توبۃالنصوح
درس نمبر 2 دفتر پنجم حکایت 92 تا حکایت 96 یہ بیان 26 اپریل 2008 کو ہوا تھا جو دوبارہ براڈکاسٹ کیا گیا
یہ بیان توبہ کی اہمیت کے بارے میں ہے جس کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ جس نے سچی توبہ کی تو وہ کبھی گناہ کو رغبت کیلئے یاد نہیں کرتا بلکہ نفرت کرتا ہے اور یہ نفرت اس بات کی دلیل ہے کہ اس نے توبہ کی لذت حاصل کر لی۔ دنیاوی لذات کا عشق جس سے بگاڑ آیا ہے اسکا توڑ عشقِ حقیقی سے ہی ہو سکتا ہے جیسے لوہا لوہے کو کاٹتا ہے۔
یہ حکایت نصوح کی توبہ اور رحمت الہی کے بارے میں ہے۔ نصوح کی بے ہوشی، اس کے خوف، اور اس کے بعد ہونے والے واقعات کو بیان کرتی ہے۔ جب نصوح نے دیکھا کہ اس کی جان خطرے میں ہے تو وہ بے ہوش ہوگیا۔ یہ ایک حالت ہے جہاں انسان کا عقل و ہوش اُس کی پریشانی کے سامنے کمزور ہو جاتا ہے۔ جب نصوح بے ہوش ہوا تو اس کی جان حق کے ساتھ مل گئی، اور رحمت کی لہریں اُس پر جوش میں آئیں۔ اس کے بعد، جب نصوح کی جان واپس آئی تو وہ اس حقیقت کو سمجھتا ہے کہ اس کی توبہ قبول ہوئی ہے۔
فرمایا ، کہ انسان کا نفس کمینہ اور متکبر ہوتا ہے لیکن جب وہ توبہ اور عاجزی اختیار کرلیتا ہے تو اس کی تمام صفتیں سرنڈر ہو جاتی ہیں تو اس پر معرفت کے دروازے کھل جاتے ہیں۔جس کا نفس موٹا ہو اسکو معرفت حاصل نہیں ہوتی تو اس کو گناہ بھی گناہ نظر نہیں آتا۔
توبہ پر استقامت کیلئے سلوک کا طے کرنا ضروری ہے ورنہ توبہ عارضی ہوتی ہے اور ٹوٹ جاتی ہے۔ تو توبۃ النصوح کیلئے ضروری ہے کہ انسان اپنی مکمل اصلاح کروا دے جو بغیر شیخ کامل کے بہت مشکل ہوتی ہے۔