سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 695

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال نمبر 1:

حضرت سالک کو خود پتا چل جاتا ہے کہ وہ مجذوب متمکن کے status میں ہے یا نہیں ہے، جذب اسے حاصل ہوگیا ہے اور وہ سلوک کی منازل طے نہیں کر پا رہا، کیا اسے خود احساس ہوتا ہے؟

جواب:

اصل میں جس شیخ کے ساتھ اس کا تعلق ہے اگر وہ اس کی بات نہیں مان رہا تو پھر تو وہ خود ذمہ دار ہے اور اگر وہ اس کی بات مان رہا ہے تو پھر شیخ کو پتا ہوگا کہ اس وقت وہ کس position میں ہے۔ اس بات کا احساس کرنا کہ اب میں کس condition میں ہوں، یہ meter پر depend کرتا ہے کہ meter صحیح ہے یا نہیں، monitoring system صحیح ہے یا نہیں، اگر monitoring system غلط ہوگا تو اپنے آپ کو کامل سمجھے گا لیکن وہ کامل نہیں ہوگا اور اگر صحیح ہوگا تو کامل ہوگا، اور اپنے آپ کو کامل نہیں سمجھے گا۔ جیسے مولانا زکریا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کامل تھے لیکن اپنے آپ کو کہتے تھے: میں ناکارہ، سیاہ کار، خطاکار اور پتا نہیں اپنے آپ کو کیا کیا کہتے تھے۔ لوگ حیران ہوتے تھے کہ یہ کیا کہہ رہے ہیں، اتنے بڑے بزرگ ہیں اور ایسی باتیں کر رہے ہیں۔ لیکن ان کو وہی نظر آتا تھا، کیونکہ reference shift ہوگیا تھا۔ چونکہ شیخ نے ان کو اجازت دے دی تھی تو اس کا مطلب ہے کہ وہ کامل تھے لیکن وہ اپنے آپ کو کامل نہیں سمجھتے تھے۔

سوال نمبر 2:

حضرت اولاد کی تربیت کے حوالے سے سوال ہے کہ اگر میاں بیوی دونوں ہی اپنے کاموں میں بہت مصروف ہوں تو پھر اولاد کو اس کے ساتھ کس طرح manage کریں؟

جواب:

آپ نے فرمایا: کاموں میں بہت مصروف ہوں۔ تو وہ کام، کیا اس کام سے اہم ہیں؟

سوال نمبر 3:

موجودہ حالات میں ہم کس طرح اپنی اصلاح کریں کہ ہمارے اعمال ایسے ہوجائیں، جن کو کرتے ہوئے ہمارے مسائل کم سے کم ہوجائیں۔ اور ہم شاید آخر زماں میں قدم رکھ چکے ہیں، تو as a امت ہمیں کس طرح move کرنا چاہئے؟

جواب:

اس کا جواب حدیث شریف میں موجود ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’کہ ایک وقت آئے گا کہ میری امت پر لوگ اس طرح حملے کے لئے آئیں گے جس طرح کھانے کے دسترخوان پہ چیزیں پڑی ہوں اور اس کے لئے بلایا جاتا ہے کہ آؤ کھانا کھا لو، اس طرح لوگوں کو بلایا جائے گا۔ تو صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے پوچھا یارسول اللہ ﷺ: کیا اس وقت ہم تعداد میں کم ہوں گے؟ فرمایا: نہیں! تعداد میں تو بہت زیادہ ہوں گے۔ تو پوچھا گیا پھر کیا ہوگا؟ حضور ﷺ نے فرمایا: دنیا کی محبت اور موت سے نفرت‘‘۔ (ابوداؤد، حدیث نمبر: 4297)

یعنی جو شخص مرنے کے لئے تیار نہیں ہے، اس کو زندہ رہنے کا حق نہیں دیا جاتا۔ تو یہ بنیادی بات ہے۔ جیسا کہ جو لوگ مردہ ہوجائیں، جیسا کہ حدیث شریف میں آتا ہے:

’’مَثَلُ الَّذِيْ يَذْكُرُ رَبَّهٗ وَالَّذِيْ لَا يَذْكُرُ رَبَّهٗ، مَثَلُ الْحَيِّ وَالْمَيِّت‘‘ (صحیح بخاری: 6407)

ترجمہ: ’’اس شخص کی مثال جو اپنے رب کو یاد کرتا ہے اور اس کی مثال جو اپنے رب کو یاد نہیں کرتا زندہ اور مردہ جیسی ہے‘‘۔

غافل لوگ تو مردوں کی طرح ہیں، چنانچہ مردوں پر تو کوئی بھی حملہ کر سکتا ہے۔ اور جو زندہ لوگ ہیں، ان سے لوگ ڈرتے ہیں کہ ان پہ حملہ کریں گے تو دوسری طرف سے جواب آئے گا۔ یعنی ہمیں اس چیز کو بڑھانا پڑے گا، حدیث شریف کی رو سے اصل علاج تو یہی ہے۔ البتہ وقتی طور پر اپنے آپ کو ان کے شر سے بچانے کے لئے ایک دعا آج کل بہت پڑھنی چاہئے، لوگوں نے پوچھا تھا تو میں نے اپنے گروپ میں بھی دے دی ہے: ’’اَللّٰهُمَّ إِنَّا نَجْعَلُكَ فِيْ نُحُوْرِهِمْ وَنَعُوْذُ بِكَ مِنْ شُرُوْرِهِمْ‘‘ 313 مرتبہ روزانہ۔ یہ دعا مسلمانوں کو آج کل کثرت کے ساتھ پڑھنی چاہئے، آخر مسلمان اللہ کے بندے ہیں، ان کے دل میں ایمان ہے، لہٰذا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو یہ چیز حاصل ہے۔ اس وجہ سے یہ دعا کثرت کے ساتھ کریں تاکہ کم ازکم حفاظت تو ہو۔ باقی اصل علاج تو یہ ہے کہ دوسرے لوگ جو جرات کرتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے اندر کمی ہے، اس کمی کو دور کرنا پڑے گا۔

سوال نمبر 4:

میری ایک بیٹی اور ایک بیٹا ہے، بیٹی سترہ کی سال ہے اور بیٹا انیس سال کا ہے۔ دونوں حافظِ قرآن ہیں، اور آپس میں بحث وتکرار بہت زیادہ کرتے ہیں، ان کی آپس میں بالکل نہیں بنتی، دونوں نافرمانی والے کام کرتے ہیں۔ ان کی تربیت کے بارے میں کچھ فرما دیں۔

جواب:

اصل میں بحث وتکرار اگر مثبت انداز میں ہو تو بری بات نہیں ہے۔ میرے اَلْحَمْدُ لِلّٰہ دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے، بیٹی نے قرآنِ پاک کا ترجمہ پڑھا ہے، تفسیر نہیں پڑھی تھی۔ بیٹے حافظِ قرآن ہیں اَلْحَمْدُ لِلّٰہ۔ ایک دفعہ ان کے اندر بحث چھڑ گئی کہ جب جہری نماز پڑھتے ہیں تو کیا حافظوں کو زیادہ concentration حاصل ہوتی ہے یا جن کو ترجمہ وتفسیر یاد ہو انہیں، تو ان کے درمیان اچھی خاصی بحث ہوگئی۔ میں سن رہا تھا اور خوش بھی ہورہا تھا کہ بڑی اچھی بات ہے۔ آخر میں، میں نے فیصلہ کیا کہ دونوں کو فائدہ ہوتا ہے۔ البتہ دونوں کو فائدہ اپنے اپنے طریقے سے ہوتا ہے کہ جو حافظ ہوتے ہیں ان کو اگلی آیتوں کا پتا چلتا ہے، لہٰذا ان کی توجہ اس میں ہوتی ہے تو یہ قرآن سننے میں مشغول ہوتے ہیں۔ اور جنہوں نے ترجمہ وتفسیر پڑھا ہوتا ہے، ان کو معنی کا استحضار ہوتا ہے اور ان کو پتا چلتا ہے کہ کون سا مضمون چل رہا ہے یعنی تدبر فی القرآن کے لحاظ سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ اور جن کو دونوں حاصل ہوں تو ظاہر ہے ان کو دونوں فائدے ہوں گے۔ بہرحال مثبت انداز میں فائدہ پہنچانے کے لئے نفسانیت اور انانیت کو کم کرنا پڑے گا، کیونکہ نفسانیت اور انانیت ہوگی تو وہ دوسرے کی خوبی کو نہیں دیکھیں گے، بلکہ اپنی خوبی کو دیکھیں گے۔ تو اس سے پھر اس قسم کی بحث پیدا ہوگی یعنی ہر ایک اپنی بات پہ زور دے گا کہ میں اچھا، اور دوسرا کہے گا کہ میں اچھا ہوں۔ تو اس چیز سے نکالنے کے لئے پھر ان میں للّٰہیت پیدا کرنی پڑے گی اور للّٰہیت کا مطلب ہے کہ اللہ والوں کے ساتھ ان کا تعلق ہو، ان کی اصلاح ہورہی ہو۔ جب اصلاح ہوجاتی ہے تو اپنے عیوب کی طرف نظر ہونا شروع ہوجاتی ہے اور جب اپنے عیوب پہ نظر پڑجاتی ہے تو پھر دوسروں کے عیوب سے انسان کو سروکار نہیں ہوتا۔ جیسے ابھی میں نے عرض کیا کہ کوئی بھی آدمی ہسپتال میں اپنا نمبر کسی کو نہیں دیتا کیونکہ اس کو احساس ہوتا ہے کہ مجھے بھی ضرورت ہے۔ اس وجہ سے اگر آپ ان کی کسی روحانی اصلاح کی طرف diversion کر دیں تو آہستہ آہستہ وہ اس طرف آجائیں گے، ایک دن میں تو نہیں ہوسکے گا لیکن کم ازکم بہتری کی طرف جائیں گے اِنْ شَاءَ اللہ۔

سوال نمبر 5:

حضرت شریعت پر عمل کرنے کے لئے دل سے کوئی تیار نہیں ہوتا، ایسے کون سے اعمال کیے جائیں کہ جس سے دل اس طرف متوجہ ہوجائے؟

جواب:

ایک تو دل پر محنت ہو اور دوسری طرف یہ کہ دل کو کون سی چیز روک رہی ہے؟ نفس روک رہا ہے، یعنی کہ نفس اس طرف نہیں چل رہا۔ اصل میں شریعت تو اعمال ہیں، کچھ چیزوں کے کرنے کا حکم ہے، کچھ چیزوں کو نہ کرنے کا حکم ہے۔ اگر شریعت حکم دے دے کہ یہ کام کرو اور نفس کو نہ کرنے میں دلچسپی ہو، اور اگر شریعت کہتی ہے کہ یہ کام نہ کرو اور نفس کو کرنے میں دلچسپی ہو، مقابلہ تو ہوگا۔ اب اگر نفس پرزور ہوگا تو شریعت کی بات پہ نہیں آسکے گا اور اگر نفس تابع ہو چکا ہوگا یعنی اس کو surrender حاصل ہوچکا ہو، عبدیت حاصل ہوچکی ہو، تو پھر وہ عمل کرے گا۔ چنانچہ بنیادی طور پر شریعت کے لئے مزاحمت صرف نفس اور جو خراب دل ہے وہی کرتا ہے۔ لہٰذا اگر وہ ٹھیک ہوجائے تو پھر اِنْ شَاءَ اللہ شریعت پر عمل کرے گا اور اس کو فائدہ ہوگا۔

سوال نمبر 6:

آج کل جیسے گناہ کرنا اتنا آسان ہوگیا ہے کہ لوگ فخر محسوس کرتے ہیں، تو اس دور میں ہم کیسے اپنے آپ کو بچائیں اور آگے آنے والی generation کے لئے یہ چیزیں اور بھی آسان ہوتی جائیں گی، تو ان کی تربیت کیسے کی جائے؟

جواب:

ماشاء اللہ بہت اچھا سوال ہے۔ اصل میں گناہ یقیناً آسان ہوگیا ہے لیکن جنت کمانا بھی آسان ہوگیا ہے۔ جنت کمانا اس لئے آسان ہوگیا ہے کہ اگر کوئی شخص اپنا گناہ کا تقاضا دبائے گا تو جتنا زوردار تقاضا ہوگا اتنا ہی زیادہ وہ جنت کی طرف جائے گا۔ مثلاً اگر آپ بال کو سخت دیوار پر ماریں تو جتنی زور سے آپ ماریں گے اتنی زور سے بال واپس آئے گی۔ اگر اس میں رکاوٹ آئے گی، تو رکاوٹ سے وہ rebound ہوگا۔ ہمارے نفس کے فجور کے لئے راستے تو بہت ہیں، جیسے اب انٹرنیٹ پر بہت گندی چیزیں ہوتی ہیں اور بالکل پاس ہی ہوتی ہیں یعنی کسی وقت بھی انسان دیکھ سکتا ہے۔ اب اگر کوئی شخص نہیں دیکھ رہا، حالانکہ وہ دیکھ سکتا ہے، تو متقی ہے۔ اور جس درجے کا اس کا دیکھنے کا تقاضا ہے اور وہ نہیں دیکھ رہا تو وہ اتنا ہی زیادہ متقی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں ارشاد فرمایا:

﴿اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْؕ﴾ (الحجرات: 13)

ترجمہ: ’’درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ متقی ہو‘‘۔

یعنی اتنا ہی زیادہ وہ اللہ کا ولی ہے۔ مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:

شہوتِ دنیا، مثلِ گلخن است

ازوِ حمامِ تقویٰ روشن است

دنیا کی شہوت خس و خاشاک کی طرح ہے، اسی کے ذریعہ سے تقویٰ کا حمام روشن ہے۔ لہٰذا انسان کا برائی کی طرف مائل ہونے سے بچنے کی، مزاحمت کی جو صلاحیت ہے وہ تقویٰ ہے، تو اس لحاظ سے وہ اتنا ہی آگے جائے گا جتنا برائی اس کو اپنی طرف کھینچے گی۔

سوال نمبر 7:

حضرت والدہ اور بیوی میں اگر جھگڑا ہوجائے اور دونوں میں ایک صحیح ہو اور دوسری غلطی پر ہو تو ایسی صورت میں مرد کو کیا کرنا چاہئے؟ کس کا ساتھ دینا چاہئے؟

جواب:

والدہ کے اپنے حقوق ہوتے ہیں، بیوی کے اپنے حقوق ہوتے ہیں، تو اب بیوی کی وجہ سے والدہ کے حقوق کو تلف نہیں کرنا چاہئے اور والدہ کی وجہ سے بیوی کے حقوق کو تلف نہیں کرنا چاہئے۔ مثلاً ایک دکان آپ کی والدہ کی ملکیت ہے اور ایک گاڑی آپ کی بیوی کی ملکیت میں ہے، تو آپ کی بیوی کو یہ حق نہیں ہوگا کہ وہ دکان پہ قبضہ کرلیں اور آپ کی ماں کو یہ حق نہیں کہ وہ بیوی کی گاڑی پر قبضہ کرلیں۔ اللہ پاک نے جو عقل مردوں کو دی ہے اس کے ذریعے ان کے درمیان balance کرنا ہوتا ہے، قرآنِ پاک میں ارشاد ہے:

﴿اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَى النِّسَآءِ﴾ (النساء: 34)

ترجمہ: ’’مرد عورتوں کے نگران ہیں‘‘۔

یہ نگرانی اسی لئے دی ہے کہ جو دو جذباتی مخلوقات ماں اور بیوی کے جذبات کی وجہ سے اپنی عقل کو نہ کھوئیں اور ایسا فیصلہ کریں جو صحیح اور شریعت کے مطابق ہو۔ البتہ حکمت سے کام لیں، حکمت یہ ہے کہ والدہ کی بات تو نہیں ماننی لیکن یہ بھی نہیں کہنا کہ میں آپکی بات نہیں مانوں گا، ٹال مٹول کے ذریعے سے اور باتوں باتوں میں ان کو سمجھانے کے ذریعے سے کام چلائیں، اور بیوی کے ساتھ بھی ایسا ہی کریں کیونکہ دونوں ناقص العقل ہیں۔ لہٰذا وہ تو اپنا اپنا حق جتائیں گی اور روئیں گی، آپس میں لڑیں گی بھی، لیکن ہم نے ان کی بات نہیں سننی، ہم نے تو اللہ تعالیٰ کی بات ماننی ہے۔ جس طرف اللہ ہوگا، ظاہر ہے ہم ان کے ساتھ ہوں گے۔ اصل میں اس معاملہ میں آج کل بہت بے احتیاطی ہے کہ انسان ایک طرف کے کچھ فضائل سنتا ہے تو دوسری طرف کے فضائل سے غافل ہوجاتا ہے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے بڑی عجیب بات فرمائی کہ جس عورت پر تیری وجہ سے دوسرے سارے مردوں کی طرف دیکھنا منع ہے، اگر تو بھی اس سے روگردانی کرے گا تو اس کا کیا حال ہوگا۔ ظاہر ہے اللہ تعالیٰ نے اس کی جگہ بنائی ہے، اب آپ وہ جگہ اس پر بند کریں گے تو پھر کیا کرے گی؟ اسی طریقے سے اس کا اپنا حق ہے اور والدہ کا اپنا حق ہے کیونکہ والدہ نے آپ کو پالا پوسا اور بڑی محنت کرکے سب کیا ہے، تو ظاہر ہے اس کا اپنا حق ہے۔ اب دونوں کے حقوق میں جس کا حق غالب ہو، اسی کی بات ماننی پڑے گی اور اپنی نفسانیت کی وجہ سے کسی کے حق کو نہیں مارنا۔

سوال نمبر 8:

فجور کی صورت تو سمجھ آجاتی ہے لیکن تقویٰ کی کیا صورت ہے؟

جواب:

اصل میں فجور بھی ایک force ہے اور تقویٰ بھی ایک force ہے۔ اب ایک طرف سے فجور آرہے ہیں اور دوسری طرف سے تقویٰ ان کو resist کر رہا ہے تو ان کو روک دیتا ہے۔ اگر فجور غالب آجائے تو تقویٰ پیچھے ہوجائے گا، گویا کہ وہ گناہ ہوجائے گا اور اگر تقویٰ غالب آجائے تو فجور پیچھے ہوجائے گا گناہ نہیں ہوگا۔ اس لحاظ سے یہ دونوں forces ہیں، البتہ ان دونوں کا اثر دل پر ہوتا ہے۔ فجور سے اس کے اندر برائیاں اور غفلت آجاتی ہے اور تقویٰ سے دل بیدار ہوجاتا ہے۔ (سالک کا سوال) دل بھی اثر کرتا ہے؟ (حضرت کا جواب) نہیں! دونوں نفس میں پیدا ہوتے ہیں اور دل پر اثر کرتے ہیں، دل گویا کہ اس کا store ہے۔ فجور کی وجہ سے گناہ ہوں گے تو گناہ بھی دل میں store ہوں گے اور اگر تقویٰ ہوگا تو وہ بھی دل میں store ہوگا۔ آپ ﷺ نے فرمایا:

’’اَلتَّقْوٰى هَهُنَا وَيُشِيرُ إِلَى صَدْرِهِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ‘‘۔ (صحیح مسلم، حدیث نمبر: 2564)

ترجمہ: ’’تقویٰ یہاں ہے اور دل کی طرف اشارہ فرمایا اور تین دفعہ یہ بات فرمائی‘‘۔

اور فجور کے بارے میں فرمایا کہ:

’’انسان جب گناہ کرتا ہے، اگر وہ اس پہ توبہ نہیں کرتا تو اس کے دل پہ ایک سیاہ داغ لگ جاتا ہے اور اگر وہ دوبارہ گناہ کرتا ہے تو پھر اس کے دل پہ ایک اور سیاہ داغ لگ جاتا ہے، اس طرح ہوتے ہوتے دل داغوں سے بھر جاتا ہے، پھر اس پر ہدایت کی کوئی بات اثر نہیں کرتی‘‘ (ترمذی: 3334)

یعنی ملفوف ہوجاتا ہے، اس کا مطلب ہے کہ دونوں چیزیں دل پر اثر کرتی ہیں۔

سوال نمبر 9:

اور اگر کوئی اس stage تک آگیا ہے تو اس کو راہِ راست بلانے کی کوشش کریں یا کس طرح اسے help out کیا جائے کیا؟

جواب:

اس کو کسی اللہ والے کے ساتھ ملانا ہوگا تاکہ وہ اس کے ساتھ تعلق بنائے اور اپنی اصلاح کے لئے کوشش کرے۔ پھر اس کو طریقہ بتائے گا، کیونکہ ایک طریقہ نہیں ہے، جتنے لوگ ہیں، اتنے طریقے ہیں۔ ظاہر ہے اب یہ کتابوں میں تو نہیں آسکتے، تو اس کے لئے شیخ ہوتا ہے۔ جیسے ایک ڈاکٹر ہے اس نے کتابیں تو بہت پڑھی ہوتی ہیں لیکن ہر مریض کے ساتھ الگ الگ معاملہ کرتے ہیں۔ اسی طرح شیخ بھی ہر مرید کے ساتھ الگ الگ معاملہ کرے گا یعنی سب کے ساتھ ایک جیسی بات نہیں کر سکتے۔ سکول میں بعض لڑکے ایسے ہوتے تھے کہ ان کو ڈنڈے مار کر کام کرایا جاتا تھا اور بعض کے سامنے کسی کو مارا جاتا تو ان کا کام بھی خراب ہوجاتا تھا۔ تو دونوں کے ساتھ ایک جیسی بات ہوسکتی تھی؟ کسی کو شرافت سے بات سمجھانے پر وہ بالکل alert ہوجاتے ہیں اور کسی کو مار مار کے کام کروانا پڑتا ہے۔

سوال نمبر 10:

اسباب کی فروانی کے باوجود توکل علی اللہ کی کیفیت دل میں ٹھہرتی نہیں ہے، بعض اوقات محرومی کی کیفیت دل میں گھر کر لیتی ہے۔

جواب:

اسباب کی فراوانی تو توکل پیدا نہیں کرتی، وہ تو توکل کو disturb کرتی ہے۔ اصل میں صرف اسباب پر یقین کرنا تو توکل کے خلاف ہے، لیکن اسباب کو اختیار کرنا توکل کے خلاف نہیں ہے، البتہ اسباب کو شریعت کے مطابق اختیار کرنا لازم ہے۔ لیکن اسباب کو مؤثر حقیقی سمجھنا اور اسباب سے ہوتے ہوئے سمجھنا، یہ توکل کے خلاف ہے، کیونکہ اللہ پاک اس پر قادر ہے کہ اسباب آپ کے پاس ہوں گے اور پھر بھی کام ان سے نہیں ہوگا، اگر کسی کے دل پہ یہ طاری ہوجائے تو اسباب کو اختیار ضرور کرے گا لیکن پھر بھی اللہ تعالیٰ سے ہی مانگے گا کہ اگر اللہ تو چاہے گا تو ہوگا۔ ہمارے شیخ ایک دفعہ فرما رہے تھے کہ ایسا توکل تو ایک بچہ بھی کر سکتا ہے کہ پیسے پاس نہ ہوں اور آدمی کہہ دے کہ بس اللہ چاہے گا تو ہوگا۔ فرمایا کہ اصل توکل تو یہی ہے کہ بینک بھرے ہوں لیکن پھر بھی کہے کہ اللہ چاہے گا تو ہوگا۔ تو اللہ جل شانہٗ نے دل کی جو کیفیت بنائی ہوتی ہے، توکل کا تعلق اس کیفیت کے ساتھ ہوتا ہے اور یوں کہہ سکتے ہیں کہ کچھ stages کے بعد آتا ہے۔ مثلاً پہلی stage توبہ ہے، پھر انابت ہے، اس کے بعد قناعت ہے، پھر ریاضت ہے، پھر تقویٰ ہے، پھر صبر ہے، پھر زہد ہے، ان تمام چیزوں کو حاصل کرنے کے بعد پھر توکل آتا ہے۔ کیونکہ یہ ساری رکاوٹیں ہیں، مثلاً اگر صبر نہیں ہے تو توکل کیا کرو گے، کر سکتے ہو؟ زہد نہیں ہوگا تو توکل کیا کرو گے؟ قناعت نہیں ہوگی تو توکل کیا کرو گے؟ ریاضت نہیں ہے تو توکل کیا کرو گے؟ تقویٰ نہیں ہوگا تو توکل کیا کرو گے؟ چنانچہ ان تمام چیزوں کو حاصل کرنے کے بعد توکل حاصل ہوگا اور جب توکل کرنا آجائے گا، پھر تسلیم سمجھ میں آجاتا ہے، پھر انسان شریعت کی تمام باتوں کو دل سے تسلیم کر لیتا ہے۔ اور جب یہ مقام آجائے تو پھر مقامِ رضا سامنے آجاتا ہے گویا کہ انسان واقعی اللہ تعالیٰ سے راضی ہوجاتا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ سے راضی ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس سے راضی ہوجاتا ہے، تو یہ باقاعدہ step by step procedure ہے۔ اصل میں ہم لوگوں نے فضائل تو سنے ہوتے ہیں لیکن اس کو حاصل کرنے کے جو procedures ہوتے ہیں اس کو ہم نے نہیں پڑھا ہوتا، اس وجہ سے پریشانی ہوتی ہے۔

سوال نمبر 11:

حضرت ہم نماز پڑھتے ہیں، ذکر اذکار بھی کرتے ہیں، درود شریف پڑھتے ہیں لیکن دل میں خوفِ خدا ہفتہ، دس دن رہتا ہے، ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اس کی اصلاح فرما دیں۔

جواب:

میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ اگر چھلنی میں پانی بھرنا چاہیں تو اس میں کتنا پانی ٹھہرے گا؟ بالکل نہیں ٹھہرے گا۔ البتہ چند سوراخ بند ہوں تو کچھ نہ کچھ ٹھہر جائے گا۔ ہمارا حال یہی ہے کہ جو چیز بھی آتی ہے آگے گزر جاتی ہے۔ اسی طرح نفس اپنے طور پہ موجود ہوتا ہے لیکن ہم اسے control نہیں کرتے تو اس کو جب قابو کیا جائے گا، اور سوراخ بند کیے جائیں گے تو پھر انسان کو جو حاصل ہوگا وہ باقی رہے گا۔ تربیت وظیفوں سے نہیں ہوا کرتی بلکہ وظیفہ صرف دل کی اصلاح کے لئے کافی ہوسکتا ہے، نفس کی اصلاح کے لئے وظیفے نہیں ہوتے، اس کے لئے کوشش، محنت اور مجاہدہ ہے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿وَالَّذِیْنَ جَاهَدُوْا فِیْنَا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَاؕ﴾ (العنکبوت: 69)

ترجمہ: ’’اور جن لوگوں نے ہماری خاطر کوشش کی ہے، ہم انہیں ضرور بالضرور اپنے راستوں پر پہنچائیں گے‘‘۔

سوال نمبر 12:

ایمان کی کیفیت بدلتی رہتی ہے، یہ بھی گذشتہ question سے related ہے۔

جواب:

قلب کا معنیٰ ہی بدلنے والی چیز ہے۔ حدیث شریف میں ہے:

’’إِنَّ قُلُوبَ بَنِيْ آدَمَ كُلِّهَا بَيْنَ أُصْبُعَيْنِ مِنْ أَصَابِعِ الرَّحْمٰنَ كَقَلْبِ وَاحِدٍ يَّصْرِفْهٗ حَيْثُ يَشَاءُ‘‘ (صحیح مسلم: 6750)

ترجمہ: ’’بنی آدم کے سارے دل ایک دل کی صورت میں اللہ تعالیٰ کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان ہیں، وہ جس طرح چاہتا ہے اسے (ان سب کو) گھماتا ہے‘‘۔

تو احوال اس طرح بدلتے ہیں، لیکن انسان اللہ کی طرف متوجہ ہو اور کوشش کررہا ہے تو اللہ تعالی فرماتے ہے:

﴿وَالَّذِیْنَ جَاهَدُوْا فِیْنَا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَاؕ﴾ (العنکبوت: 69)

ترجمہ: ’’اور جن لوگوں نے ہماری خاطر کوشش کی ہے، ہم انہیں ضرور بالضرور اپنے راستوں پر پہنچائیں گے‘‘۔

تو پھر اللہ پاک کی طرف سے ہدایت کے راستے آتے ہیں اور ساتھ ساتھ دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا کرنے کے جو ذرائع ہیں ان کو اپنا لے۔ اور سب سے بڑی بات کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿وَبِالْاٰخِرَةِ هُمْ یُوْقِنُوْنَ (البقرۃ:4)

ترجمہ: ’’اور آخرت پر وہ مکمل یقین رکھتے ہیں‘‘۔

یعنی جب آخرت پر یقین بڑھے گا تو چیزیں control ہوں گی۔ پھر اِنْ شَاءَ اللہ مثبت انداز میں دل بدلے گا۔

سوال نمبر 13:

حضرت جی اہداف میں کیسے بہتری لائیں؟ جیسے نماز پڑھتے ہوئے کئی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ خیالات آنے لگ جاتے ہیں۔

جواب:

خیالات آنے پہ پابندی نہیں ہے، بلکہ خیالات لانے پہ پابندی ہے۔ آپ اپنے والا حصہ کرلیں کہ خیالات لائیں نہیں تو آنے کی پروا نہ کریں۔ جیسا کہ سڑک پہ کتنے لوگ چلتے ہیں لیکن کیا ہم سڑک پہ چلنے والوں کی پروا کرتے ہیں؟ بس اپنی direction میں جاتے ہیں، ان کی پروا نہیں کرتے۔

سوال نمبر 14:

حضرت آپ نے ابھی تصرف کا ذکر کیا، اس کی تعریف کیا ہے اور آپ نے کہا کہ ان کا استعمال کچھ جگہوں پہ جائز ہے۔ وہ کون سی جگہیں ہیں؟

جواب:

تصرف اس کو کہتے ہیں، جیسا کہ جسمانی اسباب ہوتے ہیں، اس کے ذریعے سے آپ کوئی کام کرنا چاہیں تو ان اسباب کو استعمال کرنے سے وہ کام ہوجاتا ہے۔ اسی طریقے سے کچھ باطنی اسباب بھی ہوتے ہیں، جیسے توجہ ہے، کچھ اور ذرائع بھی ہیں۔ مثلاً ایک شخص کو پتا ہے کہ اگر میں کسی کو غصیلی نگاہوں سے دیکھوں تو اس کو نقصان ہوجائے گا، تو اس کو اس کا حق ادا کرنا پڑے گا۔ حضرت مرزا مظہر جانِ جاناں رحمۃ اللہ علیہ کا مزاج بڑا نازک تھا، اس وجہ سے ان کو جلدی تکلیف ہوجاتی تھی۔ ان کا یہ حال تھا کہ اگر کوئی غلط بات کرتا یا کوئی ایسا کام کرتا جو ان کی طبیعت کے خلاف ہوتا تو حضرت کے سر میں درد ہوجاتا تھا اور ان کے سر درد ہونے کی وجہ سے اس شخص کو نقصان پہنچتا، تو کچھ لوگوں نے کہا کہ حضرت آپ معاف کر دیا کریں۔ حضرت نے فرمایا: میں نے تو ان کو پہلے سے معاف کیا ہوتا ہے، کیونکہ آپﷺ کی امت ہے۔ لیکن کیا کروں، اللہ تعالیٰ معاف نہیں کرتے۔ ایسے لوگوں کے لئے آپﷺ نے باقاعدہ دعا کی ہے کہ یا اللہ! میں بھی بندہ ہوں، اگر کسی نے مجھے کوئی تکلیف پہنچائی ہے تو میری بات جو میں نے ان کے خلاف کی، وہ اس کے لئے خیر بنا دے، ان کے لئے دعا بنا دے۔ چنانچہ ان کے لئے خیر کے جذبات استعمال کرے، باقی جائز وہی ہے جو شریعت کے مطابق ہے۔ بلعم بن باعوراء مستجاب الدعوات تھے، انہوں نے غلط چیز کے لئے دعا کی، تو ساری چیزیں سلب ہوگئیں۔

سوال نمبر 15:

موجودہ دور میں نظر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ فلاں کو سخت نظر ہے اور ہر کوئی اس میں ملوث ہے، اس کی وجہ سے زیادہ پریشانی ہے۔ اور تعویذات کا بھی بہت رواج ہے، اس کے متعلق کچھ فرما دیں۔

جواب:

نظر تو برحق ہے، آپ کی بات سے جو میں سمجھا ہوں، وہ نظر جس سے تکلیف ہوتی ہے، یعنی جسے نظر لگ جانا کہتے ہیں۔ یہ حق ہے، اس کے متعلق حدیث شریف میں ہے:

’’اَلْعَیْنُ حَقٌّ‘‘ (صحیح بخاری: 5740)

ترجمہ: ’’نظرِ بد لگنا حق ہے‘‘۔

اور حضور ﷺ نے یہ بھی فرمایا:

’’اَلْعَيْنُ تُدْخِلُ الرَّجُلَ الْقَبْرَ، وَالْجَمَلَ الْقِدْ‘‘ (حلية الأولياء وطبقات الأصفياء، ج7 ص: 90)

ترجمہ: ’’نظرِ بد آدمی کو قبر میں اور اونٹ کو ہانڈی میں داخل کر دیتی ہے‘‘۔

تو یہ ہوسکتا ہے۔ لیکن جن کو پتا ہو کہ میری نظر لگتی ہے، ان کے لئے warning ہے کہ وہ اس کی تلافی کریں یا تو ایسی چیزوں کو دیکھیں نہیں، جس سے ان کی نظر لگتی ہو یا اس کے ساتھ فوراً اپنی دعا اور مَاشَاءَ اللہ ملایا کریں۔ مَاشَاءَ اللہ دل کی دعا کے ساتھ ہو، صرف الفاظ نہ ہوں۔ بعض لوگ الفاظ تو کہتے ہیں لیکن دل ساتھ نہیں ہوتا، تو ان کی نظر پھر بھی لگ جاتی ہے۔ لیکن مَاشَاءَ اللہ کہہ کر دل کی دعا بھی ساتھ ہو، کہ اس کو نظر نہ لگے۔ ورنہ وہ مکلف ہوتا ہے، اس کے بارے میں اس سے پوچھا جاسکتا ہے۔ بعض لوگوں کی نظر واقعی لگتی ہے اور قصداً نظر لگانا بہت خبیث حرکت ہے۔ لیکن اگر قصداً نہیں لگا رہا، غلطی سے لگ جاتی ہے تو اس کے لئے بھی اس کو alert رہنا چاہئے اور اس کے لئے لوگوں سے پوچھ کے کوئی بندوبست کرنا چاہئے کہ میری نظر لگتی ہے، میں کیا کروں۔ باقی جو تعویذات کی بات ہے، جہاں تک میرا علم ہے، نظر کے خلاف تعویذ کرنا بڑا مشکل کام ہے۔ حضراتِ حسنین کریمین کو بھی نظر لگ جاتی تھی، تو آپ ﷺ ان کو دم فرماتے تھے۔ اس کے اندر اللہ تعالیٰ کی طرف سے بڑی حکمت ہے۔ اگر نظر نہ لگتی تو مالدار لوگ، غریب لوگوں کی زندگی اجیرن کر دیتے، ان کے سامنے سب کچھ کھاتے، سب استعمال کرتے۔ اب کم ازکم نظر لگنے کی وجہ سے چھپ کے کرتے ہیں کہ نظر لگ جائے گی۔ تو اس میں خیر ہے یا نہیں؟ چونکہ اس میں حکمت ہے۔ لہٰذا جس کی نظر لگتی ہو وہ احتیاط کرے اور جس کو نظر لگتی ہو وہ بھی احتیاط کرے کہ چھپا کے کرے۔ آخر حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنے بیٹوں سے کہا تھا کہ مختلف دروازوں سے داخل ہوجاؤ۔ لیکن ہوگا تو وہی جو اللہ چاہے گا۔

سوال نمبر 16:

حضرت قرآنِ پاک کی تلاوت، مناجاتِ مقبول یا چہل احادیث اور درود شریف ہم پڑھتے ہیں، تو اکثر ساتھی آج کل سہولت کے لئے موبائل سے پڑھ لیتے ہیں۔ تو موبائل سے پڑھنا، زبانی پڑھنا اور کتاب سے پڑھنا، اس سے اس کی نورانیت میں یا روحانیت میں کوئی فرق پڑتا ہے؟

جواب:

جی بالکل فرق پڑتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک شخص کو چھوٹے سائز کے قرآن سے پڑھتے دیکھ لیا، تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کو ڈانٹا کہ بڑے سائز کے قرآن سے پڑھا کرو، اس سے قرآن پاک کی عظمت آپ کے دل میں کم ہوسکتی ہے۔ لیکن وہ تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور کی بات تھی اور اس وقت لوگوں کا معیار بھی بہت بلند تھا۔ اس دور میں جو موبائل سے بھی پڑھ لیتے ہیں، تو شکر کریں کہ کم ازکم پڑھ تو لیتے ہیں۔ جس کو خود اس چیز کا احساس ہو، اس کو ایسا نہیں کرنا چاہئے بلکہ مصحف شریف سے پڑھنا چاہئے۔ لیکن اگر مصحف شریف سے پڑھنے سے ناغہ ہوتا ہو تو پھر ناغے کرنے سے بہتر ہے کہ موبائل سے پڑھ لیں۔

سوال نمبر 17:

عبقات کے درس میں بتایا گیا تھا کہ جو کچھ ہورہا ہے، اللہ تعالیٰ کر رہے ہیں، چاہے برائی جو بظاہر نظر آرہی ہے۔ اب جیسے آپ نے حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ والا واقعہ سنایا، اگر اس تناظر سے اس کی تشریح کی جائے تو یہ کہ قربانی کا جذبہ دکھانے کے لئے اور دوسری طرف سے برائی والی بات بھی ہے۔ حالانکہ برائی سے نفرت بھی کرنی چاہئے، تو کس طرح ان کی explanation کریں؟

جواب:

اللہ جل شانہٗ کی طرف کسی برائی کو منسوب نہیں کرنا چاہئے، عبقات میں یہی بات فرمائی ہے اور اس کو باقاعدہ دلائل سے ثابت کیا ہے۔ اس کی اصل تو ایسی ہوتی ہے اور بعد میں جو ظِل آتا ہے وہ مختلف ہوتا ہے۔ لہٰذا اللہ کی طرف برائی منسوب نہیں ہوسکتی، اللہ کی طرف تو ہمیشہ خیر ہی منسوب ہوگی۔ اگر آپ اس ادب کو جاننا چاہتے ہیں تو سورۂ کہف پڑھیں، اس سورۃ میں حضرت خضر علیہ السلام کے تین واقعات ہیں، ان تین واقعات کی وجہ کیا بیان کرتے ہیں؟ ایک واقعہ کی نسبت خود اپنی طرف کرتے ہیں، ایک کی دونوں کی طرف نسبت کرتے ہیں اور ایک کی محض اللہ کی طرف نسبت کرتے ہیں۔ یعنی ادب ملحوظ رکھنا چاہئے، اگرچہ اصل کام تو اللہ تعالیٰ ہی کرتے ہیں لیکن اگر شریعت کے احکامات اس کے ساتھ وابستہ ہوں تو اس میں خیر اللہ کی طرف سے ہوگی اور شر ہماری طرف سے ہوگا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قول سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے کہ ایک دفعہ مشورہ ہورہا تھا تو مشورے میں حضرت بھی اپنی رائے دے رہے تھے، اور فرمایا میری بھی ایک رائے ہے، اگر وہ صحیح ہے تو اللہ کی طرف سے ہے اور اگر غلط ہے تو میری طرف سے اور شیطان کی طرف سے ہے۔ ہمیں دیکھنا چاہئے کہ اگر کوئی بھی غلط بات ہو تو وہ اللہ کی طرف منسوب نہیں کرنی چاہئے لیکن اس میں جو خیر کا پہلو ہوگا، اس کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرنا چاہئے۔

سوال نمبر 18:

شاہ صاحب! جب ہم اس ماحول سے باہر جائیں گے تو gradually یہ چیز تھوڑی سی dim ہوتی جائے گی، بھولتے جائیں گے اور شر اس کے اوپر حاوی ہوتا جائے گا۔ تو باہر جانے کے بعد اس کو کیسے alive رکھنا ہے؟

جواب:

در اصل ایک ہوتا ہے انعکاسی فیض۔ تو جب آپ اصلاحی ماحول میں ہوتے ہیں تو اس کے ساتھ انعکاسی فیض ہوتا ہے اور جب ماحول سے باہر چلے جاتے ہیں تو وہ ختم ہوجاتا ہے۔ جیسے آپ heater کے سامنے بیٹھے ہوں تو گرمی لگے گی اور اگر آپ heater سے دور ہوجائیں گے تو پھر آپ کو گرمی نہیں لگے گی، اسی طرح آپ آئینے کے سامنے بیٹھیں گے تو آپ کی شکل نظر آئے گی اور جب ہٹ جائیں گے تو پھر نہیں آئے گی، یہ انعکاسی فیض ہے۔ انعکاسی فیض عارضی ہوتا ہے لیکن یہ شروع کرنے کا ذریعہ ہوتا ہے، یعنی انسان اس کو دیکھ لیتا ہے کہ ایسا ہوتا ہے۔ ایک گرمی heater کی ہے اور ایک گرمی کشتہ کھانے کی ہوتی ہے، تو کشتہ کھانے کی گرمی باہر جا کر ختم نہیں ہوگی، بس وہ گرمی پیدا کرو۔ اس کے لئے معمولات ہیں، معمولات اسی لئے دیئے جاتے ہیں کہ آپ اس کے ذریعے سے اپنے اندر تبدیلی پیدا کریں، وہ تبدیلی آپ کے ساتھ جائے گی، اس سے آپ کا دل بنے گا، آپ کے نفس کی اصلاح ہوگی، آپ کی عقل کی اصلاح ہوگی۔ بس شیخ کے ساتھ رابطہ قوی ہو اور معمولات کا اہتمام ہو، یہ دو چیزیں ضروری ہیں۔ اگر کسی کے شیخ نہیں ہیں تو شیخ کو تلاش کرنا چاہئے، اس کے بغیر یہ چیز نہیں ہوسکتی اور اس کو القائی فیض کہتے ہیں۔ چنانچہ انعکاسی فیض سے انکار نہ کریں کیونکہ وہ start کے لئے ضروری ہے۔ جیسے جب گاڑی چلاتے ہیں تو پہلے self لگاتے ہیں، self مستقل تو نہیں لگتا، تھوڑی دیر کے لئے ہوتا ہے لیکن گاڑی تو چل پڑتی ہے۔ اس لئے آپ یوں کریں کہ انعکاسی فیض سے start لیں اور القائی فیض سے اس پہ استمرار حاصل کرلیں، پھر جہاں پر بھی ہوں گے تو آپ کے ساتھ یہ فیض رہے گا اِنْ شَاءَ اللہ۔

سوال نمبر 19:

دعا کس طرح مانگنی چاہئے اور دعا مانگنے کے کیا تقاضے ہیں؟ دوسری بات کیا دعا تقدیر میں لکھے کو بدل سکتی ہے یا نہیں؟ اس بارے میں تھوڑی رہنمائی فرما دیں جَزَاکَ اللہ۔

جواب:

حضور ﷺ کا ارشاد ہے:

’’اَلدُّعَاءُ مُخُّ الْعِبَادَۃ‘‘ (سنن ترمذی: 3371)

ترجمہ: ’’دعا عبادت کا مغز ہے‘‘۔

ایک اور حدیث میں فرمایا:

’’اَلدُّعَاءُ ھُوَ الْعِبَادَۃ‘‘ (ابو داؤد: 1479)

ترجمہ: ’’دعا ہی عبادت ہے‘‘۔

قرآنِ پاک میں ہے:

﴿اُدْعُوْنِیْۤ اَسْتَجِبْ لَكُمْ (المومن: 60)

ترجمہ: ’’مجھے پکارو، میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا‘‘۔

یہ قرآن وحدیث سے اس کا استدلال ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دعا کا حکم دیا ہے، لہٰذا اللہ کا حکم سمجھ کر دعا کرنی چاہئے اور اپنی حاجات کو سامنے رکھ کر دعا کرنی چاہئے، اپنے لئے وہ مانگنا چاہئے جو آپ کی سمجھ میں بہتر ہو۔ لیکن جو اللہ تعالیٰ بہتر سمجھتا ہے، اس پہ آپ کو راضی ہونا پڑے گا۔ کیونکہ جو چیز ہم بہتر سمجھتے ہیں ضروری نہیں کہ وہ بہتر ہو۔ جیسے قرآن میں ارشاد ہے:

﴿وَعَسٰۤى اَنْ تَكْرَهُوْا شَیْــٴًـا وَّهُوَ خَیْرٌ لَّكُمْۚ وَعَسٰۤى اَنْ تُحِبُّوْا شَیْــٴًـا وَّهُوَ شَرٌّ لَّكُمْؕ وَاللّٰهُ یَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ﴾ (البقرۃ: 216)

ترجمہ: ’’اور یہ عین ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو برا سمجھو حالانکہ وہ تمہارے حق میں بہتر ہو، اور یہ بھی ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو پسند کرو، حالانکہ وہ تمہارے حق میں بری ہو، اور (اصل حقیقت تو) اللہ جانتا ہے، اور تم نہیں جانتے‘‘۔

لہٰذا ہمیں اپنی سمجھ کے مطابق اپنے لئے بہترین دعا کرنی چاہئے، لیکن جو اللہ پاک ہمارے لئے بہتر سمجھتے ہیں، جب اس کا فیصلہ ہوجائے تو اس پر ہمیں راضی ہونا چاہئے، یہ ادب کا تقاضا بھی ہے۔ کیونکہ ہم تقدیر کو نہیں دیکھیں گے بلکہ ہم اللہ تعالیٰ کو دیکھیں گے اور تقدیر اسی کے ہاتھ میں ہے۔ جب ہم اللہ تعالیٰ سے مانگتے ہیں تو تقدیر کو درمیان میں کیوں لاتے ہیں؟ اللہ کی ہستی ہے، اللہ نے تقدیر لکھی ہے، اللہ تعالیٰ سب کچھ کر سکتے ہیں۔ آپ ذہن پر بوجھ نہ ڈالیں، آپ کہہ دیں:

﴿فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ (البروج: 16)

ترجمہ: ’’جو کچھ ارادہ کرتا ہے کر گزرتا ہے‘‘۔

اللہ جل شانہٗ ہم پر ہم سے زیادہ مہربان ہے۔ تو میں درمیان میں تقدیر کو کیوں لاؤں؟ مجھے کیا پتہ تقدیر میں کیا لکھا ہے، میں خواہ مخواہ اپنے آپ کو کیوں confuse کروں۔ جس چیز کو میں سمجھتا ہوں کہ میری تقدیر میں لکھا ہے، تو کیا اس پر یقین ہے؟ وہ تو ہمیں معلوم نہیں ہے۔ جو ہماری سمجھ کے مطابق ہو، ہم اس کو مانگیں اور جو اللہ پاک نے ہمارے لئے بہتر سمجھا، وہی تقدیر ہوگا۔

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ