سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 624

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال نمبر 1:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! میں فلاں UK سے ہوں۔ میرا ذکر ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ دو سو، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ چار سو، ’’حَقْ‘‘ چھ سو اور ’’اَللّٰہ‘‘ پندرہ سو دفعہ، اکثر علاجی ذکر ہوتا ہے سوائے ایک یا دو دن جس میں شدید نیند کی وجہ سے نہ ہوا، ان دنوں میں کام زیادہ تھا۔ منزل دوبارہ نیند اور وقت کی تنگی کی وجہ سے کافی عرصہ چھوٹ گئی تھی، پھر مجھے یاد آیا کہ میں دن کے وقت بھی پڑھ سکتا ہوں، تو اب اکثر میں پڑھتا ہوں، کچھ محسوس نہیں ہوتا۔ منزل نہ پڑھنے پر مجھے ڈر رہتا ہے کہ کوئی مصیبت یا نقصان نہ ہوجائے۔

جواب:

مَاشَاءَ اللہ اب آپ ’’اَللّٰہْ اَللّٰہْ‘‘ دو ہزار مرتبہ کریں، باقی وہی رکھیں۔ اور منزل کو باقاعدگی کے ساتھ پڑھنا چاہئے۔ آج کل اس کی ضرورت بہت زیادہ ہے، حالات control سے باہر ہیں، ایک دن کے ناغے سے بھی بعض دفعہ کسی چیز کو ونڈو مل سکتی ہے، جس کی وجہ سے بعد میں نقصان پہنچ سکتا ہے۔ جیسے کوئی چوہا کمرے سے باہر ہو تو صرف دروازہ بند کرنے سے انسان بچ سکتا ہے لیکن اگر اندر آجائے تو اس کو نکالنے کے لئے پھر بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ اس وجہ سے کوئی ناغہ نہیں ہونا چاہئے، کیونکہ اگر مخالفین ہوں تو اس وقت کوئی نہ کوئی نقصان پہنچا سکتے ہیں۔

سوال نمبر 2:

السلام علیکم! حضرت میرے پچیس منٹ والے مراقبے کا ایک مہینہ اور ہوگیا ہے، اور لطیفۂ روح کا پندرہ منٹ ہوگیا ہے، آگے اصلاح فرمایئے۔ تسبیحات بھی چل رہی ہیں۔ نوازش ہوگی۔

جواب:

آپ کو دونوں مقامات یعنی قلب اور روح پر ’’اَللّٰہْ اَللّٰہْ‘‘ محسوس ہوتا ہے یا نہیں؟

سوال نمبر 3:

جَزَاکَ اللہ شیخِ محترم آپ کی دعا سے میری ہمت بندھ گئی ہے، اللہ آپ کا سایۂ شفقت ہم پر سلامت رکھیں آمین۔

جواب:

جی بالکل دعا تو ہم سب کے لئے کرتے ہیں اور ہمت ہر چیز میں ضروری ہے، بغیر ہمت کے انسان کچھ بھی نہیں کر سکتا۔ لہٰذا آپ ہمت کیجئے، اللہ تعالیٰ مدد فرمائیں گے۔

سوال نمبر 4:

السلام علیکم!

نمبر 1:

ایک مہینے کے لئے پندرہ منٹ کا مراقبہ ملا ہے، پچھلے ماہ بالکل تصور نہیں بن رہا تھا، اس ماہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ تصور بن گیا ہے، ذہن اِدھر اُدھر نہیں جاتا لیکن ابھی کچھ محسوس نہیں ہوا۔

جواب:

آپ اپنا کام جاری رکھیں جو قسمت میں ہوگا اپنے وقت پہ مل جائے گا۔

نمبر 2:

میرے دل میں ان لوگوں کے لئے بغض ہے جن سے مجھے نقصان ہوا اور میری روحانیت تباہ ہوگئی، اگر وہ دین کی بات بھی کریں تو میں نہیں سنتی، مجھ پر اثر نہیں ہوتا۔ میں اس چیز سے بہت پریشان ہوں کہ کیسے اپنا دل صاف کروں، آپ رہنمائی کیجئے۔

جواب:

آپ اس طرح کریں کہ دوسروں کے بارے میں بالکل نہ سوچیں، جیسے لاتعلق ہوتے ہیں اس طریقے سے رہیں اور جن سے آپ کو فائدہ ہوتا ہے یعنی اپنے شیخ سے اپنا رابطہ رکھیں، جو کچھ آپ کو بتائیں بس اس پہ عمل کریں، دوسروں کے ساتھ کیا ہوا اس کو بھول جائیے، اسی میں فائدہ ہے۔

سوال نمبر 5:

السلام علیکم! میرا نام فلاں ہے، شانگلہ سے تعلق رکھتا ہوں، ایف ایس سی میں ہوں۔ آپ نے مجھے مندرجہ ذیل ذکر دیا تھا ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ دو سو مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ چار سو مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ چھ سو مرتبہ، ’’اَللّٰہ‘‘ تین ہزار مرتبہ اور دس منٹ کا مراقبہ کہ دل ’’اَللّٰہْ اَللّٰہْ‘‘ کررہا ہے، لیکن دل میں کچھ محسوس نہیں ہوتا۔ بہت عرصہ ہوگیا ہے لیکن دل سے اَللہ اَللہ محسوس نہیں ہوتا اور ذکر سے کچھ ترقی بھی محسوس نہیں ہورہی۔ اب مجھے مزید ذکر کی تلقین فرمائیں، اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں کیونکہ زندگی ضائع ہوتی نظر آتی ہے۔

جواب:

اصل میں آپ صرف ایک طریقے پر تکیہ لگائے بیٹھے ہیں حالانکہ دنیا میں ایک طریقہ نہیں ہوا کرتا، ویسے بزرگ فرماتے ہیں کہ جتنے لوگ ہیں اتنے طریقے ہیں۔ لہٰذا آپ دوسروں کو دیکھ کر مایوس نہ ہوا کریں، ایک طریقہ نہیں ہے۔ تو آپ اس طرح کریں کہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ دو سو مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ چار سو مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ چھ سو مرتبہ اور ’’اَللّٰہ‘‘ ساڑھے تین ہزار مرتبہ زبانی کرلیا کریں اور جس وقت یہ ساڑھے تین ہزار مرتبہ اَللہ زبانی ہوجائے، پھر تھوڑی دیر کے لئے آنکھیں بند کرکے یہ سوچیں کہ میرا دل اسی طرح ’’اَللّٰہْ اَللّٰہْ‘‘ کررہا ہے۔ بے شک کچھ بھی محسوس نہ ہو لیکن ہمارا کام تو اپنے آپ کو پیش کرنا ہے باقی کام تو اللہ تعالیٰ کا ہوتا ہے۔

سوال نمبر 6:

السلام علیکم! محترم شیخ صاحب امید ہے آپ خیریت سے ہوں گے۔ محترم مجھے پانچ پانچ منٹ کے پانچ مراقبے دیئے تھے، اس کے ساتھ چار ہزار مرتبہ ’’اَللّٰہْ‘‘ کا ذکر بھی دیا گیا تھا اور پندرہ منٹ صفات کا فیض لطیفۂ روح پر، تقریباً تین ماہ ہوگئے ہیں۔ محترم میں نے دیر سے بتایا، اس کی وجہ یہ ہے کہ مجھے محسوس نہیں ہوا یا سمجھ نہیں آئی۔ اور لطیفۂ روح پر توجہ کرکے بیٹھ جاتا ہوں تو بس ذکر محسوس ہوتا ہے، مزید رہنمائی کردیں۔

جواب:

آپ لطیفۂ روح پر جو تصور کرتی ہیں وہ تو ٹھیک ہے، لیکن جو صفات کے فیض والی بات ہے وہ اللہ جل شانہٗ کی جو خاص صفات ہیں جن کو ہم صفاتِ ثبوتیہ کہتے ہیں، ان کا آپ ذہن میں تصور کرلیں کہ ان کا جو فیض ہے، کیونکہ اللہ پاک کے دیکھنے کا فیض ہے، اللہ پاک کے سننے کا فیض ہے، اللہ پاک کے کلام کا فیض ہے، ہر چیز جو اللہ پاک سے تعلق رکھتی ہے اس کا فیض ہوتا ہے۔ تو اس کا جو فیض ہے وہ آپ کے لطیفۂ روح پر اس طرح آرہا ہے کہ آپ ﷺ کی طرف اور آپ ﷺ سے شیخ کی طرف اور شیخ سے آپ کے لطیفہ پر آرہا ہے۔ بس آپ کا کام یہ ہے، اس سے زیادہ آپ اس پہ نہ سوچیں، تو اِنْ شَاءَ اللہُ الْعَزِیْز جیسے بھی ہوگا آپ کو معلوم ہوجائے گا۔

سوال نمبر 7:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! حضرت جی میرے مراقبے کو آج تیس دن پورے ہوگئے ہیں۔ حالت اس طرح ہے کہ اپنے آپ کو کبھی بہت اچھا اور کبھی بہت گرا ہوا محسوس کرتا ہوں، یعنی نفس کا مقابلہ نہیں ہو پا رہا اور ذکر کی بہت کوشش کے باوجود بھی دھیان بھٹک جاتا ہے اور ذکر بھی جاری رہتا ہے۔

جواب:

دیکھیں! انسان کے ساتھ نفس بھی لگا ہوا ہے اور انسان کا دل ذکر کی برکت سے اللہ کے ساتھ بھی لگا ہوتا ہے۔ لہٰذا کبھی انسان نفس کے اوپر غالب ہوجاتا ہے، کبھی نفس انسان پر غالب ہوجاتا ہے لیکن یہ مقابلہ جاری رہے گا، یہاں تک کہ نفس بالکل قابو میں آجائے۔ اس وقت آپ جس condition میں ہیں یہ نفسِ لوّامہ کی حالت ہے، بہرحال اس سے اوپر جانا ہے اور وہ نفسِ مطمئنہ ہے۔ اس کے لئے جیسے آپ کو طریقہ بتایا جائے اسی طرح کرتے جائیں اِنْ شَاءَ اللہُ الْعَزِیْز ایک دن آپ کامیاب ہوجائیں گے اور جو ذکر میں دھیان بھٹک جاتا ہے تو آپ کا کام بس اختیاری طور پر اتنا ہے کہ جس وقت آپ کو پتا چل جائے کہ میرا دھیان بھٹک گیا ہے، آپ پھر اختیاری طور پر یکسو کرلیں۔ چنانچہ اختیاری طور پر آپ کا یہ سلسلہ چلتا رہے گا، جتنا وقت آپ کو بتایا ہے اس وقت تک آپ اختیاری طور پر یکسو ہوا کریں اور غیر اختیاری کی پروا نہ کریں، نہ اس کے ساتھ الجھیں۔ اِنْ شَاءَ اللہُ الْعَزِیْز اس میں بہتری آتی جائے گی۔ آپ نے مراقبے کا بتایا ہے لیکن باقی تسبیحات کا آپ نے نہیں بتایا، تو کیا وہ تسبیحات کرتی ہیں یا نہیں کرتیں؟

سوال نمبر 8:

حضرت السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! اَلْحَمْدُ لِلّٰہ ذکر ومراقبہ بیماری کی حالت میں بھی چلتا رہتا ہے، کسی عمل کے لئے مجھے مجاہدہ کرتے ہوئے مثلاً سنتِ مؤکدہ اور تلاوتِ قرآن کی مشق کرتے ہوئے ایک وقت گزر جاتا ہے اور پھر بیماری آجاتی ہے اور ساری مشق صفر ہوجاتی ہے، پھر دوبارہ پہلے والے مجاہدے کی ضرورت ہوتی ہے، ان حالات میں کیا کرنا چاہئیے۔

جواب:

ان حالات میں یہی ہے کہ جیسے انسان کسی جگہ پہنچ کر گِر جاتا ہے، پھر اٹھ کے چل پڑتا ہے۔ پھر گرتا ہے اور اٹھ کر چل پڑتا ہے، تو آپ کی یہ کوشش جاری رہنی چاہئے اور رابطہ بھی رہنا چاہئیے۔

سوال نمبر 9:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! احوال: حضرت جی معمولات اَلْحَمْدُ لِلّٰہ معمول کے مطابق ہورہے ہیں، حضرت جی میرا ذکر ایک مہینے کے لئے ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ دو سو مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ چار سو مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ چھ سو مرتبہ اور ’’اَللّٰہْ‘‘ ساڑھے چودہ ہزار مرتبہ، اللہ کے فضل وکرم اور آپ کی دعاؤں کی برکت سے مکمل ہوگیا ہے۔ حضرت جی کیفیت میں کوئی خاص تبدیلی محسوس نہیں ہوئی لیکن جب میں ذکر کرتا ہوں تو دل پہ محسوس ہوتا ہے، پہلے منتشر رہتا تھا اور ذکر کرتے کرتے تھک جاتا تھا اور مجھے محسوس ہوتا تھا کہ میرا دل سے زیادہ دماغ مصروف ہے۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ جتنا بھی ذکر کروں اس وقت تھکاوٹ محسوس نہیں ہوتی بلکہ دل لگا رہتا ہے۔ حضرت جی دوسری بات یہ ہے کہ میرے ذکر کرنے کا معمول اشراق کے بعد کا ہے، اس لئے ذکر کے درمیان نیند طاری ہوجاتی ہے، اس سے چھٹکارا پانے کے لئے بیٹھے بیٹھے چھ سات منٹ سر نیچے کرکے آرام کرلیتا ہوں، پھر نیند کی گرفت ختم ہوجاتی ہے اور دوبارہ پھر چست ہوکر ذکر کرلیتا ہوں۔ کیا میں ایسا کرسکتا ہوں؟ کیونکہ حالتِ نیند میں تلفظ بھی غلط ہوسکتا ہے۔ نمازیوں کی جوتیاں سیدھی کرنے کا مجاہدہ بھی جاری ہے اَلْحَمْدُ لِلّٰہ، آگے میرے لئے کیا حکم ہے؟

جواب:

مَاشَاءَ اللہ! ابھی آپ اس کو جاری رکھیں جس طرح آپ کررہے ہیں، اِنْ شَاءَ اللہُ الْعَزِیْز اللہ پاک اس میں اور بھی فائدہ نصیب فرمائیں گے۔

سوال نمبر 10:

اگر لیٹے ہوئے خود سے قلب میں اَللہ اَللہ شروع ہوجائے تو اس کا کیا کریں؟

جواب:

ہونے دیں۔

سوال نمبر 11:

حضرت جی مجھے آپ سے بیعت ہوئے چار سال ہوگئے ہیں، میں نام کی عالمہ بھی ہوں۔ لیکن میں ہمیشہ کچھ نہ کچھ سوچتی رہتی ہوں۔ مراقبے کا ثبوت کہاں سے ہے اور مراقبے میں صرف اَللہ اَللہ ہی کیوں کہنا ہوتا ہے؟ جب مراقبہ اللہ پاک کے دھیان کے لئے ہوتا ہے تو ہمیں ویسے بھی ہر بات میں یہ خیال ہوتا ہے اور گناہوں سے بھی رکتے ہیں۔ خاص کر مجھے غیبت سے مسئلہ تھا، اَلْحَمْدُ لِلّٰہ اب وہ بھی نہیں ہے۔ میں باقی سب اذکار کرتی ہوں لیکن مراقبہ نہیں کرتی رہی۔ میں آپ کے بیانات بھی کبھی کبھار سنتی رہی پوں، میرا آپ سے قلبی تعلق نہیں رہا نہ ہی میرے ذہن میں تھا کہ شیخ سے سب سے زیادہ فائدہ ہوتا ہے۔ میرے پاس تفسیر پڑھنے والوں کی تعداد بھی کافی بڑھ گئی ہے، تقریباً چار سو تک ہوگئی ہے، لیکن دین کے ساتھ محبت اور عزت یہ اصل میں آپ کی کوئی دعا اور فضلِ خداوندی ہے، ابھی تین دن ہوئے میں نے آپ کا بیان سنا، جس میں آپ نے فرمایا کہ میں سوچتا ہوں مزید لوگوں کو بیعت نہ کروں، اور بھی بہت کچھ فرمایا۔ اُس دن سے میرا قلبی تعلق بھی ہے، میں نے اس دن ارادہ کرلیا کہ میرے شیخ ومرشد مجھے جو حکم بھی دیں گے میں کبھی سوال نہیں کروں گی، میں ان کی ہر بات دل سے قبول کرتی ہوں، مجھے دل سے معاف کیجئے۔ میں کہاں سے شروع کروں؟ حضرت جی مجھے بتایئے کہ کیا آپ مجھ سے ناراض ہیں؟

جواب:

نہیں! ناراضگی کی کوئی بات نہیں ہے۔ اصل میں یہ تدریجی طور پر انسان کو پتا چلتا ہے اور بالخصوص علماء کو کچھ اشکالات وغیرہ بھی ہوتے ہیں، ان کے اشکالات کے جوابات بھی ہوتے ہیں اور اصل بات تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد ہوتی ہے۔ اب آپ کو ایک اشکال تھا اور آپ مراقبہ کو نہیں سمجھتی تھیں کہ مراقبہ کیا چیز ہے۔ اصل میں مراقبہ ذرائع ہیں مقاصد نہیں ہیں اور مقاصد متعین ہوتے ہیں، ذرائع متعین نہیں ہوتے۔ وہ مقصد جس ذریعے یا جس طریقے سے بھی پورا ہوجائے تو وہ کافی ہے۔ بہرحال اَللہ اَللہ کا صرف مراقبہ نہیں ہوتا، مراقبے تو مختلف ہوتے ہیں، مثلاً بعض حضرات کو میں آیت الکرسی کا مراقبہ دیتا ہوں، بعض حضرات کو سورۃٔ اخلاص کا مراقبہ دیتا ہوں، بعض حضرات کو ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ کا مراقبہ دیتا ہوں، بعض حضرات کو کسی خاص سوچ کا مراقبہ دیتا ہوں۔ لہٰذا جو آپ کو بتایا گیا ہے صرف وہی ایک مراقبہ تو نہیں ہے، کیونکہ آپ کے مزاج کے مطابق یہی ہے، تو آسان طریقہ یہی ہے کہ اسی سے شروع کیا جائے۔ دیکھیں! اصل تو اللہ تعالیٰ کا دھیان ہے یعنی اَللہ اَللہ کہنا مقصد نہیں ہے بلکہ یہ تو اللہ کے دھیان تک جانے کا ایک راستہ ہے۔ مثلاً اللہ جل شانہٗ کی ذات تو وراء الوراء ہے، اس کا تو آپ تصور نہیں کرسکتیں، البتہ اللہ کے نام کا تصور کرسکتی ہیں۔ پہلے تو اللہ کے نام کے تصور سے ہم شروع کرتے ہیں، پھر اللہ جل شانہٗ کے سامنے بیٹھنے کا تصور کرتے ہیں، پھر اللہ جل شانہٗ کا اپنے آپ کی طرف دیکھنے کا تصور کرتے ہیں، اس طرح ہوتے ہوئے اللہ کا دھیان نصیب ہوجاتا ہے، اس میں کئی steps ہیں۔ اگر آپ کو پہلے step پہ ہی اشکال ہے تو وہ پوچھنا چاہئے تھا، ہم آپ کو بتا دیتے۔ بہرحال مَاشَاءَ اللہ اگر اللہ تعالیٰ نے آپ کا مسئلہ حل کردیا ہے تو اس پر اللہ پاک کا شکر ادا کریں اور اب آپ چلنا شروع کریں، اور چلنا یہ ہے کہ جیسے میں نے آپ کو بتایا تھا کہ آپ پندرہ منٹ کے لئے یہ تصور کریں کہ میرا دل ’’اَللّٰہْ اَللّٰہْ‘‘ کررہا ہے یعنی آپ نے کروانا نہیں ہے، بس جو ہورہا ہے اس کی طرف توجہ کرنی ہے۔ اس کے لئے بزرگ فرماتے ہیں کہ جیسے بلی چوہے کا شکار کرتی ہے تو وہ alert رہتی ہے کہ جیسے ہی چوہا آئے گا تو میں اس کو pick کروں گی۔ اسی طریقے سے جب ’’اَللّٰہْ اَللّٰہْ‘‘ ہونا شروع ہوجائے گا تو آپ miss نہ کریں۔ پھر آپ مجھے مہینے کے بعد بتائیں کہ کیا صورتحال ہے اور تیسرا کلمہ، درود شریف اور استغفار کی تسبیحات کا تو پہلے آپ کو بتایا تھا وہ بھی آپ جاری رکھیں، اگر نہیں شروع کیں تو شروع کرلیں اور ہر نماز کے بعد جو تسبیحات ہیں وہ بھی کریں۔

سوال نمبر 12:

شیخِ محترم السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! نام فلاں، والد فلاں، شہر فلاں، تعلیم یہ، شیخِ محترم میں آپ کی سالکہ روزانہ کی تسبیحات اذکار کے ساتھ تیسرا مراقبۂ صفاتِ ثبوتیہ میرا سبق ہے۔ شیخِ محترم میں اپنے بچپن سے ہی بہت بیمار، پریشان، مصائب اور مشکلات کا شکار رہی ہوں، اب بھی تقریباً تین ماہ سے بیمار ہوں۔ شیخِ محترم مجھے نظرِ بد کے لئے کیا پڑھنا چاہئے؟ اللہ کریم آپ کو اجرِ عظیم عطا فرمائیں آمین۔

جواب:

آپ منزلِ جدید کو مغرب کے بعد باقاعدگی کے ساتھ پڑھا کریں، مغرب کے بعد نہ ہوسکے تو عشاء کے بعد پڑھ لیا کریں اور جو ذکر وتسبیحات وغیرہ آپ کو بتائیں ہیں، وہ بھی آپ جاری رکھیں۔ باقی صفاتِ ثبوتیہ کے مراقبے کی تفصیل آپ نے نہیں لکھی کہ وہ کیسا ہورہا ہے؟

سوال نمبر 13:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! میرا ذکر ساڑھے نو ہزار مرتبہ زبانی طور پر ’’اَللّٰہْ اَللّٰہْ‘‘ کرنے کا ہے، مہینہ پورا ہوچکا ہے، مزید رہنمائی فرما دیں۔

جواب:

اب آپ دس ہزار مرتبہ ’’اَللّٰہْ اَللّٰہْ‘‘ کریں لیکن اس میں دو سو مرتبہ ’’اَللّٰہْ اَللّٰہْ‘‘ میں یہ تصور کریں کہ اللہ جل شانہٗ محبت کے ساتھ آپ کے قلب کی طرف دیکھ رہے ہیں اور آپ کا دل بھی اَللہ اَللہ کررہا ہے۔

سوال نمبر 14:

ایک سالک کا سوال آیا تھا جو کہ حضرت نے مجلس میں نہیں سُنایا، بلکہ اُس کا صرف جواب حضرت نے دیا ہے۔

جواب:

اگر محسوس ہوتا ہے تو اب دس منٹ لطیفۂ قلب، دس منٹ لطیفۂ روح اور پندرہ منٹ لطیفۂ سِر پہ شروع کرلیں۔

سوال نمبر 15:

السلام علیکم!

This is فلاں from UK. May Allah سبحانہٗ وتعالیٰ preserve you dear Sheikh. I write with a lot of worry and grief in my heart. During travel I feel as though my قلبی توجہ الی اللہ has decreased and that my focus in my Salah and towards آخرت has decreased despite the fact that I am in much more pious company at home. I can’t understand why this is happening. May Allah سبحانہٗ وتعالیٰ forgive me. A thought comes in mind and if it is correct its from Allah otherwise from my نفس and شیطان. There is gray page on black cloth. It looks like it is shining but on white clothes the same gray page looks dark. Maybe because the ماحول I am in now is like the white clothes and the ماحول at home is like a black one. My ایمان is under reaction at home because of کفر and not now. Kindly advise dear Sheikh and make dua for me that Allah تعالیٰ make me a true مرید in love of you. I also want to ask dear Sheikh what is your blessed advice regarding organ donation when people make وصیہ at their organs be donated after their death. Secondly, is it better to read less in تہجد and do loud تلاوت or read more but read quieter? Thirdly, there is حدیث in which it is mentioned that the Prophet ﷺ bathed with clothes on. Can I act on this?

جواب:

مَاشَاءَ اللہ! آپ نے اس کی اچھی توجیہ فرمائی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ جو چیز بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے مل رہی ہے، اس پر اللہ کا شکر کرنا چاہئے اور اگر کوئی مسئلہ ہے تو اس کو اپنے نفس کی شرارت سمجھنا چاہئیے اور اس کا احتساب کرنا چاہئیے۔ بہرحال آپ نے جو اپنی طرف سے توجیہ کی ہے یہ بھی اچھی ہے، لیکن اس کو احتساب کے طور پہ سمجھنا چاہئے، کیونکہ اس وقت آپ احتساب کے ماحول میں ہیں یعنی کہ آپ کو وہ چیزیں نظر آنے لگی ہیں۔ میں آپ سے عرض کرتا ہوں کہ جب انسان غافل ہوتا ہے تو وہ اپنے مسائل کو نہیں جانتا۔ جیسے ایک شخص کی نظر کمزور ہے تو اس کو آس پاس کی چیزیں نظر نہیں آتیں مثلاً سانپ، بچھو یا کوئی اور جراثیم کی چیزیں ہیں، اس کو پتا نہیں چلتا تو مطمئن رہتا ہے۔ لیکن جس وقت اس کی نظر تیز ہوجاتی ہے، اس کو سمجھ آنا شروع ہوجاتی ہے تو پریشان ہوجاتا ہے۔ لہٰذا یہ پریشانی اصلاح کے لئے ضروری ہے یعنی بچنے کے لئے ضروری ہے۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے اگر آپ کو آنکھیں دی ہیں تو اس پہ اللہ کا شکر ادا کریں اور اب اس کو احتساب کے لئے استعمال کریں۔ اور آپ نے organ donation کے بارے میں سوال کیا ہے، یہ فتویٰ کی بات ہے، اس کے لئے بہتر ہے کہ آپ مولانا تقی عثمانی صاحب سے پوچھیں، ان کی جو رائے ہوگی وہ ہماری رائے سے یقیناً زیادہ بہتر ہوگی، کیونکہ اس کا تعلق فتویٰ کے ساتھ ہے اور میرے خیال میں اعضاء کی پیوندکاری پر مفتی شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی شاید کوئی کتاب مل جائے گی، خون دینا یا اس قسم کی جو بات ہے اس سے پھر یہ مسائل نکل آئیں گے اِنْ شَاءَ اللہ۔ دوسری بات یہ ہے کہ تہجد کو مختصر پڑھنا اور تلاوت زیادہ کرنا، اور Read more but read quieter لیکن یہ انسان کے اپنے ذوق پر ہے، تلاوت کے بارے میں ’’حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذوق خاموشی سے تلاوت کرنے کا تھا اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جہری تلاوت کرنے کا تھا۔ آپ ﷺ نے ان دونوں کو فرمایا کہ ابوبکر آپ آواز کو تھوڑا سا اونچا کرلیں اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا: آپ تھوڑا سا نیچا‘‘۔ (ابوداؤد، حدیث نمبر: 1329) تاکہ اعتدال ہوجائے۔ بہرحال کپڑوں پر بات کرنا یہ تو احوال کے مطابق ہوتا ہے، مثلاً مدینہ منورہ میں جو موسم ہے وہ یہاں نہیں ہے اور بالخصوص انگلینڈ میں تو نہیں ہوتا، لہٰذا یہ چیزیں dependent ہوتی ہیں۔ ایک مرتبہ اس قسم کی ایک بات ہوئی کہ عشاء کے وقت کھانا ضرور کھانا چاہئے ورنہ آدمی بوڑھا ہوجاتا ہے، تو میں سوچ میں پڑگیا کہ ہمارے ہاں تو اس طرح ہوتا ہے کہ اگر عشاء کے بعد کھانا کھائیں تو پھر کھانے اور سونے کے درمیان میں difference کم ہوجاتا ہے اور میرا پروگرام تو مغرب کے بعد ہی ہوتا ہے، پھر میں عشاء کے بعد ہی کھا سکتا ہوں۔ میں پھر مغرب سے پہلے پہلے سارا کچھ طے کرلیتا ہوں یعنی اس کے بعد پھر نہیں کھاتا اور اس سے مجھے فائدہ بھی ہے کیونکہ ڈاکٹر نے مجھے یہ suggest کیا ہے۔ میں اس پہ حیران تھا کہ کیا کروں، بعد میں اس پہ تحقیق کی تو پتا چلا کہ وہ حدیث شریف اتنی authentic نہیں ہے جس میں یہ بتایا گیا ہے۔ پھر بھی میں فیصلہ نہیں کرسکتا تھا، چنانچہ اس پہ استخارہ کیا، تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی طرف سے آیا کہ اپنے معالج کی بات پر عمل کریں، یعنی یہ طبی چیزیں ہیں۔ لہٰذا ڈاکٹر کی بات پہ عمل کریں جو وہ آپ کو کہتے ہیں۔ جب میں جرمنی گیا تو مجھے advise کیا گیا کہ آپ اسے پاکستان نہ سمجھیں، یہ پاکستان نہیں ہے، یہاں سردی زیادہ ہوتی ہے اور موسم سرد ہوتا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ آپ وضو کرکے فوراً باہر نکل آئیں، اس سے بندہ بیمار ہوجاتا ہے۔ اس لئے آپ پہلے dryer سے اچھی طرح سر کے بال اور داڑھی کو خشک کرکے پھر باہر نکلا کریں۔ تو ہر جگہ کے اپنے اپنے مسائل ہوتے ہیں، اب ظاہر ہے کہ مکہ مکرمہ میں اس طرح کی کوئی مشکل نہیں ہے کیونکہ وہاں تو موسم dry ہے اور dry موسم میں اس طرح کرلیں تو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ بہرحال یہ ہے کہ جہاں پر اس قسم کا موسم نہ ہو تو پھر مسائل ہوسکتے ہیں، اس وجہ سے آپ ڈاکٹر کی بات پر عمل کریں یہ زیادہ بہتر ہے۔ کیونکہ ممانعت نہیں ہے۔ جیسے ایک مرتبہ صحابہ کرام آپ ﷺ کے پاس آئے اور پوچھا: یا رسول اللہ ﷺ! ہم حمام میں کیسے ننگے ہوجائیں؟ حالانکہ اللہ دیکھتا ہے‘‘۔ گویا وہ کپڑے اتار کے نہاتے تھے۔ یعنی گنجائش ہے تو اس گنجائش پہ عمل کیوں نہ کیا جائے۔

ایک اور بات بھی ہے کہ حضرت بہاؤالدین نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ نے خانقاہ میں کہا تھا کہ ’’آپ ﷺ بغیر چھنے ہوئے آٹے کی روٹی کھاتے تھے‘‘۔ (صحیح بخاری، حدیث نمبر: 5410) تو ہم بھی آج اس طرح کرتے ہیں۔ چونکہ اس وقت اس طرح مشینوں کا نظام تو نہیں تھا، وہ روٹی کھائی تو سب کے پیٹ میں درد ہوگیا۔ تو انہوں نے یہ نہیں کہا کہ سنت سے مسئلہ ہوگیا ہے، بلکہ فرمایا کہ ہمارا پیٹ اس سنت کے قابل نہیں ہے، ہم نے یہ جسارت کی ہے، ہم سب کو استغفار کرنا چاہئے، آئندہ ہم ایسا نہیں کریں گے۔ لہٰذا ہم اس غلطی کو اپنے اوپر ہی لے لیتے ہیں بہتر ہے۔

سوال نمبر 16:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

نمبر 1:

تمام لطائف پر پانچ منٹ ذکر اور مراقبہ یہ کہ سارے اعضاء سجدے میں ہیں اور مراقبۂ دعائیہ۔ تمام اعضاء سجدے میں محسوس ہوتے ہیں اور تمام اعضاء دعا میں مشغول ہیں۔

جواب:

سُبْحَانَ اللہ! اب سورۂ اخلاص کا ترجمہ ان کو بتائیں اور اس کے بعد ان سے کہیں کہ سورۂ اخلاص کے مفہوم کا فیض اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ ﷺ کی طرف آرہا ہے اور آپ ﷺ کی طرف سے شیخ کی طرف آرہا ہے اور شیخ کی طرف سے آپ کے پورے جسم پہ آرہا ہے۔

نمبر 2:

تمام لطائف پر دس منٹ ذکر اور مراقبۂ صفاتِ ثبوتیہ پندرہ منٹ۔

جواب:

اس کو فی الحال جاری رکھیں۔

نمبر 3:

تمام لطائف پر دس منٹ ذکر اور مراقبۂ شیوناتِ ذاتیہ پندرہ منٹ، محسوس نہیں ہوتا۔

جواب:

فی الحال جاری رکھیں۔

نمبر 4:

تمام لطائف پر پانچ پانچ منٹ ذکر اور مراقبۂ صفاتِ سلبیہ پندرہ منٹ، محسوس نہیں ہوتا۔

جواب:

فی الحال اس کو جاری رکھیں۔

نمبر 5:

تمام لطائف پر پانچ منٹ ذکر اور مراقبۂ حقیقتِ قرآن پندرہ منٹ، آپ نے مراقبۂ صلوٰۃ کا فرمایا تھا کہ اگر نہ کیا ہو تو کرلیں۔ تو مراقبۂ حقیقتِ قرآن اور حقیقتِ صلوٰۃ دونوں کرلئے ہیں، حضرت جی! اب کون سا مراقبہ شروع کریں؟

جواب:

اوپر میں نے نمبر ایک کو جو مراقبہ بتایا ہے یہی ان کو بتا دیجئے گا۔

سوال نمبر 17:

السلام علیکم! محترم مرشدی دامت برکاتہم۔ امید ہے کہ آپ خیریت سے ہیں۔ حضرت جی اس مہینے کے سارے اذکار پورے ہوگئے ہیں، دو، چار، چھ اور چار ہزار۔ تمام لطائف پر دس دس منٹ اور مراقبۂ معیت پندرہ منٹ، تقریباً نو مہینے سے جاری ہیں۔

جواب:

مَاشَاءَ اللہ! اب اس طرح کریں کہ سورۂ اخلاص کے مفہوم کا جو فیض ہے اس کا تصور کرلیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ ﷺ کی طرف اور آپ ﷺ کی طرف سے شیخ کی طرف اور شیخ کی طرف سے آپ کی طرف آرہا ہے۔

سوال نمبر 18:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! حضرت، میں نے کئی جگہ پڑھا ہے بزرگ فرماتے ہیں اور آپ نے بھی ایک دن پہلے اس کے بارے میں ذکر کیا تھا کہ کبھی کبھی اللہ پاک فاسق وفاجر سے بھی دین کا کام لے لیتے ہیں، خود تو وہ جہنم میں جائے گا لیکن اس کی وجہ سے کئی لوگ جنت میں جائیں گے۔ حضرت جی اس سے تو بہت ڈر لگتا ہے کہ ان میں ہم ہی شامل نہ ہوں، بظاہر تو داڑھی رکھی ہے، اپنی طرف سے سمجھتا ہوں کہ دین کا کام کررہا ہوں اور آخرت میں پتا چلے کہ کچھ بھی نہیں کیا۔ فاسق، فاجر کی نشانی بتا دیں، اللہ پاک آپ سے اور آپ کے گھر والوں سے راضی ہو۔

جواب:

اصل میں یہ ڈرنے کی ہی بات ہے۔ ایک دفعہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کو کسی نے لکھا کہ حضرت مجھے تو اپنے بارے میں بڑا خطرہ ہے، حضرت نے فرمایا: یہ خطرہ تو معرفت کا قطرہ ہے، لہٰذا اپنے بارے میں ڈرنا تو چاہئے۔ باقی فاسق وفاجر کا مطلب یہ ہے کہ انسان جو گناہ کرتا ہے اور ظاہری طور پر ان کو چھپاتا نہیں ہے یہ فسق ہے اور جو نفس کی بات مانتا ہے وہ فاجر ہے۔ لہٰذا واقعی اللہ تعالیٰ کسی سے بھی کام لے سکتا ہے اور بعض دفعہ کسی فاسق و فاجر سے بھی، کیونکہ اس کی نیت ٹھیک نہیں ہوتی لیکن وہ کام تو ٹھیک ہوتا ہے، اس لئے اس کو فائدہ نہیں ہوتا۔ کیونکہ حدیث شریف میں ہے:

’’إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ‘‘ (صحیح بخاری، حدیث نمبر: 1)

ترجمہ: ’’بےشک تمام اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے‘‘۔

لیکن وہ کام ٹھیک ہوتا ہے تو ظاہر ہے اس کا فائدہ ہوتا ہے۔ مثلاً ایک شخص اپنی شہرت کی خاطر لوگوں کے لئے راستہ بنا دیتا ہے کہ مجھے لوگ اچھا سمجھیں، اس سے لوگوں کو فائدہ ہوگا یا نہیں ہوگا؟ اور چاہتا بھی ہے کہ اس سے لوگوں کو فائدہ پہنچے، لیکن اس نے یہ کام اچھی نیت سے نہیں کیا، لہٰذا اس کو تو فائدہ نہیں ہوگا لیکن لوگوں کو فائدہ ہوگا۔ بہرحال یہ تو ہوتا رہتا ہے، آپ یہ سمجھیں کہ آپ نے اپنی نیت بھی درست کرنی ہے اور کام بھی اچھے کرنے ہیں، کام کے لئے شریعت ظاہر ہے، اس میں کوئی چیز چھپی ہوئی نہیں ہے۔ لہٰذا آپ نیت درست کرلیں، اِنْ شَاءَ اللہ سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔

سوال نمبر 19:

حضرت میں چار سال پہلے آپ سے بیعت ہوا تھا، جو آپ نے اعمال دیئے تھے وہ میں نہیں کرسکا۔ میں حفظ کلاس پڑھاتا ہوں۔ اپنے نفس پہ قابو نہیں ہے، برے خیالات آتے ہیں۔

جواب:

آپ اس طرح کریں کہ فی الفور کام شروع کردیں، کام شروع سے کرنے سے کیا مراد یہ ہے۔ اس پر میں آپ کو ایک بات بتاؤں، ہمارے ایک ساتھی بہت عرصے کے بعد آئے تھے جیسے آپ بہت عرصے کے بعد آئے ہیں۔ تو میں نے پوچھا بھائی کیا کررہے تھے؟ کہتے کچھ کام تھا۔ میں نے کہا: اس کو بھی کام سمجھیں، یہ بھی ایک کام ہے۔ یعنی دنیا میں مختلف کام ہوتے ہیں، مثلاً کھانا ضروری ہے لیکن پانی پینا بھی ضروری ہے۔ اب کوئی آدمی کہتا ہے کہ کھانا ضروری ہے اور کھانے میں لگ جائے اور پانی کی پروا نہ کرے، تو ظاہر ہے یہ incomplete ہے۔ اسی طریقے سے انسان جو بھی دین کا کام کرتا ہے اس میں سب سے ضروری چیز نیت اور اخلاص ہے۔ اخلاص کیا ہے؟ یہ نفس کے ساتھ پوری جنگ ہے، انسان کی اگر تربیت نہ ہو تو اخلاص کے ساتھ کام نہیں کرسکتا، اس کے اندر دنیا کی سو چیزیں آجاتی ہیں۔ ویسے اور بھی بہت سارے مسائل ہیں جیسے نظروں کی حفاظت ہے یا حسد ہے، کینہ ہے اور بہت سارے مسائل ہیں، تو ان تمام چیزوں سے بچنا بہت ضروری ہوتا ہے۔ اب جیسے انسان عمل کے لئے ظاہری علم حاصل کرتا ہے، تو اس عمل کی قبولیت کے لئے باطنی چیزوں کا بھی خیال رکھیں، کیونکہ قبولیت کی کوئی پروا نہ کرے تو ظاہر ہے اعمال ضائع ہورہے ہوں گے، اس وجہ سے اس کے لئے بھی کوشش کی ضرورت ہے۔ تو آپ اب شروع فرما لیں، آپ نے وہ پہلے والا ذکر تین سو، دو سو والا مکمل کیا تھا؟ اگر نہیں تو آپ اس کو شروع کرلیں، ’’سُبْحَانَ اللهِ وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ وَلَآ إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَاللهُ أَكْبَر‘‘ تین سو دفعہ اور دو سو مرتبہ ’’لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيْمِ‘‘ اس کو ایک وقت مقرر کر کے چالیس دن تک کرنا ہے یعنی اس میں بالکل ناغہ نہیں کرنا۔ اس میں جب ناغہ ہوجاتا ہے تو دوبارہ نئے سرے سے کرنا پڑتا ہے، اس وجہ سے اس کو آپ مضبوطی سے تھامیں، ایک وقت مقرر کریں کہ بس میں نے اس وقت یہی کرنا ہے۔ ہمارے ایک جنرل صاحب تھے وہ بیعت ہوئے، اللہ جل شانہٗ نے ان کو توفیق عطا فرمائی، ظاہر ہے آرمی میں وقت کی پابندی تو ہوتی ہے۔ ان کو جو کام میں دیتا انہوں نے اس کا ایک ٹائم مقرر کیا ہوا تھا، اس وقت کوئی بھی آتا تو وہ اس سے معذرت کرلیتے کہ بھائی اس وقت میں نہیں مل سکتا۔ وہ اس مسئلے میں بہت particular تھے۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ اللہ پاک نے انہیں بہت جلد ترقی عطا فرمائی، کیونکہ ایک چیز کی ضرورت کو سمجھ گئے تھے، داڑھی رکھ لی اور مَاشَاءَ اللہ نمازوں میں regularity آگئی اور بہت سارے دین کے کام شروع کیے۔ ایک مرتبہ انہوں نے مجھے بتایا کہ جماعت والے ساتھی میرے پاس آگئے، وہ بھی جنرل تھے، انہوں نے مجھے complete دعوت دی، کہتے کہ میں نے ان کی ہاں میں ہاں ملائی کہ آپ سب صحیح کہہ رہے ہیں، اس میں کوئی غلط نہیں ہے اور مَاشَاءَ اللہ آپ اچھی بس میں بیٹھے ہوئے ہیں، آپ اِنْ شَاءَ اللہ پہنچ جائیں گے۔ میں بھی ایک اچھی بس میں بیٹھا ہوں، میں بھی اِنْ شَاءَ اللہ پہنچ جاؤں گا اور اپنی اپنی بس سے اترنا نہیں چاہئے۔ چنانچہ وہ پورے convince تھے، اس وجہ سے ان کو کوئی مسئلہ نہیں ہوا۔ لہٰذا اپنا ذہن مکمل بنالیں کہ موت سے پہلے پہلے اپنی اصلاح چونکہ فرضِ عین ہے، لہٰذا میں نے اس کو اِدھر سے کرکے جانا ہے۔ تو بس اس کے لئے محنت شروع کردیں۔ چالیس دن کے بعد اِنْ شَاءَ اللہ پھر آپ مجھے بتائیں گے۔ (سالک کا سوال) اگر ناغہ نہ ہو صرف ٹائم آگے پیچھے ہوجائے؟ (حضرت کا جواب) ٹھیک ہے ٹائم آگے پیچھے ہونے سے ذکر ہوجائے گا لیکن اس سے ناغے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ یہ جو آپ کو ایک وقت کا کہتے ہیں، اس وجہ سے کہتے ہیں کہ ناغہ نہ ہو۔ جن لوگوں نے بھی ٹائم fix نہیں کیا، ان کے لئے بڑے مسائل ہوئے ہیں، ان سے ناغہ ہوتا رہتا ہے۔ بعض کو پورا کرنے میں ایک ایک سال لگ گیا، کیونکہ ناغہ کرتے تو ٹوٹ جاتا، پھر شروع کرتے۔ چلو کم ازکم کچھ کر تو لیتے یعنی چھوڑتے نہیں تھے تو بعض کو سال لگ جاتا تھا۔ لیکن جن لوگوں نے fix کیا کہ میں نے اسی وقت کرنا ہے، مَاشَاءَ اللہ چالیس دن میں ہی ہوجاتا تھا۔ لہٰذا اسی لئے ہم بتاتے ہیں کہ ایک وقت مقرر کرو، اگر کسی وقت مجبوری سے تھوڑا سا آگے پیچھے ہو بھی جائے تو یہ نہیں کہ اس کو چھوڑ دے بلکہ وہ کسی بھی وقت میں کرلے، لیکن اپنے ارادے سے کوشش کرے کہ ایک ہی وقت پہ ہو۔

سوال نمبر 20:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! گزشتہ ماہ کے احوال پیش کرنے کی درخواست ہے، ذکر: ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ دو سو، ’’اِلَّا اللہُ‘‘ چار سو، ’’اَللّٰہْ اَللّٰہْ‘‘ چھ سو اور اسمِ ذات دو ہزار، ذکر تیز تیز کرتا ہوں، زبان سے کوئی خاص مسلسل ضرب وغیرہ نہیں ہے، دل کی طرف توجہ کی کوشش ہوتی ہے۔ فجر کی نماز گھر پر ادا کرتا ہوں، اس کے بعد سوجاتا ہوں۔ WhatsApp اور Online courses اور تبصروں کی وجہ سے موبائل کا استعمال کافی زیادہ ہے، دفتر اور گفتگو میں افراط وتفریط ہوجاتی ہے، کوشش کے باوجود خاموشی سے صرفِ نظر نہیں کر پاتا۔ تلاوت، منزلِ جدید اور جمعے کو درودِ پاک کی کوشش کرتا ہوں۔ حضرت جی سے مزید رہنمائی کی درخواست ہے۔

جواب:

مَاشَاءَ اللہ! آپ اس طرح کریں کہ دو سو، چار سو، چھ سو اور ’’اَللّٰہْ‘‘ سو دفعہ یہ تو آپ جہری کریں، یعنی ضرب کے ساتھ اور جہر کے ساتھ کریں، باقی اس کے علاوہ جو دو ہزار اسمِ ذات ہے وہ آپ جس طرح ابھی کررہے ہیں بے شک اس طرح تیز تیز کرلیں، اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے، لیکن جو سو مرتبہ ہے وہ اس طرح کرنا ہے جس طرح آپ کو بتایا گیا ہے کہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ اس طرح سے دو سو مرتبہ، اور چار سو مرتبہ ’’اِلَّا اللہُ‘‘ ’’اِلَّا اللہُ‘‘ ’’اِلَّا اللہُ‘‘ چھ سو مرتبہ ’’اَللّٰہُ اَللّٰہْ‘‘ ’’اَللّٰہُ اَللّٰہْ‘‘ ’’اَللّٰہُ اَللّٰہْ‘‘ اور سو مرتبہ ’’اَللّٰہْ‘‘ ’’اَللّٰہْ‘‘ ’’اَللّٰہْ‘‘ کرکے پھر اس کے بعد اسمِ ذات دو ہزار مرتبہ، یہ جس طریقے سے آپ زبان سے تیز تیز کررہے ہیں، بالکل ٹھیک ہے، بغیر ضرب کے آپ کرتے رہیں اِنْ شَاءَ اللہ۔

سوال نمبر 21:

حضرت یہ جو شیخ کے ساتھ تعلق ہوتا ہے اس میں بعض اوقات مرید کو شیخ کی منشا سمجھنے میں غلطی ہوجاتی ہے، اپنی طرف سے وہ سمجھ رہا ہو کہ شیخ کی منشا یہ ہے لیکن وہ غلط سمجھا ہو اور وہ اپنے حساب سے اس پر عمل کرتا رہے اور دونوں کو پتا نہ ہو، تو اس کا کیا حل ہے؟

جواب:

یہ جو شیخ کو اپنے احوال بتائے جاتے ہیں، اس لئے بتائے جاتے ہیں کہ شیخ کو پتا چل جاتا ہے کہ آپ نے اس کو غلط سمجھا ہے تو وہ فوراً ٹھیک کروا دے گا۔ اس وجہ سے بلاجھجک شیخ کو بتانا چاہئے کہ میں تو اس بات کو ایسے سمجھا تھا اور میں نے ایسا کرلیا، اگر غلطی ہوئی تو بتا دیجئیے گا۔

سوال نمبر 22:

حضرت یہ جو توجہ ہے یعنی حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی جو قلبی دعا ہے، باقی سلاسِل کے جو بڑے بزرگ ہیں وہ بھی سب اسی قلبی توجہ کو یہی سمجھتے ہیں؟ یا جو مروجہ ہے کہ لوگ بتاتے ہیں کہ توجہ یہ ہوتی ہے؟ ہمارے بزرگوں میں اس مروجہ کا بھی کوئی قائل ہے؟

جواب:

جی بالکل ہیں اور اس میں بہت سارے لوگ پھنسے بھی ہیں، اس کے مسائل بھی ہیں۔ اس کا سب سے بڑا مسئلہ عرض کرتا ہوں کہ بے شک شیخ کتنا ہی مخلص کیوں نہ ہو اور توجہ کررہا ہو، مرید کو اس کا فائدہ بھی ہورہا ہو، لیکن مرید آج کل اتنا مخلص نہیں ہے۔ لہٰذا ان کا تصور یہ بن جاتا ہے کہ بس شیخ ہی مجھے چلائے گا، میں نے کچھ نہیں کرنا، یہ کتنا بڑا نقصان ہے! کیونکہ جو چیز جانبین کی توجہ سے ہورہی ہو اور اس میں اگر ایک طرف کی توجہ ہٹ جائے، تو کام ہوگا؟ نہیں ہوگا۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ، ان حضرات نے جو تحقیق کی ہے اور اجتہادی طور پہ جو بات کی ہے وہ مریدوں کے حوالے سے کی ہے، شیخ کے حوالے سے نہیں کی۔ ظاہر ہے ایسے تو کام نہیں ہوتا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿وَالَّذِیْنَ جَاهَدُوْا فِیْنَا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَاؕ (العنکبوت: 69)

ترجمہ1: ’’اور جن لوگوں نے ہماری خاطر کوشش کی ہے، ہم انہیں ضرور بالضرور اپنے راستوں پر پہنچائیں گے‘‘۔

یہ کس کے لئے ہے؟ شیخ کے لئے ہے؟ نہیں! مرید کے لئے ہے۔ اگر ﴿جَاهَدُوْا﴾ ختم ہوگیا تو پھر ﴿لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَاؕ﴾ کا وعدہ تو نہیں رہا۔

سوال نمبر 23:

ابھی اس وقت شیخ کی قلبی توجہ سب کے لئے ہوگی؟

جواب:

قلبی توجہ میں نہ شیخ کو نقصان ہوتا ہے نہ مرید کو نقصان ہوتا ہے۔ مثلاً میں قلبی توجہ کررہا ہوں، آپ کو پتا بھی نہیں کہ میں کررہا ہوں یا نہیں کررہا، میں تو کررہا ہوں گا لیکن اب آپ کو پتا نہیں ہوگا تو آپ اپنی کوشش جاری رکھیں گے۔ اور میں جب قلبی دعا کروں گا، دعا میں تو اللہ سے مانگتے ہیں، تصرف کا تو ذہن میں نہیں آئے گا، تو میں بھی محفوظ ہوں گا کہ میں تو نہیں کررہا، اللہ تعالیٰ کررہے ہیں۔ اس میں شیخ بھی محفوظ، مرید بھی محفوظ، اس وجہ سے یہ زیادہ مفید ہے۔

سوال نمبر 24:

دوسری توجہ آج کل بالکل مفقود ہے یا لوگ وہ بھی کرتے ہیں؟

جواب:

وہ بھی لوگ کرتے ہیں لیکن اس کے مسائل بھی ہمیں نظر آرہے ہیں۔ آج کل مسائل اسی وجہ سے ہیں کہ جن لوگوں کے ہاں حسنِ ظن سے پرانا طریقہ چل رہا ہے لیکن مرید تو پرانے والے نہیں ہیں، اب تو جدید مرید ہیں، لہٰذا نقصان تو ہورہا ہے۔ حضرت مولانا علاء الدین صدیقی رحمۃ اللہ علیہ کا بیان میرے پاس پڑا ہوا ہے انہوں نے یہی کہا کہ بھائی آپ لوگوں کو یہ کیا کروا رہے ہیں کہ سارا کچھ شیخ کرے گا۔ ان کو تو احساس ہے کہ اب لوگ تو اس طرح چاہتے ہیں۔ لہٰذا آپ کو خود کرنا پڑے گا کیونکہ آج کل کے حالات کے مطابق یہی صحیح ہے اور آج کے دور کے مجدد کی تحقیق سے فائدہ اٹھانا چاہئے، ورنہ میرے سامنے لوگ کرتے رہے ہیں، اس میں کوئی ایسی بات نہیں ہے لیکن بعض دفعہ مجبوراً یہ کرنا پڑ جاتا ہے۔ جیسے حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے پاس ایک عربی طالبعلم آیا تھا، جنات کی وجہ سے ان کا پیشاب بند ہوگیا تھا، ڈاکٹر بالکل بے بس ہوگئے تھے اور وہ موت کے لئے ذہنی طور پہ تیار ہوگیا تھا۔ مولانا صاحب کا معتقد تھا، تو اس نے کہا چلو مولانا صاحب سے ملاقات ہوجائے، مولانا صاحب کے پاس آیا، مولانا صاحب نے ان کی آنکھوں سے اندازہ لگا لیا کہ مسئلہ کیا ہے، تو emergency کی وجہ سے حضرت کے پاس اتنا ٹائم بھی نہیں تھا کہ لوگوں کو وہاں سے ہٹا دیں اور حضرت نے direct جنات کے ساتھ مکالمہ شروع کردیا کہ نکل جاؤ ورنہ جلا دوں گا۔ وہ نہیں نکل رہے تھے تو بالآخر حضرت کو جلانا پڑا اور جوں ہی جلایا تو ان طالبعلم کا پیشاب ادھر ہی خطا ہوگیا اور حضرت کی ساری قالین خراب ہوگئی۔ چونکہ مجبوری تھی تو اب کیا کرتے، بھائی قالین اور آسکتی تھی لیکن بندہ تو بچ گیا۔ لہٰذا بعض دفعہ emergency کی بنیاد پر اس قسم کے کام کرنے پڑ جاتے ہیں لیکن آج کل procedure تو یہی ہے۔ تصرف کا لوگوں کو بہت بڑا نقصان ہے، چھوٹا نقصان نہیں ہے یعنی جو عملیات میں لوگوں کو نقصان ہوتا ہے وہی نقصان اس چیز میں بھی ہوجاتا ہے، آپ خود کو سمجھ لیتے ہیں کہ میں یہ کررہا ہوں تو کتنا بڑا نقصان ہے۔ اب تو تماشا بنا ہوا ہے، لوٹ پوٹ جو کرتے ہیں، تماشے بنے ہوئے ہیں، اس کے لئے باقاعدہ پورا ماحول بنایا جاتا ہے اور کلام پڑھا جاتا ہے، اس کے ساتھ وہ جوش لایا جاتا ہے، پھر ہاتھ ملا کے اس طرح کرتے ہیں کہ لوگ اچھلتے ہیں۔ ان کو سنبھالنے کے لئے special لوگ ہوتے ہیں جو انہیں پکڑ لیتے ہیں، کچھ لوگ زیادہ ماہر ہوتے ہیں تو اس طرح جاتے ہیں۔ یہی توجہ ہے، تصرف کا یہی مطلب ہے۔ اس طرح وہ ان کے اندر اپنی مقناطیسی قوت transfer کرتے ہیں، لہٰذا مقناطیسی قوت جس انداز میں وہ کریں گے تو اسی انداز میں ان پہ اثر ہوگا، وہ چیز hypnotism ہے۔

سوال نمبر 25:

بعض مشائخ اپنے شیخ سے لوگوں کو جوڑنے کے لئے چاہتے تھے کہ جو ان کو مل رہا ہے وہ باقی لوگوں کو بھی ملے، اس سے ان کو بھی فائدہ پہنچے تو اس وجہ سے شیخ سے جوڑنے کی کوشش کرتے تھے اور بعض جیسے کہ حضرت مولانا خلیل احمد سہارن پوری فرماتے تھے کہ لوگوں کو شیخ سے جوڑو، شیخ آفتاب ہے اس سے کسی کو محروم نہ رہنے دو۔ یہ حضرت جی مزاج میں فرق ہے یا کیا ہے؟ آج کے دور تبدیلی کی وجہ سے emergency دور ہے تو سب کی کم ازکم نیت ہونی چاہئے کہ جہاں سے مجھے فائدہ ہورہا ہے وہاں سے دوسرے لوگوں کو بھی فائدہ ہو۔

جواب:

دیکھیں اصل میں جو اس قسم کی بات کرتے ہیں اس سے ایک دو لوگوں کو تو فائدہ ہوجاتا ہے لیکن بہت سارے لوگوں کو نقصان ہوجاتا ہے کیونکہ ان کی نیت بھی یہ ہوجاتی ہے کہ ہمارے ساتھ بھی ایسا کیا جائے، ٹھیک ہے ان کو اچھی نیت سے فائدہ ہوگا لیکن نقصان زیادہ ہوجاتا ہے۔ ہمیں تو پورا شرح صدر ہے کہ ان چیزوں سے بچنا چاہئے، اس سے نقصان ہوجاتا ہے اور پورا institute تباہ ہوجاتا ہے۔

سوال نمبر 26:

شیخ کی طرف کسی کو دعوت دینا کیسا ہے؟

جواب:

بھائی یہ کوئی کاروبار تو نہیں ہے، دکانداری تو نہیں ہے، آپ شیخ کی طرف دعوت نہ دیں بلکہ آپ اللہ کی طرف دعوت دیں اور ان کو یہ کہہ دیں کہ بھائی یہ کام اِدھر بھی ہوتا ہے، اگر کسی کی قسمت میں ہے تو آجائے گا ورنہ نہیں آئے گا۔

سوال نمبر 27:

حضرت جی پرسوں کی مجلس میں آپ نے فرمایا تھا کہ جیسے تولیے اور پلیٹس کا استعمال، ’’اَنْتُمْ اَعْلَمُ بِاُمُوْرِ دُنْیَاکُمْ‘‘ پہ آپ تشریح فرما رہے تھے کہ ان چیزوں کو استعمال کرنا ٹھیک ہے۔ بس پوچھنا یہ تھا کہ معیار کہاں تک ہے؟ کہ سنت کے خلاف بھی نہ جائیں اور آج کل جو جدید منافع کی چیزیں ہیں ان کو استعمال میں لایا جائے۔

جواب:

’’اَنْتُمْ اَعْلَمُ بِاُمُوْرِ دُنْیَاکُمْ‘‘ یہ دنیا کی بات ہے، دنیا کا تو سنت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے، وہ تو دین کی بات ہے کیونکہ سنت کا تعلق تو دین کے ساتھ ہے۔ مثلاً آپ زراعت کررہے ہیں تو زراعت دنیا کی چیز ہے، اس میں آپ آج کل کی research کے مطابق چلیں گے، چاہے وہ انگریز کی research ہے یا یہودی کی research ہے یا ہندو کی research ہے یا مسلمان کی research ہے۔ وہ تو secular ہے، اس وجہ سے آپ اس کو استعمال کرلیں۔ یہی چیز Medical line میں ہے۔ اس میں دنیا کی چیزیں رکھ کر پھر وہ جو تحقیق ہے آپ اس کو استعمال کرسکتے ہیں۔ لیکن جو دین کی بات ہے اس میں تو پھر ثبوت اور تمام چیزیں جاری رہیں گی، وہ تو کرنی پڑیں گی۔

سوال نمبر 28:

میرا ایک سوال تھا کہ جب بندہ بیعت ہوتا ہے تو شیخ سے پڑھنے کے لئے جو تسبیح ملتی ہے، اس میں کیا حکمت ہے اور کیا مقصد ہے؟

جواب:

اصل میں تین چیزیں ہیں جن کی اصلاح ضروری ہوتی ہے، جس کو ہم اصلاح کہتے ہیں۔ ایک انسان کی عقل، ایک انسان کا دل ہے اور ایک انسان کا نفس ہے۔ اب عقل تو ذکر وفکر سے ٹھیک ہوتی ہے۔ دل ذکرِ علاجی اور صحبتِ صالحین سے ٹھیک ہوتا ہے۔ اور نفس مجاہدے سے ٹھیک ہوتا ہے۔ اب ابتدا میں فوراً انسان مجاہدہ برداشت نہیں کرسکتا، تو اس کے لئے آپ پہلے اپنے دل کو استعمال کرتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کا عاشق ہوجائے، اس عشق کی وجہ سے نفس کے خلاف وہ کام کرنا اس کے لئے آسان ہوجاتا ہے، چاہے وقتی طور پر ہو۔ تو اس دوران آپ اپنے نفس کا مجاہدہ بھی کرلیتے ہیں، تو نفس کام کرنے کے لئے تیار ہوجاتا ہے۔ اس سے پہلے آپ اپنی عقل کو استعمال کرتے ہیں یعنی اسے convince کرتے ہیں کہ یہ کام کرنا چاہئے۔ تو اب شیخ جو ذکر دیتا ہے اور ذکر بھی جتنا چاہئے ہوتا ہے، وہ تو ایک وقت میں نہیں دے سکتا، کیونکہ برداشت ہی نہیں کرسکتا، تو اس لئے پھر ابتداء میں تھوڑا دیتے ہیں، اس کے بعد آہستہ آہستہ بڑھاتے ہیں حتیٰ کہ اتنا ہوجاتا ہے کہ اس میں change آنا شروع ہوجاتا ہے، جس کو جذب کہتے ہیں۔ اور جب جذب آجاتا ہے تو اس کے بعد پھر نفس کی محنت شروع ہوجاتی ہے، مجاہدہ شروع ہوجاتا ہے۔ یہ تو میں اصولی باتیں کررہا ہوں، اصل بات یہی ہے کہ جس کو شیخ پر اعتماد ہے وہ جو کہتا جائے اس کو کرتا جائے۔ یہ نہ دیکھے کہ یہ کیوں کررہا ہے، کیونکہ کیوں کی بات اگر شروع ہوگئی تو آپ کی عقل سے آگے بات نہیں جائے گی، دل تک بات نہیں پہنچے گی۔ لہٰذا آپ بالکل ابتداء میں رہیں گے یعنی مبتدی رہیں گے۔ لیکن جس وقت آپ نے ماننا شروع کردیا اور اس پر آپ نہیں جاتے کہ یہ کیوں ہے، تو آپ کی بات فوراً دل پہ چلی جائے گی، وہ عقل والی بات درمیان میں bypass ہوجائے گی اور انسان کو فائدہ ہونا شروع ہوجائے گا۔

جب تک انسان کے اندر ’’کیوں‘‘ ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ابھی عقل سیدھی نہیں ہوئی، جب تک ’’کیوں‘‘ ہے تو وہ اسی میں رہے گا اور سارا وقت اس پہ گزرے گا۔ جس وقت ’’کیوں‘‘ ختم ہوگیا اور شیخ کی بات ماننا شروع کردی تو بات دل پہ پہنچ جائے گی اور دل بننا شروع کردے گا۔ پھر یہ راستہ مختصر ہوجاتا ہے۔ ابھی جیسے عالمہ کی بات ہورہی تھی، اتنا عرصہ انہوں نے ویسے ہی گزار دیا، اسی میں پڑی رہیں۔ وہ تو اللہ تعالیٰ کا احسان ہوا کہ ان کو بات سمجھ آگئی، چاہے جس وجہ سے بھی سمجھ آئی۔

سوال نمبر 29:

شاہ صاحب! ابتدائی مرید کو جو آپ تسبیحات دیتے ہیں تو صرف یہ اپنی اصلاح کے لئے کرتا ہے؟ یا ہمیں باقی معاملات میں بھی یہ فائدہ دیں گی؟ یعنی ہمارے دنیا کے معاملات اس سے درست ہوجائیں گے؟ مثلاً ہماری دشمنی ہے کہ میں نے مدرسہ بنایا اور اب مجھے کافی پریشانی ہورہی ہے، فون آرہے ہیں کہ آپ یہ کرو، یہاں سے ہٹ جاؤ، تو اس کے لئے مجھے کیا کرنا چاہئے؟

جواب:

نماز تو مَاشَاءَ اللہ آپ پڑھتے ہی ہیں اور نماز میں آپ یہ بھی پڑھتے ہیں:

﴿اِیَّاكَ نَعْبُدُ وَاِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُ (الفاتحہ: 4)

آپ کا ﴿اِیَّاكَ نَعْبُدُ وَاِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُ﴾ جتنا درست ہوتا جائے گا آپ کے مسائل حل ہوتے جائیں گے، معاملہ ادھر ہی اٹکا ہوا ہے۔ تو جتنا آپ کام کریں گے، اس سے آپ کا ﴿اِیَّاكَ نَعْبُدُ وَاِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُ﴾ درست ہوتا جائے گا پھر آپ کو کسی عامل کے پاس نہیں جانا پڑے گا، کسی اور کے پاس نہیں جانا پڑے گا۔ آپ کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ بات کرنے کا پورا ایک channel مل جائے گا۔ لہٰذا بس ہم تو یہی کوشش کرتے ہیں، آپ جو فرما رہے ہیں وہ اپنی اصلاح کے لئے ہے، وہ آپ کریں۔ اصلاح کس چیز کی ہے؟ اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق کی درستگی ہے، تو اللہ کے ساتھ آپ کا تعلق جتنا درست ہوتا جائے گا آپ کی دعاؤں میں طاقت آتی جائے گی اور آپ اپنے مسائل اللہ کے سامنے پیش کرسکیں گے اور اللہ تعالیٰ کی مدد بھی آپ کو ملتی جائے گی اِنْ شَاءَ اللہ۔ اس میں بھی مسئلہ ہے کہ ایک عاملوں کی approach ہے اور ایک پیروں کی approach یعنی صحیح پیروں کی بات کررہا ہوں، گڑبڑ پیروں کی بات نہیں کررہا ہوں۔ عامل اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں کہ میں یہ کام کروں گا، ان کا طریقہ کار یہی ہے۔ اور جو شیخ ہوتا ہے وہ کہتا ہے میں نہیں کروں گا اللہ کرے گا، شیخ آپ کو اللہ کے قریب کرے گا کہ اللہ کے ساتھ اپنا معاملہ درست کرلو۔ عامل کہتا ہے میرے ساتھ معاملہ درست کرو۔ بس یہی درمیان کا فرق ہے، اگر یہ بات کسی کو سمجھ آجائے تو میرے خیال میں کافی آسانی ہوجاتی ہے۔

یہ تو ہم سمجھتے ہیں اَلْحَمْدُ لِلّٰہ کہ آپ آئے ہیں تو اللہ کے فضل سے آئے ہیں، میرا اس میں کوئی کمال نہیں اور میں جو آپ کو بتا رہا ہوں یہ بھی اللہ کا فضل ہے، اس میں بھی میرا کوئی کمال نہیں ہے، اس میں جو اثر ہوگا اس میں بھی میرا کوئی کمال نہیں ہوگا وہ بھی اللہ کا فضل ہوگا۔ لہٰذا ہمارا تو سارا معاملہ اللہ کے فضل سے چلتا ہے اور ظاہر ہے ہم یہی بتا سکتے ہیں۔ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا تھا کہ بھائی ہمارے ہاں تو سیدھی سیدھی ملائیت ہے، پھر اس میں بھی اللہ پاک جس کو دینا چاہتے ہیں تو اتنا دیتے ہیں کہ نہ کسی کان نے سنا ہوگا، نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہے، نہ کسی دل پہ اس کا خیال گزرا ہوگا۔ اور واقعتاً یہ صحیح بات ہے، کم ازکم میں تو اس کا قائل ہوں، کسی اور کو سمجھا سکتا ہوں یا نہیں، یہ میں نہیں کہہ سکتا۔ لیکن خدا کی قسم! میں اس کا قائل ہوں کہ اللہ پاک اسی simple طریقے سے اتنا دیتا ہے، اتنا دیتا ہے کہ انسان سوچ بھی نہیں سکتا۔ یہ تو ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے یعنی کوئی چیز اَلْحَمْدُ لِلّٰہ ایسی نہیں ہے جو کہ ہم ویسے اپنے طور پہ مبالغہ کررہے ہوں، بالکل جی! ہم نے اَلْحَمْدُ لِلّٰہ خود دیکھا ہے کہ اللہ بہت کچھ دیتا ہے۔ تو بس اللہ کے ساتھ بناؤ، سورۂ فاتحہ درست کرلو یعنی ﴿اِیَّاكَ نَعْبُدُ وَاِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُ یہ معاملہ درست ہوجائے، پھر آپ مزار پر بھی جائیں گے تو ﴿اِیَّاكَ نَعْبُدُ وَاِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُ﴾ سے نہیں نکلیں گے، آپ کسی پیر کے پاس بھی جائیں گے تو ﴿اِیَّاكَ نَعْبُدُ وَاِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُ﴾ سے نہیں نکلیں گے، کسی عامل کے پاس بھی جائیں گے تو ﴿اِیَّاكَ نَعْبُدُ وَاِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُ﴾ سے نہیں نکلیں گے۔ یہ چیز آپ کی پکی ہوجائے گی اور یہی وہ طریقِ صحابہ ہے یعنی صحابہ یہی کرتے تھے۔


وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ


  1. ۔ (آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب)

    نوٹ! تمام آیات کا ترجمہ آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم سے لیا گیا ہے۔