سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 637

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ


سوال نمبر 1:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ جی! میں فلاں لوئر دیر کالاش کا ہوں اور ابھی کراچی میں دورۂ حدیث میں ہوں۔ میرے گمان میں ہے کہ آپ صحت سے ہوں گے، اللہ تعالیٰ آپ کی زندگی کی مشکلات آسان فرمائے اور درجات کو بلند فرمائے۔ الغرض میں آپ سے آج سے تقریباً سات سال پہلے بیعت ہوا تھا، اس دورانیہ میں کبھی کبھار ذکر کے لئے رابطہ کرتا اور معلومات دے دیا کرتا تھا، اب کچھ مہینے ہوئے کہ میں نے رابطہ نہیں کیا، کیونکہ اس سال کے ابتدا میں جب میں یہاں کراچی آیا تو گاڑی میں سوار تھا کہ چوروں نے موبائل لے لیا، اب میرے پاس جتنے بھی نمبر تھے وہ اس سم میں ہونے کی وجہ سے چلے گئے اور اس میں آپ کا نمبر بھی تھا، ابھی بہت مشکل سے مجھے آپ کا نمبر مل گیا ہے۔ مجھے جو ذکر عطا کیا تھا وہ دو سو بار ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘، تین سو بار ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘، تین سو بار ’’حَقْ‘‘ اور سو بار ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ تھا۔ سال کے شروع میں مجھ سے کچھ دن ناغے ہوگئے تھے، لیکن ابھی ایک مہینہ اور پندرہ دن تقریباً ہوگئے ہیں کہ ذکر کررہا ہوں، آگے رہنمائی فرمائیں۔ نیز یہ ذکر پہلے زیادہ اور اس کے ساتھ تقریباً ایک گھنٹہ مراقبہ بھی تھا، لیکن بیماری اور مشکلات کی وجہ سے کم کردیا گیا تھا، ابھی بھی چونکہ دورہ کا سال ہے، دن کو بھی اور رات کو بھی گھنٹے اسباق ہوتے ہیں، لہٰذا مزید رہنمائی فرمائیں اور اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں اور یہ نمبر اپنے پاس برائے مہربانی add کردیں۔ شکراً جزاکم اللہ تعالیٰ!

جواب:

ابھی آپ اس طرح کرلیں کہ دو سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘، چار سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘، چار سو مرتبہ ’’حَقْ‘‘ اور سو مرتبہ ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ اور اس کے ساتھ دس منٹ کے لئے ’’اَللّٰہ‘‘ دل پر محسوس کریں۔ یہ فی الحال آپ کے لئے کافی ہے۔ اور جب آپ کے دورے کا سال مکمل ہوجائے تو پھر بتا دیں، لیکن ذکر میں ناغہ نہ کریں، کیونکہ اس پر وقت اتنا نہیں لگتا، لیکن اس کا فائدہ بہت زیادہ ہوتا ہے، اس لئے ذکر باقاعدگی کے ساتھ کرلیا کریں، البتہ اطلاع مہینے مہینے کرلیا کریں۔

سوال نمبر 2:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ کیا مراقبہ بغیر وضو کے کرسکتی ہوں؟

جواب:

جی ہاں کرسکتی ہیں، بلکہ جس وقت نماز نہیں بھی پڑھنی ہوتی، اس وقت بھی مراقبہ کیا جاسکتا ہے، کیونکہ ذکر بغیر وضو کے بھی کیا جاسکتا ہے، البتہ اگر وضو کیا جاسکتا ہو تو اس کے کرنے میں فائدے بہت ہوتے ہیں۔

سوال نمبر 3:

السلام علیکم۔ حضرت جی! آپ نے ’’مکتوبات شریف‘‘ کے درس میں بات کی تھی کہ ہر بات میں شیخ سے پوچھ پوچھ کر چلنا چاہئے، آپ نے اپنے گھر والی مثال دی کہ گھر بنانا چاہئے یا نہیں، پہلے مجھے لگتا تھا کہ یہ باتیں دنیا کی ہیں، یہ آپ سے نہیں پوچھنی چاہئیں، لیکن اب سمجھ میں آیا کہ ہر ہر چیز پوچھنی چاہئے۔ حضرت ہم نے یہاں اپنا گھر لیا ہے اور اس کا ذکر ہم نے کسی سے بھی نہیں کیا، کیونکہ پچاس فیصد ہم نے پیسے دے دیئے ہیں، باقی ہر ماہ دیتے رہیں گے اور تین سے چار سال میں ان شاء اللہ! پورے ہوجائیں گے۔ ہمارا ارادہ کسی مسلمان ملک میں settle ہونے کا ہے، کیونکہ یہاں پر وہ تباہیاں ہیں، (اس کے لئے میں آپ کو الگ message بھیجوں گی) اور یہاں ایمان کی حفاظت بہت مشکل ہے خصوصاً بچوں کی، کیونکہ یہاں پر بچے ہمارے نہیں ہوتے، اُن کے ہوتے ہیں، ان کی مرضی کے مطابق چلیں گے تو ٹھیک، ورنہ پولیس آجائے گی۔ میرے شوہر نے کہا ہے کہ تین چار سال میں اتنی سیونگ کرلوں گا کہ دوسرے ملک settle ہونے میں مشکل نہ ہو، ترکی ہو یا UAE ہو اور کہیں job دیکھیں گے، لیکن میں نے جب بیان سنا تو سوچا کہ آپ سے یہ بات share کرلوں کہ آپ کی کیا رائے ہے؟ اس بارے میں دعائیں تو میں دن رات کرتی ہوں کہ اللہ کوئی ایسا راستہ بنائے تاکہ میرے بچے مسلمانوں میں چلیں پھریں، اٹھیں بیٹھیں۔ آپ اس بارے میں کیا فرماتے ہیں؟

جواب:

صحیح بات میں عرض کرتا ہوں، کیونکہ میں جرمنی میں رہا ہوں، مجھے جرمنی کی حیات کا پتا ہے، لیکن وہ چونکہ 85 کی بات ہے اور وہ بات کافی پرانی ہے، اس وقت حالات کافی بہتر تھے اور میرے پاس وہاں رہنے کی Open choice تھی، لیکن ان حالات کی وجہ سے میں نہیں ٹھہرا اور میں واپس آگیا۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ یہ جو انگلینڈ کے گزشتہ وزیراعظم تھے جن کا نام Boris Johnson تھا، ان کے پردادا ترکی کے مسلمان تھے، لیکن وہاں shift ہوگئے تھے اور اب ان کی ساری اولاد عیسائی ہے اور یہ انتہائی خطرناک متعصب عیسائی ہیں، اس سے آپ اندازہ کرلیں کہ چار پشتوں میں کیا ہوگیا، اور ان لوگوں نے طریقۂ کار کچھ ایسا بنایا ہے کہ ہم بچے بالکل control نہ کرسکیں، بلکہ وہ ان کے control میں ہوں، کیونکہ بچے کا تو کچا ذہن ہوتا ہے، وہ تو فوری چیز جو ہوتی ہے، اس کو سامنے دیکھتے ہیں، اور ان کو باقاعدہ سکولوں میں بھی سمجھاتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ اگر کوئی بات آپ کے والدین ایسی کریں تو پھر ہمیں بتائیں یعنی اس طرح کی چیزیں ہوتی ہیں، اس وجہ سے بچوں کی تربیت کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوسکتا، یہ تو بڑا مشکل ہے اور ایسی صورت میں معاملہ خسارے میں جاتا ہے، الا ماشاء اللہ! اس لئے risk لینا بہت بڑی بات ہے، اس وجہ سے میں تو کبھی suggest نہیں کرتا کہ کسی کو کہوں، البتہ اپنی choice پر وہاں رہیں تو وہ ان کا مسئلہ ہے۔ لیکن مجبوری مجبوری ہوتی ہے، اس وقت میں کچھ نہیں کہہ سکتا، لیکن اللہ کو پتا ہوتا ہے کہ انسان کتنا مجبور ہے، بس ہم لوگ کچھ نہیں کہہ سکتے اس کے بارے میں۔ ہاں! ہم سے جو مشورہ مانگے گا تو ہم تو یہی کہیں گے کہ بچ کے رہنا چاہیے، کیونکہ یہ آسان بات نہیں ہے، اللہ پاک ہماری حفاظت فرمائے۔

سوال نمبر 4:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت جی! یہ میرے اگست کے معمولات کا پرچہ ہے، میرا اسم ذات کا ذکر ساڑھے چار ہزار ہے اور مراقبہ پانچ منٹ کا ہے، مراقبہ میں ابھی کچھ محسوس نہیں ہورہا، مگر دو تین دفعہ عام اوقات میں دل سے تھوڑی اوپر کی جگہ پر دھڑکن محسوس ہوئی ہے، باقی مراقبہ کرتے ہوئے کچھ محسوس نہیں ہوتا۔ آپ نے مہینے کے شروع میں ہدایت کی تھی کہ معمولات میں ناغہ نہیں کرنا اور گناہ سے بچنا ہے، تاکہ برکات ضائع نہ ہوں، اس پر عمل کی کوشش کی ہے، لیکن معمولات میں چونکہ کچھ ناغے آگئے ہیں، اس لئے اس پر استغفار بھی کیا ہے اور معمولات چونکہ پورے کرنا آسان تھا، مگر گناہ سے بچنا سب سے مشکل تھا اور آج کل میں ایسے گناہوں میں مبتلا ہوں جو ہمیں گناہ بھی نظر نہیں آتے، جیسے کہ بدگمانی، جھوٹ اور غیبت کہ ان گناہوں کو ہم شوقیہ کرتے ہیں اور یہ ہمارے روزانہ کے معمول میں ایسے رچ بس گئے ہیں کہ ہمیں اس کا ادراک بھی نہیں ہوتا۔ میں نے دن کا کچھ حصہ اپنے کام کو دیا ہے اور کچھ اپنے گھر کے کاموں کو اور کچھ اپنے معمولات کو دیا ہے، میں نے خود کو اپنے کام تک محدود کرلیا ہے، لیکن پھر بھی گناہ ہوجاتے ہیں، ان گناہوں سے کیسے بچا جائے؟ آپ نے صبر کا کہا تھا، جو کچھ بھی ہو بس اس پر صبر کرتی ہوں اور جو کچھ اللہ نے دیا ہے، اس پر شکر کرتی ہوں۔ اللہ کی رحمتیں جاری ہیں، جب بھی کوئی کام کرنے کا خیال آتا ہے یا دل میں کوئی بات آتی ہے اور پھر دل دکھی ہوجاتا ہے تو اللہ اس کے عین مطابق کوئی آیت سامنے لاتا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ اللہ نے دل کی بات سن لی اور زخموں پر اپنے کلام کے ذریعے سے مرہم بھی رکھ دیا، تو دل کو کچھ سکون مل جاتا ہے۔ آپ نے کچھ سال پہلے ہدایت کی تھی کہ ’’حکایات صحابہ‘‘ کتاب سے ایک حکایت گھر والوں کو سناؤں، جو میں نے شروع کی تھی، مگر درمیان میں یہ سلسلہ رک گیا تھا، اب اللہ کا فضل ہے کہ اسے دوبارہ شروع کیا ہے۔ آپ سے دعاؤں کی درخواست ہے کہ یہ سلسلہ ایسے ہی جاری رہے اور نہ رکے۔ اور وہ جو مسئلہ تھا وہ بھی اللہ کے فضل اور آپ کی دعا سے حل ہوگیا ہے کہ بھائی کو اس مہینے پیسے دیئے اور انہیں پتا بھی نہیں چلا۔

جواب:

سبحان اللہ! اللہ جل شانہٗ مزید مسائل بھی حل کرلے اور یہ اچھی باتیں ہیں، اللہ تعالیٰ مزید توفیقات سے نوازے۔

سوال نمبر 5:

السلام علیکم۔ آج میرے ایک ماہ کے اذکار بلاناغہ مکمل ہوگئے ہیں۔ رہنمائی فرمائی جائے۔ اَلْحَمْدُ للہ! فجر کی نماز بھی قضا نہیں ہوئی تھی۔

جواب:

البتہ ایک غلطی آپ نے کی ہے کہ آپ نے معمولات کا بتایا نہیں کہ آپ کے معمولات ہیں کیا؟ اور مجھے کسی کے معمولات یاد نہیں ہوتے۔ اب اس کے لئے کیا کرنا چاہئے؟

سوال نمبر 6:

نبی ﷺ نے فرمایا کہ دنیا کے ختم ہونے سے پہلے ایسا ضرور ہوگا کہ انسان کا گزر قبرستان سے ہوگا تو ایک قبر پر لوٹ کر کہے گا کہ کاش میں اس قبر والے کی جگہ ہوتا اور یہ دین کی وجہ سے تمنا نہیں ہوگی، بلکہ بددینی کی فضا سے گھبرا کر ایسا کہے گا اور دنیاوی مصیبت میں گرفتار ہوگا۔ یہ مسلم کی روایت ہے، اس حدیث کا Full reference مل سکتا ہے۔

جواب:

ہاں یقیناً مل سکتا ہوگا، لیکن اس کے لئے کوشش کرلیں۔ یہ جو علماء کرام ہیں یہ اسی کے لئے بیٹھے ہیں، ان سے معلوم کرلیں۔ آج کل تو یہ مشکل نہیں ہے، شاملہ بھی ہے اور حدیث شریف کی کتابیں بھی ہیں، لیکن ہمارے ذمہ کافی سارے کام لگے ہوئے ہیں، اس لئے سارے کام یقیناً ہم نہیں کرسکتے، اس کے لئے تھوڑا سا کام آپ بھی کرلیا کریں۔

اس حدیث کا حوالہ یہ ہے: (مسلم، حدیث نمبر: 7301)

سوال نمبر 7:

السلام علیکم۔ حضرت!

Hope you are fine. حضرت tell your views about گولڑہ پیر مہر علی شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ and his beliefs and حضرت شاہ عبداللطیف بری امام رحمۃ اللہ علیہ and his beliefs.

جواب:

دیکھیں! یہ اولیاء کرام ہیں، اور ویسے بھی عام لوگوں کے بارے میں بھی اچھا گمان رکھنا چاہئے، تو ہم ان کے بارے میں کیسے بدگمانی کرسکتے ہیں؟ جبکہ یہ تو اولیاء کرام ہیں۔ حضرت پیر مہر علی شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو آج کل کے لوگوں کی وجہ سے بدنام نہ کیا جائے، جیسے عیسیٰ علیہ السلام کے جو ماننے والے ہیں، کیا آج کل ان کی وجہ سے ہم عیسیٰ علیہ السلام کو غلط کہہ سکتے ہیں؟ یا علی کرم اللہ وجہہ کے جو ماننے والے ہیں یعنی جو ان کا نام لیتے ہیں، کیا ان کی وجہ سے ہم علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو غلط کہہ سکتے ہیں؟ لہٰذا آج کل جو لوگ ان کو follow کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں یا ان کے ساتھ اپنی نسبت قائم کرتے ہیں، آپ ان کو نہ دیکھیں، بلکہ میں آپ کو اسی سے متعلق ایک واقعہ سناتا ہوں، جس سے آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ میں کیا کہنا چاہتا ہوں۔ یہ واقعہ کتاب میں بھی لکھا ہے اور میرے پاس وہ کتاب پڑی ہوئی ہے۔ یہ کتاب پشتو میں ہے ’’روحانی تړون‘‘ یعنی ’’روحانی رابطہ‘‘، جس میں ایک سو چودہ اولیاء کرام کے واقعات ہیں، جن میں آخری حصہ حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑوی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں ہے۔ اس میں لکھا ہے کہ حضرت پیر صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں قوالی ہورہی تھی (یہ قوالی مزامیر کے ساتھ نہیں ہورہی تھی، یہ چونکہ چشتی سلسلہ کے تھے، تو سماع ہورہا تھا، جسے آج کل قوالی کہتے ہیں، لیکن سماع میں مزامیر کے بغیر وہ پڑھتے تھے، اور اس کی چار شرائط ہیں جو بڑی سخت ہیں کہ جو کلام ہو وہ عارفین کا ہو، سننے والے عارفین ہوں، پڑھنے والے عارف ہوں اور سننے والوں میں کوئی بچہ یا کوئی عورت نہ شامل ہو اور اس کے ساتھ یہ آلات چنگ و رباب نہ باشد یعنی Musical instruments اس میں نہ ہوں۔ خیر یہ چار شرائط کے ساتھ وہاں سماع کی محفل جاری تھی) تو ایک قوال نے غلطی سے اپنا ہاتھ اونچا کردیا، تو حضرت نے سماع روک دیا اور فرمایا کہ آج کے بعد تم میری مجلس میں سماع نہیں کرو گے، تم اس قابل نہیں ہو، تم نے ڈوموں جیسی حرکت کی ہے، پھر انہوں نے بڑی منت کی، لیکن حضرت نہیں مانے، اور اس کو نکال دیا۔ لیکن آج کل وہاں Musical instruments کے ساتھ ہورہا ہے۔ تو کیا خیال ہے ہم اِن کی وجہ سے اُن کو بدنام کریں گے؟ نہیں، یہ تو اِن لوگوں کی بات ہے، یہ اُن حضرات کی بات نہیں ہے۔ میں نے خود ان کے پڑپوتے نصیر الدین صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے یہ بات سنی ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ ہمارے پیر صاحب کے پاس ایک صاحب آئے اور حضرت کو اس نے کہا کہ پیر صاحب تسی دیسو۔ حضرت نے فرمایا: میں نہیں، اللہ دیسی، مگر پھر اس نے کہا پیر صاحب تسی دیسو۔ انہوں نے پھر کہا کہ اللہ دیسی۔ تین چار دفعہ اس قسم کی بات ہوگئی تو پیر صاحب ان کی گردن کو پکڑ کے نیچے لے گئے اور نیچے لے جا کے ان سے کہا کی (کیا) نظر آرہا ہے؟ اس نے جواب دیا ککھ نظر آرہا ہے، انہوں نے کہا میں اللہ دے سامنے ککھ وی نہیں۔ لہٰذا یہ ان کی توحید والی بات تھی، ماشاء اللہ! یہ توحید پر تھے، سنت کی بات کرتے تھے اور تمام چیزوں کا خیال رکھتے تھے، لیکن آج کل ان کے ماننے والے ان چیزوں کا خیال نہیں رکھتے، اس لئے ان کی وجہ سے ہم ان کو بدنام نہیں کرسکتے۔ اور جہاں تک حضرت بری امام رحمۃ اللہ علیہ کا تعلق ہے، تو ان کا نام تھا حضرت عبدالطیف قادری رحمۃ اللہ علیہ۔ حضرت عبدالطیف قادری رحمۃ اللہ علیہ قادری سلسلہ کے تھے اور قادری سلسلہ کا کوئی آدمی شیعہ نہیں ہوسکتا اگر وہ قادری ہو، اگر قادری نہ ہو تو اس کے بارے میں ہم نہیں کہہ سکتے، کیونکہ شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے ’’غنیۃ الطالبین‘‘ میں جو کچھ ان کے بارے میں لکھا ہے، بس وہ کافی ہے، اس کو جان کر کوئی بھی شیعہ نہیں ہوسکتا۔ اس وجہ سے جو اہل تشیع ہیں وہ حضرت عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کو سید بھی نہیں مانتے، حالانکہ وہ نجیب الطرفین سید ہیں، لیکن ان کو سید نہیں مانتے۔ یہی نصیر الدین صاحب تھے، جنہوں نے کتاب لکھی تھی ’’حسب و نسب‘‘ جس کی وجہ سے بعد میں ان کو اٹھوا دیا گیا تھا، اس میں ماشاء اللہ! یہ ساری بات لکھی تھی کہ شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کیسے سید تھے اور ساری تفصیلات لکھی تھیں۔ لہٰذا مقصد یہ ہے کہ حضرت پیر عبدالطیف رحمۃ اللہ علیہ جن کو آج کل بری امام کہتے ہیں، یہ بالکل اہل حق میں سے تھے، قادری سلسلہ میں سے تھے، آج کل ان پر جن کا قبضہ ہے، اس کے وہ ذمہ دار نہیں ہیں، کیونکہ یہ تو کوئی بھی اور کچھ بھی کرسکتا ہے۔ لہٰذا آنے والے لوگوں کی وجہ سے گزشتہ لوگوں کو بدنام نہیں کرسکتے، یہ اصول ہے۔ ہم ان کے عقیدوں کو دیکھیں گے یعنی پہلے لوگوں کے عقیدوں کو دیکھیں گے کہ وہ کیا تھے، یہ نہیں دیکھیں گے کہ ان کے بعد والوں کا عقیدہ کیا ہے، بعد والے تو کچھ بھی کرسکتے ہیں۔

اللہ تعالی فرماتے ہیں:

﴿تِلْكَ اُمَّةٌ قَدْ خَلَتْۚ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُمْ مَّا كَسَبْتُمْۚ وَلَا تُسْــٴَـلُوْنَ عَمَّا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ﴾ (البقرۃ: 141)

ترجمہ1: ’’(بہرحال) وہ ایک امت تھی جو گزر گئی۔ جو کچھ انہوں نے کمایا وہ ان کا ہے، اور جو کچھ تم نے کمایا وہ تمہارا ہے، اور تم سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ وہ کیا عمل کرتے تھے ؟‘‘۔

لہٰذا ہم عام لوگوں کے ساتھ بھی نیک گمان رکھیں گے، حسن ظن رکھیں گے۔ جیسے کہا گیا ہے: ’’ظَنُّوْا بِالْمُؤْمِنِیْنَ خَیْرًا‘‘ (مؤمنین کے ساتھ اچھا گمان رکھو) تو اب اولیاء اللہ کے ساتھ حسن ظن کیوں نہیں رکھیں گے؟

سوال نمبر 8:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اَلْحَمْدُ للہ!

The name of Allah سبحانہ و تعالیٰ is coming from my heart while saying Allah Allah. I don’t have to put pressure. There is less concentration sometimes but اَلْحَمْدُ للہ it is getting better.

جواب:

ماشاء اللہ! بات بالکل صحیح ہے، ایسے ہی ہونا چاہئے اور اس میں خود اپنی طرف سے وہ نہیں کرنا چاہئے، بس کوشش observe کرنی چاہئے، انتظار میں رہنا چاہئے، مراقبے کی جو تعریف ہے وہ یہی ہے۔ جیسا کہ بلی ہوتی ہے کہ بلی چوہے کے شکار میں ایسے بیٹھی ہوتی ہے کہ اس وقت اس کی تمام حسیں صرف چوہے کے شکار کی طرف متوجہ ہوتی ہیں، خود کچھ نہیں کررہی ہوتی، بس اس انتظار میں ہوتی ہے کہ اگر چوہا میرے سامنے آجائے تو مجھ سے وہ رہ نہ جائے، میں اس کو شکار کرسکوں، اس وجہ سے اس کی طرف متوجہ ہوتی ہے۔ اسی طرح جو مراقبہ کرتا ہے، وہ بھی اپنے اس مقصد کی طرف متوجہ ہوتا ہے کہ جیسے ہی دل ’’اَللہ اَللہ‘‘ شروع کرے تو اس وقت یہ غافل نہ رہے۔

یک چشم زدن غافل ازاں شاہ نباشی

شاید که نگاهے کند آگاه نباشی

(ایک پلک جھپکنے کے لئے بھی اللہ پاک کے تصور سے غافل نہیں ہونا چاہئے، ممکن ہے کہ کسی وقت نگاہ کرم ہو اور تمھیں اس کا پتا نہ چلے اور وقت گزر جائے) تو یہ مراقبہ ہے، بس آپ اپنی کوشش جاری رکھیں، ان شاء اللہ! اللہ پاک مدد فرمائیں گے اور آپ کو اس میں ترقی حاصل ہوگی۔ ان شاء اللہ!

سوال نمبر 9:

السلام علیکم۔ حضرت! اَلْحَمْدُ للہ! آج دوسرا اتوار ہے اور فلاں صاحب کے دفتر کے ساتھ جو مسجد ہے، اس میں جمع ہوئے ہیں اور نماز کے بعد اس وقت ’’مکتوبات‘‘ کی recording سن رہے ہیں اور ’’انفاس عیسیٰ‘‘ کی recording کسی کے موبائل پر نہیں چل رہی۔

جواب:

سبحان اللہ! بالکل ٹھیک ہے، یہ مناسب ہے کہ ’’مکتوبات‘‘ کی جو recording سننا ہے، یہ بہت اچھا ہے، ان شاء اللہ العزیز! آپ اس کو جاری رکھیں۔ اور ’’انفاس عیسیٰ‘‘ کی recording نہیں چل رہی تو آپ ’’مکتوبات شریف‘‘ کی recording چلا سکتے ہیں۔

سوال نمبر 10:

السلام علیکم۔ شیخ!

I have completed my وظیفہ which is ‘‘لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ’’ two hundred times ‘‘لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ’’ three hundred times ‘‘حَقْ’’ three hundred times and ‘‘اَللّٰہ’’ hundred times.

شیخ! آگے کی ہدایت کیجئے۔ جزاک اللہ خیراً فلاں صاحب۔

جواب:

ٹھیک ہے، اَلْحَمْدُ للہ! اب آپ اس طرح کرلیں کہ دو سو دفعہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘، چار سو دفعہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘، چار سو دفعہ ’’حَقْ‘‘ اور سو دفعہ ’’اَللّٰہ‘‘ کو جاری رکھیں۔

سوال نمبر 11:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔

Respected honourable ,شیخ صاحب I pray that you and your loved ones are well آمین حضرت اقدس. I wish to first share my ذکر update with you. ذکر update: اَلْحَمْدُ للہ I have completed the current ذکر beyond thirty days without miss which is two hundred times ‘‘لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ’’ four hundred times ‘‘لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ’’ six hundred times ‘‘حَقْ’’ five hundred times ‘‘اَللّٰہ’’ and ten minutes ذکر on heart and fifteen ذکر minutes on لطیفۂ روح. During this month, I have been much more consistent in doing اصلاحی ذکر in a hasty manner and listening to بیان of yours daily. This was during some days that I did rush but missed your بیان. I spiritually have felt an improvement in terms of acting on sharia and sunnah more. Whenever I fell into sin I feel the رحمت of Allah تعالیٰ more and make توبہ quickly and try to do good اعمال quickly. In verbal اصلاح ذکر, my focus on Allah تعالیٰ was much improved in this month and مراقبہ has improved too overall I think. But the focus is not as good as in verbal ذکر

جزاک اللہ خیراً

جواب:

ماشاء اللہ! آپ نے اس کو بہتر کرلیا ہے، یہ اللہ پاک کا فضل ہے۔ اس سے آپ نے کچھ سیکھا ہوگا کہ جب اصلاحی ذکر انسان کا بہتر ہوتا ہے تو اعمال بہتر ہونے لگتے ہیں، اسی لئے اس کو اصلاحی ذکر کہتے ہیں، اصلاحی ذکر کا مطلب یہ ہے کہ اللہ پاک کا تعلق حاصل ہونا۔ اور جب اللہ پاک کا تعلق حاصل ہوجاتا ہے تو پھر انسان کو اعمال کا شوق پیدا ہوجاتا ہے، پھر وہ اعمال کرسکتے ہیں، اگر اللہ کی محبت حاصل ہوجائے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جو مشہور قول ہے کہ اصل ذکر وہ ہے جو انسان کو گناہ سے روکے، اس میں یہی بات ہے۔ لہٰذا اگر ہم لوگ اس کو اچھی طرح کرلیں تو ان شاء اللہ! گناہوں سے رکنا نصیب ہوجائے گا اور سلوک طے کرنا آسان ہوجائے گا، ان شاء اللہ!

سوال نمبر 12:

سوال برائے پیر مجلس۔ حضرت! السلام علیکم۔ والدین اگر بچوں کو کوئی بددعا دیں تو اس کے اثرات کو کیسے زائل کیا جاسکتا ہے؟

جواب:

والدین کی خدمت کرکے اور ان سے معافی مانگ کر اگر وہ زندہ ہیں، اور اگر وہ فوت ہو چکے ہوں تو ان کے لئے ایصال ثواب کرکے۔

سوال نمبر 13:

السلام علیکم۔ میرے چار لطائف پر مراقبہ جاری ہے، قلب، روح اور سر پر پانچ منٹ اور خفی پر دس منٹ ہے۔ مراقبہ کے دوران لطیفہ پر ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ محسوس ہوتا ہے اور ٹھنڈک بھی، لیکن لطیفۂ روح پر زیادہ محسوس ہوتا ہے باقیوں کے مقابلہ میں۔ آپ نے قرآن مجید کی تلاوت زیادہ کرنے کا بتایا تھا، پچھلے کچھ عرصہ سے میں نے تین ختم قرآن کیے ہیں اسی interaction پر، تو بہت بہتر احوال رہے۔ مزید بتا دیں کہ کیا کروں؟

جواب:

فی الحال اس کو جاری رکھیں اور رابطہ قائم رکھیں۔

سوال نمبر 14:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ نام فلاں، تعلیم فلاں، شہر فلاں۔ میری تسبیحات کلمۂ سوم سو بار، درود ابراہیمی سو بار، استغفار سو بار اور لسانی ذکر ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ دو سو مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ چار سو مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ چھے سو مرتبہ اور ’’اَللّٰہ‘‘ پانچ سو مرتبہ ہے۔ قلبی ذکر لطیفۂ قلب، لطیفۂ روح، لطیفۂ سر، لطیفۂ خفی، لطیفۂ اخفیٰ پر دس دس منٹ اور مراقبہ صفات سلبیہ پندرہ منٹ ہے۔ مراقبہ کے دوران ٹانگوں میں بے چینی اور تھکاوٹ شروع ہوجاتی ہے، کوشش کے باوجود ایک position پر قائم نہیں رہ پاتا، جس سے تسلسل ٹوٹ جاتا ہے اور مجھے کامیابی حاصل نہیں ہورہی۔ برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں۔

جواب:

دو باتیں جو آپ نے اخیر میں کی ہیں، وہ غلط ہیں کہ ایک تو مجھے کامیابی حاصل نہیں ہورہی۔ مجھے نہیں معلوم کہ کامیابی کس چیز کو سمجھتے ہیں؟ اور دوسری بات یہ ہے کہ position change کرنے سے تسلسل کا ٹوٹ جانا، یہ بات بھی صحیح نہیں ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر آپ کو ایک position پر تنگی محسوس ہورہی ہے تو اس position کو change کریں گے تو آپ کا مراقبہ بہتر ہونا چاہئے، کیونکہ جب اس کی طرف توجہ ہوتی ہے تو اس سے توجہ ہٹ جائے گی، جس سے پھر یہ بہتر ہوجائے گا۔ اس وجہ سے آپ position بیشک change کرلیا کریں، لیکن مراقبہ نہ توڑا کریں۔ البتہ یہ بھی نہیں کہ بار بار position change کریں، بلکہ جس وقت تنگی محسوس ہو تو اس وقت بہرحال کرلیں، چونکہ مراقبہ میں یکسوئی کی ضرورت ہوتی ہے، اس وجہ سے ان چیزوں کی اجازت دی جاتی ہے، ورنہ صحیح بات میں عرض کرتا ہوں کہ ایک ہی حالت میں کرنے سے فائدہ زیادہ ہوتا ہے، لیکن اگر اس سے نقصان ہورہا ہو اور فائدہ نہ ہورہا ہو تو پھر کیوں کیا جائے؟ پھر اس سے کم فائدہ پر انسان اکتفا کرسکتا ہے۔

سوال نمبر 15:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت جی! میں مسجد رحمانیہ سے فلاں بات کررہا ہوں، اللہ کے فضل سے میرا ذکر دو سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘، چار سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘، چھے سو مرتبہ ’’حَقْ‘‘ اور پانچ ہزار مرتبہ ’’اَللّٰہ‘‘ اور اس کے ساتھ پانچوں لطائف پر دس دس منٹ اور پندرہ منٹ مراقبہ دعائیہ مکمل ہوچکا ہے۔ گزارش ہے کہ اگلا ذکر تجویز فرمائیں۔

جواب:

آپ اس وقت ساڑھے پانچ ہزار مرتبہ ’’اَللّٰہ‘‘ کرلیں اور باقی اسی طرح جاری رکھیں فی الحال۔

سوال نمبر 16:

السلام علیکم۔ حضرت جی! میں نے مہینے کا ذکر مکمل کرلیا ہے کہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ دو سو مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ چار سو مرتبہ ’’حَقْ‘‘ چھے سو مرتبہ اور ’’اَللّٰہ‘‘ ساڑھے چار ہزار مرتبہ۔

جواب:

اب ’’اَللّٰہ‘‘ پانچ ہزار مرتبہ کریں۔

سوال نمبر 17:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت جی! اللہ پاک سے آپ کی صحت اور تندرستی کے لئے دعاگو ہوں۔ حضرت جی! میرا ذکر ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ دو سو مرتبہ، ’’اِلَّا اللّٰہْ‘‘ چار سو مرتبہ، ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ چھے سو مرتبہ اور ’’اَللّٰہ‘‘ دو ہزار مرتبہ مکمل ہوگیا ہے۔ ذکر کے دوران ایک دن مجھے خوفناک سا چپٹے منہ والا سانپ نظر آیا تھا، اس کے علاوہ میری ایک بری عادت ہے کہ میں لوگوں کو تضحیک و طنز کا نشانہ بناتا ہوں، خاص طور سے ایسے لوگ جو میرے junior ہوں، اس کے بارے میں میری رہنمائی فرما دیں۔ اللہ پاک آپ کے درجات کو بلند فرمائے، آپ کے لئے آسانیاں پیدا فرمائے۔ (آمین) اور آپ کو بہترین اجر عطا فرمائے۔

جواب:

بہرحال جو چپٹے منہ والا سانپ ہے یہ اصل میں آپ کا نفس ہے، کیونکہ ذکر کے ذریعے سے انسان کو حقیقت کا ادراک ہونے لگتا ہے، اس لئے اس کے خلاف آپ کو کام کرنا پڑے گا۔

سوال نمبر 18:

السلام علیکم۔ میرے معمولات یہ ہیں: سو دفعہ استغفار، سو دفعہ تیسرا کلمہ، سو دفعہ درود پاک اور دس منٹ کا مراقبہ اللہ تعالیٰ کے نام کا۔

جواب:

دس منٹ کا جو مراقبہ ہے، وہ آپ کو محسوس ہورہا ہے؟ اگر محسوس ہورہا ہے تو اس کا بتا دیں، تاکہ اس کے مطابق آپ کو بتا دیا جائے۔ یعنی دس منٹ کا جو اللہ تعالیٰ کے نام کا مراقبہ ہے، اس کو دل پر محسوس کرنا ہے کہ دل بول رہا ہے یا نہیں۔ لہٰذا آپ اس کے بارے میں بتا دیجئے گا۔

سوال نمبر 19:

السلام علیکم۔ میرا پانچوں لطائف پر ذکر دس دس منٹ اور اللہ کی ذات پر توجہ کے مراقبہ کو ایک مہینہ complete ہوگیا ہے۔ پہلے دن ہی محسوس ہوگیا تھا کہ کچھ ہوا ہے سر میں۔ اور میری دوسری بیٹی چالیس دن والا ذکرلینا چاہتی ہے۔

جواب:

ٹھیک ہے، ان کو چالیس دن والا ذکر بتا دیجئے گا۔ باقی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر توجہ نہیں، بلکہ اللہ کی ذات کی طرف توجہ کرنی ہے یعنی صفات کے ذریعہ سے انسان اللہ تعالیٰ کو پہچانتا اور جانتا ہے، اس کی وجہ سے پھر انسان اللہ پاک کی طرف متوجہ ہوتا ہے، کیونکہ اللہ پاک کو تو کوئی دیکھ نہیں سکتا، لیکن اللہ پاک کی صفات کو محسوس کرسکتا ہے، اور پھر اس احساس کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ کی ذات کی طرف توجہ ہونے لگتی ہے اور آپ کو اس چیز کا مراقبہ دیا تھا، اس کو شیونات ذاتیہ کا مراقبہ کہتے ہیں۔ لہٰذا آپ اس مراقبہ کو ماشاء اللہ! کرتی رہی ہیں، تو اس کے بارے میں آپ نے کیا محسوس کیا ہے؟

سوال نمبر 20:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اللہ تعالیٰ حضرت والا کا سایہ اور برکت تادیر ہمارے سروں پر سلامت رکھے۔ معمولات دو، چار، چھے اور تین ہزار مرتبہ ہے، انہیں ایک مہینہ ہوگیا ہے۔ اس کے ساتھ یہ مشورہ کرنا ہے کہ یہاں مدرسہ بنات ہے، اس میں پڑھانے کی درخواست دی ہے، لیکن انہوں نے کہا ہے کہ فی الحال ہمارے پاس باقاعدہ استاذ رکھنے کی گنجائش نہیں ہے، دو گھنٹے مفت پڑھاؤ تو جب استاذ کی ضرورت ہوگی اس وقت سے آپ کی تنخواہ جاری کریں گے، لیکن اس وقت اللہ کا نام لے کر پڑھاؤ یا انتظار کرو۔ اور جس مدرسہ میں پہلے سال پڑھایا تھا وہ کہتے ہیں کہ مغرب تا عشاء قرآن کا ترجمہ اور تفسیر پڑھاؤ اور محلے والوں کو مدرسہ کی طرف سے کھانا اور رہائش دیں گے۔ سبحان اللہ! بندہ حضرت والا کے مشورہ سے صبح آٹھ سے دس تک مدرسہ بنات میں اور مغرب تا عشاء محلے والوں کو پڑھائے اور باقی اوقات کوئی کاروبار شروع کرے، اس میں حضرت جی کا جو حکم ہو تسلیم خم ہے۔ کوئی کاروبار شروع کرنے سے پہلے مسائل تو بہت ہوتے ہیں، دونوں جگہ مفت پڑھانے کا حکم دیں تو شروع کرتا ہوں، ورنہ جو حکم ہوگا اس کے مطابق ہی ان شاء اللہ! عمل ہوگا۔

جواب:

ان شاء اللہ! آپ کو اس کا جواب ذاتی طور پر دیا جائے گا۔

سوال نمبر 21:

ایک سالکہ کا سوال آیا تھا جو کہ حضرت نے مجلس میں نہیں سُنایا، بلکہ اُس کا صرف جواب حضرت نے دیا ہے۔

جواب:

زبان سے بولنے کا میں نے نہیں کہا تھا۔ آپ اس طرح کرلیں کہ آپ محسوس کریں کہ جیسے آپ بیٹھی ہیں تو آپ کے دل میں بھی زبان بن گئی ہے اور وہ ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کہہ رہی ہے، بیشک پہلے start میں نہیں ہوتا، لیکن آپ کی اگر اس کی طرف توجہ ہوگی چاہے جس وقت بھی ہو، لیکن کم از کم آپ اس کو محسوس کر سکیں تو ان شاء اللہ! ایک وقت میں یہ شروع بھی ہوجائے گا اور یہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے شروع ہوتا ہے، انسان کی کوشش سے نہیں، لیکن کوشش تو شروع کرے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

﴿وَالَّذِیْنَ جَاهَدُوْا فِیْنَا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَا﴾ (العنکبوت: 69)

ترجمہ: ’’اور جن لوگوں نے ہماری خاطر کوشش کی، ہم ان کو ضرور بالضرور اپنے راستوں پر پہنچا دیں گے‘‘۔

لہٰذا اللہ تعالیٰ کی مدد آتی ہے جب انسان شروع کرتا ہے۔ بس آپ شروع کرلیں، طریقۂ کار یہی ہے کہ آپ نے کروانا نہیں ہے، بس آپ نے صرف اس کی طرف متوجہ رہنا ہے اور زبان بالکل بند ہوگی، قبلہ رخ بیٹھی ہوں گی، آنکھیں بھی بند ہوں گی اور یہ توجہ ہوگی کہ میرے دل میں زبان بن گئی ہے اور وہ ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کررہی ہے اور میں اس کو سن رہی ہوں۔ بس اتنی بات ہے۔

سوال نمبر 22:

السلام علیکم۔ حضرت! اکثر یہ ہوتا ہے کہ مرید اپنے پیر بھائی کی شکایت شیخ سے کرتا ہے۔ میں نے کہیں پڑھا تھا کہ ایک مرید کا کام تھا کہ ہر وقت وہ اپنے پیر بھائیوں کی شکایت لگاتا تھا، پھر آخر میں یہ ہوا کہ جو شکایت لگاتا تھا، وہ پاگل ہوگیا اور جس پیر بھائی کی لگاتا اس کی ترقی ہوتی گئی۔ اس بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں؟

جواب:

ہاں! یہ بات بالکل صحیح ہے کہ شکایت شکایت کے طور پر نہیں لگانی چاہئے یعنی بجائے اس کے کہ آپ اس کی شیخ سے شکایت لگائیں، بلکہ آپ اگر اس کے ساتھ بے تکلف ہیں تو آپ خود اس کو کہہ دیں کہ یہ اس قسم کی بات ہے، آپ شیخ سے پوچھ لیں اور اس کے بارے میں مشورہ کرلیں تو یہ بہتر ہوگا۔ کیونکہ آپ کسی اور کو شکایت لگائیں گے تو اس میں جو بات صحیح ہوگی وہ تو الگ ہے، لیکن اگر کوئی غلطی ہوگی تو وہ غیبت میں آجائے گی اور ساتھ یہ بات بھی ہے کہ شیخ سے اس کے مرید کو نہیں کاٹنا چاہئے اور کوشش کرنی چاہئے کہ شیخ کے دل میں اس کے بارے میں تکدر نہ آئے، اس وجہ سے اس قسم کا کوئی معاملہ نہیں کرنا چاہئے۔ دوسری بات یہ ہے کہ جیسے کہتے ہیں: پڑی جب اپنے عیبوں پہ نظر تو نظر میں کوئی برا نہ رہا۔ یعنی جب تک انسان کی اپنی نظر میں اپنی برائی نہ ہو تو دوسروں کی برائیاں نظر آتی ہیں، جس وقت انسان کو اپنی برائیاں نظر آنا شروع ہوجائیں تو پھر اس کے بعد دوسروں کی برائیاں نظر ہی نہیں آتیں، بلکہ اس کے لئے تاویل کرتے ہیں۔ ہمارے حضرت مولانا عبد الحق صاحب رحمۃ اللہ علیہ، ان کی خدمت میں ایک دفعہ بیٹھا تھا اور اس وقت میں بچہ تھا اور حضرت بھی شفقت فرماتے تھے۔ جب میں بیٹھا تھا تو ان کے جو مدرسہ میں ناظم صاحب تھے، وہ ان کے کمرے میں حضرت سے چیکوں پر دستخط بھی کرواتے تھے اور ساتھ ساتھ کارگزاری کے طور پر حالات بھی بتاتے تھے کہ فلاں آئے تھے، اس نے یہ کہا تھا، اس نے یہ کیا تھا یعنی مدرسے کے بارے میں کوئی برائی کررہا ہے، کوئی کسی اور چیز کے بارے میں کہہ رہا ہے، لیکن عجیب بات یہ ہوتی تھی کہ حضرت ان کے لئے ایسے تاویل کرلیتے کہ شاید انہوں نے اس وجہ سے کہا ہوگا، شاید انہوں نے اس وجہ سے کہا ہوگا۔ میں حیران ہوگیا اور میں نے کہا کہ دیکھو اپنے مخالفین کے لئے تاویلیں کررہے ہیں۔ یہ بات ہوتی ہے کہ جن کو یہ فکر ہوتی ہے تو وہ دوسروں کی باتوں میں شاید سے کوئی راستہ نکال لیتے ہیں کہ ممکن ہے کہ انہوں نے ایسا کہا ہو، لیکن خود اپنا چونکہ ان کو پتا ہوتا ہے، لہٰذا اپنی طرف زیادہ متوجہ ہوتے ہیں۔

سوال نمبر 23:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت جی! میں فلاں ہوں۔ حضرت جی! پچھلے ایک ماہ سے میرے معمولات میں لطیفۂ قلب، لطیفۂ روح، لطیفۂ سر اور لطیفۂ خفی پندرہ پندرہ منٹ کا ہے، اس کے علاوہ ’’دلائل الخیرات‘‘ ہے۔ آپ کی دعا سے اب لطائف کے اسباق پر پابندی ہے۔ حضرت جی! ابھی یہ احساس شدت سے ہوگیا ہے کہ میں اسباق و لطائف میں کہیں کوئی غلطی نہیں کررہا ہوں، یہ احساس پریشان کردیتا ہے۔ حضرت جی! اگر آپ اس لائق سمجھیں تو ’’دلائل الخیرات‘‘ کے ساتھ ’’حزب البحر‘‘ کی بھی اجازت درکار ہے۔ حضرت جی! آپ سے دعاؤں کے حصول کی درخواست ہے۔ جزاک اللہ خیراً۔

جواب:

دیکھیں! یہ ساری جتنی بھی چیزیں ہیں، یہ بزرگوں کی ہیں اور سب اچھی ہیں، اس میں کسی کے بارے میں ہم نہیں کہہ سکتے کہ یہ اچھی نہیں ہیں، البتہ سب انسان کر نہیں سکتا، اس لئے اس میں پھر choice والی بات ہوگی کہ کچھ کو آپ کرسکتے ہیں اور کچھ کو آپ نہیں کرسکتے۔ ’’مناجات مقبول‘‘ جو حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے جمع کی ہے، وہ خالص قرآنی دعائیں ہیں اور احادیث شریفہ کی دعائیں ہیں، اس میں کوئی اور چیز ہے ہی نہیں۔ تو آپ اس ’’مناجات مقبول‘‘ کو کرلیا کریں اور حفاظت کے لئے ’’منزل جدید‘‘ پڑھ لیا کریں ہر روز مغرب کے بعد، یہ بھی قرآن ہے، قرآن کے علاوہ اس میں کوئی اور چیز نہیں ہے اور قرآنی دعائیں ہیں یا مسنون دعائیں ہیں۔ لہٰذا ’’مناجات مقبول‘‘ پڑھ لیا کریں اور صبح آپ حفاظت کے لئے جو معمول ہے، اگر آپ چاہیں تو وہ کرلیا کریں۔ کہتے ہیں: یک گیر محکم گیر (جو پکڑو تو بس مضبوطی کے ساتھ پکڑو) ورنہ پھر خواہ مخواہ نہ ادھر کے، نہ ادھر کے، بس اپنا دل منتشر رہے گا، یکسوئی بالکل نہیں ہوگی۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: یکسوئی ہو چاہے پاس ایک سوئی بھی نہ ہو۔ اب آپ اندازہ کرلیں کہ یکسوئی کتنی اہم چیز ہے۔ ایک دفعہ میں نے حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے ’’دلائل الخیرات‘‘ کی اجازت مانگی تھی، تو حضرت نے مجھ سے فرمایا کہ کیا درود شریف پڑھنا نہیں جانتے؟ میں نے کہا جی جانتا ہوں، فرمایا پڑھ لیا کرو، ’’دلائل الخیرات‘‘ بھی تو درود شریف ہے۔ بس میں چپ ہوگیا کہ جب حضرت نے فرما دیا تو بس ٹھیک ہے۔ کچھ عرصہ کے بعد حضرت تسنیم الحق صاحب رحمۃ اللہ علیہ جو فاضل دیوبند تھے اور میرے پھوپھا تھے میں ان کے پاس میں بیٹھا ہوا تھا، برسبیلِ تذکرہ یہ بات آگئی کہ حضرت سے میں نے یہ عرض کیا تو حضرت نے یہ فرمایا تھا، اس پر حضرت نے فرمایا کہ آپ کے عقیدہ کو درست کرنے کے لئے یہ فرمایا تھا، اب آپ کا عقیدہ صحیح ہوگیا ہے، اس وجہ سے میں اجازت دیتا ہوں اور میرے پاس اس کی اجازت ہے (اور واقعی حضرت کے پاس اس کی بڑی عالی سند کی اجازت تھی) تو حضرت نے اس کی اجازت عطا فرمائی۔ خیر میرا مقصد یہ ہے کہ اجازتوں کے پیچھے بھاگنے کے بجائے انسان بس کام کرے اور جب اس میں عملیات والا رخ آجائے تو سمجھو کہ معاملہ پھر نقصان کی طرف چلا گیا ہے، بس یہ سادہ سادہ کام اچھا ہوتا ہے۔ بس قرآن و سنت کی جو بات ہے وہ بہت اچھی ہے۔ میں آپ کو مثال دیتا ہوں ناراض نہ ہونا، کیونکہ ذرا بات کافی عجیب ہے کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک درود شریف ہے اور وہ اعلیٰ درود شریف ہے، اس پر بڑے فضائل ہیں اَلْحَمْدُ للہ، اور اس کا انکار بھی نہیں ہے، لیکن میں درودِ ابراہیمی سے اس کو افضل نہیں سمجھ سکتا، جب درود ابراہیمی موجود ہے، جو نماز کے لئے چن لیا گیا ہے تو وہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے لئے ٹھیک ہوگا، اس کے بارے میں ہم کچھ نہیں کہیں گے، وہ اللہ تعالیٰ کا اور ان کا اپنا معاملہ ہے، لیکن ہمارے لئے کون سا زیادہ بہتر ہے؟ درود ابراہیمی۔ لہٰذا درود ابراہیمی میں پڑھتا ہوں، اَلْحَمْدُ للہ! حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا کہ اگر دل چاہے کہ زیادہ برکت والا درود پڑھوں تو درود ابراہیمی پڑھ لیا کرو اور اگر زیادہ تعداد میں پڑھنا چاہیں تو مختصر درود شریف جو بھی صحیح حدیث شریف سے ثابت ہو وہ پڑھ لیا کرو۔ کیونکہ مختصر درود پاک بھی ہیں۔ چنانچہ اگر زیادہ تعداد میں پڑھنا چاہتے ہیں تو وہ پڑھ لیا کریں اور اگر زیادہ برکت والا درود شریف پڑھنا چاہیں تو پھر درود ابراہیمی پڑھیں۔ بس یہی میرے خیال میں مناسب بات ہے۔ باقی بات یہ ہے کہ بزرگوں کے لئے دل کو بڑا ہی صاف رکھنا چاہئے، ان کے بارے میں ہم ذرہ بھر بھی دل میں کوئی بات نہیں لانا چاہتے، البتہ اپنا معاملہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ درست رکھنا چاہئے۔

سوال نمبر 24:

السلام علیکم۔ فقیر فلاں۔

I pray you are well dear حضرت جی. I was hoping to ask three things if that is Ok?

No. 1: I see people around me in difficulties and I can’t help them but feel ashamed for not doing proper شکر and عبادت to اللہ جل شانہٗ. Can I start reading صلوٰۃ الشکر daily?

جواب:

سبحان اللہ! بالکل ٹھیک ہے، بلکہ کئی نیتوں سے ایک نفل آپ پڑھیں تو صلوٰۃ الشکر کی بھی نیت کرلیں، صلوٰۃ التوبہ کی بھی کرلیں، صلوٰۃ الحاجت کی بھی کرلیں، یہ جائز ہے، اس سے بہت آسانی ہوجائے گی۔

No. 2: In the مسجد where I do فرض عین تعلیم the تبلیغی جماعت ask me to cancel my درس on Wednesday for their own وعظ. This is despite the fact that my درس is only five minutes after مغرب everyday. I have tried to politely remind them that this علم is فرض and that we can have both تعلیم together but they didn’t accept and I stopped trying as I didn’t want any فساد. I am not sure what to do?

جواب:

اللہ جل شانہٗ ہم سب کو ہدایتِ کاملہ کا راستہ نصیب فرما دے۔ اصل میں بات یہ ہے کہ بڑی محنت کی ضرورت ہے، کیونکہ یہ ایسی چیزیں ہیں کہ جب تک ان کے concepts یعنی مفاہیم انسان کے اوپر کھلے نہیں ہوتے، اس وقت تک اس قسم کی غلطیاں ہوتی ہیں۔ باقی فرضِ عین علم کی جو تعلیم ہے وہ بہت زیادہ اہم ہے اور فرض ہے، کیونکہ جو چیز جس چیز کا مقدمہ ہے اس کی value بھی وہی ہوتی ہے۔ اور اب فرض عین علم کا مطلب کیا ہے؟ وہ علم جو فرائض سے متعلق ہے، لہٰذا اس کو نہیں چھوڑا جاسکتا۔ البتہ یہ بات ہے کہ آپ ان سے کہہ دیں کہ آپ پانچ منٹ کے لئے اس کا انتظار کریں اور اس کے بعد ہم تعلیم کرلیا کریں گے۔ کیونکہ تعلیم کس چیز کے لئے ہے؟ اسی کے لئے ہے کہ ہم دین سیکھیں، لہٰذا دین سیکھنے کو تعلیم کے لئے بند نہیں کرسکتے۔ اس لئے آپ ان سے کہہ دیں کہ بھائی! سارے دن جو آپ کی تعلیم ہے، وہ اپنے طور پر ہے، لیکن آج اس کے لئے ہے۔ کیونکہ وہ بھی دین ہے اور یہ بھی دین ہے، اس میں کوئی ایسی بات نہیں ہونی چاہئے، لیکن یہ مسئلہ پھر بھی رہے گا، کیونکہ ناسمجھی کی بات ہے، ان حضرات کو یہ بات سمجھ نہیں آتی۔ البتہ مخالفت بھی نہیں کرنی چاہئے، کیونکہ اہلِ حق کے ساتھ ان کا تعلق ہے، لیکن طریقے سے سمجھانا بھی چاہئے کہ دین کے کسی کام کی مخالفت نہیں کرنی چاہئے، کیونکہ دین کی مخالفت اگر کی تو اس سے پھر دین کیسے پھیلے گا، مثلاً جب جہاد فرضِ عین ہوتا ہے تو اس کی مخالفت کرکے میں دیندار بن سکتا ہوں؟ یا مدارس کا قیام جن میں دین سیکھا جاتا ہے، اس کی مخالفت کرکے کیا میں دیندار بن سکتا ہوں؟ یا خانقاہوں کا قیام جن کے ذریعہ سے علم پر عمل ہوتا ہے، اس کی مخالفت کرکے کیا میں دیندار بن سکتا ہوں؟ یا دینی سیاست یعنی شریعت کے نفاذ کے لئے جو کوششیں ہیں، اس کی مخالفت کرکے میں دیندار بن سکتا ہوں؟ بس یہی بات ہے کہ ہم لوگوں کو یہ مسائل ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ جب فضائل یکطرفہ سنائے جاتے ہیں تو اس کا نتیجہ پھر یہی ہوتا ہے، کیونکہ انسان فضائل سے متاثر ہوتا ہے، فضائل یہ motivation ہے، انسان کو متحرک کرتے ہیں، کام پر لاتے ہیں۔ لہٰذا جس چیز کے بھی فضائل آپ سنائیں گے تو اس میں انسان فنا ہوجائے گا، چنانچہ مجاہدین کو جب جہاد کے فضائل سنائے جاتے ہیں تو وہ سمجھتے ہیں کہ صرف یہی کام ہے، علم والوں کے جو فضائل ہیں، جب ان کو سنائے جاتے ہیں تو وہ سمجھتے ہیں کہ بس صرف یہی کام ہے، تبلیغ والوں کے جو فضائل ہیں، جب ان کو وہ سنائے جائیں تو وہ کہتے ہیں کہ صرف یہی کام ہے، حالانکہ سارے کام دین کے ہیں، ان میں سے کسی چیز کی بھی مخالفت نہیں ہوسکتی، لیکن یہ تب ہوسکتا ہے جب سب کو ضروری درجہ میں سنایا جائے، پھر بات ہوسکتی ہے، پھر ماشاء اللہ! ان کے ذہن میں بات آئے گی کہ دین کا ہر شعبہ ضروری ہے، کوئی بھی شعبہ غیر اہم نہیں ہے۔ البتہ سارے شعبوں پر بیک وقت انسان کام نہیں کرسکتا، یہ بات ضرور ہے۔ لہٰذا اس صورت میں آپ ایک یا دو شعبے جن پر آپ کو درک ہے، آپ کام کرسکتے ہیں تو اس پر آپ کام دل جمعی کے ساتھ اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے کریں، باقی شعبوں کے لئے دعا کریں اور ان کو بھی اپنا کام سمجھیں، اس طریقے سے آپ ان کے ساتھ ہوں گے، ورنہ پھر مخالفت کرنا تو بہت خطرناک بات ہے۔

سوال نمبر 25:

السلام علیکم۔ حضرت! اَلْحَمْدُ للہ! ہم نے سنا ہے کہ ’’اَلطُّھُوْرُ شَطْرُ الْاِیْمَانِ‘‘ کہ صفائی نصف ایمان ہے۔ لیکن حضرت! ہم دیکھتے ہیں کہ اس حدیث پر جتنی مقدار میں عمل کیا جاسکتا ہے، اگرچہ انفرادی سطح پر تو اَلْحَمْدُ للہ! لوگ عمل کرتے ہیں، لیکن اجتماعی سطح پر اس کی بڑی کمی نظر آتی ہے ہمارے مسلم معاشرے میں، خاص طور پر ہم دیکھتے ہیں کہ ہماری گلیاں، ہمارے محلے، even مساجد تک، اور جو پبلک مقامات ہیں وہ بھی، لوگوں کو اس چیز کا ادراک ہی نہیں۔ اب حضرت سیرت طیبہ کی روشنی میں اس کا ادراک لوگوں کو کیسے دلایا جائے اور اس عمل پر کہ جو ہمارا آدھا ایمان ہے لوگوں کو کس طرح لایا جائے؟ اس پر آپ کی رہنمائی درکار ہے۔

جواب:

پہلے تو اس کو ذرا علمی طور پر ٹھیک کرلیں کہ ’’اَلطُّھُوْرُ شَطْرُ الْاِیْمَانِ‘‘ (صحیح مسلم: 556) کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ صفائی ایمان کا حصہ ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ایک اور حدیث پاک میں ہمیں فرمایا گیا ہے کہ یہود کی طرح اپنے گھروں کے سامنے گند نہ رکھو یعنی اس وقت یہود کا عمل ایسا تھا، اس لئے اس سے روکا گیا تھا۔ دراصل مسئلہ یہ ہے کہ واقعتاً جس چیز کے بارے میں بتایا نہیں جاتا، تو وہ آہستہ آہستہ اٹھ جاتی ہے اور ہمارے ہاں بہت ساری چیزیں نہیں بتائی جاتیں، یہ پتا نہیں کس حکمت سے نہیں بتائی جاتیں، لیکن نہیں بتائی جاتیں، بہت ساری مساجد میں خطیب حضرات جمعہ کا بیان وہ کرتے ہیں جس سے عوام کو کوئی دلچسپی نہیں ہوتی، نہ عوام کی کوئی تربیت اس میں ہوتی ہے، بس وہ پتا نہیں کسی چیز کو کتاب سے شروع کرلیتے ہیں اور بس اس پر بات کرتے ہیں، حالانکہ زندہ چیزیں یہی ہیں جو آپ کے معاشرہ کو درست کریں گی۔ پھر اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ لوگ سننے کے لئے آتے ہی نہیں، بیان ہورہا ہوتا ہے، لیکن جس وقت خطبہ شروع ہوتا ہے، اس وقت لوگ آجاتے ہیں، کیا مطلب؟ مطلب یہ ہے کہ لوگ سننا نہیں چاہتے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کا شکوہ کیا ہے اور فرمایا کہ یہ اصل تو ہماری چیز تھی، لیکن ہم سے لوگوں نے لے لی۔ حضرت نے فرمایا کہ ایک انگریز مسلمان ہوگیا تھا، تو اس نے مسجد کے کسی نالے کے بارے میں کہا کہ اس کو صاف کرنا چاہئے۔ تو کہتے ہیں کہ لوگوں نے کہا ابھی تک اس میں انگریزوں کی خو بو باقی ہے، یعنی انگریزوں کے ساتھ صفائی کو مختص کیا ہے کہ صفائی کے بارے میں انگریز ہی سوچتے ہیں۔ حالانکہ آپ یقین جانیے انگریزوں نے صفائی ہم سے سیکھی ہے یعنی اسپین والوں سے سیکھی ہے، کیونکہ اسپین والے اس وقت مسلمان تھے، اور ان کو نہانا مسلمانوں نے سکھایا ہے یعنی ترکوں نے سکھایا ہے اور اسپین والوں نے سکھایا ہے، ورنہ یہ انگریز اور یورپ والے نہاتے نہیں تھے، لہٰذا ان کو ہم نے یہ چیزیں سکھائی ہیں۔ لیکن اب ہمارے اندر یہ چیزیں نہیں رہیں، کیونکہ ہم بتاتے ہی نہیں ہیں۔ ہمارے گاؤں کا ایک ذہین لڑکا تھا، وہ مجھ سے بیعت ہوگیا، تو لوگوں نے اس کو تنگ کرنا شروع کیا کہ پتا نہیں آپ کیوں بیعت ہوگئے، اور مخالفت کرنے لگے لوگ، وہ چونکہ ذہن لڑکا تھا، اس نے اپنے امام سے پوچھا تو اس امام صاحب نے کہا کہ بالکل ٹھیک کیا ہے، ہمارے بزرگ بیعت بھی ہوتے تھے اور بیعت کرتے بھی تھے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ تو انہوں نے کہا کہ حضرت! کبھی آپ نے ممبر پر بیٹھ کر یہ باتیں ہمیں کیوں نہیں سکھائیں؟ آج مجھے کیوں پریشانی ہوتی، آج مجھے کیوں شکوہ ہوتا؟ اگر آپ نے کبھی اس کے بارے میں بات کی ہوتی کہ بیعت بھی ہوتی ہے، اس کا بھی فائدہ ہوتا ہے یعنی اس کے بارے میں بھی کوئی بات ہوتی ہے، لیکن آپ نے کبھی بات نہیں کی۔ اس لئے مجھے بھی شبہ ہوگیا اور جب لوگوں نے کہا تو میرا خیال تھا کہ شاید میں نے غلط کام کیا ہے۔ تو یہ بات تو بالکل صحیح ہے کہ ایسی ضروری چیزوں کے بارے میں آج کل نہیں بتایا جاتا، پھر نتیجہ کیا ہوتا ہے؟ لوگ اس کو دوسروں کے جیسا سمجھنے لگتے ہیں۔ اَلْحَمْدُ للہ! ابھی میرے خیال میں گھنٹہ نہیں گزرا ہوگا کہ اس پر میں نے بیان کیا ہے، تقریباً گھنٹہ یا دو گھنٹے ہوچکے ہوں گے یعنی ابھی عصر کے بعد میں نے اس پر بات کی ہے کہ یہاں کے باتھ رومز کی صفائی کا اور یہاں کی دوسری چیزوں کا خیال بہت ضروری ہے۔ اور اس کے بغیر کام ہو نہیں سکتا، کیونکہ یہ آپ کی حفاظت کا سامان ہے کہ اگر خدانخواستہ آپ صفائی نہیں کریں گے تو اس میں بیماریاں آنا شروع ہوجائیں گی، پھر اس کے بعد اس سے نقصان سب کو ہوتا ہے۔ بہرحال آپ کی بات صحیح ہے اور یہ ہمارے لئے لمحۂ فکریہ ہے کہ ہم لوگ ایسی چیزوں کے بارے میں بات کیوں نہیں کرتے، بالکل کرنی چاہئے بات۔

سوال نمبر 26:

حضرت جی! توبہ کے بارے میں سوال ہے کہ جب آدمی توبہ کرتا ہے تو حدیث میں آتا ہے کہ وہ ایسا ہے کہ گویا اس نے کوئی گناہ نہیں کیا۔ لیکن ہمیں بڑوں نے یہ بھی بتایا ہے کہ جب ان سے کوئی گناہ ہوا ہے تو سالوں کے بعد بھی ان پر اس گناہ کا اثر ہوا ہے۔ حضرت! پھر ان دونوں کے درمیان تطبیق کس طرح کریں؟

جواب:

تطبیق بہت آسان ہے۔ دیکھیں! ایک ہوتا ہے گناہ کا عذاب یا اس کے بارے میں پوچھنا، یہ تو ختم ہوجاتا ہے، لیکن ایک اس کا اثر ہے، مثال کے طور پر کسی نے شراب کافی عرصہ پی ہے اور پھر اس نے توبہ کرلی ہے، تو اب گناہ تو معاف ہوگیا، لیکن کیا اس کا اثر بھی ختم ہوگیا؟ نہیں، اس کا اثر کافی عرصہ جاری رہے گا اور اس کے لئے مجاہدہ کرنا پڑے گا اس سے اپنے آپ کو بچانے کے لئے۔ اس طرح جھوٹ بولنے کا مسئلہ ہے کہ جس کو جھوٹ بولنے کی بہت عادت ہو، اور پھر وہ توبہ کرلے تو پھر بھی اس کا اثر رہتا ہے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ بات سمجھائی ہے، چنانچہ حضرت نے فرمایا کہ کسی پیر صاحب کے مرید تھے، تو مریدوں نے دیکھا کہ جوتیاں اِدھر سے اُدھر اور اُدھر سے اِدھر کوئی کردیتا ہے، پھر لوگ ڈھونڈتے تھے، لیکن وہ ملتی نہیں ہیں، انہوں نے کہا کہ معلوم کرنا چاہئے کہ کون کرتا ہے، لہٰذا پہرہ داری شروع کی تو پہرہ میں پتا چلا کہ فلاں صاحب کررہے ہیں، تو ان کو پکڑ کے حضرت کے پاس لے گئے کہ یہ لوگوں کی جوتیاں آگے پیچھے کرتا ہے، پیر صاحب نے کہا بھائی! کیوں کرتے ہو؟ انہوں نے کہا حضرت! میں جوتیوں کو چوری کرتا تھا، لیکن میں نے یہاں آکر توبہ کرلی ہے، البتہ بار بار وہ عادت مجھے مجبور کرتی ہے تو میں نے کہا کہ چوری تو نہیں چلو ہیرا پھیری کرلیا کروں، اس لئے میں ہیرا پھیری کرلیتا ہوں۔ اس پر حضرت نے فرمایا کہ اچھا ہیرا پھیری کرلیا کرو، کیونکہ اسی وجہ سے تم بچے ہوئے ہو۔ لہٰذا میرا مطلب یہ ہے کہ اس کا جو اثر ہوتا ہے، وہ کچھ عرصہ کے بعد مجاہدہ سے ختم ہوتا ہے۔ آپ بتائیں! یہ سلوک کیوں طے کراتے ہیں؟ کیونکہ سلوک جو طے کرایا جاتا ہے وہ یہی ہوتا ہے، مثال کے طور پر ہر شخص کے اوپر شریعت ہر وقت لازم ہے یا نہیں؟ کسی کی تربیت نہیں ہوئی تو اس پر شریعت لازم نہیں ہے یا اس کے اوپر علم فرض نہیں ہے؟ فرضِ عین علم اس کے اوپر ہر وقت فرض ہے اور شریعت اس کے اوپر ہر وقت لازم ہے، لیکن ہوتا کیا ہے؟ ہوتا یہ ہے کہ جب بھی وہ عمل کرے گا تو مشکل سے کرے گا اگر تربیت نہ ہوئی ہو، یعنی ہر وقت اس کو مجاہدہ کرنا پڑے گا، لیکن جو صوفیاء کے پاس، مشائخ کے پاس آکر ایک دفعہ کھلا مجاہدہ کرلے کہ اس کی تربیت ہوجائے تو تربیت ہونے کے بعد پھر ہر وقت کا مجاہدہ ختم ہوجاتا ہے، بس پھر وہ طبیعت ثانیہ بن جاتی ہے، پھر آدمی آسانی کے ساتھ سارے کام کرسکتا ہے اور محفوظ بھی ہوجاتا ہے۔ لہٰذا یہ بات ہوتی ہے۔ باقی گناہ معاف ہوجاتا ہے، لیکن اس کے ساتھ اثرات جو ہوتے ہیں، وہ ہوتے ہیں۔

سوال نمبر 27:

سیرت طیبہ کی روشنی میں ہماری رہنمائی کیسے ہو؟ کہ ہمارا معاشرہ، ہمارا محلہ، ہماری باقی چیزیں صاف ستھری ہوں۔

جواب:

کیوں نہیں، آپ ﷺ کی سیرت میں اسوۂ رسول اکرم ﷺ سے بہت ساری باتیں ایسی ہیں جن کو آپ لے سکتے ہیں، اس کو پڑھ سکتے ہیں، لیکن کم از کم یہ بات جتنی مشہور ہے تو اس کے لئے وہ یہود والی بات جو میں نے کی ہے، جس میں میرے خیال سے کسی کو اشکال ہی نہیں ہے، تو یہ دلیل کے لئے کافی ہے۔ اور آپ مجھے بتاؤ! یہ جمعہ کے دن کا جو غسل ہے، یہ کس لئے ہے؟ صفائی کے لئے ہے۔ بستر کو جھاڑنے کے لئے جو فرمایا گیا ہے کہ سونے سے پہلے بستر کو جھاڑ لیا کرو، یہ کیا چیز ہے؟ صفائی کے لئے ہے۔ لہٰذا ذرا تھوڑا سا سیرت میں آپ پڑھ لیں تو آپ کو بہت ساری چیزیں ایسی معلوم ہوجائیں گی، جس سے آپ سمجھ سکیں گے۔

سوال نمبر 28:

حضرت! اعمال میں استقامت کے اسباب کیا ہیں؟ دوسرا اکثر دھیان نہیں جمتا اور تیسرا یہ ہے کہ اعمال میں للٰہیت آجائے، اخلاص پیدا ہوجائے جلدی سے یعنی بندہ چاہتا ہے کہ جلدی ہوجائے، اگرچہ لگے ہوئے تو ہیں، لیکن اس کے لئے کیا کرسکتے ہیں؟

جواب:

سبحان اللہ! آپ نے پورا سلوک بیان فرما دیا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ استقامت ہے کیا چیز؟ استقامت ہے کہ جو حال مطلوبہ ہے اس کے اوپر قائم رہنا، یہ چونکہ باب استفعال سے ہے، تو اس کا مطلب ہے کہ اس پر قائم رہنا۔ اب حال مطلوبہ سے کون کون سی چیزیں ہٹا سکتی ہیں؟ جب تک آپ اس کو control نہیں کریں گے تو استقامت حاصل نہیں ہوگی، لہٰذا اس میں کون سی چیزیں ہیں اور کیا عوامل ہیں؟ وہ دو ہی ہیں، ایک نفس ہے اور دوسرا شیطان ہے۔ نفس کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں، اپنی خواہشات ہوتی ہیں اور شیطان اس کو استعمال کرتا ہے، وہ وسوسہ ڈالتا ہے۔ اور جو نفس ہے اس کی خواہشات کثیر ہیں، لہٰذا پھر اس میں اور شریعت پر جو چیز ہوتی ہے اس میں نفس کی مخالفت آجاتی ہے، یعنی نفس وہ نہیں کرنا چاہتا، جیسے اوامر و نواہی میں جو امر ہے، اس کو کرنا نہیں چاہتا اور جو نہی ہے اس کی طرف دل چاہتا ہے یعنی اس کو کرنا چاہتا ہے، گویا کہ جتنے اس کے عوامل ہیں، وہ سب اس کو اس چیز سے ہٹاتے ہیں، لہٰذا جب تک آپ نفس کی ان چیزوں کو یعنی ان رذائل کو دبائیں گے نہیں تو شیطان کے وسوسوں کو آپ نہیں روک سکتے، بلکہ وہ آئیں گے effective ہوں گے۔ اس لئے نفس کے رذائل کو جو دبانا ہے وہ اس کا علاج ہے اور نفس کے رذائل کے دبانے سے استقامت حاصل ہوگی اور یہی سلوک ہے یعنی اسی کو ہم سلوک کہتے ہیں۔ دوسری دھیان قائم رہنے والی جو بات ہے، یہ اصل میں کیفیت احسان ہے اور کیفیت احسان کا مرتبہ نفس کے اطمینان کے بعد ہے، کیونکہ نفس مطمئن ہوگا تو آپ کی عقل مطمئن ہوسکتی ہے، ورنہ قلب تو اور بھی تبدیل ہوتا ہے، اس لئے اس کا نام ہی قلب ہے کہ یہ تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ لہٰذا اس میں نفس کی طرف سے جو چیزیں آتی ہیں، وہ اس کو متاثر کرتی ہیں۔ اس لئے آپ کا نفس مطمئن ہوگیا تو آپ کے دل میں جو چیز پہلے سے پڑی ہوئی ہے، اس کو آپ ذکر اللہ سے ختم کرسکتے ہیں، پھر آپ کا دھیان ماشاء اللہ! جمے گا۔ لہٰذا کیفیت احسان اس کے بعد ہے، اس سے پہلے نفس مطمئنہ ہے اور اس کے لئے سلوک طے کرنا ہے، اس کو پیدا کرنے کے لئے جذب کو حاصل کرنا ہے یعنی یہ پورا نظام ہے، اسی کو ہم تصوف کہتے ہیں۔

سوال نمبر 29:

’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ کا جو نصاب ہے، وہ میں نے ستر ہزار دفعہ پورا کیا ہے، لیکن مجھے خواب آیا کہ آپ کا صرف دو ہزار دفعہ قبول ہے، باقی قبول نہیں ہوا، میں نے پھر شروع کردیا، تو پھر خواب آیا کہ کوئی قبول نہیں ہے، پھر شروع کردیا تو پھر خواب آیا کہ کوئی قبول نہیں ہے، پھر شروع کیا تو پھر خواب آیا کہ کوئی قبول نہیں ہے۔ پوچھنا یہ تھا کہ یہ جو خواب کے اندر آتا ہے یہ کیا ہے؟ میں بڑا پریشان ہوں۔

جواب:

میں آپ کو اس سے زیادہ خطرناک واقعہ سناؤں، وہ کہ حضرت تھانوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے مواعظ میں میں نے پڑھا ہے، حضرت نے فرمایا کہ ایک صاحب جو بوڑھے آدمی تھے، وہ طواف کررہے تھے، طواف کرتے ہوئے اوپر ہاتف سے آواز آئی کہ نہ تیرا پہلا لبیک قبول ہے، نہ بعد والا قبول ہے۔ پیچھے ایک لڑکا جا رہا تھا اس نے بھی آواز سنی تو اس نے کہا بابا جی! آواز آپ کے لئے تھی؟ کہا کیا آپ نے بھی سنی؟ اس نے کہا جی ہاں میں نے سنی ہے، انہوں نے کہا بیٹے! یہ تو میں ساٹھ سال سے سن رہا ہوں، اس پر اس نے کہا کہ پھر بھی حضرت! آپ آتے ہیں؟ اب بابا جی کا جواب سنیں، بابا جی رو پڑے اور کہا بیٹا! پھر دوسرا در بتاؤ، کہاں جاؤں؟ یہ کہنا تھا کہ اوپر سے آواز آئی پہلا بھی قبول ہے، بعد والا بھی قبول ہے۔ لہٰذا اس پر آپ تصور ہی نہ کریں، بس آپ کا کام ہے پیش کرنا، وہ قبول فرماتا ہے یا نہیں فرماتا، وہ اس کا کام ہے، اس کا کام اس کو کرنے دو، اور جو تیرا کام ہے وہ تو خود کر، اس میں کوئی کمی اپنی طرف سے نہ چھوڑ، پھر بھی اگر کوئی کمی رہتی تو وہ پورا کرلے گا، وہ اس کا وعدہ ہے۔ اللہ فرماتے ہیں:

﴿وَالَّذِیْنَ جَاهَدُوْا فِیْنَا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَا﴾ (العنکبوت: 69)

ترجمہ: ’’اور جن لوگوں نے ہماری خاطر کوشش کی، ہم ان کو ضرور بالضرور اپنے راستوں پر پہنچا دیں گے‘‘۔

لہٰذا ہمارا کام کیا ہے؟ اپنے آپ کو پیش کرنا، بس کرتے رہنا، اگرچہ مسلسل آواز آئے کہ قبول نہیں ہے، قبول نہیں ہے، لیکن پھر بھی کرنا ہے، یہی للٰہیت ہے، کیونکہ ہمارے پاس کوئی اور راستہ ہو تو کہیں جائیں، کہاں جائیں؟

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ


  1. ۔ (آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب)

    نوٹ! تمام آیات کا ترجمہ آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم سے لیا گیا ہے۔

سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات - مجلسِ سوال و جواب