اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال نمبر 1:
السلام علیکم۔ حضرت جی! میں سب سے زیادہ اللّٰہ پاک کو یاد کرتا ہوں، کیونکہ نماز، ذکر، تلاوت سب اللّٰہ کے لئے ہوتے ہیں۔ پھر آپ ﷺ کو یاد کرتا ہوں، پھر آپ حضرت جی کو یاد کرتا ہوں۔ ضرورتیں اور فکریں تو اور بھی ہیں، لیکن یاد کرنے کے درجہ میں نہیں، بلکہ صرف فکر و ضرورت کے درجہ میں۔ اللّٰہ پاک کو اختیاری بھی یاد کرتا ہوں، جس سے اور یاد آتی ہے، بعض اوقات تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ دل کرتا ہے کہ کچھ اور یاد ہی نہ رہے، بس اللّٰہ ہی یاد رہے۔ جیسا کہ آپ نے فرمایا کہ اختیاری کو چھوڑنا نہیں اور غیر اختیاری کے درپے نہیں ہونا۔ تو اللّٰہ پاک کی یاد میں اختیاری و غیر اختیاری کو کیسے balance کروں؟ جبکہ اللّٰہ پاک کی یاد تو اب ہے، بفضل اللّٰہ تعالیٰ، اور یہ بھی نہیں کہ کسی اور کام میں خود کو مصروف کروں، کیونکہ جس کام میں بھی جاؤں گا تو اس میں بھی اللّٰہ کی یاد ہوگی، تو اس طرح سے پھر مزید یاد آئے گی، جو کہ غیر اختیاری ہوگی، پھر اس کا اپنا لطف ہوتا ہے۔
جواب:
مجھے نہیں معلوم کہ آپ پوچھنا کیا چاہتے ہیں! کیونکہ جو ساری باتیں آپ بتا رہے ہیں، یہ تو محمود حالات ہیں، لیکن اس میں پوچھنے کی کیا بات ہے؟ کیونکہ اختیاری و غیر اختیاری کا آپ کو پتا ہے کہ اختیاری وہ ہوتا ہے جو انسان اپنے اختیار اور ارادے سے کرتا ہے اور غیر اختیاری وہ ہوتا ہے جو خود بخود ہوتا ہے، اس میں کسی کے عمل کا دخل نہیں ہوتا، مثلاً اچھے خوابوں کا آنا یہ غیر اختیاری ہے، کسی چیز کا کشف ہوجانا یہ غیر اختیاری ہے، اسی طریقے سے طبیعت کا اچھا ہونا یہ بھی غیر اختیاری ہے، کیونکہ کوئی بھی اپنی طبیعت کو خود اپنی مرضی اور اختیار سے اچھا نہیں کرسکتا۔ ایسے ہی بیماری کا آجانا غیر اختیاری ہے، البتہ اگر آپ پرہیز وغیرہ نہیں کرتے تو علیحدہ بات ہے، لیکن ویسے بیماری کسی وقت بھی آسکتی ہے۔ لہٰذا جو غیر اختیاری ہیں، وہ مِنْ جَانِبِ اللّٰهِ ہوتی ہیں، اس میں اللّٰہ تعالیٰ کی بڑی حکمتیں ہوتی ہیں۔ اور جن کا حکم ہے یعنی اوامر و نواھی، یہ اختیاری ہیں اور اسی کو شریعت کہتے ہیں، اور ہم شریعت کے مکلف ہیں، اس کے علاوہ کسی اور چیز کے مکلف نہیں ہیں۔ اللہ تعالٰی فرماتے ہیں:
﴿لَا یُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا﴾ (البقرہ: 286)
ترجمہ1: ’’اللہ کسی بھی شخص کو اس کی وسعت سے زیادہ ذمہ داری نہیں سونپتا‘‘۔
لہٰذا ہم سیدھے سیدھے شریعت پر رہیں، درمیان میں confuse ہونے کی کیا ضرورت ہے۔
سوال نمبر 2:
السلام علیکم و رحمۃ اللّٰہ و برکاتہ۔ حضرت! آپ نے فرمایا تھا کہ میں یوں دعا کروں کہ اے اللّٰہ! مجھے اپنے سوا آپ اپنے کسی بندے کا محتاج نہ بنانا۔ Please explain the following حضرت علی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے ایک دعا منقول ہے:
’’اَللّٰھُمَّ لَا تُخَوِّجْنِیْ اِلٰی اَحَدٍ مِّنْ خَلْقِكَ‘‘ (یعنی اے اللّٰہ! مجھے اپنی مخلوق میں سے کسی کا محتاج نہ بنا) حضرت علی کرم اللّٰہ وجہہ کی یہ بات نبی کریم ﷺ نے جب سنی تو فرمایا ایسا مت کہو، بلکہ یوں کہو:
’’اَللّٰھُمَّ لَا تُخَوِّجْنِیْ اِلٰی شِرَارِ خَلْقِكَ‘‘ (یعنی اے اللّٰہ! مجھے اپنے بندوں میں سے برے آدمی کا محتاج نہ بنا)۔
یہ ایک اصل روایت ہے۔ جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللّٰہ علیہ نے کہا ہے۔
جواب:
دراصل یہ مجھے کہہ رہے ہیں کہ آپ نے فرمایا تھا کہ یوں دعا کروں کہ ’’اے اللہ! آپ اپنے سوا مجھے کسی بندے کا محتاج نہ بنانا‘‘ تو اگر آپ کی یہ بات صحیح ہے تو آپ ﷺ نے یہ کیوں فرمایا: ’’اَللّٰھُمَّ لَا تُخَوِّجْنِیْ اِلٰی شِرَارِ خَلْقِكَ‘‘ (یعنی اے اللّٰہ! مجھے اپنے بندوں میں سے برے آدمی کا محتاج نہ بنا)۔ کیونکہ اس میں شریر لوگوں کی محتاجی سے پناہ مانگنے کا حکم ہے۔ تو یہ مجھ سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ کیا یہ ٹھیک ہے؟ میں نے اس کو جو جواب دیا ہے، وہ بھی ایک سوال ہی ہے، یعنی سوال کا جواب سوال ہے۔ تو میں نے سوال کیا کہ ’’لَا مَلۡجَأَ وَلَا مَنۡجَأَ مِنَکَ اِلَّا اِلَیۡکَ‘‘ (بخاری: 6315)
ترجمہ: ’’تیرے سوا کہیں پناہ اور نجات کی جگہ نہیں‘‘۔
اس کا کیا مطلب ہے؟ اس میں اللہ کے سوا کی محتاجی سے پناہ ہے۔ اگر کوئی کہتا ہے کہ اللّٰہ مجھے کسی کا محتاج نہ بنا، تو یہ محتاجی اس طرح ہے کہ اصل محتاجی تو اللّٰہ کی ہے، جیسے اصل قدرت اللّٰہ کی ہے، تو یہ اس معنی میں ہے، یہ نہیں کہ آپ کسی سے کچھ مانگ ہی نہیں سکتے۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ اصل ارادہ اللّٰہ کا ہے، اصل فیصلہ اللّٰہ کا ہے، جیسے ابن عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کی حدیث شریف ہے، وہ بالکل اچھی طرح اس کو explain کرتی ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اے لڑکے! یاد رکھو! اگر ساری دنیا جمع ہوجائے اور تمہیں کچھ دینا چاہے یا تجھ سے کوئی چیز روکنا چاہے، تو وہ نہیں کرسکتے، اگر اللّٰہ نہ چاہے۔ اور اگر ساری دنیا جمع ہوجائے اور تمہیں کوئی چیز دینا چاہے، لیکن اللّٰہ کا ارادہ نہ ہو، تو تمہیں وہ چیز نہیں دے سکتے۔ (سننِ ترمذی: 2516)
تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اصل ارادہ اللّٰہ کا ہے، اس لحاظ سے یہ کہنا ’’لَا مَلۡجَأَ وَلَا مَنۡجَأَ مِنَکَ اِلَّا اِلَیۡکَ‘‘بھی صحیح ہے اور جو ابن عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ والی روایت ہے وہ بھی صحیح ہے۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ عمومی طور پر ایک دوسرے سے مانگنا، ایک دوسرے کے کام آنا، یہ پوری دنیا کا ایک set-up ہے یعنی پوری دنیا دو چیزوں پر چل رہی ہے، بلکہ کمال کی بات ہے کہ ہمارے جتنے بھی Social activities ہیں، وہ ظاہری طور پر صرف دو چیزوں پر چل رہی ہیں، ایک پیسے پر اور ایک محتاجی پر، اس کے علاوہ اگر تیسرا ہے تو بتا دیں! اگر ایک دوسرے کے ہم محتاج نہ ہوتے تو ایک دوسرے کے کام آسکتے؟ بالکل نہیں۔ اگر ہم ایک دوسرے کے کام نہ آسکتے تو کیا ہمارے کام ہوسکتے تھے؟ نہیں۔ کیونکہ سارے کام ہر ایک نہیں کرسکتا، مثلاً میں ڈاکٹر نہیں ہوں، انجنیئر ہوں، میں دکاندار نہیں ہوں، میں sweeper نہیں ہوں اور پتا نہیں کہ میں کیا کیا چیز نہیں ہوں۔ تو جو میں نہیں ہوں، اس میں ان کا محتاج ہوں، ایک دن sweeper نہ آئیں، تو مسئلہ ہوجاتا ہے، تو محتاجی ہوگئی۔ جب سڑک پر جاتے ہیں تو ٹریفک پولیس کے محتاج ہوتے ہیں یعنی اگر rule نہ ہو، تو رش ہوجاتا ہے اور ساری گاڑیاں آپس میں پھنس جاتی ہیں، پھر کہتے ہیں کہ پولیس والے کدھر چلے گئے۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کے محتاج ہیں، لیکن ظاہری طور پر، کیونکہ اصل محتاجی تو اللّٰہ کی ہے، سب کے سب اللّٰہ کے محتاج ہیں۔ لہٰذا ہم سب ایک دوسرے کے محتاج ہیں، اسی بل پر ساری دنیا چل رہی ہے اور اس کے ذریعہ سے اللّٰہ پاک نے medium پیسے کو بنایا ہے، ڈاکٹر فیس لیتا ہے، ڈاکٹر دکان دار سے سودا لیتا ہے، اور ممکن ہے کہ ڈاکٹر کو گاڑی میں جانا پڑے، جہاز میں جانا پڑے، تو اُن کو پیسے دیتا ہے، تو یہ جو پیسے کماتے ہیں، وہ خرچ کرتے ہیں، تو جہاں خرچ کرتے ہیں، وہاں محتاج ہیں اور جہاں لوگ اُن کے پاس آتے ہیں، تو وہاں لوگ ان کے محتاج ہیں۔ لہٰذا اس طرح ہر آدمی دوسرے کا محتاج ہے اور اس کے لئے medium اللّٰہ پاک نے پیسے کو بنایا ہوا ہے کہ اس کے ذریعے سے ساری دنیا ایک دوسرے کی محتاج ہے۔ اور وہ جو انگریزوں نے کہا ہے ’’Money makes the mare go‘‘ (یعنی دولت سے کام چلتے ہیں) تو اس کا ظاہری معنی یہی ہے کہ دولت ایک medium ہے، جس کے ذریعے سے ایک دوسرے کی محتاجی کو پورا کیا جاتا ہے اور سب کے کام ہوتے رہتے ہیں۔ اور آپ ﷺ نے فرمایا: کہ کسی شریر کا مجھے محتاج نہ بنانا، کیوںکہ اس میں عزتِ نفس کا سوال آجاتا ہے، مسئلہ بن جاتا ہے، پریشانی ہوجاتی ہے۔ اب بتاؤ! سوال کس سے کیا گیا ہے؟ کہ مجھے کسی شریر کا محتاج نہ بنانا، یہ سوال کس سے ہے؟ تو یہ بھی اللہ سے ہے، تو محتاجی میں اللّٰہ تعالیٰ سے مانگتے ہیں۔ تو آپ ﷺ نے بھی جو بات فرمائی ہے، وہ بھی آخر میں ادھر ہی جاتی ہے۔
سوال نمبر 3:
کسی نے مجھے کہا تھا کہ میری طرف سے درخواست ہے کہ آپ میرے لئے دعا کرو کہ مجھے job مل جائے اور اگر آپ کے پاس کوئی وظیفہ ہے تو آپ مجھے بتائیں۔
جواب:
دراصل بعض لوگ صرف اس لئے رابطہ کرتے ہیں، کوئی اور مقصد نہیں ہوتا۔ خیر! میں نے جواب دیا کہ تہجد کے بعد اللّٰہ تعالیٰ سے مانگنے سے بڑا وظیفہ میرے پاس کوئی نہیں ہے۔ ہم تو یہی بتاتے ہیں، اگر کسی کو اس پر اعتقاد ہے، تو ان شاء اللّٰہ! اس کے سارے کام جو اللّٰہ کرنا چاہے وہ اس کے ذریعے سے ہوں گے۔ کیونکہ بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں کہ جنہیں انسان چاہتا ہے، لیکن وہ نہیں ہوتیں، مثلاً انسان کہتا ہے کہ میں مروں نہیں۔ جبکہ اللہ تعالٰی فرماتے ہیں:
﴿كُلُّ نَفْسٍ ذَآىٕقَةُ الْمَوْتِؕ﴾ (آل عمران: 186)
ترجمہ: ’’ہر جاندار کو موت کا مزا چکھنا ہے‘‘۔
لہٰذا مرنا تو ایک دن ہے۔ بہرحال جو چیز اللہ پاک کرنا چاہیں وہ جب اللّٰہ پاک سے کوئی مانگے گا تو اللّٰہ پاک عطا کریں گے۔
سوال نمبر 4:
السلام علیکم و رحمۃ اللّٰہ و برکاتہ۔ میں (فلاں) کراچی سے دورۂ حدیث میں پڑھنے والا طالب علم ہوں۔ شاید آپ حضرت کے علم میں ہوگا کہ وفاق کے امتحان قریب ہیں اور میرا ذکر 200 بار ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘ 400 بار ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ 600 بار’’حَقْ‘‘ اور 100 بار ’’اَللہ اَللہ‘‘ہے اور 10 منٹ کا مراقبہ ہے۔ لیکن اب وقت کا مسئلہ ہے، کیونکہ کام زیادہ ہے۔ اس حوالے سے رہنمائی فرمائیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ دورۂ حدیث اللّٰہ پاک کی توفیق سے پورا ہونے والا ہے، میرے لئے اللّٰہ پاک سے دعا مانگیں کہ اللّٰہ مجھے دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائے اور مجھ سے آگے دین کا کام لے اور دنیا اور آخرت دونوں جہانوں کی ذلت و رسوائی سے محفوظ فرمائے۔
جواب:
(آمین) حضرت تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے یہاں 4 category تھیں، ایک عامی مشغول، عامی فارغ، ایک عالم مشغول، عالم فارغ، تو چار category تھیں، لیکن آپ درمیان میں ہیں، نہ عامی ہیں، نہ عالم ہیں، بلکہ ابھی طالب علم ہیں، جو نہ عامی ہیں، نہ عالم ہیں۔ لہٰذا فی الحال آپ یہی کر لیں کہ 200 مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘ 200 مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ 200 مرتبہ ’’حَقْ‘‘ اور 100 مرتبہ ’’اَللہ اَللہ‘‘۔ لیکن ایک بات میں آپ کو بتاؤں کہ ایک تقسیم کار ہیں یعنی کچھ پانے کے لئے کچھ کھونا پڑتا ہے۔ یہ بات تو ہے کہ ہر ٹائم ہمارے پاس محدود ہے، اور اس محدود ٹائم کو ہم مختلف کاموں میں لگاتے ہیں، مثلاً ربڑ کی طرح جب ہم اس کو کھینچیں گے تو اس کی لمبائی بڑھتی ہے، لیکن چوڑائی اور موٹائی کم ہوتی ہے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ کچھ چیزیں پانے کے لئے آپ کو کچھ چیزیں چھوڑنی پڑتی ہیں۔ لہٰذا میں نے جو وظیفہ کم کردیا تو اس سے آپ کا یہ کام تو ہوگیا کہ امتحان میں تیاری کا اچھا موقع ملے گا، لیکن اس کے حساب سے اس لائن میں پیچھے تو ہونا پڑے گا۔ لہٰذا فی الحال آپ اس پر صبر کرسکتے ہیں، لیکن اس کی تلافی بعد میں پھر آپ کریں۔ اور ایسا ہوتا ہے کہ بعض دفعہ آدمی کسی چیز کے season میں اس چیز پر زیادہ focus کرتا ہے، لیکن بعد میں جو دوسری چیزیں ہوتی ہیں، اس کی طرف توجہ زیارہ کرتا ہے، کیونکہ ان کی ضرورت ہوتی ہے۔ تو اصلاح بھی ضرورت ہے، علم بھی ضرورت ہے۔ آپ علم کے لئے اصلاح کو فی الحال postpone کرنا چاہتے ہیں، تو میں یہ نہیں کہتا کہ آپ ایسا کریں، البتہ آپ کی تھوڑی سی سپیڈ کم ہوجائے گی۔ لہٰذا میں نے آپ کو یہ کم اذکار بتا دیئے، لیکن جیسے ہی آپ فارغ ہوجائیں تو پھر آپ پوری توجہ کے ساتھ اس کو وقت دیں۔ جیسا کہ ہمارے گزشتہ بزرگان دین تھے کہ وہ فارغ التحصیل ہونے کے بعد مکمل اس کو وقت دیتے تھے، باقاعدہ جاکر خانقاہوں میں بیٹھ جاتے تھے، پھر ان کو کچھ ملا۔ لہٰذا اس طریقے سے کچھ پانے کے لئے کچھ کھونا تو پڑتا ہے، کچھ کرنا پڑتا ہے۔ خیر فی الحال آپ یہی کریں۔ اور دعا میں نے کی ہے، جیسے کہ آپ نے فرمایا۔
سوال نمبر 5:
السلام علیکم و رحمۃ اللّٰہ و برکاتہ۔ حضرت جی! میں (فلاں) بات کر رہا ہوں ’’جہلم سے‘‘ ان شاء اللّٰہ! آپ خیریت سے ہوں گے۔ حضرت! میں نے قرآن پاک حفظ کیا ہوا ہے، الحمد للّٰہ، لیکن قرآن پاک کے ترجمے اور تفسیر اور باقی دینی علوم کے بارے میں اتنا علم نہیں ہے، میں سیکھنا چاہتا ہوں، لیکن مدرسے میں باقاعدہ داخلہ نہیں لے سکتا، کیونکہ گھر کی کچھ ذمہ داریاں ہیں۔ میری رہنمائی فرمائیں کہ میں کیسے علم حاصل کرسکتا ہوں؟ اور کیا مدرسے میں داخلہ لینا ضروری ہے؟ جزاک اللّٰہ۔
جواب:
اگر میں کوئی آسان سی بات بتا دوں تو آپ کو سمجھ نہیں آئے گی، لیکن مشکل بات آپ کر نہیں سکتے، تو کیا خیال ہے! کیا کریں! تو میں درمیان کا کوئی راستہ بتا دیتا ہوں۔ درمیان والا راستہ یہ ہے کہ فرض عین علم حاصل کریں، جو ہر ایک پر فرض ہے۔ حدیث پاک ہے:
’’طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِیْضَةٌ عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ‘‘ (ابن ماجہ: 224)
ترجمہ: ’’ علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے‘‘۔
لہٰذا فرض عین علم حاصل کریں، کیونکہ مدرسے میں پورا درس نظامی کرنا فرض نہیں ہے، کوئی مفتی یہ فتویٰ نہیں دے سکتا کہ یہ فرض ہے، یہ فرض عین نہیں ہے، بلکہ یہ فرض کفایہ ہے، لیکں جو فرض عین علم ہے وہ سب کے اوپر فرض ہے۔ تو آپ فرض عین علم بتدریج حاصل کر لیں، ان شاء اللّٰہ آپ کو اللّٰہ پاک جتنا اس علم سے نوازیں گے تو آپ اس پر عمل کی کوشش کریں، تو آپ کی بنیادی ضرورت پوری ہوجائے گی۔ اس کے بعد پھر مزید اس کی کوئی حد نہیں ہے۔ جتنا علم حاصل کرو، لیکن کبھی بھی کوئی علم کے حصول کو پورا نہیں کرسکتا۔ میں نہیں سمجھتا کہ کوئی عالم بھی یہ کہہ سکتا ہو کہ میں مکمل عالم ہوگیا ہوں۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا، جب ہو ہی نہیں سکتا تو ساری عمر ہی کرنا ہے۔ جیسے کہتے ہیں کہ مہد سے لحد تک علم حاصل کرنا ہوتا ہے۔ اس کے لئے پھر آپ کوشش کر لیں، لیکن فی الحال فرضِ عین علم آپ کے لئے لازم ہے۔ آپ کے لئے آسان طریقہ یہ ہے کہ ’’بہشتی زیور‘‘ اور ’’تعلیم الاسلام‘‘ یہ دونوں آپ مکمل طور پر پڑھیں۔ ان کے پڑھنے سے آپ کو خود ہی پتا چل جائے گا کہ اور کچھ کیا کرنا ہے۔ کیونکہ اس کے اندر راستے موجود ہیں۔ تو فی الحال آپ یہ کر لیں، باقی ان شاء اللّٰہ! پھر بعد میں ہوجائے گا۔
سوال نمبر 6:
السلام علیکم و رحمۃ اللّٰہ و برکاتہ۔ میرے لئے دعا کیجئے کہ میں تہجد کی نماز میں اٹھ سکوں۔
جواب:
اللّٰہ تعالیٰ آپ کی اس خواہش کو پورا فرما دے۔ لیکن دعاؤں پر آپ یہ چیزیں نہیں چھوڑیں گے، کیونکہ اسباب اختیار کرنا لازمی ہوتا ہے، ورنہ وہ دعا تمنا بن جائے گی اور تمنا سے کوئی چیز حاصل نہیں ہوتی۔ تمنا اور ارادے میں یہی فرق ہے کہ تمنا میں محض خواہش ہوتی ہے، عمل نہیں ہوتا اور ارادے میں اسباب کو اختیار کرنے کا نظام ہوتا ہے اور جتنا وہ اس وقت کرسکتا ہے تو اتنا وہ شروع کر لیتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک شخص کہے کہ میں ڈاکٹر بننا چاہتا ہوں، لیکن نہ وہ میٹرک کرے، نہ Fsc کرے، نہ Medical profession کا test وغیرہ دے، تو یہ اس کی خواہش ہے، تمنا ہے، لیکن یہ ارادہ نہیں ہے، بلکہ ارادہ تب ہوگا جب یہ پڑھنا شروع کرے گا۔ اس وجہ سے آپ تہجد کے لئے جو اسباب ہیں، ان کو اختیار کرنا شروع کر لیں۔ اسباب یہ ہیں کہ جلدی سو جانا اور دن کے وقت اگر ممکن ہو تو بیس پچیس منٹ قیلولہ کرنا، یہ دو کام آپ شروع کر لیں ان شاء اللّٰہ تہجد کے لئے اٹھنا نصیب ہوجائے گا۔ اللّٰہ پاک نصیب فرمائے۔
سوال نمبر 7:
السلام علیکم۔ میں (فلاں) ’’شانگلہ ‘‘ KPK سے ہوں، میں آپ سے اپنی اصلاح کروانا چاہتا ہوں اور آپ سے ملاقات کرنا بھی چاہتا ہوں۔ مجھے ایک بڑا مسئلہ ہے کہ میرا حافظہ کمزور اور دماغ میں ڈپریشن ہے، جس کی وجہ سے بستر پر ہوتا ہوں، آپ میری صحت یابی کے لئے دعا کیجئے گا تاکہ جلد از جلد آپ کی خانقاہ میں آجاؤں۔ جواب کا منتظر رہوں گا۔
جواب:
اللّٰہ تعالیٰ آپ کو جلد سے جلد صحت یابی عطا فرما دے اور آپ اس خیالی بیماری کو جلد سے جلد درست فرما لیں۔ ڈپریشن ایک خیالی بیماری ہوتی ہے، اگر انسان کا خیال اور تصور درست ہوجائے تو یہ بیماری درست ہوسکتی ہے، مثلاً ایک شخص کسی چیز سے گھبرا جائے تو جو وہ کرسکتا ہے وہ بھی نہیں کرسکتا۔ ہمارے پٹھان لوگ اس مسئلے میں ذرا تھوڑے سے different ہیں، ان کی ایک ضرب المثل ہے، کہتے ہیں: ’’چې دَ کومې بلا نه نه خلاصیږي هغې له غاړه غوټۍ ورځه‘‘ (یعنی جس بلا سے مفر نہیں ہوتا اس کے گلے لگ جاؤ) کیونکہ وہ کیا کرے گا! جو ہونا ہے، وہ تو ویسے بھی ہونا ہے، تو پھر میں ڈر کے کیوں مر جاؤں۔ بس میں اپنی طرف سے جتنا کرسکتا ہوں، وہ کروں، یہ ایک بہادری والی بات ہے۔ تو اللّٰہ کرے کہ آپ اس خیالی بیماری سے جلد سے جلد صحت یاب ہوجائیں۔ باقی اصلاح کا جو کام ہے، (جو کہ آپ نے فرمایا ہے) وہ چاہے آپ بیمار ہیں، چاہے صحت مند ہیں، بہرصورت اصلاح ضروری ہے۔ لہٰذا اس کے لئے آپ کو انتظار نہیں کرنا چاہئے کہ مجھے صحت حاصل ہوجائے تو پھر میں اپنی اصلاح کروں گا۔ کیوںکہ اصلاح کا تعلق آخرت کے ساتھ ہے، تو کیا بیمار کو آخرت نہیں چاہئے؟ تو جب بیمار کو بھی آخرت اچھی چاہئے، صحت مند کو بھی اچھی چاہئے، کسی کو شکر کے ذریعے سے ملتی ہے، کسی کو صبر کے ذریعے سے ملتی ہے اور کسی کو کسی ذریعے سے ملتی ہے، تو کسی کو کسی ذریعے سے ملتی ہے۔ اس وجہ سے یہ بات آپ بھول جائیں کہ آپ صحت مند ہوجائیں گے، تو پھر آپ اپنی اصلاح کریں گے۔ اگر آپ کے خیال میں یہ بات ہے، تو یہ بھی خیالی بیماری ہے، تو اس خیال کو بھی درست کرنا ضروری ہے۔ اللّٰہ جل شانہٗ تمام خیالی بیماریاں آپ کی درست فرما دیں۔
شانگلہ کے ایک اور ساتھی نے یہی پوچھا تھا اور خانقاہ کا پتہ پوچھا تھا، ان کو میں نے بتایا بھی تھا۔ خانقاہ کی لوکیشن میں بھیج دیتا ہوں۔ باقی یہ کام ہمت سے ہوتے ہی۔ جیسے کہتے ہیں ہمتِ مرداں مددِ خدا۔
سوال نمبر 8:
السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ۔ حضرت جی! ’’جہلم‘‘ سے احقر (فلاں) بات کر رہا ہوں۔ آپ کے ارشاد عالی کے مطابق الحمد للّٰہ! روزانہ 15 منٹ، مراقبۂ معیت کر رہا ہوں، جس کی برکت سے اللّٰہ کا خوف بھی میں محسوس کرتا ہوں اور گناہوں سے بچنے کا بھی دھیان لگا ہے۔ آپ کی برکت سے گناہوں کی جرأت کم ہو رہی ہے۔
جواب:
اللّٰہ جل شانہٗ مزید آپ کو ترقی عطا فرما دے۔
سوال نمبر 9:
السلام علیکم
جواب:
یہ ’’AOA‘‘ لکھنا ٹھیک نہیں ہے، بلکہ السلام علیکم عربی میں پورا لکھنا چاہئے۔ یہ معمولی چیز نہیں ہے، آپ ﷺ نے فرمایا:
’’اَفْشُوْا السَّلَامَ وَاَطْعِمُوْا الطَّعَامَ وَصِلُوا الْأَرْحَامَ وَصَلُّوْا بِاللَّيْلِ وَالنَّاسُ نِيَامٌ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ بِسَلاَمٍ‘‘ (سلسلہ احادیث صحیحہ: 2877)
ترجمہ: ’’سلام عام کرو، لوگوں کو کھانا کھلاؤ، رحموں کو ملاؤ (یعنی رشتہ داریوں کے حقوق ادا کرو) اور اس وقت اٹھ کر ( تہجد کی) نماز پڑھو جب لوگ سوئے ہوئے ہوں، تم جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہوجاؤ گے۔“
تو سلام کو پھیلانے کا حکم ہے۔ لیکن یہ ’’AOA‘‘ کیا چیز ہوتی ہے! مخففات یہ انگریزوں کی چیزیں ہیں، ان کی زبان ایسی ہی ہے یعنی فضول قسم کی زبان ہے کہ اس میں اس قسم کی چیزیں ہوتی ہیں۔ اگر میں لکھتا ہوں ’’AOA‘‘ تو sound کے لحاظ سے اتنا ہی ہوتا ہے اور ’’السلام علیکم‘‘ کی آواز میں کتنا فرق آگیا۔ تو AOA بہت ساری چیزیں بن سکتی ہیں۔ اس وجہ سے یہ مخففات انگریزوں کی زبان میں ہیں، ہماری زبان میں نہیں۔ لہٰذا اس کو چھوڑیے اور باقاعدہ ’’السلام علیکم‘‘ لکھنا چاہئے۔
سوال نمبر 10:
مراقبہ 10 منٹ کا ہے، ایک مہینے سے اوپر ہوگیا ہے۔
جواب:
ماشاء اللّٰہ! اب آپ 10 منٹ کے بجائے 15 منٹ کریں۔
سوال نمبر 11:
السلام علیکم و رحمۃ اللّٰہ و برکاتہ۔ حضرت جی! میں تزکیہ کی website سے نماز کے اوقات download کرنا چاہ رہی تھی، لیکن وہ صفحہ کھل نہیں رہا۔
جواب:
ممکن ہے website کا مسئلہ نہ ہو، بلکہ WiFi کا ہو یا کوئی اور چیز ہو۔ بہرحال متعلقہ لوگوں سے میں بات کر لوں گا، اگر اس قسم کی بات آپ کو پیش آرہی ہے تو دیکھ لیتے ہیں کہ کیا صورت حال ہے۔ اور یہ کب کی بات ہے؟
سوال نمبر 12:
السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ۔ حضرت جی! انسان کی زندگی میں کبھی ایسے ادوار آجاتے ہیں کہ وہ بہت مشکل میں ہوتا ہے اور ماحول میں بھی کچھ ایسے عناصر ہوتے ہیں جو اس کی زندگی کو اور بھی مشکل بنا دیتے ہیں۔ ایسے حالات میں جب وہ صبر سے کام لیتا ہے اور پھر ایسا دور آجاتا ہے کہ مشکلات زیادہ تر حل ہوجاتی ہیں اور آسان دور شروع ہوجاتا ہے، زندگی پہلے سے زیادہ سہل ہوجاتی ہے، اور انسانی فطرت میں ہے کہ لوگ مشکل دور کو اور بھی مشکل بنا دیتے ہیں اور انسان کے دل میں ایک چھپی ہوئی نفرت ہوتی ہے، تو وہ جب دیکھتا ہے کہ اب اس انسان پر (یعنی جس سے نفرت ہوتی ہے، اس پر) برا وقت ہے، تو وہ خوش ہوتا ہے کہ اللّٰہ نے اس سے بدلہ لے لیا، خود بھی وہ کوشش کرتا ہے کہ میں بھی کسی طریقے سے بدلہ لوں۔ جو لوگ سلوک طے کرتے ہیں، تو ان کو اس قسم کے احساسات (کہ دوسرے سے بدلا لے لے اور ان پر برا وقت ہو، اور اس پر خوش ہونا،) تو ختم کرنے چاہئیں۔ حضرت! ایسے احساسات اکثر مجھے بھی ہوجاتے ہیں۔ اب چونکہ میں سلوک کی پہلی سیڑھی پر ہوں، تو میں پھر دل میں توبہ کر لیتی ہوں، استغفار بھی پڑھ لیتی ہوں۔ ایسے احساس کو ہمیشہ کے لئے کیسے ختم کیا جاسکتا ہے؟ کہ بندہ سب کچھ یعنی جو بھی برا ہو وہ بھول جائے اور ایسا ہوجائے کہ دل میں بھی برا خیال نہ آئے۔ چونکہ میرے دل میں برا خیال آتا ہے، تو پھر میں خفا ہوتی ہوں کہ کسی کو نہیں پتا، مگر اللّٰہ کو تو پتا چل گیا، تو اگر اللّٰہ خفا ہوجائے تو پھر کیا ہوگا۔ اللّٰہ خفا بھی ہوتا ہے اور مجھے بتا بھی دیتا ہے اور ذرا ڈرا بھی دیتا ہے۔ اب حضرت! میں اپنے دل کی گندگی کو کیسے ختم کروں؟ کیونکہ جب دل ٹھیک ہوگا تو پورا بدن ٹھیک ہوگا، جبکہ میرا تو دل ہی گندہ ہے، تو اس کو صاف کیسے کروں؟ آپ اصلاح فرمائیں۔
جواب:
ماشاء اللّٰہ! اچھے احساسات ہیں، لیکن تھوڑی سی نا سمجھی بھی ہے، اور وہ نا سمجھی یہ ہے کہ غیر اختیاری اور اختیاری کا معلوم نہیں ہے۔ یہ جو باتیں ہو رہی ہیں، یہ غیر اختیاری ہیں۔ کیونکہ اگر یہ اختیاری ہوتیں تو پھر اس پر تکلیف کیوں ہو رہی ہے! پھر اس پر شرمندگی کیوں ہو رہی ہے! لہٰذا یہ اختیاری نہیں ہے، بلکہ غیر اختیاری ہے یعنی روکنا چاہتی ہے، لیکن روک نہیں پا رہی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ غیر اختیاری چیز ہے۔ اور جو غیر اختیاری چیز ہے، اس کے در پہ نہیں ہونا چاہئے، کیونکہ اس پر اللّٰہ پکڑتا نہیں ہے۔ تو آپ بھی اس کی پروا نہ کریں۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے (اللہ تعالٰی نے حضرت کو بہت اونچا مقام دیا تھا بہت ٹیڑھے مسئلے حل کیا کرتے تھے، تو انہوں نے) فرمایا کہ حکم تو یہی ہے کہ غیر اختیاری کے پیچھے نہ پڑو، غیر اختیاری کے خیالات ہی نہ آئیں، اس کا آپ سوچیں بھی نہیں، بس اس کو بھول جائیں، چھوڑ دیں جو ہوتا ہے بس ہونے دیں، آپ نے بس ارادے کے ساتھ وہ کرنا ہے، جو اللّٰہ پاک کا حکم ہے۔ فرمایا ایسے بھی لوگ ہوتے ہیں، جن کے لئے سڑک خالی کردی جاتی ہے، لیکن وہ لوگ سارے نہیں ہوتے، بلکہ تھوڑے لوگ ہوتے ہیں۔ اگر اللّٰہ نے چاہا تو آپ کے لئے بھی کسی وقت سڑک کو خالی کردیا جائے گا یعنی دل سڑک ہے، تو فرمایا کہ اس وقت آپ ایسا مراقبہ کرسکتے ہیں جیسا مراقبہ حاجی امداد اللّٰہ مہاجر مکی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے مجھے بتایا ہے، تو آپ کہیں گے کمال ہے، کیا بات ہے، اللّٰہ نے کیسا دل بنایا ہے کہ اس میں مختلف قسم کی چیزیں خود بخود آرہی ہیں، میرا اس پر قابو بھی نہیں اور اللّٰہ پاک اس پر پکڑتے بھی نہیں ہیں، کیا بات ہے! تو اس طرح اللّٰہ کے شکر کی توفیق ہوجائے گی۔ تو جس چیز سے آپ ڈر رہی ہیں، وہی آپ کے لئے خیر کا ذریعہ بن جائے گی، کیونکہ شکر اختیاری ہے، تو وہ حالات جو غیر اختیاری ہیں، ان سے آپ نے (غیر اختیاری چیز کے ذریعے سے) اجر کما لیا ہے۔ اسی لئے باقاعدہ ایک دعا ہے۔
’’اَللّٰهُمَّ اجْعَلْ وَسَاوِسَ قَلْبِيْ خَشْیَتَكَ وَذِکْرَكَ‘‘ (مسند فردوس دیلمی: ج، 1ص474)
ترجمہ: ’’اے اللہ میرے دل کے وساوس کو اپنی خشیت بنا دے اور اپنا ذکر بنا دے‘‘
تو آپ یہ دعا کر لیا کریں۔ ان شاء اللّٰہ! آپ کے لئے بھی امید ہے کہ بڑی خیر ہوگی۔
سوال نمبر 13:
السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ۔ حضرت! آپ نے ستمبر دو ہزار تیئیس میں مندرجہ ذیل ذکر دیا تھا۔ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘ 200 ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ 400 ’’حَقْ‘‘ 600 اور ’’اَللہ‘‘ 500 مرتبہ۔ اور ساتھ روزانہ کے معمولات میں 100 مرتبہ تیسرا کلمہ، 100 مرتبہ درود شریف، 100 مرتبہ استغفار بھی جاری ہے۔ علاوہ ازیں نماز کی تسبیحات بھی جاری ہیں۔ انٹرنیٹ سے واقفیت نہ ہونے کی وجہ سے اور ہمارے علاقے میں signal بھی بہت کمزور ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے سوال و جواب کی ریکارڈنگ اچھی سی نہ سننے کی وجہ سے میں آپ کا جواب شاید سن نہ سکا، تو ستمبر سے اسی تعداد میں روزانہ وہی ذکر جاری ہے۔ حضرت! آپ سے آگے رہنمائی کی درخواست ہے۔
جواب:
مجھے حیرت ہو رہی ہے کہ ابھی آپ نے انٹرنیٹ کے ذریعے سے مجھے یہ میسج بھیجا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ انٹرنیٹ تک آپ کی رسائی ہے، تو آپ اس کے ذریعے سے اپنے احوال مجھے بھیج سکتے ہیں، لیکن آپ نے بھیجے نہیں اور دیر کردی۔ تو ستمبر سے جنوری یہ تو کافی دیر ہوگئی ہے۔ خیر جو دیر آپ نے کرلی، سو وہ تو کرلی، لیکن آئندہ ایسا نہ کریں کیونکہ اس کی وجہ سے انسان پیچھے ہوجاتا۔ لہٰذا مہینے کے ذکر کو باقاعدہ مہینے کے بعد بتا دیا کریں اور اس کی حالت بھی۔ اب آپ اس طرح کر لیں کہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘ 200 مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ 400 مرتبہ ’’حَقْ‘‘ 600 مرتبہ اور ’’اَللہ‘‘ 500 مرتبہ، اس کے ساتھ ایک چھوٹا سا مراقبہ کر لیں یعنی 5 منٹ کے لئے آنکھیں بند، زبان بند، قبلہ رخ بیٹھ کر تصور کر لیں کہ میرا دل ’’اَللہ اَللہ‘‘ کر رہا ہے یعنی آپ کا دل اپنی زبان سے کر رہا ہے۔ بس اس تصور میں 5 منٹ کے لئے روزانہ بیٹھ جائیں۔ یہ ذکر کرنے کے ایک مہینہ بعد پھر مجھے بتا دیں۔ جو تسبیحات دائمی ہیں یعنی تیسرا کلمہ، درود شریف، استغفار اور نمازوں کے بعد وہ بھی ساتھ چلتی رہیں۔
سوال نمبر 14:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
As per your instructions I was able to do the following حضرت virtuous deeds in the last few months.
No 1. Read two pages of تفسیر daily. Fasting on Monday and Thursday. Teach the Quran recitation to some brothers and sisters.
After doing the above, I have almost the same feelings as a few months ago. That is, I feel confident and have more patience and have more control over myself.
جواب:
سبحان اللّٰہ You are very right. You can continue this and you can teach obligatory علم knowledge which is فرض for all Muslims; Just like یعنی procedure of صلوۃ and fasting and زکوۃ and if some people are going for حج then the procedure of حج and معاملات (dealings). So you should continue this and teach it to other brothers. You should teach these things keeping in mind all these things ان شاء اللّٰہ.
سوال نمبر 15:
شیخ السلام علیکم
As per your instructions I have been focusing on the following حسنات virtual deeds related to others for the last one month as follows.
No, 1. Reduction in conflict with my mother. شیخ this is a little change during this month. I would be thankful if you may kindly guide me next جزاک اللّٰہ خیرا.
جواب:
So ماشاء اللّٰہ it's very good. Now ان شاء اللّٰہ if you will yourself learn دینی مسائل which means how to perform صلوۃ, how to perform fasting, how to perform زکوۃ, how to perform حج, if some people are going for حج so, learn these things yourself and then teach other sisters ان شاء اللّٰہ. Besides this, I did not find any message from your daughter. What is she doing, whether she is working on her اصلاح or not?
میں ان شاء اللّٰہ بعد میں آپ کو جواب دوں گا۔
سوال نمبر 16:
السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ۔ حضرت جی! میں زوجۂ فلاں آپ سے مخاطب ہوں۔ حضرت جی! آپ کی دعا سے میرے حالات اب بہتر ہیں، اللّٰہ پاک نے رزق معاش میں جو تبدیلی کرنی تھی، میں اس تبدیلی پر راضی ہوں، الحمد للّٰہ، اور کوشش کرتی ہوں کہ میرے الفاظ اور عمل میں نا شکری نہ ہو۔ حضرت جی! میرے شوہر کے دل میں اگر کسی کی بات کا اثر ہوتا ہے، تو وہ آپ ہیں۔ انہوں نے اپنی زندگی میں صرف آپ کے کہنے کی وجہ سے مجھے رکھا ہوا ہے۔ میں آپ سے ایک درخواست کرنا چاہتی ہوں کہ میرے شوہر سے میری سفارش کر دیجئے، کیونکہ میرا تو سب کچھ آپ ہی ہیں، آپ میرے حالات جانتے ہیں، آپ میرے والد ہیں، تو آپ اپنی بیٹی کے لئے سفارش کر دیجئے کہ وہ مجھے معاف کردیں۔ میں اپنی ہمت سے زیادہ تبدیل ہونے کی کوشش کر رہی ہوں۔ حضرت جی! میں بس ہر سانس میں دعا کرتی ہوں، لیکن آزمائش کس وقت کم ہوگی! حضرت جی! سفارش آپ کی شایان شان نہیں ہے، لیکن دنیا میں کوئی اور ذی روح نہیں ہے جو میرے لئے کچھ بول سکے، اللّٰہ نے صرف آپ کی نعمت دی ہے، شاید آپ کے الفاظ کی برکت سے میری زندگی میں ٹھہراؤ آجائے۔
جواب:
اللّٰہ جل شانہٗ آپ کے حالات بہتر فرما دے۔ مجھ سے جو ہوسکے گا، میں وہ ضرور کرتا ہوں۔ اللّٰہ تعالیٰ آپ کے تمام حالات کو درست فرمائے اور ہم سب کے حالات کو درست فرمائے، کیونکہ ہم سب محتاج ہیں۔
سوال نمبر 17:
السلام علیکم و رحمۃ اللّٰہ و برکاتہ۔ مجھے امید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گے۔ بہت واضح ہے یہ بات کہ اگر ولایت اور اعلی روحانی مقامات کے لئے بیعت ضروری نہ ہوتی تو شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللّٰہ علیہ جیسے لوگوں نے بیعت کیوں کی؟ بعض لوگ کہتے ہیں کہ شیخ کی توجہ کے بغیر آدمی کا عروج نہیں ہوسکتا اور اس کے لطائف اپنی اصل و عروض کے مزید مقامات تک نہیں پہنچ سکتے۔ کیا یہ سچ ہے؟ کہتے ہیں کہ اگر آپ 50 ہزار سال تک اپنے دل پر کام کریں، پھر بھی یہ ذاکر نہیں ہوگا یا پھر آپ روحانی مقامات تک نہیں پہنچ پائیں گے، لیکن شیخ کی توجہ سے یہ ممکن ہے۔
جواب:
آج کل لوگوں کو confusion بہت ہو رہی ہے۔ چیز کچھ ہوتی ہے، لیکن اس کو کچھ اور بنایا جاتا ہے۔ میں آپ کو ایک بات بتاؤں کہ اصل بات تو اصلاح نفس ہے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالٰی فرماتے ہیں:
﴿قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَا﴾ (الشمس: 9-10)
ترجمہ: ’’فلاح اسے ملے گی، جو اس نفس کو پاکیزہ بنائے، اور نامراد وہ ہوگا، جو اس کو (گناہ میں) دھنسا دے‘‘۔
تو اللّٰہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں واضح فرما دیا اور آپ ﷺ نے بھی فرما دیا کہ عقل مند وہ ہے جس نے اپنے نفس کو قابو کیا اور آخرت کے لئے کام کیا، بے وقوف وہ ہے جس نے اپنے نفس کو کھلا چھوڑ دیا کہ جو کرنا چاہے وہ کر لے اور محض اللّٰہ پر توکل کرے۔ (مشکوۃ: 5289)
لہٰذا یہ بات قرآن سے بھی ثابت ہے، حدیث سے بھی ثابت ہے کہ تربیت اور اصلاح نفس یہ بنیادی بات ہے۔ تو اب اس کے لئے ذرائع ہیں اور ذرائع سب کے لئے ایک نہیں ہوتے، بلکہ اس میں تغیر بھی آسکتا ہے۔ اور یہ بات بالکل صحیح ہے کہ اصلاح بغیر کسی مرشد کے نہیں ہوا کرتی، اس کی وجہ یہ ہے کہ بغیر مرشد کے جو اصلاح ہوتی ہے وہ اخیار کا طریقہ ہے اور اخیار کے طریقے میں بہت کم لوگ کامیاب ہوتے ہیں۔ اور بیعت ہوکر اور کسی خاص شخص کی تربیت میں رہ کر اپنی اصلاح کروانا یہ ابرار کا طریقہ ہے۔ لہٰذا اس تربیت کے لئے (جو کہ ضروری ہے یہ) بیعت ایک ذریعہ ہے، اور اس کو ذریعے کے درجہ میں رکھ سکتے ہیں اور اس سے یہ فائدہ ہوتا ہے کہ آدمی اپنا سارا کچھ اس شخص کے ساتھ وابستہ کر لیتا ہے اور ادھر ادھر نہیں دیکھتا۔ لہٰذا اس کو confusion نہیں ہوتی اور وہ یکسوئی کے ساتھ آگے بڑھتا ہے۔ یہ بات تو صحیح ہے، لیکن اگر کوئی شخص بغیر اس کے یکسوئی کرسکتا ہے، تو کیا اس پر بھی لازم ہوگا؟ کیونکہ بعض ایسے لوگ ہیں، جو بیعت نہیں ہوتے، لیکن بیعت والوں سے زیادہ شیخ کے معتقد ہوتے ہیں، جبکہ بعض لوگ بیعت ہوکر اپنے آپ کو فارغ سمجھ لیتے ہیں کہ بس ٹھیک ہے، میری اصلاح ہوگئی، مجھے کسی اور چیز کی اب ضرورت نہیں ہے، تو ان سے یہ لوگ زیادہ بہتر ہوتے ہیں، جو بیعت تو نہیں کرتے، لیکن اپنی تربیت باقاعدہ کرواتے رہتے ہیں۔ اس وجہ سے آپ سب کے اوپر ایک حکم نہیں لگا سکتے۔ Subject to condition and person to person لہٰذا دونوں باتیں صحیح ہوسکتی ہیں کہ بعض لوگوں کے لئے بیعت بہت مفید ہے، بغیر اس کے وہ نہیں کرسکتے یعنی ان کے دل میں یکسوئی نہیں ہوتی، بلکہ یکسوئی اس کے ذریعے سے ملتی ہے، لہٰذا ان کے لئے بیعت ضروری ہے۔ لیکن بعض لوگ بغیر اس کے بھی یکسوئی حاصل کر لیتے ہیں، کیونکہ عقل ان کی اتنی زیادہ کامل ہوتی ہے کہ وہ اپنی عقل کے ذریعے سے کسی ایک شخص پر فوکس کر لیتے ہیں اور تربیت میں رہ کر وہ اپنا مقصد پورا کر لیتے ہیں۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ چونکہ اس صدی کے مجدد ہیں اور اس فن کو میرے خیال میں آج کل کے دور میں سب سے زیادہ جانتے تھے، انہوں نے فرمایا کہ بیعت ضروری نہیں، بلکہ تربیت ضروری ہے۔ اگر کوئی شخص تربیت حاصل کرتا ہے، بیشک وہ بیعت نہ بھی ہو تو اس کا کام بن جائے گا۔ دوسرا شخص ہے جس نے بیعت کر لی، لیکن تربیت حاصل نہیں کر رہا، اس کا کام نہیں ہوگا۔ اور جس نے بیعت بھی کر لی اور تربیت پر بھی وہ فوکس کر رہا ہے تو یہ پھر ’’نُوْرٌ عَلٰى نُوْرٍ‘‘ ہے۔ اب اپنے لئے آپ راستہ ڈھونڈیں۔ باقی شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے بھی بیعت کی ہے، خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے بھی بیعت کی ہے، بڑے بڑے لوگوں نے اور بلکہ میں نے بھی بیعت کی ہے، سبحان اللّٰہ! اور ہمارے شیخ نے بھی بیعت کی تھی۔ تو بیعت کرنا کوئی جرم نہیں ہے، البتہ بیعت کرنا لازم بھی نہیں ہے۔
سوال نمبر 18:
السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ۔ حضرت جی! جب کبھی کسی مجلس میں غیبت ہوتی ہے، تو میں وہاں پر دعوت دینا شروع کرتی ہوں، تو اکثر یہ ہوتا ہے کہ کچھ لوگ اٹھ جاتے ہیں، کچھ خاموش ہوجاتے ہیں۔ لیکن کبھی ایسی situation آئی کہ اگلے بندے کو منع نہیں کرسکتی، مثال کے طور پر میری خالہ (بزرگ خاتون ہیں، بیمار بھی ہیں، تو ان) سے میں بات کر رہی تھی کہ انہوں نے غیبت شروع کردی، میں نے دعوت کی طرف ان کی discussion موڑنا چاہی تو تھوڑی دیر سننے کے بعد انہوں نے پھر وہی بات شروع کی کہ آپ کو نہیں پتا، اس نے بہت برا کیا تھا میرے ساتھ، وہ ایسی خاتون ہے، وہ ایسی خاتون ہے۔ تو میں نے بھی بے رغبت سن لی۔ اب میں ایسے حالات میں کیسے خود کو غیبت سننے سے بچاؤں؟ آپ اصلاح فرما دیں۔
جواب:
دیکھو! ہر وہ شخص جسے کوئی کہہ رہا ہے کہ وہ اچھا نہیں ہے، تو وہ غیبت نہیں ہوا کرتی۔ جیسے قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿لَا یُحِبُّ اللّٰهُ الْجَهْرَ بِالسُّوْٓءِ مِنَ الْقَوْلِ اِلَّا مَنْ ظُلِمَ﴾ (النساء: 148)
ترجمہ: ’’اللہ اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ کسی کی برائی علانیہ زبان پر لائی جائے، الّا یہ کہ کسی پر ظلم ہوا ہو‘‘۔
لہٰذا اس آیت میں اس شخص کو جس پر ظلم ہوا ہے، اسے اجازت ہے کہ وہ اس کے بارے میں بات کرسکتا ہے، یعنی جس کے بارے میں بات کر رہا ہے، تو اس پر اگر ظلم ہوا ہے، تو وہ بات کرسکتا ہے، اور یہ غیبت نہیں ہوگی۔ البتہ محتاط رہنا چاہئے کہ کہیں غیبت کی زمرے میں داخل نہ ہوجائے۔ تو آپ اس بزرگ خاتون کی بات سن کر اصلاح کی نیت سےیوں کہہ سکتی ہیں (اگر وہ حد سے گزری ہے) کہ یہ بات تو ٹھیک ہے، البتہ اس میں اتنا نہیں جانا چاہئے۔ ہم دعا کرتے ہیں کہ اللّٰہ پاک اس کو بھی ٹھیک کردیں اور ہم کو بھی ٹھیک کردیں کیونکہ ہم سب کو ٹھیک ہونے کی ضرورت ہے۔ بس اس طرح بات کر کے چھوڑ دیں۔ وَاللّٰهُ اَعْلَمُ بِالصَّوَاب۔ (اللہ آپ سے زیادہ بہتر جانتے ہیں)۔
سوال نمبر 19:
السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ۔ حضرت جی! جناب کے فیض کا چشمہ جاری ہے، ذکر کا معمول عشاء کے بعد ہے، اگر کسی وجہ سے یہ نہ کرسکوں تو اگلی صبح کر لیتا ہوں، کل عشاء کے بعد نہیں کرسکا، لیکن پھر صبح کے وقت بھی بالکل یاد نہیں رہا، ابھی مغرب کے وقت یاد آیا ہے، تو اس صورت میں کیا حکم ہے؟
جواب:
ٹھیک ہے، اگر آپ نہیں کرسکے، تو جس وجہ سے نہیں کرسکے، اس کی آپ ٹوہ لگا لیں اور پھر آئندہ اس سے بچنے کی کوشش کر لیں۔ اس کی تلافی اس طریقے سے ہوسکتی ہے یعنی اپنے lose سے کچھ gain کر لیں۔ باقی اس سے یہی gain کرنا ہے کہ آئندہ قضا نہ ہو، آئندہ وقت پر ہوجایا کرے، اس کے لئے فکر کر لیں کہ اگر ذکر نہیں ہوا تو فکر تو ہوجائے گی۔ اللّٰہ پاک قبول فرمائیں۔
سوال نمبر 20:
السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ۔ حضرت جی! اللّٰہ پاک سے آپ کی صحت و تندرستی اور بلند درجات کے لئے دعا گو ہوں۔ (آمین) حضرت جی! گناہوں سے توبہ اور استغفار تو میں کرتا ہوں، لیکن مجھے احساس ہو رہا ہے کہ میری توبہ میں اخلاص نہیں ہے۔ گناہوں کی جانب طبیعت کافی مائل ہے، اگر اللّٰہ تعالیٰ کی مدد اور آپ کی دعاؤں کی برکت اور سلسلے کی برکت نہ ہوتی تو میں کب کا دوبارہ کبیرہ گناہوں میں مبتلا ہو چکا ہوتا۔ میں توبہ میں اخلاص کیسے پیدا کروں؟ توبة النصوح کیسے حاصل کروں؟ کہ گناہوں سے بیزار ہوجاؤں اور گناہ کرنے سے ہی نفرت ہوجائے۔ اس کے علاوہ میں نیند کا بہت رسیا ہوں، بہت سے کام اس کے باعث رہ جاتے ہیں، اکثر تہجد کی نماز بھی نیند کے باعث رہ جاتی ہے۔ مجھے مہینے میں 2، 3 مرتبہ شدید قسم کا نزلہ، زکام ہوجاتا ہے اور بے تحاشہ چھینکیں آتی ہیں۔ زکام کے دوران میں انفرادی نماز پڑھ لیتا ہوں اور یہ سوچ کر مسجد نہیں جاتا کہ دوسرے نمازی حضرات متأثر نہ ہوں، کیونکہ اس بات پر ایک امام مجھے ٹوک بھی چکے ہیں کہ ایسی حالت میں نماز گھر پر پڑھی جاسکتی ہے، کیونکہ یہاں پر دوسروں کی نمازیں متأثر ہوتی ہیں۔ آپ اس بارے میں رہنمائی فرما دیں کہ ایسا کرنا ٹھیک ہے یا نہیں؟ اللّٰہ پاک آپ کے درجات کو بلند فرمائے، آپ کے اور آپ کے جملہ متعلقین کے لئے بے حد آسانی پیدا فرمائے۔ (آمین ثم آمین)
جواب:
اللّٰہ تعالیٰ آپ کو بھی صحت و تندرستی، بلندیٔ درجات عطا فرما دے۔ گناہوں سے توبہ اور استغفار تو بہت بڑی عقل مندی ہے، اگر آپ یہ کر رہے ہیں، تو واقعی آپ عقل مند ہیں ماشاء اللّٰہ، مزید کوشش جاری رہنی چاہئے۔ اگر غلطی ہوجائے تو اس پر توبہ کرنا لازمی ہے اور وہ آپ کر رہے ہیں، تو ان شاء اللّٰہ! آگے بات چلے گی۔ باقی یہ احساسِ کامل کب حاصل ہوگا! تو یہ Subject to condition ہے، بہت سارے اس میں parameters ہیں۔ جب وہ subject ٹھیک ہوتے ہیں تو پھر اس کے بعد یہ بات ہوتی ہے۔ کیونکہ ہمارے ساتھ نفس ہے اور نفس کی اصلاح جب تک نہیں ہوگی، تو اس وقت تک نفس شرارت کرے گا، نیند بھی نفس ہی کی ایک خواہش ہے۔ لہٰذا اس میں بھی یہی بات ہوتی ہے۔ جہاں تک نزلہ، زکام کی بات ہے تو آپ علاج کروا لیں، اس کا علاج کروانا کوئی مشکل نہیں ہے۔ میرے خیال میں یہ allergy ہے، کیوںکہ viral تو کبھی کبھی ہوتا ہے، اس طرح regularly نہیں ہوتا۔ تو یہ میرے خیال میں آپ کو allergy ہے، اور allergy کا آپ test کروا لیں۔ یہاں کا تو مجھے پتا ہے، لیکن وہاں کا پتا نہیں ہے، البتہ وہاں بھی ہوں گے تو ضرور، تو وہاں سے اگر test کروا لیں، تو امید ہے کہ پتا چل جائے گا کہ آپ کو کس کس چیز کے ساتھ allergy ہے۔ اور vaccination بھی اس کی ہوتی ہے، لیکن اگر کسی کو vaccination کام نہ دے تو ان چیزوں سے بچنے کی کوشش کریں، avoid کریں اور اگر allergy ہوجائے تو اس کے لئے پھر medicines ہیں، اس پر گزارا کرنا چاہئے، لیکن اس کے لئے نماز با جماعت چھوڑنا کم از کم میں تو اس کی جرأت نہیں کرسکتا کہ میں کسی کو یہ بتاؤں کہ آپ نماز کے لئے نہ آئیں، البتہ میں اس کو یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ اس سے کم چیز آپ اختیار کر لیں کہ آپ اکیلے پیچھے صف میں کھڑے ہوجائیں، اگر خود آپ کے ساتھ کوئی کھڑا ہوگیا تو اس کی اپنی مرضی ہے، لیکن آپ تو کسی کے ساتھ کھڑے نہیں ہوئے۔ کیونکہ گھر میں نماز پڑھنا یہ بہت بڑی جسارت ہے، اگرچہ اکیلے کھڑے ہونا کہ کوئی بھی ساتھ نہ ہو، یہ بھی ٹھیک نہیں ہے، لیکن چلو بیماری کی حالت میں آپ کے لئے گنجائش ہوگی۔ اس طریقے سے میرے خیال میں یہ ہوسکتا ہے۔ باقی شاید exhilaration والی بات ہے، تو اس کے لئے اگر آپ کسی مفتی سے پورا مسئلہ معلوم کر لیں تو زیادہ بہتر ہے کیونکہ میرا ذوق تو یہی ہے کہ جو میں نے بتا دیا۔ لیکن میں کوئی مفتی تو نہیں ہوں کہ میں اس پر فتوی دے رہا ہوں۔ تو آپ کسی مفتی سے بات کر لیں، شاید وہ آپ کو بہتر بات بتا دیں گے ان شاء اللّٰہ۔
سوال نمبر 21:
السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ۔ حضرت! جب کبھی کوئی پریشانی ہوتی ہے، تو محسوس ہوتا ہے کہ اللّٰہ پاک سے تعلق ٹوٹ گیا ہے۔ اگرچہ یہ لفظ ’’ٹوٹ جانا‘‘ سخت لفظ ہے، لیکن محسوس ایسے ہی ہوتا ہے۔ اگر نماز پڑھتا ہوں تو صرف اٹھک بیٹھک محسوس ہوتی ہے، اگر ذکر کروں تو کچھ اثر نہیں لیتا، پھر کچھ وقت کے بعد حالت کچھ بہتر ہوتی ہے اور بہت بے چینی ہوتی ہے۔ ان منفی کیفیات کو کس طرح کنٹرول کیا جاسکتا ہے؟
جواب:
دیکھیئے! اختیاری اور غیر اختیاری والی بات میں پہلے کئی دفعہ بتا چکا ہوں کہ غیر اختیاری میں پروا نہ کریں یعنی اگر آپ کے اوپر ایسی بھی حالت آجائے کہ کفر کے وسوسے آجائیں، پھر بھی اس سے کفر نہیں ہوتا۔ کیونکہ وسوسہ، وسوسہ ہی ہے، کبیرہ گناہ کا بھی اگر وسوسہ آجائے تو پھر بھی اس سے کوئی کبیرہ گناہ نہیں ہوتا، کیونکہ وہ وسوسہ ہے۔ اور جب انسان اس میں ارادہ شامل کر لیتا ہے اور پھر وہ چیز غلط ہوجاتی ہے، تو پھر اس پر گرفت ہے اور جب تک ارادے کے ساتھ شامل نہیں ہے، بس وہ خیال آگیا، آپ نے پروا نہیں کی، تو وہ ختم ہوگیا۔ لہٰذا اس کی ایسی کوئی بات نہیں ہے، آپ یہ بات چھوڑ دیں کہ وسوسہ بھی کوئی چیز ہے، بالکل اس کی آپ پروا نہ کریں۔ باقی نماز تو ہمیں ہر حالت میں پڑھنی ہے، چاہے ہمارا دل کرے یا نہ کرے، چاہے ہمیں آسان لگے، چاہے مشکل لگے۔
سوال نمبر 22:
السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ۔ حضرت جی! کچھ عرصے سے محسوس ہوتا ہے کہ کوشش کے باوجود مجھ سے غیبت ہوجاتی ہے۔ اس پر اللّٰہ کریم سے معافی مانگنا بھول جاتا ہوں، لیکن اللّٰہ کا احسان کریم ہے کہ غیبت کا احساس ہوجاتا ہے اور تلافی کے طور پر اس شخص کی جائز تعریف بھی کردیتا ہوں۔ میں سمجھتا ہوں، یہ غیبت حسد کی وجہ سے ہے۔ کیا حسد انسانی جبلت کا حصہ ہے؟ حسد اور غیبت سے نکلنے کا حل تجویز فرما دیں۔
جواب:
حسد جبلت کا حصہ نہیں ہے، بلکہ حسد نفس کی شرارت ہے، اخلاق ذمیمہ ہے اور بہت بری بات ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ اِذَا حَسَدَ﴾ (الفلق: 5)
ترجمہ: ’’اور حسد کرنے والے کے شر سے جب وہ حسد کرے‘‘۔
لہٰذا قرآن پاک میں اس کی مذمت آئی ہے۔ اس وجہ سے حسد نہیں کرنا چاہئے۔ ایک ہوتا ہے حسد کا وسوسہ، اور ایک ہوتا ہے حسد۔ حسد کا وسوسہ کچھ بھی نہیں ہے، لیکن حسد یہ ہوتا ہے کہ باقاعدہ آپ اس کے لئے بری planning کرنا شروع کردیں یعنی آپ کی بری خواہش اس کے لئے شروع ہوجاتی ہے، آپ کے ارادے بھی شامل ہوجاتے ہیں، تو یہ حسد ہے۔ یا پھر اس کے ساتھ کینہ بننا شروع ہوجاتا ہے، اس لئے یہ چیزیں نہیں ہونی چاہئیں یعنی اس میں کوئی عملیت نہیں آنی چاہئے۔ لیکن آپ جو اس کی تعریف کر لیتے ہیں، تو اس کا مطلب ہے کہ آپ کو حسد نہیں ہے۔ باقی یہ ہے کہ غیبت ہو نہیں جاتی، بلکہ غیبت کی جاتی ہے، کیونکہ یہ اختیاری چیز ہے، غیر اختیاری نہیں ہے۔ اور غیبت کیا ہے! یہ اختیاری چیز ہے۔ تو غیبت ہونا یہ غیر اختیاری والی بات ہے اور غیبت کرنا یہ اختیاری والی بات ہے۔ اس لئے غیبت کی جاتی ہے، غیبت ہو نہیں جاتی۔
سوال نمبر 23:
السلام علیکم۔ حضرت! میں (فلاں) ہوں۔ آپ سے ایک سوال پوچھنا چاہتی ہوں۔ میں ان شاء اللّٰہ! یکم فروری کو عمرے کے لئے جا رہی ہوں۔ مولانا مکی حجازی صاحب سے کسی نے پوچھا کہ کیا چپل پہن کر طواف کرسکتے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ کرسکتے ہیں۔ اگر چپل پاک ہو تو آپ اس میں نماز بھی پڑھ سکتے ہیں۔ تو میں آپ سے پوچھنا چاہ رہی ہوں کہ اکثر ننگے پاؤں چلنے سے میرے پاؤں کے تلووں میں درد ہوتا ہے، کیا طواف اور سعی کرنے کے لئے الگ سے پاک slipper رکھ سکتی ہوں؟ یا یہ ادب کے خلاف ہوگا؟
جواب:
کچھ چیزیں ایسی ہیں کہ جو انسان کرسکتا ہے، لیکن اس کے لئے planning کرنی پڑتی ہے۔ لہٰذا اگر آپ چپل پہن کر طواف کریں گی، تو چونکہ بہت سارے لوگ آج کل چپل پہن کر طواف کر رہے ہیں، جوتا پہن کر طواف کر رہے ہیں، جو کہ بے ادبی اور گستاخی ہوتی ہے۔ تو اب اگر آپ اپنے عذر کی وجہ سے پاک چپل پہن کر یہ پہنیں گی تو لوگ اسے وہی سمجھیں گے، تو لوگوں کو دلیل ملے گی کہ وہ بھی یہ کر رہی ہیں، بالخصوص اگر کوئی آپ کا معتقد ہوگا تو وہ تو ضرور کرے گا۔ مثلاً اگر میں کروں گا تو وہ کہے گا کہ شبیر صاحب کر رہے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ اس کی گنجائش ہے، تو میں مصیبت میں مبتلا ہوجاؤں گا۔ اس وجہ سے کسی کی بیماری کا ذریعہ نہیں بننا چاہئے۔ لہٰذا اس کے لئے آپ یہ کر لیں کہ وہ چیز لے لیں، (جو میرے پاس بھی تھیں،) وہ یہ ہے کہ اس میں نیچے والا حصہ یعنی تلوے والا حصہ اور تھوڑا سا انگلیوں والا حصہ چھپا رہتا ہے اور پیچھے سے بھی، اور درمیان میں سے جس جگہ کو کھلا رکھنا ہوتا ہے، وہ کھلی رہتی ہے۔ باقی میرے خیال میں عورتوں پر تو یہ پابندی بھی نہیں ہے، وہ تو جرابیں بھی پہن سکتی ہیں، تو اس وقت آپ کو تو یہ مسئلہ بھی نہیں ہے، لہٰذا آپ یہ کرسکتی ہیں کہ آپ طواف کے وقت جرابیں پہن لیا کریں، تو اس میں آپ کے تلوے بھی متأثر نہیں ہوں گے، باقی اگر آپ کو پھر بھی محسوس ہو رہا ہو، تو پھر وہی چیز جو میں نے بتائی ہے، وہ لے لیں۔ اس کا نام مجھے نہیں پتا کہ اس کو اردو میں کیا کہتے ہیں، ہم تو اس کو پشتو میں ’’کپائی‘‘ کہتے ہیں۔ بہرحال میرے خیال میں عورت نے پوچھا ہے، اس کے لئے بات ہوگئی ہے کہ عورت کو صرف چہرہ پر کپڑا لگانا منع ہے، اور کوئی پابندی اس میں نہیں ہے۔ اس لئے ان کے لئے تو مسئلہ نہیں، البتہ مردوں کے لئے مسئلہ ہوسکتا ہے۔ لیکن ان کے لئے صرف یہ ہے کہ ان کے چہرے پر کوئی چیز نہ لگے۔ پھر اس کا طریقہ یہ بتایا گیا ہے کہ ایک کیپ (ٹوپی) پہن لے اور اس کے اوپر نقاب ڈال لے، تو سامنے سے نظر نہیں آئے گی اور requirement بھی پوری ہوجائے گی۔
سوال نمبر 24:
یہ تین سوال ہیں کسی خاتون کے۔
سوال نمبر 1: السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ۔ حضرت! کم کھانے کا مجاہدہ جاری ہے، الحمد للّٰہ، اس ہفتے میں ایک دن تین دفعہ کھانا کھایا ہے، لیکن تین دنوں سے چوبیس گھنٹے میں صرف ایک دفعہ کھانا کھایا ہے، تقریباً 20 یا 21 گھنٹے fasting کے بعد کھاتی ہوں، کیونکہ بھوک کم ہوگئی ہے، لہٰذا آسانی سے ایک دفعہ کھانے پر گزارا ہوجاتا ہے۔
جواب:
سبحان اللّٰہ!
سوال نمبر 2: تمام لطائف پر 5 منٹ ذکر اور مراقبہ شیوناتِ ذاتیہ 15 منٹ۔ سالکہ مدرسے کی طالبہ ہے، یہ کہتی ہے کہ کچھ گھریلو مسائل کی وجہ سے وظیفہ کچھ مدت رہ گیا تھا، لیکن پھر دوبارہ شروع کر لیا۔ شروع میں تو صحیح طور پر محسوس نہیں ہو رہا تھا، لیکن آہستہ آہستہ محسوس ہونا شروع ہوگیا۔ اب الحمد للّٰہ! محسوس ہوتا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کی مختلف شانیں ہوتی ہیں، عملی طور پر اس کا استحضار نصیب ہوا ہے۔
جواب: ماشاء اللّٰہ! بڑی اچھی بات ہے۔ اب ان کو باقی چیزوں کے ساتھ صفاتِ سلبیہ اور تنزیہ کا مراقبہ بتا دیں۔
سوال نمبر 3: تمام لطائف پر 10 منٹ ذکر اور مراقبہ صفات ثبوتیہ 15 منٹ۔ اللّٰہ تعالیٰ کی تمام صفاتِ ثبوت پر عقیدہ پختہ اور کوئی بھی کام کرتی ہوں تو اس کا استحضار بھی کرتی ہوں کہ اللّٰہ تعالیٰ مجھے دیکھ رہا ہے۔
جواب: سبحان اللّٰہ! بہت اچھی بات ہے۔ اب ان کو شیوناتِ ذاتیہ کا مراقبہ دے دیجئے گا۔
سوال نمبر 25:
اگر کوئی شخص تزکیۂ نفس کو حاصل کر کے، مجدد صاحب کا ذکر کرتے ہوئے 10 مقامات سے گزرے، تو کیا ان کے لطیف مرشد اور توجہ کے بغیر دین کے اصول تک پہنچ جاتے ہیں؟
جواب:
میرے خیال میں ’’لطیف مرشد‘‘ نہیں، یہ شاید کچھ اور لکھنا چاہتے ہیں، لیکن یہاں پر یہ لکھا گیا۔ باقی جو توجہ کی بات ہے، تو توجہ ہمارے نزدیک کیا ہے! وہ بتاتا ہوں۔ ہمارے نزدیک ’’توجہ‘‘ قلبی دعا کو کہتے ہیں، مثلاً زبان سے کوئی دعا کسی کے بارے میں نہ کرے، بلکہ اللّٰہ پاک کی طرف متوجہ ہوکر یہ کہے کہ یا اللّٰہ! اس کو یہ چیز عطا ہوجائے۔ اللّٰہ کے ساتھ اس کا تعلق چونکہ ایسا ہوتا ہے کہ اللّٰہ جل شانہٗ اس کو پورا کردیتے ہیں۔ تو یہ توجہ ہے، اس کے لئے الفاظ نہیں ہوتے، بلکہ یہ ایک کیفیت ہے، اس وجہ سے لوگ اس کو توجہ کا لفظ دیتے ہیں۔ اور جو عام توجہ ہے، جس کو لوگ توجہ سمجھتے ہیں، وہ ہمارے یہاں کیوں نہیں ہے! کیونکہ اس کو تصرف کہتے ہیں، اور جو تصرف ہے، اس میں انسان جو تصرف کر رہا ہے، تو اس کی اپنے اوپر نظر ہوتی ہے کہ میں نے یہ کام کیا، اور یہ تصوّف کی بنیادی چیزوں کے خلاف ہے۔ کوئی بھی کامل شخص اللّٰہ تعالیٰ سے اپنی توجہ کسی کے لئے نہیں ہٹھا سکتا، اس وجہ سے میں نے دیکھا ہے کہ بڑے بڑے سلسلوں (جو مشہور ہیں ان) کے مشائخ نے جب توجہ کی باتیں شروع کیں، تو مسائل گڑ بڑ ہوگئے، پھر دعوے ہونے لگے کہ میری توجہ یہاں اتنی ہے، میری توجہ یہاں اتنی ہے۔ اب یہ کیا چیز ہے! یہ کوئی دکانداری کی بات ہے یا دنیا داری کی بات ہے! یہ تصوّف نہیں ہے، لہٰذا توجہ ہمارے نزدیک قلبی دعا ہے۔ باقی قلبی دعا تو انسان ہر وقت کرسکتا ہے، شیخ بھی کرسکتا ہے اور اس کے ذریعے سے فائدہ ہوتا ہے۔ لیکن عموماً یہ جو کیفیت ہوتی ہے، اس کو حاصل کرنے کے لئے بڑے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے باقاعدہ اس کے لئے شابیک رحمۃ اللّٰہ علیہ کا پورا ایک قصہ مواعظ میں سنایا ہے۔ شابیک رحمۃ اللّٰہ علیہ ہر وقت شیخ کی خدمت میں رہتے تھے اور بڑی مشکلات اس خدمت میں کرتے تھے۔ ایک دن حضرت نے اس کو نکال دیا، اللہ کی شان کہ اسی دن بارش ہوگئی۔ بیوی نے کہا کہ جو خادم تھا، جو یہ کام کرسکتا تھا، اس کو آپ نے نکال دیا، اگر وہ ہوتا تو ابھی اس کی لپائی کر لیتا تو یہ ٹپکنا بند ہوجاتی، (کیونکہ چھت ٹپکنا شروع ہوگئی تھی،) تو اس نے کہا میں نے نکالا ہے، تو نے تو نہیں نکالا یعنی اس طرح اپنی بیوی کو گویا کہ اجازت دے دی کہ آپ بلا سکتی ہیں، تو اس نے کسی کے ذریعے سے اس کو بلوایا، وہ تو اسی کے انتظار میں تھا کہ کوئی کام مجھے کہہ دے، تو میں کر لوں، اب پیچھے سے وہ آیا، چھوٹی چھوٹی چھتیں تھیں، اس لئے وہ آیا اور گارا اس پر ڈالنے لگا اور لیپ کرنے لگا۔ حضرت اس وقت کھانا کھا رہے تھے، جب چک چک کی آواز آئی تو باہر جا کے دیکھا، تو شابیک تھا، حضرت اس وقت بڑے خوش ہوگئے اور کہا کہ آؤ! شابیک ایک نوالہ کھا لو یعنی جو نوالہ ان کے ہاتھ میں تھا، وہ تو اسی انتظار میں تھا، وہیں سے چھلانگ لگا دی اور لقمہ کھا لیا، بس اسی سے سب کچھ مل گیا۔ اس پر حضرت تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے فرمایا کہ دیکھو! شابیک کو لقمے سے سب کچھ ملا، لیکن لقمہ کتنے عرصے میں تیار ہوا ہے، اس کو لوگ نہیں دیکھتے۔ لہٰذا یہ مفت مفت کے چکر میں مشکل ہوتی ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ نے بھی فرمایا ہے:
﴿وَالَّذِیْنَ جَاهَدُوْا فِیْنَا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَا﴾ (العنکبوت: 69)
ترجمہ: ’’اور جن لوگوں نے ہماری خاطر کوشش کی، ہم ان کو ضرور بالضرور اپنے راستوں پر پہنچا دیں گے‘‘۔
اس میں وَالَّذِیْنَ جَاهَدُوْا فِیْنَا پہلے فرمایا ہے اور لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَاؕ بعد میں فرمایا ہے۔ لہٰذا پہلے محنت کرے، پھر کام ہوجائے گا۔ ان شاء اللّٰہ۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ
۔ نوٹ: تمام آیات کا ترجمہ آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم سے لیا گیا ہے۔