اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال نمبر 1:
السلام علیکم۔ حضرت جی! میں نے دو بار یہ ذکر شروع کیا ہے، مگر حالات ایسے بن جاتے ہیں کہ پھر رہ جاتا ہے، میں پریشان ہوں کہ ایسا کیوں ہے؟ ذکر یہ ہے ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ دو سو مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ چار سو مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ چھے سو مرتبہ اور ’’اَللّٰہ‘‘ ساڑھے چار ہزار مرتبہ۔
جواب:
دراصل کوئی بھی کام ہمت کے بغیر نہیں ہوتا۔ ہماری پشتو میں کہتے ہیں ’’که روټۍ خوړل آسان دی خو نوړۍ جوړول غواړی‘ (اگرچہ کھانا کھانا آسان ہے، لیکن نوالہ بنانا پڑتا ہے) لہٰذا اس میں ہمت تو کرنی پڑے گی، بغیر ہمت کے کوئی بھی چیز حاصل نہیں ہوتی، اس لئے آپ ہمت کرکے دیکھیں اور اس کو دوائی سمجھیں، اس کو کھانا نہ سمجھیں، کیونکہ کھانے کے بغیر گزارا ہوجاتا ہے، لیکن دوائی کے بغیر گزارا نہیں ہوتا، اس لئے آپ اس کو دوائی سمجھیں اور اس کو پابندی کے ساتھ ہمت کرکے کریں، پھر یہ چیزیں آہستہ آہستہ آسان ہوجاتی ہیں۔
سوال نمبر 2:
دو سو، چار سو، چھے سو اور پندرہ سو والا ذکر مکمل ہوگیا ہے، اگلا ذکر ارشاد فرمائیں۔
جواب:
اب آپ دو سو، چار سو، چھے سو اور دو ہزار مرتبہ کریں۔
سوال:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت جی! آپ نے جو ذکر دیا ہے وہ روزانہ کررہا ہوں، البتہ کبھی نیند کا یا تھکن کا غلبہ ہو تو مختصر ذکر کرلیتا ہوں اور پھر اگلے دن پورا ذکر کرلیتا ہوں، اگرچہ ایسا کم ہی ہوتا ہے۔ مجموعی طور پر پچھلے مہینہ کی نسبت نیند اور تھکن کا غلبہ کم ہورہا ہے۔ عشاء اور فجر میں جو کاہلی پہلے تھی اس میں بھی اَلْحَمْدُ للہ! بہتری آئی ہے، البتہ تہجد کے لئے پہلے اٹھ جاتا تھا، لیکن اب کئی ہفتوں سے اٹھ نہیں پاتا۔ حقیقت میں جو کوشش فرض نماز کے لئے کرتا ہوں، ویسی کوشش تہجد میں اٹھنے کے لئے نہیں کرتا اور فی الحال تو یہ ایک مشکل امر لگتا ہے، لیکن رمضان المبارک میں سحری اور تہجد میں کوئی مشکل نہیں تھی۔ قلبی احوال بظاہر تو بہتری کی طرف محسوس ہو رہے ہیں کہ دنیا سے کچھ بے رغبتی اور آخرت کی طرف کچھ توجہ ہوئی ہے، اَلْحَمْدُ للہ! البتہ دل کے گناہ مثلاً بغض، تکبر، کینہ، غصہ، لہو ولعب اور بدخواہی وغیرہ میں مبتلا ہوں، یہ ایسے غیر محسوس انداز میں ہوتے ہیں کہ ان میں مبتلا ہونے کا احساس بھی نہیں ہوتا۔ خانقاہ میں آپ کی مجلس میں جب ان کا ادراک ہوتا ہے تو سوچتا ہوں کہ کتنے سنگین اعمال کا ارتکاب کررہا ہوں۔ اللہ پاک تمام ظاہری اور باطنی گناہوں سے خلاصی نصیب فرمائے۔ (آمین)
جواب:
ماشاء اللہ! یہ بھی اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ آپ کو ان چیزوں کا ادراک ہوگیا ہے، کیونکہ ادراک ہونا بھی بہت بڑی بات ہے، اس لئے کہ پہلے احساس ہوتا ہے، پھر احساس کے بعد ہمت اور کوشش ہوتی ہے، پھر کوشش کے بعد کامیابی ہوتی ہے۔ لہٰذا ابھی آپ احساس کی صورت میں تو آگئے ہیں، اب ہمت اور کوشش کی صورت میں آپ کو جانا ہوگا، تبھی کامیابی ملے گی، ان شاء اللہ! باقی جیسے آپ ماشاء اللہ! جانتے ہیں کہ ہر چیز کا inertia ہوتا ہے، اور اس inertia کو break کرنے کے لئے کوئی کام کرنا پڑتا ہے یعنی اس کے مخالف کام کرنا پڑتا ہے، مثلاً اگر کھڑی چیز ہے تو inertia break کرنے کے لئے اس کو چلانا پڑتا ہے اور اگر چلی ہوئی چیز ہے تو روکنے کے لئے اس کو روکنا پڑتا ہے، پھر وہ رکتی ہے۔ اس وجہ سے inertia کو توڑنا پڑتا ہے۔ لہٰذا جیسے کہ آپ فرما رہے ہیں کہ اَلْحَمْدُ للہ! جو کاہلی پہلے تھی اس میں آہستہ آہستہ بہتری ہو رہی ہے۔ یہ اصل میں inertia break ہو رہی ہے۔ اس لئے آپ اپنی ہمت جاری رکھیں، ان شاء اللہ العزیز! یہ سب کچھ ہوجائے گا۔ باقی اگر آپ تہجد فی الحال نہیں پڑھ سکتے تو ابھی آپ عشاء کی نماز کے بعد والی سنتوں کے بعد چار رکعت پڑھ کر پھر وتر پڑھ لیا کریں اس نیت سے کہ تہجد کی عادت آپ کو اللہ تعالیٰ نصیب فرمائے اور ہمت اور کوشش بھی کرلیا کریں۔ امید ہے ان شاء اللہ! آہستہ آہستہ اس طرف بھی امکان ہوجائے گا۔ بہرحال جن رذائل کا آپ کو احساس ہوگیا ہے، ان رذائل کا علاج ضروری ہے، اور اب ماشاء اللہ! آپ اس کی طرف متوجہ ہوجائیں گے، البتہ پہلے اپنے ذکر کو باقاعدہ کرلیں، پھر جب ایک کیفیت حاصل ہوجائے گی تو اس کے بعد پھر ان چیزوں کے اوپر بھی ہم آجائیں گے ان شاء اللہ۔
سوال نمبر 3:
السلام علیکم۔ حضرت جی! میں اسلام آباد کا رہائشی ہوں اور آپ سے بیعت ہوں۔ پچھلے چند دنوں سے میں انتہائی تکلیف کا شکار ہوں، جس کے باعث چند وسوسے میرے ذہن میں اسلام اور خدا تعالیٰ کے متعلق پیدا ہو رہے ہیں۔ میں انتہائی دکھی ہوں، جس کے باعث وسوسے مجھے سچائی پر مبنی لگ رہے ہیں، مثلاً کچھ ایسے لوگوں کو اللہ دیتا ہے جو غرور اور تکبر میں مبتلا ہوتے ہیں اور اردگرد میں ایسے لوگوں کو نعمتوں کی فروانی حاصل ہے۔ اس کے علاوہ جو لوگ دوسروں کا برا چاہتے ہیں، اسے کامیابی حاصل ہوتی ہے۔ ان چیزوں کے علاوہ میں جب نماز کی طرف راغب ہوتی ہوں تو پریشانی کی وجہ سے عجیب قسم کے خیالات پیدا ہوتے ہیں۔ میں اس وجہ سے عجیب الجھن کا شکار ہوں۔ آپ سے اس کے بارے میں رہنمائی کی درخواست کرتا ہوں۔
جواب:
دیکھیں! یہ جو دنیا ہے اس کا طریقۂ کار الگ ہے، اور جو آخرت ہے اس کا طریقۂ کار الگ ہے۔ اللہ جل شانہٗ کا کافروں کے ساتھ الگ معاملہ ہے، مسلمانوں کے ساتھ الگ معاملہ ہے۔ اور پھر مسلمانوں میں بھی عام لوگوں کے ساتھ الگ معاملہ ہے اور بزرگوں کے ساتھ الگ معاملہ ہے۔ لہٰذا بجائے اس کے کہ ہم اس کی فکر کریں، بلکہ اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں جیسا معاملہ ہمارے ساتھ کررہے ہیں۔ مثلاً کافروں کے لئے قانون یہ ہے کہ ان کو کلمہ نصیب نہ ہونے کی وجہ سے آخرت میں فائدہ کے لحاظ سے کچھ بھی نہیں ملنا، البتہ ان کے غلط کاموں کی وجہ سے نقصان ہوگا اور کفر کی وجہ سے عذاب جہنم تو ہے ہی۔ اللہ پاک چونکہ بہت ہی زیادہ انصاف کرنے والے ہیں، اس لئے ان لوگوں کو ان کی نیکی کا دنیا میں ہی صلہ دے دیتے ہیں، اور وہی ان کو مل رہا ہے۔ مثال کے طور پر جیسے فرمایا کہ اگر مسلمانوں کو نقصان زیادہ ہونے کا خطرہ نہ ہوتا تو میں ان لوگوں کے گھروں کو سونے اور چاندی کا بنا دیتا، اگرچہ اب بھی ایسا ہی ہے یعنی ان کے جو حالات ہیں، اس کو اگر دیکھا جائے تو ان کی facilities، اور ان کی تمام چیزیں جس کی وجہ سے وہ مسلمانوں کو دھوکہ بھی دے رہے ہیں اور مسلمانوں کے منہ میں پانی بھی آتا ہے، لیکن بات یہ ہے کہ یہ ایک ڈھیل ہے، جو اللہ تعالیٰ نے ان کو دی ہے۔ دراصل یہ نعمتوں کی جو فراوانی ہے، یہ ضروری نہیں ہے کہ فائدہ کے لئے ہو، جیسے شداد کو بھی نعمتوں کی فراوانی تھی اور سلیمان علیہ السلام کو بھی نعمتوں کی فراوانی تھی، لیکن سلیمان علیہ السلام کو اس پر شکر نصیب ہو رہا تھا اور شداد کفر پر مضبوط ہو رہا تھا۔ لہٰذا ہر ایک کے لئے الگ نظام ہے۔ اس لئے آپ یہ بالکل ذہن میں نہ رکھیں کہ (نَعُوْذُ بِاللہِ مِنْ ذَالِکَ) ان کے ساتھ خیر کا معاملہ ہے اور ہمارے ساتھ (نَعُوْذُ بِاللہِ مِنْ ذَالِکَ) شر کا معاملہ ہے۔ نہیں، بلکہ ہمارے ساتھ خیر کا ہی معاملہ ہے، مثلاً مسلمان کے لئے دو ہی حالتیں ہوسکتی ہیں کہ یا تو وہ خوشگوار حالت میں ہوگا یا وہ ناخوشگوار حالت میں ہوگا، اس کے علاوہ تیسری کیا صورت ہوسکتی ہے؟ اب اگر وہ خوشگوار حالت میں ہے کہ وہ ہوشیار ہے، خوش نصیب ہے اور اس پر وہ شکر کرے تو اس کو خوشگوار حالت پر نہ صرف دنیا میں فائدہ ہوگا بلکہ اس کو آخرت میں بھی اس کا اجر ملے گا، اور ماشاء اللہ! آخرت کی ترقی بھی اس کو حاصل ہوگی۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿لَىٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ﴾ (ابراھیم: 7)
ترجمہ1: ’’اگر تم نے واقعی شکر ادا کیا تو میں تمہیں اور زیادہ دوں گا‘‘۔
اور ایسے ہی اللہ نے فرمایا:
﴿وَمَنْ یَّشْکُرْ فَاِنَّمَا یَشْکُرُ لِنَفْسِہٖ﴾ (لقمان: 12)
ترجمہ: ’’اور جو کوئی اللہ کا شکر ادا کرتا ہے وہ خود اپنے فائدے کے لئے شکر کرتا ہے‘‘۔
اسی طرح آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ شکر کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ اب یہ تمام باتیں ان کے لئے ہیں جو نعمتوں پر شکر ادا کرنے والے ہیں۔ دوسری طرف یہ بات ہے کہ اگر ان کے اوپر ناخوشگوار حالات ہیں اور ناخوشگوار حالات کی وجہ سے ان کو صبر کرنے کی توفیق ہوگی تو صبر سے مزید اجر ملتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ﴾ (البقرہ: 153)
ترجمہ: ’’بیشک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے‘‘۔
اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿اَلَّذِیْنَ اِذَاۤ اَصَابَتْهُمْ مُّصِیْبَةٌۙ قَالُوْۤا اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ اُولٰٓىٕكَ عَلَیْهِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ وَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُهْتَدُوْنَ﴾ (البقرۃ: 156۔157)
ترجمہ: ’’یہ وہ لوگ ہیں کہ جب ان کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو یہ کہتے ہیں کہ“ ہم سب اللہ ہی کے ہیں اور ہم کو اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر ان کے پروردگار کی طرف سے خصوصی عنایتیں ہیں، اور رحمت ہے اور یہی لوگ ہیں جو ہدایت پر ہیں‘‘۔
اب ذرا غور فرمائیں کہ دونوں صورتوں میں ان کے لئے خیر ہے یا نہیں ہے؟ آپ یوں کہہ سکتے ہیں کہ دونوں مختلف پرچے ہیں، کسی کو شکر کا پرچہ دیا جاتا ہے اور کسی کو صبر کا پرچہ دیا جاتا ہے۔ اگر شکر کا پرچہ دیا جائے تو یہ انکار نہیں کرسکتا کہ مجھے صبر کا پرچہ کیوں نہیں دیا گیا؟ اور اگر صبر کا پرچہ دیا گیا ہے تو یہ شکر کے لئے نہیں کہہ سکتا۔ بس یہ اللہ پاک کا فیصلہ ہے، بس جو بھی سوالات ہمارے سامنے امتحان گاہ میں آگئے ہیں، وہ ہمیں کرنے پڑتے ہیں۔ لہٰذا آپ اس پر نہ سوچیں کہ ایسا کیوں ہے؟ بس آپ کہیں کہ جو میرے حالات ہیں، مجھے ان حالات میں کیا کرنا چاہئے، اس پر آپ کی رہنمائی قرآن وسنت سے ہوگی۔ قرآن کا تو چونکہ میں نے بتا دیا ہے، اس لئے اب سنت کا بتا دیتا ہوں کہ آپ ﷺ سے ایک صحابی نے کہا کہ یارسول اللہ! میں آپ کے ساتھ محبت کرتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ کیا کہہ رہے ہو؟ پھر اس نے کہا یارسول اللہ! میں آپ سے محبت کرتا ہوں۔ پوچھا کیا کہہ رہے ہو یعنی واقعی ٹھیک کہہ رہے ہو؟ پھر جب پکی بات ہوگئی تو آپ ﷺ نے فرمایا: فقر وفاقہ جھیلنے کے لئے تیار ہوجاؤ، کیونکہ جو شخص مجھے دوست بنانا چاہتا ہے اس کی طرف فقر اتنی تیزی سے جاتا ہے کہ اتنا تیز سیلاب کا پانی بھی اپنے بہاؤ کی طرف نہیں جاتا۔ (ترمذی، حدیث نمبر: 2350) لہٰذا یہ والی بات اپنے ذہن سے نکال لیں، کیونکہ شیطان آپ کے ساتھ کھیل رہا ہے، لیکن آپ شیطان کو شکست دے دیں اور اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمْ کہہ کر ان تمام چیزوں کو صفر سے ضرب دیں اور شکر کے ساتھ اللہ پاک کے تعلق کی طرف لپک جائیں۔
سوال نمبر 4:
السلام علیکم۔ محترم مرشدی! فجر کی نماز alarm نہ لگانے سے قضا ہوئی ہے فقط، اس لئے تین روزے مکمل کر لئے ہیں۔
جواب:
اَلْحَمْدُ للہ! اللہ پاک آپ کو آئندہ اس غلطی سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم سب کو بھی بچائے۔
سوال نمبر 5:
السلام علیکم۔ حضرت جی! لاہور سے فلاں عرض کر رہا ہوں۔ آپ نے میرا جہری ذکر ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ دو سو، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ چار سو، ’’حَقْ‘‘ چھے سو مرتبہ اور ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ ساڑھے سات ہزار تک بڑھانے کا فرمایا تھا، جسے کرتے ہوئے اَلْحَمْدُ للہ! ایک ماہ گزر گیا ہے۔ مزید رہنمائی کی درخواست ہے۔ حضرت! گزشتہ چند ہفتوں سے سیاسی تجزیوں اور سوشل میڈیا پر وقت بہت زیادہ خرچ ہونے لگا ہے اور دو دن سے فجر کی نماز بھی قضا ہورہی ہے۔ آپ سے رہنمائی اور دعا کی گزارش ہے۔
جواب:
دراصل رہنمائی اس کو چاہئے ہوتی ہے، جس کو احساس نہ ہو، لیکن آپ کو اَلْحَمْدُ للہ! احساس ہے کہ آپ کا نقصان ہورہا ہے۔ اب نقصان سے بچنے کے لئے آپ کے ہاتھ کس نے باندھے ہوئے ہیں؟ بس چھوڑ دیں اس چیز کو اور نہ کریں سیاسی تجزیے۔ آپ کوئی سیاستدان تھوڑے ہیں اور اگر سیاستدان بھی ہوں تو اس کے لئے اپنا وقت ضائع کرنے کی تو اجازت نہیں ہے۔ لہٰذا آپ سیاسی تجزیے چھوڑیں، سوشل میڈیا صرف بضرورت استعمال کریں۔ بضرورت سے مراد یہ ہے کہ جو اس میں آپ کی فوری ضرورت کی چیز ہو، اس کو دیکھیں اور باقی ادھر ادھر نہ دیکھیں، ورنہ باقی نمازیں بھی قضا ہونا شروع ہوجائیں گی، اور بھی بہت سارا نقصان ہوگا یعنی قلبی نقصان بھی، عقلی نقصان بھی۔ اللہ جل شانہٗ حفاظت فرما دے اور ابھی ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ ساڑھے آٹھ ہزار مرتبہ کریں۔
سوال نمبر 6:
السلام علیکم۔ حضرت جی!
‘‘لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ’’ two hundred ‘‘لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ’’ four hundred ‘‘حَقْ’’ six hundred and ‘‘اَللّٰہ’’ five hundred times. Ten minutes مراقبہ on قلب، روح، سر، خفی اخفی and مراقبہ تنزیہ و صفات سلبیہ fifteen minutes done for one month اَلْحَمْدُ للہ. Now for the future, waiting for your instructions.
احوال: The use of the internet was very minimal in رمضان but now it has increased but I feel hesitated if I use mobile for social media too much. Meeting with people very rarely.
جزاک اللہ خیرا
جواب:
ابھی آپ اس طرح کرلیں کہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ دو سو مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ چار سو مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ چھے سو مرتبہ اور ’’اَللّٰہ‘‘ پانچ سو مرتبہ کرلیں اور مراقبہ تنزیہ اور صفات سلبیہ اس کے بارے میں یہ بتائیں کہ اس کا آپ کے اوپر کیا effect ہے؟ ذرا اس کا بتا دیجئے، تاکہ میں اگلا سبق دے سکوں۔
سوال نمبر 7:
السلام علیکم۔ میرا وظیفہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ دو سو مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ چار سو مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ چھے سو مرتبہ اور ’’اَللّٰہ‘‘ ایک ہزار مرتبہ ہے۔ پانچ منٹ کا مراقبہ یہ تصور کہ میرا دل ’’اَللّٰہْ اَللّٰہْ‘‘ بول رہا ہے۔ اسے تقریباً دو مہینے گزر چکے ہیں، مزید حکم اور رہنمائی کا محتاج ہوں۔ جزاکم اللہ خیرا واحسن الجزاء فی الدارین۔
جواب:
ابھی آپ نے پانچ منٹ کے مراقبہ کا جو تصور بتایا ہے، یہ آپ کو محسوس ہو رہا ہے یا نہیں؟ اس کے بارے میں بتائیں، تاکہ میں اگلا step آپ کو بتا دوں۔
سوال نمبر 8:
السلام علیکم۔
Sir I did ذکر and fifteen minutes مراقبہ while a few days مراقبہ was skipped. Will I continue with the same time duration? May Allah سبحانہ وتعالیٰ bless me with purity in my مراقبہ. Ameen. اَلْحَمْدُ للہ today, after عصر I did the مراقبہ after so many months. It was from heart and tears were coming and I was thinking myself close to Allah سبحانہ وتعالیٰ. May Allah سبحانہ وتعالیٰ show me the right path. Ameen.
جواب:
بالکل ٹھیک ہے۔ یہ اصل میں آپ کے لئے ایک یادہانی کہی جاسکتی ہے۔ یادہانی سے مراد یہ ہے کہ آپ اس طرح کرتی تھیں تو پھر اس طرح ہوتا تھا، لیکن پھر درمیان میں آپ نے توجہ دینا چھوڑ دی تو پھر اس طرح نہیں ہوتا رہا۔ اس لئے اب دوبارہ آپ کو صرف یادہانی کرائی گئی ہے اور یہ ضروری نہیں کہ اب چلتا رہے، بلکہ اب آپ کو محنت سے اس کو حاصل کرنا ہے اور اس کے اوپر جمنا ہے اور باقاعدگی کے ساتھ اپنا مراقبہ محسوس کرنا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ آپ اتنی کیوں سست ہیں؟ حالانکہ آپ کا ہمارے ساتھ جو تعلق تھا وہ سالوں پرانا ہے اور میرے خیال میں پندرہ سالہ تعلق ہے، لیکن آپ اپنی جگہ پر کھڑی ہیں، جوکہ مناسب نہیں ہے۔ لہٰذا اب اپنی ہمت بڑھائیں اور جو معمول آپ کو دیا جائے وہ پورا کرکے مہینہ بمہینہ باقاعدگی کے ساتھ بتاتی جائیں اور ساتھ ساتھ اپنے معمولات کا چارٹ بھی بھیجتی جائیں، تاکہ آپ ترقی کریں، ورنہ اس طرح اپنی جگہ پر کھڑی رہیں گی۔
سوال نمبر 9:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
نمبر 1: تمام لطائف پر پانچ منٹ ذکر اور مراقبہ حقیقت کعبہ پندرہ منٹ ہے اور نماز میں یہ مراقبہ کرنا تھا کہ خانہ کعبہ کا دروازہ میرے سامنے ہے۔ شروع میں تو یہ تصور نہیں بنتا تھا، لیکن بعد میں آسانی سے بن جاتا تھا۔ کل آپ کو کچھ احوال بھیجے تھے، جس کے بعد اب خانہ کعبہ کا دروازہ نظر نہیں آتا، بلکہ دروازہ کھلا ہوا نظر آتا ہے، ابتدا میں تو دور سے نظر آتا تھا، لیکن آہستہ آہستہ یہ محسوس ہوتا ہے کہ خانہ کعبہ کے دروازہ میں کھڑے ہوکر اندر کی طرف رکوع اور سجود کررہی ہوں۔
جواب:
سبحان اللہ! دراصل یہی ماشاء اللہ! کیفیات ہیں، جس کے ذریعہ سے انسان کو آہستہ آہستہ ترقی ہوتی ہے، اگرچہ کیفیات بذات خود مقصود نہیں ہوتیں، لیکن یہ راستہ ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر قدم اٹھانا مقصود نہیں ہے، لیکن اگر آپ قدم نہ اٹھائیں تو چلیں گے کیسے؟ اپنی منزل پر کیسے پہنچیں گے؟ اس لئے قدم اٹھانے کو آپ کامیابی نہ سمجھیں، لیکن قدم اٹھائے بغیر آپ کامیابی حاصل نہیں کرسکتے۔ لہٰذا اس کی قدر بھی کرنی چاہئے، لیکن اس پر مطمئن بھی نہیں ہونا چاہئے، کیونکہ منزل ابھی دور ہے۔ بہرحال آپ اپنی کوشش جاری رکھیں، ان شاء اللہ! اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ آپ کو اور بھی دیں گے۔
نمبر 2: تمام لطائف پر دس منٹ ذکر اور مراقبہ صفات ثبوتیہ پندرہ منٹ ہے۔ یہ مراقبہ دو ماہ سے زیادہ کرلیا ہے۔ ابتدا میں کچھ محسوس نہیں ہوتا تھا، لیکن اب محسوس ہوتا ہے کہ تمام صفات اللہ کے لئے ثابت ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ کی صفات انسانی صفات کی طرح نہیں ہیں، اس کے علاوہ قلبی اطمینان و قناعت بڑھ گئی ہے اور ہر چیز میں برکت ہوئی ہے، اللہ تعالیٰ کی ذات پر توکل بڑھ گیا ہے۔
جواب:
اب مراقبہ شیونات ذاتیہ کا بتا دیں۔
نمبر 3: لطیفۂ قلب، روح اور سر پر دس دس منٹ اور خفی پر پندرہ منٹ ذکر ہے، سب پر ذکر محسوس ہوتا ہے۔
جواب:
اب اخفیٰ کا ذکر پندرہ منٹ اور باقی کا دس دس منٹ کرلیں۔
نمبر 4: تمام لطائف پر دس منٹ ذکر اور مراقبہ شان جامع پندرہ منٹ ہے۔ لطائف پر ذکر محسوس ہوتا ہے، اَلْحَمْدُ للہ! لیکن مراقبے کا کچھ اثر محسوس نہیں ہوتا۔
جواب:
آپ مراقبہ شان جامع کو پھر کر لیجئے گا، ان شاء اللہ العزیز! اس کا کچھ اثر آپ کو محسوس ہونے لگے گا۔
نمبر 5: تمام لطائف پر پانچ منٹ ذکر اور مراقبہ شان جامع ہے۔ مراقبے کا کچھ اثر محسوس نہیں ہوتا۔
جواب:
ابھی اس کو فی الحال جاری رکھیں۔
نمبر 6: تمام لطائف پر پانچ منٹ ذکر اور مراقبہ شان جامع پندرہ منٹ ہے۔ اعمال کی پابندی اور کی مقدار بڑھ گئی ہے، مثلاً نوافل کی کثرت، درود شریف کی کثرت وغیرہ اور فہم و سمجھ بڑھ گئی ہے اور اس مراقبہ کے بعد ذہن میں وسعت محسوس ہوتی ہے۔
جواب:
ماشاء اللہ! اللہ تعالیٰ مزید عطا فرمائے۔ اب اس کو عبدیت کا مراقبہ دے دیں کہ یہ محسوس کرلیں کہ نماز میں اس کا ہر ہر عضو اللہ جل شانہٗ کی طرف سجدہ ریز ہے۔
نمبر 7: لطیفۂ قلب اور لطیفۂ روح دس دس منٹ اور لطیفۂ سر پندرہ منٹ ہے جواب:
اب ان کو دس دس منٹ تینوں لطائف اور چوتھا لطیفہ پندرہ منٹ کے لئے بتا دیجئے گا۔
نمبر 8: تمام لطائف پر دس منٹ ذکر اور مراقبۂ احدیت پندرہ منٹ ہے۔ یہ مدرسہ چھوڑ چکی تھی، اور ساتھ ہی ذکر بھی چھوڑ دیا تھا، اب دوبارہ مدرسہ شروع کردیا ہے اور ذکر بھی دوبارہ شروع کرنا چاہتی ہے۔
جواب:
ٹھیک ہے، اس کو یہ بتا دیں کہ مراقبۂ احدیت ایک مہینہ اور کرلے، پھر اس کے بعد مزید بتا دیں گے۔
سوال نمبر 10:
Respected and honourable مرشد صاحب I pray that you and your loved ones are well. Ameen. حضرت اقدس I wish to first share my ذکر update with you.
ذکر:
اَلْحَمْدُ للہ I have completed the current ذکر beyond thirty days without miss which is two hundred times ‘‘لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ’’ four hundred times ‘‘لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ’’ six hundred times ‘‘حَقْ’’ and five hundred times ‘‘اَللّٰہ’’. Ten minutes مراقبہ on heart and fifteen minutes مراقبہ on لطیفۂ روح.
Regarding جہری ذکر compared to previous month, this month I unfortunately started to rush my ذکر many days and started to get inconsistent with doing it at around a fixed time. Although I didn’t miss it and my focus was less in the ذکر I also felt less spirituality and closeness to Allah تعالیٰ and have been falling in sins much easily.
Regarding مراقبہ on قلب and روح I think as compared to before I hear and feel Allah Allah more but in a single session the mind deviates more to stray thoughts. I also on your instructions have been attempting to listen to my heart saying Allah Allah through the day at random times. I do remember it but it has been much less as compared to when I started.
جزاک اللہ خیرا and dua requested.
جواب:
آپ نے معمولات اور اس کی پابندی سے متعلق جو فرمایا ہے، اس سے ایک چیز آپ کو بالکل واضح ہو چکی ہوگی کہ یہ جو علاجی ذکر ہم کرتے ہیں، اس کے جو اثرات ہوتے ہیں، وہ پڑتے ہیں اور یہ اثرات آپ نے محسوس بھی کرلئے ہیں۔ یعنی اس میں اگر inconsistency ہوگئی، ٹائم آگے پیچھے ہونے لگا، باقاعدگی نہیں رہی (باقاعدگی سے مراد یہ ہے کہ ایک جگہ، ایک وقت پر نہیں رہا) تو اس سے آپ نے دیکھا کہ آپ کو اثرات ہونے لگے ہیں اور جو آپ محسوس کررہے ہیں کہ مجھے گناہوں میں پڑنا آسان ہوگیا ہے اور میری کیفیت بدل گئی ہے یعنی وہ اچھائی کی طرف نہیں جارہی تھی، بلکہ کمزوری کی طرف جارہی ہے۔ لہٰذا اب آپ اپنا ذکر باقاعدہ اس تجربہ سے سیکھ کر صحیح کرلیں یعنی اپنا وقت جو مقرر ہے اس پر کرلیں اور توجہ کے ساتھ کریں۔ ان شاء اللہ العزیز! یہ چیز واپس آئے گی، کیونکہ یہ صرف آپ کو گویا کہ indication کے ذریعہ سے تنبیہ کی گئی ہے۔ باقی یہ جو ذکر جہری ہے، یہ اصل میں بنیاد ہے ان مراقبات کی، اس لئے ان میں جو کمزوری آئے گی تو ان چیزوں میں بھی کمزوری آئے گی۔ لہٰذا آپ اس کو باقاعدگی کے ساتھ کریں، ان شاء اللہ! یہ باقی چیزیں بھی ٹھیک ہوجائیں گی۔
سوال نمبر 11:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ شاہ صاحب! ہم مردان میں خانقاہ سے دور ہیں۔ اور میرا شوہر شاید قادریہ سلسلے سے منسلک ہے۔ کیا میں ادھر جاسکتی ہوں؟ اور آپ نے رشتے کے لئے وظیفہ دیا تھا، ہر نماز کے بعد یاد نہیں رہتا، اس کے لئے کوئی تجویز بتا دیں اور آپ دعا کریں کہ میرا نصیب کھل جائے اور بہتر ہوجائے۔ (آمین) میں مراقبہ نہیں کر پاتی، اس کی بھی دعا کریں، البتہ باقی معمولات جاری ہیں۔
جواب:
دیکھیں! آپ خانقاہ سے دور ہیں، اللہ سے دور نہیں ہیں۔ اور خواتین کے لئے تو آپ جانتی ہیں کہ ان کے لئے آنکھ اوجھل، پہاڑ اوجھل والی بات ہوتی ہے یعنی وہ اگر یہیں پر بھی ہوتی ہیں تو basement میں ہوں گی اور ہمارے ساتھ نہیں بیٹھی ہوں گی۔ اس وجہ سے آپ اس کو اپنے ذہن پر نہ رکھیں، بلکہ کوشش کرلیں، کیونکہ ماشاء اللہ! ہمارے پاس تو بعض ایسی خواتین ہیں جو امریکہ میں ہیں، انڈیا میں ہیں، آسٹریلیا میں ہیں اور مختلف جگہوں پر ہیں، لیکن ماشاء اللہ! ان کو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسا وہ بالکل ہمارے ساتھ ہیں۔ لہٰذا آپ کیوں اپنے آپ کو محسوس کر رہی ہیں کہ میں دور ہوں، اس وجہ سے مجھے نقصان ہے۔ نہیں، ایسی بات نہیں ہے، کیونکہ تکوینی طور پر اگر کوئی رکاوٹ ہو تو اس کے بارے میں اللہ جل شانہٗ اس کی compensation کروا دیتے ہیں۔ اس لئے آپ اس طرح کرلیں کہ اپنا ذکر باقاعدگی کے ساتھ کریں اور اپنے معمولات کا چارٹ بھی ساتھ تیار کرلیں اور مراقبے میں سستی نہ کریں، کیونکہ آپ کا ذکر ثوابی ہے اور مراقبہ آپ کا علاجی ذکر ہے۔ لہٰذا اگر آپ مراقبہ نہیں کریں گی تو علاج کیسے ہوگا؟ پھر تو صرف آپ وقت ہی گزاریں گی۔ اللہ تعالیٰ آپ کو توفیق عطا فرما دے آپ یہ ساری چیزیں ٹھیک کرلیں۔
سوال نمبر 12:
گھر سے آفس جانے سے پہلے وضو کرکے نکلتا ہوں۔ معمولات کا چارٹ بھرنے میں ابھی بھی کچھ کوتاہی ہو رہی ہے۔ یہ مہینہ معمولات کے چارٹ فِل کرنے کا target ہے، پھر اسی معمولات کے چارٹ میں جو کچھ رہ جائے گا، اس کی طرف پیش قدمی کروں گا، ان شاء اللہ! آپ سے مزید اصلاح اور رہنمائی کا طالب ہوں۔
جواب:
آپ نے جو دو points اوپر بتائے ہیں، ان میں سے پہلے والے پر اللہ کا شکر ادا کریں اور دوسرے کو آپ اپنی ہمت و ارادہ سے پورا کرلیں۔ اور یہ والا points ماشاء اللہ! ٹھیک ہے کہ آپ گھر سے جانے سے پہلے وضو کرتے ہیں، یہ بہت اچھی بات ہے، کیونکہ وضو مسلمان کا اسلحہ ہے، اس وجہ سے باوضو ہونے میں انسان کی حفاظت ہوتی ہے۔ باقی معمولات کے چارٹ میں کوتاہی نہیں ہونی چاہئے، آپ ہمت کریں گے تو یہ پورا ہوگا اور اس کے بڑے زبردست اثرات ہوتے ہیں۔
سوال نمبر 13:
السلام علیکم۔ میں فلاں from بہاولپور۔ السلام علیکم۔ حضرت! آپ نے جو اذکار دیئے ہیں، اس کو ایک مہینہ ہوچکا ہے۔ مزید رہنمائی کی درخواست ہے۔ اذکار یہ ہیں کہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ دو سو مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ چار سو مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ چھے سو مرتبہ اور ’’اَللّٰہ‘‘ دس ہزار مرتبہ اور اس کے ساتھ پانچ منٹ یہ تصور کرنا ہے کہ میرا دل ’’اَللّٰہْ اَللّٰہْ‘‘ کر رہا ہے، لیکن حضرت! ابھی ایسا محسوس نہیں ہوتا۔
جواب:
اب ’’اَللّٰہ‘‘ دس ہزار پانچ سو مرتبہ کریں اور یہ بھی ساتھ کریں۔
سوال نمبر 14:
السلام علیکم۔ میں نے حضرت صاحب سے بیعت کی تھی اور مجھے تیسرا کلمہ، استغفار اور درود شریف پڑھنے کو ملا تھا اور ذکر دس منٹ کا ملا تھا۔ اسے ایک ماہ سے زیادہ ہوگیا ہے، مجھے اور ذکر بتا دیں، میں University of Haripur میں پڑھاتی ہوں۔
جواب:
ماشاء اللہ! یہ تو بڑی اچھی بات ہے۔ ابھی آپ اس طرح کریں کہ جو قلبی ذکر دس منٹ کے لئے میں نے دیا تھا، وہ آپ کو ذکر محسوس ہو رہا ہے یا نہیں ہو رہا، تاکہ میں آپ کو اگلا بتا سکوں۔
سوال نمبر 15:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
Ya Maulana I pray that you are well ان شاء اللہ. I have to inform you about my current state. اَلْحَمْدُ للہ when doing ذکر two hundred ‘‘لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ’’ three hundred times ‘‘لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ’’ and three hundred times ‘‘حَقْ’’ and hundred times Allah I always feel this creates peace in my heart and I can feel that. The difference of feelings that you indicated in me with each formula I still feel the effect of ذکر after performing it. When I read the Holy Quran or pray I feel more joyful when doing the عبادت and feel more توکل than before. My Allah bless you and preserve you Ya Maulana.
جواب:
Now you should do two hundred times ‘‘لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ’’ four hundred times ‘‘لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ’’ four hundred times ‘‘حَقْ’’ and hundred times Allah ان شاء اللہ for one month and then after that you will inform me.
سوال نمبر 16:
سیدی مرشدی دامت برکاتھم! حضرت اپنے رفقاء سمیت خیر و عافیت سے ہوں گے۔ معمولات کو بفضل تعالیٰ اور حضرت کی دعا، توجہ اور برکت سے ایک ماہ مکمل ہوگیا ہے، جوکہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ دو سو، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ چار سو، ’’حَقْ‘‘ چھے سو اور ’’اَللّٰہ‘‘ ڈھائی ہزار مرتبہ ہیں۔ حضرت والا سے مشورہ کرنا تھا کہ ہمارے علاقے میں ضلع کی سطح پر علماء کرام کی ایک تنظیم بنائی گئی ہے۔ یوں تو اس کی سرپرستی یہاں کے بڑے علماء فرماتے ہیں، جن کا مقصد (علماء میں اتفاق و اتحاد سے) علاقہ سے غیر شرعی رسومات کو ختم کرنا وغیرہ ہے۔ میرے کچھ ہم عمر ساتھی مجھے بھی اس میں شرکت اور ذمہ داری قبول کرنے کو کہتے ہیں۔ مجھے بذات خود اس پر شرح صدر نہیں ہے۔ حضرت اس کے بارے میں جو حکم فرمائیں۔ باقی معمولات اللہ کے فضل و کرم سے اور حضرت والا کی توجہ سے اَلْحَمْدُ للہ! پورے ہوتے ہیں، البتہ ذکر و اذکار کبھی کبھار کسی سفر وغیرہ کی وجہ سے رہ بھی جاتے ہیں۔ آگے اس کو جاری رکھوں یا حضرت کا جو حکم ہو۔
جواب:
ابھی جو ’’اَللّٰہ‘‘ ہے، وہ تین ہزار مرتبہ کریں اور باقی سب وہی جاری رکھیں۔ باقی آپ نے جو پوچھا ہے، اس کے بارے میں آپ ٹیلی فون کرلیں۔ ٹیلی فون کا وقت دو بجے سے لے کے تین بجے تک ہے اور یہ PTCL نمبر پر آپ کو کال کرنا ہے، نمبر یہ ہے 5470582-051۔
سوال نمبر 17:
السلام علیکم۔ شیخ صاحب!
Hope you are in the best of your health and doing well. May Allah سبحانہ وتعالیٰ bless you with good health. Ameen. Sheikh صاحب, kindly pray for me and I came here to work in Saudi Arabia. Secondly, Sheikh صاحب I have got ثوابی ذکر six months ago third کلمہ and ‘‘لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ’’ which I have completed in one month. After one month of completing this ثوابی ذکر you have given me علاجی ذکر as well which I have forgotten now. Kindly give me علاجی ذکر again so that I can start it again.
جواب:
کتنے عرصہ کے لئے آپ اس کو یاد رکھنا چاہیں گے اور پھر بھولنا چاہیں گے؟ کیونکہ ذکر تو اس لئے نہیں لیا جاتا کہ اس کو آپ بھول جائیں۔ اور سیر سپاٹا کرنے سے کچھ بھی نہیں ہوتا اور جب تک آپ اپنے مقصد کے ساتھ مخلص نہیں ہوں گے، اس وقت تک آپ کو کچھ بھی نہیں ملے گا۔ لہٰذا آپ پہلے اپنا ذہن determine کرلیں کہ آپ نے اس کو کرنا ہے اور پھر چھوڑنا نہیں ہے، اور پھر مجھے بتا دیں، اس کے بعد میں آپ کو دے دوں گا، کیونکہ مجھے سیر سپاٹے والے لوگوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔
سوال نمبر 18:
ایک سالک کا سوال آیا تھا جو کہ حضرت نے مجلس میں نہیں سُنایا، بلکہ اُس کا صرف جواب حضرت نے دیا ہے۔
جواب:
آپ اس طرح کرلیں کہ آپ مجھے دو بجے سے لے کے تین بجے کے درمیان ٹیلی فون کرلیں، کیونکہ آپ کی جو ساری باتیں ہیں، وہ اس وقت discuss ہوجائیں گی ان شاء اللہ۔
سوال نمبر 19:
السلام علیکم۔ حضرت! میرا ذکر تھا پانچ لطائف پر دس منٹ مراقبہ اور پندرہ منٹ یہ محسوس کرنا کہ اللہ سے فیض آرہا ہے محمد ﷺ کے قلب پر اور وہاں سے آپ کے قلب پر اور آپ کے قلب سے میرے قلب پر۔ یہ پندرہ منٹ والا محسوس ہونا سمجھ نہیں آتا کہ کس طرح محسوس کرنا ہے۔ بس میں نور کو imagine کرکے محسوس کرتی ہوں۔ میں کبھی کبھی بغیر کسی وجہ کے بہت sad ہوجاتی ہوں، کچھ اچھا نہیں لگ رہا ہوتا، کسی سے بات کرنے کو دل نہیں چاہتا، میرا رویہ کبھی کبھار سخت ہوجاتا ہے، کبھی ٹی وی etc بھی چلتا ہے اور میری نظر پڑ جاتی ہے، پھر مجھے یاد نہیں ہوتا کہ کس طرح نامحرم کو دیکھا ہے اور پھر اسی طرح کے گناہ ہوجاتے ہیں اور perfect نہیں ہو پاتی، کبھی کبھار مجھے لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بھی مجھ پر ناراض ہوتے ہوں گے۔
جواب:
آپ کی جو بات میں سمجھ چکا ہوں، وہ میں بتا دیتا ہوں کہ آپ مجھے یہ بتانا چاہتی ہیں کہ آپ کا جو ذکر ہے، وہ چار لطائف پر دس منٹ اور پانچویں پر پندرہ منٹ ذکر محسوس کرنا ہے۔ اور اس کے بعد یہ کہ اللہ سے فیض آرہا ہے محمد ﷺ کے قلب پر، پھر وہاں سے شیخ کے قلب پر، پھر میرے قلب پر۔ اور پھر لطائف پر ذکر محسوس ہوتا ہے، لیکن پندرہ منٹ والا سمجھ میں نہیں آتا کہ کس طرح محسوس کرنا ہے۔ بس اس کو میں نور imagine کرکے کرتی ہوں۔ لیکن اسے نور نہیں سمجھنا تھا، بلکہ فیض کا میں نے کہا تھا۔ فیض کہتے ہیں کہ انسان کو کسی بھی چیز کا جو بھی فائدہ ہوتا ہے، مثال کے طور پر ایک شخص بیمار ہے اور وہ ڈاکٹر کے پاس جائے تو ڈاکٹر کا فیض یہ ہے کہ اس کو صحت حاصل ہوجائے۔ اسی طرح مثال کے طور پر کوئی غریب ہے، وہ کسی مالدار کے پاس جائے، وہ اس کو پیسے دے دے تو یہ بھی اس کا فیض ہے۔ اسی لئے مالدار آدمی جو سخی ہو اس کو فیاض کہتے ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ اس کا فیض جاری ہے۔ اسی طرح استادوں کا فیض ہوتا ہے، جس سے انسان کو علم حاصل ہوتا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کی طرف سے سارے فیوضات کا جو مجموعہ ہے، وہ آتا ہے، کیونکہ ہر فیض اللہ پاک کی طرف سے ہے۔ اس لئے سارے فیضوں کا مجموعہ وہ آرہا ہے آپ ﷺ کی طرف، کیونکہ آپ ﷺ تقسیم کرنے والے ہیں، جیسا کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
’’اِنَّمَا اَنَا الْقَاسِمُ وَاللہُ یُعْطِیْ‘‘ (مسلم، حدیث نمبر: 2392)
ترجمہ: ’’میں تو بس تقسیم کرتا ہوں، دیتا اللہ ہے‘‘۔
اور پھر وہاں سے شیخ کی طرف آرہا ہے، کیونکہ شیخ ذریعہ بنتا ہے مرید کے لئے، اور پھر اس کے بعد وہاں سے آپ کی طرف آرہا ہے۔ لہٰذا یہ مطلب ہے فیض کا۔ اس لئے اب اسی طریقہ سے اسے کرلیں۔ اور ٹی وی وغیرہ کو بالکل نہ دیکھیں اور اپنے معمول کو پابندی کے ساتھ کریں۔ ان شاء اللہ! آہستہ آہستہ اس کا فائدہ محسوس ہونے لگے گا۔
سوال نمبر 20:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت جی! اللہ پاک سے آپ کی صحت اور تندرستی کے لئے دعاگو ہوں۔ حضرت جی! میرا ذکر ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ دو سو مرتبہ، ’’اِلَّا اللّٰہْ‘‘ چار سو مرتبہ، ’’اَللّٰہْ اَللّٰہْ‘‘ چھے سو مرتبہ اور اَللّٰہ‘‘ ہزار مرتبہ مکمل ہوگیا ہے۔ اَلْحَمْدُ للہ ذکر میں کوئی ناغہ نہیں ہوا تھا، البتہ دو یا تین مرتبہ غلبۂ نیند کی وجہ سے صبح کو ذکر نہیں کرسکا، لیکن رات کو معمول پورا کرلیا تھا۔ برائے مہربانی اس بارے میں مزید رہنمائی فرمائیں۔ اللہ پاک آپ کے درجات کو بلند فرمائے۔
جواب:
اب ’’اَللّٰہ‘‘ کو پندرہ سو مرتبہ کرلیں اور باقی چیزیں وہی رکھیں۔
سوال نمبر 21:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت جی! اللہ پاک سے آپ کی صحت وتندرستی اور بلند درجات کے لئے دعاگو ہوں۔ حضرت جی! میرا مسئلہ یہ ہے کہ جب سے ملک کی سیاسی فضا میں کشیدگی بڑھی ہے، اس وقت سے میں نے سوشل میڈیا، Twitter کا استعمال بہت شروع کردیا ہے، جبکہ پہلے میں سوشل میڈیا سے دور ہی رہتا تھا، لیکن گزشتہ دو یا تین ماہ سے کافی حد تک اس کا عادی ہوچکا ہوں، جیسے ہی فارغ وقت ہوتا ہے تو میں Twitter کھول کے بیٹھ جاتا ہوں۔ کتنی مرتبہ اس کو چھوڑنا بھی چاہا ہے، لیکن ایک یا دو دن کے بعد پھر سے شروع کرلیتا ہوں۔ برائے مہربانی اس بارے میں رہنمائی فرمائیں۔ اللہ پاک آپ کے درجات کو بلند فرمائے۔
جواب:
ایک طریقہ بتا دیتا ہوں، لیکن آپ پہلے سے اس کا تہیہ کرلیں کہ اس پر آپ عمل کریں گے۔ طریقہ یہ ہے کہ جتنا وقت آپ Twitter کو دیتے ہیں یا سوشل میڈیا کو دیتے ہیں، اتنا وقت آپ دعا کرلیں، کیونکہ یہ تو آپ جانتے ہیں کہ آپ کر تو کچھ نہیں سکتے اور جو حالات ہیں، وہ آپ کے قابو میں نہیں ہیں، لیکن ایک بات آپ کو حاصل ہے کہ اللہ پاک سے آپ مانگ سکتے ہیں کہ اللہ پاک خیر ڈالے اور اچھے لوگوں کو قوت نصیب ہوجائے اور جو برے لوگ ہیں، ان کو ناکامی ہوجائے۔ لہٰذا یہ پورے ملک کے لئے جو دعا ہے، اتنی دیر میں آپ یہ دعا کرنا شروع کرلیں اور دعا کرتے رہیں، کیونکہ دعا سے فائدہ ہوتا ہے۔ قرآن پاک میں اللہ فرماتے ہیں:
﴿وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِیْۤ اَسْتَجِبْ لَكُمْؕ﴾ (المومن: 60)
ترجمہ: ’’اور تمہارے پروردگار نے کہا ہے کہ مجھے پکارو، میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا ‘‘۔
اور آپ ﷺ نے بھی فرمایا کہ:
’’اَلدُّعَاءُ مُّخُ الْعِبَادَۃِ‘‘ (سنن ترمذی، حدیث نمبر: 3371)
ترجمہ: ’’دعا عبادت کا مغز (حاصل و نچوڑ) ہے‘‘۔
لہٰذا جو اصل چیز ہے، ہم وہ تو کرسکتے ہیں اور پھر وہ ہر وقت ہمارے پاس ہے۔ اس لئے یہ بھی آپ شروع کرلیں۔ ان شاء اللہ! اس سے یہ چیز رک جائے گی۔
سوال نمبر 22:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ میرا ذکر پچیس دن اوپر ہوگیا ہے، آگے اصلاح فرمائیں۔
جواب:
ذکر کے بارے ندارد کہ کیا ذکر تھا، اس کو میں کیا سمجھوں!
سوال نمبر 23:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
I pray you are well dear Sheikh. This is فلاں from UK. I have completed another month of fifteen minutes مراقبہ facing the کعبہ قبلہ imagining my heart saying Allah. I missed some days early in the month but since your advice regarding fixing the time I have not missed a day اَلْحَمْدُ للہ. As a result, my focus got a little better. Still one week I have noticed that if there is a slightest thought on my mind I can’t focus on my مراقبہ. Only in the early morning when my mind is clear, I can maintain focus a little bit. I feel quite disappointed with myself as I have been doing this مراقبہ for three months and still I am doing so little. Kindly advise for the next.
Also I wanted to ask حضرت جی when we listen live to مجلس can we join in the اجتماعی ذکر? Kindly remember me in your duas. Sorry, I forgot to ask about my university graduation ceremony next month. Should I go or avoid the bad ماحول?
جواب:
اصل میں جو پندرہ منٹ کا مراقبہ ہے، یہ تو آپ چلنا شروع کررہے ہیں۔ اور جو آپ کا ذکر ہے، اس کو باقاعدگی کے ساتھ کرکے جتنا آپ کو اختیار حاصل ہے، اس اختیار کو استعمال کرتے ہوئے اس پر آپ focus کرنے کی کوشش کرلیں۔ اور اگر بے اختیاری سے کوئی چیز ہورہی ہے تو اس کی پروا نہ کریں، بس آپ اختیاری چیز کا خیال رکھیں، ان شاء اللہ! یہ بہتر ہوجائے گا، ورنہ اگر بے اختیاری چیزوں کے پیچھے آپ پڑ جائیں گے اور اس کو آپ ٹھیک کرنا چاہیں گے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنے آپ کو پریشان ہی کررہے ہیں، کیونکہ وہ چیز آپ کے اختیار میں نہیں ہے۔ لہٰذا آپ صرف اختیار والی چیز تک ہی اپنا ذہن رکھیں، ان شاء اللہ! پھر یہ بہتر ہوتا جائے گا۔ اور آپ اجتماعی ذکر میں بھی شرکت کرسکتے ہیں، کیونکہ یہ live ہوتا ہے۔ دیکھیں! اللہ تعالیٰ نے ہمیں سہولت عطا فرمائی ہے، مثال کے طور پر میں اس کمرے میں بیٹھا ہوں اور دوسرے کمرے میں کوئی اور بیٹھا ہوا ہے، جو میری آواز سن رہا ہے تو وہ میرے ساتھ ذکر کرسکتا ہے یا نہیں کرسکتا؟ بالکل کرسکتا ہے۔ اسی طریقہ سے کوئی UK میں بیٹھا ہو، لیکن میری آواز اس تک اسی وقت ہی جا رہی ہو تو وہ میرے ساتھ ہے۔ لہٰذا آپ kindly ذکر کرسکتے ہیں۔
سوال نمبر 24:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ معمولات کی شیٹ میں تمام معمولات کی تفصیل درج ہے اور ان شاء اللہ! بالمشافہ آپ کے سامنے پیش کروں گا۔ باقی احوال درج ذیل ہیں۔ مہینے کے شروع میں معمولات میں ناغے ہوئے ہیں، لیکن اَلْحَمْدُ للہ! اللہ پاک کی توفیق سے پابندی سے معمولات شروع کیے تھے، جو تاحال جاری ہیں۔ اصلاحی ذکر کی تفصیل یہ ہے کہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ دو سو مرتبہ، ’’اِلَّا اللّٰہْ‘‘ چار سو مرتبہ، ’’اَللّٰہُ اَللّٰہْ‘‘ چھے سو مرتبہ اور ’’اَللّٰہ‘‘ زبان سے ہزار مرتبہ۔ اصلاحی ذکر کی کیفیت اَلْحَمْدُ للہ! normal ہے، لیکن دل میں ابھی محسوس نہیں ہوا۔ میرا اصلاحی ذکر مدرسہ کی مصروفیت کی وجہ سے حضرت والا نے کافی عرصہ پہلے روک دیا تھا، لیکن اب نماز کے فوراً بعد یا نماز سے پہلے کرنے کا معمول رکھا ہے اور اَلْحَمْدُ للہ! اسی پر پابندی ہے۔ گھر پر ہوتے ہوئے برے ماحول کے اثر کی وجہ سے مجھ پر اثر ہوجاتا ہے اور معمولات رہ جاتے ہیں اور پھر بہت نقصان ہوتا ہے۔ لہٰذا میں نے سوچا ہے کہ اب گھر اگر جانا بھی پڑے تو بہت کم دنوں کے لئے رہنا ہے، تاکہ وہاں کا اثر نہ ہو۔
جواب:
بالکل ٹھیک ہے، آپ نے صحیح سوچا ہے۔ بلکہ ویسے بھی طالب علمی کے دور میں گھر زیادہ نہیں جانا چاہئے، اس کے لئے بھی آپ اپنی نیت کرلیں تو ان شاء اللہ! دونوں نیتوں کی وجہ سے آپ کو فائدہ ہوگا اور ذکر آپ یہی فی الحال کریں۔
سوال نمبر 25:
مراقبہ تنزیہ کا جو effect ہے، وہ یہ ہے:
I feel قرب of Allah سبحانہ وتعالیٰ and I also fear my death is visual. I can die anytime and I need to prepare for Akhira.
جواب:
ماشاء اللہ! یہ تو بڑی اچھی بات ہے۔ اب آپ اس طرح کرلیں کہ مراقبہ شان جامع شروع فرما لیں، لیکن دوسرے اذکار بھی ساتھ کریں۔
سوال نمبر 26:
ایک سالک کا سوال آیا تھا جو کہ حضرت نے مجلس میں نہیں سُنایا، بلکہ اُس کا صرف جواب حضرت نے دیا ہے۔
جواب:
اب آپ سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘، سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘، سو مرتبہ ’’حَقْ‘‘ اور سو مرتبہ ’’اَللّٰہ‘‘ کو ایک مہینہ کرلیں اور پھر مجھے بتا دیں۔ اور تیسرا کلمہ، درود شریف، استغفار سو سو دفعہ اس کے ساتھ پڑھیں اور یہ عمر بھر کے لئے ہے۔ اور جو نمازوں کے بعد کا ذکر ہے یہ بھی عمر بھر کے لئے ہے۔
سوال نمبر 27:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت جی! گزشتہ ماہ کے احوال پیش کرنے کی درخواست ہے۔ ذکر ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ دو سو مرتبہ، ’’اِلَّا اللّٰہْ‘‘ چار سو مرتبہ، ’’اَللّٰہُ اَللّٰہْ‘‘ چھے سو مرتبہ اور اسم ذات دو ہزار مرتبہ ہے۔ ذکر تیز تیز کرتا ہوں، زبان سے کوئی خاص ضرب وغیرہ نہیں لگاتا، دل کی طرف توجہ کی کوشش ہوتی ہے، فجر کی نماز گھر پر ادا ہو رہی ہے اور اس کے فوراً بعد سو جاتا ہوں، موبائل کا استعمال کافی زیادہ ہے، WhatsApp اور Online courses اور خبروں پر تبصرہ کی وجہ سے دفتر اور گھر والوں سے گفتگو میں افراط وتفریط ہوجاتی ہے، کوشش کے باوجود خاموش یا صرفِ نظر نہیں کر پاتا، تلاوت، ’’منزل جدید‘‘ جمعہ کو درود پاک کی کوشش کرتا ہوں۔ حضرت جی! سے مزید رہنمائی کی درخواست ہے۔
جواب:
ابھی آپ اس طرح کرلیں کہ اسم ذات کا ذکر آہستہ آہستہ اور طریقے سے کرلیں، چونکہ میرے خیال میں جیسے کہ آپ کہتے ہیں کہ یہ شاید زیادہ مشکل ہوتا ہے، اس لئے اس کو آہستہ آہستہ اور طریقے سے کرلیں، تاکہ اس کی طرف توجہ ہو یعنی توجہ کے ساتھ اسی ذکر کو کرنا شروع کرلیں۔ اور فجر کی نماز آپ گھر پر کیوں پڑھتے ہیں، مسجد بہت دور ہے؟ یہ ذرا مجھے بتا دیں، کیونکہ بلاوجہ جماعت کی نماز کو نہیں چھوڑنا چاہئے۔ باقی موبائل کا جو استعمال ہے، وہ صرف ضرورت کے درجہ میں رکھیں، اس سے زیادہ بالکل نہ کریں۔ زبان پر قابو رکھنا یہ ہمارا بنیادی اصول ہے، کیونکہ اس میں انسان سے بہت سی خطائیں ہوجاتی ہیں۔ یہ چھوٹی سی چیز ہے، لیکن اس سے بڑے بڑے گناہ وجود میں آتے ہیں۔ لہٰذا خاموشی کا جو مجاہدہ ہے دس منٹ والا کہ آپ اگر کسی discussion میں شامل ہونا چاہتے ہیں، تو دس منٹ اس کو postpone کرلیا کریں اور دس منٹ سننے کے بعد پھر اس میں شامل ہوسکتے ہیں۔
سوال نمبر 28:
السلام علیکم۔ حضرت جی! ابھی آپ نے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ سیر سپاٹے والوں سے میری غرض وغایت نہیں ہے۔ اس کا مطلب سمجھ نہیں آیا۔
جواب:
دراصل اس نے چھے مہینے بالکل پروا نہیں کی، چھے مہینے کے بعد مجھے بتاتا ہے کہ میں بھول گیا ہوں کہ آپ نے مجھے کون سا ذکر دیا تھا۔ اب یہ سیر سپاٹا نہیں ہے تو اور کیا ہے؟ جب مرضی آئے تو کہہ دیا کہ مجھے ذکر دو اور پھر بھول جائے، یعنی جب تک determine کوئی نہیں ہوتا، اس وقت تک لاکھ اس کو سمجھائیں، لیکن اس کو کیا فائدہ۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ پہلے جب بیعت نہیں کرتے تھے، اس کی وجہ کیا تھی؟ پہلے ساری چیزیں طے کرواتے کہ یہ واقعی اصلاح چاہتا ہے یا نہیں چاہتا۔ اگر وہ نہیں چاہتا تو پھر اس کے ساتھ آپ کیا کرسکتے ہیں، صرف آپ وقت ہی لگائیں گے۔ اس وجہ سے پہلے میں نے اسے یہ کہا، لیکن پھر اس نے بعد میں کہہ دیا کہ میں determine کرچکا ہوں کہ اب میں کروں گا۔ لہٰذا پھر میں نے اس کو ذکر بھی دے دیا۔ کیونکہ اگر میں اس کو ابھی ویسے ہی ذکر دے دیتا تو بے پرواہی سے پھر دوبارہ چھوڑ سکتا تھا۔
سوال نمبر 29:
حضرت! دو چیزیں پوچھنی تھیں، ایک تو نماز میں بہت زیادہ دھیان آگے پیچھے جاتا ہے، کافی غور کرنے کے باوجود بھی توجہ نہیں ہوتی، کافی کوشش کرتا ہوں۔ اور دوسرا مجھے بیعت ہوئے چالیس دن سے کچھ اوپر ہوگئے ہیں۔ آگے کون سا عمل کرنا ہے؟ وہ بھی ارشاد فرما دیں۔ ابھی میں نے تین سو دفعہ تیسرا کلمہ، دو سو دفعہ ’’وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ‘‘ کو چالیس دن پورا کیا ہے۔
جواب:
ابھی آپ اس طرح کرلیں کہ سو دفعہ تیسرا کلمہ، سو دفعہ درود شریف، سو دفعہ استغفار اور نماز کے بعد والا جو ذکر ہے، عمر بھر کے لئے آپ کریں گے۔ اس کے علاوہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ سو دفعہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ سو دفعہ ’’حَقْ‘‘ سو دفعہ اور ’’اَللّٰہ‘‘ سو دفعہ کریں۔ یہ ایک مہینے کے لئے ہے، ایک مہینے کے بعد پھر مجھے بتا دیں۔ باقی آپ کا پہلے والا سوال کہ نماز میں توجہ نہیں رہتی۔ دیکھیں! دو باتیں ہوتی ہیں، اختیاری چیز ہوتی ہے یا غیر اختیاری ہوتی ہے۔ اگر اختیاری ہے تو اپنے اختیار سے اس کو ٹھیک بھی کرسکتے ہیں اور اگر غیر اختیاری ہے تو پھر پروا نہ کریں، کیونکہ جو اس کا غیر اختیاری حصہ ہے یعنی جو خود بخود چیزیں آتی ہیں، ان کے ساتھ اگر آپ الجھیں گے تو زیادہ مسئلہ ہوگا، اس لئے ان کو چھوڑ دیں۔ جیسے ابھی میں نے ایک صاحب کو بتایا بھی ہے کہ اس کی پروا نہ کریں۔ البتہ جو اختیاری چیز ہے، مثلاً آپ کو خود بخود کوئی خیال آگیا، اور پھر آپ اس کے ساتھ شامل ہوگئے ہیں، جیسے اگر کوئی دکاندار ہے اور اس کو خیال آگیا کہ دکان میں فلاں چیز کدھر پڑی ہے یعنی غیر اختیاری طور پر آگیا۔ لیکن پھر یہ سوچتا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ ادھر ہو، ہوسکتا ہے ادھر ہو، ہوسکتا ہے اس جگہ ہو یعنی اپنے طور پر اس نے شروع کرلیا تو یہ اختیاری ہے۔ لہٰذا پہلے والی چیز کی پروا نہ کرو، بلکہ آخر کی پروا کرو۔ پھر اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہوگا ان شاء اللہ۔ ایک دفعہ میں نے اس طرح کی کچھ بات حلیمی صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے کی کہ Mathematics کی کچھ چیزیں آجاتی ہیں، تو مجھے فرمایا کہ آپ کا شیطان بھی mathematician ہے۔
سوال نمبر 30:
یہ جو دوسرے اذکار بتائے ہیں، یہ دن کو بھی کرسکتا ہوں یا رات کو یا صبح کسی مخصوص وقت میں؟
جواب:
ایک وقت مقرر کرکے کریں۔
سوال نمبر 31:
حضرت! ایک بات ہے کہ موبائل کا استعمال کس حد تک کرسکتے ہیں؟
جواب:
اصل میں اگر کسی کے پاس ہر وقت یہ ہے تو اس کے مفاسد پھر بہت زیادہ ہیں، کیونکہ اس میں کچھ چیزیں غیر اختیاری ہوتی ہیں اور پھر اس سے اختیاری چیزیں شروع ہوجاتی ہیں۔ جیسے میں کمپیوٹر پر بیٹھا ہوا تھا اور تفسیر عثمانی کو تلاش کررہا تھا کہ اس کو میں download کروں۔ تو مجھے تفسیر عثمانی مل گئی، لیکن اچانک میری سائیڈ پر نظر پڑ گئی تو گندی سائیڈیں کھلی ہوئی تھیں یعنی windows بنی ہوئی تھیں۔ وہاں پر یہ چیزیں دیکھ کر میں حیران ہوگیا، میں نے کہا کہ قرآن کی تفسیر اور پھر ساتھ یہ چیزیں۔ لہٰذا آدمی حیران ہوجاتا ہے۔ ایسے ہی ایک دفعہ میرے نام سے لوگوں نے کچھ بیانات کی videos بنائی ہوئی ہیں، میں ایک trace کررہا تھا کہ کدھر ہے، وہ مجھے مل گیا، لیکن اس کے ساتھ ادھر ادھر چیزیں یہی تھیں، تو میں نے ان بنانے والوں سے شکوہ کیا کہ آپ نے اس کو اتنی گندی جگہ پر کیوں رکھا ہے؟ آپ کو اس کا احساس کیوں نہیں ہے کہ اس کو اتنی گندی جگہ پر نہیں رکھتے۔ تو ان کی تقریباً رونے کی سی کیفیت ہوگئی اور کہا کہ ہم تو اس کو کوشش کرتے ہیں کہ اچھی جگہ پر رکھیں، لیکن یہ خبیث قصداً ایسی چیزوں کے ساتھ وہ گندی چیزیں رکھتے ہیں، تاکہ لوگ اس کی وجہ سے اس طرف آجائیں یعنی یہ باقاعدہ پلاننگ کے ساتھ ہوتا ہے۔ خیر وہ پہلے والی چیز غیر اختیاری ہوتی ہے یعنی وہ آپ کے بس میں نہیں ہے، وہ آئے گی، لیکن جیسے ہی آجائے گی تو پھر اختیاری چیزیں شروع ہوسکتی ہیں کہ اچھا آگے دیکھو، آگے دیکھو اور آگے دیکھو۔ مولانا تقی عثمانی صاحب نے یہی بیان کیا تھا اور حضرت نے اس پر تفصیل سے بیان فرمایا تھا، اس کا مطلب یہی ہے کہ بے شک پاکباز آدمی ہو، متقی ہو اور نمازی ہو، لیکن یہ چیز اس کے ساتھ ہے اور ایک گناہ دوسرے گناہ کو attract کرتا ہے۔ اور پھر حضرت نے عجیب آخر میں نکتہ بیان فرمایا کہ اس میں بے شک فوائد بھی ہیں، لیکن جلبِ منفعت سے دفعِ مضرت زیادہ اہم ہے۔ لہٰذا اس میں کچھ چیزیں تو ایسی ہیں، جس کے لئے انسان کو رکھنا پڑتا ہے، لیکن اس کے لئے ٹائم کو محدود کرلے یعنی اپنے ساتھ ایک چھوٹا موبائل لے لیں، اگر message آیا ہو تو اس کا جواب وغیرہ دے دیں اور بات سننا سنانا اس چھوٹے موبائل سے کرلیا کریں، باقی اس کو گھر پر رکھیں، WhatsApp وغیرہ کے لئے صرف آدھا گھنٹہ یا پونا گھنٹہ اپنے پاس رکھیں، اس سے پھر یہ فائدہ حاصل ہوگا کہ آپ کا وقت ضائع نہیں ہوگا۔ اسی لئے میں نے خود بھی چھوٹا موبائل خریدا ہوا ہے، کیونکہ اس سے کچھ بچت ہوجاتی ہے کہ عام طور پر انسان کے ساتھ یہ نہیں ہوتا، صرف WhatsApp کا Limited time رکھ کر پھر اس کو گھر رکھ کر انسان فارغ ہوجاتا ہے۔ آپ لوگوں کو تو یہ مسئلہ نہیں ہوگا، لیکن ہمیں زیادہ مسئلہ اس لئے ہے کہ ہم سے لوگ expect کرتے ہیں کہ ہم فوراً ان کو جواب دے دیں۔ لیکن میں کہتا ہوں کہ لوگوں کی پروا نہیں کرنی چاہئے، بلکہ اپنے آپ کی پروا کرنی چاہئے، لوگوں کی وجہ سے اگر مجھے نقصان ہوتا ہے تو کیا فائدہ؟ لہٰذا چھوٹا موبائل اپنے ساتھ رکھ کر اسی سے کام چلاؤ۔ اس لئے اس کی زیادہ معلومات بھی مجھے نہیں ہے۔ اور حضرت تقی عثمانی صاحب دامت برکاتھم کی زبان سے سن کر میں بہت خوش ہوا، کیونکہ حضرت ہی کا نام اس چیز کے لئے زیادہ استعمال ہو رہا ہے یعنی فتویٰ کے لحاظ سے کہ digital تصویر گناہ نہیں ہے۔ آپ یقین جانیے کہ مفتیوں اور علماء کرام کو تو بس جیسے کنجی ہاتھ آگئی ہو۔ دراصل ان حضرات کے نفس کی ساری خواہش ہے، لیکن گلے ان کے ڈال دیا ہے کہ انہوں نے فتویٰ دیا ہے، جبکہ وہ حضرات چیخ رہے ہیں کہ اس کے لئے یہ فتوی نہیں تھا۔ لیکن اب لوگوں نے بالکل اس کو مخول بنا دیا ہے، معمولی معمولی چیزوں کے لئے Tiktok اور اس قسم کی چیزیں بناتے ہیں۔ مری چلے گئے تو مری کی تصویریں آرہی ہیں، فلاں کو کتاب دے رہے ہیں، فلاں کے ساتھ مل رہے ہیں اور ممبر کے اوپر بیٹھے ہوئے ہیں، ساتھ کیمرہ لگا ہوا ہے، ہر چیز نظر آرہی ہے۔ کیا عجیب چیز ہے! یہ کوئی دینی خدمت ہے؟ یہ صرف نفس کی خدمت ہے، اور لوگ اس کے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔ لہٰذا اس سے بچنا بہت ضروری ہے۔ ابھی حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے جو خلیفہ ہیں مولانا مظہر عالم مظفرپوری صاحب مدظلہ، اگرچہ حضرت شیخ الحدیث رحمۃ اللہ علیہ کے خلفاء اب بہت کم رہ گئے ہیں، لیکن وہ زندہ ہیں، اَلْحَمْدُ للہ! تو انہوں نے بہت سخت بیان اس کے بارے میں کیا ہے۔ میں آپ کو وہ بھیج دوں گا، ان شاء اللہ! حضرت اس کے بالکل قائل نہیں ہیں، فرماتے ہیں بھاڑ میں جائیں اس کے فائدے، میں تو بالکل اس کے ساتھ کھڑا نہیں ہوتا۔ کیونکہ ظاہر ہے کہ انسان کو اگر نقصان ہوجائے تو وہ اس کے فائدوں کا کیا کرے گا؟ آخر پہلے بھی تو لوگ دین کی خدمت کرتے تھے یا نہیں کرتے تھے، وہ کس طرح کرتے تھے؟ جس طرح پہلے کرتے تھے، وہ راستہ تو اب بھی کھلا ہے، بس اس کے ذریعے سے کریں۔ اور زیادہ modern بننے کی کوشش میں آدمی اپنا نقصان کرلے، اخلاق کا نقصان کرلے، اپنے دل کا نقصان کرلے تو کیا فائدہ؟ میں آپ کو اسی پر ایک نظم دے دوں گا، آپ اس کی آڈیو بنا لیں اور اس کا Slide show میں convert کرلیں۔ اس میں اس نے کہا ہے کہ یہ موبائل اتنا ہٹا کٹا کیوں ہوگیا ہے یعنی شروع اس سے کرتے ہیں۔ اور پھر کہتے ہیں کہ اس نے بہت چیزیں کھائی اور پی ہیں، اس نے لوگوں کا وقت کھایا ہے، لوگوں کا پیسہ کھایا ہے، تم لوگوں کا اخلاق کھایا ہوا ہے یعنی بہت ساری چیزیں اس نے بتائی ہیں کہ یہ ویسے ہی ہٹا کٹا نہیں ہوا۔ اور اب تو صورتحال یہ ہے کہ بس لوگ تیار بیٹھے ہوئے ہیں کہ کوئی چیز مجھے مل جائے اور فوراً میں شیئر کردوں اور ہزار آدمیوں کو، پندرہ سو آدمیوں کو بھیج دوں، چاہے وہ چیز ٹھیک ہو یا ٹھیک نہ ہو، کوئی تحقیق کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اور ایسے ہی جو stickers ہیں، بس ہر چیز کے جواب میں stickers select کر کرکے بھیج رہے ہوتے ہیں، یہ صرف ایک دل کی مشغولی کی بات ہے۔ اور اس وقت تو صورتحال یہ ہے کہ حرم شریف میں بیٹھے ہوتے ہیں، لیکن خانہ کعبہ کو نہیں دیکھ رہے ہوتے، بلکہ اپنے موبائل کو دیکھ رہے ہوتے ہیں، اپنی جو video بنائی ہوئی ہوتی ہیں، ان کو دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ یہ بہت بڑا مرض ہے۔ حضرت نے ابتدا کس چیز سے کی تھی؟ فرمایا یہ تو بلا ہے بلا۔ ہمارے بڑے بڑے افسر ہیں، ماشاء اللہ! مثلاً ہمارے جو استاذ تھے وہ director تھے ڈاکٹر انعام صاحب، ان کے پاس ابھی تک نہیں ہے، وہ نہیں رکھتے، کہتے ہیں کہ میں اپنا فارغ وقت کیوں ضائع کروں، یہ اگر میرے ساتھ ہوگا تو میرے لئے مصیبت ہوگی، بس ان کے گھر میں ایک ٹیلی فون لگا ہوا ہے PTCL کا، اس پر اگر کوئی رابطہ کرنا چاہے تو کرلے، ورنہ نہیں، ان کو کوئی پروا نہیں ہے۔ واقعتاً یہ ایک ideal چیز ہے کہ بس آدمی محفوظ رہے، دل بھی محفوظ رہے، دماغ بھی محفوظ رہے، وقت بھی بچے، کیونکہ بہت زیادہ وقت اس نے کھا لیا ہے۔ حضرت مولانا ارشد الحسینی صاحب دامت برکاتہم بیان فرما رہے تھے (ان دنوں اتنا زیادہ ٹائم نہیں گزرا تھا، اب تو ترقی بہت ہوگئی ہے) کہ infant بچہ اس طرح پڑا ہوا تھا اور ماں اپنے طور پر موبائل پر لگی ہوئی تھی اور باپ اپنی طرف موبائل پر لگا ہوا تھا، تو بچہ زبان حال سے کہہ رہا تھا کہ کاش میں کوئی موبائل ہوتا کہ میری طرف کچھ توجہ ہوتی۔ اور یہ بات بالکل صحیح ہے کہ بچے گر جاتے ہیں، بچے ڈوب جاتے ہیں اور ماؤں کو پتا ہی نہیں ہوتا یعنی یہ خبریں آتی ہیں کہ بچے کھیل رہے ہیں اور ایک بچہ ڈوب گیا ہے، لیکن ماں موبائل میں لگی ہوئی ہے، اس کو پتا اس وقت لگتا ہے جب وہ ختم ہوچکا ہوتا ہے۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ
۔ (آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب)
نوٹ! تمام آیات کا ترجمہ آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم سے لیا گیا ہے۔