سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 697 ذکر اور دعا

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

ابتدا میں سامعین نے جو سوالات کئے ہیں وہ تصوف کی اصطلاح اور شیخ سے مناسبت کے بارے میں ہیں، پھر تجدید بیعت  کے بارے میں ہیں۔ شیخ کو کن وجوہات سے چننا چاہئے اور اس کے ساتھ کس طرح اپنی مناسبت کو جاننا چاہئے۔ بیان کے دوسرے حصے میں تصوف کی ضرورت ، شیخ کے بتائے علاجی اذکار کی اہمیت اور اسکے بارے میں ایک شخص کے اشکالات کا جواب بھی شامل ہے۔

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال نمبر 1:

میرا سوال یہ ہے کہ تقویٰ کا لفظ تو قرآن شریف میں بھی ہے اور اسلام کی ابتدا سے چلا آرہا ہے، لیکن تصوف کا لفظ کب سے ہے؟ قرآن میں یا حدیث میں اس لفظ کا direct استعمال ہوا ہے یا نہیں؟

جواب:

لفظ پہ نہیں جانا چاہئے۔ میں آپ کو اس کی ایک مثال بتاتا ہوں، ہمارے گاؤں کے قریب ایک گاؤں کا نام تھا ڈنگرزئی، جس کا مطلب ہے: جانور کی اولاد۔ وہ بیچارے بڑے پریشان تھے کہ اس کا نام ڈنگرزئی پڑ گیا تھا، بڑی مشکل سے انہوں نے اپنے گاؤں کا نام تبدیل کروا کر آدم زئی کروا دیا، لیکن بہت سے لوگ پھر بھی اس کو ڈنگرزئی کہتے ہیں۔ تصوف کا نام پڑنے کے کئی اسباب بتائے جاتے ہیں، کچھ لوگوں نے کہا کہ صوف پہننے کی وجہ سے یہ نام پڑ گیا کیونکہ وہ زیادہ تر صوف پہنا کرتے تھے، جس کی وجہ سے صوفی کہلائے۔ کسی نے کہا کہ یہ صفا سے ہے، یعنی دل کو صاف کرنا۔ ہم تو نام کے اوپر بحث ہی نہیں کرتے، ہم کہتے ہیں کہ اس کا نام جو بھی ہے، کام کو دیکھو، اگر کام صحیح ہے، تو ٹھیک ہے اور اگر کام صحیح نہیں ہے، تو اس کے بارے میں بات ہونی چاہئے۔ لہٰذا ہم تصوف کے نام کے بارے میں گہرائی میں نہیں جاتے، ہم کہتے ہیں کہ یہ صرف تعارف ہے، اگر کوئی اس نام کو پسند نہیں کرتا، تو وہ اس کا کوئی دوسرا نام رکھ لے۔ مثلاً: احسان بھی اس کا نام ہے، حدیث شریف میں اس کا نام احسان ہے۔ آپ ﷺ سے پوچھا گیا:

’’مَا الْاِحْسَانُ؟‘‘

ترجمہ: ’’احسان کیا ہے؟‘‘۔

آپ ﷺ نے اس کا جواب دیا:

’’اَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَاَنَّکَ تَرَاہُ فَاِنْ لَّمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَاِنَّہٗ یَرَاکَ‘‘۔ (مشکوۃ المصابیح: 2)

اسی طرح قرآن میں اس کے لئے تقویٰ کا لفظ آیا ہے، لیکن اس کی بہترین تشریح قرآن پاک کی اس آیت میں ہے:

﴿قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا ۝ وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَا﴾ (الشمس: 9-10)

ترجمہ1: "فلاح اسے ملے گی، جو اس نفس کو پاکیزہ بنائے، اور نامراد وہ ہو گا، جو اس کو (گناہ میں) دھنسا دے"۔

اس آیت میں اس کو تزکیہ کہا گیا ہے، اس وجہ سے ہم نے اپنی ویب سائٹ کا نام tazkia.org رکھا ہوا ہے۔ اس میں سارا تصوف ہے، لیکن ہم نے اس کا نام تزکیہ رکھا ہوا ہے۔ تصوف کا اس آیت سے تعلق ہے اور کافی تعلق ہے، کیونکہ اس میں انتہائی categoric انداز میں فرمایا گیا کہ جس نے اپنے نفس کو قابو کیا، اس کی اصلاح کی، اس کے رذائل دبا دیئے، وہ یقیناً کامیاب ہوگیا۔ اور جو اس میں ناکام ہوگیا، ایسا نہ کرسکا، تو وہ یقیناً تباہ و برباد ہوگیا۔

﴿قَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَا﴾ (الشمس: 10)

ترجمہ: ’’نامراد ہوگا، جو اس کو (گناہ میں) دھنسا دے‘‘۔

اس وجہ سے اس تباہی اور بربادی سے بچنے کے لئے تزکیہ ضروری ہے۔ میرے خیال میں اس کا نام اگر مناسب ہو، تو آپ تزکیہ سمجھ لیں۔

ما شاء اللہ! اچھا سوال تھا اور اچھے سوال کرنے چاہئیں، کیونکہ ان سے ذہن کھلتا ہے۔ اکثر میں کہا کرتا ہوں کہ سوال نہ کرنے کی دو وجوہات ہوتی ہیں: یا ساری باتیں سمجھ میں آجائیں یا کوئی بات بھی سمجھ میں نہ آئے۔

سوال نمبر 2:

حضرت نے تعلیم کے دوران مناسبت کے بارے میں بات فرمائی۔ سوال یہ ہے کہ شیخ کی مرید کے ساتھ مناسبت اور مرید کی شیخ کے ساتھ مناسبت سے کیا مراد ہے؟

جواب:

دیکھیں! آپ نے union کا نام تو سنا ہوگا، جو پائپوں کو ملاتے ہیں، ان کا union ہوتا ہے۔ اگر union صحیح نہ بیٹھے، تو پانی صحیح transfer نہیں ہوگا، اگر پانی transfer ہوگا، تو اس کے اندر bobbling ہوگی، یعنی وہ آواز ارتعاش پیدا کرے گی۔ دل کی بیماری جن کو ہوتی ہے، وہ بھی اسی وجہ سے ہوتی ہے کہ valve تھوڑا سا set نہیں ہوتا۔ لہٰذا اگر کسی شیخ کے ساتھ کسی کی ایسی مرمر والی بات ہے، تو وہ اس سے بیعت نہ کرے، جس شیخ کے ساتھ کوئی مرمر والی بات نہ ہو، یعنی اشکالات نہ ہوں اور اس قسم کی چیزیں نہ ہوں، ان سے بیعت ہو۔ شیخ کی بات اس کے دل کو لگے، یہ مناسبتِ علمی کی علامت ہے۔ مناسبتِ عملی کا مطلب یہ ہے کہ شیخ جو بتائے، اس کو من و عن عمل میں لائے اور اس میں اس کو فائدہ محسوس ہونے لگے، یہ مناسبتِ عملی ہے۔ جس کے ساتھ مناسبتِ علمی اور عملی ہو، تو وہ ان کے ساتھ ہی رابطہ کر لے۔ کیونکہ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ دیکھا دیکھی لوگ بیعت ہوجاتے ہیں، لیکن ان کے ساتھ مناسبت نہ ہونے کی وجہ سے وہ block ہوجاتے ہیں۔ پھر وہ آدمی آگے نہیں بڑھتا۔ اس وجہ سے یہ کوشش کی جانی چاہئے کہ ابتدا ہی میں دیکھ لے کہ آیا مجھے ان کے ساتھ مناسبت ہے یا نہیں۔ کیوں کہ اگر مناسبت ہو، تو پھر فائدہ زیادہ ہوتا ہے۔

سوال نمبر 3:

حضرت! میں چوں کہ اس میں نو وارد ہو، اس وجہ سے میرے ذہن میں بڑے سوالات آتے ہیں، (سائل کی اس بات پر حضرت نے فرمایا کہ کوئی بات نہیں، آپ جیسے لوگ ہمیں چاہئیں بھی) ایک شیخ صاحب ہیں، وہ خانقاہ چلاتے ہیں، باقاعدہ مسجد میں بھی آتے ہیں، لیکن کسی خاص معمول کی وجہ سے، فرض کریں کہ ظہر کی نماز ہے، تو وہ ادھر ہی پڑھ لیتے ہیں، جدھر بیٹھے ہوتے ہیں۔ باقی نمازیں وہ جماعت کے ساتھ ہی پڑھتے ہیں۔ کیا یہ شیخ کامل ہے؟

جواب:

میں جب تک پوری تفصیلات معلوم نہ کر لوں، اس کے بارے میں کوئی گفتگو کرنا مناسب نہیں سمجھتا، کیونکہ صرف ایک چیز سے کوئی بات سمجھ میں نہیں آتی، اس کے بہت سارے issues ہوتے ہیں، اس وجہ سے میرے خیال میں بجائے اس کے کہ ہم اس چیز میں پڑیں کہ وہ کامل ہے یا نہیں، آپ کو چونکہ کامل محسوس نہیں ہو رہے، اس لئے آپ کے لئے تو کامل نہیں ہیں۔ یعنی آپ کو چونکہ reservation آگئی اور اشکال ہوگیا، لہٰذا آپ کو کم از کم اس چیز پہ تو مرمر ہے، اس وجہ سے آپ کے لئے تو وہ کامل نہ ہوا، لہٰذا آپ ان کے ساتھ بیعت نہیں ہوسکتے۔ باقی لوگوں کا معاملہ ذرا الگ ہے، وہ ساری چیزیں جاننے کے بعد بتایا جاسکتا ہے۔ میرے ساتھ یہ مسئلہ بہت زیادہ ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ میرے ساتھ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ میاں بیوی دونوں مجھ سے بیعت ہوتے ہیں، میاں بیوی کے درمیان میں چپقلش کا آنا تو بالکل ایک natural بات ہے، پھر وہ دونوں مجھے approach کرتے ہیں۔ اگر کوئی ایک approach کر لے، تو میں اس سے کہتا ہوں کہ ٹھیک ہے، آپ نے بات کی ہے، اچھی بات ہے، میں نے سن بھی لی ہے، لیکن اب میں دوسرے سے بھی سن لوں گا، تو پھر اس کے بعد میں ان شاء اللہ دیکھوں گا کہ کس کی بات میں کتنی حقیقت ہے، اس کے حساب سے پھر میں بات کر لوں گا۔ پس میرا اس مسئلہ میں قاضی شریح کی مشہور بات پر عمل ہے کہ جب تک دوسرے کو نہ سنو، اس وقت تک خاموش رہو، کیوں کہ خاموشی میں بہتری ہے۔ لہٰذا اس مسئلہ میں بھی ہم فی الحال خاموش ہیں۔ ہم اپنا ایسا شیخ بنائیں گے نہیں، لیکن اس پہ comment بھی نہیں کریں گے۔

سوال نمبر 4:

شاہ صاحب! ایک صاحب آپ کے ساتھ یا کسی شیخ کے ساتھ جڑ گئے ہیں اور مناسبت کا بعد میں پتا چلا کہ مناسبت نہیں ہے، وہ من و عن بات مان بھی رہا، لیکن اس کے دل کی تشنگی بھی رہتی ہے، تو اس سلسلہ میں وہ کسی دوسرے شیخ کے پاس تربیت کی خاطر جاسکتا ہے؟

جواب:

دیکھیں! بعض دفعہ صرف مناسبت کا مطلب نہ جاننے کی وجہ سے کہ مناسبت کس کو کہتے ہیں، انسان غلط فہمی کا شکار ہوجاتا ہے اور انسان کہتا ہے کہ مجھے ان کے ساتھ مناسبت نہیں ہے، حالانکہ تھوڑا سا ان کے قریب آنے کی وجہ سے اور ان کی باتوں پہ عمل کرنے کی وجہ سے بات کھل جاتی ہے کہ نہیں، مناسبت تو تھی، صرف پتا نہیں تھا، یعنی مناسبت کا علم نہیں تھا، جس کی وجہ سے مسئلہ ہوگیا، اس لئے اتنا جلدی فیصلہ نہیں کرنا چاہئے۔ چونکہ ایک دفعہ بیعت کر چکے ہیں، تو اب اگر کسی کی ایک بات سمجھ نہیں آئے گی، کسی کی دوسری بات سمجھ نہیں آئے گی، کسی کی کوئی اور بات سمجھ نہیں آئے گی۔ اس طرح تو عمر بھر یہ چلتا رہے گا، کسی جگہ بھی نہیں رہے گا اور خواہ مخواہ آوارہ ہوجائے گا۔ لہٰذا یہ بہت نقصان کی بات ہے۔ اس وجہ سے اس کے لئے کچھ ٹھوس بنیادیں چاہئے ہوتی ہیں کہ آیا واقعی میری جو عدمِ مناسبت ہے، وہ میری فہم کا قصور تو نہیں ہے، یا کوئی سنی سنائی بات تو نہیں ہے کہ کسی نے شیخ کے بارے میں کچھ کہہ دیا اور میں نے تحقیق نہیں کی، جس کی وجہ سے میں نے ایسا سمجھ لیا۔ لہٰذا جتنی گنجائش ہوسکتی ہیں، اچھی طرح ان کے ساتھ چل کر دیکھو کہ آیا آپ کو فائدہ ہو رہا ہے یا نہیں ہو رہا، اگر بالکل کسی طریقے سے بھی فائدہ نہیں ہو رہا، تو پھر ان کے ساتھ زندگی خراب کرنے کی ضرورت نہیں ہے، پھر کسی دوسرے شیخ کو تلاش کیا جاسکتا ہے۔ اور اس صورت میں بھی پہلے شیخ کے ساتھ مخالفت نہیں کرنی چاہئے اور ان کو بتانا بھی نہیں چاہئے، بس خاموشی کے ساتھ دوسرے شیخ سے اپنا رابطہ رکھے اور پہلے شیخ کے اوپر کوئی comment نہ کرے، کیونکہ کسی نہ کسی درجہ میں وہ محسن ضرور ہے یعنی اس نے راستہ دیکھا ہے، لہٰذا ان کی مخالفت مول لے کر کہیں وہ سلسلہ سے ہی نہ کٹ جائے اور نقصان نہ ہوجائے۔ اس وجہ سے بالکل ان کے ساتھ رابطہ اس لحاظ سے نہ کرے، لیکن یہ بات ہے کہ اپنی زندگی بھی ضائع نہ کرے۔ لیکن اس دفعہ پھر کافی کوشش اور احتیاط کے ساتھ دوسری جگہ جائے، آسانی سے نہ جائے، یعنی اچھی طرح دیکھ بھال لے کہ آیا جہاں میں جا رہا ہوں، وہاں مجھے پھر دوبارہ تو ایسی بات نہیں ہوگی، لہٰذا وہ پہلے خوب تحقیق کر لے۔

اس سوال کا جواب میں سمجھتا ہوں کہ کافی مشکل تھا، میں نہیں سمجھتا کہ میں نے پوری طرح جواب دیا ہے یا نہیں، لیکن واقعی یہ مشکل سوال تھا۔ حضرت مولانا اشرف صاحب سے میں بیعت ہوا تھا، میں نے ایک دفعہ تسنیم الحق صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا کہ کیا مجھے حضرت کے ساتھ مناسبت ہے؟ تو حضرت تو مجھے اچھی طرح جانتے تھے۔ حضرت نے فرمایا: بھائی! اگر نہیں بھی ہے، تو اللہ کروا دے گا، یعنی مجھے ٹال دیا اور فرمایا کہ اگر نہیں بھی ہے، تو اللہ کروا دے گا۔ بس آپ اس کو چھوڑو۔ میں نے کہا کہ ٹھیک ہے۔ بعد میں پتا چلا کہ حضرت ہی کے ساتھ مناسبت تھی، کسی اور کے ساتھ ہو بھی نہیں سکتی تھی۔ اب بتاؤ! اگر میں جلد بازی کر لیتا، تو کتنا نقصان ہوتا۔ بعد میں پتا چلا کہ حضرت ہی پہ میں آسکتا تھا، کسی اور پہ میں آہی نہیں سکتا تھا، میرا مزاج اتنا منتشر تھا کہ ہر جگہ کوئی نہ کوئی اٹکل، ہر جگہ کوئی نہ کوئی مسئلہ، ہر جگہ کوئی نہ کوئی اشکال، ہر جگہ کوئی نہ کوئی اعتراض۔ ایسی صورت میں میں بھی مارا مارا پھرتا اور کچھ بھی نہ ہوتا۔ بعد میں پتا چلا کہ میری تو حضرت ہی کے ساتھ بیعت کی مناسبت تھی، کیونکہ یقین جانئے کہ حضرت کے فوت ہونے کے بعد کسی اور سے بیعت ہونے کی ہمت ہی نہیں ہو رہی تھی، اتنی زیادہ مناسبت بعد میں ثابت ہوئی کہ کسی اور کے ساتھ بیعت ہونے کی ہمت ہی نہیں ہو رہی تھی، یہاں تک کہ روضۂ اقدس پہ سلام پڑھنے کے دوران وہاں پہ میں نے اللہ سے مانگا کہ یا اللہ! مجھے پتا چل جائے کہ میں کیا کروں، اور خانہ کعبہ پہ بھی دعا کی کہ یا اللہ! کیا کروں۔ پھر اللہ جلّ شانہٗ نے اس کا جواب تو دلوا دیا، لیکن میں نے سوچا کہ اس حد تک میری مناسبت تھی اور مجھے پہلے confusion تھی۔ لہٰذا بعض دفعہ شیطان کسی اچھی جگہ سے ہٹانے کے لئے اشکالات ڈالتا ہے کہ کسی طریقہ سے بھاگے، نہ ادھر کا رہے اور نہ ادھر کا رہے۔ ہاں! اگر کسی کا عقیدہ خراب ہے اور واضح طور پر پتا ہے، تو پھر درمیان میں نہیں ٹھہرنا چاہئے، پھر تو بیعت ہی نہیں ہونا چاہئے تھا۔ پس عمل کے اندر اگر قباحت ہو، تو اس کا مسئلہ الگ ہے، لیکن اگر صرف مناسبت اور عدمِ مناسبت کا مسئلہ ہو، تو اس میں کوشش تو پوری کرنی چاہئے کہ پہلے سے طریقہ کی ساری چیزیں clear ہوجائیں، صرف غلط فہمی کی وجہ سے confusion کی بنیاد پر ایک بنے بنائے راستہ کو نہیں بگاڑنا چاہئے۔

سوال نمبر 5:

حضرت! جب ایک طرف شیخ کی وفات کی صورت میں بیعت کا سلسلہ ختم ہوجاتا ہے، تو کیا ہمیں دوسری جگہ بیعت ہونا چاہئے؟

جواب:

جی! آج کل کے دور میں یہ مفید ہے، پہلے دور میں ہم بتاتے تھے کہ نہیں تمہاری پہلی بیعت برقرار ہے اور صرف تعلیم کے لئے کسی کو بڑا بنا لیں، لیکن آج کل کے مزاج اتنے زیادہ صاف نہیں ہیں، نتیجاً وہ دوسرے صاحب جن سے صرف اصلاح کا تعلق ہو، بیعت کا نہ ہو، تو ان کو انسان اتنا response نہیں دیتا جیسا response دینا چاہئے، لہٰذا اب میں تجدیدِ بیعت کو مناسب سمجھتا ہوں۔

سوال نمبر 6:

سلسلہ وہی ہونا چاہئے؟

جواب:

بے شک وہی ہو یا دوسرا، اگر دوسرا ہوگا، تو پہلے کی برکات بھی ملتی رہیں گی اور آنے والے سلسلے کی برکات بھی ساتھ شامل ہوجائیں گے، بلکہ یہاں تک بزرگوں نے کیا ہے کہ ایک بزرگ سے اجازت بھی مل گئی، خلافت بھی مل گئی، لیکن اس کے باوجود کسی دوسرے بزرگ سے مزید لینے کے لئے بیعت ہوگئے، کیونکہ یہ تکمیل تک ہی ہوتا ہے۔ اس وجہ سے اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے، مسئلہ صرف اس وجہ سے ہے کہ کہیں (نَعُوْذُ بِاللہِ مِنْ ذَالِکَ) انتشار کا شکار نہ ہوجائے، اس وجہ سے ہم منع کرتے ہیں، لیکن اگر شیخ فوت ہوجائے، تو اس کے بعد تو پھر یہ باتیں نہیں ہوں گی، لہٰذا اس وقت دیکھنا چاہئے کہ آیا کوئی دوسرا اس طرح ہے کہ جس کو میں اپنے لئے زیادہ بہتر سمجھ سکتا ہوں، تو پھر ان سے بیعت ہوجائے اور ان سے کام لے لے۔

سوال نمبر 7:

حضرت! اگر کوئی شخص مجمعِ عام میں بیعت ہوجائے، تو بعد میں وہ سمجھتا ہے کہ شیخ کی کوئی مصروفیت ہے کہ مجھے براہِ راست وقت نہیں مل سکتا، اور حقیقت بھی ایسی ہی ہوتی ہے، یا اس کے علاوہ کوئی دوسری بدگمانی ہوجائے، تو اس صورت میں کرنا چاہئے؟

جواب:

میں ایک بات عرض کرتا ہوں کہ مجمعِ عام میں بیعت والی بات کو میں زیادہ preferable نہیں سمجھتا، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں انسان دیکھا دیکھی بیعت کر لیتا ہے، اس کو شرحِ صدر ہی نہیں ہوتا کہ مجھے بیعت کرنی چاہئے، یہاں تک کہ لوگ بد عقیدہ لوگوں سے بھی بیعت ہوجاتے ہیں۔ اور بعض حضرات ایسے ہوتے ہیں، جو بیعت کرتے ہیں، لیکن ان کی تربیت کی ذمہ داری نہیں لیتے۔ ایسا بھی ہے۔ میرے خیال میں یہ نہ ہونے سے تو بہتر ہوگا، لیکن اگر کوئی باقاعدہ سلوک طے کرنا چاہے، تو اس کے لئے تو نہ ہونے سے بہتر نہیں ہے۔ نہ ہونے سے تو اس لئے بہتر ہوگا کہ کم از کم وہ تصوف اور ارشاد کا مخالف تو نہیں ہوگا، یعنی اگر وہ کسی جگہ بیعت ہے، تو کم از کم سلسلہ تو اس کا محفوظ ہوگا اور اگر وہ شخص صحیح ہے، تو ایمان بھی محفوظ ہوجائے گا، یعنی پھر غلط جگہ تو بیعت نہیں ہوگا، اس جگہ بیعت ہونے کا اتنا فائدہ تو یقیناً اس کو بھی ہوگا، لیکن یہ بات ہے کہ جس شخص کو باقاعدہ سلوک طے کرنا ہے، اس کے لئے جتنی devotion اور dedication کی ضرورت ہے، اگر وہ مجمع عام میں ایسے شخص سے بیعت ہوجائے، جو نہ بعد میں کسی خط کا جواب دے، نہ کسی Email کا جواب دے، نہ کسی ٹیلی فون کا جواب دے، تو میں سمجھتا ہوں کہ نئے لوگوں کو کم از کم ایسے شیخ سے بیعت نہیں ہونا چاہئے، اس کی وجہ یہ ہے کہ بیعت صرف بیعت نہیں ہے، بلکہ بیعت تو تربیت کا نام ہے، لہٰذا ایسے لوگوں سے بیعت ہوں، جو response تو کریں، کم از کم جب آپ ان سے رابطہ کریں تو وہ آپ کو کچھ بتائیں تو سہی۔ میرے ساتھ خود اس طرح کے واقعات ہوچکے ہیں، اس لئے میں شرحِ صدر کے ساتھ یہ بات کرتا ہوں۔ ہمارے ایک ساتھی تھے، ما شاء اللہ! بڑے لوگوں میں سے ہیں، انہوں نے مجھے Email کیا کہ میں مولانا اسعد مدنی رحمۃ اللہ علیہ سے جو مولانا حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ کے صاحبزادے تھے، انگلینڈ میں بیعت ہوا ہوں، اب میں ان سے رابطہ کرتا ہوں، لیکن انڈیا میں ہونے کی وجہ سے نہ ان سے ٹیلی فون ہوتا ہے، نہ ان سے میرا Email کا سلسلہ ہوتا ہے، نہ ان سے کسی خط کا جواب آتا ہے، تو میں کیا کروں؟ میرا ایک مسئلہ ہے، وہ میں کس کو بتاؤں؟ میں نے کہا کہ بھائی! میں تو اس مسئلہ میں نہیں پڑتا، کیونکہ یہ بڑا نازک مسئلہ ہے۔ مولانا اسعد صاحب بہت بڑے آدمی ہیں، ہم ان کے معاملے میں نہیں پڑسکتے۔ اب میں انکار کروں اور وہ اصرار کرے، بار بار مجھے کہے کہ نہیں جی، آپ مجھے بتائیں، آپ مجھ بتائیں۔ میں نے کہا کہ میں کچھ بھی نہیں بتا سکتا۔ جب انہوں نے مجھے بہت تنگ کیا، تو میں نے مفتی مختار الدین شاہ صاحب سے اس سلسلے میں مشورہ کیا، میں نے کہا کہ حضرت! فلاں صاحب (حضرت ان کو جانتے تھے) میرے پیچھے پڑے ہوئے ہیں، کہتے ہیں کہ کوئی میرے مسئلہ کو حل کر لے، حالانکہ وہ مولانا اسعد مدنی رحمۃ اللہ علیہ سے بیعت ہیں، لہٰذا میں کیسے ان کے مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش کرسکتا ہوں؟ یہ تو ان کا مسئلہ ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ دو مہینے میں ان کے ساتھ رابطہ ہوسکتا ہے؟ میں نے کہا کہ وہ تو چھ مہینے کا بتا رہے ہیں کہ چھ مہینے سے میں کوشش کر رہا ہوں، لیکن رابطہ نہیں ہو رہا۔ فرمایا کہ اب آپ اس کو اس کے مسئلہ کا جواب دے دو، اب اس کا حق ہے، کیونکہ وہ بیچارہ confuse اور پریشان ہوجائے گا، تو نقصان ہوجائے گا۔ میں نے ان کو کہا کہ اب میں مفتی صاحب کے ارشاد کے مطابق آپ کو اجازت دیتا ہوں کہ آپ مجھے اپنا مسئلہ بھیج سکتے ہیں۔ انہوں نے مجھے مسئلہ بھیجا، میں نے انہیں ایک وظیفہ بتا دیا، اللہ کا شکر ہے کہ ایک ہفتہ کے اندر اندر انہوں نے جواب دیا کہ میرا مسئلہ حل ہوگیا ہے۔ اس کے بعد وہ میرے ساتھ ہی لائن پہ لگ گئے اور الحمد للہ! ادھر سے ان کو خلافت بھی مل گئی۔ اب مولانا اسعد مدنی صاحب کتنے بڑے بزرگ تھے، ان کی بزرگی میں تو کوئی شک نہیں تھا، صرف contact نہ ہونے کی وجہ سے ان کو مسئلہ ہوگیا اور مجبوراً ان کو کسی اور سے رابطہ کرنا پڑا۔ پس وہ تو deliberately نہیں تھا، لیکن جہاں پر بالکل جواب ہی نہ دیا جائے، تو میں تو سمجھتا ہوں کہ ایسے مشائخ سے بیعت نہیں ہونا چاہئے، بے شک وہ کتنے ہی بڑے مشائخ کیوں نہ ہوں۔ ان کا اپنا مقام بہت اونچا ہوگا، لیکن تربیت کے لئے جس چیز کی ضرورت ہے، وہ نہیں ہوسکتی۔ تربیت کے لئے باقاعدہ رابطہ ہونا ضروری ہے۔

سوال نمبر 8:

یہ دل command کرتا ہے یا نفس command کرتا ہے؟

جواب:

اصل میں میں نے تفصیل سے بات عرض کر لی ہے کہ دل بھی کر رہا ہے اور نفس بھی کر رہا ہے، ہر ایک کا domain علیحدہ ہے۔ وہ جو دو channels ہیں، ان کا میں نے ذکر کیا کہ یوں سمجھ لیں کہ معرفت جس کو آگاہی کہتے ہیں، وہ دل پر کھلے گی یعنی جب دل ٹھیک ہوگا، تو اس کو حق نظر آئے گا۔ قرآن میں ہے:

﴿اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَذِكْرٰى لِمَنْ كَانَ لَهٗ قَلْبٌ﴾ (ق: 37)

ترجمہ: ’’یقیناً اس میں اس شخص کے لئے بڑی نصیحت کا سامان ہے جس کے پاس دل ہو‘‘۔

یعنی جب دل بن جاتا ہے، تو اس کو حق نظر آجاتا ہے، ہدایت کی روشنی اس کو نظر آجاتی ہے، لیکن نفس کو کام کرنا پڑتا ہے۔ جب تک یہ قابو میں نہیں ہے، تو کام نہیں ہوگا۔ جیسے کسی کی گاڑی control نہ ہو رہی ہو، آپ اس کو اس طرف کریں اور وہ اس طرف جا رہی ہو، تو ظاہر ہے کہ نقصان ہوگا، پس اسی طرح اگر نفس کسی کے قابو میں نہیں ہے، تو دل ٹھیک بھی ہوگا، لیکن عمل نہیں ہوسکے گا، عمل کرنے کے لئے نفس کا درست ہونا ضروری ہے۔ لہٰذا یہ دونوں محنتیں کرنی چاہئیں، کچھ حضرات نفس والی محنت پہلے کرتے ہیں اور دل والی بعد میں کرتے ہیں اور کچھ حضرات دل والی محنت پہلے کرتے ہیں اور نفس والی بعد میں کرتے ہیں۔

سوال نمبر 9:

حضرت یہ جو اذکار بتائے جاتے ہیں، مثلاً تین سو اور دو سو وغیرہ۔ یہ کہاں سے ثابت ہیں؟

جواب:

دیکھیں! کچھ چیزیں تو منصوص ہوتی ہیں اور کچھ چیزیں تجرباتی ہوتی ہیں۔ paracetamol کی گولی اگر آپ حدیث سے ثابت کرنا چاہیں، تو کیا ہوسکتا ہے؟ پس وہ ایک جسمانی علاج ہے اور وظائف جن کے ذریعے سے دل کی اصلاح ہوتی ہے، وہ روحانی علاج ہیں، پس یہ منصوص نہیں ہوتیں، وجہ یہ ہے کہ جتنے لوگ ہیں، اتنی بیماریاں ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلیاں آرہی ہیں، ماحول بدل رہا ہے، موبائل کا لوگوں کو پہلے پتا بھی نہیں تھا، انٹرنیٹ کا بھی پتا نہیں تھا، اب اس کے ذریعے سے جو فساد آیا ہے، اس کا علاج ایسا تو نہیں ہوگا، جو دو سو سال پہلے والے لوگوں کا علاج تھا۔ اب علاج مختلف ہوگیا، اس وجہ سے اس میں تجرباتی طور پر لوگوں کو چھوڑ دیا گیا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ اس کو ثواب نہ سمجھے، علاج سمجھے۔ جب آپ ثواب سمجھنا شروع کر دیتے ہیں، تو اس وقت منصوص ہونا ضروری ہوجاتا ہے۔ مثال کے طور پر میں کہہ دوں کہ ’’سُبْحَانَ اللہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ وَلَآ إِلٰہَ إِلَّا اللہُ وَاللہُ أَکْبَرُ‘‘ اتنی دفعہ پڑھو، آپ کو اتنا ثواب مل جائے گا، تو وہ ثواب کے لئے کریں گے، وہ علیحدہ چیز ہے، وہ آپ پورا تیسرا کلمہ پڑھو، ثواب آپ کو مل جائے گا۔ لیکن اگر آپ علاج کے لئے کر رہے ہو، تو پھر آپ کو اس طرح کرنا چاہئے، جس طرح طریقہ ہے، کیونکہ وہ تجرباتی ہے۔ مثلاً ایک scientist آسٹریلیا میں ہیں، انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ میرا دل پاکستان میں جاری ہوگیا تھا، لیکن اب نہیں ہے، میں کیا کروں؟ میں نے کہا کہ اس کے لئے تین چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے: ایک احساس، دوسری چیز عزم و ہمت اور تیسری چیز رہنمائی۔ میں نے کہا کہ احساس تو آپ میں ہے، تبھی تو آپ پوچھ رہے ہیں۔ اگر عزم و ہمت کی surety دلا دو، تو رہنمائی اللہ تعالیٰ آپ کو دلوا دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ میں یہ تو نہیں کہتا کہ مجھ میں ہمت ہے، لیکن اتنا ہے کہ میں جس چیز کو صحیح سمجھتا ہوں، اس کو چھوڑتا نہیں ہوں۔ میں نے کہا کہ بس یہ کافی ہے، پھر میں نے ان کو وظیفہ بتا دیا۔ انہوں نے مجھے Email کیا کہ Can I split it یعنی میں تین سو دفعہ صبح اور دو سو دفعہ شام کو کر لوں؟ میں نے کہا کہ

Yes, if you want to benefit for اجر not if you want to do it for treatment.

یعنی اگر آپ اجر کے لئے کرنا چاہتے ہیں، تو آپ کرسکتے ہیں، بے شک ایک دفعہ ’’سُبْحَانَ اللہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ وَلَآ إِلٰہَ إِلَّا اللہُ وَاللہُ أَکْبَرُ‘‘ اب پڑھ لو اور دو سال کے بعد دوبارہ ایک دفعہ پڑھ لو، تو آپ کو دونوں دفعہ کا ثواب مل جائے گا، ثواب میں تو کمی نہیں ہوگی، لیکن اگر آپ اس سے علاج کرنا چاہتے ہیں، تو گولیاں اگر آپ کو ڈاکٹر بتاتا ہے کہ تین گولیاں صبح، دوپہر، شام کھانی ہیں، تو اگر آپ تینوں اکٹھی کھا لیں، تو کیا ہوگا؟ کیڑے دور کرنے کے لئے پچاس گولیاں ہوتی ہیں، اگر کوئی شخص ان کو تین دفعہ روزانہ کھا لے، پانچ پانچ گولیاں کھائے اور تین دن میں ختم کرلے، تو کیا ہوگا؟ کیڑے نکل جائیں گے؟ پس یہ تجرباتی چیزیں ہیں اور تجرباتی چیزیں منصوص نہیں ہوتیں۔

سوال نمبر 10:

حدیث میں ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا:

’’كُلُّ أُمَّتِيْ يَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ إِلَّا مَنْ أَبٰى، قَالُوْا: يَا رَسُوْلَ اللهِ، وَمَنْ يَأْبٰی؟ قَالَ: مَنْ أَطَاعَنِيْ دَخَلَ الْجَنَّةَ، وَمَنْ عَصَانِيْ فَقَدْ أَبٰى‘‘۔ (مسند احمد: 8729)

ترجمہ: ’’میری امت کے سب لوگ جنت میں داخل ہوں کے، ماسوا ان لوگوں کے جنھوں نے انکار کیا۔" پوچھا گیا کہ اے اللہ کے رسول! انکار کرنے والے کون ہوں گے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: "جس نے میری اطاعت کی، وہ جنت میں داخل ہو گا اور جس نے میری نافرمانی کی، اس نے انکار کیا‘‘۔

نبی کریم ﷺ نے صحابہ کرام کو جو تعداد بتائی ہے، جیسے: حدیث شریف میں آتا ہے، آپ نے بھی فرمایا ہے کہ ’’سُبْحَانَ اللہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ وَلَآ إِلٰہَ إِلَّا اللہُ وَاللہُ أَکْبَرُ‘‘ پڑھا جائے، حدیث میں سو دفعہ پڑھنے کا آیا ہے۔ اور حدیث شریف میں آتا ہے کہ جس نے ایک دفعہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ‘‘ کہہ لیا اس کا بھی اجر ہے۔ تو سب سے بڑا وظیفہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ‘‘ ہے۔ اب صحابہ کرام، انبیاء کرام اور نبی کریم ﷺ سے حدیث میں جو اوراد ثابت ہیں، اصل تو وہ وظیفے ہیں، اپنے بنائے ہوئے وظیفے نہیں چلتے۔

حدیث میں ہے:

’’مَنْ اَحَبَّ سُنَّتِیْ فَقَدْ اَحَبَّنِیْ وَمَنْ اَحَبَّنِیْ کَانَ مَعِیْ فِی الْجَنَّۃِ‘‘۔ (مشکوۃ المصابیح: 170)

ترجمہ: ’’جس نے میری سنت سے محبت کی، تو اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی، تو وہ میرے ساتھ جنت میں ہوگا‘‘۔

جواب:

اصل میں حضرت! ہم اسی کے لئے تو تیار کر رہے ہیں، اور کس چیز کے لئے تیار کر رہے ہیں؟ دل بن گیا، نفس ٹھیک ہوگیا، تو سنت پر عمل پہ خود بخود آجاؤ گے۔ اور اگر دل نہیں بنواؤ گے، تو سنت کو بھی بد نام کرو گے۔ ’’میٹھا میٹھا کھا اور کڑوا کڑوا تھو‘‘ پھر سنتوں کو بدنام کرو گے اگر دل نہیں بنا ہوگا۔ اصل میں یہ ساری تربیت اسی وجہ سے ہوتی ہے کہ ہم قرآن پر بھی عمل کرسکیں، ہم سنت پر بھی عمل کرسکیں، دین پر بھی چل سکیں۔ یہ تربیت ہے، تعلیم نہیں ہے۔ تعلیم و تربیت بالکل جدا جدا ہیں۔ یہ مولانا صاحب سامنے بیٹھے ہیں، تعلیم الگ چیز ہوتی ہے، تربیت الگ چیز ہوتی ہے، تربیت اس لئے ہوتی ہے کہ تعلیم کے فائدے حاصل کئے جائیں۔ جب تک ہمارا نفس خراب ہوگا، اس وقت تک ہم قرآن کو اپنی دنیا کے مقصد کے لئے استعمال کریں گے اور ایسا ہو رہا ہے، لوگ دنیا کے لئے اس کو استعمال کر رہے ہیں۔ لہٰذا یہ بالکل جدا جدا چیزیں ہیں، تعلیم الگ ہے اور تربیت الگ ہے۔ میں نے تربیت کے بارے میں بات کی ہے۔ تعلیم کے بارے میں بات نہیں کی، وہ میدان ہی الگ ہے۔

واٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ


  1. (آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عمثانی صاحب)

    تمام آیات کا ترجمہ آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم سے لیا گیا ہے۔