سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 696 ذکر اور دعا

حضرت شیخ سید عبید الرحمٰن صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ


Question for Question Answer Session.

In previous times Sufi Masters trained their students in معرفت اللہ as their معرفت increased they learned how to become more divine in traits تخلق بالاخلاق اللہ. So their معاشرت was supposed to improve. In a discussion with a دیوبندی عالم he pointed out to me that this approach didn’t work well so, حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ focused directly on معاشرت and معاملات so that صفائی معاملات can be improved. Is this true? So, to clarify his exact words for until we see صفائی of معاملات in and how we are concentrating in our معاشرت towards all kind of people that we come in touch with, how can we talk about حقوق اللہ? One of the تلبیس of شیطان is to make you so engrossed in direct worship that you lose sight of the rights of others. Look at the relationship today between parents and children, husband-wife, teachers and students, employers and employees. How much injustice do we find?

جواب:

یہ سوال جس نے بھی اٹھایا ہے، بالکل فضول قسم کا سوال اٹھایا ہے۔ اس سوال کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اصل میں بعض لوگوں کو سوالات کرنے کا شوق ہوتا ہے، اس لئے وہ ایسے سوالات کردیتے ہیں۔

دین پانچ چیزوں کا مجموعہ ہے۔ عقائد، عبادات، معاملات، معاشرت اور اخلاق۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ کوئی تصوف میں آئے تو ان سے پانچ چیزیں معاف ہوجائیں گی، تصوف اس مقصد کے لئے نہیں ہے، وہ تو اس کے اندر strength پیدا کرنے کے لئے ہے۔ عقائد پھر بھی صحیح رکھنے پڑیں گے، عبادات بھی صحیح کرنی پڑیں گی، معاملات درست رکھنے پڑیں گے، معاشرت اچھی کرنی پڑے گی، اخلاق بھی درست کرنے پڑیں گے، چاہے وہ صوفی ہے یا نہیں۔ صوفی صرف اتنا کرتا ہے کہ اس کی نیت درست کروا دیتا ہے اور اللہ جل شانہٗ کے ساتھ اس کے تعلق کو اتنا مضبوط کر دیتا ہے کہ وہ سارے کام کرتے ہوئے اللہ جل شانہٗ کو محسوس کرتے ہیں، گویا کہ یہ اللہ کو دیکھ رہا ہے یا اللہ تعالیٰ اس کو دیکھ رہے ہیں۔ تو یہ کیفیت اس کو حاصل ہوجاتی ہے، جس کو ہم کیفیتِ احسان کہتے ہیں۔ معرفت اصل میں اسی چیز کی پہچان کا نام ہے، کہ ہم کیا ہیں، کیا کر رہے ہیں، کس لئے کر رہے ہیں اور ہمارا کیا ہوگا اور اللہ جل شانہٗ کے ساتھ ہمارا جو تعلق ہے وہ کیا ہونا چاہئے؟ ظاہر ہے جواب بہت simple ہے، وہ یہ کہ ہم بندے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہمارا بندگی کا تعلق ہے اور بندگی ہمارا مقام ہے۔ جتنے زیادہ ہم اچھے بندے ہوں گے، اتنے ہی زیادہ ہم کامیاب ہوں گے اور اللہ جل شانہٗ کا حق ہم پر ہر وقت ہے، ہمارا اللہ پہ کوئی حق نہیں ہے۔ ان تمام چیزوں کو جس وقت ہم integrate کرتے ہیں تو یہ معرفت کہلاتی ہے اور اس میں ہر شخص کی strength different ہوتی ہے۔ انہوں نے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی بات کی ہے، حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے تو معرفت کے ساتھ معاشرت کو compare نہیں کیا، اگر کیا ہے تو کوئی حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کا quotation ثابت کرے کہ انہوں نے فرمایا ہو کہ لوگ معرفت اللہ کی بات کرتے تھے، اب میں نے معاشرت کی بات کی ہے۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ ہم حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے مواعظ وملفوظات اور کتابیں پڑھنے والے ہیں، کہاں پر حضرت نے لکھا ہے؟ حضرت نے تو اس کو عبادات کے ساتھ compare کیا ہے۔ میں نے خود یہ article پڑھا ہے، اَلْحَمْدُ للہ میرے پاس موجود ہے۔ حضرت نے فرمایا ہے کہ بہت سارے لوگ عبادات کو دین سمجھتے ہیں، ان کی عبادات اچھی ہوگئیں تو سمجھیں گے کہ ہم دیندار ہوگئے ہیں۔ جیسا کہ زیادہ تر ہمارے تبلیغی جماعت کے حضرات کا بتایا جاتا ہے کہ ان کا عبادات پہ زور ہوتا ہے اور معاملات گڑبڑ ہوتے ہیں، تو ان پر بھی جو اعتراض ہوتا ہے وہ یہی کہ ان کی معاملات پر توجہ نہیں ہے۔ میں نے ان کے بڑوں سے بھی سنا ہے کہ ہم لوگ ابھی معاملات تک نہیں پہنچے، یعنی یہ ویسے بات نہیں ہے بلکہ ان کے بڑوں نے یہ اعلان کیا ہے کہ تبلیغ والے تبلیغ والوں کے ساتھ معاملات نہ کریں، ورنہ تبلیغ سے وہ دل برداشتہ ہوجائیں گے، کیونکہ ان کے معاملات ابھی فی الحال صحیح نہیں ہیں۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ بہت سارے لوگ تو عبادات کو دین سمجھتے ہیں اور فرمایا: جو زیادہ دیندار ہیں وہ معاملات کو بھی دین سمجھتے ہیں، لیکن ابھی تک تو معاشرت کو کسی نے دل سے دین نہیں سمجھا۔ یہ حضرت کے الفاظ ہیں۔ اس لئے حضرت نے پورا زور اس پر دیا کہ معاشرت بھی دین ہے اور حضرت نے اس کو قرآن وحدیث اور دلائل سے ثابت کیا ہے۔ میرے پاس حضرت کا وہ article پڑا ہوا ہے، اگر کوئی چاہے تو اس کو send کر سکتا ہوں۔ تو حضرت نے اس کو عبادت سے compare کیا ہے، معرفت سے compare نہیں کیا اور حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کا معرفت کے بارے میں کیا خیال ہے؟ حضرت فرماتے ہیں کہ عارف کی دو رکعت کی نماز غیر عارف کی لاکھوں رکعتوں سے افضل ہوتی ہے، یہ حضرت کی statement ہے۔ اور حدیث شریف کے الفاظ ہیں کہ:

’’وَمَا يُجْزٰى يَوْمَ الْقِيَامَةِ اِلَّا بِقَدْرِ عَقْلِہٖ‘‘ (شعب الایمان، للبیقہی، حدیث نمبر: 4637)

ترجمہ: ’’لیکن قیامت کے دن اس شخص کو اس کی عقل کے مطابق ثواب دیا جائے گا‘‘۔

عقل سے مراد یہاں معرفت ہے۔ یہ بات شاید اگر کسی دیوبندی عالم نے کی ہے تو میرے خیال میں ان کا Angle of vision بذاتِ خود disturb ہے، جو انہوں نے معرفت کو معاشرت کے ساتھ compare کیا ہے۔ کیونکہ ایک براہِ راست quotation ہوتا ہے، یعنی کسی بزرگ یا کسی عالم کو quote کیا جاتا ہے، پھر بات کی جاتی ہے، وہ تو صحیح ہے۔ دوسرا آپ تبصرہ کرتے ہیں کہ اس کا تو یہ طریقہ تھا، فلاں کا یہ طریقہ تھا اور اس کی طرف سے آپ کچھ بتا نہیں رہے مثلاً آپ overall تبصرہ کرتے ہیں تو وہ آپ کے Point of view پر ہوگا کہ آپ نے کس angle سے اس کو دیکھا ہے، جس کے نزدیک معرفت کی کوئی value نہیں ہے، وہ اس قسم کی بات کر سکتے ہیں۔ معرفت ایک اضافی چیز ہے اور اضافی چیز سے مراد یہ ہے کہ اس کے اندر strength ڈالتا ہے۔ آپ حدیثِ جبرائیل سے خود اس کا sequence سمجھ لیں کہ حضور ﷺ سے جبرائیل علیہ السلام نے پوچھا: ’’مَا الْاِیْمَان؟‘‘ تو حضور ﷺ نے جواب دیا: عقائد۔ پوچھا گیا ’’مَاالْاِسْلَام؟‘‘ حضور ﷺ نے فرمایا: اسلام کے ارکان۔ پھر حضرت جبرائیل علیہ السلام نے پوچھا: ’’مَاالْاِحْسَان؟‘‘ تو حضور ﷺ نے جواب دیا: کیفیتِ احسان۔ اور کیفیتِ احسان یہ ہے کہ:

’’اَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَاَنَّکَ تَرَاہُ فَاِنْ لَّمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَاِنَّہٗ یَرَاکَ‘‘ (صحیح بخاری: 48)

ترجمہ: ’’تو اس طرح عبادت کر کہ تو اللہ کو دیکھ رہا ہے اگر تو نہیں دیکھ رہا تو اللہ تجھے دیکھ رہا ہے‘‘۔

دیکھیں عقائد بنیاد ہیں، یعنی عقیدے اگر صحیح نہیں ہیں تو انسان مسلمان ہی نہیں ہے، اگر مسلمان نہیں ہے تو پھر اعمال کا بھی نہیں پوچھا جائے گا۔ اور اگر عقیدہ صحیح ہے تو مسلمان ہے اور پھر اعمال بھی کرے گا، اعمال کی value بھی ہوگی۔ جتنے وہ اعمال کرے گا اس کے حساب سے value ہوگی۔ ایمان کے اندر جزء نہیں ہے بلکہ اعمال میں اجزاء ہیں، یعنی کوئی نماز پڑھتا ہے اور کوئی نہیں پڑھتا، کوئی روزہ رکھتا ہے تو کوئی نہیں رکھتا، اب اس سے کوئی کافر تو نہیں ہوتا۔ البتہ value برابر نہیں ہوتی، جیسا کہ کوئی نماز اچھی طرح پڑھتا ہے، کوئی کمزور پڑھتا ہے، کوئی بہت اچھی پڑھتا ہے۔ اس کا مطلب ہے اس میں variation بہت زیادہ ہے۔ اب variation کو زیادہ بہتر کرنا کہ اس میں strength آجائے، اللہ کی معرفت آجائے، تعلق آجائے یعنی خالصتاً اللہ کے لئے ہوجائے، نماز میں اللہ پاک کی طرف توجہ حاصل ہوجائے، یہ معرفت کے ذریعے سے ہوگا۔ چنانچہ اس کے لئے آپ کوشش کریں۔ اس لئے کہتے ہیں کہ سیر الی اللہ محدود ہے اور سیر فی اللہ لامحدود ہے۔ سیر الی میں تو آپ صرف نفس کے رذائل ختم کرتے ہیں اور فضائل پیدا ہوجاتے ہیں اور آپ دین پر چلنا شروع کر دیتے ہیں، یہ الی اللہ ہے۔ اور سیر فی اللہ میں تعلق مع اللہ جتنا زیادہ ہوگا، اس کا مقام اتنا زیادہ ہوگا۔ جیسے حضرت نے فرمایا ہے کہ عارف کی دو رکعت کی نماز غیر عارف کی لاکھوں رکعتوں سے افضل ہوتی ہے۔ مجھے لگ رہا ہے کہ دیوبند کے مدرسے میں ایک وقت ایسا تھا کہ جس میں مہتمم سے لے کر چپڑاسی تک سب صاحبِ نسبت تھے اور دیوبند کے مدرسے کی یہ شان تھی:


بر کفی جام شریعت، بر کفی سندان عشق

ہر ہوسناکی نداند جام و سندان باختن


اس کے لئے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی فرمایا تھا کہ ایک میں جامِ شریعت ہے اور دوسرے میں عشق کا سندان ہے اور دعویٰ کرنے والے ہر کسی کو یہ چیزیں نہیں ملا کرتیں، تو دیوبند تو یہ تھا۔ اب دیوبند کا نام لینے والے بہت سارے ہوگئے ہیں، جو اپنی رائے کو دیوبند کی رائے کہتے ہیں، وہ اپنے بڑوں کی رائے کو نہیں دیکھتے بلکہ وہ اپنی رائے کو بڑوں کی رائے بتاتے ہیں۔ تو یہ بھی ان میں سے ایک ہیں کہ اس عالم کی اپنی رائے ہے لیکن وہ اس کو بڑوں کی رائے بتا رہا ہے۔ تو It is not allowed۔ لہٰذا اس چیز کو روکنا چاہئے، آپ خود بتا دیں یہ میری رائے ہے پھر کوئی مانے گا اور کوئی نہیں مانے گا۔ جو مانے گا تو ٹھیک ہے وہ آپ کی پارٹی میں شامل ہوگیا، اور جو آپ کی نہیں مان رہا تو بات ختم۔ لیکن آپ اس رائے کو بڑوں کی رائے بتایں اور بڑوں نے ایسا نہیں کہا تو آپ نے بددیانتی کا ارتکاب کیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ جس ظالم نے یہ کہا ہے، ان سے request کر لیں کہ آپ کوئی quotation ایسی بتا دیں کہ پہلے لوگ معرفت اللہ کی بات کرتے تھے، اب میں اس کی بات کرتا ہوں۔ البتہ حضرت نے یہ فرمایا ہے کہ لوگ یہاں بزرگی کے لئے نہ آئیں بلکہ انسان بننے کے لئے آئیں، کیونکہ میں کامل انسان بناتا ہوں، بزرگ نہیں بناتا، یہ تو معرفت ہے۔ آپ مجھے بتائیں کہ انسانیت میں عبدیت زیادہ ہے یا بزرگی میں عبدیت زیادہ ہے؟ ظاہر ہے جتنا زیادہ اچھا انسان ہوگا اتنا زیادہ Down to earth ہوگا۔ لیکن اگر ان باتوں کو کوئی نہیں سمجھتا، تو اس کے بارے میں ہم کیا کر سکتے ہیں۔ اس سے تو حضرت کی تمام چیزوں کی تشریح میں تضاد آجائے گا، ایک بات سے اور بات سامنے آئے گی، دوسری بات سے اور بات سامنے آئے گی۔ بہرحال حضرت معرفت کے خلاف نہیں تھے، معرفت کو چھوڑا نہیں تھا بلکہ معرفت تک ہی لے جا رہے تھے۔ کیونکہ حضرت کے کچھ اس قسم کے الفاظ بھی ہیں کہ میں پہلے قدم پہ وصال کرتا ہوں، تو لوگوں نے پوچھا کہ حضرت کیسے؟ فرمایا: میں اتباعِ سنت پر لگا دیتا ہوں۔ اتباعِ سنت میں جذب ہے اور جذب میں قبولیت ہے، تو حضرت نے سمجھانے کے لئے یہ باتیں کی ہیں، ورنہ ان کے لئے یہ بات کافی ہے کہ عارف کی دو رکعت نماز غیر عارف کی لاکھوں رکعات سے افضل ہے۔ لہٰذا اللہ جل شانہٗ کی معرفت کو حاصل کرنا چاہیئے۔ میں آپ کو قرآنِ پاک کی آیت سناتا ہوں:

﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ﴾ (الذٰریٰت: 56)

ترجمہ: ’’اور میں نے جنات اور انسانوں کو اس کے سوا کسی اور کام کے لیے پیدا نہیں کیا کہ وہ میری عبادت کریں‘‘۔

یہ آیت سب جانتے ہیں، اس کی تفسیر میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے کہ ’’اَیْ لِیَعْرِفُوْنِ‘‘۔ یعنی ’’لِیَعْبُدُوْنِ‘‘ کا مطلب ’لِیَعْرِفُوْنِ‘‘ ہے۔ یعنی ظاہری معنی عبادت ہے مگر اس کا مطلب ہے کہ مجھے پہچانیں، لہٰذا لِیَعْرِفُوْن یعنی معرفتِ الٰہی یہ تو تخلیق کا مقصد ہے۔ چنانچہ ایسی باتیں کرنا جس میں انسان حد سے نکل جائے، مناسب نہیں ہے۔ جو انہوں نے اخیر میں اس عالم کی بات بتائی کہ Until we see صفائی of معاملات

And how we are concentrating in our معاشرت towards all kinds of people that we come in touch with.

یہ موضوع بالکل الگ ہے، یہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کا موضوع ہے، اس میں معرفت کی تو بات ہی نہیں ہے۔ حضرت فرماتے تھے کہ حقوق اللہ اور حقوق العباد پورے کرنا لازم ہیں، بلکہ فرماتے تھے حقوق اللہ تو اللہ پاک چاہیں گے تو معاف فرما دیں گے کیونکہ اللہ پاک محتاج نہیں ہے، لیکن حقوق العباد میں تو formula یہ لگائیں کہ صاحبِ حق معاف کرے گا تو پھر معافی ہوگی۔ لہٰذا حقوق العباد کے بارے میں حضرت بہت زیادہ زور دیا کرتے تھے، ایک ہمارا یہ topic ہے کہ جتنے بھی اہلِ حق علماء ہیں انہوں نے یہ باتیں کی ہیں اور یہ معاشرت کی بات نہیں ہے یہ حقوق العباد اور حقوق اللہ کی بات ہے اور جتنے بھی حضرات ہیں انہوں نے اس topic پر بات کی ہے۔ البتہ یہ بات الگ ہے کہ اگر کوئی ہے تو وہ مجذوب ہوگا یا مجذوب نہیں ہوگا، اگر وہ مجذوب ہے تو شریعت کا پابند نہیں ہے، لہٰذا اگر وہ نماز بھی صحیح طریقہ سے نہیں پڑھتا تو اللہ تعالیٰ اس سے نہیں پوچھیں گے کیونکہ وہ اس وقت اپنی عقل میں نہیں ہے۔ لیکن اگر وہ عارضی مجذوب ہے تو ایسا ممکن ہے اور اگر دائمی مجذوب ہے تو پھر ویسے ہی قابلِ اقتداء نہیں ہے۔ اور جب وہ مجذوب نہیں ہے بلکہ صحیح ہے تو پھر ان کو ساری چیزیں کرنی پڑتی ہیں، اگر وہ اس طرح ہے کہ باقی چیزیں اس کو نظر نہیں آتیں تو شیخِ کامل ان کو راستہ بتاتا ہے کہ یہ بھی کرنا ہے، یہ بھی کرنا ہے۔ جیسے آپ ﷺ نے حضرت ابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا:

’’وَلِنَفْسِكَ عَلَيْكَ حَقًّا وَلِأَهْلِكَ عَلَيْكَ حَقًّا‘‘ (صحیح بخاری: 6139)

ترجمہ: ’’اور تمہاری جان کا بھی تم پر حق ہے، تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے‘‘۔

لہٰذا صحابہ کے دور میں بھی ایسی بات ہوئی تو آپ ﷺ نے تربیت فرمائی۔ اب شیخِ کامل اس کی تربیت کرتے ہیں۔ تو آپ طریقت کی مثال دے کر طریقت پہ چوٹ نہ کریں، ورنہ ظاہر ہے کہ ہم جتنے بھی بچے ہیں، ان پر ان کے بڑوں کو hit کریں گے کہ بچے ایسا کرتے ہیں تو بڑے بھی ایسے ہیں، یہ تو غلط ہے۔ چنانچہ جو طفلِ طریقت ہوتا ہے وہ تو ان چیزوں کو نہیں جانتا، پھر شیخِ کامل ان کا انتظام کرتے ہیں اور اگر شیخِ کامل کے ساتھ رابطہ نہیں ہے تو پھر شیخِ کامل ذمہ دار ہی نہیں ہے۔ اگر کوئی شیخِ کامل کے ساتھ رابطہ رکھے ہوئے ہے تو وہ سب چیزوں کا اس کو بتاتا ہے، سکھاتا ہے کہ نہیں، یہ نہیں کرنا اور یہ اس طرح کرنا ہے، اس طرح کرنا ہے، بیوی کا تجھ پر یہ حق ہے، ماں کا تجھ پر یہ حق ہے، بھائی کا تجھ پر یہ حق ہے، بہن کا تجھ پر یہ حق ہے اور بیٹے کا۔ یہ سب چیزیں پھر وہ بتاتا ہے، اس کو انگلی سے پکڑ کے چلنا سکھاتا ہے۔ بہرحال دورانِ تربیت ایسی چیزیں عارضی ہوتی ہیں، final نہیں ہوتیں، اس بنا پر آپ institute کو بدنام نہیں کر سکتے۔

جس نے پہلے یہ سوال اٹھایا تھا، اس نے کہا تھا کہ پہلے مشائخ معرفت پر زور دیتے تھے اور اپنے مریدوں سے معرفت حاصل کرواتے تھے لیکن حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے وقت تک یہ پتا چل گیا تھا کہ یہ کام نہیں کر رہا، اس وجہ سے انہوں نے اس کے بعد خود یہ نظریہ قائم کیا کہ معاشرت اور معاملات پر براہِ راست زور دیا جائے، لہٰذا انہوں نے معاشرت اور معاملات پر براہِ راست زور دینا شروع کردیا۔ پہلے وقتوں میں لوگ صرف معرفت حاصل کرتے تھے اور باقی چیزیں ٹھیک ہوتی تھیں۔ پھر حضرت نے فرمایا کہ اب یہ چیزیں اس طرح ٹھیک نہیں ہوتیں اس لئے انہوں نے براہِ راست معاشرت پر زور دیا۔ انگلینڈ کے ہمارے ایک ساتھی ہیں جو اس قسم کا ذوق رکھتے ہیں کہ لوگوں کی مشکلات کو اپنی مشکل سمجھ کر ہمارے سامنے لاتے ہیں اور ان کے سوالات کے جوابات تلاش کرتے ہیں، لیکن چونکہ لوگوں کے اپنی اپنی صواب دید ہوتی ہے، اپنی اپنی priorities ہوتی ہیں، لہٰذا ضروری نہیں کہ وہ priorities ہمارے ساتھ link ہوسکیں، بعض دفعہ ہمیں ان کو نظر انداز کرنا پڑتا ہے۔ جیسے ہمارے ہاں چونکہ مناظرہ نہیں ہے، تصوف اور علم میں یہ دو بڑے فرق ہیں۔ ایک فرق تو یہ ہے کہ تصوف عملی چیز ہے اور علم نظری چیز ہے اور دوسرا فرق یہ ہے کہ تصوف میں طالب کو deal کیا جاتا ہے، اس کو بتایا جاتا ہے جو جاننا چاہتا ہے جو سمجھنا چاہتا ہے جو چلنا چاہتا ہے۔ اور جو غیر طالب ہوں، ان کو جو اس طرف لانا ہوتا ہے، یہ واعظین کا کام ہوتا ہے، علماء کا کام ہوتا ہے کہ وہ دلائل کے ذریعے سے دعوت دیتے ہیں۔ ظاہر ہے ان کا بڑا مقام ہے، اس کے بارے میں ہم یہ نہیں کہتے کہ کم درجے کی چیز ہے۔ لیکن صوفیوں نے اس کام کو اپنے ذمے نہیں لیا، ان کا کام یہ ہوتا ہے کہ جو لوگ اللہ تک پہنچنا چاہتے ہیں یا اللہ کی معرفت حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اس عملی میدان میں آگے آنا چاہتے ہیں تو صوفی حضرات ان کی خدمت کرتے ہیں، پرانے مشائخ یہی کیا کرتے تھے۔ لیکن جو مناظرے کا کام ہے یہ مناظرین اور علماءِ کرام کا ہوتا ہے کہ دلائل کے ساتھ لوگوں کو سمجھاتے ہیں، یہ ان کی field ہے۔ بہرحال آج کل چیزیں کچھ mix ہوگئی ہیں، لہٰذا ہم کبھی کبھی کوشش کرتے ہیں کہ جو border پر ہیں ان لوگوں کو بھی entertain کریں، ان کو بھی کچھ چیزوں کے جوابات دیں تاکہ وہ Clear cut اس طرف آسکیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم اپنا سارا کام اسی کو سمجھیں اور اسی پر ہی اپنی ساری energy ضائع کر دیں اور جو اصل کام ہے جو طالبین کو serve کرنا ہے وہ ہم سے رہ جائے۔ یہ تو خیر بس سبیلِ تذکرہ والی بات ہوگئی لیکن بہرحال انہوں نے یہ سوال اٹھایا تھا تو میں نے اس کا تفصیلی جواب دیا تھا، جو کہ سوال وجواب کے سیشن میں موجود ہے اور اس پر میں نے بہت اہم بات کی تھی کہ اصل میں معرفت، معاشرت کے لئے required نہیں ہے بلکہ معرفت بذاتِ خود مقصود ہے۔

﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ﴾ (الذٰریٰت: 56)

ترجمہ: ’’اور میں نے جنات اور انسانوں کو اس کے سوا کسی اور کام کے لیے پیدا نہیں کیا کہ وہ میری عبادت کریں‘‘۔

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس میں ’’لِیَعْبُدُوْنِ‘‘ کی تفسیر ’’لِیَعْرِفُوْنِ‘‘ بیان کی ہے، تو یہ اس کا مقصد ہے۔ چنانچہ ہماری زندگی کا مقصد تو عبدیت اور معرفت ہے، لہٰذا یہ کوئی ایسی بات نہیں کہ ہم معاشرت کے لئے اس کو درست کرنا چاہتے ہیں۔ کیونکہ معاشرت بذاتِ خود مقصود ہے اور عبادت بھی بذاتِ خود مقصود ہے۔ مثلاً ایک شخص انگریز ہے، مسلمان نہیں ہے لیکن اس کی معاشرت بالکل مسلمانوں کی معاشرت کی طرح ہے یعنی وہ تمام rules اپنے اوپر لاگو کر لیتا ہے۔ جیسے آج کل ناروے وغیرہ میں اور دوسرے ملکوں میں Umar Laws ہیں، تو وہ بھی معاشرت ہے۔ اسی طرح اور چیزیں بھی غیر مسلم ہمارے طریقوں کو اپنائے ہوئے ہیں اور ہم سے زیادہ اچھے طریقے سے وہ عمل کرتے ہیں کیونکہ ان کو دنیا میں فائدہ نظر آتا ہے۔ اصل میں معاشرت کے دو رخ ہیں، ایک تو یہ کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق دین کا ہونا، یہ بہت اہم بات ہے اور اس کے دنیاوی فوائد تو مسلمان کو بھی ملتے ہیں، کافر کو بھی ملتے ہیں۔ مثلاً ایک اسلامی خلافت کا فائدہ صرف مسلمانوں کو تو نہیں ہوتا بلکہ کفار کو بھی فائدہ ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ مسلمان جب کسی جگہ پہ قبضہ کر لیتے تھے تو وہاں کے لوگ جزیہ دینے پر راضی ہوجاتے تھے، بعد میں بعض دفعہ مسلمانوں کو وہ جگہ چھوڑنی پڑتی تو جن سے جزیہ لیا جاتا تھا، وہ روتے تھے کہ آپ نہ جائیں، آپ کا ہونا ہمارے لئے بہت اچھا تھا، ہم بہت زیادہ آرام میں تھے۔ حالانکہ وہ مسلمان نہیں تھے، عیسائی تھے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اگر کسی کی معاشرت ٹھیک ہوجائے تو وہ کامیاب ہوگیا، کامیابی کے لئے اور چیزوں کی بھی ضرورت ہے۔ اور وہ یہ ہیں: نمبر ایک: عقیدے کی ضرورت ہے، اگر عقیدہ صحیح نہیں ہے اور معاشرت اچھی بھی ہو تو وہ فوائد حاصل نہیں ہوں گے، دنیاوی فائدے تو حاصل ہوں گے لیکن آخرت کے فوائد حاصل نہیں ہوں گے۔ اور جو باقی چیزیں ہیں وہ بھی درست ہونی چاہئیں، مثلاً اخلاق درست ہونے چاہئیں، وہ اس کی اپنی requirement ہے اور ساتھ معرفت بھی حاصل ہو کیونکہ معرفت کے مطابق اجر ملتا ہے۔ جیسے اگر عقیدہ ٹھیک نہیں ہے تو بالکل اجر نہیں ملے گا اور اگر عقیدہ ٹھیک ہے تو مل سکتا ہے لیکن ان کو زیادہ ملے گا جن کو معرفت بھی حاصل ہو۔ چنانچہ معرفت کے حاصل ہونے کے جو مزید فوائد ہیں وہ یہی ہیں جیسا کہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا تھا کہ عارف کی دو رکعت کی نماز غیر عارف کی لاکھوں نمازوں سے افضل ہوتی ہے۔ یہ صرف نماز کی حد تک تو نہیں ہے۔ عارف کا دینا، اللہ کے لئے ہے۔ عارف کا کسی کے ساتھ deal کرنا، اللہ کے لئے ہے۔ عارف کا کسی کے ساتھ بات کرنا، اللہ کے لئے ہے، یہ سارے معاملات بھی معاشرت میں آتے ہیں۔ لہٰذا جتنی کسی کی معرفت ہوگی، اسی کے حساب سے اجر ہوگا۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے معاشرت یا معاملات پر جو کام کیا، اس کی وجہ معرفت نہیں تھی بلکہ یہ محنت اس لئے تھی کہ لوگوں نے اس کو ignore کر دیا تھا۔ یہ دین کا حصہ تو ہے، عبادات بھی دین کا حصہ ہیں، معاملات بھی دین کا حصہ ہیں، معاشرت بھی دین کا حصہ ہے، اخلاق بھی دین کا حصہ ہیں۔ اگر آج لوگ عبادات کو سمجھیں کہ عبادات کچھ بھی نہیں ہیں، تو ظاہر ہے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے جو حضرات ہیں وہ عبادات کے لئے کمر کس لیں گے اور ان کے بارے میں بات کریں گے کہ بھائی نماز کے بارے میں یہ قرآن کی آیت ہے اور یہ حدیث شریف ہے، سب ان کو بتانا پڑے گا۔ یہ نہیں کہ ہمارے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے چونکہ معاملات پہ زور دیا، لہٰذا نماز کو جانے دو، اگر کوئی نماز نہیں پڑھتا تو کوئی بات نہیں، یہ تو حالات پر منحصر ہے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اپنے مشائخ کے ساتھ تھوڑا اختلاف کیا ہے، اصل میں یہی بنیادی بات ہے اور چونکہ اللہ پاک نے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کو بصیرت عطا فرمائی تھی، وہ مجدد تھے اور مجدد کی جو بصیرت ہوتی ہے، وہ تو ہوتی ہے لیکن انہوں نے ایک بہت بڑی چیز جو ہمیں دی ہے، شاید جس کا اس عالم کو اندازہ بھی نہیں ہے کہ حضرت نے مقاصد اور ذرائع کے درمیان واضح فرق بیان کیا ہے یعنی جو ذرائع ہیں ان کو مقاصد نہیں سمجھنا چاہئے، ان کو ذریعہ سمجھنا چاہئے اور ذریعے کے احکامات اس پر لاگو ہونے چاہئیں۔ میرے ایک ساتھی تھے، پتا نہیں ان کو کیا ہوگیا تھا، حالانکہ اچھے بھلے ہیں، ان کے خود کے الفاظ ہیں کہ مجھے ان کی مجالس سے فائدہ ہوا ہے لیکن شیطان بعض دفعہ گڑبڑ کرتا ہے، لوگوں کو اور طرف لے جاتا ہے۔ بہرحال انہوں نے میرے بارے میں ایک بزرگ مشرف علی صاحب دامت برکاتھم کی خدمت میں خط بھیجا کہ شبیر صاحب ذکر بالجہر کراتے ہیں، کیا یہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کا طریقہ تھا؟ حضرت نے ان کو جواب دیا کہ نہیں تھا۔ اور بالکل صحیح بات تھی۔ انہوں نے اس خط کو حکیم اختر صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے پاس بھیجا، انہوں نے کہا کہ جی! مشرف علی صاحب صحیح کہہ رہے ہیں۔ جب انہوں مجھے بتایا تو میں اس پر سخت ناراض ہوا، میں نے کہا: آپ نے یہ کیا حرکت کی ہے؟ اگر مجھ سے پوچھتے تو میں بھی یہی جواب دیتا۔ کیا یہ کوئی ایسی بات تھی جس کی آپ نے تحقیق کرنی تھی اور آپ نے اسے بزرگوں کی خدمت میں بھیج دیا۔ یہی تو میرا بھی جواب ہے کہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کا طریقہ نہیں تھا، بلکہ یہ میرے شیخ کا طریقہ بھی نہیں ہے، مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ بھی اس طریقے سے نہیں کراتے تھے، صوفی اقبال صاحب رحمۃ اللہ علیہ بھی اس طریقے سے نہیں کراتے تھے، یہ تو طریقہ نہ میرے شیخ کا ہے نہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کا ہے۔ لیکن اس کے باوجود میں اشرفی ہوں اور تم اشرفی نہیں ہو، اس نے کہا: یہ کیسی بات ہے کہ میں اشرفی ہوں تم اشرفی نہیں ہو؟ میں نے کہا بتاتا ہوں، حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے ہمیں جو چیز سمجھائی ہے کہ ذرائع، ذرائع ہوتے ہیں مقاصد، مقاصد ہوتے ہیں۔ وہ مقصود ہوتے ہیں، وہ قائم رہتے ہیں، ان میں تبدیلی نہیں ہوتی۔ اور ذرائع حالات کے مطابق ہوتے ہیں، وقت کے مطابق ہوتے ہیں، اشخاص کے مطابق ہوتے ہیں، ہر ذریعہ ہر ایک کے لئے نہیں ہوتا۔ جو ذرائع کو مقصد بنا لیتے ہیں، وہ اناڑی بن جاتے ہیں۔ کیونکہ وہ ہر ایک پر ایک ہی چیز فٹ کرتے ہیں، جیسے ایک ہی چابی سے کوئی سارے نٹ کھولنا شروع کر دے، تو کر سکتا ہے؟ ہر نٹ کے لئے الگ چابی ہوتی ہے۔ یہ ایک اناڑی آدمی ہی کر سکتا ہے کہ ہر نٹ کے لئے ایک ہی چابی استعمال کرے۔ بہرحال میں نے کہا یہ ساری چیزیں ذرائع ہیں اور ذرائع تبدیل ہوتے رہتے ہیں، اوقات کے لحاظ سے، حالات کے لحاظ سے۔ میں نے کہا اب اِنْ شَاءَ اللہ سارے مشائخ ذکر بالجہر کی طرف آئیں گے جو میں کرا رہا ہوں۔ کیونکہ یہ آج کل کی ضرورت ہے، وجہ یہ ہے کہ میرے پاس جتنے بھی لوگ آئے ہوئے ہیں، وہ سارے بیٹھ جائیں تو اب ان سب کو میں کیسے مشغول کر سکتا ہوں، کسی ایسے طریقے سے جو ان کا اپنا اپنا ہو؟ تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ میں ان کو اگر جہری طور پر طریقہ سکھاؤں، تو میں ایک ایسے طریقے پہ لے جاؤں جو سب لوگ ایک وقت میں کر سکتے ہیں۔ مثلاً کوئی بچوں کو تجوید کے قواعد اور مخارج سکھا رہا ہو، تو وہ ان سب کو سکھاتا ہے جیسے اَخْ، سب بچے کہتے ہیں اَخْ، یہ خ کا مخرج ہے۔ جیسے اَبْ، سب کہتے ہیں اَبْ، یہ ب کا مخرج ہے۔ تو اس طریقے سے سب کو ایک ہی وقت میں جو بتایا جاتا ہے، تو سب ایک ہی وقت میں سیکھ جاتے ہیں، اس کا یہ فائدہ ہے۔ تو یہ ہم نے مجبوراً شروع کیا ہے کیونکہ آج کل کے دور میں یہ چیز ضروری ہے۔ دوسری بات کہ آج کے دور میں موبائل اور انٹرنیٹ کی وجہ سے ذہنی انتشار ہے، جس کی وجہ سے مراقبات براہِ راست نہیں چل رہے، چنانچہ لوگ توجہ کے ذریعے سے اور شعروں کے ذریعے سے یہ کام کراتے ہیں۔ لہٰذا ہم لوگوں نے ذکرِ جہری کے ذریعے سے کروا دیا۔ یعنی اِس چیز کو اُس طریقے سے حاصل کر لیا۔ بہرحال ذریعے تو تبدیل ہوتے رہتے ہیں، اور جو ذرائع کی تبدیلی، اس کی مؤثریت، اس کی پہچان اور اس کا صحیح جگہوں پر استعمال ہے، یہ ہم نے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ سے سیکھا ہے، لہٰذا میں اشرفی ہوں۔ اور تم اسی چیز کو قیامت تک چلانا چاہتے ہو۔ مثلاً یہ کہا جائے کہ paracetmol کی گولی قیامت تک کے لئے کافی ہے، اس میں کوئی research کی ضرورت نہیں ہے، ٹھیک ہے پھر تم کرو، تم اشرفی نہیں ہو۔ اسی طریقے سے ہم لوگ سمجھتے ہیں کہ ذرائع ذرائع ہوتے ہیں مقاصد مقاصد ہوتے ہیں۔ حضرت کو چونکہ اس کا پتا تھا، اس لئے انہوں نے براہِ راست معاشرت پر زور دیا کیونکہ کچھ لوگ معاشرت کو بالکل دین ہی نہیں سمجھتے تھے، لہٰذا اس وقت اس کی ضرورت تھی۔ میرے پاس حضرت کا وہ article موجود ہے جس کا پہلے میں نے ذکر بھی کیا تھا۔ اور لوگ معاملات کو اتنی اہمیت نہیں دیتے، نتیجتاً لوگ صرف عبادات ہی میں رہ جاتے ہں۔ چنانچہ حضرت صرف ایک step عبادات سے آگے بڑھ گئے، معاملات کی صفائی پر زیادہ زور دیا۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ نماز کی پروا نہیں کی، جو ابھی میں نے article بتایا ہے، اس میں کہیں سے لگتا ہے کہ نماز کی کوئی اہمیت نہیں ہے؟ نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ حضرت ان تمام چیزوں کو وزن دیتے تھے اور فرماتے تھے کہ یہ چیزیں حاصل کرنا آسان ہے لیکن ان کے مقابلے میں معاملات اور معاشرت کی درستگی مشکل ہے، لہٰذا ان پر محنت کی ضرورت ہے۔ یہ نہیں کہ ہم اس کو بالکل ignore ہی کر دیں، مجھے جو انہوں نے ابھی بھیجا ہے کہ اس خانقاہ میں پہلے یہ سبق دیا جاتا تھا کہ پہلے آدمی بنو، بزرگی اور ولایت ڈھونڈتے پھرتے ہو۔ آدمیت سیکھو، بزرگی بیچاری تو ایک دن میں ساتھ ہو لیتی ہے۔ مشکل چیز تو شرافت اور انسانیت ہے، کیفیات، مکاشفات، ذوقیات، کرامات، تصرفات کو تو چھوڑیئے۔ ایک درجے میں حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کو تو اہمیت دینے کے مخالف ہیں، مگر معمولاتِ یومیہ مثلاً تہجد، نوافل، ذکر واذکار، اوراد اور وظائف جو مستحبات کے قبیل سے ہیں ان کے چھوٹ جانے پر بھی کسی سالک پر چیں بجبیں نہیں ہوتے تھے، کسی عذرِ شرعی سے معمولات چھوٹ جانے پر کبھی مؤاخذہ نہیں فرماتے تھے۔ لیکن اگر کوئی بے اصولی بات کرتا ہے، بے فکری کا ثبوت دیتا ہے، حقوق شریعت کا تارک ہوتا، معاملات میں بدنظمی برتتا یا سلیقہ اور امنگ سے کام نہ لیتا یا ناحق کسی کی ناگواری کا باعث ہوتا، تو حضرت فوراً تیور بدل لیتے، سخت اور تیز لہجے میں فوراً اصلاح فرماتے۔ تمام حاضرینِ مجلس کو عموماً اور سالکین کو خصوصاً اس طرف توجہ دلاتے کہ یہ تمام چیزیں دوسروں کی اذیت کا سبب بنتی ہیں اور اذیت نہ پہنچانا واجب ہے۔ ہم تم سب اس کے مکلف ہیں، حقوق العباد اور آزاد معاشرت کی اہمیت جو لوگوں نے فراموش کر دی ہے، اس کی تلقین وتحقیق میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں فرماتے، آپ کی تربیت کا یہ انداز ہر مجلس اور ہر تحریر میں رچا بسا تھا۔

اس میں دیکھیں کن کن چیزوں کو چھوڑا ہے؟ میں اسی تحریر کے مطابق جائزہ لیتا ہوں۔ مستحبات کے بارے میں، اس میں کوئی واجب کی بات کی ہے کہ اس کی پروا نہیں کی؟ فرض نماز کے بارے میں؟ واجب نماز کے بارے میں؟ مستحبات کا درجہ وہی ہے جو مستحبات ہیں، اس وجہ سے ہر شیخ مستحبات کو مستحبات ہی سمجھتا ہے۔ البتہ مستحبات کو اگر کوئی بھی شیخ کسی خاص چیز کو حاصل کرنے کا ذریعہ بنا دے۔ مثلاً ایک شخص تعویذ مانگ رہا ہے اس کو کہتے ہیں: تعویذ کو چھوڑیں آپ تہجد کی نماز پڑھیں، اللہ تعالیٰ سے مانگیں۔ تہجد ہے تو مستحب لیکن تعویذ کے مقابلے میں تو افضل ہے۔ ہر چیز کا اپنا اپنا مقام ہے۔ بہرحال دوسری بات یہ ہے کہ مستحبات صرف نمازوں، روزوں کے نہیں ہوتے۔ معاملات کے بھی مستحبات ہوتے ہیں، معاشرت کے بھی مستحبات ہوتے ہیں، تو اس پر بھی زور نہیں دیتے تھے بلکہ وہ واجبات پر زور دیتے تھے، واجبات تو سب کے آگئے، عبادات کے، فرائض کے، معاملات کے بھی آگئے، معاشرت کے بھی آگئے، اخلاق کے بھی آگئے۔ یہ تو واجبات وفرائض پر زور ہوا۔ اب چونکہ زیادہ تر واجبات کی missing معاملات اور معاشرت میں تھی، اس پر تو زیادہ واضح نظر آیا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ باقی واجبات پر زور نہیں تھا۔ چونکہ اس کی کمی زیادہ تھی، لہٰذا اس پہ زیادہ زور نظر آیا کیونکہ اس کو بار بار repeat کرتے تھے۔ اصل تو واجبات اور فرائض پر زور دیا اور سبحان اللہ مجدد کی یہی تو شان ہوتی ہے یعنی تمام چیزوں کو زندہ کرتا ہے۔ حضرت سید احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ نے دو چیزوں کو زندہ کیا تھا وہ بھی مجدد تھے، جہاد کو زندہ کیا تھا اور حج کو زندہ کیا تھا، کیونکہ حج کے لئے باقاعدہ سب قافلے کی صورت میں گئے ہیں، کیونکہ ہندوستان والوں کا خیال تھا کہ آج کل ہم پر حج ساقط ہوچکا ہے، تو حضرت نے باقاعدہ اس کو ثابت کر دیا کہ نہیں یہ ہوسکتا ہے۔ یہ مجددین تو آتے ہی فرائض وواجبات کو زندہ کرنے، جہاں پر کوئی مسئلہ ہوتا ہے۔ تو حقوق اللہ اور حقوق العباد میں فرق کرنا نہیں آتا۔ اس میں صرف یہ سامنے آتا ہے کہ جہاں جہاں کمی ہے اس پر زور دے دیا، حقوق العباد میں کمی تھی اور آج کل بھی کمی ہے لہٰذا اس پہ زور دینا چاہئے، لیکن یہ مطلب نہیں کہ ہم اس کو مقصد بنا لیں، یہ دین ضرور ہے لیکن دین اس کے لئے نہیں آیا، اگر آج سارے انگریز صحیح معاشرت اختیار کر لیں اور صحیح معاملے کریں اور ان کا عقیدہ ٹھیک نہ ہو تو ان کو کچھ بھی نہیں ملے گا اور اگر عقیدہ ٹھیک ہے تو پھر ان کو معرفت کے مطابق ملے گا۔ اور معرفت تو بذاتِ خود اصلی مقصود ہے، اس کا مقابلہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے کہاں کیا ہے؟ اور بزرگی، یہ معرفت نہیں ہے، پتا نہیں جو اس کو معرفت سمجھتا ہے وہ تو معرفت کے معنی ہی نہیں جانتا، معرفت کی معرفت ہی اس کو حاصل نہیں ہے۔ بزرگی معرفت نہیں ہے، بزرگی تو عجب کی ایک صورت ہے، جو اپنے آپ کو بزرگ سمجھتا ہے وہ تو عجب میں مبتلا ہے اور حضرت اس چیز کے بہت سخت خلاف تھے اور میں نے بھی بزرگی کے خلاف پوری ایک غزل لکھی ہے۔ ہمارے مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں ایک نیم مجذوب تھا، وہ اکثر اس کو چھیڑتے تھے اور کہتے تھے بزرگا بزرگی بڑی دور ہے، بڑی لمبی کجھور ہے۔ اور ہم بھی اس کے بارے میں کہتے ہیں کہ بزرگی کا معرفت کے ساتھ کہاں تعلق ہے، بزرگی تو عدمِ معرفت ہے جس نے اپنے آپ کو دیکھا اور رب کو نہیں دیکھا، وہ کہاں عارف ہے اور جس میں بزرگی ہوتی ہے وہ اپنے آپ کو دیکھتا ہے، تو اس میں معرفت کہاں سے آگئی۔ جس وقت معرفت کسی کو مل جائے تو حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ معرفت کی انتہاء جہالت ہے، وہ اپنے آپ کو جاہل سمجھنے لگتا ہے، وہ تو مقامِ حیرت میں چلا جاتا ہے، وہ تو محویت میں چلا جاتا ہے، وہ تو اس طرح نہیں ہوتا کہ اپنے آپ کو جاننے لگتا ہے بلکہ اپنے آپ کو کچھ بھی نہیں سمجھتا، اگر آپ نے معرفت کو سیکھنا ہے تو شیخ الحدیث رحمۃ اللہ علیہ کی کتابیں پڑھو کہ اس میں کیا کیا لکھا ہے، اپنے بارے میں کیا لکھتے ہیں: گناہگار، سیاہ کار، خطاکار، گنوار اور پتا نہیں کیا کیا چیزیں اپنے بارے میں لکھتے ہیں۔ تو کیوں لکھتے ہیں؟ کیونکہ ان کو اللہ تعالیٰ کی عظمت کی معرفت حاصل تھی، اس لئے اپنے اوپر نظر نہیں تھی۔ آج جس کی اپنے اوپر نظر ہے اور اپنے آپ کو بزرگ سمجھتا ہے، اس کو معرفت کا ایک قطرہ بھی نصیب نہیں ہے۔ جس کو معرفت حاصل ہوتی ہے، کبھی بھی اپنے اوپر اس کی نگاہ نہیں جاتی، جس کی اپنے اوپر نگاہ جاتی ہے، وہ عارف کدھر ہوا! اور معرفت کی قدر ہو تو حضرت امام بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کا قول دیکھیں، جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ حضرت بشرِ حافی رحمۃ اللہ علیہ کی مجلس میں کیوں جاتے ہیں؟ تو حضرت نے فرمایا کہ میں زیادہ سے زیادہ عالم بالقرآن ہوں گا لیکن جو بشرِ حافی رحمۃ اللہ علیہ ہیں یہ عارف باللہ ہیں، یعنی اللہ کی معرفت رکھتا ہے لہٰذا میں اللہ تعالیٰ کی ذات کی معرفت کے لئے جاتا ہوں۔ ان حضرات نے اس کی بڑی قدر کی ہے اور آپ لوگوں نے واقعی بڑی قدر کی کمال کی بات ہے کیا عجیب معرفت آپ کو حاصل ہے۔ بہرحال یہ ہے کہ یہ ذرا غور سے سن لیں کہ ہمارے سارے اکابر دین کے بنیادی تقاضوں کو جانتے ہیں اور بنیادی تقاضے کیا ہیں؟ وہ یہی ہیں کہ تمام ترتیب اس چیز سے لے لو۔ حدیث شریف میں آتا ہے:

’’حضور ﷺ سے جبرائیل علیہ السلام نے پوچھا: ’’مَاالْاِیْمَان؟‘‘ تو حضور ﷺ نے جواب دیا: عقائد کے شعبے بتا دیئے، پھر پوچھا گیا ’’مَاالْاِسْلَام؟‘‘ حضور ﷺ نے اسلام کے ارکان بتا دیئے، پھر حضرت جبرائیل علیہ السلام نے پوچھا: ’’مَاالْاِحْسَان؟‘‘ تو حضور ﷺ نے فرمایا:

’’اَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَاَنَّکَ تَرَاہُ فَاِنْ لَّمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَاِنَّہٗ یَرَاکَ‘‘ (صحیح بخاری: 48)

ترجمہ: ’’تو اس طرح عبادت کر کہ تو اللہ کو دیکھ رہا ہے اگر تو نہیں دیکھ رہا تو اللہ تجھے دیکھ رہا ہے‘‘۔

یعنی جو چیز آپ دیکھ نہیں سکتے جس کا ایمان بالغیب کے ساتھ تعلق ہے اس کو قلبی طور پر ایسا محسوس کرنا جیسا کہ آپ نے دیکھ لیا ہے یہ مَاشَاءَ اللہ رَائی کَالْعَیْن ہوجائے گا، یعنی جیسا کہ آپ نے دیکھ لیا ہے، یہ چیز تو باقاعدہ حدیث شریف میں موجود ہے آپ حدیث شریف سے کیسے نکالیں گے۔ تو اس طریقے سے جنت اور دوزخ کے بارے میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا کہ اگر میں آج جنت اور دوزخ کو دیکھ بھی لوں تو میرے یقین میں ذرہ بھر بھی فرق نہیں آئے گا۔ یعنی ان کو پہلے سے وہ چیز حاصل تھی۔ یہ ایمان بالغیب شروع سے ہوتا ہے لیکن پھر بعد میں جس وقت انسان ترقی کرتا ہے، طریقت کے ذریعے سے شریعت پر مکمل چلتا ہے، پھر اس پہ حقیقتیں کھلتی ہیں، ان حقائق کے کھلنے کی وجہ سے ان پہ معرفت کے ابواب کھلتے ہیں، پھر ان کو وہ چیزیں نصیب ہوتی ہیں جو ایمان بالغیب کے قبیل سے ہوتی ہیں اور ان کو ایسی محسوس ہوتی ہیں جیسا کہ انہوں نے وہ چیزیں دیکھی ہوں۔ تو اصل میں معرفت میں اسی طریقے سے بڑھنا ہوتا ہے، بالآخر انسان جب عارف باللہ ہوجاتا ہے تو فناءِ محض میں چلا جاتا ہے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی کتابوں سے فنا اور بقا کو نکالو، موجود ہے یا نہیں ہے اور کتنے زور کے ساتھ موجود ہے۔ آپ حضرت کی اور کتابیں بھی پڑھیں ’’طریق القلندر‘‘ کا وعظ پڑھیں، انہوں نے کیا کیا فرمایا:

صنما رہِ قلندر سزد ار بمن نمائی

کہ دراز و دور دیدم رہ و رسم پارسائی

اس میں حضرت نے فرمایا کہ لوگ اعمال کرتے ہیں لیکن اعمال کی روح ان کو حاصل نہیں ہوتی۔ تو اعمال کی روح حاصل کرنے کے لئے جس میں بالخصوص مثلاً آپ معاشرت کی تمام چیزیں کر لیں لیکن آپ اللہ کے لئے اس کو نہیں کر رہے ہیں تو ظاہر ہے اس چیز کی روح تو حاصل نہیں ہوگی۔ تو اصل بنیاد کیا ہے؟ وہ روح کو حاصل کرنا ہوتا ہے، آخر روح کی بات ہے وہ مَا الْاِحْسَان میں آتی ہے۔ لہٰذا ان چیزوں کو حاصل کرنے کے لئے حضرت نے بہت کچھ فرمایا ہے۔ حضرت کے مَاشَاءَ اللہ بہت سے مواعظ اور ملفوظات ہیں، جو میں بتا سکتا ہوں، لیکن ایک بات آخر میں بتاتا ہوں کہ میں مناظر نہیں ہوں اور میں اپنا وقت مناظروں میں ضائع نہیں کرنا چاہتا، اس کے لئے کچھ اور لوگ ہیں، ان سے آپ بات کر لیں، ان کا وقت لے لیں، خدا کے لئے ہمارا وقت ان چیزوں میں نہ لگوائیں۔ اور میں اس سوال کرنے والے کو کہتا ہوں کہ آئندہ ان کے اس قسم کے سوال کا جواب نہیں دیا جائے گا۔ میرے خیال میں اس کی اپنی کمزوری ہے کہ ہر ایک آدمی سے متاثر ہوجاتے ہیں۔ اگر اس طرح کمزور اور دل پھینک آدمی ہے تو جہاں دل پھینکنا چاہتے ہیں پھینکے، کیونکہ اگر حق کو قبول ہی نہیں کرتا چاہتے، اس کو کتنا ہی حق سمجھایا جائے حق سمجھ ہی نہیں آتا۔ تو ایسے آدمی کے ساتھ کیا کیا جائے؟ خواہ مخواہ اپنا وقت ضائع کیا جائے۔ تو ایسے لوگوں پر ہم اپنا وقت ضائع نہیں کرتے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ ایسے لوگوں پر اپنا وقت ضائع نہیں کرتے تھے، جیسے ایک صاحب نے کہا کہ حضرت میرا کام ہوجائے ورنہ پھر میں۔ فرمایا: کیا ہوجائے گا؟ کہتا عیسائی ہوجاؤں گا، حضرت نے ایک بھرپور تھپڑ اس کو مارا اور فرمایا کہ جا کم بخت عیسائی ہوجا، اسلام کو تیری کوئی حاجت نہیں ہے۔ اس نے کہا کہ حضرت اور مارنا ہے تو مارو ویسے دماغ ٹھیک ہوگیا ہے۔ ایسے لوگوں کے ساتھ پھر ایسے ہونا چاہئے، بہرحال ہمیں ایسے لوگوں کی ضرورت نہیں ہے جو خواہ مخواہ ادھر ادھر کے غیر مقلدوں کی باتوں میں آجاتے ہیں، دوسرے لوگوں کی باتوں میں آجاتے ہیں اور اپنے بزرگوں کے اوپر چوٹ کرنا شروع کر دیتے ہیں اور اپنے بزرگوں کی بات سمجھنا چھوڑ دیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی ہمیں کیا ضرورت ہے! ہمیں ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو ماننے والے ہوں، جو سمجھنے والے ہوں، جو طالب ہوں اور جو طالب نہیں وہ اپنا کام کریں۔ ہمارے پاس اتنا ٹائم نہیں ہے ان پر وقت لگانے کے لئے، یہ میں نے آخری طور پر بھرپور جواب اس لئے دے دیا تاکہ کوئی یہ محسوس نہ کرے کہ میرے پاس جواب نہیں تھا، اَلْحَمْدُ لِلّٰہ جواب ہوتا ہے لیکن ضروری نہیں کہ ہم ہر وقت جواب دیں۔ تو آئندہ کے لئے میرا وقت صرف ان لوگوں کے لئے ہے جو سمجھنا چاہتے ہیں، جو جاننا چاہتے ہیں، جو ماننا چاہتے ہیں، ان کے لئے ہم حاضر ہیں۔ جن کو ہمارے سے تشفی نہیں ہوتی وہ ان کے پاس چلے جائیں جن سے ان کی تشفی ہوتی ہے، ان کا اپنا کام ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو سب کو اپنی جگہ پر صِرَاطِ مُسْتَقِیْم پہ رکھیں، ہدایت نصیب فرما دیں۔ میں دل سے دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہدایت تامہ عطا فرما دیں۔

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ