُمْ عَدُوْلٌ (ہر صحابی عادل ہے) لہٰذا اس سے پتا چل گیا کہ صحابہ سب ٹھیک ہیں، ہم جس صحابی کے پیچھے بھی ہیں، تو ٹھیک ہے۔ اب امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ایک صحابی کے پیچھے ہیں، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ دوسرے صحابی کے پیچھے ہیں، میں اگر حنفی ہوں تو میں شافعی کو غلط نہیں کہوں گا، بس میں حنفی ہوں اور میں حنفیت کے طریقے پر عمل کروں گا، لیکن اس کو میں غلط نہیں کہوں گا، کیونکہ وہ بھی صحابی کے پیچھے ہے۔ بس یہی فرق ہوتا ہے۔ اب میں بتاتا ہوں کہ کسی ایک امام کے پیچھے کیوں؟ کیونکہ تقلید تو ثابت ہوگئی کہ کسی کی تو کرنی پڑے گی، اس لئے کہ ہمیں تو دین ہی انہی سے پہنچا ہے۔ لیکن کسی ایک کے پیچھے کیوں؟ ایک کے پیچھے لگنا اس لئے ضروری ہے کہ اگر میں آزاد رہوں تو پھر میرا نفس حکمرانی کرے گا۔ مثلاً چار specialist ڈاکٹروں سے آپ نے اپنی بیماری کی تشخیص کروائی اور چار نسخے آپ کے سامنے آگئے، تو آپ نے کہا کہ اس کی یہ دوائی میں لیتا ہوں، اور اس کی یہ دوائی میں لیتا ہوں، اور یہ دوائی اس کی میں لیتا ہوں، تو بتائیں! آپ کا علاج ہوجائے گا؟ آپ کا علاج نہیں ہوگا۔ اس وجہ سے ان میں سے کسی ایک کو مقرر کردوں گا اگرچہ میں چاروں کو صحیح مانتا ہوں، لیکن مانوں گا اس کی۔ لہٰذا اس صورت میں اپنے نفس کے چکر میں پھنسنے سے میں بچ گیا۔ اس وجہ سے یہ طریقہ اختیار کیا جاتا ہے۔ بہرحال ہم کہتے ہیں کہ سب ٹھیک ہیں، کوئی غلط بھی نہیں ہے، لیکن ہم کسی ایک کو follow کرتے ہیں۔

سوال نمبر 17:

نفس اور ضمیر میں کیا فرق ہے؟

جواب:

دیکھیں! نفس ہماری خواہشات کا مرکز ہے۔ اور ضمیر کے بارے میں کہتے ہیں کہ دل کے اندر دو channels ہیں، ایک شیطان استعمال کرتا ہے اور ایک رحمٰن کے لئے ہے، شیطانی channel کو وسوسہ کہتے ہیں اور رحمانی channel کو ضمیر کہتے ہیں۔ جیسے کہتے ہیں فلاں روشن ضمیر ہے۔ ایسے ہی جو صحیح بات نہیں مانتا، اور مسلسل نہیں مانتا، تو بالکل ہی اس کا رحمانی channel بند ہوجاتا ہے، اس کو کہتے ہیں کہ اس کا ضمیر مر گیا ہے۔ قرآن پاک میں آتا ہے:

﴿خَتَمَ اللّٰهُ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ وَعَلٰى سَمْعِهِمْؕ- وَعَلٰۤى اَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ٘- وَّلَهُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ﴾ (البقرۃ: 7)

ترجمہ: ’’اللہ نے ان دلوں پر اور ان کے کانوں پر مہر لگادی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ پڑا ہوا ہے اور ان کے لئے زبردست عذاب ہے‘‘۔

سوال نمبر 18:

ایک بندہ کہتا ہے کہ میں چاروں اماموں میں کسی کی تقلید نہیں کرتا، اور کہتا ہے کہ صرف قرآن و حدیث پر عمل کرتا ہوں۔ اس کا یہ کہنا کیسا ہے؟

جواب:

یہ اپنے سر پر بہت بڑی ذمہ داری لے رہا ہے۔ میں آپ کو بتاؤں کہ اگر انسان خود اپنے لئے ذمہ داری لے تو وہ بھی بڑا مشکل ہے۔ اس لئے میں اگر کسی ایسے topic پر research کر لوں جو پہلے سے establish ہے، پہلے سے اس پر فیصلے آچکے ہیں تو پانچ سال اگر میں اس پر محنت کر لوں اور مجھے ایک چیز ثابت ہوجائے کہ یہ ایسے ہے، تو کیا فائدہ؟ کیونکہ وہ ان میں پہلے سے موجود ہے، کوئی نئی چیز تو میں نہیں کروں گا، لہٰذا میں نے ساری محنت کس چیز پر کی، جو نہ مجھ پر حجت ہے، نہ میرے بیٹے پر ہے، نہ میرے بھائی پر ہے، کیونکہ وہ تو پہلے سے موجود ہے، تو میں نے اپنا وقت ویسے ہی ضائع کردیا، بمقابلہ اس کے کہ میں ایسا کام کیوں نہ کروں، جو آج کل نہیں ہوا، مثلاً banking کے اوپر میں research کر لوں کہ بینک کو بغیر سود کے کیسے بنایا جاسکتا ہے، میں رؤیت ہلال کے اوپر research کر لوں کہ اس مسئلہ کو کیسے حل کیا جائے، میڈیکل میں بہت سارے مسائل جائز ناجائز کے آج کل آرہے ہیں، اس کو میں حل کر لوں یعنی ایسے کاموں پر میں research کر لوں جس پر research ابھی نہیں ہوئی۔ لیکن جس پر پہلے سے ہوجائے تو Reinvent the wheel again تو نہیں ہونا چاہئے، اس کو رہنا چاہئے، بس اس میں سے آپ کسی ایک کو لے لیں، یہ آسان بات ہے، خواہ مخواہ اپنے وقت کو ضائع نہیں کرنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ نے وقت دیا ہے، جو بڑی امانت ہے۔

سوال نمبر 19:

اصل میں basic تقلید کا مطلب کیا ہے، یہ سمجھ میں نہیں آرہا کہ اللہ اور اس کے رسول کی بھی مان لیں، لیکن اس کی بھی مان لیں۔

جواب:

میں آپ کو ایک بات بتاؤں کہ اکثر حضرات ناسمجھی کی وجہ سے یہ دعویٰ کر لیتے ہیں، مثال کے طور پر میں حنفی ہوں، تو وہ سمجھتے ہیں کہ میں محمدی کیوں نہیں ہو؟ تو یہ غلطی یہاں کر لیتے ہیں۔ حالانکہ جتنے بھی حنفی ہیں وہ محمدی ہیں، یا جو شافعی ہیں وہ بھی محمدی ہیں، یا جو مالکی ہیں وہ محمدی ہیں، کیونکہ آپ ﷺ ہی سے تو لیا ہے۔ البتہ فیصلہ اس میں امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کو کرنا پڑا۔ مثال کے طور پر جو اپنے آپ کو حنفی نہیں کہتے، محمدی کہتے ہیں، وہ بھی کسی سے سن لیتے ہیں، کیونکہ خود اس کے پاس research نہیں ہے، بلکہ وہ کسی مولوی سے سن لے گا یا کسی کتاب کو پڑھ لے گا، لہٰذا وہ بھی کسی کو ماننا ہی ہوا، کوئی نئی بات نہیں ہوئی۔ اب میں چودہویں صدی کے اس مولوی صاحب کی مان لوں جو فتنے میں ہے، اور قرون اولیٰ جن کے بارے میں حضور ﷺ نے فرمایا: ’’خَیْرُ النَّاسِ قَرْنِيْ، ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَهُمْ، ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَهُمْ‘‘ (مسلم: 6472)

ترجمہ: ’’سب سے بہتر میرا زمانہ ہے، پھر اس کے بعد والا ہے، پھر اس کے بعد والا ہے‘‘۔

یعنی یہ جو تین زمانے ہیں، ان میں جو بزرگ گزرے ہیں، ان کی بات زیادہ authentic ہوگی، کیونکہ ان کے پاس علم کے sources بھی زیادہ ہیں، ان کا تقویٰ بھی زیادہ ہے، ان کی understanding بھی زیادہ، عقل بھی ان میں زیادہ ہے، تو میں ان کی بات مانوں یا اب موجودہ دور کے کسی شخص کی مان لوں؟ لہٰذا یہ اپنے آپ کو نقصان دینے والی بات ہے۔ لیکن بہرحال میں اس مسئلہ میں ذرا تھوڑا سا broad-minded ہوں، میں کہتا ہوں کہ اگر ایسے لوگ ہوں جو کسی امام کی نہ مانتے ہوں، ان کے لئے بھی گنجائش ہے، بس ایک احتیاط کے ساتھ کہ وہ اماموں کے بارے میں بدگمانی نہ کریں اور اماموں کے بارے میں بدزبانی نہ کریں یعنی یہ دو احتیاط اگر کرلیں تو اس کی بھی گنجائش ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ اگر اس کو معاف کرتا ہے تو ہم اس کو روکنے والے نہیں ہیں۔ لیکن یہ بات ضرور ہے کہ امام چونکہ سارے اولیاء اللہ ہیں اور ایک حدیث شریف موجود ہے:

’’مَنْ عَادٰى لِيْ وَلِيًّا فَقَدْ اٰذَنْتُهٗ بِالْحَرْبِ‘‘ (بخاری: 6502)

ترجمہ: ’’جس نے میرے کسی ولی کو ایذاء دی، اس کے ساتھ میرا اعلان جنگ ہے‘‘

اس لئے یہ بہت خطرناک بات ہے۔ لہٰذا اولیاء اللہ کے مقابلہ میں نہیں آنا چاہئے۔ البتہ یہ الگ بات ہے کہ اگر کوئی امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی نہ مانے یا امام شافعی کی نہیں مانتا، بلکہ میں خود جب جرمنی میں تھا تو وہاں میں نے عرب حضرات کے سامنے بیس منٹ ایک تقریر کی تھی (ٹوٹی پھوٹی عربی میں) تو ان کے جو صدر جلسہ تھے وہ چند دن کے بعد میرے پاس آئے اور مجھ سے کہتے ہیں کہ آپ کی تقریر سے میں بڑا متاثر ہوا ہوں، اور میں مقلد بننا چاہتا ہوں، لیکن میں حنفی نہیں بن سکتا، کیونکہ ہمارے ہاں حنفی علماء نہیں ہیں اور نہ ہی حنفی کتابیں ہیں۔ میں نے کہا کہ میں نے بیان میں کہا تھا کہ سارے حنفی بن جاؤ؟ کہتے: نہیں۔ میں نے کہا اب بھی نہیں کہتا۔ پھر میں نے کہا کہ اگر مجھ سے مشورہ لو گے تو میں آپ کو کہوں گا آپ شافعی المسلک بن جائیں، کیونکہ آپ کے ہاں امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی کتابیں بھی ہیں، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے علماء بھی ہیں، اس لئے آپ کو آسانی ہوگی، آپ شافعی مسلک اختیار کرلیں، یہ آپ کے لئے زیادہ بہتر ہے اور میرے لئے حنفی، کیونکہ میرے پاس علماء بھی ہیں اور میرے پاس کتابیں بھی ہیں۔ لہٰذا پھر اس نے شافعی مسلک اختیار کرلیا۔ اس کے بعد غالباً مجھے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی خواب میں زیارت ہوئی تھی۔ خیر میرا مقصد یہ ہے کہ کم از کم ہم کسی کو بھی برا نہیں کہتے، ہمارے لئے تو سارے بڑے ہیں، کوئی تعصب نہیں ہے۔

سوال نمبر 20:

افضل کون سا ہے؟

جواب:

افضل کا فیصلہ اللہ کے پاس ہے، کیونکہ وہ سارے اپنے اپنے دور کے بڑے ہیں، ان میں اخلاص تھا، علم بھی تھا، تقویٰ بھی تھا۔ اس لئے افضل کا فیصلہ تو اللہ ہی کرے گا، بلکہ آپ کہہ سکتے ہیں کہ سارے برابر ہیں۔ مثلاً میں آپ کو بتاؤں کہ شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ حنبلی ہیں، خواجہ شہاب الدین سہروردی رحمۃ اللہ علیہ حنبلی ہیں، حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ حنفی ہیں، خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ شافعی ہیں، اب کون افضل ہے، کوئی کر سکیں گے؟ اس لئے اس کا فیصلہ کرنا ہمارا کام ہے ہی نہیں، یہ اللہ پر چھوڑ دیں۔ البتہ آپ جس مسلک پر ہیں، بس اس پر عمل کرو، آپ حنفی ہیں تو حنفی طور پر رہیں، آپ شافعی ہیں تو شافعی طور پر رہیں، آپ مالکی ہیں تو مالکی طور پر رہیں، لیکن مانیں سب کو صحیح۔

سوال نمبر 21:

سوال یہ ہے کہ جب بندہ نماز میں کھڑا ہوتا ہے، تو ادھر ادھر کے جب خیالات آتے ہیں اگرچہ بندہ کتنی بھی کوشش کیوں نہ کر لے، لیکن آتے ہیں، تو کیا اس کے باوجود بھی نماز ہوجاتی ہے؟

جواب:

بہت اچھا سوال ہے، Practical question ہے، مجھ سے یہ سوال کیے جاتے ہیں۔ دیکھیں! خیالات آنا اور خیالات لانا، یہ دو چیزیں ہیں۔ خیالات آنا غیر اختیاری ہے اور خیالات لانا اختیاری ہے۔ جو اختیار میں نہیں ہے، اس کا اللہ تعالیٰ آپ کو ذمے دار نہیں بناتا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

﴿لَا یُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا﴾ (البقرہ: 286)

ترجمہ: ’’اللہ کسی بھی شخص کو اس کی وسعت سے زیادہ ذمہ داری نہیں سونپتا‘‘۔

لہٰذا اگر خیالات آپ کے دل میں ویسے ہی آتے ہیں، آپ لاتے نہیں ہیں، آپ اپنی نماز کی طرف متوجہ ہیں اور آپ خیالات کی پروا نہیں کرتے، تو آپ کی نماز مکمل ہے، آپ پروا نہ کریں۔ اور اگر آپ خیالات لاتے ہیں، تو نہ لائیں، اس کو روک دیں۔

سوال نمبر 22:

سر! جس طرح تیسرے پارے میں آیا ہے: ﴿تِلْكَ الرُّسُلُ﴾ (البقرۃ: 253) جبکہ تلک عربی زبان میں اشارہ مؤنث کے لئے استعمال ہوتا ہے، لیکن یہاں جتنے نبی ہیں یا رسول ہیں، وہ مذکر ہیں، تو یہاں پر تلک کیسے آیا؟

جواب:

اصل میں روح ساتھ ہے اور روح مؤنث ہے۔ جیسے قوم مذکر ہے یا مؤنث ہے؟ مؤنث ہے، تو کیا خیال ہے، اس میں سب پیغمبر بھی آتے ہیں یا نہیں؟۔ خیر اس کو نہ دیکھو، یہ زبان کی بات ہوتی ہے۔

سوال نمبر 23:

تہجد کے لئے نیند ضروری ہے؟

جواب:

نہیں۔ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں ہے کہ چالیس سال تک انہوں نے عشاء کے وضو سے فجر کی نماز پڑھی ہے۔ اب ان کی تہجد ہوئی ہے یا نہیں ہوئی؟

سوال نمبر 24:

سوال یہ ہے کہ دل کو control کرنے کے لئے جو مختلف ذکر بتائے جاتے ہیں، ان کا ایک خاص دورانیہ ہوتا ہے۔ اگر سر! دورانیہ کے بغیر ذکر کیا جائے تو ٹھیک ہے؟

جواب:

دیکھیں! ذکر دو قسم کا ہے۔ ایک ہے ثواب والا ذکر، جس کی بہترین مثال بخاری شریف کی آخری حدیث شریف ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

’’كَلِمَتَانِ خَفِيْفَتَانِ عَلَى اللِّسَانِ ثَقِيْلَتَانِ فِي الْمَيْزَانَ، حَبِيْبَتَانِ إِلَى الرَّحْمٰنِ، سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللهِ الْعَظِیْمِ‘‘ (بخاری:6682)

ترجمہ: ’’دو کلمے ہیں، جو اللہ کو پیارے ہیں، زبان پر ہلکے ہیں، میزان میں بھاری ہیں ’’سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللهِ الْعَظِیْمِ‘‘۔

یہ ثوابی ذکر ہے۔ اور ایک علاجی ذکر ہوتا ہے، جس کا ثبوت اس حدیث میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہر چیز کے لئے صفائی کا آلہ ہوتا ہے، دلوں کی صفائی کا آلہ ذکر اللہ ہے۔ (مشکوۃ: 2286)

لہٰذا جو علاجی ذکر ہے، وہ باقاعدہ علاج کے طور پر استعمال ہوتا ہے، اس میں نہ آپ کم کرسکتے ہیں، نہ زیادہ کرسکتے ہیں، بس جیسا بتا دیا جائے، جتنا بتا دیا جائے، اتنا کرنا پڑے گا، کیونکہ یہ علاج ہے۔ لیکن جو ثواب والا ہے، وہ حسب توفیق ہے یعنی آپ کو جتنی توفیق ہے، اتنا کر لو۔ آپ دو گھنٹے کرنا چاہیں، دو گھنٹے کر لو، چاہے پانچ گھنٹے کر لو، لیکن ضروری کام اس کے لئے ضائع نہ کرو، جیسے نماز کا وقت آیا ہو، تو آپ یہ نہ کہو کہ میرے ذکر کا وقت ہے، اور پھر نماز کو چھوڑ دو، ایسا نہ ہو۔ کیونکہ جو ضروری کام ہے، اس کو نہ چھوڑو، باقی مستحب امر ہے، جتنا آپ کرسکتے ہیں تو کرلیں۔ لیکن جو علاج والا ذکر ہے وہ باقاعدہ prescribed ہوتا ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ دوائیوں کے اوپر لکھا ہوتا ہے As prescribed by the physician تو اسی طریقہ سے جو ذکر ہوتا ہے ،As prescribed by the physician اس کا physician شیخ ہوتا ہے۔ لہٰذا جس شیخ سے آپ نے بیعت کی ہے، آپ اس کے پابند ہیں، جتنا ذکر آپ کو بتائیں، اتنا کرنا چاہئے اور ایسے ہی کرنا چاہئے جس طرح آپ کو بتائے اور پھر جب تبدیل کروائے تو پھر آپ تبدیل کرلیں۔

سوال نمبر 25:

حضرت! شیخ آپ کی life میں کیوں اتنا important ہے؟ اس کو واضح فرمائیں۔

جواب:

دیکھو! استاد کیوں important ہے؟ ڈاکٹر کیوں important ہے؟ یہ دو قسم کی مثالیں ہیں۔ شیخ کی مثال استاذ کی طرح بھی ہے اور ڈاکٹر کی طرح بھی ہے۔ استاذ کی مثال اس طرح ہے کہ وہ آپ کو سکھاتا ہے، سمجھاتا ہے کہ یہ چیز کیا ہے۔ اور شیخ ڈاکٹر کے طور پر بھی ہے کہ جو آپ کی روحانی بیماریاں ہیں، ان کا باقاعدہ علاج کرتا ہے۔ اب اس میں جو شیخ کی بات ہوتی ہے، وہ ڈاکٹر کی طرح ہوتی ہے، اگر آپ کسی کو ڈاکٹر نہ بنائیں، تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، لیکن جس کو آپ نے ڈاکٹر بنایا ہے، اس کی پوری ماننی پڑتی ہے، جیسے وہ آپ کو کہیں گے اسی طرح کرنا پڑے گا، ورنہ آپ کا علاج نہیں ہوگا۔ میں آپ کو مثال دیتا ہوں کہ خدانخواستہ اگر کوئی ٹی بی کا بیمار ہے، تو اب جو ٹی بی کا علاج ہے، وہ یہ ہوتا ہے کہ جس وقت انسان ٹی بی کا علاج شروع کرتا ہے تو تقریباً دو مہینے میں ٹی بی کے سارے symptoms ختم ہوجاتے ہیں، تو آدمی سمجھتا ہے کہ میں ٹھیک ہوگیا ہوں، لیکن وہ ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے تو ڈاکٹر کہتا ہے کہ دوائی نہیں چھوڑنی، اگر چھوڑ دی تو پھر دوبارہ اثر نہیں ہوگا، پھر یہ مسئلہ ہوجائے گا اور آپ کے اوپر یہ علاج effective نہیں ہوگا۔ اب اگر آپ نے ڈاکٹر کی بات نہیں مانی اور کہا میری observation یہ ہے کہ میں ٹھیک ہوگیا ہوں، لیکن ڈاکٹر کہتا ہے کہ تم ٹھیک نہیں ہو، یہ ڈاکٹر کو غلطی لگی ہے، اس لئے آپ نے چھوڑ دیا۔ اب اگر پانچ مہینے کے بعد دوبارہ شروع ہوگیا تو پھر آپ کو وہ دوائی راس نہیں آئے گی اور وہ استعمال نہیں ہوگی، بلکہ اب یا اس سے high پر جائیں گے یا پھر لاعلاج ہوجائیں گے۔ لہٰذا اس صورت میں آپ کو نقصان ہوجائے گا۔ بعینہٖ اسی طریقہ سے جو شیخ ہوتا ہے، یہ اصل میں اس کا معالج ہوتا ہے۔ میں آپ کو ایک بات بتاؤں کہ ڈاکٹروں سے لوگ علاج کرواتے ہیں، آپ کو بھی نظر آرہے ہیں، اس لئے آپ مان رہے ہیں کہ ڈاکٹر ہیں، ورنہ کیا قرآن پاک میں آیا ہے کہ ڈاکٹر ہیں یا حدیث شریف سے آپ نے سنا ہے؟ نہیں، بلکہ لوگوں کو آپ نے دیکھا کہ وہ علاج کرتے ہیں، تو لوگ درست ہوجاتے ہیں، لہٰذا آپ بھی علاج کرواتے ہیں۔ بس یہی بات ہے۔ اب آپ کو یہ جو لوگ نظر آرہے ہیں، یہ کمزور قسم کے لوگ ہیں، اس دور کے لوگ ہیں۔ میں آپ کو اس کی مثال دے سکتا ہوں کہ شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ، خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ، امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ، امام رازی رحمۃ اللہ علیہ اور اس طریقے سے مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ یعنی ان سب بزرگوں کی میں آپ کو مثال دیتا ہوں کہ وہ اس طریقے سے چلے ہیں، وہ فیض یاب ہوئے ہیں، اس طریقے سے ان کا علاج ہوا ہے۔ تو اب وہ بات زیادہ authentic ہے یا یہ بات زیادہ authentic ہے؟ بس اسی طریقے سے ہم کہتے ہیں۔

سوال نمبر 26:

آج کے دور میں اگر کوئی مرشد کو ڈھونڈنا چاہے تو کس طریقے سے ڈھونڈے؟

جواب:

بہت اچھا سوال ہے ماشاء اللہ! Technical question ہے، میں آپ کو اس کی ایک مثال دیتا ہوں۔ آج کل دو نمبر کا دور آگیا ہے، بلکہ نمبر دو کو چھوڑیں، نمبر تین، نمبر چار، نمبر پانچ پر بات چلی گئی ہے۔ آپ plumbing کا سامان خریدتے ہیں تو آپ کو پتا بھی نہیں چلے گا، کیونکہ جو نمبر دو ہوتا ہے، وہ زیادہ خوبصورت نظر آتا ہے، چنانچہ مجھے کسی نے یہ دکھایا اور کہنے لگا کہ یہ دیکھو! کون سا ہے؟ میں نے جس کو اچھا کہا، تو اس نے کہا یہ نمبر دو ہے یعنی لوگوں نے بڑی مہارتیں ان چیزوں میں حاصل کی ہیں۔ اسی طریقے سے نمبر دو مشائخ بھی ہیں، نمبر تین بھی ہیں، لیکن آپ نے نمبر ایک پر جانا ہے۔ اب نمبر ایک کی نشانیاں آپ کو معلوم ہونی چاہئیں کہ نمبر ایک کی نشانی کیا ہے؟ اگر اس کے مطابق آپ find کریں گے تو نمبر دو سے بھی بچ گئے، نمبر تین سے بھی بچ گئے اور نمبر چار سے بھی بچ گئے۔ اب میں وہ نشانیاں بتاتا ہوں جو کہ آٹھ ہیں۔ اچھی طرح اس پر غور کرلیں۔

نمبر 1: اس کا عقیدہ صحیح ہو۔ اب عقیدہ کس کا صحیح ہے؟ اس پر تو لڑائی ہوتی ہے، تو میں کہتا ہوں کہ بھائی! لڑائی نہ کرو، جو متفق علیہ چیز ہے قرآن سے اس پر فیصلہ کر لیتے ہیں۔ قرآن میں آتا ہے:

﴿فَاِنْ اٰمَنُوْا بِمِثْلِ مَاۤ اٰمَنْتُمْ بِهٖ فَقَدِ اهْتَدَوْاۚ- وَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا هُمْ فِیْ شِقَاقٍۚ- فَسَیَكْفِیْكَهُمُ اللّٰهُۚ وَهُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ﴾(البقرۃ: 137)

ترجمہ: ’’اس کے بعد اگر یہ لوگ بھی اسی طرح ایمان لے آئیں جیسے تم ایمان لائے ہو تو یہ راہ راست پر آجائیں گے۔ اور اگر یہ منہ موڑ لیں تو درحقیقت وہ دشمنی میں پڑ گئے ہیں۔ اب اللہ تمہاری حمایت میں عنقریب ان سے نمٹ لے گا اور وہ ہر بات سننے والا، ہر بات جاننے والا ہے‘‘۔

لہٰذا اس سے پتا چلا کہ صحابہ کا جو ایمان ہے وہ معیاری ایمان ہے۔ لہٰذا میرا آپ کا اور سب کا عقیدہ کس طرح ہونا چاہئے؟ صحابہ کی طرح ہونا چاہئے۔ اور میرے شیخ کا بھی ایسا ہی ہونا چاہئے۔

نمبر 2: اتنا علم اس کے پاس ہو کہ چوبیس گھنٹے شریعت کے مطابق چل سکتا ہو، جس کو فرض عین علم کہتے ہیں۔

نمبر 3: تیسری بات کہ اس علم پر چوبیس گھنٹے عمل کرتا ہو۔ اس سے آپ کو پتا چل گیا کہ وہ بٹیرباز پیر ختم ہوگئے، کتے لڑانے والے پیر ختم ہوگئے، شرابی پیر ختم ہوگئے یعنی جتنے بھی شریعت کے خلاف ہیں سب ختم ہوگئے، اور تین باتوں میں ہی وہ ختم ہوگئے۔

نمبر 4: چوتھی بات یہ ہے کہ ان کی صحبت کا سلسلہ آپ ﷺ کی صحبت تک پہنچتا ہو۔ یہ کیوں ہے؟ مثلاً حدیث شریف تو الفاظ ہوتے ہیں، لیکن اس میں اگر درمیان میں ایک راوی گم ہوجائے تو اس حدیث شریف پر آپ عمل کریں گے؟ نہیں، کیونکہ وہ منقطع ہوگئی۔ لہٰذا جب الفاظ اتنے important ہیں کہ اس کے لئے وہ کڑی miss نہیں کرسکتے، تو جو دل کی کیفیت ہے اس کے transfer ہونے میں آپ اس کو چھوڑ سکتے ہیں؟ اس لئے ان کی صحبت کا سلسلہ آپ ﷺ کی صحبت تک پہنچتا ہو۔

نمبر 5: ادھر سے اجازت بھی ہو۔ کیونکہ صحتمند اور ہوتا ہے اور ڈاکٹر اور ہوتا ہے۔ بعض دفعہ صحتمند تو ہوتا ہے، لیکن ڈاکٹر نہیں ہوتا۔

نمبر 6: ان کا فیض جاری ہو۔ فیض جاری ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جیسے فلاں ڈاکٹر کے ہاتھ میں شفا ہے، تو ایسے ہی جن حضرات میں اللہ تعالیٰ فیض رکھ لیں، تو پھر جو لوگ بھی ان کے پاس جائیں گے، ان میں سے اکثر فیض یاب ہوتے نظر آئیں گے۔ یہ محسوس بھی ہوتا ہے آپ کو بھی اور ان کو بھی، تو اس سے پتا چل جاتا ہے کہ ان کے ہاں فیض ہے۔

نمبر 7: وہ مروت نہ کرتا ہو، بلکہ اصلاح کرتا ہو۔ اور یہ بھی بڑی کمزوری کی بات ہے کہ ہم لوگ ایسے مشائخ کے پاس جاتے ہیں جو ہمیں پہلے سے بزرگ قرار دے دیں کہ تمہیں تو سب ملا ہوا ہے۔ ہمارے ایک سید بادشاہ تھے، ہمارے ساتھی تھے، چونکہ میں خود بھی سید ہوں، اس لئے میں ان سے یہ بات کرسکتا تھا۔ اس نے کہا کہ میں جہاں بھی جاتا ہوں تو لوگ کہتے ہیں کہ جی! بس آپ تو سید بادشاہ ہیں، ایسے ہیں، ویسے ہیں۔ میں نے کہا کہ آپ نے پھر ابھی تک پیر نہیں دیکھا، پیر اس کو رکھو جو آپ کے ساتھ بے مروت ہو، جو کھڑے کھڑے آپ کو بتا دے کہ تمھارے اندر حسد ہے اور پھر تمھیں علاج بھی بتا دے۔ اور تمھارے اندر تکبر ہے، پھر اس کے بارے میں علاج بھی بتائے۔

نمبر 8: ان کی مجلس میں بیٹھ کر آپ کو اللہ یاد آئے اور دنیا کی محبت کم ہوجائے۔ مثلاً آپ کرکٹ والوں کے پاس بیٹھتے ہیں تو کیا چیز یاد آتی ہے؟ کرکٹ۔ اور پراپرٹی ڈیلروں کے ساتھ بیٹھتے ہیں تو کیا چیز یاد آتی ہے؟ لہٰذا اللہ والوں کے پاس بیٹھو گے تو کیا یاد آئے گا؟ اللہ یاد آئے گا۔ اب ان آٹھ نشانیوں پر آپ اچھی طرح غور کریں، جب بھی کسی کے پاس جائیں، تو ان آٹھ نشانیوں کو ضرور observe کرلیں، پھر ان شاء اللہ! غلطی نہیں کریں گے۔ اور جب آپ کو مل جائے تو پھر خود اپنے اندر صرف ایک نشانی دیکھو کہ میری ان کے ساتھ مناسبت ہے یا نہیں ہے؟ کیونکہ مناسبت ہر ایک کے ساتھ نہیں ہوتی، بعض کے ساتھ ہوتی ہے، بعض کے ساتھ نہیں ہوتی، ممکن ہے کہ وہ بہت بڑا ہو، لیکن میری مناسبت اس کے ساتھ نہ ہو۔ لہٰذا مناسبت دیکھو۔ مناسبت یہ ہے کہ آپ ان کی مجلس میں بیٹھیں، اور دیکھیں آپ کو کچھ فائدہ ہوا ہے یا نہیں ہوا؟ جس سے زیادہ فائدہ ہوتا ہوا محسوس ہو تو اس کے ساتھ آپ کی مناسبت ہے۔ ایسے لوگوں کے بارے میں شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ کبریت احمر یعنی سرخ گندھگ ہے، جو بہت قیمتی ہوتی تھی۔ لہٰذا پھر ان کو عمر بھر نہ چھوڑنا، ان کے ساتھ پھر رہیں۔ البتہ ایک بات میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جب تک آپ کو ایسا شیخ نہ ملے اور آپ تلاش کر رہے ہیں، تو آپ کام شروع کردیں، کیونکہ وقت ضائع نہیں کرنا چاہئے۔ اس کے لئے میں اکثر بتاتا ہوں کہ تین سو دفعہ ’’سُبْحَانَ اللهِ، وَالْحَمْدُ للهِ، وَلَا إِلٰهَ إلَّا اللهُ، وَاللهُ أَكْبَرُ‘‘ اور دو سو دفعہ ’’وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيْمِ‘‘ کو اگر چالیس دن تک بلاناغہ کوئی وقت مقرر کرکے آپ کریں گے تو ان شاء اللہ! چالیس دن کے بعد آپ کو دل میں کچھ change محسوس ہوگا اور اگر آپ کو کوئی change محسوس ہو اور آپ اس کو بڑھانا چاہیں، تو ہم آپ کو کارڈ دیں گے، اس پر ہمارا ٹیلی فون نمبر بھی ہے، ویب سائٹ کا address بھی ہے اور اپنا address بھی ہے، کوئی آنا بھی چاہے تو آسکتا ہے۔ اور آپ ٹیلی فون کرکے اس سے آگے والا بھی لے سکتے ہیں، جتنا آپ ماشاء اللہ! آگے بڑھنا چاہیں تو اس کے ذریعہ بڑھیں، لیکن اگر آپ کو meanwhile کوئی مل گیا ان آٹھ نشانیوں والا تو پھر دیر نہ کریں، ان کے ساتھ رہیں۔ لیکن جب تک نہیں ملتا تو آپ اپنا کام جاری رکھیں۔


وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ


  1. ۔ (آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب)

    نوٹ! تمام آیات کا ترجمہ آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم سے لیا گیا ہے۔