سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 640

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال نمبر 1:

حضرت تنزیہ کا معنی کیا ہے؟

جواب:

تنزیہ کا معنی ہے کہ اللّٰه تمام نقائص اور عیوب سے پاک ہے، اس کا اثر کیا ہونا چاہیے، اس پر ذرا غور کرلیں۔ اس کا فیض کیا ہوگا، کہاں سے آئے گا، کہاں پر آئے گا اور کس لیے آئے گا؟ اس پر انہوں نے مجھ سے پوچھا ہے کہ حضرت بس مجھے یہ سمجھ نہیں آتا کہ اس کا فیض کیا ہونا چاہیے؟ میرا خیال ہے کہ شاید آپ کو فیض کا معنی معلوم نہیں ہے، فیض ہر وہ چیز ہے جس سے کسی کو نفع ہوتا ہو۔ اب اس کا مراقبہ کیا ہے؟ وہ یہ ہے کہ اللّٰه جل شانہٗ انسانوں کی بعض صفات سے منزہ ہیں جو انسانوں کے لئے تو ثابت ہیں لیکن اللّٰه کے لئے نہیں ہیں۔ مثلاً انسان کھاتے ہیں، پیتے ہیں، سوتے ہیں، فوت ہوتے ہیں، کسی سے پیدا ہوتے ہیں اور کوئی ان سے پیدا ہوتا ہے، یہ سب صفات جانداروں کی ہیں لیکن اللّٰه پاک کے لئے یہ ثابت نہیں ہیں، اللّٰه پاک ان سے منزہ ہیں۔ یہ تنزیہ ہے، لہٰذا جب یہ تنزیہ ہے اور یہ اس کا مراقبہ ہوگا تو اس کا فیض یہی ہوگا کہ ان چیزوں سے اللّٰہ جل شانہٗ کو منزہ سمجھا جائے گا اور اس کے اثر کو وہ قبول کرے گا یعنی اللّٰه جل شانہٗ کی حیات مستقل ہے۔ ظاہر ہے کہ انسان فانی کی طرف کیوں جائے گا، باقی کی طرف جائے گا۔ اسی طرح اللّٰه پاک کسی سے پیدا نہیں ہوئے، ظاہر ہے اللّٰه جل شانہٗ کی ایسی صفات کی طرف انسان نہیں سوچے گا جو کہ اللّٰه پاک کی نہیں ہیں، تو یہی اس کا فیض ہے۔ باقی معرفت جس کے ساتھ متعلق ہے وہ ہر شخص کی اپنی اپنی ہوتی ہے، بہرحال اس پر غور کریں تو آپ کو ان چیزوں کا علم ہوسکتا ہے۔

سوال نمبر 2:

السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ! حضرت اس دفعہ حج کے بعد جو جوڑ ہوا تھا اس میں خواتین کی تعداد نے بہت سے لوگوں کو خانقاہ کے ان پرانے جوڑ کی یاد دلائی تھی جب ہم گھر گھر دعوت نامے تقسیم کیا کرتے تھے، آج کل چونکہ جوڑ کی دعوت بذریعہ WhatsApp دی جاتی ہے، تو انہی لوگوں کی آمد بہت کم بلکہ نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے اور جن لوگوں کو message مل بھی جاتا ہے ان میں بھی بہت کم لوگ آتے ہیں۔ حضرت جی کیا اس طرح نہیں ہوسکتا کہ ہم WhatsApp کے ساتھ ساتھ گھر گھر دعوت ناموں والا سلسلہ پھر سے شروع کردیں تاکہ زیادہ سے زیادہ نئے لوگوں کو بھی خانقاہ لانے کا موقع مل جایا کرے؟

جواب:

بالکل صحیح تجویز ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ واقعتاً WhatsApp کے message کا وہ اثر نہیں ہوتا یا کسی خط کا وہ اثر نہیں ہوتا جتنا کہ ملنے کے بعد بات کا اثر ہوتا ہے۔ مثلاً تبلیغی جماعت والے حضرات جو گشت کرتے ہیں، تو کیا ان کا گشت ایسا ہوتا ہے کہ WhatsApp پر سب کو اطلاع دی جاتی ہے نماز کے لئے آجائیں ہماری جماعت آئی ہے کبھی کوئی اس طرح کرتا ہے؟ کیونکہ اس کا پھر اثر نہیں ہوتا۔ آپ کی بات صحیح ہے، اپنے لوگوں کے ہاں اس کا مشورہ رکھ لیں کہ اگر ایسا ہوجائے تو زیادہ بہتر ہے۔

سوال نمبر 3:

شاہ صاحب! اگر ربیع الاول میں درودِ ابراہیمی پڑھیں، وہ بہتر ہے یا اس سے مختصر درود جو زیادہ تعداد میں پڑھا جا سکے؟

جواب:

درود شریف تو اللّٰه پاک کا حکم ہے اور اس کے لئے یہ نہیں بتایا گیا کہ ربیع الاول میں پڑھیں، قرآن پاک میں ہے:

﴿اِنَّ اللّٰهَ وَمَلٰٓئِكَتَهٗ يُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِىِّ ؕ يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوْا تَسۡلِيۡمًا﴾(الأحزاب: 56)

ترجمہ: ’’بیشک اللہ اور اس کے فرشتے نبی ﷺ پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود بھیجو، اور خوب سلام بھیجا کرو‘‘۔

یہ تو ساتھ نہیں بتایا کہ صرف ربیع الاول میں پڑھیں، یہ تو اللّٰه کا حکم ہے کہ ہر وقت پڑھنا چاہیے اور اس کے لئے جہاں تک درودِ ابراہیمی اور چھوٹے درود کا تعلق ہے تو یہ انسان کے ذوق پر منحصر ہے، جو لوگ زیادہ مقبول درود پڑھنا چاہتے ہیں تو وہ تو درودِ ابراہیمی ہے کیونکہ یہ نماز میں پڑھا جاتا ہے اور جو زیادہ تعداد میں پڑھنا چاہتے ہیں تو وہ مختصر درود شریف جو صحیح درودِ پاک ہو اس کو پڑھ لیں۔ جیسے ’’صَلَّ اللهُ عَلَى النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ‘ اس طرح یہ درود شریف ’’جَزَی اللهُ عَنَّا مُحَمَّدًا مَّا ھُوَ اَھْلُهٗ‘‘ لہٰذا جتنے بھی مختصر درودِ پاک ہیں ان کو بھی پڑھا جاسکتا ہے۔ تو یہ ذوق پر منحصر ہے، جس وقت جو ذوق آپ کے اوپر غالب ہو اس کی اتباع کرلیا کریں۔

سوال نمبر 4:

السلام علیکم ورحمۃ اللّٰه وبرکاتہ! حضرت جی آپ کی کتاب حقیقتِ محمدی PDF میں مل سکتی ہے؟

جواب:

میری کتاب حقیقتِ محمدی نہیں ہے، حقیقتِ توحید ورسالت ہے وہ اِنْ شَاءَ اللّٰه چھپ جائے گی اور پھر PDF میں بھی مل جائیں گی اِنْ شَاءَ اللّٰه۔

سوال نمبر 5:

السلام علیکم! شیخِ محترم میرا پانچ پانچ منٹ لطائف کا ذکر اور پندرہ منٹ مراقبۂ معیت میں دل ہی دل میں دعا کرنے والا عمل ہے اور خامیوں میں سے پہلی خامی ماں باپ کے ساتھ کسی بھی صورت میں میرا غصہ نہ کرنے کا عمل اس ماہ بھی پورا ہوچکا ہے۔ شیخِ محترم ہمیشہ کی طرح بس مجھے ایک ہی بات پر دو تین بار غصہ آتا ہے، جب کچھ ورغلانے والوں نے امی کو مجھ پر زیادتی کرنے پر ابھارا، بعد میں امی کو اپنی غلطی کا احساس ہوگیا اور میرا غصہ بھی ختم ہوگیا۔ باقی اس ماہ میری دعا اور دم میں اثر نظر آیا، سال بھر مجھے ایک غلط جگہ رشتے پر مجبور کیا جا رہا تھا لیکن دعا سے اس سے جان چھوٹ گئی، میرے بھائی ایک درد کی وجہ سے ہمیشہ اسپتال پہنچ جاتے تھے، اس بار درد ہونے پر سورۂ فاتحہ کا دم کیا ہوا پانی پلانے سے ان کا درد ختم ہوگیا اور مجھے ایک بیماری diagnose ہوئی تھی دم کرنے سے وہ بھی ختم ہوگئی۔ شیخ محترم میں آپ کے بیان سننے کے بعد اب دعائے نور، سورۂ کہف اور منزلِ جدید بھی پڑھتی ہوں، تب سے میری حالت بہتر ہے، شیخِ محترم آگے رہنمائی کیجئے جَزَاکَ اللّٰہ۔

جواب:

ٹھیک ہے مَاشَاءَ اللّٰه، ان کو پڑھتے رہیں اس کی برکات سے تو انکار نہیں ہے اور آپ کا جو پانچ پانچ منٹ والا لطائف کا ذکر ہے اور پندرہ منٹ مراقبۂ معیت ہے اس میں جو دعا والا عمل ہے اس کو فی الحال جاری رکھیں اِنْ شَاءَ اللہُ الْعَزِیْز اور اپنے عیوب پر نظر ڈالیں جو جو عیوب آپ کو اپنے اندر نظر آتے جائیں وہ مجھے بتاتی جائیں۔

سوال نمبر 6:

السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ! حضرت اس مہینے کی کارگزاری پیشِ خدمت ہے۔ اس ماہ نفی واثبات سو، ’’اِلَّا ھُوْ‘‘ سو، اسمِ ضمیر سو، ’’حَقْ‘‘ سو، ’’حَقْ اَللّٰہ‘‘ سو۔ مراقبۂ دعائیہ پندرہ منٹ، مراقبۂ فنائیت پندرہ منٹ، خاموش اسمِ ذات ایک منٹ، اسمِ ذات اڑتالیس ہزار مرتبہ بلا ناغہ جاری ہے اَلْحَمْدُ لِلّٰه۔

جواب:

بس اب ذرا اپنی خامیوں پر غور کرنا شروع کریں اور جو جو خامیاں آپ کو نظر آجائیں تو وہ مجھے بھیجتے رہیں تاکہ ان کی اصلاح ہوتی جائے اور ان اعمال پر عمل جاری رکھیں آمین۔

سوال نمبر 7:

السلام علیکم! شیخ صاحب میرا ابتدائی ذکر تین سو دفعہ ’’سُبْحَانَ اللهِ وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ وَلآ إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَاللهُ أَكْبَرُ‘‘ ایک مرتبہ آیت الکرسی بلاناغہ پورا ہوا، اب اگلا ذکر تجویز کرنے کی گزارش ہے۔

جواب:

اب آپ اس طرح کریں کہ آپ سو سو دفعہ تیسرا کلمہ پورا، درود شریف پورا، استغفار پورا، یہ آپ روزانہ پڑھتی رہیں اور ہر نماز کے بعد تینتیس دفعہ، تینتیس دفعہ، چونتیس دفعہ جو مسنون ذکر ہے اور تین دفعہ کلمہ طیبہ، تین دفعہ درودِ ابراہیمی تین دفعہ استغفار، ایک مرتبہ آیت الکرسی اس کو تو عمر بھر جاری رکھیں، باقی ابتدائی ذکر تو پورا ہوگیا ہے اب دوبارہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کے علاوہ ایک مہینے کے لیے ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ کا جہری ذکر سو دفعہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ سو دفعہ، ’’حَقْ‘‘ سو دفعہ، ’’اَللّٰہ‘‘ سو دفعہ، یہ آپ ایک مہینہ کرکے پھر مجھے اس کی اطلاع کردیں۔

سوال نمبر 8:

السلام علیکم! حضرت میں لاہور سے فلاں بات کررہا ہوں۔ حضرت گزشتہ ماہ میرا جہری ذکر دو سو، چار سو، چھ سو اور ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ ’’حَقْ‘‘ کے ساتھ ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ نو ہزار تک بڑھایا تھا جس کو اَلْحَمْدُ لِلّٰه ایک مہینہ مکمل ہوگیا ہے، البتہ ذکر ونماز میں دھیان دنیاوی معاملات میں الجھا رہتا ہے۔ اللّٰه تعالیٰ کی بیش بہا نعمتوں کے بعد خود پر یہ شک ہونے لگا ہے کہ کہیں میرے ٹوٹے ہوئے اعمال شکر میں بھی صرف دنیاوی نعمتوں کی دوام کی وجہ سے تو نہیں ہے؟ جناب سے رہنمائی کی درخواست ہے۔

جواب:

ہاں اپنی حفاظت کرنی چاہیے۔ اب آپ ذکر پانچ سو مرتبہ کرلیں اور ساتھ اس پر اللّٰه پاک کا شکر کریں کہ اللّٰه پاک نے آپ کو ذکر کرنے کی توفیق عطا فرمائی، نماز میں نماز کی طرف متوجہ ہو جایا کریں اور اپنے نفس کو سمجھا دیا کریں کہ اس کی جگہ نماز نہیں ہے نماز کے بعد بھی انسان سوچ سکتا ہے، نماز میں صرف اللّٰه پاک کی طرف متوجہ ہونا ہے۔ باقی ہمت کی بات ہے، آپ جس چیز کو غلط سمجھتے ہیں اس سے اپنے آپ کو بچائیں۔

سوال نمبر 9:

السلام علیکم! حضرت جی درود شریف پڑھتے ہوئے تصور کیا ہونا چاہیے؟

جواب:

یہ تصور ہونا چاہیے کہ فرشتے اس کو لے جارہے ہیں اور یہ آپ ﷺ کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے، آپ ﷺ اس کو قبول فرما رہے ہیں۔

سوال نمبر 10:

السلام علیکم حضرت شاہ صاحب! میری چھوٹی بہن کی سہیلی نے جس کی عمر 20 سال ہے ابھی چالیس دن کا ابتدائی ذکر مکمل کیا ہے، مزید رہنمائی کی درخواست ہے۔

جواب:

مَاشَاءَ اللّٰہ بڑا اچھا کیا۔ آپ ان کو کہہ دیجئیے کہ تیسرا کلمہ، درود شریف، استغفار سو سو دفعہ عمر بھر کے لئے اور جو نماز کے بعد والا ذکر ہے وہ بھی عمر بھر کے لئے جاری رکھیں اور ساتھ دس منٹ کے لئے آنکھیں بند کرکے، زبان بند، قبلہ رخ بیٹھ کے یہ تصور کرنا ہے کہ میرا دل ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کررہا ہے، یہ اِنْ شَاءَ اللّٰهُ الْعَزِیْز ایک مہینے تک ہے، ایک مہینے کے بعد پھر مجھے بتائیں۔

سوال نمبر 11:

السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ! حضرت شاہ صاحب کیا ایک ہی گھر میں رہنے والے دو افراد پر ان کے گھر کے حالات ایک فرد کے لئے آزمائش اور دوسرے کے لئے سزا ہوں، اور سننے میں آیا ہے کہ جو سخت حالات میں اللّٰه کی طرح متوجہ ہوجائے وہ آزمائش یا امتحان ہے اور اگر ایسے حالات میں آپ اللّٰه سے دور ہوجائیں تو وہ سزا ہے۔ اس بات میں کوئی صداقت ہے؟

جواب:

جی ہاں بالکل! جب بھی کبھی کوئی مصیبت کسی پر آئے تو دیکھیں کہ کیا وہ اس کی وجہ سے اللّٰه سے دور ہورہا ہے یا اول فول بک رہا ہے۔ مثلاً یہ کہتا ہے کہ اللّٰه نے مجھے اسی کے لئے پیدا کیا، یعنی اس قسم کی باتیں کررہا ہے تو یہ اس کو سزا ہے، کیونکہ وہ تکلیف اس کو فائدہ نہیں پہنچا رہی بلکہ نقصان پہنچا رہی ہے۔ اور اگر اس پر خاموش رہ کر صبر کررہا ہے، تو یہ اس کے لئے گناہوں کا کفارہ ہے اور اگر اس پر شکر کررہا ہے کہ میں تو اس سے بھی زیادہ کا قابل تھا اللّٰه پاک نے میرے ساتھ کرم والا معاملہ فرمایا ہے، مجھے سخت تکلیف سے بچایا اور اس پر ہی اکتفاء فرمایا، تو یہ مَاشَاءَ اللّٰہ رفع درجات کا ذریعہ ہے۔ اور یہ بات بھی صحیح ہے کہ کوئی تکلیف اور کوئی مصیبت اگر گھر میں آجائے تو کسی ایک کے لئے سزا بھی ہوسکتی ہے، کسی کے لئے وہ امتحان بھی ہوسکتا ہے، آزمائش بھی ہوسکتی ہے۔ کیونکہ یہ سزا اور آزمائش یہ ان کے اپنے عمل پر منحصر ہے کہ وہ اس مصیبت کو کیسے لے رہے ہیں، اگر مصیبت پر صبر کررہے ہیں تو مَاشَاءَ اللّٰہ گناہوں کا کفارہ ہے اور اگر اس پر صبر نہیں کررہے، بےصبری کررہے ہیں اور اِدھر اُدھر کی غلط باتیں کررہے ہیں تو وہ سزا ہے، کیونکہ اس کی مصیبت اس کو فائدہ نہیں پہنچا رہی نقصان پہنچا رہی ہے۔

سوال نمبر 12:

السلام علیکم ورحمۃ اللّٰه وبرکاتہ!

I hope you are well. My mother is sending you salam. الحمد لِلّٰه this week I started university and every day I spend around six hours traveling. Please do دعا that I manage to get accommodation through حلال means close to the university as a lot of time is spent just traveling. I do my علاجی ذکر in the morning on the bus as during the day I am really busy but I repeatedly fall asleep and wake up during the ذکر despite trying to stay focused. My ذکر at the moment is three hundred times the first part of the third kalima and two hundred times the second part. I had previously completed the forty days of the ذکر but had not been given any more ذکر. However, when guests were over on the weekend I forgot to do the ذکر and missed a day. Will I have to repeat the forty days again? In the university I have made only Muslim male friends and speak to them during the day but spend the evening in the مسجد doing my alim class. Sometimes in group lessons I have to work with women and speak to them but I try to speak only as much as necessary. Please keep me in your duas.

جواب:

مَاشَاءَ اللّٰه آپ بہت اچھا کررہے ہیں، اللّٰه جل شانہٗ آپ کے لیے آسانیاں پیدا فرمائیں۔ اور واقعی جوانی میں اس قسم کے کام یعنی مشکلات ہوسکتی ہیں لیکن مشکلات پر قابو پانے کا جذبہ ہونا چاہیے، اللّٰه تعالیٰ آپ کے ساتھ آسانی کا معاملہ فرمائیں۔ بہرحال ذکر کے وقت حتی الوسع کوشش کریں کہ آپ جاگ کر کریں اور مجھے اب اگر علم ہوجائے کہ آپ نے وہ چالیس دن کا ذکر بغیر ناغے کے مکمل کیا تھا تو میں آپ کو دوسرا ذکر دے دوں، اگر آپ نے بغیر ناغے کے مکمل نہیں کیا تو اس کو بغیر ناغے کے ایک دفعہ مکمل کرنا چاہیے۔

سوال نمبر 13:

السلام علیکم ورحمۃ اللّٰه وبرکاتہ!

Respected and honourable شیخ صاحب I pray that you and your family are well آمین. I have these questions. Number one, I have many قضاءِ عمری. I read one set into five قضاء نماز per day. Should I also read تہجد نوافل? Number two, occasionally I meet relatively irreligious people and family members etc. They think I am religious so they tend to ask me islamic questions and also about our سلسلہ. I answer them as per my capability of what I have understood from علماء and you and let them know. If I don't know something or I am unsure about something I don’t. Many times I try to move the conversation towards islamic topics in the hopes of making the conversation and time productive. However, often engaging in such talks with people as I struggle to focus on اللّٰه سبحانہٗ وتعالیٰ again غفلت and thoughts about the conversation and future conversations start lingering in the mind. What should I do? Duas requested حضرت

فلاں from Birmingham UK.

جواب:

مَاشَاءَ اللّٰہ آپ نے جو قضاءِ عمری شروع کی ہے یہ تو بہت اچھی بات ہے، البتہ حضرت تھانوی رحمۃ اللّٰه علیہ کے بقول جو مروجہ نوافل یعنی مسنون نوافل ہیں ان کو بالکل نہیں چھوڑنا چاہیے، مختصر پڑھنا چاہیے یعنی چار رکعات پڑھ کے باقی آپ قضا نمازیں پڑھیں۔ اس کی وجہ حضرت یہ فرما رہے ہیں کہ اگرچہ آپ کے اوپر قضا نمازیں ہیں تو priority اس کی ہے، لیکن تہجد کے لئے جو آپ کو اٹھنا نصیب ہورہا ہے یہ تہجد کی وجہ سے ہورہا ہے۔ ورنہ اگر آپ صرف قضا پڑھیں گے تو آپ کہیں گے کہ بعد میں پڑھ لوں گا، لہٰذا وہ رہ جائیں گی اور اس وقت کی اپنی برکت ہے، اس لئے آپ تہجد کے نوافل پڑھ لیا کریں۔ اور باقی اگر آپ نوافل کی جگہ قضا نماز پڑھ لیں تو زیادہ بہتر ہے، مغرب میں اوابین چھ کے بجائے دو رکعت پڑھ لیں اور جو دوسرے اوقات ہیں ان میں اشراق بھی دو رکعت پڑھ لیں لیکن آپ زیادہ قضا نمازیں پڑھ لیں اِنْ شَاءَ اللّٰه۔ دوسری بات کہ Irreligious people کے ساتھ دعوت کی نیت سے ملنا اچھی بات ہے، البتہ اس میں جو چیز آپ کو clearly معلوم ہو وہ تو ان کو بتا دیا کریں اور clearly معلوم نہ ہو تو آپ ان سے کہہ دیں کہ میں آپ کو ایسے لوگوں سے ملوا سکتا ہوں یا ان کا پتا بتا سکتا ہوں جن سے آپ یہ چیزیں پوچھ لیں، وہ آپ کو بتا دیں گے اِنْ شَاءَ اللّٰه۔ کیونکہ کچھ باتیں ایسی ہوتی ہیں جو مفتی ہی بتا سکتے ہیں، کچھ مشائخ کی باتیں ہوتی ہیں وہ مشائخ ہی بتا سکتے ہیں، لہٰذا اپنے اوپر زیادہ ذمہ داری نہ لیں بلکہ دوسروں کی طرف ذمہ داری منتقل کرنے کی کوشش کیا کریں۔ باقی مختلف باتوں کے اندر مشغول ہونا ہے، جب بات گزر جائے تو اس کے بعد پھر اس کو جھٹک دیا کریں اور اللّٰه پاک کی طرف متوجہ ہوجایا کریں، مثلاً استغفار کرنا شروع کردیں تو اِنْ شَاءَ اللّٰه اس سے انسان اللّٰه کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے۔

سوال نمبر 14:

السلام علیکم ورحمۃ اللّٰه! حضرت شاہ صاحب

May Allah preserve you بَارَکَ اللّٰهُ فِیْکُمْ. I am contacting you to update my ورد. I was practicing for many months but I haven't been regular at all. Again I had the feeling that I didn't have the time. Yet it was clearly due to pure negligence, recklessness and laziness. Also, I have bad manners and because of all my bad actions we are now on the verge of divorce. It's all due to me. I feel I'm dirty. I have again renewed my نیا. May اللّٰہ سبحانہٗ وتعالیٰ make me in this again but I don't know what to do? The state is awful, full of anger, guilt and pain.

Actual ورد:

Five hundred times ‘‘لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ’’ fifteen hundred times ‘‘حَقْ اَللّٰہ’’ fifteen hundred times ‘‘حَقْ’’ fifteen hundred times ‘‘اَللّٰہ’’ fifteen hundred times ‘‘حَقْ ھُوْ’’ and five hundred times ‘‘ھُوْ’’ thirty minutes ‘‘اَللّٰہ’’ with respiration and ‘‘ھُوْ’’ too while exhaling.

جواب:

I think, as far as the اوراد are concerned these are okay but you have to be consistent and regular in these اذکار so that you get the actual benefit of these اذکار. The second thing is that to avoid wrong things, you should be regularly telling me. I think in start, tell me every week about your conditions, especially about your marital conditions because it is very very dangerous. If a person is going in that direction of the divorce etc because اللّٰه سبحانہٗ وتعالیٰ dislikes this, so one should avoid this thing. You should be regular in writing to me about such things. I think if you can give me some details about it that if your wife can contact me then I will be able to tell her to correct herself if she is wrong. But if I feel that you are wrong in something I shall tell you that you please correct yourself. Okay. Do not hesitate to write to me. Secondly, do not miss any day in ذکر because the ذکر مَاشَاءَ اللّٰه will remind you that you are Muslim and you are عبد of اللّٰه سبحانہٗ و تعالیٰ and you are responsible before Him.


سوال نمبر 15:

السلام علیکم! حضرت جی آپ نے مکتوبات شریف کے درس میں نسبتِ صدیقی کی بات کی تھی، یہ نسبت صدیقی کیا ہے؟ تھوڑی وضاحت کریں۔

جواب:

مَاشَاءَاللہ بڑا اچھا سوال ہے۔ میں لوگوں کی بات کرتا ہوں اپنی بات نہیں کرتا۔ اصل میں نسبتِ صدیقی سے لوگ یہ مراد لیتے ہیں کہ ابوبکر صدیق رضی اللّٰه تعالیٰ عنہ سے جو نسبت ہمیں ملی ہے وہ نسبتِ صدیقی ہے۔ اس میں زیادہ تر جو نقشبندی حضرات ہیں وہ یہ بات کرتے ہیں کہ نسبتِ صدیقی ہمیں حاصل ہے۔ یہ کہنا کہ حاصل ہے، یہ کوئی بری بات نہیں ہے یہ تو بالکل کہہ سکتے ہیں یقیناً حاصل ہے، لیکن اگر وہ کہہ دیں کہ باقیوں کو حاصل نہیں ہے، تو اس پر پھر سوال اٹھیں گے۔ یہ بات میں دو وجوہات سے کرتا ہوں، مَاشَاءَ اللّٰہ شجرے موجود ہیں کیونکہ جیسے حدیث شریف کے سلسلے آج کل بہت واضح ہوچکے ہیں، اس پہ کتابیں بن گئی ہیں، اب اگر کوئی کسی حدیث شریف کے بارے میں جاننا چاہے تو یہ کوئی مشکل نہیں ہے کیونکہ اس میں سارے راویوں کی details موجود ہیں۔ لہٰذا آج کل اس بارے میں فیصلہ کرنا آسان ہے، پہلے یہ بڑا مشکل تھا اور لوگوں کے لئے اس میں کافی مشکلات تھیں لیکن اب وہ مشکلات نہیں رہیں، اب اس پر آسانی سے فیصلہ ہوسکتا ہے۔ اسی طریقے سے شجرے بھی آج کل بالکل واضح ہوگئے ہیں یعنی وہ تقریباً تقریباً settle ہوگئے ہیں اور اب یہ شجرے موجود ہیں، اور شجروں کے ماہر مولانا عبد الغفار صاحب نے جو تیار کیا تھا وہ ہمارے پاس موجود ہے۔ اس میں ایک بات بالکل واضح ہے کہ حضراتِ نقشبند جو فرماتے ہیں کہ ہمیں نسبتِ صدیقی حاصل ہے، وہ اس وجہ سے نہیں کہ وہ ابوبکر صدیق رضی اللّٰه تعالیٰ عنہ سے بیعت ہیں بلکہ ان کی بیعت کا سلسلہ علی کرم اللّٰه وجہہ تک جاتا ہے جیسے باقیوں کا جاتا ہے، لیکن ان کو ایک رخ سے حضرت امام جعفر صادق رحمۃ اللّٰہ علیہ کے ذریعے سے نسبتِ صدیقی حاصل ہے۔ وہ کیسے؟ وہ یہ کہ حضرت امام جعفر صادق رحمۃ اللّٰہ علیہ کا ننھیال حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰه تعالیٰ عنہ کے خاندان کا تھا اس وجہ سے وہ تو نسبتِ صدیقی کے حامل ہوگئے۔ حالانکہ حضرت علی رضی اللّٰه تعالیٰ عنہ سے بھی نسبت ہے کیونکہ حضرت علی رضی اللّٰه تعالیٰ عنہ کی اولاد میں تھے، لہٰذا دونوں اس پہ جمع ہوگئے۔ اب وہاں سے مَاشَاءَ اللّٰہ ہوا یہ کہ حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے فیض حاصل کیا تو ان کو حضرت امام جعفر صادق رحمۃ اللّٰہ علیہ سے نسبت حاصل ہوگئی، پھر وہاں سے تین پشتوں کے ذریعے سے اور ایک روایت کے مطابق اویسی طریقے سے حضرت شیخ ابو الحسن خرقانی رحمۃ اللّٰہ علیہ کو بایزید بسطامی رحمۃ اللّٰہ علیہ سے یہ نسبت حاصل ہوگئی اور شیخ ابوالحسن خرقانی رحمۃ اللّٰہ علیہ سے نقشبندی سلسلے کے ایک بہت بڑے شیخ عبدالعزیز فارمینی رحمۃ اللّٰه علیہ کو یہ نسبت حاصل ہوئی۔ اس طرح یہ نسبت نقشبندی سلسلے میں داخل ہوگئی۔ یہاں تک ان کی بات صحیح ہے اور اس میں کوئی غلطی نہیں ہے، لیکن بعینہٖ اسی طریقے سے باقی سلسلوں کو بھی حاصل ہے، وہ ایسے کہ یہ سلسلہ حضرت امام جعفر صادق رحمۃ اللّٰہ علیہ سے اور ان کی اولاد کے ذریعے سے آگے چلا ہے اور پھر ان کی اولاد سے قادری سلسلے میں بھی گیا ہے، سہروردی سلسلے میں بھی گیا ہے اور چشتی سلسلے میں بھی گیا ہے، ہاں roots مختلف ہیں لیکن بہرحال اسی طریقے سے گیا ہے اور باقی سلسلوں کو بھی حاصل ہے۔ یہ تو ایک جواب ہے اور میرے خیال میں sufficient ہے۔

اب اس سے بھی اچھا ایک جواب ہے اور وہ یہ ہے کہ آپ ﷺ سے سارے سلسلے جاری ہوئے ہیں اس میں سب مشترک ہیں، ابوبکر صدیق رضی اللّٰه تعالیٰ عنہ کو بھی آپ ﷺ سے ملا ہے، لہذا آپ ﷺ سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰه تعالیٰ عنہ نے لیا۔ ابوبکر صدیق رضی اللّٰه تعالیٰ عنہ کے ہاتھ پر سب صحابہ نے بیعت کی ہے اور ان میں حضرت عمر رضی اللّٰه تعالیٰ عنہ بھی تھے تو انہوں نے لے لیا۔ حضرت عمر رضی اللّٰه تعالیٰ عنہ کے ہاتھ پر سب صحابہ نے بیعت کی اور انہوں نے لے لیا، یعنی ابوبکر صدیق رضی اللّٰه تعالیٰ عنہ سے بھی انہوں نے لیا اور حضرت عمر رضی اللّٰه تعالیٰ عنہ سے بھی، پھر حضرت عثمان رضی اللّٰه تعالیٰ عنہ نے اور تمام صحابہ نے بیعت کی تو انہوں نے لے لیا۔ اس کے بعد حضرت عثمان رضی اللّٰه تعالیٰ عنہ سے تمام صحابہ نے بیعت کی تو حضرت علی کرم اللّٰه وجہہ تک بھی آگیا، چنانچہ حضرت علی کرم اللّٰه وجہہ پہ سب جمع ہوگئے، پھر ان پر سب جمع ہوگئے۔ جب سب جمع ہوگئے تو حضرت علی رضی اللّٰه عنہ سے جتنے سلسلے نکلے ہیں جن میں نقشبندی بھی ہے، لہٰذا سب کو یہ نعمت مل گئی یا نہیں ملی؟ اس وجہ سے اس پہ کوئی اشکال نہیں ہے کہ نسبتِ صدیقی، نسبتِ عمرِ فاروق، نسبتِ عثمان اور نسبتِ علی یہ سب سلسلوں کے اندر موجود ہیں، لہٰذا اس پر نہ لڑنا چاہیے، نہ غصہ کرنا چاہیے، نہ کسی کو تنقیص کرنی چاہیے، یہ سب میں موجود ہے۔ نسبتِ صدیقی نسبتِ علی کی طرح سب سلسلوں میں شامل ہے، لہٰذا اس بات پر ہمیں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی ضرورت نہیں ہے۔ بس اس پر میں اتنی ہی بات کرتا ہوں کسی کے خلاف بات نہیں کرتا کہ ہم سب کو ساتھ لے کے چلیں۔ کیونکہ سلاسل کا کام یہ چیزیں نہیں ہیں کہ ’’پِدرم سُلطان بُود‘‘ بلکہ سلاسل کا کام یہ ہے کہ میں کتنا اپنے نفس کی اصلاح کرسکتا ہوں، سیر الی اللّٰه اور سیر فی اللّٰه سارے سلسلوں میں ہے۔ سیر الی اللّٰه، جس نے چشتیہ میں تکمیل کی سُبْحَانَ اللّٰہ بالکل ٹھیک ہے، نقشبندیہ میں کی، بالکل ٹھیک، قادریہ میں کی، بالکل ٹھیک، سہروردی میں کی، بالکل ٹھیک ہے یا کسی اور سلسلے میں کی، بالکل ٹھیک ہے لیکن سیر الی اللّٰه مکمل ہونا چاہیے۔ اب اگر کوئی نقشبندی سلسلے میں ہو اور سیر الی اللّٰہ مکمل نہیں کرتا تو اس کو وہ چیز حاصل نہیں ہے جو دوسرے کو حاصل ہے، جس نے سیر الی اللّٰہ مکمل کیا ہے، اس کا پوچھا جائے گا۔ ایک آدمی سید ہے لیکن نماز نہیں پڑھتا، دوسرا آدمی سید نہیں ہے اور نماز پڑھتا ہے تو کون افضل ہے؟ جو نماز پڑھتا ہے۔ اللّٰه پاک نماز کے بارے میں پوچھیں گے، اس چیز کے بارے میں تو نہیں پوچھیں گے کہ تو سید تھا یا نہیں تھا، بلکہ یہ پوچھیں گے کہ تو نے نماز پڑھی یا نہیں؟

روزِ محشر کہ جاں گداز بود

اولیں پرسشِ نماز بود

اس طرح کے اعمال کے بارے میں پوچھا جائے گا اور اس کے بارے میں صاف واضح حدیث شریف موجود ہے:

’’يَا فَاطِمَةُ بِنْتَ مُحَمَّدٍ، سَلِينِيْ مَا شِئْتِ مِنْ مَالِيْ، لَا أُغْنِيْ عَنْكِ مِنَ اللهِ شَيْئًا‘‘۔ (صحیح بخاری، رقم الحدیث: 2602)

ترجمہ: ’’اے محمد (ﷺ) کی بیٹی فاطمہ! مجھ سے میرے مال میں سے جو چاہو مانگ لو، میں تمہیں اللہ (کے عذاب) سے نہیں بچا سکوں گا‘‘۔

یہ نسبی نسبت بھی وہاں رک جاتی ہے۔ کیونکہ حدیث شریف میں یہ بھی ہے:

’’جس کو اس کے عمل نے پیچھے کیا، اس کو نسب آگے نہیں بڑھا سکتا‘‘۔ (مسند الشهاب، حدیث نمبر: 393)

نسب سے اونچی کوئی نسبت ہوتی ہے؟ جب وہ کام نہیں دے گی تو پھر یہ نسبت دے گی جس کا کام ہی عمل کے ذریعے سے ہے، لہٰذا ان چیزوں کے پیچھے نہیں لگنا چاہیے۔ بس میں اتنی بات کرتا ہوں، اللّٰه کرے کہ یہ بات ہم سب کو سمجھ آجائے۔

سوال نمبر 16:

السلام علیکم ورحمۃ اللّٰه وبرکاتہ! احوال: حضرت جی معمولات اَلْحَمْدُ لِلّٰہ معمول کے مطابق ہورہے ہیں۔ ذکر: حضرت جی ذکر ایک مہینے کے لئے ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ دو سو مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ چار سو مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ چھ سو مرتبہ اور ’’اَللّٰہ‘‘ پندر ہزار مرتبہ، اللّٰه کے فضل اور آپ کی دعاؤں کی برکت سے مکمل ہوگیا ہے۔ حضرت جی کیفیت میں کوئی خاص تبدیلی محسوس نہیں ہورہی، اس کے علاوہ ہر مہینے تیس ہزار مرتبہ درود شریف پڑھنے کا ہدف ہے لیکن اس سے بھی کچھ اوپر پڑھنے پر اللّٰه نے استقامت عطا فرمائی ہے۔ اس طرح تہجد، اشراق، چاشت، اوابین اور منزلِ جدید، مناجاتِ مقبول، آدھا پارہ قرآنِ پاک کی تلاوت بلاناغہ اللّٰه کے فضل سے اور آپ کے دعا کی اور تربیت کی برکت سے معمول میں ہے۔ ’’سَلٰمٌ قَوۡلًا مِّنۡ رَّبٍّ رَّحِيۡمٍ‘‘ (یٰس: 58) تین سو تیرہ مرتبہ اور تین مرتبہ سورۂ فاتحہ بمع سورۂ قُلْ ھُوَ اللہ، اور تین سو تیرہ مرتبہ ’’حَسْبُنَا اللّٰهُ وَنِعْمَ الْوَكِیْل‘‘ کرونا کے وقت سے بلا ناغہ معمول میں شامل ہے اَلْحَمْدُ لِلّٰہ۔ نمازیوں کے جوتے سیدھے کرنے کا مجاہدہ بھی جاری ہے اَلْحَمْدُ لِلّٰہ۔ میرے لئے آگے کیا حکم ہے؟

جواب:

ہر ہفتے کے end پر، بہتر ہے کہ جمعہ کے دن آپ سر جھکا کے دس منٹ کے لئے سوچیں کہ مجھ میں کون سے عیوب ہیں، اور کون سے عیوب تھے جو پہلے چھپے ہوئے تھے اب ظاہر ہوگئے ہیں، یہ ذکر کی برکت ہونی چاہیے کہ انسان کو اپنے عیوب معلوم ہوجائیں۔ یہ بہت اہم بات ہے اس کو نوٹ کرلیں کہ ذکر سے دل کی صفائی ہوتی ہے اور دل کی صفائی سے دل کی آنکھیں کھلتی ہیں، دل کی آنکھیں کھلنے سے انسان کو نظر آنا شروع ہوجاتا ہے۔ اگر کوئی شخص اپنے آپ کی اصلاح کرنا چاہتا ہو تو اس کو اپنے عیوب نظر آنے لگتے ہیں، جب اس کو عیوب نظر آنے لگتے ہیں تو پھر ان کی اصلاح کرنی چاہیے۔ لہٰذا مَاشَاءَ اللّٰہ ذکر آپ پورا کررہے ہیں اَلْحَمْدُ لِلّٰہ، فی الحال میں اس کو مزید نہیں بڑھا رہا، اب آپ اس کا fruit لینا شروع کریں اور fruit یہ ہے کہ آپ اب ہر ہفتے سوچ لیا کریں کہ کون سی برائیاں ہیں جو پہلے نظر نہیں آرہی تھیں وہ اب مجھے نظر آرہی ہیں اور چاروں ہفتوں کی رپورٹ مجھے مہینے میں ایک دفعہ دے دیا کریں کہ اب یہ عیوب مجھے نظر آنے لگے ہیں، پہلے مجھے یہ نظر نہیں آتے تھے۔ اس طریقے سے اِنْ شَاءَ اللّٰه پھر جو اس کا علاج ہوگا وہ میں پیش کروں گا، اللّٰه پاک توفیق عطا فرما دیں۔

سوال نمبر 17:

سلام شیخ صاحب! میں ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ دوه سوه ځله، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ درے سوه ځله، ’’حَقْ‘‘ درے سوه ځله اؤ ’’اَللّٰہ‘‘ سل ځله۔ مياشت سره دا نور اذکار مې ووې مخکښې مې راهنمائی وکړه۔

جواب:

سُبْحَانَ الله، مَاشَاءَ الله۔ اوس به داسې وکړئ چې ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ خو دوه سوه ځله دے، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ څلور سوه ځله، ’’حَقْ‘‘ څلور سوه ځله اؤ ’’اَللّٰہ‘‘ سل ځله دا به يو مياشت وکړئ۔ باقي دَ مونځ نه پس چې کوم ذکر دے هغه به هم هغه شان وي اؤ هغه سل ځله درود شريف، سل ځله استغفار اؤ سل ځله ’’سُبْحَانَ اللهِ وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ وَلآ إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَاللهُ أَكْبَرُ‘‘ دا به تاسو ټول عمر اِنْ شَاءَ الله کوئ اؤ دا اوس چې مې درته کوم ذکر ووې دا به يو مياشت وکړئ بيا به ما ته اطلاع راکړئ۔

سوال نمبر 18:

السلام علیکم ورحمۃ اللّٰه وبرکاتہ! میں آپ کی مرید ہوں، لاہور میں ذکر ومراقبہ لیا تھا اور باقاعدگی سے کرتی ہوں۔ میں نے اپنے معاشرتی مسائل کے بارے میں مشورہ کرنا ہے، میرے شوہر میری زیادہ قدر نہیں کرتے اور صرف ضرورت کے تحت ہی میرے پاس آتے ہیں یا بات کرتے ہیں، میں ان کا خیال بھی رکھتی ہوں اور بچوں کے کام بھی پورے کرتی ہوں۔ میرے اپنے والدین دیندار ہیں اور میرے والد صاحب کا زیادہ تر وقت تبلیغ میں گزرتا ہے، انہوں نے بچپن میں بھی ہمیں زیادہ وقت نہیں دیا اور میری شادی کے بعد تو بالکل ہی میری قدر نہیں ہے، وہ نہ کبھی میرا پوچھتے ہیں نہ خود رابطہ کرتے ہیں۔ اگر میں اپنے والد کے گھر جاؤں تو وہ مسجد میں ہوتے ہیں اور گھر آکر بھی سو جاتے ہیں، نہ مجھ سے اور میرے بچوں سے بات کرتے ہیں۔ گھر کرائے پر دیئے ہوئے ہیں اور ہمارے لیے گھر کا ایک کمرہ تک نہیں ہے، میں تین سال سے اپنے والدین کے گھر نہیں رکی کیونکہ رہنے کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ اسی طرح میرے بھائی بھی نہ مجھ سے رابطہ کرتے ہیں اور نہ ہی میرے بچوں کا خیال رکھتے ہیں، میں اپنے والدین کی صحت کے لئے دعا کرتی ہوں لیکن دل میں اس سوتیلے رویے پر بہت غصہ آتا ہے اور دل ان کی طرف سے بہت برا ہے۔ اپنے سسرال میں عزت نہ ہونے کا بھی ان کا قصور سمجھتی ہوں کیونکہ مجھے یہی طعنہ ملتا ہے کہ انہوں نے تم سے جان چھڑائی ہے، تم ان پر بوجھ تھی۔ اس کے بالمقابل میرے سسرال والے اپنی بچیوں، میری نندوں کا خیال بھی رکھتے ہیں، ان کے گھر میں مستقل کمرے ہیں، ان کے بچوں کا بھی خیال رکھتے ہیں۔ میرے سسرال والے زیادہ دیندار نہیں ہیں یعنی نمازیں پڑھتے ہیں لیکن تبلیغ یا کوئی اور دین کا کام نہیں کرتے۔ ہمیں حضور ﷺ کی زندگی میں بھی بچیوں کے ساتھ اچھے تعلق، برتاؤ کی تعلیم ملتی ہے اور آپ ﷺ حضرت فاطمہ رضی اللّٰه تعالیٰ عنھا اور ان کے بچوں کا بہت خیال رکھتے تھے، ان سے خود ملنے جاتے، بچوں کو کھلاتے بھی تھے۔ میں والدین کے کس رویے کو صحیح سمجھوں کہ کونسا عمل دین کے مطابق ہے؟ میری توقع والدین سے غلط ہے تو میری اصلاح فرمائیں، اگر میری توقع ٹھیک ہے تو میں کیا کروں؟ میں اندر سے ٹوٹ چکی ہوں۔ میرے اور میرے بچوں کے دین اور اچھی آخرت کی دعاؤں کی بھی درخواست ہے۔

جواب:

اللّٰه کرے کہ میں صحیح طور سے بات کرسکوں۔ اصل میں یہ ایک معاشرتی مسئلہ ہے اور ایسے معاشرتی مسائل آج کل بہت زیادہ ہیں، وجہ یہ کہ لوگوں نے نماز، روزہ کو ہی صرف دین سمجھا ہے، معاملات کو دین نہیں سمجھتے، معاشرت کو تو بالکل ہی دین نہیں سمجھتے، نہ اس کے بارے میں اپنے آپ کو ذمہ دار سمجھتے ہیں، نہ اس کے بارے میں خیال کرتے ہیں کہ اللّٰه تعالیٰٰ اس کے بارے میں ہم سے پوچھے گا۔ سب سے بڑی بات یہ ہے دین کا جو بھی شعبہ ہو وہ اچھا ہے، لیکن دین کے سارے شعبوں کا تقاضا یہ ہے کہ ہم حضور ﷺ کی سنتوں کی پیروی کریں، چاہے وہ جہاد ہو، چاہے تبلیغ ہو، چاہے درس وتدریس ہو، چاہے سیاست ہو، چاہے جو بھی ہو، اس میں حضور ﷺ کی سنتوں کی پیروی کو سب مانتے ہیں، تسلیم کرتے ہیں یعنی ان تمام شعبوں کے جو بڑے ہیں ان کی بات کیا ہوتی ہے؟ وہ یہی تو کہتے ہیں کہ حضور ﷺ کی سنتوں پر چلنے میں کامیابی اور حضور ﷺ کی سنتوں پر نہ چلنے میں ناکامی ہے۔ لہٰذا معاشرت میں بھی تو حضور ﷺ کے سنتیں ہیں، جیسے آپ نے خود یہ بتایا کہ حضرت فاطمہ رضی اللّٰه عنھا کے ساتھ آپ ﷺ کا کیسے تعلق تھا، اپنی دوسری بچیوں کے ساتھ کیسا تعلق تھا اور اپنے نواسوں کے ساتھ کیسا تعلق تھا۔

’’حضرت ابراہیم رضی اللّٰه تعالیٰ عنہ جب فوت ہوئے تو آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے تو کسی نے کہا کہ حضرت آپ بھی رو رہے ہیں؟ فرمایا: یہ تو اللّٰه کی رحمت ہے، زبان پر ہم وہی کہیں گے جو اس وقت اللہ کو پسند ہے‘‘۔ (صحیح بخاری حدیث نمبر: 1303)

ایک مرتبہ ’’آپ ﷺ اپنے بچوں کو پیار کررہے تھے تو ایک کافر نے کہا کہ میں نے تو ابھی تک اپنے بچوں سے پیار نہیں کیا میرے تو اتنے بیٹے ہیں، فرمایا: اللّٰه تعالیٰ نے اگر تیرے دل سے رحمت اٹھا دی ہے تو میں کیا کروں‘‘۔ (صحیح بخاری حدیث نمبر: 5998)

یہ تو آپ ﷺ کے کھلی سنتیں ہیں، اس پر دوسری بات کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اب اگر کوئی اس پر عمل نہیں کرتا تو غلط کرتا ہے، اس کو ٹھیک کہنا تو غلط ہوگا۔ لیکن آپ کو ایک بات بتاتا ہوں، کہتے ہیں کہ انسان عقل کس سے سیکھتا ہے؟ اصل عقل انسان بے وقوفوں سے سیکھتا ہے یعنی بے وقوف جو غلطیاں کرتے ہیں ان سے انسان سیکھتا ہے کہ مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ لہٰذا اس قسم کی باتوں سے آپ یہ اثر لیں کہ آئندہ مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے، دوسری بات یہ ہے کہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ، اللّٰه پاک نے آپ کو ڈاکٹر بنایا ہے اس پہ اللّٰه کا شکر ادا کریں اور دکھی ماں مخلوق کی خدمت کرنا شروع کردیں، اپنے دکھوں کا مداوا آپ دوسرے کے دکھوں کو مٹانے میں شروع کردیں تو اللّٰه پاک کی رحمت آپ کی طرف متوجہ ہوجائے گی، آپ کے دل کو اتنا سکون واطمینان مل جائے گا کہ آپ کو ان باتوں کی پروا نہیں رہے گی۔ اگرچہ ان باتوں کو پھر بھی غلط کہا جائے گا یعنی علمی لحاظ سے تو غلط ہی ہیں اس میں تو کوئی شک نہیں، لیکن اصل بات تو آپ کے دل کا سکون ہے جو آپ بتا رہی ہیں کہ میرا دل ٹوٹ چکا ہے یہ بات صحیح ہے، لیکن اصل میں آپ کا معاملہ تو اللّٰه تعالیٰ کے ساتھ ہے، اللّٰه تعالیٰ اگر آپ سے راضی ہیں تو چاہے ساری مخلوق بھی ناراض ہو جائے، چاہے رشتے دار بھی ناراض ہوں تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس وجہ سے آپ بس دلجمعی کے ساتھ اب یہ سوچیں کہ ٹھیک ہے اگر یہ غلط بھی ہیں تو آپ ان کے لئے دعا کریں اور خود اللّٰه پاک سے اپنی لو لگائیں، کیونکہ بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ اللّٰه جل شانہٗ کے دینے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ مخلوق کی طرف کے دروازے بند کروا دیئے جاتے ہیں اور اس کی توجہ صرف اپنی طرف کرائی جاتی ہے۔ جو توجہ مخلوق کی طرف ہوتی ہے اور اس میں انسان اپنا وقت لگاتا ہے، اس کے بجائے وہ توجہ اللّٰه پاک کی طرف ہوجاتی ہے اور اس کو بہت فائدہ ہوجاتا ہے۔ لہٰذا آپ اب یہ کریں کہ ان کے لیے تو دعا کریں اور ساتھ آپ کی توجہ اللّٰه پاک کی طرف ہو۔ اس پہ ایک شعر بھی ہے:

اس نے کس پیار سے دروازے کیے بند سارے

ایک ہی دروازہ کھلا اس کا تو پھر کیا دیکھا

یعنی اللّٰه تعالیٰٰ بعض دفعہ کسی کے ساتھ ایسی محبت کرتا ہے۔ بلکہ ایک واقعہ ہے ایک پیر صاحب تھے ان کے ایک مرید تھے، پیر صاحب کو الہام ہوا کہ اس مرید کی ایک خاص طریقے سے تربیت کرنی ہے، وہ خاص طریقہ یہ تھا ان کو فرمایا گیا کہ آپ روزانہ ان میں سے کسی مرید کے ساتھ لڑ لیا کریں اور اپنا تعلق ختم کردیا کریں کہ بس ٹھیک ہے جی آپ اس قابل نہیں کہ آپ سے بات کی جائے اور بس بات چیت چھوڑ دیا کریں۔ بس پھر شیخ نے اپنے مریدوں سے چپکے سے کہہ دیا کہ اس طرح روزانہ کوئی ایک ان کے ساتھ کسی بات پہ لڑ لیا کرے اور پھر بات چیت چھوڑ دیا کرے۔ وہ حیران تھا کہ پتا نہیں لوگوں کو کیا ہوگیا ہے، پھر انہوں نے کہا میں تو شیخ کی وجہ سے ہوں ان کی وجہ سے تو نہیں ہوں یہ جیسے بھی ہیں ٹھیک ہیں، اب مجھے اس سے کیا۔ لہٰذا اپنے آپ کو تسلی دے رہے تھے، ایک وقت آگیا کہ سارے مرید ختم ہوگئے، سب کی ان کے ساتھ لڑائی ہوگئی، اب شیخ صاحب ہی رہ گئے تھے۔ ایک دن شیخ صاحب نے ان کی خبر لینا شروع کی کہ یہ سارے تو غلط نہیں ہوسکتے، کچھ مسئلہ تجھ میں ہی ہوگا جس کی وجہ سے تیرے ساتھ سب لڑ رہے ہیں، نکل جا یہاں سے، اور اس کو نکال دیا۔ اب اس کا دل تو بہت ٹوٹ گیا کہ بھئی شیخ سے بات ہوجائے، کیونکہ شیخ سے محبت تو بہت ہوتی ہے، لہٰذا وہ مسجد چلا گیا، مسجد میں نماز پڑھتے ہوئے جب سجدے میں گیا تو رونا شروع کردیا کہ یا اللّٰه اب تو صرف تو ہی میرا ہے، میرا تو اور کوئی نہیں ہے، رو رہا تھا کہ اتنے میں شیخ کو الہام ہوگیا، جو اس کو ملنا تھا وہ مل گیا ہے اب جاؤ اس کو تسلی دو۔ کہتے ہیں پھر شیخ اپنے مریدوں کے ساتھ گیا اور کوئی اس کا کرتا چوم رہا ہے، کوئی اس کے ٹوپی چوم رہا ہے، کوئی اس طرح اٹھ کے مل رہا ہے۔ شیخ نے کہا مَاشَاءَ اللّٰہ مبارک ہو اللّٰه تعالیٰ نے جو تمہیں دینا تھا وہ دے دیا ہے، اب ہمارے لئے بھی دعا کرو کہ اللّٰه تعالیٰ ہمیں بھی نوازے۔ اب یہ ایک ذریعہ تھا تو اس وجہ سے اللّٰه پاک کے دینے کے راستے بہت عجیب عجیب ہیں، ہر ایک کے ساتھ اپنا اپنا معاملہ ہے تو آپ بھی اس طرح کریں اِنْ شَاءَ اللّٰه۔

سوال نمبر 19:

السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ! حضرت آپ نے جو اذکار دیئے ان کا ایک مہینہ مکمل ہوچکا ہے۔ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ دو سو مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ چار سو مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ چھ سو مرتبہ، ’’اَللّٰہ‘‘ ساڑھے گیارہ ہزار مرتبہ، اس کے ساتھ پانچ منٹ یہ تصور کہ دل ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کررہا ہے۔

جواب:

اب ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ بارہ ہزار مرتبہ کریں اور ساتھ پانچ منٹ کا یہ بھی اور باقی ذکر بھی اِنْ شَاءَ اللّٰه۔

سوال نمبر 20:

السلام علیکم! اللّٰه پاک کی توفیقات اور آپ کی رہنمائی وشفقت کی بدولت ذکر ومراقبہ ہورہا ہے، لیکن عجیب بات ہے جب کبھی ایک مجلس سے باہر پہنچتے ہیں تو نہ چاہتے ہوئے بھی لایعنی کاموں کی طرف رجحان ہوجاتا ہے اور فوراً احساس بھی، لیکن مجلس سے حاصل کردہ انوارات کو کس طرح برقرار رکھا جائے اور اس کی حفاظت کس طرح کی جائے؟

جواب:

اَلْحَمْدُ لِلّٰہ آپ کے دل میں اتنی روشنی موجود ہے کہ آپ کو احساس ہوجاتا ہے کہ یہ کام غلط ہے، لہٰذا اب اس سے کام لینا شروع کریں اور جس چیز سے یہ ظلمت یا غفلت آرہی ہے اس چیز سے باہمت ہو کر اپنے آپ کو روکنے کی کوشش کریں، اس کے علاوہ اس کا کوئی علاج نہیں ہے۔

سوال نمبر 21:

السلام علیکم! شیخِ محترم آپ نے مجھے ماں باپ کے ساتھ غصہ نہ کرنے والے عیب پر کنٹرول کا حکم دیا تھا، ابھی وہی کرنا ہے یا کوئی اور؟ شیخِ محترم جو آپ نے مجھ میں عیوب پوچھے تھے اور جو محسوس ہوتے ہیں وہ درج ذیل ہیں۔ نمبر ایک: میں پریشان ہوں تو رب سے کبھی کبھار گلہ بھی کرجاتی ہوں، نمبر دو: ضرورت مند کو صدقہ دیتی ہوں اور خوشی سے سب کچھ دیتی ہوں، مگر خود بھی اپنے پاس پیسے رکھنا پسند کرتی ہوں۔ نمبر تین: پہلے کسی کے برے رویے سے میں دل میں نفرت پال لیتی تھی، آپ کی صحبت میں آکر اب غصہ آئے تو دل جلد صاف ہوجاتا ہے مگر پھر ایسے لوگوں سے دور رہتی ہوں۔ نمبر چار: اپنا حق مارے جانے پر کبھی jealousy بھی محسوس ہوتی ہے، جب گھر والے ناجائز پر ڈانٹیں تو آگے سے میں غصہ کرتی ہوں۔ ان معاملات کی وجہ سے میں ڈپریشن کا شکار ہوچکی ہوں، میرا treatment چل رہا ہے۔ میرے ساتھ جب کوئی زیادتی کرے یا پھر اس کے بارے میں دوسرے سے شکایت کرے تو مجھے لگتا ہے کہ غیبت ہورہی ہے۔ مجھے امی ابو جب ناحق ڈانٹتے ہیں تو میں آگے سے غصہ ہوکر جواب دیتی ہوں۔ نمبر آٹھ: گھر والوں کے ساتھ بیٹھ کر ایک آدھ ٹی وی ڈراما بھی دیکھ لیتی ہوں۔ باقی شیخِ محترم مجھے تو کچھ محسوس نہیں ہوتا، دنیا سے کم ہی سروکار رکھتی ہوں، ذکر اور کام میں مصروف رہتی ہوں۔

جواب:

پہلی بات تو یہ ہے کہ اللّٰه پاک سے گلہ کرنا چھوڑ دیں اور اللّٰه پاک سے دعا کرنا شروع کریں، دعا سے سب کچھ ملتا ہے، گلے سے کچھ نہیں ملتا بلکہ نقصان ہوتا ہے۔ لہٰذا اس پر عمل شروع کریں، باقی عیوب کی اصلاح اس کے بعد ہوگی اِنْ شَاءَ اللّٰه۔

سوال نمبر 22:

السلام علیکم ورحمۃ اللّٰه وبرکاتہ!

Dear شیخ, I pray you are well. I have completed my first month of twenty minutes مراقبہ facing the قبلہ شریف imagining my heart saying ‘‘اَللّٰه اَللّٰہ’’ while Allah is looking at it with love. I regret to inform you that I missed four days this month. Perhaps this is why I find my focus very weird. My ںفس makes me feel that since it is twenty minutes long it is okay if my mind wanders around for a while. The longest period of time I can maintain focus feels like no more than two minutes. This is due to my sins and also I have many different tasks in my daily routine. As a result, I am always thinking about the next thing. I feel strong loss of love and attention towards thinking about especially reading the قرآنِ کریم. I have been regularly missing my daily 1.25 پارہ تلاوت. In addition, where I walk there is always music playing on the radio in the background. It makes me very uncomfortable and though I try to ignore it those songs play in my mind for hours and sometimes days and is غیر اختیاری. Wherever my colleagues leave for breaks I turn the radio off but I am still forced to hear it for seven hours a day. Kindly advise for the next.

جواب:

مَاشَاءَ اللّٰه Ok۔ آپ اس طرح کریں کہ ذکر تو فی الحال یہی رکھیں، البتہ آپ دو منٹ کا تو کرسکتے ہیں تو ہر دو منٹ کے بعد attention کی نئی نیت کرلیا کریں اور یہ ذہن میں رکھیں کہ جو ضروری سوچیں ہیں وہ میں بعد میں کرسکتا ہوں، فی الحال اگر میں اس میں سوچوں گا تو اس کا بھی فائدہ نہیں ہوگا۔ لہٰذا اپنے ذہن میں رکھیں اور ہر دو منٹ کے بعد اپنی نیت کی تجدید کرلیا کریں۔ اس طریقے سے اِنْ شَاءَ اللّٰهُ الْعَزِیْز۔ باقی یہ چیز کہ جو آپ کے ذہن میں گانے وغیرہ بج رہے ہیں یہ اثر ہوتا ہے، اس کے لئے آپ ایک ورد اس وقت اپنے دل میں کرلیا کریں وہ ’’یَا ہَادِیُ یَا نُوْرُ لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰهِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْم‘‘ یہ آپ کم ازکم گیارہ مرتبہ اول آخر درود شریف پڑھ لیا کریں۔ باقی قرآن پاک کو بالکل چھوڑنا نہیں ہے، اگر پورا نہیں کرسکتے تو کم ازکم ایک پاؤ ضرور پڑھ لیا کریں جو عام لوگوں کے لئے ہے، حافظوں کے لئے ہمارے سوا پارہ تلاوت ہے۔ اگر وہ نہیں تو کم ازکم ایک پاؤ تو ضرور کرلیا کریں، اللّٰه پاک آپ کو ہمت عطا فرمائیں اور مزید ترقی عطا فرمائیں۔

سوال نمبر 23:

السلام علیکم ورحمۃ اللّٰه وبرکاتہ! حضرت جی اللّٰه پاک سے آپ کی صحت و تندرستی کے لئے دعاگو ہوں۔ میرا مسئلہ ہے کہ میرے سسرال والوں کی کمائی ٹھیک نہیں ہے کیونکہ انہوں نے سودی بینکوں میں پیسے fix کروا کے سود کی کمائی حاصل کی ہے، اس کے علاوہ مجھے اپنے سالے پر رشوت وغیرہ لینے کا بھی شبہ ہے۔ وہ لوگ اکثر دعوت کرتے رہتے ہیں اور ان دعوتوں میں کبھی مجھے بھی جانا پڑتا ہے جیسے عید وغیرہ کے موقع پر، ان موقعوں پر میں وہاں کھانے پینے سے بالکل ہی نہیں ہچکچاتا اور بےتکلف بیٹھ کر کھا جاتا ہوں۔ کبھی میری ساس ہمارے گھر میں بھی کھانا بھجواتی ہیں تو اس میں سے بھی کھا لیتا ہوں، گو بعد میں کچھ افسوس ہوتا ہے لیکن عین موقع پر نفس ڈنڈی مار دیتا ہے، اس میں خواہشِ نفس کو پورا کرتا ہوں۔ دوسرا مسئلہ ہے کہ اگر دو تین دن لگاتار نمازِ تہجد ادا کرتا رہوں تو پھر ہفتے کے باقی دنوں میں غلبۂ نیند کے باعث تہجد کے ناغے ہوجاتے ہیں، کیونکہ نیند پوری نہ ہونے کے باعث کچھ جسمانی مسائل شروع ہوجاتے ہیں، جیسے بے چینی، اعصابی دباؤ وغیرہ۔ چھٹی کا دن ہو تو میں چاشت کی نماز کے ساتھ آٹھ رکعات ادا کرلیتا ہوں۔ برائے مہربانی اس بارے میں رہنمائی فرمائیں، اللّٰه پاک آپ کے درجات کو بلند فرمائیں اور آپ کو اجرِ عظیم عطا فرمائیں۔

جواب:

یہ تو آپ کی بات صحیح ہے کہ سودی کمائی جس کی ہو ان کے ہاں کسی طریقے کے ساتھ، حکمت کے ساتھ کھانے سے avoid کرنا چاہئیے، اس کے لئے کوئی راستہ آپ ڈھونڈ لیں۔ میرا ایک واقعہ ہے، ایک دفعہ ایسا ہوا کہ ہمارے ایک دوست بینک میں ملازم تھے ان کے گھر والوں کا ہمارے گھر والوں کے پاس کافی آنا جانا تھا اور وہ بہت اچھی کوکنگ کرتی تھیں، ہمارے گھر والے ان کی کوکنگ کے بڑے معترف تھے ان سے کچھ چیزیں سیکھی بھی تھیں۔ ایک دن انہوں نے باؤل میں کھیر بھیجی اور گھر والوں کو تو ان کا پتا تھا، مجھ سے پوچھا کہ کیا کریں؟ میں نے کہا اگر ہم نے ان کو نہ بتایا اور ویسے اس کو ضائع کردیا تو اس میں نقصان یہ ہوگا کہ وہ پھر بعد میں بھی بھیجیں گے یعنی ان کو message نہیں جائے گا، اس وجہ سے ان کو message جانا چاہیے۔ لہٰذا میں نے کہا آپ ان کو فون کریں کہ شاہ صاحب کہتے ہیں کہ اس میں مجبوری ہے آپ کو واپس کرنا ہے، کیونکہ اس کے بارے میں مفتیانِ کرام کچھ ایسی بات بتاتے ہیں، لہٰذا اس میں معذوری ہے، آپ یہ لے جائیں۔ اب انہوں نے فون پر ان کو بتا دیا اور ادھر تو کہرام مچ گیا، جب ان کے شوہر آئے ان کو پتا چلا تو وہ سیدھے میرے گھر آئے اور گھنٹی بجائی، میں جب گیا تو باہر فلاں تھے۔ پہلے تو میرے گلے لگ کر خوب روئے پھر کہا کہ شاہ صاحب دل تو بہت دکھا لیکن ایک فائدہ ہوا، میں نے کہا کیا فائدہ ہوا؟ کہتے ہیں فائدہ یہ ہوا کہ شیطان اگر مجھے پھر دھوکہ دیتا کہ شاہ صاحب ویسے باتیں کرتے ہیں اس پر عمل نہیں کرتے۔ اب شیطان مجھے دھوکہ نہیں دے سکتا، اب کم ازکم میں اس کو کہہ سکتا ہوں کہ جو کہتے ہیں اس پر عمل کرتے ہیں۔ بہرحال اللّٰه کا شکر ہے کہ ان کو بات سمجھ آگئی۔ میرا مقصد یہ ہے کہ اس کو avoid کرنا چاہیے، اس طریقے سے کہ ان کو بھی اس کا message مل جائے اور خود بھی آپ اپنے آپ کو بچائیں۔ زیادہ سختی بھی نہ آئے، اس سے ڈرتے ڈرتے طریقے سے، حکمت کے ساتھ۔ مثلاً انسان جب بیمار ہوتا ہے تو کچھ چیزیں نہیں کھا سکتا، ڈاکٹر کہتا ہے یہ نہیں کھانا۔ جب کسی کے ہاں مہمان جاتے ہیں تو پھر کیا کرتا ہے ان کا دل رکھ کر کھا لیتا ہے اور بتا دیتا ہے کہ مجھے ڈاکٹر نے روکا تھا۔ اور اس میں تو شریعت نے روکا ہے، لہٰذا بتا دیتے ہیں کہ اس طرح مسئلہ ہے۔ ہمارے بعض رشتےدار ہیں جن کا یہ مسئلہ ہے کہ وہ بینک وغیرہ کے ملازم ہیں تو ان کے ہاں ہم کھانا نہیں کھاتے، ان کو خوب پتا ہے، لہٰذا وہ کھانے کا کہتے بھی نہیں ہیں۔ کیونکہ ان کو پتا ہے کہ یہ کھائیں گے نہیں تو کیا فائدہ، اس وجہ سے اس مسئلے میں ذرا جرأت سے کام لینا پڑے گا، اللّٰه تعالیٰ توفیق عطا فرمائیں۔ باقی جہاں تک تہجد کی بات ہے آپ کی نیند اگر پوری نہیں ہے تو ابھی اِنْ شَاءَ اللّٰه اچھی راتیں آنے والی ہیں، ابھی فی الحال آپ یوں کریں کہ اگر آپ کے پاس بالکل ٹائم نہیں ہے تو چار رکعت عشاء کی نماز کے بعد وتر سے پہلے اس نیت سے پڑھ لیا کریں، باقی چھٹی کا دن ہو تو چاشت بھی پڑھ سکتے ہیں اِنْ شَاءَ اللّٰهُ الْعَزِیْزُ۔

سوال نمبر 24:

السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ! جذبِ مبتدی، جذبِ کسبی کو مجدد الف ثانی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے صورتاً فرمایا ہے کہ جذبِ منتہی وہبی سے مشابہت رکھتا ہے، ورنہ زمین و آسمان کا فرق۔ اولاً کرم فرما کر جذب کی تعریف فرما دیں کیا یہ شوق سے تعبیر کیا جا سکتا ہے، اس کے آثار کیا ہوتے ہیں؟ نمبر دو یہ مشابہت جذبِ مبتدی وجذبِ منتہی جو سلوک کے بعد عطا ہوتا ہے، کیا یہ ظاہری سنتوں پر عمل میں مشابہت ہے یا اس میں باطنی احوال میں تبدیلیوں کی مشابہت ہے۔ مثلاً مبتدی کا رونا اور منتہی میں تو بہت فرق ہوگا، اس طریقے سے دونوں کے شکر وصبر وغیرہ سب میں فرق ہوگا۔ یہ سوال بھی ذہن میں ہے اپنی جہالت دور کرنے کے لئے جو عرض کررہا ہوں، جو سلوک کے مقامات طے کرنے کے بعد نفسِ مطمئنہ حاصل ہوتا ہے، اس کو تلوین سے تمکین تک پہنچا دیا جائے تو پھر جذبِ وہبی کی کیا صورت بنتی ہے؟ اور سالک ابتداء میں اور سلوک کے دوران بھی احوال میں تلوین پاتا ہے، تو پھر یہ کونسی مشابہت ہے؟ بے ڈھنگے سوال کرنے سے معذرت خواہ ہوں اور امید ہے کہ حضرت والا میری لکھنے میں بھی اصلاح فرما کر ممنون فرمائیں گے۔

جواب:

سُبْحَانَ اللّٰہ جذبِ مبتدی کو یوں کہہ سکتے ہیں کہ یہ علاجی ہے، علاجی کیا ہے؟ نفس اپنی اصلاح کے لئے تیار نہیں ہورہا اس میں بہت زبردست مزاحمت ہے، اس مزاحمت کو دبانا کہ یہ تیار ہوجائے، یہ جذبِ ابتدائی ہے، کسبی ہے یا صورتاً ہے یعنی جو بھی اس کو کہیں سب الفاظ اس پر آسکتے ہیں۔ یہ ابتداء میں حاصل ہوجاتا ہے، جذب میں یقیناً شوق وذوق تو ہوتا ہے اور آدمی کا کام کرنے کو جی چاہتا ہے، نفس کی جو خواہشات تنگ کرتی ہیں وہ وقتی طور پر ہٹ جاتی ہیں اور آدمی کو بعض دفعہ بزرگی کا بھی گمان ہونے لگتا ہے یعنی اس حد تک ہٹ جاتے ہیں کہ آدمی سمجھتا ہے واہ جی میری تو اصلاح ہوگئی۔ اس کو حضرت تھانوی صاحب رحمۃ اللّٰه علیہ نے بڑا عمدہ نام دیا ہے، حضرت نے اس کو صبح کاذب سے تعبیر دیا ہے کہ صبح کاذب وقتی ہوتا ہے پھر ختم ہوجاتا ہے، پھر اس کے بعد صبح صادق سامنے آتا ہے تو صبح صادق سورج کی اصل روشنی ہوتی ہے اور صبح کاذب دوسرے ستاروں کی روشنی ہے، اس کو Horizontal light بھی کہتے ہیں۔ جب یہ والی بات سمجھ میں آگئی تو چاہے وہ اعمال کا یا اذکار کا اثر ہو تو یہ بھی ستاروں کی طرح ہے یا پھر وقتی طور پر کسی کی صحبت کا اثر ہو، کیونکہ وہ انعکاسی فیض ہوتا ہے وہ بھی وقتی طور پہ ہوتا ہے۔ لہٰذا وقتی طور پر اس میں اعمال ہوسکتے ہیں لیکن پھر بعد میں ختم ہوجاتے ہیں، وہ شوق وذوق ختم ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد جب اصلاح ہوجائے یعنی انسان سلوک طے کرے اور نفسِ مطمئنہ حاصل ہوجائے، پھر انسان وہ اعمال کرتا ہے تو اس پر استقامت ہوجاتی ہے اور وہ چل سکتا ہے۔ جذبِ وہبی جو اس کے بعد حاصل ہوتا ہے وہ اصل میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ اللّٰه تعالیٰ کے ساتھ ایک دائمی تعلق ہوجاتا ہے اور اللّٰه پاک کو ناراض نہ کرنے کے لئے انسان ہر قربانی کے لئے تیار ہوجاتا ہے، یہ جذبِ وہبی ہے۔ یعنی انسان کے اوپر یہ حالت طاری ہوجاتی ہے کہ وہ مر تو سکتا ہے لیکن اللّٰه کو ناراض نہیں کرسکتا، یہ مَاشَاءَ اللّٰه انسان کو سلوک طے کرنے کے بعد ملتا ہے اور مِنْ جَانِبِ اللّٰہ ملتا ہے، انسان اپنے عمل سے اس کو حاصل نہیں کرسکتا لیکن وہ مَاشَاءَ اللّٰه مستقل ہوتا ہے اور یہ نسبت کی وجہ سے ہوتا ہے کیونکہ یہ نسبت حاصل ہوجاتی ہے۔ اس میں مشابہت اس طرح ہے کہ جس طرح وقتی طور پر ذوق وشوق پیدا ہوجائے اور رذائل دب جاتے ہیں، آدمی سمجھتا ہے کہ میری اصلاح ہوگئی ہے، جبکہ دوسرے میں حقیقتاً اصلاح ہوجاتی ہے، یہ صرف صورتاً ہے کہ آدمی سمجھتا ہے کہ میری اصلاح ہوگئی حالانکہ ابھی اصلاح نہیں ہوئی۔ کیونکہ جب یہ چیز دب جائے اور دوبارہ اٹھ جائے تو پھر دوبارہ وہی چیزیں شروع کردیتا ہے۔ جبکہ سیر الی اللّٰه سے گزرنے کے بعد جو جذبِ وہبی ہوتا ہے اس میں واقعی اصلاح ہوچکی ہوتی ہے اور اس میں استقامت حاصل ہوجاتی ہے اور مَاشَاءَ اللّٰہ گناہوں سے مستقل طور پر ایسی نفرت ہوجاتی کہ انسان مر تو سکتا ہے لیکن وہ اس کی طرف نہیں آتا، یہ اصل اصلاح ہے۔ اللّٰه جل شانہ ہمیں بھی نصیب فرمائے۔

سوال نمبر 25:

میرا ابتدائی ذکر مکمل ہوگیا ہے، آگے بتادیں۔

جواب:

مَاشَاءَ اللّٰه! اب یہ اس طرح کرلیں وہ تیسرا کلمہ، درود شریف اور استغفار سو سو دفعہ یہ تو آپ عمر بھر کریں گے، ہر نماز کے بعد والا جو ذکر ہے وہ بھی عمر بھر کریں گے اور جو پہلا والا جو آپ کو دیا ہے وہ پورا ہوگیا ہے تو اب اس کی جگہ پر ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ سو دفعہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ سو دفعہ، ’’حَقْ‘‘ ’’حَقْ‘‘ ’’حَقْ‘‘ سو دفعہ، ’’اَللّٰہ‘‘ ’’اَللّٰہ‘‘ ’’اَللّٰہ‘‘ سو دفعہ، یہ ایک مہینے کے لئے ایک مہینے کے بعد تبدیل ہو جائے گا اِنْ شَاءَ اللّٰه۔

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ

سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات - مجلسِ سوال و جواب