توبۃالنصوح

درس نمبر 2 دفتر پنجم حکایت 92 تا حکایت 96 یہ بیان 26 اپریل 2008 کو ہوا تھا جو دوبارہ براڈکاسٹ کیا گیا

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

یہ بیان توبہ کی اہمیت کے بارے میں ہے جس کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ جس نے سچی توبہ کی تو وہ کبھی گناہ کو رغبت کیلئے یاد نہیں کرتا بلکہ نفرت کرتا ہے اور یہ نفرت اس بات کی دلیل ہے کہ اس نے توبہ کی لذت حاصل کر لی۔ دنیاوی لذات کا عشق جس سے بگاڑ آیا ہے اسکا توڑ عشقِ حقیقی سے ہی ہو سکتا ہے جیسے لوہا لوہے کو کاٹتا ہے۔

یہ حکایت نصوح کی توبہ اور رحمت الہی کے بارے میں ہے۔ نصوح کی بے ہوشی، اس کے خوف، اور اس کے بعد ہونے والے واقعات کو بیان کرتی ہے۔ جب نصوح نے دیکھا کہ اس کی جان خطرے میں ہے تو وہ بے ہوش ہوگیا۔ یہ ایک حالت ہے جہاں انسان کا عقل و ہوش اُس کی پریشانی کے سامنے کمزور ہو جاتا ہے۔ جب نصوح بے ہوش ہوا تو اس کی جان حق کے ساتھ مل گئی، اور رحمت کی لہریں اُس پر جوش میں آئیں۔ اس کے بعد، جب نصوح کی جان واپس آئی تو وہ اس حقیقت کو سمجھتا ہے کہ اس کی توبہ قبول ہوئی ہے۔
فرمایا ، کہ انسان کا نفس کمینہ اور متکبر ہوتا ہے لیکن جب وہ توبہ اور عاجزی اختیار کرلیتا ہے تو اس کی تمام صفتیں سرنڈر ہو جاتی ہیں تو اس پر معرفت کے دروازے کھل جاتے ہیں۔جس کا نفس موٹا ہو اسکو معرفت حاصل نہیں ہوتی تو اس کو گناہ بھی گناہ نظر نہیں آتا۔
توبہ پر استقامت کیلئے سلوک کا طے کرنا ضروری ہے ورنہ توبہ عارضی ہوتی ہے اور ٹوٹ جاتی ہے۔ تو توبۃ النصوح کیلئے ضروری ہے کہ انسان اپنی مکمل اصلاح کروا دے جو بغیر شیخ کامل کے بہت مشکل ہوتی ہے۔