فہم التصوف کا تعارف، امارد سے محبت کا علاج

فہم التصوف ،دیباچہصفحہ نمبر 14 تا 17،تصوف کے چند مفید اصطلاحات،صفحہ نمبر 33 تا 38،تربیت السالک صفحہ نمبر 303 تا306

حضرت شیخ ڈاکٹر محمد عمر ملک صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

ہر مسلمان پر فرض ہے کہ وہ اللہ کی رضا کے مطابق زندگی گزارے، جس کے لیے ضروری علوم کا حاصل کرنا بھی فرض ہے۔ علم و فن کی حیثیت ثانوی ہے، لیکن اگر مقصد ان کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا تو یہ لازمی ہوجاتا ہے۔ اسلام کی تعلیمات کا ماخذ کتاب و سنت ہیں، جن کی ابتدائی تعلیم مجلس نبوی میں دی گئی۔ اس ابتدائی دور میں حلقہ بگوشان اسلام محدود تعداد میں تھے، اور تمام ضروری تعلیمات یکجا حاصل کی جاتی تھیں۔ اسلام کی عالمگیر حیثیت اختیار کرنے کے بعد، علماء نے مختلف شعبے قائم کیے، جیسے علم حدیث، فقہ، تفسیر، اور تصوف، تاکہ ان مقاصد کو حاصل کیا جا سکے۔ شریعت، طریقت، حقیقت، اور معرفت کی اصطلاحات کے ذریعے دین کی تعلیمات کو سمجھنا ضروری ہے۔

یہ کتاب تصوف کے اہمیت اور مفہوم کو واضح کرنے کے لئے لکھی گئی ہے، جس میں چار گروہوں کی وضاحت کی گئی ہے:

  1. گروہ اول: وہ لوگ جو جان بوجھ کر تصوف کو بگاڑنے کی کوشش کرتے ہیں اور مخلوق کو دین سے دور کرتے ہیں۔ انہیں قرآن میں "المغضوب علیہم" کہا گیا ہے۔
    1. گروہ دوم: وہ لوگ جو تصوف کے اصل مفاہیم سے ناواقف ہیں اور سنی سنائی باتوں کو پھیلاتے ہیں۔ یہ قرآن میں "الضالین" کہلاتے ہیں، اور اگر انہیں صحیح رہنمائی مل جائے تو ان کی اصلاح ہو سکتی ہے۔
      1. گروہ سوم: وہ لوگ جو تصوف کی مخالفت کرتے ہیں لیکن ان کی مخالفت کا سبب غلط فہمی ہے۔ اگر انہیں صحیح معلومات فراہم کی جائیں تو وہ بھی اپنی غلط فہمیوں سے نکل سکتے ہیں۔
        1. گروہ چہارم: یہ لوگ تصوف کی حقیقت کو جانتے ہیں لیکن دنیاوی مفادات کی خاطر اس کی مخالفت کرتے ہیں۔

          یہ کتاب بنیادی طور پر ان درمیانی گروہوں کی رہنمائی کے لئے لکھی گئی ہے تاکہ انہیں تصوف کی اصل حقیقت، قرآن و حدیث کے ساتھ اس کے رشتے، اور اس کی اصطلاحات کے صحیح معانی سمجھائے جا سکیں۔