اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال نمبر 1:
السلام علیکم! حضرت جی ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ دو سو مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ چار سو مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ چھ سو مرتبہ، ’’اَللّٰہ‘‘ پانچ سو مرتبہ۔ دس منٹ مراقبہ on قلب، روح، سر، خفی، اخفیٰ، پندرہ منٹ مراقبۂ تنزیہ، صفاتِ سلبیہ done for one month اَلْحَمْدُ لِلّٰہ Now for future waiting for your instructions جَزَاکَ اللہ۔
جواب:
آپ پہلے مراقبۂ تنزیہ اور صفاتِ سلبیہ کے بارے میں اپنے احوال مجھے بتا دیں کہ اس کا آپ کے اوپر کیا اثر ہوا ہے، تاکہ میں پھر کچھ عرض کرسکوں۔
سوال نمبر 2:
السلام علیکم! حضرت کیا حال ہیں؟ تیسرا کلمہ، درود شریف، استغفار سو دفعہ۔ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ دو سو، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ چار سو، ’’حَقْ‘‘ چھ سو اور ’’اَللّٰہ‘‘ آٹھ ہزار مرتبہ، مہینہ ہوگیا ہے، آگے حکم فرما دیں۔
جواب:
اب کوشش کریں کہ اس کے بعد پانچ منٹ کے لئے لطیفۂ قلب پر تصور کریں کہ وہاں پر ’’اَللّٰہْ اَللّٰہْ‘‘ ہورہا ہے، باقی چیزیں وہی رکھیں اِنْ شَاءَ اللہ۔
سوال نمبر 3:
السلام علیکم! شیخِ محترم میں آپ کی مرید ہوں۔ ابھی آپ کا بیان سن رہی تھی جس میں شرعی پردہ کی بات ہورہی تھی۔ میں عام پردہ تو بہت سالوں سے کررہی ہوں کہ جب بھی باہر جاتی ہوں تو پردہ کرتی ہوں لیکن خواہش کے باوجود آج تک شرعی پردہ نہیں کرسکی، مجھے اس بات سے بہت تکلیف ہوتی ہے، آپ میرے لئے دعا کر دیجئے۔
جواب:
بالکل دعا ضرور کروں گا اِنْ شَاءَ اللہ، آپ ہمت کیجئے اور تیاری کیجئے، اس کے لئے جو اسباب ہیں ان کو اختیار کیجئے، آہستہ آہستہ لوگوں کا ذہن بنائیں تو اِنْ شَاءَ اللہ یہ آسان ہوجائے گا۔
سوال نمبر 4:
السلام علیکم! حضرت جی میں شادی میں جب پہلے دن نقاب کرکے گئی تو رات کو خواب میں دیکھا کہ میں اپنی دوستوں کے ساتھ صحن میں ہوں اور ایک چھوٹا سا سانپ ہے، میں کہتی ہوں کہ اسے مارو، تو میری ایک دوست شاید اسے مار دیتی ہے اور مجھے دکھاتی ہے کہ یہ دیکھو یہ مر گیا، پھر میری چارپائی کے نیچے پھینک دیتی ہے، میں جب دیکھتی ہوں تو کچھوا ذبح ہوا تھا۔
جواب:
مَاشَاءَ اللہ! سانپ کو مار دیا گیا ہے، البتہ جو نقصان پہنچانے والے لوگ ہیں ان کو پہچان کر ان سے بچنے کی کوشش کریں۔
سوال نمبر 5:
السلام علیکم! حضرت آپ نے میری فلاں بڑی بیٹی کو یہ مراقبہ دیا ہے کہ آیت الکرسی کے ترجمہ کو سمجھ کر پھر یہ مراقبہ کرنا ہے کہ اس کا فیض رسولِ کریم ﷺ کے قلبِ اطہر پر اور پھر آپ حضرت کے قلب مبارک پر اور پھر وہاں سے ان کے پورے جسم پہ آرہا ہے۔ آیت الکرسی کا ترجمہ ہم نے آسان ترجمہ سے لیا ہے، اَلْحَمْدُ لِلّٰہ وہ سمجھ آگیا ہے لیکن ان کو ﴿وَسِعَ كُرْسِیُّهُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَۚ﴾ (البقرۃ: 255)
ترجمہ: ’’اس کی کرسی نے سارے آسمانوں اور زمین کو گھیرا ہوا ہے‘‘۔
یہ سمجھ نہیں آرہی، آپ حضرت سے درخواست ہے کہ اس کی وضاحت فرمائیں۔
جواب:
اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے سب کا احاطہ کیا ہوا ہے یعنی سب چیزیں اس کے قبضے میں ہیں اور کوئی بھی چیز اس کے قبضے سے باہر نہیں ہے۔ باقی یہ چیزیں متشابہات ہوتی ہیں، اس کا اصل معنی تو اللہ کے حوالے کرنا ہوتا ہے جیسے:
﴿اَلرَّحْمٰنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوٰى﴾ (طہ: 5)
ترجمہ: ’’وہ بڑی رحمت والا عرش پر استوا فرمائے ہوئے ہے‘‘۔
سوال نمبر 6:
السلام علیکم! حضرت جی میں گوجرانوالہ سے فلاں بات کررہا ہوں، اَلْحَمْدُ لِلّٰہ یہاں خیر وعافیت ہے اور آپ کی نیک توجہ چاہتا ہوں۔ حضرت جی میرا سبق ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ تین سو مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ دو سو مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ سو مرتبہ اور ’’اَللّٰہ‘‘ سو مرتبہ ہے، ایک ماہ سے زیادہ ہوگیا ہے، مزید سبق کا طلبگار ہوں۔ بس صرف ایک اور بات کہ فتنوں کی گرد وخاک میرے سر پہ تھوڑی بہت پڑی رہتی ہے، بہت زیادہ صاف کرتا ہوں لیکن پھر بھی باقی رہ جاتی ہے۔
جواب:
میرے خیال میں آپ کو شاید اس میں کچھ غلطی لگی ہے کہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ دو سو مرتبہ پھر اس کے بعد ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ تین سو مرتبہ ہوگا، ’’حَقْ‘‘ بھی تین سو مرتبہ ہوگا اور ’’اَللّٰہ‘‘ سو مرتبہ، اس کو آپ یوں کرلیں۔
سوال نمبر 7:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! حضور ہم پیارے نبی کریم ﷺ کا نام جب بھی سنتے ہیں اور درودِ پاک بھیجتے ہیں، اگر امام کی تلاوت کے دوران آپ ﷺ کا نام آئے یا خود جب قرآن پاک میں پڑھیں اور جب قرآن پاک میں اللہ کا حکم آجائے تو درودِ پاک کیسے پڑھیں؟
جواب:
جب امام نماز میں پڑھے تو اس میں آپ نے نہیں پڑھنا کیونکہ نماز میں انسان قرآن سن رہا ہے، بس اس کی طرف متوجے ہوجائے۔ جہاں تک درود شریف پڑھنے کی بات ہے تو نماز میں چونکہ ایک دفعہ ہم درودِ ابراہیمی پڑھ لیتے ہیں، لہٰذا وہ سب کی طرف سے ادا ہوجائے گا اور باقی جب خود قرآنِ پاک میں پڑھیں تو جیسے انسان عذاب کی آیت تلاوت کرتا ہے تو اس پر اللہ پاک سے معافی مانگے اور ڈرے، جب وہ خوشی کی آیت پڑھے تو اس پہ اللہ پاک کا شکر ادا کرے اور اسے اللہ پاک سے طلب کرے، اسی طرح دل میں درود شریف بھی پڑھا جاسکتا ہے۔
سوال نمبر 8:
بسا اوقات بہت پلید خیال ذہن سے گزرتے ہیں، ان کے دفع کے لئے دعائیں بھی پڑھتے ہیں لیکن چھٹکارا نہیں ملتا، ان کا علاج کیسے کریں؟ ان پلید خیالات کو الفاظ میں لکھا بھی نہیں جاسکتا، سخت کوفت اور پریشانی ہوتی ہے، اپنی ذات مجرم لگتی ہوں۔ ان خیالات پر اپنا قابو نہیں ہوتا، باوجودیکہ جتنا نفس کو دبانے کی کوشش ہوتی ہے، اتنے ہی یہ پلید خیالات بھی شدت سے حملہ کرتے ہیں۔ خدارا کوئی حل تجویز فرمائیں کہ دونوں دفع ہوجائیں۔ شیطانی وساوس سے مکمل چھٹکارا نہیں ملتا، اپنے اندر ایک جنگ جاری رہتی ہے۔
جواب:
یہ اچھا ہوا آپ نے مجھے لکھ دیا۔ اصل میں سالکین کو شیطان اسی طرح تنگ کرتا ہے، کیونکہ یہ انسان کے بس میں نہیں ہوتا، یہ شیطان کی طرف سے ہوتا ہے۔ شیطان وسوسہ ڈالتا ہے، یعنی انسان کا دل خیالات اور تمام احساسات کی آماجگاہ ہے، اس میں اللہ کی طرف سے فرشتے کے ذریعے الہامات بھی آتے ہیں اور شیطان کی طرف سے وساوس بھی آتے ہیں۔ پھر اس میں انسان کو اختیار دیا گیا ہوتا ہے کہ وہ وسوسے کا ساتھ دیتا ہے یا اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو الہام ہوتا ہے، اس کا ساتھ دیتا ہے۔ لہٰذا جو اختیاری چیز ہوتی ہے اس میں انسان فائدہ بھی اٹھاتا ہے یعنی اس کو ثواب بھی ملتا ہے اور اگر وہ گناہ کی بات ہو تو اس پہ اس کو سزا بھی ہوتی ہے یعنی اس پہ پکڑ بھی ہوتی ہے۔ لیکن جو غیر اختیاری چیز ہے، اس پہ نہ ثواب ہے اور نہ عذاب ہے کیونکہ اس میں ہمارا عمل نہیں ہے۔ مثلاً کوئی اچھا خواب دیکھ لے تو اس پر کوئی ثواب نہیں ہے اور اگر کوئی برا خواب دیکھے تو اس پہ کوئی عذاب نہیں ہے۔ اسی طریقے سے اچھے خیالات میں بس مَاشَاءَ اللہ ایک فائدہ ہے لیکن اس میں آپ کا عمل نہیں ہے، اور اگر برے خیالات خود بخود آتے ہیں یعنی غیر اختیاری ہیں تو اس پر کوئی گرفت بھی نہیں ہے۔ لہٰذا آپ ان وساوس کی بالکل پروا نہ کریں، کیونکہ ان کے ساتھ آپ جتنا لڑیں گے شیطان اتنا ہی تنگ کریں گے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا ہے: اس کی مثال بجلی کی تاروں کی طرح ہے، اگر بجلی کی تاروں کو آپ ہٹانے کی نیت سے بھی ہاتھ لگائیں گے تو یہ پکڑ لیں گی۔ لہٰذا وساوس کو دور کرنے کی نیت سے بھی آپ ان کی طرف متوجے نہ ہوں، بس آپ ان کو ignore کریں۔ اس کی مثال حضرت نے یہ بیان فرمائی کہ جیسے کسی کو بادشاہ اپنی طرف بلائے تو راستے میں جو آپ کا اور بادشاہ کا دشمن ہے وہ مختلف آوازیں کستا ہے او فلانے، او فلانے، اور آپ کو پتا ہے کہ یہ میرے ساتھ کچھ بھی نہیں کرسکتا، تو آپ پروا نہیں کرتے، آپ کہتے ہیں کہ بس ٹھیک ہے، حسد کی وجہ سے یہ تو اس کا کام ہے کرتا رہے گا، تو آپ اس کی پروا نہیں کرتے اور گزر جاتے ہیں۔ ہم یہاں I-10 اسلام آباد میں walk کرتے تھے تو یہاں پر بعض لوگوں نے بڑے موٹے موٹے کتے پالے ہوتے ہیں اور اندر بندھے ہوتے ہیں۔ کتے کی فطرت ہے کہ وہ بھونکتا ہے، جب ہم قریب سے گزرتے تو بہت گرجدار آواز سے بھونکتے تھے تو میں اپنے ساتھیوں سے کہتا: یہ وسوسے کی طرح ہے کیونکہ یہ بندھا ہوا ہے، ہم پر حملہ تو نہیں کرسکتا۔ لیکن آواز بڑی رعب دار ہے کہ انسان ڈر جاتا ہے۔ اسی طرح جو خطرناک وسوسے ہوتے ہیں اس سے انسان گھبراتا تو ہے کیونکہ اس کی shape بہت خطرناک ہوتی ہے، بعض کفر کے وسوسے ہوتے ہیں، لیکن چونکہ انسان کا اپنا عمل نہیں ہوتا، لہٰذا اس پہ کوئی گناہ نہیں ہوتا بلکہ اس کی وجہ سے جو تنگ ہوتا ہے اس پر اس کو اجر مل رہا ہوتا ہے۔ تو آپ ان وساوس کی بالکل پروا نہ کریں، بس اپنے اعمال کی طرف متوجے رہیں، یہ آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے۔
سوال نمبر 9:
السلام علیکم! حضرت جی میں جس جگہ رہتا ہوں، آپ نے دیکھی ہوئی ہے۔ پانی کی قلت کا مسئلہ ہوگیا ہے، اردگرد لوگوں کا پانی خشک ہوگیا ہے، خصوصی دعا فرمائیں۔
جواب:
اللہ پاک سب کو وافر پانی نصیب فرمائیں۔
سوال نمبر 10:
السلام علیکم! حضرت بیان میں بات ہوئی ہے کہ انسان دینی اور دنیاوی دونوں چیزوں میں سست ہوسکتا ہے، مجھے بھی یہ مسئلہ اپنے اندر نظر آتا ہے، اس کا کیا علاج ہے؟
جواب:
سستی کا علاج تو چستی ہے، لہٰذا جو جائز دنیا ہے مثلاً کمانا ہے، آپ اس میں بھی سستی ختم کریں اور دینی کاموں میں بھی سستی ختم کریں، بس یہی ہوسکتا ہے۔
سوال نمبر 11:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
نمبر 1:
لطیفۂ قلب دس منٹ، لطیفۂ روح دس منٹ، لطیفۂ سِر پندرہ منٹ، محسوس ہوتا ہے اَلْحَمْدُ لِلّٰہ۔ لطائف پر اتنا قوی ذکر کہ مجھے یوں لگتا ہے جیسے میرے کان اس ذکر کو سن لیں گے اور آنکھیں بند ہوں تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ میں آہستہ آہستہ اللہ تعالیٰ کے قریب ہوتی جارہی ہوں اور اللہ تعالیٰ میرے قریب ہورہے ہیں۔
جواب:
مَاشَاءَ اللہ بڑی اچھی بات ہے، اب ان کو تینوں لطائف کا دس منٹ اور چوتھا پندرہ منٹ کا دے دیں۔
نمبر 2:
تمام لطائف پر پانچ منٹ ذکر اور مراقبۂ شیوناتِ ذاتیہ پندرہ منٹ، کچھ محسوس نہیں ہوتا، کوئی تبدیلی محسوس نہیں ہوتی۔
جواب:
آپ اس کو جاری رکھیں، اِنْ شَاءَ اللہ محسوس ہونا شروع ہوجائے گا۔
نمبر 3:
تمام لطائف پر پانچ منٹ ذکر اور مراقبۂ حقیقتِ کعبہ پندرہ منٹ، کچھ محسوس نہیں ہوتا۔
جواب:
مَاشَاءَ اللہ! اس کو جاری رکھیں۔
نمبر 4:
تمام لطائف پر دس منٹ ذکر اور مراقبۂ صفاتِ ثبوتیہ پندرہ منٹ، اللہ تعالیٰ کی ان صفات پہ یقین پختہ ہوگیا ہے اَلْحَمْدُ لِلّٰہ۔
جواب:
اب آپ اس طرح کریں کہ لطیفہ شیوناتِ ذاتیہ پر پندرہ منٹ اور باقی تمام لطائف پر دس دس منٹ ذکر کریں۔
نمبر 5:
لطیفۂ قلب، لطیفۂ روح، لطیفۂ سِر دس منٹ اور لطیفۂ خفی پندرہ منٹ، خفی پر محسوس نہیں ہوتا، باقی لطائف پر محسوس ہوتا ہے۔
جواب:
اس کو فی الحال جاری رکھیں۔
نمبر 6:
لطیفۂ قلب، لطیفۂ روح، لطیفۂ سِر دس منٹ، لطیفہ خفی پندرہ منٹ، تمام لطائف پر ذکر محسوس ہوتا ہے۔
جواب:
اب چاروں پر دس منٹ اور پانچویں پر پندرہ منٹ۔
نمبر 6:
پندرہ سو مرتبہ زبانی اسمِ ذات کا ذکر۔
جواب:
اب دو ہزار مرتبہ کرلیں۔
سوال نمبر 12:
السلام علیکم! اللہ آپ کو صحت اور کمال عطا فرمائیں۔ آپ نے مجھے پانچ لطائف پر دس دس منٹ ذکر دیا تھا، مراقبۂ تنزیہ اور صفاتِ سلبیہ پندرہ منٹ، ان کا یہ اثر ہوا ہے کہ یہ یقین پختہ ہوگیا کہ سب کچھ اللہ ہی کرتے ہیں، اس کے علاوہ کوئی کچھ نہیں کرسکتا۔
جواب:
یہ تو پہلے مراقبے یعنی تجلیاتِ افعالیہ کا اثر ہے، مراقبۂ تنزیہ اور صفاتِ سلبیہ شاید آپ سمجھے نہیں۔ اس کو سمجھنے کی کوشش کریں، اصل میں مخلوقات کی کچھ صفات ایسی ہیں جو اللہ کے لئے ثابت نہیں ہیں یعنی اللہ پاک کے لئے ان کا کہنا جرم ہے۔ جیسے مخلوق سوتی ہے، کھاتی ہے، پیتی ہے، شادیاں کرتی ہے، یہ سب مخلوق کی کمزوریاں ہیں اور اللہ پاک ان تمام کمزوریوں سے پاک ہیں، اللہ کو ان چیزوں کی ضرورت نہیں ہے۔ لہٰذا اس طرح کی صفات جو اللہ پاک کے لئے ثابت نہیں ہیں، ان سے اللہ تعالیٰ کو پاک سمجھنا یہ صفاتِ سلبیہ ہے۔ چونکہ تنزیہ کی وجہ سے ہے، لہٰذا اس کو مراقبۂ تنزیہ بھی کہتے ہیں، آپ اس طرح کرلیں، اِنْ شَاءَ اللہ اس کا اثر ہوگا۔
سوال نمبر 13:
السلام علیکم! عافیت خواہ بعافیت۔ خدا کرے حضرت والا بخیر وعافیت ہوں۔ معمولات بفضلہٖ تعالیٰ حضرت کی دعا اور توجہ سے جاری ہیں، ایک ماہ مکمل ہوگیا ہے دو سو، چار سو، چھ سو اور ڈھائی ہزار، آئندہ حضرت کا جو حکم ہو سر تسلیمِ خم ہے۔ حضرت والا دامت برکاتہم کے مشورے کے مطابق حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے طریقے پر عمل کرتے ہوئے اپنا ذاتی کاروبار شروع کرنے کا ارادہ ہے، والد صاحب سے مشورہ ہوا ہے، والد صاحب نے بھی فرما دیا ہے، شاید گلگت جا کے کاروبار کروں۔ باقی تین سے چار گھنٹے مفت اللہ کی رضا کے لئے کسی مدرسے میں پڑھاؤں، گرمی کے season کے بعد مشورے سے اِنْ شَاءَ اللہ کوئی کاروبار شروع کرتا ہوں۔ دعاؤں کی درخواست ہے، اللہ تعالیٰ حضرت والا کو پورے عالم اسلام میں خدمتِ دین پر بعافیت زندہ رکھیں۔ بندہ کی والدہ کو تین ماہ سے معدے کی تکلیف ہے، حضرت سے دعا کی درخواست ہے۔ رمضان المبارک میں بندہ اپنی مسجد میں تروایح پڑھا رہا تھا، اسی کے ساتھ تراویح کے بعد فرضِ عین کی تعلیم شروع کی، رمضان کے بعد مرتب کتابی شکل نہ ہونے کی وجہ سے بندہ نے درسِ قرآن کا سلسلہ شروع کیا ہے، جو سورۂ آلِ عمران کے کچھ ابتدا ہی سے چل رہا ہے۔ حضرت سے دعاؤں کی درخواست ہے، اللہ مجھے اخلاص کے ساتھ درس کا سلسلہ مرتے دم تک جاری رکھنے کی توفیق دیں۔ میں نے اپنی گھر والی کو ریاض الصالحین پڑھانا شروع کردی ہے، اللہ تعالیٰ اس کو اختتام تک پہنچانے کی توفیق دیں آمین۔
جواب:
مَاشَاءَ اللہ بڑی اچھی بات ہے، اللہ تعالیٰ آپ کو اس پر استقامت نصیب فرمائیں۔ البتہ جو بہشتی زیور اور بہشتی گوہر ہے یہ فرضِ عین کا ایک مرتب کورس ہے اور اس سے پہلے تعلیم الاسلام ہے، لہٰذا اگر آپ ان کو پڑھائیں تو یہ اِنْ شَاءَ اللہُ الْعَزِیْز آپ کے لئے ایک مرتب کورس کا کام دیں گی اور آپ کوشش کریں کہ اس میں جو بہتر ہو اس کو ترتیب دے کے ہمیں بھی اطلاع کردیں کہ اس میں آج کل کے حالات کے لحاظ سے مزید کیا بہتری آسکتی ہے۔
سوال نمبر 14:
السلام علیکم! حضرت آپ نے فرمایا تھا کہ دشمن اور دوست کو پہچانو۔ حضرت ان کو کیسے پہچانوں، کیسے فرق کروں؟
جواب:
ایک دفعہ میں بیمار ہوگیا تھا، گلے کا problem تھا تو ڈاکٹر وجاہت اللہ بنگش سے علاج کروا رہا تھا۔ میں نے ڈاکٹر صاحب سے پوچھا: پرہیز کیا ہے؟ ڈاکٹر صاحب نے کہا intelligent پرہیز کرو، میں نے کہا intelligent پرہیز کیا ہوتا ہے؟ انہوں نے کہا جو چیز نقصان دے اس کو استعمال نہ کرو۔ تو میں یہی کہوں گا کہ آپ اپنا فائدہ اور نقصان تو کم ازکم جانتی ہوں گی، تو جن سے ملنے سے آپ کو نقصان ہوتا ہے ان سے بچیں، یہ general بات ہے۔ باقی کشف ہمیں نہیں ہوتا اور خوابوں پہ ہم اتنا زیادہ جاتے نہیں ہیں۔ میرے خیال میں وحی نے ہماری پوری رہنمائی فرمائی ہے کہ ہمارے دوست کون ہیں اور ہمارے دشمن کون ہیں، کس سے ہمیں نقصان ہوتا ہے اور کس سے ہمیں فائدہ ہوتا ہے۔ لہٰذا ان چیزوں میں غور کرکے آپ اِنْ شَاءَ اللہ اپنا دوست اور دشمن جان سکتی ہیں۔ بہت سارے لوگ پیروں کو ہر چیز کا ذمہ دار سمجھتے ہیں، ایک مرتبہ ایک خاتون مجھے فون کررہی تھیں کہ میرے بیٹے کو ان کے والد نے کہا آپ کراچی چلے جائیں، اب ہم کراچی آگئے ہیں لیکن ہمارے پاس کوئی رہنے کا انتظام نہیں ہے اور پیسے بھی نہیں ہیں، یہاں پر تو کرایہ ادا کرنا بھی مشکل ہے، ہم کیا کریں؟ میں نے کہا بھائی میں نے تو آپ کو جانے کا نہیں کہا تھا، ان کے والد سے پوچھیں کہ آپ نے کیوں بھیجا ہے، اب اس معاملے میں، میں کیا کرسکتا ہوں۔ کہتے آپ دعا کریں، میں نے کہا اچھا دعا کردیتا ہوں۔ بس بات ختم، پھر تھوڑی دیر بعد فون کیا کہ اب کیا کریں؟ میں نے کہا استخارہ کریں۔ یعنی میں کیا کرتا؟ میرے پاس کیا چیز ہے؟ لوگ سمجھتے ہیں کہ ان کے پاس کوئی شُف ہوگا، بس وہ شُف کریں گے اور سارا مسئلہ حل ہوجائے گا۔ اس لئے ہم پہلے سے ہاتھ کھڑا کردیتے ہیں کہ ہمارے پاس کوئی شُف نہیں ہے، ہم آپ کو شریعت کی روشنی میں مشورہ دے سکتے ہیں، اس مشورے پہ آپ عمل کریں تو آپ کو فائدہ ہوجائے گا۔ باقی کوئی اور آپ کو نقصان پہنچائے تو اس کو دور کرنا ہمارے بس میں نہیں ہے، ہم آپ کا پہرہ بھی دیں کہ آپ کو کوئی نقصان نہ پہنچائے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کو اللہ تعالیٰ بہت اجر عطا فرمائیں کہ انہوں نے چیزوں کو بڑا clear کیا ہے، انہوں نے واضح فرمایا: بھائی ہمارا کام صرف رہنمائی کرنا ہے، کام آپ نے خود کرنا ہے۔ ہم آپ کو صرف مشورہ دے سکتے ہیں جیسے ڈاکٹر مشورہ دیتا ہے۔ اب دوائی کھانا تو مریض کا کام ہے، ڈاکٹر تو صرف دوائی لکھتا ہے، دوائی دیتا بھی نہیں ہے، آپ بازار سے لے لیں اور As prescribed by اس کو استعمال کریں۔ پھر اس کے بارے میں ڈاکٹر صاحب کو بتا دیں، اس کے علاوہ اور کس چیز کی ذمہ داری لیتا ہے؟ ساتھ آپ سے پیسے بھی لے لیتا ہے۔ ہم تو پیسے نہیں لیتے یعنی آج کل اس قسم کی چیزیں ہوتی ہیں۔ بس اللہ پاک ہم سب کو ہدایت عطا فرمائیں۔
سوال نمبر 15:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! حضرت جی اللہ پاک سے آپ کی صحت تندرستی کے لئے دعاگو ہوں۔ حضرت جی میرا مسئلہ یہ ہے کہ جب بھی کسی کی کوئی اچھی بات دیکھتا یا سنتا ہوں تو دل میں حسد کے جذبات پیدا ہونے لگتے ہیں، پھر کوشش سے کسی حد تک قابو میں آتے ہیں مکمل طور پر نہیں۔ کچھ عرصہ پہلے کیفیت تقریباً ختم ہوگئی تھی لیکن اب دوبارہ یہ بیماری سر اٹھانے لگی ہے، برائے مہربانی اس بارے میں رہنمائی فرمائیں، اللہ پاک آپ کے درجات بلند فرمائیں۔
جواب:
اس میں ایک بہت ہی آسان technique ہے، وہ یہ ہے کہ اپنے حسد کو رشک میں بدل لیں، جو کہ آپ کے اختیار میں ہے اور وہ یہ کہ جب آپ کو کسی کے بارے میں حسد کا خیال آئے تو آپ اس کے لئے دعا کریں کہ یا اللہ! آپ اس کے لئے یہ نعمت اور بڑھا دیں اور مجھے بھی عطا فرمائیں۔ یہ رشک ہے، حسد نہیں ہے، کہ جو آپ دوسرے کے لئے بھی چاہتے ہیں اور خود اپنے لئے بھی چاہتے ہیں تو یہ رشک ہے اور اگر آپ اس سے وہ نعمت ختم کرنا چاہتے ہیں کہ اس کے پاس نہ رہے اور میرے پاس ہو، یہ حسد ہے۔ اگر یہ غیر اختیاری طور پر ہو تو اس پر آپ کو کوئی نقصان نہیں ہے اور اگر اختیاری طور پر ہو، تو اختیاری کا علاج بھی ہے کہ آپ اس کے لئے دعا کردیں کہ یا اللہ! اس کو مزید دے دیں اور مجھے بھی عطا فرما دیں۔ یہ الگ بات ہے کہ بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو آپ کو اسباب کے درجے میں حاصل نہیں ہوسکتیں، تو پھر آپ اس کے لئے دعا کردیں اور اپنے لئے صبر کی دعا کریں۔ مثلاً کسی شخص نے MBBS کیا ہے اور ڈاکٹر بن گیا ہے، آپ نے نہیں کیا، تو اب آپ یوں تو نہیں کہہ سکتے کہ یا اللہ! مجھے بھی وہ عطا فرما دیں، کیونکہ آپ نے MBBS کرنے کے اسباب ہی اختیار نہیں کیے تو وہ نہیں ہوسکتا۔ آپ ان کے لئے دعا کردیں اور خود اس پہ صبر کریں۔ کہ یا اللہ! میرے لئے جو چیز مناسب ہے مجھے وہ عطا فرما، آمین۔
سوال نمبر 16:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! حضرت اللہ پاک سے دعا ہے کہ آپ سلامت رہیں، اللہ پاک ہماری کامل اصلاح فرمائیں۔ میرے ذکر کی ترتیب مندرجہ ذیل ہے: بارہ تسبیح، پانچ سو زبان سے خفی طور پر ’’اَللّٰہْ اَللّٰہْ‘‘ دس منٹ پانچوں لطائف پر ’’اَللّٰہْ اَللّٰہْ‘‘ محسوس کرنا اور پندرہ منٹ لطیفۂ قلب پر، یہ مراقبہ معیت ہے۔ حضرت جی اَلْحَمْدُ لِلّٰہ لطائف اچھے ہورہے ہیں، حضرت جی لطیفۂ روح پہلے سے بہتر ہوا ہے۔ حضرت جی مراقبۂ معیت میں، میں اپنے آپ کو بہت محفوظ اور طاقتور محسوس کرتا ہوں کہ اللہ پاک میرے ساتھ ہے۔ حضرت تہجد میں کمزوری ہے، رات کو آخری پہر نہیں پڑھی جا رہی۔ احوال: حضرت جی رات کو دو موبائل فون پر alarm لگانے کے باوجود میری چار فجر کی نمازیں قضا ہوگئیں، آنکھ ہی نہیں کھل سکی، اس پر بہت افسوس ہورہا ہے، مزید رہنمائی فرمائیں۔
جواب:
مَاشَاءَ اللہ! آپ کا جو ذکر ہے وہ تو یہی جاری رہے اور یہ جو آپ کی کمزوریاں ہیں ان کو دور کرنے کی کوشش کریں۔ اول تو یہ کہ عشاء کی نماز میں وتر سے پہلے اور سنتوں کے بعد چار رکعت تو مستقل اس گرمی میں پڑھ لیا کریں، خدانخواستہ اگر تہجد رہ جائے تو مکمل نقصان نہ ہو۔ باقی جو تہجد کا عادی ہے یا جلدی اٹھنے کا عادی ہے ان کو ساتھ ملا لیں کہ وہ آپ کو جگا دیا کریں۔ اس کے لئے کوئی بھی طریقہ اختیار کریں اور آپ ذہن میں یہ بات رکھیں کہ جیسے آپ کی فلائٹ ہوتی ہے تو اس وقت جس طرح آپ انتظام کرتے ہیں اس طرح اس کا بھی انتظام کرلیں۔ ظاہر ہے ہر ایک کو اپنے حالات کا پتا ہوتا ہے، مجھے تو کسی کے حالات کا علم نہیں ہوتا، لہٰذا اس کے مطابق آپ اس کا بندوبست کریں۔
سوال نمبر 17:
السلام علیکم! حضرت بعض دفعہ ذکر سے بیہوشی اور شدید جذب جیسی کیفیت رہتی ہے، دل نہ چاہتے ہوئے بھی کچھ نہ کچھ جذبات میں بول دیتا ہوں، بعد میں افسوس ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ اپنے آپ کو کیسے قابو میں رکھوں؟ حضرت میرے stomach میں گیس کا مسئلہ ہے، آپ کی رہنمائی کا محتاج ہوں۔
جواب:
آپ سے میں نے عرض کیا تھا کہ آپ چند دنوں کے لئے تشریف لے آئیں، یہ چیزیں دور دور سے control کرنا مشکل ہوتا ہے۔
سوال نمبر 18:
نمبر 1:
السلام علیکم! حضرت جی اس سے رابطہ نہیں ہے، ان کا خیال آنے سے اپنے اندر گندگی کا احساس ہونے لگتا ہے، اگر میری اپنی گندگی نہ ہوتی تو یہ خیال بھی نہ آتا۔
نمبر 2:
حبِ مال: مزید ادائیگی کے لئے تنخواہ ملنے کا انتظار ہے، اس ماہ تنخواہ ملنے میں بہت تاخیر ہوگئی ہے۔
نمبر 3:
pending عمل درآمد، گھر سے آفس جانے سے پہلے وضو کرکے نکلتا ہوں، اس ہفتہ بھی پابندی سے معمولات کا چارٹ بھرا ہے، آپ سے اصلاح اور رہنمائی کا طالب ہوں۔
جواب:
مَاشَاءَ اللہ اس کو جاری رکھیں، اللہ پاک ہمت اور توفیق عطا فرمائیں۔
سوال نمبر 19:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! میرا ذکر ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ دو سو مرتبہ، ’’اِلَّا اللّٰہْ‘‘ چار سو مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ چار سو مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ چھ سو مرتبہ، ’’اَللّٰہْ‘‘ ساڑھے تین ہزار مرتبہ۔ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ میں میرا اکثر استحضار 150 کے بعد یا تسبیح ختم کرنے کے بعد ہوتا ہے، کیا اس کو بڑھایا جاسکتا ہے؟ ’’اِلَّا اللّٰہْ‘‘ پر اندازاً ایک دو تسبیح کے بعد استحضار ہوتا ہے، کیا اس کو بھی بڑھا سکتا ہوں؟ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ میں بہت زیادہ اللہ کی معیت محسوس ہوتی ہے۔ ’’حَقْ‘‘ کے ذکر میں سب سے زیادہ یکسوئی ہوتی ہے اور چند تسبیحات کے بعد صرف اللہ کے سامنے پاتا ہوں اور کبھی اسباب اور لوگوں کی نفی ہونے لگتی ہے۔ جلدی جلدی بتا کے آپ کا چہرہ مبارک نظر آتا ہے، پھر وہ بھی جیسے بتایا کہ حق نے ہٹا دیا۔ کیا ذکر کی تعداد بڑھائی جاسکتی ہے؟
جواب:
اصل میں ذکر میں یہی ہوتا ہے کہ انسان کو استحضار حاصل ہونے کا جو ایک procedure ہے وہ اس کے مطابق ہوتا ہے، اس کو مزید بہتر کیا جاسکتا ہے۔ یعنی ایک غیر اختیاری استحضار ہوتا ہے اور ایک اختیاری ہوتا ہے، غیر اختیاری استحضار تو انسان کے بس میں نہیں ہوتا لیکن وہ بھی اکثر اس اختیاری استحضار پر منحصر ہوتا ہے یعنی ابتدا میں جو انسان کوشش کرتا ہے اس کوشش میں آہستہ آہستہ کمی کی صورت بن جاتی ہے اور غیر اختیاری استحضار خود بخود improve ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ آپ کی نظر صرف غیر اختیاری استحضار پر ہے اس وجہ سے آپ کو مسئلہ ہے، آپ اپنے اختیاری استحضار پہ توجہ کریں، غیر اختیاری تو آپ کا شعبہ ہی نہیں ہے، وہ تو اس کی achievement ہے۔ لہٰذا آپ اس کی طرف دھیان نہ کریں، اصل دھیان آپ اختیاری استحضار کی طرف کریں۔ آپ اپنے اختیار کے ساتھ بالکل ابتداء سے شروع کرسکتے ہیں، بہرحال اس میں آپ کوشش کریں اِنْ شَاءَ اللہُ الْعَزِیْز فی الحال یہ ہی کافی ہے۔
سوال نمبر 20:
السلام علیکم! حضرت جی میں فلاں ہوں۔ آپ نے مراقبۂ تنزیہ اور صفاتِ سلبیہ کا اثر فرمایا تھا کہ اس کی کیفیت پر غور کریں۔ حضرت جی تنزیہ کا مطلب آپ نے یہ فرمایا تھا کہ جس کی کوئی مثال نہیں ہے، اس کے جیسا کوئی دوسرا تصور ہمارے خیال میں نہیں آسکتا۔ اور صفاتِ سلبیہ وہ صفات ہیں جو انسانوں کی ہیں لیکن اللہ پاک ان سب کمزوریوں سے پاک ہے، جیسے اللہ پاک سوتے نہیں ہیں، ان کی کوئی اولاد نہیں ہے، ان کو اونگھ نہیں آتی، ان کو کھانے پینے کی حاجت نہیں ہے۔ مراقبہ کرتے ہوئے میں اس چیز کا تصور کرتی ہوں کہ اللہ پاک کی ذات وراء الوراء ہے اور سب انسانی کمزوریوں سے پاک ذات کا فیض آپ ﷺ کے قلب پر آرہا ہے، وہاں سے شیخ کے قلب پر اور پھر میرے لطیفۂ اخفیٰ پر آرہا ہے۔ یہ بات سمجھ میں بھی آرہی ہے لیکن کیفیت نہیں سمجھ سکی کہ حاصل ہوئی ہے یا نہیں۔
جواب:
اصل میں اللہ جل شانہٗ کا ان تمام چیزوں سے پاک ہونا اگر سمجھ میں آجائے تو یہی اس کا استحضار ہے۔ باقی ایک انسان واقعتاً ان چیزوں کو نہیں سمجھ سکتا کیونکہ ہم خود چیزوں کے اندر پھنسے ہوئے ہیں، تو جو ذات ان چیزوں سے بالکل وراء الوراء ہے، وہ سمجھ میں نہیں آسکتی لیکن کم ازکم ہم اس سے اپنی کمزوریوں کو تو معلوم کرسکتے ہیں کہ ہم تو ہر چیز میں محتاج ہیں، لہٰذا جو محتاج نہیں ہے پھر اس کی طرف جائیں گے، یہی اس کا نتیجہ ہوگا۔ لہٰذا ہم ان ساری چیزوں کے بھی محتاج ہیں جو ہمارے ساتھ لگی ہوئی ہیں۔ لہٰذا ہمارا کام یہی ہے کہ جو محتاج نہیں ہے ہم اس کی طرف متوجہ رہیں، تو اللہ تعالیٰ کی مدد ہمارے ساتھ ہو اور ہمیں ہر چیز میں ہر غلطی سے محفوظ فرمائے۔
سوال نمبر 21:
حضرت یہ جو سوال ابھی ہوا ہے تجلیاتِ صفاتِ سلبیہ کا فیض یعنی جب ہم ایک چیز کو سلب کررہے ہیں تو کس چیز کا فیض وہاں سے آنے کا انتظار کیا جائے؟
جواب:
جو میں نے آخر میں باتیں کی ہیں یہی اس کا فیض ہے۔ میں نے بتایا کہ جس وقت ہم اپنے آپ کو محتاج مانتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان چیزوں کے محتاج نہیں ہیں، اللہ پاک ان کمزوریوں سے پاک ہیں۔ تو ظاہر ہے جو ان چیزوں سے پاک ہیں وہی ہماری محتاجی دور کرسکتے ہیں۔ لہٰذا اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ہم اس کی طرف جائیں گے، اور یہی اس کا فیض ہے۔
سوال نمبر 22:
حضرت جو مراقبات میں فیض کا ذکر ہوتا ہے کہ دل پر فیض آرہا ہے، تو حضرت اس میں سمجھ آئے یا نہ آئے، کچھ حاصل ہوتا ہے یا نہیں؟
جواب:
اصل میں لفظِ فیض عموماً لوگوں کو پتا نہیں ہے کہ فیض ہوتا کیا ہے، ایسے سوالات اس لئے آتے ہیں۔ مجھے بتائیں کہ میں یہ اٹھا رہا ہوں اور اللہ پاک کا اٹھانے کا ارادہ نہ ہو کہ میں اس کو اٹھا سکوں۔ تو کیا میں اٹھا سکتا ہوں؟ نہیں اٹھا سکتا، لہٰذا اس وقت جو فیض آرہا ہے وہ اسی کا آرہا ہے کہ میں اس کو اٹھا رہا ہوں۔ اگر میں کسی چیز سے اپنے آپ کو بچانا چاہتا ہوں تو مجھے کون بچائے گا؟ اللہ تعالیٰ مجھے بچائیں گے، یہ جو اللہ کا مجھے بچانا ہے یہی اس کا فیض ہے۔ فیض بڑا general لفظ ہے، جس چیز سے بھی کسی کو کسی قسم کا بھی فائدہ ہو یعنی جو چیز اس کو ضرورت ہو تو وہ فیض ہے۔ چاہے وہ ہماری ضروریات کا پورا کرنا ہے، چاہے ہمیں مشکلات سے بچانا ہے، چاہے ہمیں نقصانات سے بچانا ہے، چاہے جو بھی چیز ہے وہ سب فیوضات ہیں اور یہ سارے فیوضات کا منبع اللہ جل شانہٗ کی طرف سے آرہا ہے۔ اور تقسیم چونکہ اللہ پاک نے آپ ﷺ کے ذریعے سے کی ہے، لہٰذا قاسم وہی ہیں، اس لئے پہلے ان کی طرف ہی آتا ہے، پھر اُدھر سے شیخ کی طرف آتا ہے۔ چونکہ مرید کے لئے سب سے بڑا ذریعہ شیخ ہوتا ہے، اس لئے پھر شیخ سے مرید کی طرف آتا ہے۔ یہ ایک channel ہے جو کہ اللہ پاک نے بنایا ہے، اس channel کا ہم استحضار کرتے ہیں اور یہی استحضار ہی اصل چیز ہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ کم ازکم لوگوں کو یہ علم تو ہوتا ہے کہ سب کام اللہ پاک ہی کرتے ہیں، لہٰذا میرے خیال میں کوئی بھی شخص جو مسلمان ہے اس کا بے شک استحضار نہیں ہوگا، لیکن کم ازکم مانتا ہے یعنی اس پر اس کا ایمان ویقین ہے، لیکن آپ ﷺ کے ذریعے سے ہوتا ہے، اس کا استحضار بہت کم لوگوں کو ہے۔ اور صحیح معنوں میں شیخ کی پہچان یہی ہے کہ اللہ پاک شیخ کو ذریعہ بناتے ہیں۔ مثلاً اللہ جل شانہٗ جس کو بھی جس ذریعے سے بھی دینا چاہتے ہیں، کیا ہم لوگ اس کا انکار کرسکتے ہیں؟ جس کو چاہے ذریعہ بنا دیں۔ چنانچہ اللہ پاک نے جیسے استاد کو علم کا ذریعہ بنایا ہے، شیخ کو اس خاص فیض کا ذریعہ بناتے ہیں، والدین کو پیدا ہونے اور پرورش کا ذریعہ بنایا ہے، لہٰذا یہ سب اللہ پاک نے ذریعے بنائے ہوئے ہیں۔ اب جو ان ذرائع کی قدر کرتا ہے اور پہچانتا ہے، ان کی معرفت رکھتا ہے، ان کو اللہ پاک ان ذرائع کے ذریعے سے نوازتے ہیں۔ اور جو ان ذرائع کو جانتا نہیں ہے اور ان کی قدر نہیں کرتا، اس طرف سے اپنے آپ کو مستغنی سمجھتا ہے تو پھر ان کے ساتھ وہی معاملہ ہوتا ہے۔ چنانچہ جو فیوضات کا مراقبہ کرتے ہیں وہ اس چیز سے بچنے کے لئے کرتے ہیں۔ ایک تو عوام پیر کو ایسا سمجھتے ہیں کہ مجھے خود کچھ نہ کرنا پڑے، بس سب کچھ میرا پیر ہی میرے لئے کرے، ایک تو یہ سوچ ہے، اور یہ غلط ہے، وہ تو ایک extreme ہے۔ دوسرا extreme یہ ہے کہ شیخ کو ذریعہ نہیں بناتے اور کہتے ہیں کہ میں خود ہی سب کچھ کرتا ہوں، یہ دونوں غلط ہیں، بلکہ حق درمیان میں ہے۔ یعنی میرے لئے جو خیر کے ذرائع ہیں اس کے لئے شیخ کے ساتھ میرا جو تعلق ہے، میں توجہ کا لفظ قصداً نہیں لے رہا کیونکہ اس سے پھر لوگ اور طرف چلے جاتے ہیں، میں تعلق کی بات کررہا ہوں کہ تعلق کے ذریعے سے اللہ پاک دیتا ہے۔
آپ یقین کیجئے کہ ہمیں تو اپنے شیخ کی یہ بات یاد آتی ہے اَلْحَمْدُ لِلّٰہ کہ جو شیخ نے بتایا اس پہ عمل کرنا آسان ہوجاتا تھا اور جو ہم خود اپنے علم سے سمجھتے تھے کہ یہ چیز میرے لئے اچھی ہے، اس پہ ہم کبھی عمل کرسکتے تھے، کبھی نہیں کرتے تھے۔ کبھی ہوتا اور کبھی نہیں ہوتا تھا۔ مثلاً مناجاتِ مقبول کا حضرت نے فرمایا تھا جس کی تلاوت اَلْحَمْدُ لِلّٰہ ابھی تک جاری ہے، جتنا قرآنِ پاک پڑھنے کا بتایا تھا اَلْحَمْدُ لِلّٰہ ابھی تک وہی ترتیب ہے، جس طریقے سے ذکر کرنے کا بتایا تھا وہ جاری ہے۔ یعنی جو چیز حضرت کی طرف سے حکم تھا مَاشَاءَ اللہ وہ چل رہی ہے، اور جو چیز ہم نے اپنی طرف سے آگے پیچھے کی ہے، اس میں کبھی کیا ہوتا ہے کبھی کیا ہوتا ہے۔ میں نے ایک عجیب خواب دیکھا تھا، خواب اہم چیز نہیں ہے، اصل میں تو شیخ نے جو تعلیم دی ہے وہ اہم ہے۔ خواب تو ایک ذریعہ بن گیا، سوچ سوچ کے قدم رکھنا پڑتا ہے۔ اگر میں خواب کی بات کروں گا تو لوگ خوابوں کے پیچھے پڑنا شروع ہوجائیں گے۔ میں نے خواب دیکھا کہ حضرت سامنے بیٹھے ہیں اور پاس آئینہ بھی ہے، ساتھ مجھے آنکھ سے اشارہ کرتے ہیں کہ اس میں دیکھو اور آئینہ میرے سامنے کردیا، تو میں نے دیکھا کہ مدینہ منورہ کا راستہ ہے، جیسے انسان چلے تو راستہ طے ہوتا ہے، اسی طرح آئینے میں دیکھتا ہوں کہ راستہ طے ہورہا ہے، پھر میں دیکھتا ہوں کہ وہ آئینہ بالکل Wind screen بن جاتا ہے اور میں کار میں بیٹھا ہوں، کار Full speed سے مدینہ منورہ کے راستہ پہ جا رہی ہے۔ پھر دیکھتا ہوں کہ کار غائب ہوجاتی ہے اور میں مدینہ منورہ میں ہوتا ہوں اور پھر دیکھتا ہوں کہ روضۂ اقدس پہ ہوں اور سامنے سبز بورڈ لگا ہوا ہے اور جو کچھ وہاں ہوتا ہے وہ سب کچھ موجود ہے۔ تو میں ایک آدمی سے کہتا ہوں کہ خانہ کعبہ بھی ادھر ہی ہے، لیکن لوگ اس کو دور سمجھتے ہیں۔ میں نے پھر یہ خواب حضرت کو سنایا تو حضرت نے فرمایا کہ آئینہ تو میں ہوں، خواب میں آئینے کو دیکھنا شیخ کو دیکھنا ہوتا ہے۔ کیونکہ شیخ ہی آپ کو عیوب بتائے گا، ان کے ذریعے سے آپ کو پتا چلے گا، تو آئینہ بھی آپ کو عیوب بتاتا ہے جو آپ میں ہیں۔ چنانچہ فرمایا کہ آئینہ میں ہوں اور مدینہ منورہ کا راستہ تو ہمارا راستہ ہے اور فرمایا کہ جب آپ خود چلنا شروع کریں گے تو پھر میں درمیان سے نکل جاؤں گا۔ پھر اخیر میں آخری حصے کا فرمایا کہ دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں، کچھ کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق کی وجہ سے آپ ﷺ کے ساتھ تعلق ہوتا ہے اور کچھ کو آپ ﷺ کے ساتھ تعلق کی وجہ سے اللہ کے ساتھ تعلق حاصل ہوتا ہے۔ تو آپ دوسری قسم میں ہیں یعنی نبوت والا طریقہ۔ لہٰذا مقصد یہ ہے کہ اب اس کے لئے آئینہ بھی شیخ نے دکھایا، اور جو مسلسل speed بن رہی تھی یعنی میں آئینے میں دیکھ رہا ہوں، پھر خود جا رہا ہوں، پھر پہنچ جاتا ہوں، یہ سب شیخ کی برکت سے ہوا۔ میں شیخ کی توجہ کا لفظ استعمال نہیں کررہا ہوں لیکن جیسے ان کے ساتھ تعلق تھا تو اس کی بنیاد پر یہ سب ہوا، ورنہ خود کہاں ہوتا، خود تو سو کمزوریاں درمیان میں آتی ہیں اور بھی مسائل ہوتے ہیں۔ لیکن بعض فیوضات اتنے باریک ہوتے ہیں کہ ان کے استحضار کے لئے بھی علم کی ضرورت ہوتی ہے، مثلاً آپ کو کچھ بھی کیفیت محسوس نہیں ہورہی لیکن آپ شریعت پر چل رہے ہیں، ہم تو سمجھتے ہیں بالکل صحیح چل رہے ہیں، اب آپ کہتے ہیں نہیں! میں ہوا میں اڑنا شروع کروں، تو آپ کو پھر نیچے اتارنا پڑے گا۔
سوال نمبر 23:
حضرت یہ ابھی فیض کی بات آپ نے فرمائی ہے، تو نسبتِ انعکاسی کے بارے میں اس دن آپ نے بتایا تھا اور اس کی مثال دی تھی کہ جیسے کوئی آدمی heater کے سامنے بیٹھا ہوا ہے۔ تو باقی نسبتوں کی مثالیں بھی دے دیں اور جو باقی باللہ رحمۃ اللہ علیہ نے نان بائی کو جو نسبت کا القاء کیا، ان کے ساتھ کیا ہوا تھا؟
جواب:
اصل میں نسبتِ انعکاسی جیسے آپ نے ابھی بتایا وہی ہے کہ آپ heater کے سامنے بیٹھے ہیں یا آئینے کے سامنے بیٹھے ہیں، جب تک اس کے سامنے ہیں تو اثر ہے اور جب سامنے نہیں ہیں تو اثر نہیں ہے۔ لیکن جب تک آپ سامنے ہیں اور اگر آپ کے اندر کوئی تبدیلی آئی تو وہ آپ کے ساتھ جائے گی، اگر اس دوران اس کیفیت کی وجہ سے جیسے heat کی وجہ سے یا دیکھنے کی وجہ سے آپ نے کوئی تبدیلی کی تو وہ آپ کا اپنا حصہ ہے۔ نقشبندی حضرات نے اس کو استعمال کیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ نسبتِ انعکاسی بہت زیادہ استعمال کریں، یعنی شیخ کی موجودگی میں جو مجاہدات ہوں گے، اس کے ذریعے سے جو آپ میں تبدیلیاں آئیں گی، وہ تو نسبتِ انعکاسی نہیں ہیں، وہ تو آپ کے اندر مستقل ایک تبدیلی لا رہا ہے۔ لہٰذا اس وجہ سے انہوں نے اس کو استعمال کیا ہے، تو نسبتِ انعکاسی اگرچہ بظاہر کمزور چیز ہے لیکن جب آپ مسلسل اس کو استعمال کررہے ہوں گے تو آپ کے اندر جو تبدیلیاں آرہی ہوں گی وہ دو قسم کی تبدیلیاں ہیں۔ ایک تبدیلی یہ ہے کہ آپ کو شیخ دور سے بتائے کہ یہ کریں، اس میں آپ کی اپنی effort بہت زیادہ ہوگی اور محسوس بھی زیادہ ہوگی، بھاری ہوگی۔ جب آپ شیخ کی موجودگی میں وہی کام کریں گے جو آپ باہر کررہے تھے تو آپ کو زیادہ محسوس بھی نہیں ہوگا، آسانی کے ساتھ کر بھی سکیں گے اور اس کے ذریعے سے جو تبدیلی آئے گی وہ بھی بہت زبردست acheivement ہوگی۔ نقشبندی حضرات نے نسبتِ انعکاسی کو استعمال کیا ہے اور یہی کمال کی بات ہے کہ اس کو اس طرح استعمال کیا جائے۔ آج کل بڑا مسئلہ یہ ہے کہ نسبتِ انعکاسی کا یہ استعمال نہیں ہے اور نقشبندی سلسلے کی برکات تو ہمیں automatically ملیں گی۔ بھائی جو ذرائع ہیں اس کے ذریعہ سے ملتا ہے، آپ نے ذریعہ ختم کردیا تو اب بتائیں پھر کیسے حاصل کریں گے؟ لمبی طویل انعکاسی نسبت تو آپ نے ختم کردی، اس کے ذریعے سے جو حاصل ہونا تھا وہ تو حاصل نہیں ہوگا۔ دوسری نسبتِ القائی ہے، القائی میں ایسا ہوتا ہے کہ آپ کسی کو بتا دیں کہ یہ کرو، یہ کرو۔ اس کے ذریعے سے جو آپ کے اندر تبدیلی آتی ہے وہ نسبتِ القائی ہے، مثلاً آپ کو کوئی ذکر یا کوئی مجاہدہ دے دیا یا آپ کو کوئی طریقہ بتا دیا، یہ نسبتِ القائی ہے۔ مثلاً جیسے کوئی شمع آپ کے پاس ہے اور وہ جل رہی ہے، آپ اسے کہیں بھی لے جاسکتے ہیں لیکن ہوا بھی آسکتی ہے، وہ اس کو بجھا بھی سکتی ہے، اسے بچانا بھی پڑے گا اور اگر بجھ جائے تو پھر دوبارہ جلانا بھی پڑے گا۔ نسبتِ القائی میں یہ ہے کہ آپ جہاں بھی جائیں گے وہ آپ کے ساتھ ہے لیکن بچاتے ہوئے جانا ہے۔ تیسری نسبتِ اصلاحی ہے، نسبتِ اصلاحی یہ ہے کہ جن چیزوں سے بگاڑ پیدا ہوتا ہے ان ذرائع کو ختم کریں۔ مثلاً ایک دریا سے آپ نے ایک نہر نکالنی ہے تو درمیان میں جو رکاوٹ ہے اسے ختم کردیں، پانی خود بخود آنا شروع ہوجائے گا اور پھر ختم نہیں ہوگا۔ ظاہر ہے آپ نے دریا کے ساتھ اس کو لگا دیا ہے تو پھر مسلسل چلتا رہے گا، یہ نسبتِ اصلاحی ہے اور اصل میں اسی نسبتِ اصلاحی کے لئے کوشش ہوتی ہے کہ جس وقت رذائل دب گئے ہیں تو سب چیزیں ادھر ہی موجود ہیں، کہیں دور جانے کی بھی ضرورت نہیں ہے ہمارے ساتھ ہی موجود ہیں۔ جیسے بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ کا جو خواب تھا کہ اللہ پاک نے فرما دیا کہ اپنے نفس کو چھوڑ دے اور میرے پاس آجا، لہٰذا جب نفس کے رذائل کو آپ نے دبا دیا تو بس اللہ کے ہوگئے، پھر اس کے بعد درمیان میں کوئی چیز نہیں، تو یہ نسبتِ اصلاحی ہے۔ نسبتِ اتحادی بہت ہی rare ہے اور اس کے بارے میں کوئی خاص طریقہ بھی نہیں ہے، بس یوں کہہ سکتے ہیں کہ اللہ نے جن کے لئے مقدر کیا ہوتا ہے ان کو ہوجائے گا۔ جیسے اس بٹیارے کے لئے ہوگیا کہ اس نے بڑی محبت اور اخلاص کے ساتھ ایک کام کیا تھا اللہ نے قبول فرما لیا، اس کے ذریعے سے اللہ پاک نے اس کو دلوا دیا۔ سب سے پہلے اس کے دل میں یہ بات ڈالی کہ مجھے اپنے جیسا بنا دو۔ گویا اس کا دل پہلے سے اتنا صاف تھا کہ وہ جانتا تھا کہ شیخ اصل میں یہی ہے تو میں بھی ان کی طرح ہوجاؤں اور اس کے علاوہ اس کا کوئی مقصد نہیں تھا۔ اس نے کہا کہ اگر یہ نہیں کرسکتے تو حضرت پھر چھوڑ دیں پھر مجھے کچھ نہیں چاہیے، اس کا مانگنے کا معیار بہت اونچا تھا، یعنی کہ وہ معمولی معیار نہیں تھا پھر اللہ پاک نے ان کے شیخ کے دل میں بھی طریقہ ڈال دیا، یہ کوئی ضروری تو نہیں کہ سب کے لئے یہ طریقہ ہو، میں دروازہ بند کردوں، میں چاہوں گا بھی تو نہیں کرسکتا۔ وہ تو ظاہر ہے ایک وہ تو اللہ پاک نے ان کے لئے راستہ کھول دیا تھا، بس ان کے شیخ کے دل میں آیا اور انہوں نے کردیا اور ہوگیا۔ یہ انسان کے بس میں نہیں ہوتا، میں نے آپ کو خود بتایا تھا کہ میرے ایک ساتھی میرے سامنے بیٹھے ہوئے تھے، یہ میں کسی اور کے ساتھ نہیں کرسکتا، بیان کررہا ہوں لیکن یہ میرے بس میں نہیں ہے۔ پتا نہیں مجھے کیا ہوا میں نے کہا: کیا کررہے ہو؟ وہ اس طرح اچھلا تو بعد میں اس نے کہا: شاہ صاحب میں بہت دور چلا گیا تھا آپ مجھے کہاں سے لے آئے ہیں۔ اب ظاہر ہے میرے بس میں تو نہیں تھا اور نہ میں اس کے بارے میں جانتا تھا، لیکن خدا تعالیٰ کو تو سب چیزوں کا پتا تھا تو بس ہوگیا۔ اس طرح جب اللہ پاک کسی کے لئے چاہتے ہیں تو ہوجاتا ہے۔ اس لئے تو ہم کہتے ہیں اللہ تعالیٰ سے مانگو لیکن ذرائع کا انکار نہ کرو، اللہ تعالیٰ ہی دیتے ہیں، انسان نہیں دے سکتا۔ چنانچہ نسبتِ اتحادی کا جن کے لئے بھی اللہ فیصلہ فرما دیں بس ان کے لئے ہے اور وہ ایک جیسی ہوتی ہے، لیکن ایک جیسا اثر ضروری نہیں ہے۔ ایک جیسا اثر کیوں نہیں ضروری؟ کیونکہ ایک ہوتا ہے تدریجاً حاصل ہونا اور ایک ہے یکدم حاصل ہونا، لہٰذا یکدم کے لئے جب انسان تیار نہیں ہوتا تو اس کو برداشت نہیں کرسکتا۔ چنانچہ اس بٹیارے کے ساتھ بھی یہی ہوا کہ تین دن بعد فوت ہوگیا، چونکہ اس کے لئے وہ prepared نہیں تھا اور اس کو مقام وہ حاصل ہوگیا تھا۔ حضرت تھانوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے جب اس کا قصہ بیان کیا تو فرمایا: واہ جی بٹیارا مر تو گیا لیکن باقی باللہ بن کر مرا۔ اب ذرا اس پر ایک لطیفہ سنیں۔ کوئی شخص مدینہ منورہ میں بیمار ہوگیا تو حضرت صوفی اقبال صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے دعا کی درخواست کی، حضرت نے دعا کردی۔ اس کو بہت زیادہ پریشانی تھی تو بار بار دعا کا کہہ رہے تھے، حضرت نے کہا آپ نے اپنے لئے مدینہ منورہ میں فوت ہونے کی کوئی دعا تو نہیں کی؟ اب اس کو بہت زیادہ ڈر لگ گیا کہ میں تو شاید مر رہا ہوں، حضرت نے فوراً فرمایا: وہ ہر ایک آدمی نہیں ہوتا وہ تو قسمت کی بات ہوتی ہےآپ پروا نہ کریں۔
ایک عورت ہماری رشتہ دار تھی تو اسے لیلۃ القدر کا خیال تھا کہ شاید آج لیلۃ القدر ہے، ایسا ہوتا ہے کسی کو کسی وقت بھی خیال آسکتا ہے، اس نے کوئی دعا کی تو اس کو ایسے کچھ خیالات آئے جیسے کوئی فوت ہورہا ہو، چنانچہ فوراً کہتی میں نے جھوٹ بولا ہے، یعنی جیسے ہی ان کو موت کا احساس ہوا تو فوراً کہا میں نے جھوٹ بولا ہے۔
بہرحال بٹیارا ایسا نہیں تھا وہ پکا آدمی تھا، اللہ جل شانہٗ جس کو جو چیز دینا چاہتے ہیں اس کو دے دیتے ہیں۔ میں آپ کو ایک دنیاوی بات بتاؤں، Noble prize جن کو ملا تھا ایک مرتبہ وہ اسلام آباد میں آئے، میرے خیال میں شاید A.Q. Khan نے ان کو بلایا تھا، ہمیں ویسے کوئی کام تھا ادھر تو ہم بھی ملنے کے لئے چلے گئے، جب پتا چلا کہ وہ آرہے ہیں تو ہم بھی کھڑے ہوگئے اور بھی بہت سارے لوگ ان کو دیکھنے کے لئے آئے ہوئے تھے اور ان سے سوالات بھی کررہے تھے تو انہوں نے ایک زبردست بات کی، انہوں نے کہا:
I don't have any recipe which can make you nobel prize winner. You just work hard and if it is Ok then you will.
انہوں نے کہا میرے پاس کوئی کلیہ نہیں ہے کہ میں آپ کو Nobel prize کا winner بنا دوں، بس آپ کام کرتے رہیں، اگر کام اچھا ہوا تو پھر ہوسکتا ہے۔ بات تو بالکل صحیح کی کہ کوئی Nobel prize winner کسی کو بتا سکتا ہے کہ آپ Nobel prize کیسے لیں۔ اس طرح نسبتِ اتحادی والے بھی یہ نہیں بتا سکتے کہ نسبتِ اتحادی کیسے حاصل ہو، ہاں جس کے لئے اللہ پاک نے مقدر کیا ہوگا تو ہوجائے گا۔
سوال نمبر 24:
یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ مجاہدے کے بغیر اگر کوئی اس طرح حاصل کرنا چاہے تو بٹیارے والے کی طرح اس کی موت ہوسکتی ہے؟
جواب:
یہ تدریج والی بات ہے کہ آپ تمام مجاہدات، ذکر واذکار اور جتنی تربیتیں ہیں ان سب کو ایک لفظ تدریج میں شامل کرلیں، یہ سنتِ الہٰی بھی ہے۔ آپ دیکھیں کہ اسلام تدریجاً آیا ہے، یکدم سارے احکامات نہیں آئے، یعنی باقاعدہ اس کے لئے زمین ہموار کی جاتی تھی بالآخر پھر وہ چیز نازل ہوتی تھی۔ اسی طریقے سے تربیت بھی تدریج سے ہوتی ہے، اس کے لئے جگہ بنائی جاتی ہے۔ جب تک جگہ نہیں بنی ہوتی اور وہ چیز اس کو حاصل ہوجائے تو وہ اس کو برداشت نہیں کرسکتا۔ حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے پاس ایک شخص آئے ہوئے تھے تو حضرت نے اس پر توجہ کی یا اس پہ ہاتھ پھیرا جو بھی کہہ لیں تو ان کو ایک کیفیت حاصل ہوگئی لیکن وہ ڈر گئے کہ پتا نہیں میں مر رہا ہوں، انہوں نے کہا حضرت برداشت نہیں ہورہی، حضرت نے کہا برداشت ہوجائے گا تھوڑا صبر کریں۔ پھر اس کے بعد انہوں نے کہا حضرت مجھ سے برداشت نہیں ہورہا، حضرت نے کہا بھائی برداشت ہوجائے گا آپ صبر کریں۔ جب چار پانچ دفعہ کہا تو حضرت نے پھر دوبارہ ان کے اوپر ہاتھ پھیرا اور وہ کیفیت ختم ہوگئی۔ کچھ دیر کے بعد ان کو احساس ہوا کہ میں نے تو غلطی کردی، انہوں نے کہا حضرت غلطی ہوگئی۔ فرمایا: بس آپ کی قسمت میں نہیں تھا کوئی آپ کو زبردستی تو نہیں دے سکتا۔ یعنی اس میں surrender ضروری ہوتا ہے، ہر stage پر surrender ہے اور اس وقت اسی surrender کی ضرورت تھی اور دوسری بات یہ ہے کہ جب تک پوری تربیت سے نہ گزرا ہو تو بے شک آپ کو مل بھی جائے لیکن وہ ذرا زور زیادہ لے گا۔ بلکہ ہمارے بزرگوں کے واقعات میں انہوں نے یہ بات فرمائی ہے کہ بعض دفعہ کوئی بزرگ فوت ہوتا ہے تو اس کی نسبت کسی اور زندہ کو منتقل ہوتی ہے۔ یہ باقاعدہ چلا آرہا ہے۔ ہمارے حضرت مولانا یوسف بنوری صاحب جب فوت ہوئے تو ان کا فیض حضرت کو منتقل ہوا تھا، تب حضرت بہت سخت بیمار ہوگئے تھے heart کا problem تھا، ہم سمجھ رہے تھے کہ بس اب تو گئے۔ پشاور کے تبلیغی جماعت کے ایک بڑے تھے نور الہٰی صاحب، وہ حضرت کے مرید تھے، جب حضرت کو افاقہ ہوگیا تو فرمایا کہ عجیب نسبت تھی ہمارا تو کچومر نکال دیا۔ اور یہ ڈر گئے تھے کہ مولانا صاحب تو ہمارے ہاتھ سے چلے گئے۔ تو یہ بھی ہوتا ہے کہ ایک بزرگ جب فوت ہوتا ہے تو اس کی نسبت دوسرے کو وہ جس مقام پر وہ ہوتا ہے اس کے حساب سے transfer ہوتی ہے، پھر اگر تدریجاً وہاں تک نہ پہنچا ہو تو اس میں زور لگتا ہے۔ بس بات سمجھ میں آگئی کہ اسباب اور ذرائع سے انکار نہیں کرنا چاہئے، لیکن یہ بات ہے کہ دیتا تو اللہ ہی ہے۔ یہ دو باتیں جمع ہونی چاہئیں کیونکہ اللہ بھی یہ نہیں چاہتا کہ اسباب سے انکار کرو، ان میں بڑی حکمتیں ہوتی ہیں، جن میں کچھ کا پتا انسان کو لگ جاتا ہے اور کچھ کا پتا نہیں لگتا بس صرف ماننا پڑتا ہے، جیسے حکم ہو بس ٹھیک ہے مان لیں۔
سوال نمبر 25:
نمبر 1:
جو بےریش لڑکے ہوتے ہیں، علماء کا اور ہمارا کام تو ان کے ساتھ ہی پڑھنا پڑھانا ہوتا ہے اور اسی age کے بچے ہمارے پاس آتے ہیں، تو ان کے ساتھ پھر کیا صورت ہوسکتی ہے؟
جواب:
امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا طریقہ اختیار کرنا چاہئے، جیسے حضرت نے اپنے آپ کو بچایا تھا، طریقہ تو وہی ہے، البتہ یہ بات ہے کہ اپنی روحانیت کو اتنا بڑھانا چاہئیے کہ کم ازکم احساس تو ہو کہ مجھے نقصان کیا ہورہا ہے اور جب احساس ہوگا تو اپنے آپ کو بچا بھی لے گا۔ ظلمت کا ادراک بھی تو روحانیت ہے کہ اگر کسی کو ظلمت کا ادراک نہ ہورہا ہو تو اس کا مطلب ہے کہ اس کی روحانیت بہت کمزور ہے۔ لہٰذا روحانیت کو بڑھایا جائے، جو جتنے زیادہ فتنوں میں ہے وہ اتنی زیادہ protection کے ذرائع استعمال کرے گا۔ آپ جب سوال کررہے ہیں تو اس کا مطلب یہی ہے کہ فتنے میں ہیں تو اس فتنے کا سدِ باب یہی ہوسکتا ہے کہ کم ازکم آپ کو معلوم تو ہو کہ مجھے کیا نقصان ہورہا ہے، پھر انسان کی بچت بھی ہوجاتی ہے، یعنی اَلْحَمْدُ لِلّٰہ پھر حفاظت ہوجاتی ہے۔ کیونکہ جو اس سے بھاگتا ہے تو کم ازکم پھر اس کے ساتھ اللہ پاک کی مدد ہوتی ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے واقعے سے بھی ہمیں سبق ملتا ہے۔ بہرحال کم ازکم تنہائی میں تو اپنے پاس بالکل نہیں آنے دینا چاہئے یہ بنیادی بات ہے۔ میں آپ کو صحیح بات عرض کرتا ہوں، ہمارا معاملہ تو ہر ایک کے ساتھ ہوتا ہے، اب بعض حضرات کا یہ مسئلہ ہوتا ہے کہ وہ بچوں سے اپنے جسم دبواتے ہیں، خدمت کرواتے ہیں، تنہائی میں بھی ان کے پاس آتے ہیں، یہ سب خطرے کے signals ہیں۔ کم ازکم ایسا بالکل نہیں کرنا چاہئے، اپنے آپ کو فتنے میں نہیں ڈالنا چاہئے کیونکہ شیطان کسی وقت بھی انسان کو فتنے میں ڈال سکتا ہے۔ باقی جب سب لوگوں کے سامنے ہوتے ہیں تو اس میں پھر معمولی توجہ سے انسان بچ سکتا ہے یعنی آدمی اپنے آپ کو alert رکھے، اپنی روحانیت کو active رکھے، پھر مَاشَاءَ اللہ بچت ہوسکتی ہے۔ لیکن جو اس قسم کی بے ترتیبیاں ہیں یہ بہت خطرناک ہیں، جتنا زیادہ فتنے کی جگہ ہو اس سے بچیں۔ جیسے ایک حدیث شریف ہے: ’’اِتَّقُوْا مَوَاضِعَ التُّهَمِ‘‘ (احیاء علوم الدین، ج3، ص:36) کہ تہمت کی جگہوں سے بچو۔ ہمارے پشتو میں کہتے ہیں ’’منګې مات شو که مات نه شو ډز ئې لاړو‘‘ یعنی گھڑا ٹوٹا ہے یا نہیں ٹوٹا لیکن اس کی آواز تو آئی ہے۔ اس وجہ سے انسان کو اس سے بھی اپنے آپ کو بچانا چاہئیے کیونکہ بعض دفعہ انسان کچھ بھی نہیں کرتا لیکن لوگ مخالف ہوتے ہیں، وہ کچھ بھی بنا لیتے ہیں، لہٰذا آپ کا ایک project تو کھل گیا اور مسئلہ بن گیا۔ اس کے لئے پھر آپ کو کافی کچھ کرنا پڑے گا، اس وجہ سے انسان ایسی چیزوں سے بچے جن کی وجہ سے مشکلات میں مبتلا ہوجائے۔
نمبر 2:
اگر کوئی اس طرح کی چیز نہ ہو صرف ان کی طرف نظر کرنی ہو، ظاہر ہے پڑھانے میں تو کرنی پڑتی ہے؟
جواب:
میں آپ کو بتاؤں میں نے بھی پڑھایا ہے اور میں نے لڑکیوں کو بھی پڑھایا ہے، آپ تو لڑکوں کی بات کررہے ہیں۔ لیکن اس میں ہمارا طریقہ یہ ہوتا تھا کہ لڑکیاں ایک طرف اور لڑکے دوسری طرف ہوتے تھے، تو لڑکوں کی طرف تو میں دیکھتا بھی تھا لیکن لڑکیوں کی طرف دیکھتا ہی نہیں تھا، اگر ان کے سوال وغیرہ آتے تو صرف بورڈ کی طرف دیکھتے دیکھتے میں جواب دیتا، کبھی کوئی لڑکی کمرے میں آجاتی تو میں پورا دروازہ کھول دیتا تاکہ privacy ختم ہوجائے۔ ایک دفعہ ایک لڑکی نے مجھ سے صرف دستخط کروانے تھے تو وہ اتنی اچانک آئی کہ مجھے بالکل planning کا موقع نہیں مل سکا کہ میں دروازہ کھول دوں اور بس میرے سامنے کاغذ رکھ دیئے تو میں نے یہی مناسب سمجھا کہ فوراً دستخط کردوں، خواہ مخواہ نکلوں گا تو پھر بھی ٹائم لگے گا تو میں نے دستخط تو کردئیے لیکن جانے سے پہلے میں نے کہا بیٹی آپ تو میری بیٹی ہیں؟ کہتیں جی، میں نے کہا ایک نصیحت کرسکتا ہوں؟ انہوں نے کہا بالکل۔ میں نے کہا آئندہ کبھی بھی کسی کے کمرے میں اکیلے نہ جایا کریں، اس نے کہا میں سمجھ گئی اِنْ شَاءَ اللہ آئندہ ایسا نہیں کروں گی۔ یہ فتنوں کی چیزیں ہیں اور کسی بھی وقت فتنہ کھڑا ہوسکتا ہے، اللہ نہ کرے انسان خود بھی گڑبڑ ہوسکتا ہے لیکن اگر خود گڑبڑ نہ ہو تو دوسرے لوگ بھی موقع کی تلاش میں ہوتے ہیں، بلکہ بعض دفعہ planning سے بھیج بھی دیتے ہیں۔ مسجدوں میں اس قسم کے لوگ ہوتے ہیں یعنی جو امام کے مخالف ہوں تو پھر ان کے لئے کچھ اس قسم کے حالات بناتے ہیں، پھر الزام بھی لگتے ہیں اور پھر اس ذریعے سے نکال بھی دیتے ہیں۔ کتنی دفعہ ایسا ہوا ہے، پھر ظاہر ہے جب کوئی اپنے آپ کو نہیں بچائے گا تو مسائل پیدا ہوں گے۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ