اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال نمبر 1:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت جی! میرا مسئلہ یہ ہے کہ میرے والد تقریباً اسی سال کے ہو چکے ہیں اور اب بیماری کی وجہ سے انہوں نے دکان پر جانا چھوڑ دیا ہے، اب گھر ہی پر ہوتے ہیں، کوئی بھی بات کرو تو اس میں بہت سوال کرتے ہیں، کبھی میں جواب نرمی سے دیتا ہوں، لیکن اکثر مجھے بہت الجھن ہونے لگتی ہے اور میں انہیں جواب نہیں دے پاتا یا پھر تلخی سے جواب دیتا ہوں، مگر بعد میں مجھے افسوس بھی ہوتا ہے کہ ایسا کیوں کیا۔ اور اس کے علاوہ ان کی صحیح طریقے سے خدمت بھی نہیں کر پا رہا، اس پر بھی مجھے تشویش ہوتی ہے۔ برائے مہربانی اس بارے میں رہنمائی فرمائیں کہ اس کیفیت کو کیسے ٹھیک کروں؟ جزاکم اللہ خیراً۔ آپ کی صحت اور تندرستی کے لئے دعا گو ہوں، اللہ پاک آپ کو اجر عظیم عطا فرمائے۔ میں فلاں صاحب لاہور سے ہوں۔
جواب:
اصل بات یہ ہے کہ والدین کے بارے میں تو قرآن پاک میں بالکل وضاحت کے ساتھ بات آچکی ہے کہ اپنے شانے ان کے سامنے جھکائیں یعنی عاجزی کے ساتھ پیش آئیں، اور ان کے ساتھ عام لوگوں کا سا برتاؤ نہ کریں۔ آپ تھوڑا سا غور کرلیں کہ ابراہیم علیہ السلام کے والد مشرک تھے اور بت بنانے والے ہیں، لیکن وہ کس انداز میں اپنے والد سے بات کرتے ہیں، قرآن پاک میں documented ہے۔ اسی طرح ہمارے حضرت مولانا احمد علی لاہوری رحمۃ اللہ علیہ سکھ فیملی سے تعلق رکھتے تھے اور مسلمان ہوگئے تھے، لیکن ان کی والدہ وہ سکھ تھی، وہ مسلمان نہیں ہوئی تھی، تو کبھی کبھی گھر سے باہر آکر ان کو سب لوگوں کے سامنے یعنی مریدوں کے سامنے مارتی تھیں، لیکن یہ فرماتے کہ اماں جی آپ کا حق ہے، اماں جی آپ کا حق ہے، یعنی یہ بہت بڑا مقام ہونے کے باوجود فرماتے ہیں کہ اماں جی آپ کا حق ہے۔ لیکن اس میں دو باتیں ہیں کہ کچھ لوگ تو ان کے ساتھ Rude behaviour کرتے ہیں اور ان کے ساتھ نرمی نہیں کرتے، جبکہ کچھ لوگ پھر اتنی نرمی کرتے ہیں کہ دینیات میں بھی ان کی بات کے پیچھے چلتے ہیں، حالانکہ ایسے موقع پر حدیث میں یہ فرمایا گیا ہے:
’’لَا طَاعَةَ لِمَخْلُوْقٍ فِيْ مَعْصِيَةِ الْخَالِقِ‘‘ (مسلم، حدیث نمبر: 4765)
ترجمہ: ’’خالق کی نافرمانی میں مخلوق کی اطاعت نہیں کی جائے گی۔‘‘
یعنی چاہے وہ والد ہو، چاہے وہ والدہ ہو، لیکن اس میں ان کی بات نہیں ماننی، بلکہ نرمی کے ساتھ عذر کرنا چاہئے، جیسے ابراہیم علیہ السلام نے کیا تھا یا حضرت مولانا احمد علی لاہوری رحمۃ اللہ علیہ نے کیا ہے، لیکن دنیا کے امور میں ان کے ساتھ بہت نرمی کا معاملہ ہونا چاہئے، جیسے قرآن میں بتایا گیا ہے۔ اب بوڑھوں کے ساتھ کیا ہوتا ہے؟ بوڑھوں کے ساتھ یہ ہوتا ہے کہ ان کا جو دماغ ہے، وہ Fed up ہوچکا ہوتا ہے، بہت ساری چیزوں سے پورا بھر چکا ہوتا ہے، اب اس میں جو دینی بات آتی ہے تو اس کے لئے کوئی گنجائش نہیں ہوتی، اسی سے پھر چڑچڑے پن کا آغاز ہوتا ہے۔ اور یہ چڑچڑا پن جو ہوتا ہے، یہ ایک فطری بات ہے۔ اس کی میں ایک مثال دیتا ہوں، جو بچہ ہوتا ہے، وہ ناسمجھ ہوتا ہے، اس لئے بچپنے میں ایک چیز کا بار بار پوچھتا ہے، ایک دفعہ آپ نے بتا دیا، تو پھر وہ پوچھے گا، دوبارہ بتا دیا، لیکن وہ پھر پوچھے گا، پھر بتا دیں گے، تو پھر بھی پوچھے گا، تو وہ نہ سمجھنے کی وجہ سے پوچھتا ہے۔ اور والدین جو ہیں وہ دوبارہ بچوں کی طرح ہوجاتے ہیں، اس لئے وہ بھی اس قسم کی باتیں کرنے لگتے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو جب تک والد کی بچے کے ساتھ جو dealing ہوتی ہے، وہ بڑی نرم ہوتی ہے، لیکن وہی والد جب بوڑھا ہوجاتا ہے اور یہ بچہ بڑا ہوجاتا ہے تو یہ ان کے ساتھ وہ نرمی نہیں کرتا جو کہ ہونی چاہئے۔ چنانچہ ایک صاحب جو ذرا پڑھے لکھے تھے، وہ اپنی چیزیں ڈائری میں نوٹ کرتے تھے، تو بیٹے سے ایک دفعہ انہوں نے پوچھا کہ بیٹا! یہ تار کے اوپر کیا چیز بیٹھی ہے؟ اس نے کہا کہ کوا ہے، پھر اس نے پوچھا، تو اس نے کہا کہ یہ کوا ہے، پھر اس نے پوچھا اور پھر پوچھا یعنی چار دفعہ پوچھا تو اس نے کہا کہ بتایا نہیں کہ یہ کوا ہے۔ تو وہ والد اندر چلا گیا اور ایک پرانی ڈائری اٹھا کے لے آیا اور تاریخ نکال کے کہا کہ جب تیری عمر اتنی تھی، اس وقت تو نے مجھ سے غالباً ساٹھ دفعہ یا ستر دفعہ پوچھا تھا اور میں نے بڑے پیار سے جواب دے دیا تھا، لیکن آپ صرف چار دفعہ پر بھڑک گئے۔ تو خیر اس کو assignment سمجھ لیں، کیونکہ اگر آپ اس کو ویسے ہی سمجھتے ہیں تو پھر چڑچڑا پن آپ میں آئے گا لیکن اگر آپ assignment سمجھ لیں کہ مجھے اس پر اجر مل رہا ہے، جتنی دفعہ بھی والد بات کرے گا اور میں اس کے ساتھ نرمی سے بات کروں گا تو مجھے اس پر اجر ملے گا۔ مثلاً دکان پر جو آدمی بیٹھا ہوتا اور اس کے پاس ایک آدمی آتا ہے کہ فلاں چیز مجھے دے دو، تو اس کے لئے وہ صاحب اٹھ کے چلا جاتا ہے، ابھی یہ بیٹھا نہیں ہوتا کہ دوسرا آدمی آتا ہے کہ مجھے فلاں چیز دے دو، تو یہ اس کے لئے اٹھ کے چلا جاتا ہے، پھر تیسرا کوئی اور آدمی آتا ہے، تو وہ اس کے لئے بھی چلا جاتا ہے۔ کیا خیال ہے، وہ دکاندار پریشان ہوتا ہے اس سے؟ کہ دیکھو! لوگ مجھے اتنا تنگ کررہے ہیں کہ ابھی میں بیٹھا نہیں ہوتا کہ دوسرا آجاتا ہے، اور میں اس کے لئے چلا جاتا ہوں۔ نہیں! بلکہ وہ اس دن خوش ہوتا ہے اور بڑا خوش ہوتا ہے کہ دیکھو! میری بکری ہورہی ہے۔ لہٰذا آپ بھی یہ سمجھیں کہ میری بکری ہورہی ہے یعنی مجھے اس کا اجر مل رہا ہے۔ اگر آپ اس انداز میں کریں گے تو ان شاء اللہ! کوئی مسئلہ نہیں ہوگا اور ہمت کریں، کیونکہ ہمت کرے انسان تو کیا نہیں ہوسکتا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق عطا فرما دے۔
سوال نمبر 2:
السلام علیکم
My heart as it is in debt to the powerful name of Allah to survive. This took place when I concentraTED. ان شاء اللہ I will continue to concentrate.
جواب:
ٹھیک ہے، اللہ تعالیٰ آپ کو مزید توفیقات سے نوازے، آپ اس کوشش کو جاری رکھیں۔ اور صحیح بات یہ ہے کہ اللہ پاک کی طرف آپ کی توجہ جتنی ہوگی، تو آپ کو اتنی کامیابی ہوگی۔ اور ذکر اس کے لئے ذریعہ ہے، اس لئے آپ اپنے ذکر کو انتہائی یکسوئی کے ساتھ کرنے کی کوشش کریں یعنی جتنا آپ کرسکتی ہیں وہ کریں، کیونکہ اس میں اتنا شک کی حد تک نہ پہنچیں، بس جتنا انسان کرسکتا ہے، وہ کرلے، لہٰذا اس طرح کوشش کرکے دیکھیں، ان شاء اللہ! آپ کو مزید ترقی ہوگی۔
سوال نمبر 3:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اَلْحَمْدُ للہ! حضور! میں نے اللہ پاک کی توفیق سے آج چوتھا ذکر مکمل کرلیا ہے۔ پہلے تمام ذکر ویب سائٹ پر موجود تھے، لیکن اب صرف پہلا اور دوسرا ذکر ہی ہے۔ اب میرے لئے کون سا حکم ہے؟ آپ کے حکم کا منتظر ہوں۔
جواب:
آپ کا جو چوتھا ذکر تھا وہ کون سا تھا؟ بس وہ مجھے لکھ کر بھیجیں، تاکہ اس سے اگلے والا ذکر میں آپ کو دے دوں۔ یہ میں اس لئے پوچھ رہا ہوں کہ ذرا مجھے معلوم ہوجائے کہ اس کے اوپر آخری ذکر کون سا تھا جو آپ نے کیا ہے، تاکہ اس کے حساب سے میں اگلا ذکر آپ کو دے دوں، کیونکہ مختلف اوقات میں ہم نے مختلف چیزیں لکھی ہیں، اس لئے کہیں ایسا نہ ہو کہ میں آپ کو کوئی غلط چیز بتا دوں، لہٰذا آپ بتا دیں کہ آخری ذکر جو آپ نے کیا وہ کون سا تھا؟
سوال نمبر 4:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ میں فلاں ہوں، اپنی امی کے ذکر کے حوالے سے آپ سے بات کرنا چاہتی ہوں۔ حضرت! آپ نے میری امی کو زبانی ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کا ذکر دس ہزار مرتبہ پر روک دیا تھا اور تین سو بار استغفار تلقین فرما دیا تھا۔ بلاناغہ ذکر کرنے کا ایک مہینہ 09 جون کو پورا ہوچکا ہے۔
جواب:
ماشاء اللہ! وہ جو کررہی ہیں وہ بالکل ٹھیک کررہی ہیں، اس کو فی الحال جاری رکھیں۔ اصل میں بات یہ ہے کہ جب ہمت بڑھے گی تو پھر مزید اس پر آپ کو بتائیں گے۔ اور یہ وقت تو ان کے ذکر کرنے کا ہی ہے، کیونکہ جو ’’اَللّٰہُ اَللّٰہ‘‘ کا ذکر ہے، اگرچہ ایک جلسہ میں نہ ہو، بلکہ مختلف جلسے میں ہو، تو کوئی مشکل نہیں ہے، بس وہ باقاعدگی کے ساتھ ہو تو پھر اس سے زیادہ فائدہ ہوتا ہے۔ لہٰذا فی الحال یہی کرلیں، اگلی دفعہ ان شاء اللہ! مزید بڑھائیں گے۔
سوال نمبر 5:
السلام علیکم۔
How are you Sheikh? I am sorry. I have changed my number. This is the old number. I apologize, Maulana. I am the one who is in trouble. I hope you don’t forget me.
جواب:
No, I didn’t forget you but you should also not forget what I have told you. I think to overcome all the problems for you, we should ask Allah سبحانہ وتعالیٰ in better way. For you, I suggest that you should do the following ذکر. Five hundred times ‘‘وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيْمِ’’ and after one month you can ask me.
سوال نمبر 7:
السلام علیکم۔ حضرت شاہ صاحب! اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند فرمائے۔ عرض یہ ہے کہ ذکر دو سو، چار سو، چھے سو اور آٹھ ہزار مرتبہ ہے اور دس منٹ کا مراقبہ ہے، جسے ایک ماہ سے زیادہ ہوگیا ہے، اَلْحَمْدُ للہ! احوال عرض ہیں کہ ذکر کا پہلا حصہ تو آسانی سے ہوجاتا ہے، لیکن اسم ذات کے ذکر میں بہت مشقت ہوتی ہے، میں تھک جاتا ہوں، بعض دفعہ دو حصوں میں کرنا پڑتا ہے، لیکن ناغہ نہیں ہوا آپ کی برکت سے۔ اور مراقبہ بھی ایسے ہی ہے، کچھ بھی محسوس نہیں ہوتا، بلکہ اپنی محرومی پر افسوس ہے۔ اَلْحَمْدُ للہ! ’’منزل جدید‘‘ جو کہ پہلے عشاء کے بعد پڑھنے کا معمول تھا، لیکن اب آپ کے فیض سے مغرب کے فوری بعد پڑھ لیتا ہوں، جس کا بہت فائدہ محسوس ہوتا ہے۔ میری ساس صاحبہ کا ذکر پندرہ منٹ لطیفۂ قلب، دس منٹ لطیفۂ روح اور دس منٹ لطیفۂ سر پر ہے، اس کو بھی ایک ماہ سے زیادہ ہوگیا ہے، اور تینوں جگہوں پر ’’اَللّٰہُ اَللّٰہ‘‘ محسوس ہوتا ہے، مزید رہنمائی کی ضرورت ہے۔
جواب:
ایک بات عرض کروں کہ یہ جو آپ کو آٹھ ہزار مرتبہ اسم ذات کا ذکر دیا ہوا ہے، یہ ایک جلسہ میں کرنا ضروری نہیں ہے، بلکہ آپ اس طرح کرلیں کہ دو سو، چار سو، چھے سو اور ایک سو مرتبہ تو ایک جلسہ میں کرلیں، کیونکہ یہ ایک جلسہ میں ضروری ہے، باقی جو آٹھ ہزار مرتبہ ہے، اس کو آپ مختلف جسلوں میں کرسکتے ہیں اور اس میں ضرب بھی نہیں ہے یعنی جیسے ہم کہتے ہیں ’’اَللّٰہُ اَللّٰہ‘‘ ’’اَللّٰہُ اَللّٰہ‘‘ بس اس طرح آپ کریں اور تسبیح سے یا counter سے آپ اس کو گن لیا کریں اور آٹھ ہزار مرتبہ اس کو پورا کرلیں۔ باقی جہاں تک دس منٹ کا مراقبہ ہے، تو ماشاء اللہ! آپ اس کو جاری رکھیں۔ اس پر میں آپ کو ایک بات سنا دوں کہ کل ہی میں ایک نقشبندی اجتماع میں گیا ہوا تھا، وہاں پر جو نقشبندی بزرگ تھے، انہوں نے ایک بات کی اور وہی میں آپ کو سناتا ہوں۔ انہوں نے فرمایا کہ بعض لوگوں کو ابھی چند مہینے ہوئے ہوتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ جی! ہمارا دل جاری نہیں ہوا، تو انہوں نے فرمایا کہ چھے سال میں بھی جاری ہوجائے تو اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمت ہے، اس پر شکر کرنا چاہئے۔ ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارا دل جاری نہیں ہوا۔ ایک بزرگ تھے اور وہ بھی نقشبندی تھے، ایک دفعہ ان کو کسی نے کہا کہ ہمارا دل جاری نہیں ہوتا، تو انہوں نے کہا کمال ہے! ہم عشاء سے لے کر فجر تک کنڈلی مارے بیٹھے ہوتے ہیں، لیکن بارہ سال میں جاری ہوا، اور تم کہتے ہو کہ آج جاری ہوجائے۔ اس میں محنت لگتی ہے۔ اور اتفاقی بات ہے کہ یہ محنت عورتوں کی جلدی ہوتی ہے، کیونکہ عورتوں کو یکسوئی ہوتی ہے، جیسے کہ اب ساس صاحبہ کو حاصل ہے، جبکہ وہ اس کے بعد آئی ہے، اور یہ خود ہی کہہ رہے ہیں کہ ساس صاحبہ کو محسوس ہورہا ہے۔ لہٰذا عورتوں کو جلدی اور مردوں کو ذرا محنت زیادہ کرنی پڑتی ہے، پھر حاصل ہوتا ہے، کیونکہ مردوں کے ذہن میں انتشار ہوتا ہے، وہ مختلف کاموں پر مامور ہوتے ہیں، تو جو ان کے کام وغیرہ ہوتے ہیں، ان میں انتشار کی وجہ سے یکسوئی بہت کم ہوتی ہے۔ حضرت تھانوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں یکسوئی ہو، چاہے پاس ایک سوئی بھی نہ ہو، کیونکہ یکسوئی بہت بڑی نعمت ہے، جو ہمارے پاس نہیں ہے۔ اب بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم نماز پڑھتے ہیں، لیکن نماز میں ہمیں یکسوئی نہیں ہوتی۔ مجھے بتاؤ! نماز سے پہلے آپ کا جو Free time ہے، اس میں کبھی آپ نے یکسوئی کی کوشش کی ہے؟ نہیں۔ تو کیا نماز میں automatically یکسوئی ہوجائے گی، بلکہ نماز میں تو وہی ہوگا جو آپ باہر کررہے ہیں اور جو باہر کررہے ہیں، وہی نماز میں سامنے آئے گا۔ اسی لئے کہتے ہیں کہ مسجد میں پانچ دس منٹ پہلے جاکر چار رکعت پڑھ لیا کرو اور تحیۃ المسجد کی نیت بھی اس میں کرلو، اس سے آپ کے فرضوں کی حفاظت ہوجائے گی، کیونکہ جو انتشار ہے، وہ اسی میں ختم ہوجائے گا تو فرض آپ کے زیادہ بہتر ہوجائیں گے۔ بہرحال ان چیزوں پر محنت کی ضرورت ہے، محنت کرنی پڑے گی۔ لہٰذا آپ اس کو جاری رکھیں، جیسا کہ میں نے بتا دیا ہے کہ ان شاء اللہ! اپنے وقت پر ساری چیزیں ہوجائیں گی۔
سوال نمبر 8:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ میں فلاں UK سے ہوں، میرا ذکر دو سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘، چار سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘، چھے سو مرتبہ ’’حَقْ‘‘ اور ڈھائی ہزار مرتبہ ’’اَللّٰہ‘‘ ہے۔ ہر روز ذکر اور منزل ہوئی ہے، سوائے ایک دن کے، جس میں دونوں نیند کی وجہ سے مجھے پتا تھا کہ نہیں ہوں گے، اس لئے میں سو گیا، ورنہ ساری رات مجھ سے نہ ہوتے اور نیند بھی خراب ہوتی، اس کے علاوہ ایک دو دن منزل پوری نہیں ہوئی۔ اس کے بعد اَلْحَمْدُ للہ! صحبت صالحین کے ساتھ بھی ذکر ہوا ہے۔ اور ذکر کے بعد مجھے کبھی جوش آتا ہے اور کبھی تھکاوٹ ہوتی ہے۔
جواب:
ٹھیک ہے، احوال تبدیل ہوتے رہتے ہیں، کبھی کیا حال ہوتا ہے تو کبھی کیا حال ہوتا ہے، بس آپ ماشاء اللہ! اس کو جاری رکھیں۔ اصل بات یہ ہے کہ ہم لوگوں کو خیر کی طرف بڑھنا چاہئے، اگر تھکاوٹ ہو تو ایسے وقت میں ذکر کریں جس میں تھکاوٹ نہ ہو، مثال کے طور پر اکثر لوگ عشاء کے بعد ذکر کرتے ہیں اور عشاء کے بعد تھکاوٹ ہوتی ہے، اس لئے ایسے وقت میں ذکر ہونا چاہئے جو Fresh time ہو، تاکہ پھر یہ مسئلہ نہ ہو۔ لہٰذا آپ بہترین وقت اس کو دیں گے تو بہترین نتائج آئیں گے اور آپ تھکاوٹ والا وقت دیں گے تو پھر اسی کے حساب سے نتیجے آئیں گے۔
سوال نمبر 9:
السلام علیکم۔ میرا ذکر پندرہ منٹ لطیفۂ قلب، دس منٹ لطیفۂ روح پر ہے، ذکر کو ایک ماہ سے زیادہ ہوگیا ہے، دونوں لطیفوں پر ’’اَللّٰہُ اَللّٰہ‘‘ محسوس ہوتا ہے۔ کل ذکر کرتے ہوئے مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے کوئی ہاتھ میری طرف بڑھ رہا ہو اور اس کے ہاتھ میں خوشبو کی شیشی ہو اور مجھے خوشبو محسوس بھی ہوتی ہے۔ آگے کے لئے رہنمائی فرمائیں۔
جواب:
سبحان اللہ! یہ بڑی اچھی حالت ہے۔ اب آپ اس طرح کرلیں کہ دس منٹ لطیفۂ قلب پر، دس منٹ لطیفۂ روح پر اور پندرہ منٹ لطیفۂ سر پر مراقبہ شروع کرلیں اور باقی تیسرا کلمہ، درود شریف، استغفار کی سو سو دفعہ تسبیحات اور ساتھ نماز کے بعد والا ذکر بھی جاری رکھیں۔
تنبیہ:
یہ باتیں آپ مجھے اس نمبر پر نہ بھیجا کریں، کیونکہ یہ نمبر صرف اور صرف سوال و جواب کا ہے، اس میں پوسٹر لگانے والی باتیں نہیں ہونی چاہئیں، چاہے وہ کتنی ہی اچھی پوسٹ ہو۔ میں اس کا مخالف نہیں ہوں، لیکن ہر چیز کی اپنی جگہ ہوتی ہے، اس لئے جس جگہ پر جو کچھ رکھنا ہو تو اس کو وہیں رکھنا چاہئے۔ یہ چونکہ سوال و جواب کی جگہ ہے، تو اس میں آپ اس جگہ کو نہ استعمال کریں، البتہ اگر مجھے بھیجیں تو میرے Personal number پر بیشک بھیج دیا کریں۔ یہ میرا خانقاہ والا نمبر ہے۔
سوال نمبر 10:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
I pray you are keeping well حضرت جی. This is Zakaria. I am still doing my monthly علاجی ذکر but wanted to send my معمولات چارٹ for last month and also to ask a question. When we meet new people at work they often extend their hands for a handshake. I try my best to avoid it but recently a woman grabbed my wrist and this happened twice. I felt horrible afterwards. I am used to shaking hands with Muslims. That day, I accidently put my arm out on both occasions. How should we act in such a situation to avoid shaking hands with females?
جزاک اللہ خیراً. Kindly remember me in your duas.
جواب:
اصل میں بات یہ ہے کہ جس چیز کا جو موقع ہوتا ہے، اس کے لحاظ سے عمل کرنا چاہئے۔ ان لوگوں کی چونکہ ان چیزوں سے واقفیت نہیں ہوتی، اس لئے وہ ان چیزوں کا برا مانتے ہیں۔ اور انگلینڈ میں تو اس قسم کی باتیں ہوتی ہیں، اس لئے آپ ذرا پہلے سے دیکھ لیں۔ مثلاً آنکھوں میں جو rodes ہیں، یہ بھی اللہ پاک کی نعمت ہیں اور جو cones ہیں وہ بھی اللہ پاک کی نعمت ہے۔ cones کے ذریعہ سے انسان ایک چیز کو بالکل واضح طور پر دیکھ پاتا ہے اور rodes سے صرف محسوس ہوتا ہے کہ کون ہے، کیا ہے یعنی صرف محسوس ہوجاتا۔ اور عورتوں کا لباس چونکہ مختلف ہوتا ہے اور مردوں کا مختلف ہوتا ہے، اس لئے پتا چل جاتا ہے۔ لہٰذا اگر آپ پہلے سے معلوم کرلیں کہ کوئی عورت ہے تو اس وقت صرف Good morning پر اکتفا کر لیا کریں یا Good eveneing یا پھر جو بھی اس وقت ہو، اس کے لحاظ سے کرلیں، لیکن ہاتھ نہ ملائیں۔ البتہ مردوں کو بیشک آپ ہاتھ ملائیں۔ لہٰذا پہلے سے آگاہی حاصل کرلیا کریں اور پھر اس کے بعد عمل کرلیا کریں، کیونکہ واقعتاً ایسا ہوجاتا ہے کہ انسان غلط فہمی میں بعض دفعہ سمجھتا ہے کہ شاید یہ general بات ہوگی اور وہ اس کے حساب سے کرلیتا ہے، لیکن وہ special موقع ہوتا ہے، اس لئے تھوڑی سی آگاہی پہلے حاصل کرکے عمل کیا جائے تو پھر کوئی مسئلہ نہیں۔ باقی اگر غلطی سے ایسا ہوجائے تو استغفار کرلیا کریں اور آگے بڑھ جائیں۔
سوال نمبر 11:
السلام علیکم۔ حضرت! میں نے جب پردہ شروع کیا تو خواب میں دیکھا تھا کہ ایک سانپ ہے، تو میں اپنی دوست سے کہتی ہوں کہ اس کو مارو، تو وہ مار دیتی ہے، پھر میں دیکھتی ہوں تو کچھوا ذبح ہوا ہوتا ہے۔ پھر دوبارہ خواب میں دیکھا کہ ایک کچھوا ہے اور وہ گندے پانی کی نالی میں جارہا ہے، میں اس کو دیکھ رہی ہوں اور کسی اور کو بھی دکھا رہی ہوں اور تھوڑی ہنس بھی رہی ہوں۔
نمبر 2: حضرت! مجھے سانپوں سے بہت زیادہ خوف آتا ہے، حالانکہ میں نے شاید کبھی حقیقت میں سانپ دیکھا بھی نہیں ہوگا، لیکن پھر بھی کوئی دن ایسا نہیں کہ جب مجھے اس کا خیال نہ آتا ہو اور میں خوف میں مبتلا نہ ہوتی ہوں اور خوابوں میں بھی میں اپنے دشمنوں کو سانپ کی صورت میں دیکھتی ہوں۔
نمبر 3: ابھی بھی خواب میں سانپ دیکھا ہے۔
نمبر 4: حضرت! میری بھابھی سے تھوڑی Cold war طرح کی صورت رہتی ہے، وہ کوئی ایسی حرکت کردے، جس پر مجھے سخت تنگی ہوتی ہے، تو میں پہلے تو کوشش کرتی تھی کہ بدلے میں کچھ نہ کروں، لیکن وہ باز آنے کے بجائے پھر کردیتی ہے۔ لہٰذا اب میں انہیں سبق سکھانے کے لئے بدلے میں کچھ ویسے ہی کردیتی ہوں یا کچھ سنا بھی دیتی ہوں، تاکہ وہ باز آجائیں۔ ان پر مہربانی کرنے کو تو میرا دل بالکل نہیں کرتا۔ جب امی مجھے کوئی کام کہتی ہیں اور میں بچوں کے ساتھ ہوں تو میں امی کو کہہ دیتی ہوں کہ اس کو کیوں نہیں کہتیں؟ وہ کہتی ہے میں کیوں کروں؟ اور پھر خود لگ جاتی ہوں، لیکن پھر اس پر مزید غصہ آتا ہے کہ اس سے کام کم کرواتی ہیں، باقی خود کرتی ہیں یا مجھے کہتی ہیں۔
جواب:
یہ باتیں تو گھروں میں ہوتی رہتی ہیں یعنی یہ چیزیں عورتوں کے درمیان چلتی رہتی ہیں، اس لئے اس میں انسان کو بس اپنے آپ کو بچانا ہوتا ہے، باقی لوگوں کے ساتھ کوئی کچھ نہیں کرسکتا، کیونکہ یہ چیز جلدی ٹھیک نہیں ہوتی۔ اگر آپ اور لوگوں کو ٹھیک کرنا چاہیں گی تو شاید ہمیشہ پریشان رہیں گی، لیکن اگر اس سے آپ یہ سبق لے کر خود اپنے آپ کو ٹھیک کرنا چاہیں گی تو آپ کامیاب ہوجائیں گی۔ لہٰذا جس چیز پر آپ کو کسی دوسرے پر غصہ آتا ہے کہ وہ ایسا کیوں کرتی ہے تو اس کام کو چھوڑ دیا کریں یعنی وہ کام خود نہ کیا کریں، اس سے ماشاء اللہ! آپ کی اصلاح ہوجایا کرے گی۔ کہتے ہیں کہ کسی نے پوچھا کہ آپ نے عقل کس سے سیکھی؟ انہوں نے کہا بیوقوفوں سے یعنی بیوقوف جو کام کرتے ہیں، میں وہ نہیں کرتا۔ لہٰذا دوسروں کی جن چیزوں پر آپ کو غصہ آتا ہے تو آپ سمجھیں کہ یہ کام برا ہے اور جب برا ہے تو آپ خود کیوں کریں۔ بس آپ اس کو اپنے لئے یہ assignment سمجھیں کہ جو کام کوئی غلط کرتا ہے، میں خود ایسا نہیں کروں گی، مثلاً میں آپ کو بڑی مشکل assignment دیتا ہوں، اور یہ مشکل assignment میں اس لئے کہتا ہوں کہ واقعتاً عورتوں کے لئے یہ بڑا مشکل ہوتا ہے۔ اور وہ یہ ہوتا ہے کہ ایک عورت ہوتی ہے بہو، پھر اس نے بننا ہوتا ہے ایک دن ساس۔ اب اگر ساس نے جو اس پر ظلم کیا ہے، اگر یہ بہو کے ساتھ وہی کرے تو یہ عام عورت ہے اور ناکام عورت ہے، کیونکہ اس نے ایسی عورت سے اپنا بدلہ لے لیا جس نے اس پر ظلم نہیں کیا تھا یعنی اس نے دوسرے کا غصہ اس پر اتار دیا، اس لئے یہ ظلم ہے اور یہ ظلم میں مبتلا ہوگئی۔ اور جو عورتیں اپنے اوپر ظلم کرتی ہیں، یہ بھی ان لوگوں میں شامل ہیں، لیکن اگر اس نے اس سے سیکھا کہ میری ساس نے اپنی بہو کا خیال نہیں رکھا اور اس پر ظلم کیا تو میں اس سے سبق سیکھ کر اس پر (اپنی بہو پر) ظلم نہیں کروں گی تو یہ ایک کامیاب عورت ہے، ولیہ ہے یعنی آپ اس کو ولیہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ اللہ کی ولیہ ہے اور اس پر اللہ پاک اس کو بہت زیادہ اجر دے گا، کیونکہ انہی چیزوں پر اجر ملتا ہے، صرف نماز روزہ نہیں ہے، وہ تو ہے ہی، لیکن اس کے ساتھ یہ چیزیں یعنی اخلاق اور معاملات اور معاشرت وغیرہ ساری چیزیں ہوتی ہیں۔ لہٰذا یہ چیزیں عورتوں میں ہوتی ہیں، اس سے انکار نہیں، لیکن اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے اور فائدہ یہی ہے کہ آپ کو کسی بھی اپنے رشتہ دار عورت کی جو چیز بری نظر آجائے تو آپ خود اس سے بچنے کی کوشش کریں کہ میں یہ کام نہ کروں۔ اس سے ماشاء اللہ! آپ کے لئے بہت ہی زیادہ اصلاح کی صورت بنے گی۔ فی الحال میں یہی کرسکتا ہوں۔ باقی جہاں تک خواب ہے تو وہ آپ کے خیالات ہیں، جیسے آپ نے کہا کہ میں سانپوں سے بہت ڈرتی ہوں، اور جس چیز سے کوئی ڈرتا ہے تو خوابوں میں وہ چیز آتی ہے۔ اس لئے یہ آپ کے خیالات ہیں اور خیالات کے پیچھے نہیں جانا چاہئے، بس اپنی normal زندگی گزاریں۔
سوال نمبر 12:
السلام علیکم۔ حضرت! اس ہفتے ’’مکتوبات شریف‘‘ کے درس میں آپ نے سلسلے کی نسبت کے بارے میں بات کی تھی۔ کیا ہر ایک شخص کی نسبت الگ الگ ہوتی ہے؟ اور کیا ان کے لئے طریقے بھی الگ ہوتے ہیں؟
جواب:
جی ہاں، ہر شخص کی نسبت اپنی اپنی ہوتی ہے، اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ لہٰذا اگر کسی کو کسی کی نسبت کا پتا چل جائے اور اس طریقے سے اس کی تربیت ہو تو اس کو بہت فائدہ ہوتا ہے، اس لئے یہ مشائخ کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ لوگوں کو پہچان لیں اور اس طریقے سے ان کی تربیت کرلیں جس طریقے سے ان کو زیادہ فائدہ ہو۔ لیکن ایک بات اور بھی سن لیں کہ بطخ کے نیچے اگر مرغی کا انڈا رکھا جائے تو کیا نکلے گا، بطخ کا بچہ نکلے گا یا مرغی کا بچہ نکلے گا؟ مرغی کا بچہ۔ اسی طرح اگر کوئی نقشبندی نسبت کا ہے اور وہ چشتی بزرگ کے پاس چلا جائے اور ذکر و اذکار وہی چشتیوں کا کرے، لیکن نکلے گا وہ نقشبندی یعنی وہ نقشبندی نسبت والا ہوگا۔ جیسے میری مثال ہے کہ میرے شیخ چشتی نسبت کے تھے اور ایک دن مجھے فرمایا کہ پہلے مجھے خیال تھا، اب مجھے یقین ہوگیا ہے کہ آپ کی نسبت نقشبندی ہے اور بہت دعائیں دیں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو نقشبندی نسبت کا بہت فائدہ پہنچائے، یہ کرلیں، وہ کرلیں۔ تو میں بڑا خوش ہورہا تھا کہ دیکھو! ایک چشتی نقشبندی کے لئے دعائیں کررہے ہیں، یہ اخلاص ہے، یہ نہیں کہ ہمارا سلسلہ سب سے اچھا ہے اور باقیوں کو نیچا دکھائیں، نہیں، یہ والی بات نہیں ہے یعنی ہمارے شیخ نے ہمیں دکھا دیا کہ چشتی ہوکر نقشبندی ہونے پر خوش ہونا ہے اور اس کے لئے دعائیں کررہے ہیں۔ جبکہ مجھے حضرت نے جو بھی اذکار دیئے تھے، وہ چشتیوں والے تھے، نہ مجھے مراقبہ دیا تھا، نہ مجھے کوئی اور چیز دی تھی، لیکن جس چیز نے ہونا تھا، اس نے خود بخود ہی ہونا تھا۔ اس وجہ سے آپ اس کی فکر نہ کریں، بس اگر شیخ نے آپ کو پہچان لیا اور آپ کی کوئی خاص طریقے سے تربیت شروع کی تو ٹھیک ہے، بس اس کے لئے بہت بڑی بات ہے، ورنہ اللہ تعالیٰ آپ کو ادھر ہی لے جائیں گے، جس کے لئے آپ بنائے گئے ہوں گے۔
سوال نمبر 13:
حضرت السلام علیکم
Question about ذکر. I have been reciting Allah Allah five thousands times followed by یَا اَللہ یَا سُبْحَانُ یَا عَظِیْمُ یَا رَحْمٰنُ یَا رَحِیْمُ یَا وَھَّابُ یَا وَدُوْدُ یَا کَرِیْمُ یَا شَافِیُ یَا سَلَامُ یَا کَرِیْمُ hundred times followed by ‘‘یَا اَرْحَمَ الرّٰحِمِیْنَ’’ ten times and thirteen تسبیحات two hundred + four hundreds + six hundreds + hundred. Besides ذکر, I am doing مراقبہ on five points together with مراقبہ صفات ثبوتیہ. The feeling I received from this مراقبہ is that Allah سبحانہ وتعالیٰ is the ultimate controller of everything and we are helpless before His decisions. However, upon doing the above ذکر and مراقبہ I am exhausted and don’t have enough energy to concentrate on مجاہدہ due to weak nerves. Currently, I have restarted مجاہدہ of غض بصر lowering of gaze and try to prolong it from thirty minutes to one hour to enhance its effectiveness. Kindly advise. جزاک اللہ
جواب:
بات یہ ہے کہ غضِ بصر کا حکم اللہ نے دیا ہے اور دفع مضرت جلب منفعت سے زیادہ اہم ہے۔ اور جب یہ صورتحال ہے تو آپ غض بصر کا جو مجاہدہ ہے، اس کو نہ چھوڑیں، باقی ان اذکار میں اگر آپ کچھ کم کرسکتے ہیں تو بیشک کم کرلیں۔ مثال کے طور پر یہ جو آپ اللہ پاک کے نام لے رہے ہیں Hundred, hundred times فی الحال اس کو بیشک آپ کم کرلیں، آپ اس کو half کرلیں یعنی پچاس پچاس دفعہ کرلیں، لیکن غض بصر والا مراقبہ اس کو کمزور نہ ہونے دیں، کیونکہ یہ اہم چیز ہے یعنی انسان گناہوں سے بچ جائے یہ بہت اہم کام ہے، لہٰذا اس کے لئے کوشش کرلیں، باقی یہ چیزیں وقت کے ساتھ ساتھ ٹھیک ہوتی جائیں گی، اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ مدد فرمائے۔
سوال نمبر 14:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
نمبر 1: لطیفۂ قلب دس منٹ، لطیفۂ روح پندرہ منٹ ہے اور محسوس ہوتا ہے، اَلْحَمْدُ للہ!
جواب:
اب اس کو لطیفۂ سر کا مراقبہ دے دیں۔
نمبر 2: لطیفۂ قلب پندرہ منٹ ہے اور محسوس نہیں ہوتا۔
جواب:
اس کو بیس منٹ کا کرلیں۔
نمبر 3: سو مرتبہ درود شریف پڑھتی تھی، اب بڑی ہوگئی ہے۔
جواب:
ماشاء اللہ! اب اس کو تین سو مرتبہ کرلیں۔
نمبر 4: کلمۂ تمجید، درود شریف، استغفار سو سو مرتبہ ہے، اور اسے مہینہ مکمل ہوگیا ہے۔
جواب:
کلمۂ تمجید، درود شریف، استغفار سو سو دفعہ تو جاری رکھیں اور نمازوں کے بعد والا بھی کریں اور ساتھ پانچ منٹ کے لئے ان کو دل والا ذکر دے دیں۔
نمبر 5: لطیفۂ قلب دس منٹ، لطیفۂ روح دس منٹ، لطیفۂ سر دس منٹ، لطیفۂ خفی پندرہ منٹ ہے۔ پہلے تین لطائف پر محسوس ہوتا تھا، لیکن جب چوتھا لطیفہ ملا تو کچھ ناغے ہوئے۔ اب ایک لطیفہ بھی محسوس نہیں ہوتا۔ جواب:
یہ ناقدری کی بات ہوتی ہے، اس کو کہہ دیں کہ استغفار کرلیں اور ناغے سے بچیں اور پھر ابتدا سے شروع کرلیں۔
نمبر 6: تمام لطائف پر دس منٹ ذکر اور مراقبہ تجلیات افعالیہ پندرہ منٹ ہے اور یہ محسوس ہوتا ہے کہ جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ اللہ ہی کرتے ہیں۔
جواب:
سبحان اللہ! ابھی تمام لطائف پر دس دس منٹ جاری رکھیں اور مراقبہ صفات ثبوتیہ کا ان کو بتا دیں۔
نمبر 7:
لطیفۂ قلب دس منٹ، لطیفۂ روح پندرہ منٹ ہے اور محسوس ہوتا ہے۔ جواب:
اَلْحَمْدُ للہ! اب اس کو تیسرا لطیفہ بتائیں۔
نمبر 8: لطیفۂ قلب پندرہ منٹ ہے اور محسوس نہیں ہوتا۔
جواب:
اس کو بیس منٹ کرلیں۔
نمبر 9: لطیفۂ قلب دس منٹ، لطیفۂ روح دس منٹ، لطیفۂ سر دس منٹ، لطیفۂ خفی پندرہ منٹ ہے اور تمام لطائف پر ذکر محسوس ہوتا ہے، لیکن پھر بھی بہت بیمار ہیں، مدرسہ بھی چھوٹ گیا تھا اور ذکر بھی۔ اب وہ تندرست ہوگئی ہے اور دوبارہ ذکر شروع کرنا چاہتی ہے۔
جواب:
جہاں چھوڑا تھا، وہیں سے شروع کرلے۔
نمبر 10: تمام لطائف پر دس دس منٹ ذکر اور مراقبۂ احدیت پندرہ منٹ ہے، اور محسوس ہوتا ہے، لیکن مدرسہ چھوڑ دیا تھا اور ذکر بھی چھوڑ دیا تھا، اب دوبارہ مدرسہ میں آئی ہے اور ذکر بھی دوبارہ شروع کرنا چاہتی ہے۔
جواب:
پہلے دو رکعت صلوٰۃ التوبہ پڑھ لیں اور استغفار کرلیں اور پھر اس کے بعد جہاں سے چھوڑا تھا وہاں سے ذکر شروع کرلیں۔
نمبر 11: تمام لطائف پر دس منٹ ذکر اور مراقبہ شان جامع پندرہ منٹ ہے۔ بالکل تسلی اور سکون مل گیا ہے، اس کے علاوہ اللہ کی ذات پر توکل بڑھ گیا ہے۔
جواب:
سبحان اللہ! اب ان کو مراقبۂ معیت بتا دیجئے گا۔
نمبر 12: لطیفۂ قلب دس منٹ، لطیفۂ روح پندرہ منٹ ہے اور دونوں پر محسوس نہیں ہوتا۔
جواب:
لطیفۂ قلب پندرہ منٹ کرلیں اور لطیفۂ روح بیس منٹ کرلیں۔
نمبر 13: تمام لطائف پر دس منٹ ذکر اور مراقبہ صفات ثبوتیہ پندرہ منٹ ہے۔ ذکر کے دوران پورا وجود ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ کا ذکر کرتا ہے۔
جواب:
مراقبہ صفات ثبوتیہ جو پندرہ منٹ کررہی تھی، اس کے بارے میں بتائیں کہ اس کا کیا اثر ہےَ
نمبر 14: تمام لطائف پر پانچ منٹ ذکر اور مراقبۂ دعائیہ ہے۔ تمام نماز کے وقت سکون سے پہلے وضو کرتی ہوں اور نماز کی منتظر رہتی ہوں، جب فارغ ہوتی ہوں تو اس کے بارے میں سوچتی ہوں کہ ایسی بات کروں جس سے میری زندگی میں تبدیلی آجائے۔ ذکر کے بغیر جو وقت گزر جائے اس پر بہت افسوس ہوتا ہے۔ شدید سر کے درد کی وجہ سے پندرہ دن تک مراقبہ نہیں کیا۔
جواب:
اللہ تعالیٰ اس کو صحت نصیب فرمائے۔ اگر ٹھیک ہوگئی ہے تو اپنا ذکر دوبارہ شروع کرلیں۔
نمبر 15: پہلے چاروں لطائف پر دس منٹ ذکر اور لطیفۂ اخفیٰ پر پندرہ منٹ ذکر ہے۔ تمام لطائف پر ذکر محسوس ہوتا ہے۔ اَلْحَمْدُ للہ!
جواب:
اب اس کو مراقبۂ احدیت بتا دیجئے گا۔
نمبر 16: لطیفۂ قلب دس منٹ، لطیفۂ روح پندرہ منٹ ہے اور دونوں پر ذکر محسوس ہوتا ہے، اَلْحَمْدُ للہ!
جواب:
ان کو تیسرا لطیفہ بتا دیں۔
نمبر 17: چالیس دن کا وظیفہ بلاناغہ پورا ہوگیا ہے۔
جواب:
اب ان کو تیسرا کلمہ، درود شریف، استغفار سو سو دفعہ اور دس منٹ کے لئے ذکر قلبی اور ساتھ نمازوں کے بعد والا ذکر بتا دیں۔
نمبر 18: تمام لطائف پر پانچ منٹ ذکر اور مراقبہ سورۃ اخلاص کے مفہوم کا فیض محسوس کرنا ہے۔ سارے وجود میں بس اللہ تعالیٰ کی صفات کو محسوس کرتی ہوں، ان صفات پر یقینی ادراک نصیب ہوا ہے۔ مراقبہ میں بہت محسوس کرتا ہوں، جب مراقبہ ختم ہوتا ہے تو دل پر رقت طاری ہوجاتی ہے اور رونا شروع ہوجاتا ہے۔
جواب:
سبحان اللہ! اب آیت الکرسی کا جو مضمون ہے، وہ ذہن میں رکھ کر اس کا مراقبہ کریں۔
نمبر 19: تمام لطائف پر دس منٹ ذکر اور مراقبہ شیونات ذاتیہ پندرہ منٹ ہے، محسوس نہیں ہوتا۔
جواب:
یہ دوبارہ جاری رکھیں۔
نمبر 20: ابتدائی وظیفہ بلاناغہ پورا کرلیا تھا اور لطیفۂ قلب پر دس منٹ ذکر ملا تھا، پھر مدرسہ چھوڑ دیا تھا اور ساتھ ہی ذکر بھی۔ اب دوبارہ ذکر کو جاری کرنا چاہتی ہے۔
جواب:
تو دوبارہ شروع کرلیں اور ان کو بتا دیں کہ ذکر کا تعلق مدرسہ کے ساتھ نہیں ہے، کوئی مدرسہ میں نہ بھی ہو تو بھی ذکر کرے گی یعنی مدرسہ میں بھی رہے اور ذکر بھی کرے اور اگر نہ بھی ہو تب بھی ذکر کرے۔
سوال نمبر 15:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت جی! میرا ذکر دو سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘، چار سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘، چھے سو مرتبہ ’’حَقْ‘‘ اور چودہ ہزار مرتبہ ’’اَللّٰہ‘‘ مکمل ہوگیا ہے۔ حضرت جی! آگے رہنمائی فرمائیں۔
جواب:
اب ساڑھے چودہ ہزار مرتبہ ’’اَللّٰہ‘‘ کرلیں ان شاء اللہ۔ باقی وہی رکھیں۔
سوال نمبر 16:
حضرت! کبھی انفرادی طور پر ذکر بالجہر کرتے ہوئے طبیعت پر کافی بوجھ آتا ہے، کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے، اس کی کیا وجہ ہوسکتی ہے؟
جواب:
کوئی وجہ نہیں ہے۔ اصل میں کیفیات اور احوال بدلتے رہتے ہیں، بعض دفعہ مختلف عوراض بوجھ بن سکتے ہیں۔ اور نماز بھی بعض اوقات بوجھ بن سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿وَاسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ وَاِنَّهَا لَكَبِیْرَةٌ اِلَّا عَلَى الْخٰشِعِیْنَ﴾ (البقرۃ: 46)
ترجمہ1: ’’اور صبر اور نماز سے مدد حاصل کرو نماز بھاری ضرور معلوم ہوتی ہے مگر ان لوگوں کو نہیں جو خشوع (یعنی دھیان اور عاجزی) سے پڑھتے ہیں‘‘۔
لیکن اس صورت میں بھی نماز پڑھنی پڑے گی۔ اسی طریقے سے جو علاجی ذکر ہے وہ کرنا پڑے گا، بیشک دل پر بوجھ ہو، لیکن یہ بات ہے کہ اس کی طرف جانے کے بجائے ہمت کرکے انسان کرلے تو وہ زیادہ بہتر ہے۔
سوال نمبر 17:
اگر روزانہ کسی ٹائم میں آدمی ذکر کرتا ہے، لیکن وقت تبدیل ہوجائے تو اس میں کوئی حرج تو نہیں؟
جواب:
وقت تبدیل ہونے کی دو وجوہات ہیں، ایک تو یہ کہ انسان وقت تبدیل کرے randomly کہ کبھی کس وقت تو کبھی کس وقت، یہ تو ٹھیک نہیں ہے، کیونکہ randomness یہ انسان کے لئے ناغے کا سبب بن جاتا ہے۔ دوسرا یہ کہ مثلاً کوئی شخص shift duty پر ہے، اب اگر وہ دن کی ڈیوٹی پر ہے تو رات کو ہی اس کو ٹائم مل سکتا ہے یا رات کی ڈیوٹی پر ہے تو اس کو دن میں ہی ٹائم مل سکتا ہے، لہٰذا اس کی وجہ سے جو ٹائم تبدیل کررہا ہے، اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے، اس لئے اگر organize تبدیلی ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، لیکن disorganized یعنی جو randomnly ہوتا ہے کہ کبھی کیا تو کبھی کیا یہ طریقہ ٹھیک نہیں ہے، اس سے ناغے کی صورت بنتی ہے۔
سوال نمبر 18:
کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کھانے کے بعد ذکر ہوتا ہے، یہ کیسا ہے؟
جواب:
کھانے کے بعد ذکر بتاتے ہیں کہ مناسب نہیں ہے، بلکہ بالکل خالی پیٹ بھی نہ ہو اور بالکل بھرے ہوئے پیٹ سے بھی نہ ہو۔ یہ ڈاکٹروں کی بات ہے، میری بات نہیں ہے یعنی ڈاکٹر فدا صاحب یہ کہہ رہے ہیں، کیونکہ یہ field بھی ہیں، ڈاکٹر بھی ہیں، لہٰذا اس مسئلہ میں بات ان کی صحیح ہے، کیونکہ انسان کی پھر توجہ نہیں بنتی، اس وجہ سے معتدل حالت میں ہو تو زیادہ بہتر ہے۔
سوال نمبر 19:
ذکر کا اشراق کے بعد مناسب وقت ہے؟
جواب:
ہاں اشراق کے بعد بالکل مناسب ہے، اس وقت ناشتہ بھی نہیں کیا ہوتا، یہ تو بہت مناسب ہے۔
سوال نمبر 20:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ آپ کی دعاؤں کے صدقے نماز، نوافل، تہجد، اوابین، اشراق، چاشت، قرآن کی تلاوت، ’’مناجات مقبول‘‘ ’’منزل جدید‘‘ ’’چہل درود شریف‘‘ درود تنجینا اور علاجی ذکر کی توفیق عطا ہوجاتی ہے، اَلْحَمْدُ للہ! مگر وہ استحضار اور اللہ تعالیٰ کی حضوری والی کیفیت نہیں رہتی۔ مسنون اذکار کرنے کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ ہر رکعت اطمینان کے ساتھ ادا کروں اور نوافل میں رکوع، قومہ، سجدہ اور جلسہ کی دعا کی کوشش ہوتی ہے اور یکسوئی محسوس ہوتی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ کی سنت شاید ادا ہوگئی ہو اور اللہ کا پیار حاصل ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم ہے کہ باوجود اس کے کہ میں اپنی غفلت والی زندگی یاد کرتا ہوں تو دل میں ایک ھوک سی اٹھتی ہے اور میں رو پڑتا ہوں اور آپ کا وہ جملہ بار بار یاد آتا ہے کہ اللہ اپنا ہاتھ ہمیشہ اوپر رکھتا ہے، اس جملے سے بہت ہمت ہوتی ہے اور اپنی کمی، کمزوری اور سستی کے باوجود اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا دل میں شکر کرتا ہوں۔ کبھی گھر والوں سے بات کرتے وقت دل کا دھیان خود بخود اللہ کی ستاری اور کریمی والے معاملہ کی طرف چلا جاتا ہے تو زار و قطار رو پڑتا ہوں، گھر والے سمجھتے ہیں کہ کوئی تکلیف یا چوٹ لگی ہے ہاتھ پیر میں، میں دوسرے کمرے میں چلا جاتا ہوں اور وہاں روتا ہوں، کبھی سجدہ میں روتا ہوں۔ اور شکر اور استغفار کرتا ہوں، ہر وقت ڈرتا ہوں خصوصاً نماز پڑھنے کے بعد اتنا ڈر لگتا ہے کہ اعمال میں ریا نہ ہوجائے، تو پھر کوئی ایسی بات دل سے کہتا ہوں یا زبان سے بولتا ہوں جس میں اپنی نفی ہوجائے۔ جماعت سے نماز پڑھنے سے قبل آپ کا وہ جملہ پاک یاد آتا ہے جو حضرت مجدد ملت رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا تھا کہ لوگ آج کل نظر پیچھے رکھتے ہیں، تو پھر آپ کی غائبانہ توجہ وغیرہ سے اپنی قرات وغیرہ کا خیال دور ہوجاتا ہے اور ڈر لگتا ہے کہ کہیں کوئی بدنظری نہ ہوجائے اور اللہ کی عطا کی ہوئی توفیقات سے محروم کردیا جاؤں۔ آپ کی پاک درگاہ اور خانقاہ میں تھوڑا سا وقت جب پیش ہونے کی توفیق نصیب ہوئی تو اس پر اللہ کا شکر ادا نہیں کرسکتا کہ آپ نے میری کتنی بے ادبی اور بد اخلاقیوں کو برداشت کیا۔ اس وقت مجھ سے لکھا نہیں جا رہا، جسم خوف سے ہل جاتا ہے کہ آپ مجھے معاف کردیتے ہیں۔ کاش! میں پہلے خانقاہ کا رخ کرتا، مگر دنیا کی ہوس نے اندھا کردیا تھا۔ اللہ رحم کرے کہ آپ کی ذات پاک کو نہیں پہچان سکا، اس لئے ناقدری ہوئی، اللہ کو کیسے پہچان سکتا ہوں؟ درود شریف پورے دن زبان پر جاری رکھتا ہوں اور دوسروں کو بھی کہتا ہوں کہ درود پڑھتے رہو۔ آقا ﷺ کی یاد غیر اختیاری طور پر ہوتی ہے اور دل چاہتا ہے کہ حاضری جلدی نصیب ہوجائے۔ سیرت النبی ﷺ کی کتابیں روزانہ مطالعہ کرنے کی توفیق ہوتی ہے۔ میرے اندر بد اخلاقی اور لوگوں کی غلط چیزوں پر سختی زیادہ ہے۔ مزاج میں نرمی کرنے میں آپ کی نصیحت اکثر یاد کرتا ہوں کہ ٹوکو نہیں، بس غلط کام دیکھو تو نیت کرو کہ ایسا خود نہیں کروں گا، اس کا فائدہ اَلْحَمْدُ للہ! بہت ہے۔ کل کچھ لوگ ملاقات کے لئے تشریف لائے تھے، میں نے ان کی خدمت کی جو ہوسکتی تھی، پھر دل میں آیا کہ یہ تو اس لئے کرتا ہے تاکہ تجھے اچھا سمجھیں، پھر جب مہمانوں کو رخصت کیا تو اللہ سے خوب معافی مانگی۔ آپ کو حضرت! فون کرنے میں ڈر لگتا ہے اور message کرنے میں بھی، مگر کیونکہ تین یا چار ہفتے ہوگئے کہ تحریری رابطہ نہیں ہوا، اس لئے اللہ کے فضل سے دل کو سمجھا کے عرض کردیا۔ اور بھی سوال دل میں ہیں مگر ہمت نہیں ہوتی کہ سوال کرکے آپ کو تکلیف دوں۔ آپ اَلْحَمْدُ للہ! انہی سوالات کا جواب اس ترتیب سے اس دن کی یا دوسرے دن کی مجلس میں عنایت کردیتے ہیں۔ ذکر ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ دو سو مرتبہ، ’’اِلَّا اللّٰہْ‘‘ چار سو مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ چار سو مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ چھے سو مرتبہ اور ’’اَللّٰہ‘‘ ڈھائی ہزار مرتبہ ہے۔ ذکر کی تعداد بڑھائی جاسکتی ہے، نیز کیا ’’حَقْ اَللّٰہ‘‘ کا ذکر کرسکتا ہوں؟ علاجی ذکر فجر کے بعد ادا ہوتا ہے اور باقی تسبیحات اور قرآن مجید، درود شریف کی کوشش رہتی ہے۔ اس کے علاوہ معاش اور تجارت کی مزید کوشش جاری ہے۔ دعا فرمایئے اللہ تعالیٰ مجھے تمام حقوق العباد کی رعایت کی توفیق عطا فرمائے اور احسن طریقہ سے اخلاص پر آنے کے ساتھ دعاؤں کی درخواست ہے۔
جواب:
ماشاء اللہ! دل خوش ہوا آپ کے حالات سن کے۔ البتہ اس میں کچھ چیزیں ایسی ہیں جن میں ذرا اعتدال کی ضرورت ہے۔ اور وہ یہ کہ انسان ریا کی نیت نہ کرے، بس یہ کافی ہے، کیونکہ ریا اختیاری عمل ہے، یہ غیر اختیاری طور پر نہیں ہوا کرتا۔ ہمیں حضرت یہی بتاتے تھے یعنی اگر کبھی میں نے حضرت کو کوئی بات بتائی تو حضرت نے فرمایا کہ جب تم نماز پڑھتے ہو تو کیا تمھیں خیال ہوتا ہے کہ چٹائیاں تجھے دیکھ رہی ہیں؟ میں نے کہا کہ نہیں، اس کی کیا ضرورت ہے۔ فرمایا: بس لوگوں کو بھی چٹائیاں سمجھو کہ وہ نہ تجھے کچھ دے سکتے ہیں، نہ تجھ سے کچھ لے سکتے ہیں، تو پروا کیوں کرتے ہو؟ لہٰذا لوگوں کی پروا نہ کرو مثبت لحاظ سے بھی، منفی لحاظ سے بھی۔ بس یہ کہہ دو کہ مجھے نہ کچھ دے سکتے ہیں، نہ مجھ سے کچھ لے سکتے ہیں۔ میں نے جو کچھ کرنا ہے، بس اللہ کے لئے کرنا ہے۔ لہٰذا بس اپنی نیت اور ارادہ اللہ تعالیٰ کے لئے رکھو۔ اور باقی جو اس قسم کے خیالات ہیں تو ٹھیک ہے یہ خیالات اچھے ہیں، لیکن چونکہ بعض دفعہ تھکا دیتے ہیں، اس لئے ان چیزوں کی پروا نہ کریں، بس اپنے کام سے کام لگائے رکھیں۔ اور ذکر فی الحال اتنا ہی مناسب ہے، بس آپ کوشش کرلیں کہ آپ کی جو معیشت والی بات ہے، وہ آپ کی جلد سے جلد درست ہوجائے، بالخصوص قرض والا جو معاملہ ہے، یہ بہت جلدی ادا ہوجائے، یہ بہت اہم بات ہے، کیونکہ حقوق العباد میں سب سے پہلے وہی آتا ہے جو کسی کا حق ہو کہ وہ اس کو دے دیا جائے۔ اس لئے ایسی چیزوں سے اجتناب کرنا چاہئے اور اپنے معاملات کو صاف رکھنا اور اس کو اپنے وقت پر اور صحیح طور پر ادا کرنا یہ بہت بڑی بات ہے۔ بالخصوص جو دیندار لوگ ہیں، ان کو تو میں کہتا ہوں کہ آپ کے ساتھ صرف اپنی ذات کی بات شامل نہیں ہے، بلکہ آپ کے ساتھ پورا ایک institute شامل ہے، مثلاً ایک دیندار آدمی اگر قرض لے اور پھر وقت پر نہ دے تو اس سے دین بدنام ہوتا ہے یعنی عام آدمی کی تو صرف ذات کو پریشانی ہوتی ہے کہ وہ کہتا ہے کہ بھائی! یہ آدمی اچھا نہیں ہے، بس کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ لیکن اگر ایک دیندار آدمی ہو وہ اگر کوئی اس قسم کی بات کرلے تو اس سے پھر نقصان ہوتا ہے۔ لہٰذا بس ان چیزوں کا خیال رکھیں اور باقی فی الحال ذکر اتنا ہی ٹھیک ہے۔ ان شاء اللہ العزیز! آپ اس کو جاری رکھیں۔
سوال نمبر 21:
’’اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ حضرت! میں درود شریف کے حوالے سے ایک بات پوچھنا چاہ رہا تھا کہ جس طرح ہمارے سلسلے کا درود شریف ہے ’’صَلَّی اللہُ عَلَی النَّبِیِّ الْاِمِّیِّ‘‘ اس میں آل محمد کا ذکر نہیں ہے، جبکہ میں نے کہیں پر پڑھا تھا کہ جب آپ ﷺ پر ہم درود شریف بھیجتے ہیں تو اس میں آل محمد کا ذکر ہونا بھی ضروری ہے۔ اس حوالے سے رہنمائی فرمائیں کہ جو ہمارا درود شریف ہے، اس میں آل محمد As such کا ذکر کیوں نہیں ہے؟
جواب:
جی ماشاء اللہ! ایسے درود پاک بہت زیادہ ہیں جن میں آل محمد کا ذکر ہے۔ ’’چہل حدیث شریف‘‘ میں قادری سلسلے کا جو عترت والا ہے وہ پڑھ سکتے ہیں یا جس درود شریف میں آل محمد کا ذکر ہے وہ پڑھ لیں۔ باقی اصل بات یہ ہے کہ ہمارے پاس جو ’’چہل حدیث شریف‘‘ ہے، جسے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے مرتب فرمایا تھا اور اس کا نام ’’زاد السعید‘‘ رکھا تھا یعنی ایک نیک بخت آدمی کا توشہ۔ اور اس میں پچیس صیغے ہیں درود پاک کے اور پندرہ سلام کے ہیں، ان پچیس میں بائیس میں آل کا لفظ ہے، تو اب یہ کتنے percent بن جاتا ہے اور یہ سب صحیح احادیث شریفہ ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی بڑی اہمیت ہے، جس میں آپ ﷺ کی آل کا ذکر شامل ہوجائے، باقی یہ تو صرف اختصار کے لئے ہے، ورنہ بعض درود پاک ایسے ہیں، جس میں آل کا بھی ذکر ہے اور صحابہ کا بھی ذکر ہے اور امھات کا بھی ذکر ہے یعنی تینوں کا اس میں ذکر ہے۔ اور جیسے درود ابراہیمی ہے اس میں بھی آل کا ذکر ہے۔ بہرحال آپ اگر قادری سلسلے والا درود شریف پڑھیں تو اس میں آل کا ذکر ہے، تو وہ آپ پڑھ سکتے ہیں۔ باقی جو درود شریف ہمارے اپنے سلسلے میں ہے تو وہ بھی اَلْحَمْدُ للہ! complete درود شریف ہے، اس درود میں بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے، لیکن یہ بات ہے کہ جو آپ نے آل والی بات کی ہے کہ وہ اس میں نہیں ہے۔ دراصل اس مسئلہ میں میں دیکھتا ہوں کہ بعض لوگوں کو اختصار والا چاہئے ہوتا ہے۔ چنانچہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ سے کسی نے پوچھا تھا کہ مختصر درود پڑھیں یا تفصیل والا پڑھ لیں؟ حضرت نے جواب دیا کہ وقت کے لحاظ سے اور جو کیفیت ہو اس کے حساب سے عمل کیا جائے یعنی اگر کیفیت یہ غالب ہو کہ میں زیادہ بہتر درود پڑھ لوں چاہے وہ تھوڑی تعداد میں ہوجائے تو پھر اس کا اتباع کیا جائے اور اگر چاہے کہ میں زیادہ تعداد میں پڑھ لوں تو پھر مختصر درود شریف پڑھ لیا جائے۔
بیعت:
’’اَشْھَدُ اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللہِ‘‘ یعنی میں شہادت دیتا ہوں نہیں کہ کوئی عبادت کے لائق مگر اللہ اور میں شہادت دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ میں توبہ کرتا ہوں تمام گناہوں سے، چھوٹے ہیں یا بڑے، معلوم ہیں یا نہیں، قصداً ہوئے یا خطا سے، ظاہر کے ہیں یا باطن کے۔ اے اللہ! میری توبہ قبول فرما، آئندہ کے لئے ان شاء اللہ! میں گناہ نہیں کروں گا، اگر غلطی سے ہوا تو فوراً توبہ کروں گا۔ میں بیعت کرتا ہوں آپ ﷺ سے آپ ﷺ کے خلفاء کے واسطہ سے اور ہاتھ میں ہاتھ دیتا ہوں حضرت صوفی محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے، حضرت سید تنظیم الحق رحمۃ اللہ علیہ کے، حضرت ڈاکٹر فدا محمد صاحب کے شبیر احمد کے واسطے سے اور اپنے آپ کو داخل کرتا ہوں سلسلہ چشتیہ میں، نقشبندیہ میں، قادریہ میں اور سہروردیہ میں۔ اے اللہ! میری بیعت کو قبول فرما۔ (آمین)
اب آپ ’’سُبْحَانَ اللهِ، وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ، وَلآ إِلٰهَ إِلَّا اللهُ، وَاللهُ أَكْبَرُ‘‘ تین سو دفعہ، ’’وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيْمِ‘‘ دو سو مرتبہ چالیس دن تک بلاناغہ کریں گے اور اس میں ناغہ نہیں کرنا، بس کوئی وقت اس کا مقرر کرلیں۔ اور ہر نماز کے بعد تینتیس بار ’’سُبْحَانَ اللهِ‘‘، تینتیس بار ’’اَلْحَمْدُ للهِ، چونتیس بار ’’اَللهُ أَكْبَرُ‘‘، تین دفعہ کلمۂ طیبہ، تین دفعہ درود ابراہیمی، تین دفعہ استغفار اور ایک دفعہ آیت الکرسی ہر نماز کے بعد عمر بھر رہے گا اور پہلا چالیس دن کے بعد بدل جائے گا، لیکن آپ نے پھر مجھے اطلاع کرنی ہے۔ دیکھو! دنیا میں ہمارے سلسلے کے اندر اللہ تعالیٰ نے ایک کشش رکھی ہے کہ کوئی شخص بعض دفعہ احوال کی وجہ سے، کسی کمپنی کی وجہ سے بہت دور چلا جاتا ہے، لیکن پھر خود بخود واپس آتا ہے اور کافی عرصہ بعد واپس آتا۔
اصل میں اللہ جل شانہٗ کے ہاتھ میں سارے مسائل ہیں، لوگوں سے آپ مسائل کا حل ڈھونڈیں گے تو نہیں ہوسکتا، اللہ تعالیٰ ہی مسائل حل کرتے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ جو سلاسل کی بات ہوتی ہے، یہ اللہ تعالیٰ کی ایک عجیب مہربانی ہے اس کے ساتھ، مثلاً ایک آدمی کی دعا اور ایک پورے سلسلے کی دعا کیا برابر ہوسکتی ہے؟ جس سلسلے میں آپ ﷺ بھی ہوں، صحابہ بھی ہوں، تابعین بھی ہوں، تبع تابعین بھی ہوں، پھر اس کے بعد، پھر اس کے بعد، پھر اس کے بعد یعنی سارے سلسلے کی بات ہوجاتی ہے، اگرچہ ہم تو کمزور لوگ ہیں، لیکن ہمارے شیخ مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ایک دفعہ یہ عجیب بات عرض کی کہ ایک صاحب تھے جو بیعت ہوگئے، پھر بعد میں کسی کے بہلانے پھسلانے پر نکل گئے، یہ تو کوئی بات نہیں، کیونکہ ایک آدمی کی مناسبت نہ ہو تو یہ کوئی غلط بات نہیں ہے۔ خیر وہ نکل گئے، لیکن ایک دن انہوں نے خط بھیجا کہ حضرت! مجھے اپنی بیعت سے نکال دیں، حضرت نے فرمایا اچھا نکال دیا، کیونکہ اس میں اس کی general بات تھی، لیکن پھر اس کے بعد سب سے زبردست بیوقوفی جو اس سے صادر ہوئی، وہ یہ ہوئی کہ کچھ عرصہ بعد خط لکھتا ہے کہ مجھے اپنی دعا سے بھی نکال دیں۔ حضرت نے کہا کہ اچھا نکال دیا۔ اس کے بعد خاموشی ہوگئی۔ بارہ سال کے بعد اچانک اس کا خط آیا اور جیل سے بتایا کہ حضرت! میرا سارا خاندان تباہ ہوگیا لڑائیوں میں (جو خاندانی لڑائیاں ہوتی ہیں) زمین ساری بک گئی ہے اور میں جیل میں ہوں، کچھ مر گئے ہیں ہمارے، اور کچھ لوگ جیل میں ہیں اور مجھے ابھی پتا چل رہا ہے کہ یہ سب میری اس ناقدری کی وجہ سے ہوا ہے، جو آپ کے ساتھ ہوئی تھی، مجھے معاف کردیں۔ حضرت کو جب یہ خط مل گیا تو حضرت نے فرمایا کہ افسوس کاش ان کو کوئی سمجھا دیتا اور فرمایا ہم کچھ بھی نہیں ہیں، لیکن جن کے ہاتھ میں ہم ہاتھ دلواتے ہیں وہ بڑے لوگ ہیں، اللہ ان کی لاج رکھتا ہے، کاش ان کو کوئی سمجھاتا تو ایسا حال ان کا نہ ہوتا۔ لہٰذا یہ سلسلے کا جو زور ہے یہ معمولی چیز نہیں ہے۔ مجھے ایک خاتون کا ٹیلی فون آیا جو بیعت ہوگئی تھی، پہلے وہ بینک میں کوئی منیجر تھی، لیکن بینک کو چھوڑ دیا کہ سود کا معاملہ ہے، تو میں اس کی اس وجہ سے قدر کرتا تھا کہ یہ اس نے بہت بڑی قربانی کی ہے۔ تو جب فون آتا تو میری طبیعت تو نہیں مانتی تھی کہ دفتر میں مجھے کوئی فون کرے، لیکن اس نے جو قربانی کی تھی، اس کی وجہ سے میں اس کو discourage نہیں کرتا تھا۔ خیر مختصر بات کرکے میں بند کر دیتا تھا، ایک دن اس نے کہا کہ میں نے خواب دیکھا ہے کہ میں خواب میں دیکھتی ہوں کہ آپ کو میں نے فون کیا اور آپ نے مجھے کہا کہ کیا میں تمھارے لئے دفتر میں بیٹھا ہوں؟ خبردار! دفتر میں کوئی فون نہ کرے، آئندہ کے لئے آپ دفتر میں بات نہ سنانا، بہرحال آپ نے مجھے ڈانٹ دیا۔ پھر میں نے کہا بی بی! بات یہ ہے کہ اب میرے ہاتھ سے یہ معاملہ نکل گیا ہے، کیونکہ شیخ کی بات سلسلے کی بات ہوتی ہے یعنی اب آپ کو سلسلے نے منع کردیا ہے، اب یہ میرے بس سے نکل گیا، اب میں آپ کو واپس نہیں لا سکتا، لہٰذا اب مجھے دفتر میں بالکل فون نہ کریں، یہ مناسب نہیں ہے۔ خیر ایسا ہوا کہ پھر وہ دفتر میں فون نہیں کرتی تھی، لیکن جب گھر میں ٹائم ہوتا تو اس میں فون کرتی اور بڑی لمبی بات کرتی، جیسے ان کی عادت تھی، یہ چونکہ میری طبیعت کے خلاف والی بات تھی، اس لئے پھر میں نے اس سے کہا کہ اپنی بہن سے فون کا طریقہ سیکھو، چونکہ اس کی بہن ڈاکٹر تھی، اور وہ بہت مختصر بات کرتی تھی، تھوڑی دیر بعد اس کی بہن کا فون آگیا، اس نے کہا کہ وہ مجھ سے فون پر پوچھ رہی ہے کہ میں فون کیسے کروں؟ تو کیا بتاؤں؟ اس کو میں نے کہا کہ آپ مجھے مختصر فون کرتی ہیں یا تفصیلی کرتی ہیں؟ کہتی ہے مختصر۔ میں نے کہا اس کو یہی سمجھاؤ۔ خیر پھر بعد میں جب مجھے فون کرتی تو عادت کے مطابق تو لمبی ہوتی، لیکن میں تین منٹ کا موقع اس کو دیتا اور تین منٹ جب ہوجاتے تو میں کہتا السلام علیکم۔
خیر سلسلے کی جو بات ہوتی ہے وہ بڑی لمبی ہوتی ہے، بہت آگے کی بات ہوتی ہے، اس وجہ سے آپ اس میں پناہ ڈھونڈ لیں اور کسی سے کچھ بات نہ کریں اور اللہ کے ساتھ مشغول رہیں۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ
۔ (آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب)
نوٹ! تمام آیات کا ترجمہ آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم سے لیا گیا ہے۔