اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال نمبر 1:
السلام علیکم و رحمۃ اللّٰہ و برکاتہ۔ حضرت! میں ساہیوال سے ہوں۔ پچھلے مہینے میرا ذکر جاری رہا، لیکن مصروف ہونے کی وجہ سے تقریبا دس دن نہیں ہوا۔ خدمت کی وجہ سے ہسپتال میں دو دفعہ گیا، ایک دفعہ امی کے ساتھ گیا، اور ایک دفعہ بیوی کے ساتھ۔ اور بعض دفع گھر کے کام کی وجہ سے منزل کا بھی یہی حال ہے۔ الحمد للّٰہ باقی سارا کچھ ٹھیک ہے، البتہ اللّٰہ کی طرف سے پیسے میں کچھ تنگی آئی ہے، جو کہ امید ہے عنقریب ختم ہوجائے گی۔ ذکر کے وقت جیسے پہلے کچھ محسوس نہیں ہوتا تو اب بھی ایسا ہی ہے۔ میرا ذکر 200 مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘ ہے، 400 مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ ہے، 600 مرتبہ ’’حَقْ‘‘ہے اور ڈھائی ہزار مرتبہ ’’اَللہ‘‘ ہے۔
جواب:
بھائی صاحب! اصل میں بات یہ ہے کہ آپ کی بات بالکل صحیح ہے، مصروفیات تو ہوتی رہتی ہیں، لیکن اس میں وقت نکالنا یہ ہر ایک کا اپنا کام ہے۔ البتہ مصروفیات میں صرف اتنی بات کی گنجائش تو ہوتی ہے کہ اگر آگے پیچھے ہوجائے تو کوئی مسئلہ نہیں، لیکن بالکل ختم کرنا یہ ٹھیک نہیں ہے۔ اس کے لئے آپ سوچیں کہ آپ اس کے لئے کیسے وقت نکالتے ہیں۔ مثال کے طور پر ڈھائی ہزار مرتبہ ’’اَللہ اَللہ‘‘ اس کو مختلف حصوں میں بھی کرسکتے ہیں، لیکن 200، 400 مرتبہ والا ذکر اور 600 مرتبہ ’’حَقْ‘‘ اور 100 دفعہ یہ ایک وقت میں کر لیا کریں کیونکہ اس پر اتنا زیادہ وقت نہیں لگتا، اس کے لئے کوئی وقت نکال ہی لیا کریں۔
سوال نمبر 2:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ میری ایک بیٹی آپ سے بیعت ہوگئی ہے الحمد للّٰہ، دوسری بیٹی اس وقت سفر میں ہے، وہ پشاور رہتی ہے، وہ پوچھ رہی ہے کہ اگر ممکن ہو تو کل یا پرسوں 3 بجے ہی بیعت کر لیں۔
جواب:
بالکل ٹھیک ہے، ایسی کوئی بات نہیں ہے، پرسوں کر لے یا کل کر لے۔ 3 بجے exact فون کر لے تاکہ میں ادھر ادھر نہ ہوجاؤں۔ کیونکہ جب تین بجے کا وقت دیا ہوتا ہے اور پھر 3 بج کر 5 منٹ یا 10 منٹ تک کوئی فون نہ آئے تو میں کسی اور کام میں مصروف ہوسکتا ہوں۔ اس لئے کم از کم میسج کر لیں اور 3 بجے exact فون کر لیں۔
سوال نمبر 3:
السلام علیکم۔ حضرت! لاہور سے بات کر رہا ہوں۔ گزشتہ ماہ آپ نے مجھے جہری ذکر ’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ‘‘ 200 مرتبہ، ’’لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ 400 مرتبہ اور ’’حَقْ‘‘ 600 مرتبہ اور اس کے ساتھ ساڑھے دس ہزار مرتبہ ’’اَللہ اَللہ‘‘ بڑھانے کا فرمایا تھا۔ جس کو الحمد للّٰہ ایک مہینہ مکمل ہو چکا ہے۔ آپ سے مزید رہنمائی کی درخواست ہے۔ علاوہ ازیں اہل خانہ کی تربیت کے معاملہ میں بھی رہنمائی کی گزارش ہے، مثلاً ان کو ٹی وی سے روکنے کے لئے کس حد تک سختی کرنی چاہئے؟
جواب:
سب سے پہلی بات یہ ہے کہ آپ گیارہ ہزار مرتبہ ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کریں۔ دوسری بات یہ ہے کہ آپ اہل خانہ پر سختی نہ کریں۔ لیکن کیا ان کی تربیت کا سلسلہ کسی کے ساتھ ہے یا نہیں؟ اگر ہے تو ٹھیک ہے پھر یہ تمام باتیں اس راستے سے ان کو پہنچا دیں، اور اگر نہیں ہے تو پھر اس کی کچھ کوشش کیجئے یعنی اس کی ترغیب دے دیجئے کیونکہ ایسے مسائل میں یہی طریقۂ کار ٹھیک ہوتا ہے۔ چنانچہ ایک صاحب جو مجھ سے بیعت ہوئے تھے (یہ کافی پرانی بات ہے) اس نے مجھ سے کہا کہ میری بیوی پردہ نہیں کرتی، کیا میں اس کو کہوں؟ میں نے کہا نہیں، ہرگز نہ کہیں بلکہ آپ صرف ان کو ہماری جو خواتین کی مجلس ہے اس میں لانے کی کوشش کر لیا کریں، یہ آپ کا کام ہے، باقی اللّٰہ تعالیٰ کی مرضی ہوگی تو ان شاء اللّٰہ فائدہ ہوجائے گا۔ بہرحال پھر وہ باقاعدگی کے ساتھ ہر ہفتے ان کو لائے تو جب تین مہینے ہوگئے تو اس نے خود ہی بیعت کے لئے درخواست کی، اور بیعت ہوگئی اور پھر اس کے ساتھ ہی اس نے شرعی پردہ شروع کر لیا۔ شرعی پردہ بہت سارے دینی گھرانوں میں بھی نہیں ہے، اور اس نے شرعی پردہ شروع کر لیا۔ لہٰذا یہی طریقہ مناسب ہے۔
سوال نمبر 4:
السلام علیکم و رحمۃ اللّٰہ و برکاتہ۔ حضرت! میں جہلم سے بات کر رہا ہوں۔ ان شاء اللّٰہ آپ بخیریت ہوں گے۔ حضرت جی! میری فجر کی نماز اکثر قضاء ہوجاتی ہے۔ میری پہلے اور نمازیں بھی قضاء ہیں۔ ان کو کیسے ادا کروں؟ رہنمائی فرمائیں۔
جواب:
سب سے پہلے جو فجر کی نماز قضاء ہو رہی ہے اس کا بندبست کر لیں، اس کی وجہ مجھے بتا دیں کہ اس کی کیا وجہ ہوسکتی ہے؟ اگر دیر سے سونا وجہ ہے، تو اس میں آپ کی کیا مجبوری ہے؟ وہ ذرا مجھے بتا دیں تاکہ اسی حیثیت سے پھر میں آپ کو بتا دوں۔ کیونکہ سب سے پہلے تو اس قضاء ہونے کو روکیں۔ پھر اس کے بعد باقی قضاء کرنے کی نوبت آئے گی۔
سوال نمبر 5:
السلام علیکم۔ میرا 15 منٹ کا لطيفۂ روح پر خاص فیض کا مراقبہ ہے۔ اس میں آپ نے اللّٰہ پاک کی صفات کے بارے میں سوچنے کا کہا تھا۔ وہ کون کون سے صفات آپ نے بتائی تھیں؟ kindly مجھے voice میں بتا دیجئے۔ میں یاد کر لوں گی۔ اور صفات کا just ایک مرتبہ start میں سوچنا ہے یا پورے 15 منٹ؟
جواب:
دراصل اللّٰہ جل شانہٗ کی جو خاص صفات ہیں، جن کو صفاتِ ثبوتیہ کہتے ہیں، مثلاً اللّٰہ جل شانہٗ حَیٌّ ہیں، اللّٰہ جل شانہٗ سنتے ہیں، اللّٰہ جل شانہٗ دیکھتے ہیں، اللّٰہ جل شانہٗ کلام فرماتے ہیں اور اللّٰہ پاک کا ارادہ اصل ہے، اللّٰہ پاک کا علم ہے اور اللّٰہ پاک نے ساری مخلوقات کو پیدا کیا، تکوین کے مالک ہیں اور اللّٰہ پاک کی قدرت ہے۔ یہ 8 خاص صفات ہیں، ان 8 صفات کے بارے میں آپ کو اگر معلوم ہو جیسا کہ میں نے بتا دی ہیں یعنی صرف یہ معلوم ہونی چاہئیں کہ یہ صفات ہیں اور پھر ان کے بارے میں سوچنا چاہئے، مثلاً 4 آدمی ہیں اور میں کہتا ہوں کہ ان 4 آدمیوں کے ساتھ میرا معاملہ ہے۔ تو اس وقت میں ان کو یاد تو نہیں کروں گا کہ فلاں آدمی، فلاں آدمی، فلاں آدمی اور فلاں آدمی، بلکہ صرف ان 4 آدمیوں کا مجھے پتا ہوگا کہ ان کے ساتھ میرا معاملہ ہے۔ اسی طریقے سے ان 8 صفات کے بارے میں آپ نے اپنے ذہن میں یہ رکھنا ہے کہ ان کا جو فیض ہے وہ اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے آپ ﷺ کی طرف اور آپ ﷺ کی طرف سے شیخ کی طرف اور شیخ کی طرف سے آپ کے لطيفۂ روح پر آرہا ہے۔ بس یہ آپ نے کرنا ہے۔
سوال نمبر 6:
السلام علیکم و رحمۃ اللّٰہ و برکاتہ۔ حضرت! درود شریف کثرت سے پڑھتا ہوں، تو درودِ ابراہیمی زیادہ پڑھنا چاہئے یا چھوٹا درود صَلَّی اللّٰہُ عَلٰی النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ؟ اور کیا دونوں درودوں کی فضیلت ایک جیسی ہے؟
جواب:
فضیلت تو یقینا درود ابراہیمی کی زیادہ ہے۔ اس لئے تو اس کو نماز کے لئے چن لیا گیا ہے۔ لیکن تعداد میں کم پڑھا جاتا ہے جبکہ صَلَّی اللّٰہُ عَلٰی النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ یہ تعداد میں زیادہ پڑھا جاتا ہے، جس سے اس کی کمی اس طرح پوری ہوجاتی ہے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں، جس طرح ذوق ہو مثلاً اگر زیادہ پڑھنے کا ذوق ہو تو پھر زیادہ تعداد میں اس کو پڑھیں اور اگر زیادہ فضیلت والے کا ذوق ہو تو پھر فضائل میں زیادہ درود ابراہیمی ہے وہ پڑھیں۔
سوال نمبر 7:
حضرت! دو ماہ سے معمولات کا پرچہ نہیں بھیجا۔ پانچوں لطائف پر ذکر کر رہا ہوں۔ یکم جنوری سے بلاناغہ پرچہ حل کرنا شروع کر لیا ہے۔
جواب:
جی بالکل باقاعدہ اور بلاناغہ آپ اس کو حل کر لیا کریں اور پھر بھیج دیا کریں۔
سوال نمبر 8:
حضرت! مراقبے میں یکسوئی حاصل نہیں ہوتی اور خیالات بہت آتے ہیں۔
جواب:
مراقبے میں یکسوئی ان شاء اللّٰہ آہستہ آہستہ آتی رہے گی، آپ اپنے اعمال جاری رکھیں اور اس میں ناغہ نہ کریں، توجہ اور یکسوئی کے ساتھ بیٹھنے کی کوشش کریں اور اس طرح بھی نہیں کہ اپنے آپ سے لڑنا شروع کر لیں۔ بس فضول خیالات کی طرف توجہ نہ دیں۔
سوال نمبر 9:
السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ۔ حضرت! میں جب کسی سے بات کرتی ہوں تو باتوں ہی باتوں میں وہ باتیں بھی نکل جاتی ہیں جو میں بتانا نہیں چاہتی۔ پھر بعد میں اس چیز کا افسوس ہوتا ہے کہ اگر اس وقت خیال آجاتا تو یہ بات نہ کرتی۔ اس پر کنٹرول کیسے کروں؟
جواب:
دیکھیں! انسان اگر کھانا کھاتا ہو اور اس کو پتا ہو کہ یہ چیزیں مفید ہیں اور یہ چیزیں مفید نہیں ہیں، اور اس سے مجھے نقصان ہوتا ہے، تو کیا خیال ہے اس پر کنٹرول کیسے کیا جائے گا؟ اس کا ہاتھ اگر نقصان دہ چیز ہی کی طرف جاتا ہو تو اس میں کوئی اور اس کی مدد کرسکتا ہے؟ نہیں، بلکہ یہی کرنا پڑے گا کہ اپنے ذہن کو، اپنے آپ کو اس کی طرف متوجہ رکھنا ہے کہ کوئی نقصان دہ چیز نہ کھائیں۔ لہٰذا کھانے کے لئے آپ کا ذہن جس طرح متوجہ ہوتا ہے اسی طریقے سے آپ کوئی ایسی بات نہ کریں جس سے بعد میں پشیمانی ہو۔
سوال نمبر 10:
السلام علیکم۔ نام فلاں تعلیم فلاں شہر فلاں حضرت! میری تسبیحات کلمہ سوم، درود ابراہیمی اور استغفار ہیں۔ لسانی ذکر ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘ 200 مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ 400 مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ 600 مرتبہ اور ’’اَللہ‘‘ 500 مرتبہ ہے۔ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘ کا ذکر کرنے کے بعد جب خاموش ہوجاتا ہوں تو تب بھی میرے اندر ذکر جاری رہتا ہے اور کافی دیر تک یہ جاری رہتا ہے، اس وقت تک میں دوسرا ذکر شروع نہیں کرتا جب تک اندر سے آنے والی آواز بالکل مدہم نہ ہوجائے۔ قلبی ذکر: لطيفۂ قلب، لطيفۂ روح، لطيفۂ سر، لطيفۂ خفی، لطيفۂ اخفی، ہر لطيفے پر 10 منٹ، مراقبہ صفات سلبیہ 15 منٹ۔ مراقبہ میں تصور قائم کرنے میں مشکل ہوتی ہے، قلبی ذکر تو ٹھیک سے ہوتا ہے لیکن مراقبہ میں یکسوئی نہیں ہوتی۔ برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں۔
جواب:
آپ اس طرح کر لیں کہ اگر ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘ کا ذکر خود بخود چلتا ہے تو پھر آپ ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کے ذکر کے بجائے ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘ کا ذکر کر لیا کریں دل ہی دل میں۔ اور اس کو کر کے دیکھیں کہ یہ کیسے ہوتا ہے یعنی لطيفۂ قلب، لطيفۂ روح، لطيفۂ سر، لطيفۂ خفی اور لطيفۂ اخفی غرض ہر لطيفے پر 10 منٹ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘ کا ذکر کر کے دیکھیں۔ اور صفات سلبیہ کا جو مراقبہ ہے، اس میں آپ ذہن میں بس یہ رکھیں کہ صفات سلبیہ کیا ہیں یعنی اللہ جل شانہٗ کی اولاد نہیں ہے، اللّٰہ جل شانہٗ نے کسی کو جنا نہیں ہے، اللّٰہ پاک کسی سے جنے نہیں گئے، اللہ جل شانہٗ کو اونگھ نہیں آتی جیسے کہ آیت الكرسی میں ہے۔ لہٰذا یہ صفات سلبیہ ہیں، ان کو ذہن میں رکھ کر کہیں کہ ان صفات کا جو فیض ہے وہ آرہا ہے آپ ﷺ کی طرف اور آپ ﷺ کی طرف سے شیخ کی طرف اور شیخ کی طرف سے آپ کی طرف یعنی آپ کے لطيفۂ خفی پر آرہا ہے۔
سوال نمبر 11:
السلام علیکم وبرحمۃ اللّٰہ۔ حضرت! میں شانگلہ سے تعلق رکھتا ہوں۔ آپ نے مجھے ذکر دیا تھا 200 مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘، 400 مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘، 600 مرتبہ ’’حَقْ‘‘ اور ہزار مرتبہ ’’اَللّٰہ‘‘۔ اس کا ایک مہینہ پورا ہوگیا ہے۔ آگے رہنمائی فرمائیں۔
جواب:
آپ 1500 مرتبہ ’’اَللّٰہ‘‘ اور باقی سب یہی کریں۔
سوال نمبر 12:
السلام علیکم و رحمۃ اللّٰہ و برکاتہ۔
If somebody is unwell with a viral illness, should he go for صلوہ with جماعت or should he pray at home to avoid giving anyone else the virus?
جواب:
If he is امام then I think he must go because he is at a farther distance from the people and should not shake hands with the people .This is enough. And if he is not امام, then I think he should stay a little away from people.
سوال نمبر 13:
السلام علیکم و رحمۃ اللّٰہ و برکاتہ۔ حضرت! میرے معمولات یہ ہیں 2، 4، 6 اور ساڑھے 3 ہزار۔ بہت سستی ہے اور اس میں بندے کی نااہلی ہے کہ پورے نہیں ہوتے، اس کے بارے میں کیا کروں؟ کاروبار کے لئے اسلامی کتاب اور اسٹیشنری کا کچھ سامان جمع کیا ہے۔ ابھی اس کا نام کوئی رکھتے ہیں تو شروع کرتے ہیں۔
جواب:
ٹھیک ہے، بعد میں فون پر بات کر لیں۔
سوال نمبر 14:
السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ و برکاتہ۔ حضرت جی! معافی چاہتا ہوں کہ معمولات کی اطلاع میں تاخیر ہوئی۔ دراصل ڈیوٹی میں زیادہ time لگ جاتا ہے۔ لہٰذا اس کے لئے زیادہ تر دوران سفر معمولات کرتا ہوں، اس میں بعض اوقات ناغہ ہوجائے تو دوبارہ شروع کر لیتا ہوں۔ اس کے علاوہ مراقبہ کے شروع کرنے میں سخت مزاحمت اور وقت میں قلت رہتی ہے، بہت کوشش کے باوجود چند دن بعد ناغہ ہوجاتا ہے۔ اس کی کیفیات ایسی ہیں کہ کوتاہی باعث افسردہ رہتی ہے۔ ذکر 200، 400، 600 اور 5 ہزار ہے۔ مراقبہ لطيفۂ قلب 10 منٹ، لطيفۂ روح 15 منٹ ہے۔ حضرت جی! مراقبہ میں لطيفۂ قلب اور لطيفۂ روح کے دوران اللّٰہ اللّٰہ محسوس ہوتا ہے۔ رہنمائی فرما دیں۔ والسلام علیکم۔
جواب:
ماشاء اللّٰہ! ابھی آپ اس طرح کر لیں کہ لطيفۂ روح کے ساتھ لطيفۂ سر بھی شروع کر لیں۔ وہ 15 منٹ اور یہ دونوں 10، 10 منٹ کریں۔ باقی اپنے معمولات کو اس طرح کر لیں اور ناغے سے بچنے کی کوشش کریں۔
سوال نمبر 15:
السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ و بركاتہ حضرت جی! اللہ پاک سے آپ کی صحت و تندرستی اور بلند درجات کے لئے دعا گو ہوں۔ اللّٰہ پاک آپ کے جملہ متعلقین کو بھی دین و دنیا کی کامیابی عطا فرمائے۔ (آمین)
آپ کی ہدایت کے مطابق سو نوافل اتوار کے دن ایک ہی نشست میں ادا کیے ہیں، الحمد للّٰہ! اس کے علاوہ روزے بھی رکھنے شروع کردیئے ہیں۔ ان شاء اللّٰہ زیادہ سے زیادہ روزے رکھنے کی کوشش کروں گا۔ والد صاحب کی وفات کے بعد موت کا کافی زیادہ دھیان ہوگیا ہے، اکثر اوقات ان کی آخری گھڑیوں اور قبر کا تصور رہتا ہے اور اعصاب جھنجھنا اٹھتے ہیں، لیکن ساتھ ہی ان کے لئے دعائیں بھی شروع کردیتا ہوں۔ حضرت جی! میں نے محسوس کیا ہے کہ میری نظر لگنا شروع ہوگئی ہے۔ مثلاً سڑک کے کنارے کھڑی ایک گاڑی دیکھی تو خیال آیا کہ کتنی اچھی گاڑی ہے، کچھ دیر بعد دوبارہ دیکھا تو اس کا پچھلا بمپر ٹوٹا ہوا تھا۔ بعض اوقات ذومعنی قسم کے فقرے بھی زبان سے نکلنا شروع ہوگئے ہیں، کچھ فحش انداز میں بھی نکلتے ہیں۔ برائے مہربانی اس کے بارے میں رہنمائی فرمائیں۔ اللّٰہ پاک آپ کے درجات کو بلند فرمائیں اور آپ کو اجر عظیم عطا فرمائیں۔ (آمین)
جواب:
ماشاء اللّٰہ! ٹھیک ہے، آپ نے جو روزے رکھے اور جو نوافل پڑھیں اللّٰہ جل شانہٗ اس کو قبول فرمائیں اور اللّٰہ تعالیٰ ان چیزوں سے بچائیں۔ اور موت کی یاد تو بڑی اچھی بات ہے، اس سے بہت فائدہ ہوتا ہے۔ باقی جہاں تک نظر لگنے کی بات ہے تو ’’ماشاء اللّٰہ‘‘ دل سے کہا کریں تاکہ آپ کی توجہ اللّٰہ کی طرف جائے اور اللّٰہ کی بڑائی آپ کے ذہن میں آنی چاہئے، اس چیز کی بڑائی نہیں آنی چاہئے، یعنی اس چیز کی طرف توجہ نہ جائے، بلکہ اللّٰہ کی طرف جائے کہ اللّٰہ پاک نے کیسی خوبصورت چیزیں بنائی ہیں۔ اس طرح کہنے سے یہ مسئلہ نہیں ہوگا۔ باقی ذو معنیٰ الفاظ نہیں بلکہ صاف بات کرو۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿وَقُوْلُوْا قَوْلًا سَدِیْدًا﴾ (الاحزاب: 70)
ترجمہ:1 ’’اور سیدھی اور سچی بات کیا کرو‘‘۔
لہٰذا جو بات کرنا چاہتے ہیں بس وہی کریں، ادھر ادھر کی باتیں نہ کریں۔
سوال نمبر 16:
السلام علیکم و رحمۃ اللّٰہ و بركاتہ۔
No 1. One and half months past of Nafisba ذکر 200 ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘ 200 ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ ’’حَقْ‘‘ 200 and ’’اَللہ‘‘ 200. Although I feel some weakness and headache.
No 2. I don't do any other نفل and وظیفہ or عملیات other than guided except that I try to do some مناجات. Although I don't recite مناجات مقبول as a whole. الحمد للّٰہ now by the برکہ of your دعا my situation for this week improved. Yester night, I received some good کیفیت during ذکر. I don't do any مراقبات as I am not ordered. What is معمولات پرچہ where and how to send it?
جواب:
ماشاء اللّٰہ it is very good that you found the truth and now you should do Nafisba 200 ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ 300 حق 300 and اللّٰہ 100. I think as far as the مراقبہ is concerned ان شاء اللّٰہ it will come soon. As far as the معمولات پرچہ is concerned, so this is available on our website, you can download it and you can fill up the blanks in this and send it on my number, this number from where I am reading. I think 0315, yes. So, it is a question answer number and you can send it on this.
سوال نمبر 17:
مجدد صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں کہ جذب کسی بھی طریقے سے حاصل ہوجائے تو پھر سلوک کی طرف آنا چاہئے۔ اب ایک طریقہ تو ذکر و اذکار کا ہے کہ اس کے ذریعے سے جذب حاصل ہوجائے۔ اور جو بیانات وغیرہ ہوتے ہیں تو کیا ان سے بھی جذب کی کیفیت حاصل ہوسکتی ہے؟
جواب:
تبلیغ والوں میں جذب کیسے آتا ہے؟ اسی طرح کیونکہ ان کا بھی تو جذب ہوتا ہے۔ اگر وہ آجائے تو پھر یہ سلوک میں آجائیں۔ جذب بہت زبردست پاور ہے، لیکن پاور کا صحیح استعمال، یہ بہت اہم ہے۔ مثلاً بہت پاورفل گاڑی لی جائے اور اناڑی ڈرائیور کو بٹھا دیا جائے تو وہ کباڑا کر دے گا۔
سوال نمبر 18:
یہ جو نقشبندی سلسلہ ہے، کیا اس میں باقی سلاسل کی نسبت جذب جلدی حاصل ہوجاتا ہے، یعنی جو جہری اذکار ہیں ان کی بنسبت مراقبات کے ذریعے جلدی یہ چیز حاصل ہوسکتی ہے؟
جواب:
وہاں جذب کی باقاعدہ نیت کی جاتی ہے یعنی اس کو حاصل کرنے کی نیت کی جاتی ہے، جبکہ باقی حضرات کو ویسے ہی حاصل ہوجاتا ہے۔ اگرچہ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے تھے کہ کبھی کبھار حاصل ہوجاتا ہے۔ لیکن آج کل چونکہ دوسرے سلسلوں میں بھی ذکر و اذکار دیئے جاتے ہیں، اس وجہ سے ان کے ہاں بھی ذکر سے اکثر جذب حاصل ہوجاتا ہے۔ البتہ یہ بات ہے کہ معمولات کی اطلاع اگر ساتھ ساتھ دیتے جائیں تو پھر فائدہ بہت ہوتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ شیخ کو پتا ہوتا ہے کہ یہ کدھر جا رہا ہے۔ اگر بتانا چھوڑ دے تو پھر اس میں مسئلہ ہوتا ہے۔ اور شیخ کے ساتھ جو محبت ہے وہ بھی سلوک طے کرنے کے لئے بہت پاور فل چیز ہے، وہ بھی ایک راستہ ہے۔ محبت کے الفاظ نہیں بلکہ محبت اپنی اصلی صورت اور اپنی حالت میں یعنی جس کو محبت کہتے ہیں وہ ہو، تو پھر اثر ہوتا ہے اور پھر بہت فائدہ ہوتا ہے۔
سوال نمبر 19:
السلام علیکم۔ حضرت! جس طرح تمام انسانیت کو اسلام کے مطابق زندگی گزارنی اور مسلمان ہونا چاہئے، اسی طرح کیا سب کو اپنے نفس کی اصلاح بھی ضروری ہے؟ تو جہاں علماء ہوتے ہیں، لیکن کچھ جگہوں پر مشائخ کم ہوتے ہیں، تو ابتدائی ترتیب کس طرح لوگ ڈھونڈیں؟ اولاد سے لے کر ہر بڑے چھوٹے، مرد اور عورت سب ہی میں اصلاح کی طلب کس طرح پیدا کی جاسکتی ہے؟
جواب :
دیکھیں! یہ سارا Pyramid approach ہے۔ pyramid مطلب سو آدمی کسی شیخ کی طرف متوجہ ہوگئے، اس میں سے اللّٰہ پاک نے 6،5 آدمیوں کو نسبت عطا فرما دی تو اب ایک شیخ نہیں رہا بلکہ 6،5 ہوگئے۔ اس کے بعد کچھ اور حضرات اگر متوجہ ہوگئے تو اس میں سے بھی کچھ بن جائیں گے۔ اب شیخ تو بیشک ایک ہو، لیکن جب لوگ ان کی طرف زیادہ متوجہ ہوتے ہیں تو اللّٰہ جل شانہٗ ان کی نسبت سے کام بڑھاتے رہتے ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ لوگ اتنے متوجہ ہوتے ہی نہیں، میدان تو موجود ہے، لیکن اگر کوئی متوجہ نہ ہو تو پھر کس کا قصور ہے؟ اب اس وقت دیکھیں کہ بہت سارے لوگ اس پر convinced ہی نہیں ہیں کہ یہ کام بھی کرنا چاہئے، بلکہ مخالفت والے بھی ہیں۔ لہٰذا یہ resistance ہے اور اس میں جو کمی ہے وہ علماء ہیں، کیونکہ علماء کرام (اللّٰہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائیں) ان کی بھی ایک ذمہ داری ہے اور وہ اگر اپنی ذمہ داری محسوس کر لیں تو یہ بہت کام کرسکتے ہیں۔ مثلاً یہ جس وقت ممبر پر بیٹھتے ہیں اور جمعہ کا بیان کرتے ہیں، تو اس وقت اگر یہ لوگوں کو سمجھا دیں کہ یہ کام کتنا ضروری ہے تو ان میں سے جتنے لوگ قبول ہوجائیں گے وہ سب ان کے لئے صدقہ جاریہ ہوں گے۔ کام تو اگرچہ شیخ کو کرنا ہوگا یعنی وہ شیخ کے پاس جائیں گے اور محنت وہ کرے گا، لیکن ان کے کہنے سے جب وہ جائیں گے تو ان کا کام بھی ہوجائے گا۔ تو علماء کرام اس لائن میں یہ فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔ کیونکہ علمی باتوں میں لوگ علماء کی مانتے ہیں یعنی جو لوگ ماننے والے ہیں وہ علماء کی مانتے ہیں۔ اب اگر علماء ان کو وقت پر بتا دیں تو ماشاء اللّٰہ کام آسان ہوجائے گا۔ اس وقت مجھے بتاؤ! کون سے ممبر سے یہ بات ہوتی ہے؟ مجھے تو مثال دینا مشکل ہوجاتا ہے کہ کون سے ممبر سے یہ بات ہوتی ہے۔ ’’جہانگیرہ‘‘ ہمارا گاؤں ہے، جہاں ہماری فیملی کا ایک بہت بڑا اور اچھا نام ہے الحمد للّٰہ، اللّٰہ کا شکر ہے کہ ہمارے والد صاحب کی خدمات اللّٰہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے بہت ہیں اور پھر ہماری فیملی کا نام ہے، وہاں اگر ہم کوئی بھی آواز اٹھا دیں تو ماشاء اللّٰہ! بہت پاورفل ہوتی ہے۔ اب مجھ سے وہاں پر ایک ذہین بچہ بیعت ہوا، تو لوگوں نے اسے کہنا شروع کردیا کہ آپ بیعت کیوں ہوگئے؟ یہ تو ٹھیک نہیں ہے، یعنی بیعت ہونا تو ٹھیک نہیں ہے۔ اب وہ ذہین بھی تھے اور سمجھدار بھی تھے، تو انہوں نے اپنے امام مسجد سے پوچھا کہ میں شاہ شبیر صاحب (کیونکہ وہاں مجھے شبیر صاحب ہی کہتے ہیں شاہ صاحب نہیں کہتے تو) بچے نے اپنے امام مسجد سے پوچھا، امام مسجد چونکہ صحیح عالم تھے اور صحیح العقیدہ بھی تھے، لہٰذا اس نے کہا کہ یہ بالکل ٹھیک بات ہے، ہمارے جو بزرگ تھے وہ بھی بیعت کرتے تھے اور بیعت ہوتے بھی تھے، اس لئے اس میں کوئی حرج نہیں ہے اور نہ ہی آپ نے کوئی غلط کام کیا ہے۔ اب وہ چونکہ ذہین بچہ تھا تو اس نے اس امام سے کہا کہ حضرت! آپ نے یہ بات ہمیں کبھی بتائی ہے؟ اگر آپ نے ہمیں یہ بات پہلے بتائی ہوتی تو کیا مجھے اشکال ہوتا؟ مجھے پوچھنے کی ضرورت ہوتی؟ اب وہ کیا کہہ سکتا تھا؟ بات تو ایسی ہی ہے کہ اس کے بارے میں کوئی کہتا ہی نہیں ہے۔ اور اب ہمارے پاس مولانا ممتاز صاحب جو ادھر مسجد میں امام ہیں اور یہ ماشاء اللّٰہ! اس سلسلے کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں، لیکن کبھی انہوں نے منبر پر اس کی دعوت دی ہے؟ نہیں دی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں میں ہمت ہی نہیں ہے کہ اس پر بات کر لیں، لہٰذا ہمت تو پیدا کرنی پڑے گی، کیونکہ یہ باہر سے کوئی نہیں ڈالے گا، بلکہ یہ تو انسان کے اندر خود آئے گی، تو علماء کرام کا یہ کام ہے کہ لوگوں کو بتائیں یا سمجھائیں بالخصوص جو لوگ ان سے مطمئن ہیں اور جو لوگ ان کو صحیح مانتے ہیں۔ کم از کم ان کو ہمت کرنی پڑے گی اور مشائخ کو duty دینی پڑے گی، یعنی ان کو اپنا کام اس طریقے سے کرنا پڑے گا جس طریقے سے زیادہ لوگ مستفید ہوں اور وہ یہ کام کر لیں۔ لہٰذا اس کام کی شیطان کی طرف سے resistance بہت زیادہ ہے یعنی اس میں غلط فہمیاں بہت زیادہ ہیں۔ آج ہی میں ایک آرٹیکل پڑھ رہا تھا، اس میں ایک صاحب تجلیہ تخلیہ پر بات کر رہے تھے اور اس کو ڈسکس کر رہے تھے، پھر صوفیاء کرام کی انہوں نے مثالیں دیں کہ فلاں نے یہ کہا اور فلاں نے یہ کہا۔ تو نیچے ایک کمنٹ کرنے والے نے کہا کہ آپ یہ بات علمی بنیاد پر کر لیا کریں، صوفیاء کی مثال نہیں دیا کریں کیونکہ اس پر گمراہی بہت آگئی ہے۔ خدا کے بندے! گمراہ صوفی بھی ہیں اور جو گمراہ نہیں ہیں وہ بھی ہیں، سارے تو گمراہ نہیں ہیں، ورنہ اگر یہی بات ہے تو علماء سارے کون سا صحیح ہیں، کیا علماء سوء موجود نہیں ہیں؟ حدیث شریف میں تو صوفیاء سوء کا نام نہیں ہے بلکہ علماء سوء کا نام ہے۔ لہٰذا علماء سوء تو نص سے ثابت ہے، اس لئے وہ موجود ہیں۔ اب اگر علماء سوء کے ہوتے ہوئے آپ علماء حق کو مانتے ہیں تو صوفیاء سوء کے ہوتے ہوئے آپ صوفیاء حق کو کیوں نہیں مانتے؟ لہٰذا یہ بدعملی ہے اور یہ مناسب نہیں ہے۔ لیکن بہرحال اس کے بارے میں ہم کیا کرسکتے ہیں۔ بس کہہ سکتے ہیں، مشکلات بھی ہیں، لیکن راستے بھی ہیں۔
سوال نمبر 20:
السلام علیکم۔ حضرت! جس طرح ہمارے علاقے میں اس طرح کا ماحول نہیں ہے، نا ہی وہاں خانقاہیں ہیں، بلکہ خانقاہ کا تو مجھے ادھر آکے پتا چلا کہ خانقاہیں بھی ہوتی ہیں اور دیوبندیت میں بھی پیر ہوتے ہیں اور صوفی بھی ہوتے ہیں۔ اب یہ چیز کیسے لوگوں کو متعارف کروائی جائے؟ ہمارے علاقے میں تو یہ چیز نہیں ہے جبکہ دیوبندی علماء بھی ہیں اور بہت ہیں۔
جواب:
جب دیوبندی علماء ہیں تو انہوں نے کیوں نہیں بتایا؟ یہی تو مسئلہ ہے، یہی تو میں کہہ رہا ہوں کہ یہ ان کا کام ہے، کیونکہ علاقے میں وہ حضرات موجود ہیں۔ آپ ’’لاہور‘‘ جیسے شہر میں ہی دیکھیں جہاں پر مولانا احمد علی لاہوری رحمۃ اللّٰہ علیہ جیسے شخص رہے ہیں اور بڑے بڑے صوفیاء کرام رہے ہیں۔ قمر الزمان صاحب مجھے بتا رہے تھے کہ ڈاکٹر مدثر صاحب نے مجھے بتایا تھا، تو میں نے کہا کہ کیا دیوبندیوں میں بھی پیر ہوتے ہیں؟ یہ لاہور جیسے شہر کی بات کر رہا ہوں، جہاں حضرت علی ہجویری رحمۃ اللّٰہ علیہ دفن ہیں اور جہاں پر میاں میر رحمۃ اللّٰہ علیہ دفن ہیں اور جہاں پر بڑے بڑے حضرات گزرے ہیں اور یہ صوفیاء کا شہر ہے وہاں پر ایک صاحب پوچھ رہے ہیں کہ کیا دیوبندیوں میں بھی پیر ہوتے ہیں؟ مولانا اشرف صاحب کی بات مجھے بڑی پسند ہے، وہ کہتے ہیں بھائی! دیوبندیوں میں ہی تو اصل پیر ہوتے ہیں۔ لہٰذا اس کا ذرا خیال رکھنا چاہئے اور علماء کرام کے اندر یہ ہمت ہونی چاہئے کہ وہ ان باتوں کو کھول کر بیان کریں۔ ٹھیک ہے کوئی مانے گا اور کوئی نہیں مانے گا۔ کیونکہ ہم لوگ اس کے مکلف نہیں ہیں کہ جو بات ہم کریں وہ سارے لوگ مان لیں۔ کیا میری ساری باتیں لوگ مانتے ہیں؟ نہیں بلکہ میری ساری باتیں لوگ نہیں مانتے، بہت مخالفت بھی کرتے ہیں، لیکن میں جہاں بھی جاتا ہوں تو میں یہ باتیں کرتا ہوں اور فائدہ بھی ہوجاتا ہے۔ ایک صاحب تھے جنہوں نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کہاں رہتے ہیں؟ میں نے کہا کہ میں خانقاہ میں رہتا ہوں۔ اس نے کہا اس میں کس کا مزار ہے؟ میں نے کہا کہ اس میں اگر مزار کا ہونا ضروری ہے تو پھر شاید میرا مزار ہو۔ اور پھر میں نے کہا کہ اس کا مزار کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ کیا مدرسوں میں مزار نہیں ہیں؟ مولانا یوسف بنوری رحمۃ اللّٰہ علیہ کا مزار مدرسے میں ہے۔ اور مزار مسجدوں میں بھی ہیں چنانچہ مسجد قاسم علی خان میں مولانا عبد القیوم پوپلزئی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا مزار ہے۔ تو اب ہم کیا کہیں گے کہ بس ہر مسجد میں مزار ہونا چاہئے؟ نہیں بلکہ اس کا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ accidentally یہ ممکن ہے کہ خانقاہ میں کسی کا مزار ہو، مسجد میں کسی کا مزار ہو، مسجد کے ساتھ کسی کا مزار ہو، یا پھر مدرسے میں کسی کا مزار ہو، لہٰذا کسی خاص جگہ مزار کا ہونا لازم نہیں ہے، بلکہ کسی بھی جگہ ہوسکتا ہے۔ سب سے بڑی بات الحمد للّٰہ! مسجد نبوی کہ ادھر بھی نماز پڑھی جاتی ہے اور ادھر بھی نماز پڑھی جاتی ہے اور درمیان میں آپﷺ کا مزار شریف ہے۔ تو کیا ہر مسجد میں مزار کو ہم مانیں گے۔ میں ترکی میں گیا تو میں نے دیکھا کہ وہاں مساجد کے پاس صحابہ کرام کے مزار ہیں۔
سوال نمبر 21:
حضرت جی! والدین کے ساتھ اولاد کے سلوک کے بارے میں بتا دیں کہ کیسا ہونا چاہئے؟ میرے والد صاحب تھوڑے سخت طبیعت کے ہیں۔ ہم سب بہن بھائیوں کے ساتھ تھوڑی سختی کرتے ہیں، لوگوں کے سامنے بھی تھوڑا degrade کرتے ہیں، جس وجہ سے ان کے پاس کوئی زیادہ دیر تک نہیں بیٹھتا۔ اس معاملے میں ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ ان کی طبیعت شروع ہی سے ایسی ہے۔
جواب:
اس کا مطلب ہے کہ آپ لوگوں کے لئے اجر کا سامان بہت ہے۔ بس میں تو یہ کہوں گا۔ کیونکہ اگر والد سخت ہے اور آپ برداشت کرتے ہیں تو اس برداشت پر آپ کو بہت اجر ملے گا۔ کیونکہ قرآن میں ہے کہ ان کے سامنے اپنا لہجہ پست کردو۔ اس وجہ سے آپ نے اچھا کہا ہے کہ ’’تھوڑا سخت ہے‘‘ چونکہ اگر زیادہ بھی سخت ہوں پھر بھی یہی کرنا ہوگا۔ لہٰذا ان کے ساتھ tit for tat والا معاملہ نہیں ہونا چاہئے۔
سوال نمبر 22:
یہ کام کچھ دن پہلے شروع کرنا تھا، پھر سوچا کہ پہلے حضرت کو اطلاع دوں اور دعا کی درخواست کروں۔ پھر شروع کروں گا۔ اس لئے دعا کی درخواست ہے۔
جواب:
ضرور ان شاء اللّٰہ العزیز! دعا ضرور کریں گے۔ اللہ جل شانہٗ اس کام کو کامیاب فرما دے۔ اور اس کو انتہائی خیر کا ذریعہ بنا دے۔
سوال نمبر 23:
Hazrat, some people inspire us with their طریقہ of dreams and kashaf. Although I am not unaware of the position of خواب and کشف, still I get confused and motivated by them. Some of them are very reliable. So when they relate their experience, I get inspired. How should it be taken?
جواب:
First of all you should think that کشف and خواب is ظنی. If you understand what is the meaning of ظنی and قرآن and حدیث is قطعی so think about those people who are inspiring you because of قرآن و حدیث and thinks about those who are inspiring you because of خواب and کشف. Which would you prefer? Look at the situation. So I think if I were at your position, I would prefer قرآن and حدیث because this has been told to us. So our الحمد للّٰہ ,سلسلہ and most سلاسل which are سلاسل حق, they get knowledge from قرآن and حدیث and act upon them through طریقہ because طریقت is the way how to be able to follow شریعہ. There are two obstacles in following شریعہ. First is the obstacle of نفس and the second obstacle is شیطان .شیطان understands how the wishes of نفس can be used against you? So, he is using it very intelligently. Hence, the شیخ should be capable of understanding this situation and should be able to break that approach which comes from Shaitan. Here comes the role of شیخ. So, I think you must understand. الحمد للّٰہ ثم الحمد للّٰہ we have many خواب and many مکشوفات of our elders so should we tell you? No we don't need it because we don't want you to depend on these things. We shall tell you قرآن and حدیث and the experience of people of اولیاء اللّٰہ. So we do have these things but don't depend on these things.
سوال نمبر 24:
حضرت! محمد فاروق نام ہے۔ حضرت! ہفتے کے دن آپ نے بیان میں تین قسم کی تصوف کی categories بتائی تھیں، ایک فلسفیانہ تھی، ایک مبتدیانہ اور ایک اسلامی تھی۔ اور حضرت! ایک جگہ پر آپ نے ایک درس میں فرمایا تھا کہ لوگوں کی سمجھ کے لئے مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ایک فلسفے کی مدد سے ان کو سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ تصوف کیا ہے؟ تو سر! میرا سوال یہ ہے کہ یہ جو اصطلاحات develop ہوئی ہیں اور بعد میں جس طرح کشف ہے یا مناصب ہیں، تو کیا یہ قرآن سے یا حدیث سے انہوں نے لی ہیں یا اس کا کیا source ہے؟
جواب:
دیکھیں! حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ نے فلسفے کے ذریعے سے نہیں سمجھایا۔ بلکہ فلسفے کا توڑ کیا ہے یعنی فلسفے میں جو زہر تھا اس کا توڑ کیا ہے۔ اس وجہ سے حضرت جو تمام چیزیں بتاتے ہیں وہ تو یہی بتاتے ہیں کہ ہمارے خیالات کی کوئی حیثیت نہیں ہے، بلکہ اصل قرآن و حدیث ہے۔ باقی experiences ہیں، تجربات ہیں، تو اب فلسفے کی جو اصطلاحات کا استعمال ہے وہ ایسے ہی ہے جیسے کہ ہم لوگ سائنس کی اصطلاحات استعمال کرتے ہیں۔ اب آج کل کے دور میں لوگ سائنس کی اصطلاحات جانتے ہیں۔ میں آپ کو اپنا ایک واقعہ بتاتا ہوں، بڑا interesting واقعہ ہے۔ جب چھپر والی مسجد میں ہمارے بیانات ہوتے تھے، تو وہاں ایک scholar (شاید اب بھی زندہ ہوں) راجا اشرف صاحب جو پرنسپل ریٹائر ہوئے تھے اور اس وقت اس کی عمر Ninety plus ہوگی، وہ بھی تشریف لایا کرتے تھے۔ یہ چونکہ فزکس کے ماہر تھے اس لئے سوالات بھی پھر اس کے حساب سے ہوتے تھے، تو انہوں نے حال کے بارے میں بات کی، تو میں نے کہا Side effect۔ اس پر وہ اتنا خوش ہوگیا کہ آپ کے ایک لفظ نے میرے سارے مسئلے حل کردیئے۔ اب کیا بات ہے Side effect ایک term ہے یعنی scientific۔ لہٰذا جو اس قسم کی چیزیں ہوتی ہیں اور جو terminology آپ دوسری استعمال کرتے ہیں یعنی اصل اپنا رکھتے ہیں لیکن استعمال ان کے الفاظ کرتے ہیں، تو یہ تو ٹھیک ہے اور یہ تو ہر جگہ ہوتا ہے۔ اس وجہ سے اگر کبھی انہوں نے ان جیسی چیزوں کو استعمال کیا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ البتہ یہ بات ہے کہ وہ فلسفے کے پیچھے جانے والے نہیں تھے، بلکہ فلسفے کا تو انہوں نے توڑ کیا ہے۔ ایسے ہی شاہ ولی اللّٰہ رحمۃ اللّٰہ علیہ نے، امام غزالی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے فلسفے کا توڑ کیا ہے۔ چونکہ امام غزالی رحمۃ اللّٰہ علیہ فلسفی تھے، پھر جس وقت وہ گئے ہیں اور ساری چیزوں سے گزرے ہیں تو انہوں نے پھر فلسفے کا توڑ کیا اور بہت زبردست توڑ کیا۔ لہٰذا ہمارے جتنے بھی اکابر تھے ان لوگوں نے یہ کام کیا ہے۔ ہم جس وقت حضرت شاہ اسمعیل شہید رحمۃ اللّٰہ کی کتاب ’’عبقات‘‘ پر کام کر رہے تھے، تو اس میں چونکہ فلسفیانہ توجیہات کے جوابات دیئے گئے تھے اور اس انداز میں اس کو حل کیا گیا تھا۔ تو حضرت کی ایک صاحب کو زیارت ہوئی اور حضرت نے فرمایا کہ یہ جو کرتا ہے (یعنی میرا بتایا کہ یہ جو کرتا ہے) یہ اچھا کام ہے، البتہ ہمارے وقت میں فلسفہ فتنہ تھا اور اس وقت سائنس مسئلہ بن رہا ہے، اس لئے یہ scientific انداز میں جوابات دیں اور میری اصطلاحات استعمال نہ کریں، کیونکہ اس کی ان کو ضرورت نہیں ہے بلکہ خود اپنی اصطلاحات بنائیں۔ اب بتاؤ! ظاہر ہے کہ وہ یہاں نہیں ہیں اور جو یہاں نہیں ہیں، لیکن ان کے جوابات آرہے ہیں تو وہ ان کی طرف سے نہیں آرہے بلکہ وہ مِن جَانِبِ اللّٰہ ہیں۔ کیونکہ جو فوت ہو چکا ہے وہ اپنی طرف سے کیا کرسکتا ہے، مثلاً ہم ادھر جو کام کرتے ہیں تو میں کہتا ہوں کہ میں بول رہا ہوں یا آپ بول رہے ہیں (اس میں ظنی طور پر یہ بات سمجھی جاسکتی ہے) کیونکہ اللّٰہ پاک نے ہم لوگوں کو یہ طاقت دی ہے، یہ صلاحیت دی ہے اور اس کے مطابق ہم کر رہے ہیں، اب ہمیں ذرا تھوڑا سا پیچھے جانا پڑے گا کہ اس کے پیچھے کیا ہے، تو اس کے پیچھے اللّٰہ ہے جو یہ بول رہا ہے، لیکن وہ hidden ہے اور یہ ظاہر ہے یعنی ہمارا بولنا ظاہر ہے اور اللّٰہ تعالیٰ کی قدرت پیچھے ہے۔ لیکن جو فوت ہو چکا ہے ان کی تو ہر بات اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے آرہی ہے، وہ تو خود کچھ کر ہی نہیں سکتے۔ کیونکہ وہ تو ایسی پوزیشن میں ہیں کہ سب کچھ ان کا اللّٰہ تعالی کی مرضی کے مطابق ہوتا ہے۔ اب ہمارے پاس جب یہ چیز آگئی تو اس کو آپ کیا کہیں گے؟ اور کمال کی بات یہ ہے کہ ایک ہوتا ہے کشف In general، اور ایک ہوتا ہے ایک ایسی چیز کا کشف جو پہلے سے proven ہے۔ مثلًا کتاب میں ایک چیز موجود ہے اور آپ کو کشفاً پتا چل گیا کہ فلاں صفحے پر یہ چیز ہے۔ اگرچہ اب ذریعہ آپ کا کشف بن گیا لیکن علم تو نہیں بدلا یعنی اس چیز کا علم تو کشف نہیں ہے۔ اگر آپ کتاب کھول لیں اور وہ چیز آپ کو نظر آجائے تو یہ کشف نہیں ہے، البتہ اس کا پتا آپ کو کشف کے ذریعے سے چلا۔ ایسا کشف بہت زبردست ہے یہ اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے بڑی عنایت ہے۔ ہمارے شیخ مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کو فیڈرل شریعت کورٹ میں ایک مسئلے کے متعلق ایک حدیث شریف کی ضرورت تھی، اب ان دنوں یہ شاملہ بھی نہیں تھا اور یہ انٹر نیٹ پر تمام facilities بھی نہیں تھیں، اس وقت تو سارا کچھ original کتابوں میں دیکھنا پڑتا تھا، اس لئے حوالہ ڈھونڈنا کوئی آسان کام نہیں ہوتا تھا، بلکہ ہم اپنی کتابوں میں اپنا شعر نہیں نکال سکتے تو دوسری چیزیں ہم کیا کریں گے؟ لہٰذا ان کو حدیث تلاش کرنی تھی، تو خواب میں آپ ﷺ کی طرف سے ارشاد ہوا کہ حضرت شیخ الحدیث رحمۃ اللّٰہ علیہ کی کتاب جو شرح ابو داؤد ہے یعنی ’’اوجز المسالک‘‘ غالباً یہی بتائی تھی کہ اس میں فلاں جگہ پر حدیث ہے۔ جب وہ کھولی تو وہاں پر وہ حدیث موجود تھی۔ بس وہاں سے نوٹ کر کے پیش کردیا۔ اب دیکھیں! یہ خواب بذات خود ظنی ہے لیکن جو علم آیا وہ تو ظنی نہیں ہے۔ لہٰذا اگر ہمیں کشفاً (چاہے میرا کشف ہو چاہے کسی اور کا، البتہ مجھے کشف ہوتا نہیں ہے، صرف مثال کے طور پر کہہ رہا ہوں کہ چاہے میرا کشف ہو اور کشفاً) وہ چیز مل رہی ہو جو actual ہے تو وہ اللّٰہ کی نعمت ہے۔ کیونکہ اس نے مجھے مشکل سے نکال دیا اور آسانی سے ادھر پہنچا دیا۔ لیکن ایسا کشف کہ میں کہتا ہوں کہ یہ کام ہونے والا ہے، تو اس کشف کی کوئی value نہیں ہے، بس اس کو چھوڑ دیں اور ان چیزوں کے پیچھے نہ پڑیں۔
سوال نمبر 25:
اس دن آپ نے فرمایا تھا کہ کچھ آپ کے ایسے دوست ہیں، جن کے کشف کو آپ نے غلط ثابت کیا تھا اور آپ نے کہا تھا کہ ان کے کشف ٹھیک نہیں ہیں۔ حضرت! یہ جو بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ دل کا حال معلوم کرتا ہے، یا جیسے حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللّٰہ علیہ کے حوالے سے ہم یہ کہتے ہیں کہ ان کو یہ کشف ہوتا تھا کہ وہ وضو سے گناہ جھڑتے دیکھ لیتے تھے۔ ایک تو آپ نے یہ کہا تھا کہ اگر اس کے لئے کوئی یہ کام کرے تو یہ مکمل گناہ ہے، بلکہ اللّٰہ کی رضا کے لئے کرنا ہے، اور اگر اللّٰہ کی طرف سے آپ کو آجائے تو پھر وہ ٹھیک ہے۔ ان حالات میں بعض لوگوں کے پاس یہ مؤکلات ہوتے ہیں جو بتاتے ہیں کہ آپ کا نام یہ ہے، آپ کی ماں کا نام یہ ہے اور وہ شیطان اس کو بتاتا ہے۔ اس پر ذرا وضاحت کیجئے کہ اگر کشف ہو تو اس کا Bench mark یا معیار کیا ہے کہ اس کو صحیح قرار دیا جائے اور اگر غلط ہے تو پھر وہ کیا ہوگا؟ جزاک اللّٰہ
جواب:
اصل میں تو یہی ’’عبقات‘‘ میں بتایا گیا ہے یعنی اس میں یہی چیز بتائی گئی تھی کہ علم کے 3 sources ہیں، ایک نقلی علوم ہیں، ایک عقلی علوم ہیں اور ایک کشفی علوم ہیں۔ نقلی علوم میں بھی کچھ مشکلات ہیں، وہ مشکلات یہ ہیں کہ وہ نقل ثابت کرنا ہوتا ہے، reference دینا ہوتا ہے۔ اور عقلی علوم میں بھی کچھ مشکلات ہیں کہ وہ نقل کے خلاف نہ ہوں۔ اور کشفی علوم میں مشکلات ہیں کہ نہ وہ عقل کے خلاف ہوں نہ وہ نقل کے خلاف ہوں۔ تو دونوں condition اس کو satisfy کرنی پڑے گی۔ لیکن حضرت فرماتے ہیں کہ کشفی علوم پھر بہت زیادہ اور بے تحاشا ہیں۔ ہر آدمی جو صاحب کشف ہے پتا نہیں اس کو کتنے کشف ہوں، جیسے امام شاہ ولی اللّٰہ رحمۃ اللّٰہ علیہ صاحب کے مکشوفات ہیں، یہ بہت زیادہ ہیں۔ اسی طرح اور بہت سارے بزرگوں کے اپنے مکشوفات ہیں جو انہوں نے لکھے بھی ہیں۔ لہٰذا یہ ایک علم کا بہت بڑا ذریعہ ہے لیکن اس کا چیک کرنا ضروری ہے کہ آیا وہ ان دو criterion پر پورا اترتا ہے یا نہیں اتر رہا یعنی نہ تو خلافِ عقل ہو نہ خلافِ نقل ہو۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ
۔ نوٹ! تمام آیات کا ترجمہ آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم سے لیا گیا ہے۔