سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 638

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال نمبر 1:

السلام علیکم۔ محترم مرشدی دامت برکاتہم! امید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گے۔ حضرت جی دامت برکاتہم! سارے اذکار اس مہینے کے پورے ہوگئے ہیں، اذکار یہ ہیں: دو، چار، چھے،Four thousand اور تمام لطائف پر دس دس منٹ مراقبہ اور آیت الکرسی کا مفہوم پندرہ منٹ ہے۔ اس مراقبہ کے بعد میرا دھیان مسبب الاسباب پر زیادہ ہوگیا ہے بنسبت کے۔ میرے اندر تیز پن بہت کم ہوگیا ہے چاہے قول سے یا فعل سے، جس کی وجہ سے میں بہت ساری مصیبتوں سے بچ جاتا ہوں۔ ہر حال دل سے اللہ کا شکر کرنا بھی زیادہ ہوگیا ہے۔ حضرت جی دامت برکاتہم! آگے کا کچھ حکم ہو تو فرمائیں۔ جزاک اللہ!

جواب:

ماشاء اللہ! آپ کو اس سے فائدہ ہورہا ہے، لہٰذا آپ اس کو دو تین مہینے اور جاری رکھیں۔

سوال نمبر 2:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت جی! مجھے اپنے آپ میں بہت خامیاں نظر آتی ہیں، میں انتہائی بری ہوگئی ہوں، سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ میں ہر چیز میں اپنے بارے میں سوچتی ہوں، اپنے فائدے کو دیکھتی ہوں اور دوسروں کے لئے نہیں سوچتی کہ دوسروں کو اس سے نقصان ہوسکتا ہے۔ میں سمجھتی تھی کہ شاید میں اچھی ہوں، مگر مجھے احساس ہوگیا ہے کہ میں تو بہت ہی بری ہوں، میں کسی کی کوئی خاص مدد بھی نہیں کرتی، بس اپنے لئے سوچتی ہوں، اپنے لئے دعائیں کرتی ہوں۔ مجھے اپنا آپ انتہائی خود غرض نظر آتا ہے۔ میں کس طرح اپنے اندر اس بیماری کو ختم کرلوں۔ آپ اصلاح فرمائیں۔

جواب:

یہ سوچ تو بہت اچھی ہے کہ اپنی برائیوں پر نظر ہو اور اس سے ان شاء اللہ! ترقی ہوگی، البتہ عمل اس کے مطابق ہونا چاہئے۔ عمل سے مراد یہ ہے کہ جو چیزیں اختیاری ہوں اس میں سستی نہ کریں اور جو چیز اختیار میں نہ ہو اس کی پروا نہیں کرنی چاہئے، مثلاً طبیعت کیسی ہے، کسی چیز کو جی چاہتا ہے اور کسی کو نہیں چاہتا، اس کی پروا نہیں کرنی چاہئے، کیونکہ یہ غیر اختیاری ہے، لیکن مجھے کرنا کیا چاہئے اور کیا نہیں کرنا چاہئے، بس یہ دیکھنا ہے، اور جو کرنا چاہئے، اس کو ہمت کے ساتھ کرنا اور جو نہیں کرنا چاہئے، اس سے ہمت کے ساتھ بچنا یہ ہمارا طریقہ ہے۔ لہٰذا بس اپنے اختیار کے اوپر عمل کرنے کی کوشش کریں، ان شاء اللہ العزیز! کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔

سوال نمبر 3:

السلام علیکم۔ حضرت شاہ صاحب! اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند فرمائے۔ میرے کزن کا ابتدائی ذکر چالیس دن والا بلاناغہ مکمل ہوگیا ہے۔ مزید رہنمائی کی درخواست ہے۔

جواب:

وہ کزن اگر مرد ہے تو اس کے لئے پھر یہ طریقہ ہے کہ تیسرا کلمہ، درود شریف، استغفار سو سو دفعہ اور یہ عمر بھر کے لئے ہے۔ اور ہر نماز کے بعد جو وظیفہ ہے، وہ بھی عمر بھر کے لئے ہے۔ اور سو دفعہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ کہ ’’اِلَّا اللّٰہْ‘‘ سے دل کے اوپر ضرب لگانا ہے اور سو دفعہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ اس میں بھی اللہ سے دل کے اوپر ضرب لگانا ہے اور سو دفعہ ’’حَقْ‘‘ اور سو دفعہ ’’اَللّٰہ‘‘ کا ذکر ہے۔ اور اگر وہ کزن خاتون ہے تو پھر اس کو دس منٹ کا دل پر مراقبہ بتا دیجئے۔

سوال نمبر 4:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ شیخ صاحب! اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گے۔ میں فلاں کی زوجہ فلاں Manchester سے ہوں اور فلاں کی بھانجی ہوں، عاشورہ کے دن آپ سے بیعت کی تھی۔ کل اَلْحَمْدُ للہ! میرے چالیس دن تین سو مرتبہ ’’سُبْحَانَ اللهِ، وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ، وَلآ إِلٰهَ إِلَّا اللهُ، وَاللهُ أَكْبَرُ، اور دو سو دفعہ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيْمِ‘‘ کے اللہ کے فضل سے مکمل ہوگئے ہیں اور ہر نماز کے بعد والا ذکر بھی کررہی ہوں، اَلْحَمْدُ للہ! آگے رہنمائی فرمائیں۔

جواب:

ماشاء اللہ! ابھی یہ تو پورا ہوگیا ہے۔ اب آپ نے تیسرا کلمہ سو دفعہ، درود شریف سو دفعہ، استغفار سو دفعہ یعنی یہ سو سو دفعہ عمر بھر کے لئے آپ نے کرنا ہے اور نماز کے بعد والا ذکر یہ بھی عمر بھر کے لئے کرنا ہے۔ اس کے علاوہ دس منٹ کے لئے آنکھیں بند، زبان بند، قبلہ رخ بیٹھ کے یہ تصور کرنا کہ میرا دل میں بھی ایک زبان بن گئی ہے اور وہ ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کررہی ہے، بس آپ نے اس کی طرف توجہ کرنی ہے، اس سے کروانا نہیں ہے، صرف توجہ کرنی ہے اور یہ دس منٹ کے لئے روزانہ کوئی وقت مقرر کرکے کریں۔ اور ایک مہینہ کرکے پھر مجھے بتانا ہے۔

سوال نمبر 5:

السلام علیکم۔ ایک صاحب نے سوال بھیجا ہے کہ ہم جانتے ہیں اس دنیا میں انسانی مصائب کسی امتحان، آزمائش یا سزا کی وجہ سے ہوسکتے ہیں، تاہم یہ جانوروں پر لاگو نہیں ہیں، پھر جانوروں کو درد کیوں ہوتا ہے؟

جواب:

اصل میں اللہ پاک علیم بھی ہے، اللہ پاک حکیم بھی ہے اور اللہ پاک اپنی حکمتوں کو خوب جانتے ہیں اور وہی تمام چیزوں کا فیصلہ کرتے ہیں۔ اللہ جل شانہٗ نے یہ دنیا آزمائش والی بنائی ہے۔ اور جانوروں کو یہاں کے اعمال کی سزا وہاں نہیں ملے گی، وہاں بس وہ ختم ہوجائیں گے اور یہاں اس دنیا میں ان کے ساتھ جو بھی معاملہ اللہ پاک نے رکھا ہے، مثال کے طور پر کسی کو طاقتور بنایا ہے، کسی کو کمزور بنایا ہے، کوئی گوشت والا ہے، کوئی گھاس والا ہے، تو یہ سب چیزیں اللہ تعالیٰ کی حکمت کے مطابق ہیں اور اللہ جل شانہٗ ہی اپنی حکمتوں کو خوب جانتے ہیں۔ کسی نے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ سے سوال کیا تھا کہ مغرب کی تین رکعتیں ہیں اور باقی جفت ہیں، یہ کیوں ہے؟ حضرت نے ان سے پوچھا کہ تمہاری ناک آگے لگی ہوئی ہے، پیچھے کیوں نہیں لگی؟ اس نے کہا کہ اللہ پاک نے ایسے ہی بنائی ہے۔ تو انہوں نے کہا کہ بس اللہ پاک نے ایسے ہی حکم دیا ہے۔ لہٰذا اللہ پاک کے کاموں میں ہم لوگ کچھ نہیں کہہ سکتے۔ بہرحال ہمیں ان سوالوں کا جواب دینا چاہئے جو ہم سے ہوں گے یعنی قبر میں جو سوال ہوں گے، حشر میں جو سوال ہوں گے ان کی طرف متوجہ ہونا چاہئے اور دوسروں کے سوالوں کے پیچھے نہیں جانا چاہئے۔ بس ان سے کہہ دیں کہ اگر پوچھنا ہے تو خود پوچھ لیں، مجھے کیوں درمیان میں لاتے ہو؟ خود کیوں نہیں پوچھتے؟ اس لئے خواہ مخواہ دوسروں کی وجہ سے اپنے آپ کو خراب نہیں کرنا چاہئے اور ایسی چیزوں کی طرف نہیں جانا چاہئے، جس کے بارے میں ہم سے پوچھا نہیں جائے گا۔ مثال کے طور پر ایک دفعہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ train میں جارہے تھے، اس میں علی گڑھ کے چند طالب علم تھے اور شرارتی تھے، انہوں نے ایک مولوی صاحب کو پھنسایا ہوا تھا کہ ان سے پوچھ رہے تھے کہ قطبین کے اوپر چھے مہینے کی نمازیں پڑھیں گے یا ایک دن کی؟ اب یہ لڑکے کئی تھے اور وہ تنگ ہورہے تھے، ایک اور آدمی جو دور بیٹھا تھا، وہ تھا تو متشرع، لیکن جیسے طالب علم ہنس رہے تھے تو یہ بھی ان کے ساتھ ہنس رہا تھا۔ حضرت جب گئے تو انہوں نے دیکھا کہ مولوی صاحب کو تو پھنسا لیا گیا ہے تو انہوں نے کہا بھائی! تم کیا کہتے ہو؟ میں جواب دیتا ہوں، انہوں نے وہی سوال کرلیا۔ حضرت نے کہا پہلے مجھے بتاؤ کہ تم قطبین جارہے ہو یا قطبین سے آرہے ہو؟ انہوں نے کہا کہ نہ ہم قطبین جارہے ہیں، نہ قطبین سے آرہے ہیں۔ حضرت نے کہا ایسی چیز کے بارے میں کیوں پوچھ رہے ہو، جس کی طرف آپ کا کوئی مسئلہ نہیں ہے، کیونکہ یا تو آپ جارہے ہوں یا ادھر سے آرہے ہوں تو پھر کوئی بات ہے۔ میں اگر آپ سے پوچھوں کہ نماز میں کتنے فرض ہیں تو آپ جانتے ہوں گے؟ اور وضو میں کیا ہے اور یہ کیا یعنی موٹی موٹی باتیں جن کا آپ سے پوچھا جائے گا، تو آپ ان کا جواب دیں گے؟ وہ لڑکے ہکے بکے ہوگئے، حضرت نے کہا کہ یہ چیزیں تم سے پوچھی جائیں گی، لیکن ان کی تمہیں فکر نہیں اور ایسی چیز کی تمہیں فکر ہے، جو تم سے پوچھی نہیں جائے گی۔ پھر فرمایا تم سمجھتے ہو کہ شاید مجھے سوال کا جواب نہیں آتا تو چلو میں جواب بھی دیتا ہوں۔ آپ مجھے بتاؤ کہ تمہاری ڈیوٹی اگر وہاں سرکاری طور پر لگ جائے تو تم چھے مہینے کی تنخواہ لو گے یا ایک دن کی تنخواہ لو گے؟ انہوں نے کہا کہ چھے مہینے کی تنخواہ لیں گے۔ حضرت نے کہا کہ بس چھے مہینے کی نمازیں پڑھنی پڑیں گی، البتہ طریقہ ہم بتائیں گے۔ اور پھر وہ جو پیچھے بیٹھے ہوئے تھے اور ہنس رہے تھے ان کو خوب سنائیں کہ تمہیں تو مولوی صاحب کی مدد کرنی چاہئے تھی، لیکن تم ان کے ساتھ مل کر خواہ مخواہ ہنس رہے تھے، یہ کون سا انصاف ہے، یعنی ان کو بھی کافی سنائی۔ لہٰذا اصل بات یہ ہے کہ ہمارے پاس شاید ٹائم بہت زیادہ ہے، اس وجہ سے اس قسم کے سوالات کرنے کو جی چاہتا ہے، اگر ٹائم کا ہمیں اندازہ ہو کہ ہمارا ٹائم محدود ہے، تو پھر ہم ان چیزوں کی طرف جائیں ہی نہ، پھر ہم ان چیزوں کی طرف جائیں اور ان چیزوں کی وہ باتیں پوچھیں جن کا ہم سے پوچھا جائے گا، ابھی کتنی ساری باتیں ہیں کہ ہمیں وہ معلوم ہی نہیں۔ مجھے کسی نے کہا کہ انجیل برناباس بہت اچھی کتاب ہے اور بالکل ایسے ہے جیسے تصوف کی کتاب ہو، آپ اس کو پڑھیں، میں نے کہا کہ میں تو نہیں پڑھتا، کہتے کیوں نہیں پڑھتے؟ میں نے کہا کہ حضور ﷺ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تورات پڑھنے سے منع کیا تھا تو میں کیوں پڑھوں؟ یعنی اس میں تو تحریف کا امکان ہے، تو وہ کہتے نہیں اس میں نہیں ہے۔ میں نے کہا کہ آپ کو کیا پتا کہ تحریف نہیں ہوئی؟ اور میں نے کہا کہ میں جب بھی اس کو پڑھوں گا تو بہت سوچ سوچ کر پڑھوں گا کہ کہیں میں کوئی غلط چیز کو نہ لوں، لیکن اس کے مقابلہ میں قرآن میرے پاس موجود ہے، جس میں کوئی شک نہیں ہے، میں اس کو کیوں نہ پڑھوں، اس کی تفسیر کیوں نہ پڑھوں؟ جو میرے پاس موجود ہے اور میرے لئے وہ کافی ہے۔ لہٰذا اگر یہ چیز سمجھ میں آگئی تو میرے خیال میں آئندہ ایسی چیزوں سے بچنا چاہئے۔

سوال نمبر 6:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اللہ تعالیٰ سے امید رکھتی ہوں کہ آپ خیر و عافیت کے اعلیٰ ترین درجہ میں ہوں گے، ان شاء اللہ۔ آپ نے میرے ذکر ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کا دورانیہ پندرہ منٹ تک بڑھایا تھا، جسے اللہ تعالیٰ کی توفیق سے آج اٹھائیسواں دن ہے اور سو بار استغفار اور تیسرا کلمہ اور ہر نماز کے بعد کارڈ والے معمولات بھی اللہ تعالیٰ کی توفیق سے جاری ہیں۔

جواب:

یہ مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ میں نے آپ کو کیسے بتایا تھا کہ پندرہ منٹ کے لئے۔

سوال نمبر 7:

السلام علیکم۔ پندرہ منٹ کے لئے روزانہ ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ دل سے کرنا چاہئے یعنی میرے دل میں ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ ہورہی ہے، یہ ایک مہینہ کے لئے ہے اور باقی تیسرا کلمہ، درود شریف، استغفار سو سو دفعہ اور ہر نماز کے بعد والا ذکر عمر بھر کے لئے ہے۔

جواب:

ٹھیک ہے، ماشاء اللہ! ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ جو دل میں کرنا ہے، اس کا دورانیہ پندرہ منٹ تک ہے، لیکن آپ نے یہ نہیں بتایا کہ اس وقت آپ کو ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ ہوتا ہوا محسوس ہوتا ہے یا نہیں ہوتا، یہ ذرا بتا دیجئے گا کہ وہ محسوس ہورہا ہے؟ تاکہ پھر میں کچھ اور بتاؤں۔

سوال نمبر 8:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت جی! آج میرے اس ذکر کا ایک ماہ مکمل ہوگیا ہے: ذکر دو سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘، چار سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘، تین سو مرتبہ ’’حَقْ حَقْ‘‘ اور سو مرتبہ ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ ہے۔ حضور! اس کے علاوہ میں ایک پاؤ پارے کا ترجمہ اور تین پارے روزانہ پڑھتا ہوں اور ایک ہزار بار ’’صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّدٍ‘‘ اور پانچ سو مرتبہ ’’صَلَّی اللہُ عَلَی النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ‘‘ اور صبح کی نماز کے بعد سورۃ یٰس کی تلاوت کرتا ہوں، ہر نماز کے بعد مقررہ ذکر بھی کرتا ہوں۔ میرے لئے اب کیا حکم ہے؟ آپ کی دعاؤں کا طالب۔

جواب:

اب آپ اس طرح کرلیں کہ دو سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘، چار سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘، چھے سو مرتبہ ’’حَقْ حَقْ‘‘ اور سو مرتبہ ’’اَللّٰہ‘‘ کریں اور باقی چیزیں جو آپ کررہے ہیں وہ بالکل ٹھیک ہیں۔ سفیان صاحب کا پتا نہیں رہا، ان کے بارے میں ذرا بتا دیں۔

سوال نمبر 9:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ میرا ذکر ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ دو سو مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ چار سو مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ چھے سو مرتبہ اور ’’اَللّٰہ‘‘ پندرہ سو دفعہ مکمل ہوگیا ہے۔

جواب:

اب آپ ’’اَللّٰہ‘‘ دو ہزار مرتبہ کریں، باقی چیزیں وہی رکھیں، ان شاء اللہ!

سوال نمبر 10:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت جی! ابھی یہ ذکر چل رہا ہے: ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ دو سو مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ چار سو مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ چھے سو مرتبہ اور ’’اَللّٰہ‘‘ تین ہزار مرتبہ۔ یہ ذکر ایک ماہ پہلے لیا تھا، پہلے ’’اَللّٰہ‘‘ ڈھائی ہزار سے تین ہزار کیا تھا اور اب ایک ماہ پورا ہوگیا ہے۔

جواب:

اب ’’اَللّٰہ‘‘ ساڑھے تین ہزار مرتبہ کرلیں اور باقی وہی ہے۔

سوال نمبر 11:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت جی! میں فلاں لندن سے بات کررہا ہوں، آپ خیریت ہوں گے، اَلْحَمْدُ للہ! حضرت جی! میں نے آپ کی دعاؤں اور توجہ سے ایک مہینہ دو سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘، چار سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘، چھے سو مرتبہ ’’حَقْ‘‘ اور ڈھائی ہزار مرتبہ ’’اَللّٰہ‘‘ کی تسبیحات پابندی کے ساتھ کی ہیں۔ آپ سے دعاؤں اور مزید رہنمائی کی درخواست ہے۔

جواب:

’’اَللّٰہ‘‘ اب تین ہزار مرتبہ کرلیں اور باقی یہی رکھیں۔ آپ سے بھی دعاؤں کی درخواست ہے۔

سوال نمبر 12:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔

Respected and honourable شیخ صاحب, I pray that you and your loved ones are well. Ameen! حضرت I have question regarding my اصلاحی ذکر which is currently verbal ذکر two hundred times ‘‘لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ’’ four hundred times ‘‘لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ’’ six hundred times‘‘حَقْ’’ and five hundred times Allah. مراقبہ ten minutes ذکر on heart fifteen minutes ذکر on لطیفۂ روح

Question No. 1: Currently I have been doing my verbal اصلاحی ذکر first and then مراقبہ afterwards. Do I have to do it in this order? Can I do مراقبہ before the verbal ذکر when I feel like doing so?

Question No. 2: I have an exercise machine where I can sit comfortably but only move my legs like on a cycle. Can I do اصلاحی ذکر while moving my legs on this machine? I have done it only for ninety days but I thought I should ask doing مراقبہ while using the machine? But I felt like concentration was being compromised for مراقبہ. So I quit it. But for verbal اصلاحی ذکر concentration is not affected much. It is my experience. جزاک اللہ

جواب:

اگرچہ آپ کو تھوڑا بہت تو اس کا فائدہ ہوگا، لیکن مکمل فائدے کے لئے اصلاحی ذکر کو مکمل بیٹھ کر کرنا چاہئے اور اس میں آپ کو توجہ خالصتاً ذکر کی طرف کرنی چاہئے، نیت کے لحاظ سے بھی اور توجہ کے لحاظ سے بھی، جبکہ مشین کے اوپر وہ چیزیں نہیں ہوسکتیں، کیونکہ مشین کے اوپر توجہ ہوتی ہے اور بعض دفعہ تو مشین ویسے بھی گڑبڑ کرسکتی ہے، جیسے ڈرائیونگ کوئی کرتا ہے تو اس میں بھی توجہ بٹتی ہے۔ لہٰذا جو اصلاحی ذکر ہے وہ آپ مکمل توجہ سے کریں۔ البتہ جو آپ کا ثوابی ذکر ہے وہ آپ کرسکتے ہیں، ثوابی ذکر میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ دوسرا یہ کہ جو آپ ذکر ابھی کررہے ہیں، اس میں آپ نے یہ نہیں بتایا کہ آپ کا مراقبہ دس منٹ اور پندرہ منٹ کا یہ کیسے ہورہا ہے؟ اگر یہ ٹھیک ہورہا ہو تو پھر آپ دس منٹ دل پر ذکر اور دس منٹ روح پر اور اس کے علاوہ پندرہ منٹ لطیفۂ سر پر کریں، لیکن یہ اس صورت میں ہے کہ جب دونوں پر محسوس ہورہا ہو اور اگر محسوس نہ ہورہا ہو تو پھر اس کے بارے میں مجھے بتا دیں۔

سوال نمبر 13:

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ میں فلاں سعودی عرب سے بات کررہا ہوں، امید کرتا ہوں کہ حضرت والا! آپ خیریت سے ہوں گے، ان شاء اللہ۔ اللہ تعالیٰ آپ کا سایہ ہم پر تاحیات قائم رکھے۔ حضرت! میرے اصلاحی ذکر کو ایک ماہ سے کچھ دن اوپر ہوگئے ہیں۔ ذکر دو سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘، چار سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘، چار سو مرتبہ ’’اِلَّا اللّٰہْ‘‘، چھے سو مرتبہ ’’اَللّٰہُ اَللّٰہ‘‘، پانچ سو مرتبہ ’’اَللّٰہ‘‘ اور ساڑھے چار ہزار مرتبہ اسم ذات ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ جہری کرنا ہے۔ حضرت والا! اصلاحی ذکر باقاعدگی سے ادا نہیں ہورہا، کیونکہ کام تھوڑے سے آگے پیچھے ہیں، باقی معمولات میں فجر کی نماز اکثر انفرادی ہوتی ہے اور باقی نمازیں جماعت کے ساتھ ادا کرنے کی کوشش کرتا ہوں اور دنیا کی محبت دل میں زیادہ ہورہی ہے اور اللہ کی محبت دل میں کم محسوس ہورہی ہے۔

اور گھر والی کا اصلاحی ذکر دس منٹ والا مراقبۂ قلب ہے، جو اَلْحَمْدُ للہ! بالکل محسوس ہورہا ہے یعنی دل سے ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ سنائی دے رہا ہے۔ آگے کے لئے رہنمائی فرمائیں۔

جواب:

گھر والوں کو تو بتا دیں کہ اصلاحی ذکر جو دل والا ہے، وہ پندرہ منٹ کرلیں۔ باقی آپ تو خود کہہ رہے ہیں کہ دنیا کی محبت بڑھتی ہوئی محسوس ہورہی ہے، تو اسی کے لئے یہ ذکر دیا جاتا ہے۔ بہرحال ذکر توجہ کے ساتھ کریں اور کوشش کرلیں کہ ذکر میں بالکل ناغہ نہ ہو، کیونکہ یہی ہمارے لئے حیات ہے، جیسے کہتے ہیں کہ ذکر کرنے والا اور ذکر نہ کرنے والا زندہ اور مردہ کی طرح ہے۔ لہٰذا اس میں اگر تھوڑی بہت کمزوری ہو تو پھر مسئلہ ہوجائے گا۔ اور اب جو ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کا ذکر ہے یہ ساڑھے چار ہزار مرتبہ کرلیں اور باقی وہی رکھ لیں، لیکن اس میں کوئی سستی نہیں کرنی چاہئے۔

سوال نمبر 14:

السلام علیکم۔ حضرت! میرے سب بچے بہت چھوٹے ہیں اور مجھے بہت زیادہ تنگ کرتے ہیں، میں پھر ڈانٹتی ہوں اور کبھی مارتی بھی ہوں، لیکن مجھے یہ طریقہ صحیح نہیں لگا اور کوشش بھی کرتی ہوں، کئی دفعہ سوچا کہ نہ ڈانٹوں اور نہ ماروں۔ میں نبی کریم ﷺ کی سیرت پڑھتی ہوں کہ ان کی زندگی بچوں کے ساتھ کیسی تھی، تو جتنا پڑھا تو مجھے نرمی ہی ملی کہ ہر کام میں بچوں کے ساتھ نرمی کا معاملہ کرتے تھے، جیسے کہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے دس سال نبی کریم ﷺ کی خدمت کی، لیکن آپ ﷺ نے مجھے کبھی اف تک نہیں کہا اور کسی کام پر یہ نہیں فرمایا کہ کیوں کیا اور کہیں یہ نہیں فرمایا کہ کیوں نہیں کیا۔ میں نے بھی اس پر کوشش کی کہ میں اپنا رویہ نرم رکھوں، لیکن پھر کبھی کبھی ایسی situation آجاتی ہے کہ ہر حال میں ڈانٹنا پڑ جاتا ہے، جیسے کبھی بہن بھائی آپس میں لڑتے ہوں تو میں چھڑواتی ہوں، تو میرا بیٹا چیختا ہے اور وہ مجھے مارنا شروع کرتا ہے تو اس حالت میں پھر میں ڈانٹتی بھی ہوں۔ اور کبھی کھانا کھلاتی ہوں تو جب اس کو غصہ آجاتا ہے تو کھانے کی پلیٹ اٹھا کر پھینک دیتا ہے، اسی حالت میں پھر اس کو ڈانٹتی بھی ہوں اور کبھی ایک دو تھپڑ لگا بھی دیتی ہوں۔ ایسی حالت میں کیسے نرمی کرنی چاہئے؟

جواب:

یہ سوال اصل میں کافی general ہے اور Subject to condition ہے اور ہر شخص کے لئے الگ الگ ہے، اس وجہ سے اس پر general حکم نہیں لگایا جاسکتا۔ لہٰذا آپ اگر اس کو ڈانٹیں یا ماریں تو اپنے نفس کے تنگ ہونے کی وجہ سے نہ ماریں، بلکہ ان کے فائدے کے لئے ماریں، اور ان کے فائدے کے لئے مارنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ بس اگر آپ یہ کرسکتی ہیں یعنی ان کے فائدے کے لئے کہ وہ سنبھل جائیں اور سمجھ جائیں تو اس کے لئے آپ ڈانٹ سکتی ہیں اور مار بھی سکتی ہیں، لیکن ایسا نہ ہو کہ ان کو کوئی نقصان پہنچے۔ مولانا زکریا صاحب رحمۃ اللہ علیہ آپ اور مجھ سے زیادہ سمجھتے تھے اور ان کے والد صاحب بہت بڑے عالم تھے، آپ ان کی آپ بیتی ذرا سن لیں کہ کیسے حضرت نے ان کی تربیت فرمائی تھی۔ اور حدیث شریف کو سمجھنے کے لئے بھی بہت زیادہ عقل کی ضرورت ہے، اس وجہ سے آپ اس کو ایسا نہ لیں، بس ان کے فائدے کے لئے آپ یہ عمل کرسکتی ہیں۔ چنانچہ حضرت فرما رہے تھے کہ مجھے والد صاحب جب مارتے تھے تو فرماتے کہ میں تجھے تیرے فائدے کے لئے مارتا ہوں، اس لئے اگر تو مر گیا تو شہید ہوجائے گا اور مجھے ثواب ملے گا۔ اس وجہ سے ہم لوگوں کو Subject to condition اس کو لینا چاہئے کہ اگر اس مارنے سے اُن کا فائدہ ہورہا ہو اور اُن کو سمجھ آرہی ہو تو پھر اس کو طریقے کے ساتھ مارنا کہ اُن کو نقصان تو نہ ہو، لیکن وہ سمجھ جائے، بس یہ طریقہ اختیار کرنا چاہئے۔

سوال نمبر 15

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت کے مزاج بخیر ہوں گے۔ حضرت! اگر کسی کی ضروریات اور مصروفیات زیادہ ہوجائیں اور شیخ کا بتایا ہوا ذکر بھی زیادہ ہو، مثلاً دو یا ڈھائی گھنٹے کا ہو، تو اس صورت میں شیخ سے ذکر کم کرنے کی درخواست کرسکتا ہے یا نہیں؟ اور جب مصروفیات کم پڑ جائیں تو واپس شیخ کو اطلاع کردے۔ میں فلاں ہوں۔

جواب:

دیکھیں! بیماری بیماری ہوتی ہے، صحت صحت ہوتی ہے اور مصروفیت مصروفیت ہوتی ہے۔ اگر کوئی شخص بیمار ہوجائے اور مصروف بھی بہت ہو، دفتر میں بڑا کام ہو اور ڈاکٹر حضرات کہہ دیں کہ آپ کو ایک ہفتہ ہسپتال میں admit ہونا پڑے گا، تو وہ کیا کرتا ہے؟ بس میرے خیال میں اس پر غور کرلیں تو شاید آپ کو جواب مل جائے گا۔

سوال نمبر 16:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت جی! میرا ذکر ہے: دو سو، چار سو، چھے سو اور ساڑھے گیارہ ہزار دفعہ اسم ذات اور اس کو تین مہینے ہوگئے ہیں۔ اور گھر والوں کے معمولات پانچوں لطائف پر پانچ منٹ والا مراقبہ ہے، جو کہ سب پر محسوس ہوتا ہے اور دس منٹ والے مراقبۂ احدیت کے متعلق وہ کہتی ہیں کہ جب مراقبۂ احدیت کرتی ہوں تو دل میں ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ پڑھا جاتا ہے۔ اور اس کا دس مہینے سے زیادہ ہوگیا ہے، پہلے ناغے ہوتے رہے ہیں، لیکن اب اَلْحَمْدُ للہ! مستقل طور پر شروع کیا ہے۔

جواب:

سبحان اللہ! ان کو بتا دیں کہ ناغہ نہ کیا کریں، کیونکہ اس کو اگر فائدہ ہورہا ہے تو فائدے کو کم نہ کریں اور مراقبۂ احدیت اگر اس نے شروع کیا ہے اور وہ کرتی رہی ہیں تو مراقبۂ احدیت کے بعد وہ یہ کریں کہ اللہ جل شانہٗ سب کچھ کرتے ہیں یعنی ہر چیز کے کرنے والے اللہ پاک ہی ہیں، اس کو تجلیات افعالیہ کہتے ہیں، اس کا جو فیض ہے وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ ﷺ کی طرف آرہا ہے، آپ ﷺ کی طرف سے شیخ کی طرف آرہا ہے اور شیخ کی طرف سے آپ کے لطیفۂ قلب پر آرہا ہے، بس ان کو یہ بتا دیں اور آپ بارہ ہزار مرتبہ اسم ذات کرلیں اور باقی وہی ہے۔

سوال نمبر 17:

السلام علیکم۔ میں مراقبہ کررہی ہوں اور میرا مراقبہ سارے لطائف کا پانچ منٹ کا ہے اور پندرہ منٹ یہ تصور کہ اللہ کی ذات سے سب کچھ ہوتا ہے، اس کا مراقبہ کرتی ہوں کہ حضرت محمد ﷺ کے قلب مبارک پر اور وہاں سے میرے شیخ کے قلب مبارک پر۔ کیفیات یہ ہیں کہ کبھی آخرت کا خوف غالب ہوتا ہے تو کبھی دنیاوی معاملات غالب ہوتے ہیں۔

جواب:

یہ جو آپ نے فرمایا کہ سب کچھ اللہ کرتا ہے، اس میں جو فیض والی بات ہے، وہ مجھے نہیں معلوم کہ آپ وہ ساتھ شامل کررہی ہیں یا نہیں، کیونکہ اس کا جو مراقبہ ہے، وہ اس طرح ہے کہ اللہ پاک سب کچھ کرتا ہے اور اس کا جو فیض ہے، وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ ﷺ کی طرف اور آپ ﷺ کی طرف سے شیخ کی طرف اور شیخ کی طرف سے آپ کے لطیفۂ قلب پر آرہا ہے۔ لیکن آپ اس طرح کررہی ہیں یا کچھ اور اپنے طور پر کررہی ہیں، یہ ذرا بتا دیجئے، تاکہ میں آپ کو بتا سکوں۔ باقی کیفیت ماشاء اللہ! صحیح ہے، اور یہ مقابلہ ہوتا رہے گا، آخرت کا خوف یہ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد ہے اور دنیا کی طرف جو غلبہ ہے، یہ شیطان اور نفس کی طرف سے ہے۔ لہٰذا آپ نے شیطان اور نفس کی بات نہیں ماننی، اللہ پاک کی بات ماننی ہے۔

سوال نمبر 18

السلام علیکم۔

This is فلاں from UK. I have completed my first معمولات for forty days. Also asking for duas as I am in مرکز with جماعت and starting university very soon.

جواب:

ماشاء اللہ! آپ اس طرح کرلیں کہ ابھی تیسرا کلمہ، درود شریف، استغفار جو کہ جماعت والے بھی صبح اور شام بتاتے ہیں، یہ آپ شروع کریں اور اس کے علاوہ نماز کے بعد والا ذکر یہ بھی آپ جاری رکھیں، کیونکہ یہ مسنون اعمال ہیں اور اس کے علاوہ آپ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ جہری طور پر سو دفعہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ سو دفعہ جہری طور پر، ’’حَقْ‘‘ سو دفعہ جہری طور پر اور ’’اَللّٰہ‘‘ سو دفعہ یہ بھی جہری طور پر کریں، جیسے کہ ہم کرتے رہے ہیں اور آپ بھی ہمارے ساتھ کرتے رہے ہیں تو اس طرح شروع کرلیں اور ایک مہینے کے بعد پھر مجھے بتا دیجئے گا۔

سوال نمبر 19:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔

Ya maulana, I pray that you are well ان شاء اللہ. I perform the ذکر you had given to me. Two hundred times ‘‘لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ’’ four hundred times ‘‘لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ’’ six hundred times ‘‘حَقْ’’ five hundred times ‘‘اَللہ’’. I feel really good when performing it especially feel something when saying ‘‘لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ’’ and ‘‘حَقْ’’. I also behave in a calmer way than before when facing daily problems اَلْحَمْدُ للہ. May Allah bless you and preserve you maulana.

جواب:

ماشاء اللہ now you should do two hundred times‘‘ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ’’ four hundred times ‘‘لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ’’ six hundred times ‘‘حَقْ’’ and thousands times ‘‘اَللہ’’ for one month ان شاء اللہ then you will inform me.

سوال نمبر 20:

حضرت شیخ دامت برکاتہم! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مزاج میں کچھ نرمی ہے، مگر کوئی خاص نہیں، لیکن دل میں مختلف چیزوں پر غصہ آتا ہے یعنی لوگوں کی جو غلطی میرے سامنے ہوتی ہے، مگر اس کا زبان پر تذکرہ نہیں کرتا، البتہ یہ مشکل لگتا ہے، اسی لئے مجھے اپنے آپ کو فوری طور پر کسی اور کام میں مشغول کرنا پڑتا ہے۔ ذکر دو سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘، چار سو مرتبہ ’’اِلَّا اللّٰہْ‘‘، چار سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘، چھے سو مرتبہ ’’حَقْ‘‘ اور ساڑھے تین ہزار مرتبہ ’’اَللّٰہ‘‘ ہے۔ درود ہر وقت جاری ہے، اللہ کی یاد اندر ہی اندر غالب ہوتی ہے اور تنہائی میں درود شریف میں بہت سکون ہوتا ہے، مگر جب علاجی ذکر کرتا ہوں تو اس وقت ایسے لگتا ہے کہ زبان سے ذکر کرنے میں بوجھ ہو، بلکہ destruction اللہ کی یاد سے دوری محسوس کرتا ہوں، بغیر تسبیح اور زبان کے عشق کا ایک عجیب حال ہوتا ہے، اب بھی لکھتے لکھتے میرا دل ہل رہا ہے اور آنسو خوب جاری ہیں۔ ایک بات یہ ہے کہ کچھ دن قبض محسوس کررہا تھا اور دعا کی آپ کے وسیلہ سے تو دل میں آیا کہ شاید والدہ ناراض ہیں، پھر معلوم ہوا کہ واقعی ناراض تھیں ایک ایسے کام پر جو میں نے نہیں کیا تھا، پھر میں نے جب معافی مانگی تو والدہ خوش ہوگئیں، بس اسی وقت دل جیسے کھل گیا ہو تو اللہ کا شکر کیا کہ ابھی والدہ زیادہ ناراض نہیں تھیں، مگر پھر بھی اتنا روحانی اثر ہوا جو بہت خطرناک معاملہ تھا۔ اب اگر شیخ کو ناراض کردیا تو اس میں بہت ڈر لگتا ہے۔ اللہ جل شانہٗ سے دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے آپ کے ذوق کے مطابق چلا دے۔ (آمین)

جواب:

یہ جو آپ نے لکھا حضرت شیخ دامت برکاتھم یہ غائب کا صیغہ ہے، جبکہ جس کو خط لکھا جاتا ہے تو حاضر کا صیغہ استعمال کرنا چاہئے۔ خیر ابھی آپ اس طرح کرلیں کہ ’’اَللّٰہ‘‘ جو ہے یہ چار ہزار مرتبہ کرلیں اور باقی جیسے چل رہے ہیں اسی طریقہ سے کریں۔ اور چونکہ علاجی ذکر یہ نفس کے خلاف ہے، اس وجہ سے نفس پر بوجھ بنتا ہے، لہٰذا آپ اس کی پروا نہ کریں، بس ہمیں اس کو دیکھنا چاہئے کہ اس سے فائدہ کیا ہے، باقی تکلیف اور آسانی یہ چیزوں کے ساتھ ہوتی رہتی ہے۔

سوال نمبر 21:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔

نمبر 1: تمام لطائف پر دس منٹ ذکر اور پندرہ منٹ صفات ثبوتیہ ہے۔ یہ طالبہ یہاں تک پہنچی تھی، لیکن پھر کسی اور جگہ شادی ہوگئی تو اس نے ذکر چھوڑ دیا، مگر پھر شادی میں نبھا نہ ہوسکا لہٰذا خلع لے لیا۔ اب مدرسہ تو نہیں آتی، لیکن ذکر کو دوبارہ شروع کرنا چاہتی ہے۔

جواب:

تمام لطائف پر دس منٹ ذکر شروع کرلیں اور مراقبہ تجلیات افعالیہ یعنی پہلے مراقبہ سے شروع کریں پندرہ منٹ۔

نمبر 2: لطیفۂ قلب دس منٹ، لطیفۂ روح دس منٹ، لطیفۂ سر دس منٹ، لطیفۂ خفی پندرہ منٹ ہے اور تمام لطائف پر ذکر محسوس ہوتا ہے، اَلْحَمْدُ للہ!

جواب:

اب اس کو لطیفۂ اخفیٰ پندرہ منٹ اور باقی دس دس منٹ بتا دیں۔

نمبر 3: لطیفۂ قلب دس منٹ، لطیفۂ روح پندرہ منٹ ہے اور دونوں لطائف پر ذکر محسوس ہوتا ہے۔

جواب:

اب اس کو دونوں لطائف پر دس منٹ اور تیسرا لطیفۂ سر پر پندرہ منٹ بتا دیں۔

نمبر 4: تمام لطائف پر دس منٹ ذکر اور مراقبہ صفات ثبوتیہ پندرہ منٹ ہے، لیکن محسوس نہیں ہوتا۔ اس طالبہ کو دوبارہ مراقبہ سمجھا دیا تھا۔

جواب:

اس کو پھر سمجھا دیں یعنی مراقبہ ثبوتیہ کا طریقہ ان کو بتا دیں۔

نمبر 5: تمام لطائف پر دس منٹ ذکر اور مراقبہ شیونات ذاتیہ پندرہ منٹ ہے۔ اس مراقبہ سے ذکر اور نماز کی طرف توجہ بڑھ گئی ہے اور جب کسی گناہ کا خیال آئے تو ڈر جاتی ہوں کہ کہیں اللہ تعالیٰ اس وقت شان قہاریت میں نہ ہوں اور مجھے پکڑ نہ لیں، اس لئے فوراً منع ہوجاتی ہوں۔

جواب:

ماشاء اللہ! اس کا فائدہ ہوا ہے، اَلْحَمْدُ للہ! اس کو اب مراقبہ تنزیہ کا بتا دیں یعنی چوتھا مراقبہ۔

نمبر 6: تمام لطائف پر دس منٹ ذکر اور مراقبۂ احدیت پندرہ منٹ ہے۔ نماز میں سستی ختم ہوگئی ہے اور نوافل کو بھی ادا کرنے لگی ہوں، جب کوئی گناہ ہو تو فوراً توبہ کرتی ہوں، آئندہ نہ کرنے کا ارادہ کرتی ہوں، دل میں اللہ تعالیٰ کا خوف پیدا ہوگیا ہے۔

جواب:

ماشاء اللہ! اب مراقبہ تجلیات افعالیہ کا ان کو دے دیں اور باقی وہی رکھیں۔

نمبر 7: تمام لطائف پر دس منٹ ذکر اور مراقبۂ احدیت پندرہ منٹ ہے۔ نماز کی پابندی اور اس کا اہتمام نصیب ہوگیا ہے، اس کے علاوہ درود شریف کی کثرت بھی نصیب ہوگئی ہے، اَلْحَمْدُ للہ!

جواب:

اب ماشاء اللہ! یہ مراقبۂ احدیت کو مراقبہ تجلیات افعالیہ سے بدل لیں۔

نمبر 8: تمام لطائف پر پانچ منٹ ذکر اور مراقبۂ معیت اور دعائیہ پندرہ منٹ ہے۔ یہ طالبہ کہتی ہے کہ ذکر سے میرے سر پر بہت بوجھ پڑتا ہے اور بہت تکلیف ہوتی ہے، کیا میں ذکر کو وقفے وقفے سے کرسکتی ہوں؟

جواب:

یہ اس طرح کرلیں کہ جب یہ مراقبۂ معیت اور دعائیہ شروع کریں تو اس وقت تھوڑا سا سانس لے لیں یعنی دس پندرہ منٹ رک جائیں، پھر اس کے بعد کرلیں۔

سوال نمبر 22:

ایک سالک کا سوال آیا تھا جو کہ حضرت نے مجلس میں نہیں سُنایا، بلکہ اُس کا صرف جواب حضرت نے دیا ہے۔

جواب:

اُس ترتیب سے پڑھیں تو بہتر ہے۔

سوال نمبر 23:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔ میں نے بچوں کے مراقبے کی رپورٹ دینی ہے، ان کے مراقبہ کا ایک ماہ ہوگیا ہے۔

نمبر 1: پہلے پانچوں لطائف پر پانچ پانچ منٹ یہ تصور کرنا ہے کہ میرے لطیفہ کی طرف اللہ تعالیٰ محبت کے ساتھ دیکھ رہے ہیں اور میرا لطیفہ ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کررہا ہے، اس کے بعد آیت الکرسی کے ترجمہ کو سمجھ کر پھر یہ مراقبہ کرنا ہے کہ اس کا فیض حضور ﷺ کے قلب اطہر پر اور پھر آپ حضرت کے قلب مبارک پر اور پھر ان کے پورے جسم پر یہ فیض آرہا ہے۔ کیفیت: اَلْحَمْدُ للہ! پانچوں لطائف پر ذکر محسوس ہوتا ہے۔ مراقبہ کے دوران کچھ خاص کیفیت کا اندازہ نہیں ہوتا، البتہ اللہ تعالیٰ کی موجودگی کا احساس ہوتا ہے اور اچھے کام پر دل میں یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ میرے اس کام سے خوش ہوں گے اور غلط کام پر ناخوش ہوں گے۔ اَلْحَمْدُ للہ! ناغہ نہیں ہوا۔

جواب:

ماشاء اللہ! یہ ٹھیک ہے کہ آیت الکرسی کا جو مفہوم ہے، وہ ذہن میں رکھ لیں اور اس میں جو سب سے بڑی بات ہے وہ یہ کہ اللہ پاک حیّ اور قیوم ہے، اس کو تصور میں رکھیں اور ماشاء اللہ! اس کو ایک مہینہ اور بھی کریں۔

نمبر 2: پہلے پانچ لطائف پر پانچ منٹ یہ تصور کرنا ہے کہ میرے لطیفہ کی طرف اللہ تعالیٰ محبت کے ساتھ دیکھ رہے ہیں اور میرا لطیفہ ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کررہا ہے، پھر اس کے بعد پندرہ منٹ کا مراقبہ شان جامع کرنا ہے۔ ایک ناغہ ہوچکا ہے۔ پانچوں لطائف پر ذکر محسوس ہوتا ہے، اللہ کے ساتھ محبت کا احساس بڑھ رہا ہے، اچھے کام کی ہوس اور ثواب کمانے کا جذبہ بڑھ رہا ہے۔

جواب:

ماشاء اللہ! بہت اچھی بات ہے، اب ان کو مراقبۂ معیت کا بتا دیجئے گا۔

نمبر 3: درود پاک دو سو مرتبہ، تیسرا کلمہ دو سو مرتبہ، استغفار دو سو مرتبہ اور ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ دو سو مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ چھے سو مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ چار سو مرتبہ اور ’’اَللّٰہ‘‘ سو مرتبہ ہے۔

اَلْحَمْدُ للہ! ناغہ تو نہیں ہوا، لیکن یہ غلطی ہوئی کہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ کو چھے سو مرتبہ کے بجائے تین سو مرتبہ کرتا ہے۔

باقی تینوں کو اَلْحَمْدُ للہ! نماز پڑھنے اور قرآن پاک کی تلاوت پر استقامت ہے۔

جواب:

اب ’’حَقْ‘‘ چھے سو مرتبہ کرلیں۔ باقی جو غلطی کی ہے اس کو ٹھیک کرلیں۔

سوال نمبر 24:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ ایک صاحب کا سوال ہے کہ کیا روح ایک حقیقی سفر پرواز کرتی ہے؟ روحانی مقام کیا ہے؟ تم کہتے ہو کہ اصل مقام رذائل کو ختم کرنے سے حاصل ہوتا ہے۔ کیا روح کی ایک حقیقی پرواز ہوتی ہے؟ روح کا عروج کیا اخلاق کی درستگی تک ہے یا واقعی کسی اور عالم میں روح جاتی ہے؟

جواب:

اصل میں اپنے آپ کو confuse نہیں کرنا چاہئے، ان کو آپ سمجھا دیں کہ روح اور جسم کا ایک رشتہ ہے اور کیسا رشتہ ہے؟ اس کو اللہ ہی جانتا ہے۔ اس کے بارے میں اللہ فرماتا ہے:

﴿قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ﴾ (بنی اسرائیل: 85)

ترجمہ1: ’’کہہ دو کہ: روح میرے پروردگار کے حکم سے (بنی) ہے‘‘۔

البتہ یہ پتا ہے کہ روح کا جسم کے ساتھ جب تک واسطہ ہے تو انسان زندہ ہے، جب اس سے واسطہ ختم ہوجائے گا تو انسان دنیا سے چلا جائے گا، پھر اس کے اعمال ہی اس کے ساتھ جائیں گے۔ اور روح چونکہ اللہ کی عاشق تھی، اس وجہ سے اس کا رجحان اللہ کی طرف ہی ہوگا اگر وہ آزاد ہو، لیکن چونکہ یہاں پر آزاد نہیں ہے، نفس کے دام میں جکڑی گئی ہے اور نفس اس کو استعمال کررہا ہے اور اس کو چھوڑ نہیں رہا۔ اب اس کو آزاد کرنے کے لئے تاکہ نفس کی بات نہ مانے اور نفس سے آزاد ہوجائے اس کے لئے سلوک طے کرنا ہے اور یہ قرآن بتاتا ہے، ہم نہیں کہتے، اللہ فرماتے ہیں:

﴿قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا ۝ وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَا﴾ (الشمس: 9-10)

ترجمہ: ’’فلاح اسے ملے گی، جو اس نفس کو پاکیزہ بنائے، اور نامراد وہ ہوگا، جو اس کو (گناہ میں) دھنسا دے‘‘۔

لہٰذا نفس کا جو تزکیہ ہے وہ کیا ہے؟ وہ رذائل کو دبانا ہے یعنی رذائل کو اگر آپ دباتے ہیں تو نفس کا تزکیہ ہوتا ہے، کیونکہ ہر رذیلہ کوئی گند کرتا ہے۔ جیسے ہی آپ ان گندگیوں کو control کرلیں گے تو اس کا تزکیہ ہوجائے گا۔ باقی جو قلب ہے، اس کا اپنا کام ہے اور وہ کام یہ ہے کہ اس کے اندر ایمان ہوتا ہے، اگرچہ کفر بھی دل میں ہوسکتا ہے، لیکن کفر کو نکال کر ایمان لانا ہے، دنیا کی محبت کو نکال کے اللہ کی محبت کو لانا ہے تو دل نے یہ کام کرنا ہے۔ لہٰذا اب چونکہ نفس دل کو گندا کرتا ہے، اس لئے جب تک نفس پاک نہیں ہوگا تو تزکیہ نہیں ہوگا اور پھر اس وقت تک دل بھی پاک نہیں ہوگا۔ اس لئے دل کو پاک کرنے کے لئے نفس کا تزکیہ ضروری ہے۔

سوال نمبر 25:

حضرت جی! میرے دو سوال ہیں، پہلا یہ کہ جو چار سلاسل ہیں یعنی نقشبندیہ، چشتیہ، قادریہ اور سہروردیہ، ان کا فرق معلوم ہونا چاہئے اور ہمیں کیسے معلوم ہوگا کہ کس کی طرف ہماری نسبت ہے؟

جواب:

چشتی سلسلے میں ولولہ انگیزی زیادہ ہوتی ہے، فدائیت کا جذبہ ہوتا ہے اور اس میں گرمی ہوتی ہے یعنی زیادہ جوش ہوتا ہے اور جو نقشبندی سلسلہ ہے، اس میں ٹھنڈک ہے، برودت ہے، وقار ہے، خاموشی ہے یعنی اس طریقے سے اس میں علاج ہوتا ہے۔ اسی طرح سہروردی اور قادریہ میں بھی ملے جلے فرق ہیں۔ لیکن ہمارا کام سلسلوں کے ساتھ نہیں ہے، ہمارا کام شیخ کے ساتھ ہے، اگر شیخ کے ساتھ مناسبت ہے تو پھر شیخ کی ذمہ داری ہے کہ وہ آپ کے اندر جس قسم کے اثرات دیکھیں، بس اس کے مطابق آپ کو طریقہ بتائے یعنی بجائے اس کے کہ آپ خود یہ کام کریں، کیونکہ یہ بالکل ایسی بات ہے کہ انسان خود دوائیوں میں دیکھے کہ میرے لئے کون سی دوائی ٹھیک ہے، لیکن اگر ڈاکٹر کے پاس جائے گا تو ڈاکٹر پر ہی چھوڑے گا۔

سوال نمبر 26:

دوسرا سال یہ تھا کہ جو آپ ذکر کی تعداد دیتے ہیں، وہ کدھر سے آتی ہے۔ جیسے ہم تین سو دفعہ ’’سُبْحَانَ اللهِ، وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ، وَلآ إِلٰهَ إِلَّا اللهُ، وَاللهُ أَكْبَرُ، اور دو سو دفعہ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيْمِ‘‘

جواب:

یہ اصل میں ہم نے صلوٰۃ التسبیح سے لی ہے۔ صلوٰۃ التسبیح میں تین سو دفعہ پڑھتے ہیں یعنی پچھتر پچھتر ہر رکعت میں پڑھتے ہیں تو چار رکعتوں میں تین سو دفعہ ہوجاتا ہے، ہم نے اسی کو لیا ہے۔

سوال نمبر 27:

السلام علیکم۔ حضرت! صلہ رحمی کی اسلام میں بہت اہمیت ہے اور ساتھ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا فرمان ہے کہ مومن ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جاتا۔ وضاحت فرما دیجئے۔

جواب:

دونوں باتیں صحیح ہیں۔ صلہ رحمی کا بھی حکم ہے اور اس کی بڑی اہمیت ہے۔ اس کے لئے صاف حدیث شریف موجود ہے، آپ ﷺ نے فرمایا:

’’أَفْشُوا السَّلَامَ، وَأَطْعِمُوا الطَّعَامَ، وَصِلُوا الْاَرْحَامَ، وَصَلُّوا باللَّيْل وَالنَّاسُ نِيامٌ، تَدخُلُوا الجَنَّةَ بِسَلامٍ‘‘ رواہ عبداللہ بن سلام (سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 3251)

باقی جہاں تک مومن ایک بار دو سوراخ سے نہیں ڈسا جاسکتا تو یہ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول بھی بالکل صحیح ہے۔ مطلب یہ ہے کہ محتاط ہونا چاہئے کہ کوئی آپ کو نقصان نہ پہنچا سکے، لیکن ان کے ساتھ بھلائی کرنے سے روکنے کا حکم نہیں ہے، بلکہ بھلائی تو ہر ایک کے لئے اپنی اپنی ہے، اس وجہ سے حکمت سے رہنا چاہئے اور ہر ایک کے لئے دل صاف رہنا چاہئے اور اگر کوئی ہمارے ساتھ برائی کرتا ہے تو اپنے ساتھ برا کررہا ہے، ہم تو ان کے ساتھ اچھا کررہے ہیں، اس کا صلہ ہمیں اللہ پاک دے گا۔

سوال نمبر 28:

ایک سالک کا سوال آیا تھا جو کہ حضرت نے مجلس میں نہیں سُنایا، بلکہ اُس کا صرف جواب حضرت نے دیا ہے۔

جواب:

ٹھیک ہے، ابھی آپ اس طرح کرلیں کہ مراقبہ صفات ثبوتیہ یعنی اللہ جل شانہٗ زندہ ہیں، اللہ جل شانہٗ نے سب کو پیدا کیا ہے، اللہ جل شانہٗ کی قدرت اصل قدرت ہے یعنی اس کی قدرت میں سب کچھ ہے، اللہ پاک ہی کا ارادہ کامل ہے، اللہ پاک کا علم ہی کامل ہے اور اللہ جل شانہٗ دیکھتے ہیں، اللہ پاک سنتے ہیں، اللہ پاک کلام فرماتے ہیں یعنی یہ تمام آٹھ صفات کا جو فیض ہے، وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ ﷺ کی طرف، آپ ﷺ کی طرف سے شیخ کی طرف اور شیخ کی طرف سے آپ کے قلب پر آرہا ہے۔ یہ مراقبہ تجلیات افعالیہ ہے۔


وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ


  1. ۔ (آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب)

    نوٹ! تمام آیات کا ترجمہ آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم سے لیا گیا ہے۔

سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات - مجلسِ سوال و جواب