سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 622

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال نمبر 1:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! ہمیں بزنس میں Leadership Theories پڑھائی جاتی ہیں، میری یہ سوچ ہے کہ leaders قدرتی طور پر بنتے ہیں اور دوسری یہ کہ کوئی بھی انسان اپنے اندر کچھ مخصوص اوصاف پیدا کرکے leader بن سکتا ہے، ظاہر ہے کہ حضور ﷺ تو عام انسانوں اور leaders کی طرح نہیں تھے۔ میرا ایک سوال تو یہ ہے کہ کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ آپ ﷺ قدرتی طور پر اللہ کی طرف سے leader تھے اور رہیں گے؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ آپ کے خیال میں عام انسانوں کے لحاظ سے Leadership Theories میں سے صحیح کون سی ہے، کیا اسلام میں انسان کو تزکیہ وترقی روح کے ذریعے سے leader بنانے کی کوئی بات ہے؟ ایک project کے سلسلے میں ہمیں اس کا جواب چاہئے، جَزَاکَ اللہ۔

جواب:

سب سے پہلے تو یہ بات میں عرض کرتا ہوں کہ leader کا لفظ آپ ﷺ کے لئے بہت چھوٹا ہے۔ ایک دفعہ میں نے مدینہ منورہ سے حضرت کی خدمت میں یہ عرض کیا کہ مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے میں شیخ المشائخ کی صحبت میں ہوں۔ تو حضرت نے فوراً تصحیح فرمائی کہ آپ ﷺ خاتم النبیین ہیں، آپ ﷺ کے لئے شیخ المشائخ لفظ ٹھیک نہیں ہے۔ بات بالکل صحیح ہے کہ شیخ المشائخ تو عام لوگوں میں ہوتے ہیں، خاتم النبیین والی بات تو الگ ہے۔ حضرت اکثر فرمایا کرتے تھے: ولی را ولی می شناسد، نبی را نبی می شناسد، خاتم النبیین را خدا می شناسد۔ کہ ولی ولی کو جانتا ہے اور نبی نبی کو جانتا ہے، خاتم النبیین کو صرف اللہ ہی جان سکتے ہیں۔ یہ بات ہم لوگ نہیں کرسکتے ہیں کہ آپ ﷺ پیدائشی leader تھے کیونکہ leader والی بات تو بہت چھوٹی ہے۔ آپ ﷺ خاتم النبیین ہیں اور خاتم النبیین کی صفات کا مقابلہ کوئی نہیں کرسکتا۔ دوسری بات یہ ہے کہ انسان کی قدرتی طور پر leader بننے کی theory بھی صحیح ہے اور انسان کے اندر لیڈرانہ صفات پیدا کی جاسکتی ہیں، یہ بھی صحیح ہے۔ اب ان دونوں باتوں میں کیسے تطبیق دی جاسکتی ہے؟ دونوں میں تطبیق ایسے ہوسکتی ہے کہ جو leaders ہوتے ہیں ان میں پیدائشی طور پر وہ صفات rough صورت میں موجود ہوتی ہیں۔ مثلاً کوہِ نور کا ہیرا تو اور شکل میں ہوتا ہے، جس وقت جوہری کے ہاتھ میں آیا تو وہ اس کی تراش خراش اس طرح کرتا ہے کہ اس کی اپنی صفات ضائع نہ ہوں بلکہ زیادہ نکھر جائیں۔ جوہری اس کی صفات کو خراب بھی کرسکتا ہے یعنی کہ وہ اس طرح کاٹے کہ اس کی اصل صفات ضائع ہوجائیں، یہ تو اناڑی والی بات ہوجائے گی۔ لیکن جو صحیح جوہری ہوتا ہے وہ اس کی تراش خراش اس طرح کرتا ہے کہ اس کی اصل صفات نہ صرف maintain رہتی ہیں بلکہ اور اجاگر ہوجاتی ہیں اور جس مقصد کے لئے وہ ہوتا ہے وہ پورا ہوجاتا ہے۔ دوسری مثال یہ ہے کہ ایک ایسا شاعر جس میں شاعری کی صفات پائی جاتی ہوں، وہ پیدائشی ہوتے ہیں۔ لیکن ان میں جو شاعر پیدا ہوتے ہیں ان کی صفات کو اجاگر کرنے کے لئے بھی استاد کی ضرورت ہوتی ہے، چنانچہ جو بڑے بڑے شعراء تھے ان کے استاد بھی ہوتے تھے اور بعد میں مَاشَاءَ اللہ وہ بہت آگے تک جاتے تھے۔ لہٰذا اس کا مطلب یہ ہوا کہ کچھ حصہ آرٹ کا ہوتا ہے اور کچھ حصہ سائنس، یعنی آرٹ پیدائشی ہوتی ہے اور سائنس باقاعدہ اصول وقواعد کے ذریعے سے produce کی جاسکتی ہے۔ چنانچہ ان دونوں کو ہم اس طرح جمع کرسکتے ہیں کہ جو پیدائشی leaders ہیں یعنی جن کی scientific طریقے سے تربیت کی جاسکتی ہے، جس کی وجہ سے مَاشَاءَ اللہ وہ بڑے اچھے leader بن جاتے ہیں یعنی جب وہ لوگوں کے تجربات سے فائدہ حاصل کرنا شروع کرتے ہیں تو ان کی لیڈرانہ صلاحیتیں بڑی نکھر جاتی ہیں اور وہ بڑے اچھے leaders ثابت ہوتے ہیں۔ جیسے علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ، مَاشَاءَ اللہ ان کے اندر بہت صلاحیت تھی اور ان کو استاد بھی بڑے اچھے ملے تھے، وہ خود کہتے تھے کہ پیر رومی اور مرید ہندی۔ گویا مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ کو اپنا استاد کہتے تھے اور مولانا انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ سے استفادہ کیا، تو ظاہر ہے پھر اقبال، اقبال بن گئے۔ اسی طریقے سے جو لوگ پیدائشی طور پر leader ہوتے ہیں ان کو اگر صحیح استاد مل جائیں تو وہ بہت بڑے leader بن جاتے ہیں لیکن عام لوگ جو leader نہیں ہوتے، ان کو بھی scientific طریقے سے کسی نہ کسی حد تک اتنا کردیتے ہیں کہ اپنا کوئی نظام چلا سکیں یعنی وہ پیدائشی لیڈروں کی طرح اتنے بڑے leader نہیں ہوتے۔ اسی وجہ سے ہمارے Business Economics کے جو institutes ہیں ان کے اندر جتنی leadership کی ضرورت ہوتی ہے، وہ courses کے ذریعے سے، practical کے ذریعے سے، seminars کے ذریعے سے، conferences کے ذریعے سے اتنا produce کرلیتے ہیں کہ وہ اپنا اپنا کام کرسکتے ہیں، لیکن جو پیدائشی leader ہوتے ہیں وہ chrisma ہر ایک میں نہیں ہوتا، جس میں ہوتا ہے اس کو نکھارا جاسکتا ہے۔

سوال نمبر 2:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

I tried finding the clip where حضرت جی tells how to avoid عذاب of Allah سبحانہٗ وتعالیٰ by sending درود شریف on the Prophet ﷺ. Could you forward it to me if you have it please. I want to put it on my status. Did حضرت also say to do this thinking he is among us as he referred to the آیت when he mentioned. He said that اللہ کے عذاب کا کوڑا is started on the ummat. سوال from Mufti فلاں.

جواب:

اصل میں بات کو ذرا سمجھنے کی کوشش کریں۔ آپ ﷺ دنیا سے تو یقیناً تشریف لے گئے ہیں، اس طرح ہمارے سامنے نہیں ہیں، لیکن آپ ﷺ کا فیض موجود ہے، آپ ﷺ کی سنتیں موجود ہیں، آپ ﷺ کے ساتھ محبت کا معاملہ اللہ تعالیٰ کو محبوب ہے، وہ موجود ہے۔ اس لئے اگر کوئی شخص درود شریف پڑھتا ہے تو آپ ﷺ کے پاس پہنچتا ہے، باقاعدہ حدیث شریف میں موجود ہے اور پھر وہاں سے جواب بھی آتا ہے۔ جو خود وہاں جا کر درود شریف پڑھتے ہیں تو ان کو ادھر ہی جواب مل رہا ہے، اگرچہ وہ اپنے کانوں سے اس جواب کو نہیں سنتے، لیکن جواب آپ ﷺ دیتے ہیں۔ لہٰذا فیض تو آپ ﷺ کی طرف سے مسلسل آرہا ہے، یہ discontinuous نہیں ہے، موجود ہے۔ بلکہ ہمارے مشائخ جو اہلِ کشف ہیں، جو لوگ ان چیزوں کو جانتے ہیں، جن کی آنکھیں کھلی ہیں، وہ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ آپ ﷺ کے روضۂ اقدس سے باقاعدہ ہر مومن کے دل کے ساتھ ایک تار لگی ہوئی ہے یعنی اس تار کے ذریعے سے ایمانی فیض آرہا ہوتا ہے اور خدانخواستہ کسی حادثے کی وجہ سے اگر وہ تار کٹ جائے تو وہ شخص پھر مومن نہیں رہتا۔ ہاں! آپ ﷺ ہمارے درمیان میں اس وقت موجود نہیں ہیں لیکن آپ ﷺ کا فیض موجود ہے۔ لہٰذا آپ ﷺ کے فیض کے ذریعے سے ہم اللہ پاک کا تعلق حاصل کرسکتے ہیں۔ جیسے کہ فرمایا گیا:

﴿قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ﴾ (آل عمران: 31)

ترجمہ1: ’’(اے پیغمبر! لوگوں سے) کہہ دو کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا‘‘۔

یہ بھی موجود ہے:

﴿لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ﴾ (الأحزاب: 21)

ترجمہ: ’’حقیقت یہ ہے کہ تمہارے لیے رسول اللہ کی ذات میں ایک بہترین نمونہ ہے‘‘۔

یہ بھی موجود ہے

﴿اِنَّ اللّٰهَ وَمَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا﴾ (الأحزاب: 56)

ترجمہ: ’’بیشک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو ! تم بھی ان پر درود بھیجو، اور خوب سلام بھیجا کرو‘‘۔

یہ بھی موجود ہے۔ قرآن اور حدیث میں یہ ساری چیزیں ہمارے پاس موجود ہیں، لہٰذا ہم لوگ اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ میں نے جو بات عرض کی تھی وہ اس آیت کے بارے میں ہے:

﴿وَمَا كَانَ اللّٰهُ لِیُعَذِّبَهُمْ وَاَنْتَ فِیْهِمْ ؕ وَمَا كَانَ اللّٰهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ﴾ (الأنفال: 33)

ترجمہ: ’’اور (اے پیغمبر) اللہ ایسا نہیں ہے کہ ان کو اس حالت میں عذاب دے جب تم ان کے درمیان موجود ہو، اور اللہ اس حالت میں بھی ان کو عذاب دینے والا نہیں ہے جب وہ استغفار کرتے ہوں۔‘‘

چنانچہ استغفار اور آپ ﷺ کی قوم میں موجودگی ان کو عذاب سے بچا رہی ہے۔ اب آپ ﷺ تو ہم میں اس طرح موجود نہیں ہیں لیکن آپ ﷺ کا فیض موجود ہے، آپ ﷺ کے درودِ پاک کی نسبت موجود ہے، آپ ﷺ کی سنتیں موجود ہیں۔ لہٰذا جو آپ ﷺ کی سنتوں پر چلے گا، جو آپ ﷺ پر کثرت سے درود شریف بھیجے گا، سُبْحَانَ اللہ! اللہ تعالیٰ کی طرف سے رحمتیں آئیں گی۔ ظاہر ہے کسی چیز کی جب مقابل چیز آجاتی ہے تو پہلے والی چیز ختم ہوجاتی ہے۔ لہٰذا عذاب اور لعنت کے مقابلے میں رحمت ہے، جب رحمت آگئی تو یہ چیزیں ختم ہوجائیں گی۔ اس وجہ سے میں نے کہا کہ اس وقت درود شریف اور استغفار کی کثرت کرنی چاہئیے، اور سنتوں کی اتباع پہ زور دینا چاہئے، اس طریقے سے عذاب دور ہوسکتے ہیں۔ بہرحال اگر آپ اس کو status پہ لگانا چاہیں تو بے شک لگائیں، اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

سوال نمبر 3:

حضرت جی السلام علیکم! کراچی سے ڈاکٹر فلاں مخاطب ہوں۔ آپ کی ہدایت کے مطابق اپنے روز کے معمولات اور self-perceived عیوب کے متعلق آپ کو آگاہ کرنے کی سعادت حاصل کررہا ہوں، روزانہ کے معمولات تہجد کے وقت شروع کرتا ہوں، تہجد کی دو رکعتوں میں سورۂ ملک پڑھتا ہوں۔ تہجد اور وتروں کے بعد کچھ وقت دعاؤں میں گزارتا ہوں، اس کے بعد فجر تک علاجی تسبیحات مکمل کرتا ہوں۔ نمازِ فجر کے بعد قرآن کے دو رکوع مع اردو تشریح کے تلاوت کرتا ہوں، کچھ اذکار جن کے بارے میں آپ سے اجازت لے چکا ہوں اشراق تک وہ مکمل کرتا ہوں اور اس کے بعد اشراق کی نماز ادا کرکے صبح کو بچوں کو سکول اور ہسپتال کے لئے جب روانہ ہوتا ہوں تو انگریزی میں اصلاحی بیانات اور اس کے بعد قرآن کی آڈیو تشریح سنتے ہوئے جاتا ہوں۔ ظہر کی جماعت کے بعد قرآن کے ایک رکوع کی تلاوت مع تشریح کرتا ہوں، عصر کی جماعت میں مختلف وجوہات کی وجہ سے کچھ کمزوری ہے، مغرب کی جماعت کے بعد اوابین پڑھتا ہوں، اس میں سورۃ یٰس کی تلاوت کا معمول ہے۔ عشاء کی جماعت کے بعد گھر والوں کے ساتھ قرآن کے رکوع کی تلاوت اور انگریزی میں تشریح پڑھتے ہیں، رات کو سونے سے پہلے روزانہ کی تسبیحات مکمل کرتا ہوں، تمام نمازوں کی تسبیحات اور مخصوص اذکار کا بھی اہتمام ہے، نفلی روزے بھی میرے معمولات میں شامل ہیں۔ عیوب کے اعتبار سے تمام روحانی بیماریاں کچھ کم اور کچھ زیادہ، اپنے اندر پاتا ہوں، جو زیادہ پریشانی کا باعث ہیں ان میں عُجب، ریاکاری اور بدنظری زیادہ اہم ہیں۔ مجھے کچھ خاص صورتوں میں لوگوں پر غصہ آتا ہے اور میرے لہجے میں بھی اس کا اظہار ہوتا ہے، میرے خیال سے یہ میرے عجب کا ثبوت ہے۔ مجھے جہری ذکر کرتے ہوئے لوگوں کی پسند کا خیال آتا ہے، جو میری نظر میں ریاکاری کی مثال ہے۔ کچھ معاملات میں اختیاری بدنظری کرتا ہوں جو معصیت کی حد تک ہے، ایک اور معاصی جو میری زندگی کا حصہ ہے وہ Credit card کا استعمال ہے۔ حضرت جی آپ سے خاص دعاؤں اور رہنمائی کی درخواست ہے، اللہ جل شانہٗ آپ کو ہمارے تزکیہ کا ذریعہ بنائے اور اپنے مقربین میں شامل فرمائے۔

جواب:

مَاشَاءَ اللہ، اللہ جل شانہٗ آپ کو مزید فکر عطا فرمائیں اور یہ بہت اچھی فکر ہے جو مَاشَاءَ اللہ آپ نے بیان فرمائی ہے۔ کیونکہ میں نے عیوب کا پوچھا تھا تو آپ نے جو عیوب بیان کیے ہیں، اصل میں وہ میرا مطلب تھا۔ جو اس سوال کا پہلا حصہ ہے وہ تو مَاشَاءَ اللہ آپ کے معمولات ہیں۔ آپ خود ڈاکٹر ہیں تو ڈاکٹر کے پاس جب کوئی patient جاتا ہے تو وہ اپنی خوبیاں بیان نہیں کرتا بلکہ وہ تو صرف اپنے مسائل بیان کرتا ہے۔ مثلاً اس کی دونوں آنکھیں اچھی ہیں، دماغ بھی اچھا ہے، دل بھی اچھا ہے، صرف ایک ناخن میں درد ہے، تو وہ ڈاکٹر کو کیا بتائے گا؟ ڈاکٹر کو کچھ اور تو نہیں بتائے گا، صرف اپنے ناخن کا بتائے گا۔ اس لئے ہونا تو یہی چاہئے تھا کہ آپ مجھے صرف اپنے عیوب بتا دیتے، باقی احوال کا جب تک میں نے پوچھا نہ ہوتا کیونکہ پوچھنے پر تو بیان کرنا چاہئے۔ بہرحال آپ کو اس کا شاید خیال نہیں تھا، لہٰذا اس میں مجھے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اب میں صرف انہی عیوب پر بات کروں گا جو آپ نے مجھے بتائے ہیں، باقی آپ اپنے اندر اچھی طرح غور کرکے مجھے بتا دیجئے گا اور بھی بہت سارے ہوں گے، صرف یہ کہنا کہ بہت سارے عیوب ہیں، یہ جواب نہیں ہے۔ کیونکہ کوئی ڈاکٹر کے پاس جا کر یہ کہہ دے کہ مجھ میں بہت ساری بیماریاں ہیں، تو وہ solution نہیں ہے، اس سے ڈاکٹر کو کچھ پتا نہیں چلے گا۔ بہرحال مریض یہی کرسکتا ہے کہ وہ specific بتا دے کہ مجھے فلاں بیماری ہے، فلاں بیماری ہے۔ لہٰذا اس میں پھر آپ کو تھوڑا سا specifically غور کرنا پڑے گا کہ وہ کون سی بیماریاں ہیں۔ اب ان تمام عیوب میں سب سے پہلے جو حصہ مجھے نظر آتا ہے وہ Credit card ہے، کیونکہ اس کا تعلق رزق کے ساتھ ہے اور خدانخواستہ اگر کسی کا رزق مسئلہ ہو تو پھر اس کی نمازیں، اس کے حج اور تمام چیزیں risk پر ہیں، اس کا معاملہ گڑبڑ ہے۔ اس وجہ سے سب سے پہلے رزق کو clear کرنا بہت ضروری ہوتا ہے، چنانچہ آپ پہلے Credit card کا مسئلہ حل کرلیں۔ میں آپ کو واقعہ سناتا ہوں، ایک سول انجینئر جن کا اپنا فرم ہے اور بڑا ادارہ چلا رہے ہیں لیکن وہ کچھ مشکل حالات میں پھنس گئے اور ان کے سب کام رک گئے تھے اور کسی طریقے سے وہ ہمارے پاس پہنچ گئے اور آکر اپنا رونا رویا کہ میرے سارے کام رک گئے ہیں اور قرض پر گزرا ہورہا ہے وغیرہ وغیرہ، بہت زیادہ پریشان تھے۔ اس وقت مجھے Credit card کا شاید اتنا علم بھی نہیں تھا لیکن ان کے لئے میری زبان پر جاری ہوگیا، میں نے کہا آپ Credit card تو استعمال نہیں کرتے؟ انہوں نے کہا جی! اسی سے تو ہمارا سارا کام ہورہا ہے۔ میں نے کہا Credit card کو ختم کر دیں، کہتے ہیں شاہ صاحب! آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ ہمارا سارا کام Credit card کے ذریعے سے ہوتا ہے، میں اس کو کیسے ختم کروں؟ میں نے کہا It's not my problem یہ میں آپ کو نہیں بتا سکتا، یہ آپ کی اپنی field ہے، آپ کیسے اس سے چھٹکارا حاصل کرسکتے ہیں یہ آپ کا کام ہے، میں تو آپ کو صرف suggestion دے رہا ہوں، اگر آپ اپنے مسائل کو حل کرنا چاہتے ہیں تو Credit card کو چھوڑ دیں۔ اس پر وہ سوچ میں پڑ گئے، انہوں نے کہا اچھا ٹھیک ہے میں کوشش کرسکتا ہوں، اور چلے گئے۔ تقریباً تین مہینے کے بعد تشریف لائے اور کہتے ہیں کہ شاہ صاحب بہت مشکل تھا لیکن آخرکار کامیاب ہوگیا ہوں اور میں نے Credit card سے اپنا پیچھا چھڑا لیا ہے۔ میں نے کہا: اللہ کا شکر ہے، اِنْ شَاءَ اللہ اب اللہ کی مدد آپ کے ساتھ ہوگی۔ پھر تقریباً مہینے کے بعد انہوں نے مجھے اطلاع دی کہ میرے سارے قرضے مَاشَاءَ اللہ ادا ہوگئے ہیں، cheque release ہوگئے ہیں اَلْحَمْدُ للہ، مَاشَاءَ اللہ بہت اچھا ہوگیا ہوں۔ پھر اب حج کے لئے apply کیا اور مَاشَاءَ اللہ اُس سال حج پر گئے ہیں۔ اس کے بعد اتنے خوش تھے کہ وہ ہمارے پاس آکر کہتے ہیں کہ یہ خانقاہ جو آپ بنا رہے ہیں اب یہ میں design کروں گا۔ یہ خانقاہ جس میں اس وقت ہم بیٹھے ہیں، یہ انہوں نے design کی ہے اور وہ ہر اچھے موقع پہ موجود ہوتے تھے یعنی جو اہم کام ہوتا وہ اپنی نگرانی میں کروانا چاہتے تھے۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ یہ اتنی مختصر جگہ میں مثالی خانقاہ بنی ہوئی ہے، جس کو دیکھ کر لوگ حیران ہوتے ہیں کہ اتنی تھوڑی سی جگہ پر مَاشَاءَ اللہ یہ خانقاہ کیسے بنی ہوئی ہے۔ لہٰذا Credit card It's problem بس آپ فی الحال یہی کرلیں، باقی چیزیں بھی خطرناک ہیں لیکن ابتداء کہیں سے تو کرنی ہوگی، تو ابتداء آپ اسی سے کرلیں اور باقی چیزوں پہ نظر رکھیں۔ اللہ جل شانہٗ ہم سب کو خیر کے ساتھ، خیر کے امور کی طرف متوجہ فرمائیں۔

سوال نمبر 4:

السلام علیکم!

I am فلاں daughter. I am ten years old. I did بیعت with you forty one days ago when you were in مدینۃ المنورہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ. I completed the اذکار three تسبیحات استغفار and third کلمہ. I also do the ذکر after every نماز except فجر sometimes because I am in deep sleep and cannot wake up. What should I do next?

جواب:

اب اس طرح کریں کہ تیسرا کلمہ پورا، درود شریف، جو بھی مختصر درود شریف آپ کو یاد ہو، جیسے ’’صَلَّی اللہُ عَلَی النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ‘‘ یہ بھی ہوسکتا ہے یا ’’صَلَّی اللہُ عَلَی النَّبِیِّ مُحَمَّدٍ‘‘ بھی ہوسکتا ہے، یعنی کوئی بھی مختصر درود شریف سو دفعہ، سو دفعہ استغفار اور سو دفعہ تیسرا کلمہ اور ہر نماز کے بعد آپ کو جو ذکر میں نے بتایا تھا وہ بھی کریں گی اور پانچ منٹ کے لئے صرف آنکھیں بند کرکے زبان بند، قبلہ رخ بیٹھ کے آپ نے یہ تصور کرنا ہے کہ میرے دل میں زبان بن گئی ہے اور ادھر ’’اَللّٰہْ اَللّٰہْ‘‘ ہورہا ہے اور آپ سن رہی ہیں، بس یہ آپ نے کرنا ہے اِنْ شَاءَ اللہ ایک مہینے کے بعد مجھے بتانا ہے۔

سوال نمبر 5:

حضرت دامت برکاتہم السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! حضرت جی میں آپ کے حکم کے مطابق اپنا ذکر اور دیگر معمولات پابندی سے کررہا ہوں اور مقررہ مدت کے بعد اپنے احوال آپ کی خدمت میں پیش کروں گا۔ حضرت ایک روز پہلے ایک بڑا حادثہ پیش آیا کہ میں نے اپنی داڑھی جو کہ تقریباً پانچ ماہ سے رکھی ہوئی تھی اور اب کافی بڑی اور گھنی ہوگئی تھی، وہ کاٹ دی ہے، حضرت مجھے نہیں سمجھ آیا کہ یہ کیسے ہوا، لیکن دو تین دن سے میں اس کشمکش میں مبتلا ہوں کہ میں مَعَاذَ اللہ بغیر داڑھی کے زیادہ اچھا لگتا ہوں اور یہاں Canada میں لوگوں کی نظروں میں بھی نہیں آتا، کوئی notice بھی نہیں کرتا۔ یہ خیال دو تین دن سے اتنا شدید تھا کہ میں خود حیران تھا کہ ایسا کیوں ہوا، میں نے اپنی داڑھی کی تراش خراش کی نیت سے trimmer سے شروع کیا، لیکن کچھ سمجھ نہیں آیا کہ داڑھی خراب ہوگئی، حضرت اس کی وجہ سے میں سخت بے چینی، احساسِ جرم اور دکھ کی کیفیت میں ہوں، اس لئے آپ کو خط لکھنے پہ مجبور ہوا ہوں۔

جواب:

بھائی صاحب یہ تو شیطان کا حملہ تھا اور شیطان تو ہمارے ساتھ ہے، اس میں تو کوئی شک نہیں ہے کہ وہ تو ہمارے ساتھ پیدا ہوتا ہے، نفس بھی ہے شیطان بھی ہے اور وہ اس طرح ہی وار کرتا ہے۔ بس آپ صرف یہ سمجھ لیں کہ اللہ پاک نے آپ کو اختیار دیا ہوا ہے، ہر چیز کے کچھ merits اور demerits ہوتے ہیں اور جس کے merits ہوتے ہیں اس میں کچھ مشکلات بھی ہوسکتی ہیں جیسے اچھے کاموں میں ہوتی ہیں، مثلاً نماز ہر مسلمان پہ پانچ وقت فرض ہے لیکن اللہ پاک خود فرماتے ہیں:

﴿وَاسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوةِؕ وَاِنَّهَا لَكَبِیْرَةٌ اِلَّا عَلَى الْخٰشِعِیْنَ ۝ الَّذِیْنَ یَظُنُّوْنَ اَنَّهُمْ مُّلٰقُوْا رَبِّهِمْ وَاَنَّهُمْ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ﴾ (البقرۃ: 45-46)

ترجمہ: ’’اور صبر اور نماز سے مدد حاصل کرو، نماز بھاری ضرور معلوم ہوتی ہے مگر ان لوگوں کو نہیں جو خشوع (یعنی دھیان اور عاجزی) سے پڑھتے ہیں۔ جو اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ وہ اپنے پروردگار سے ملنے والے ہیں اور ان کو اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے‘‘۔

ان کو خٰشِعِیْنَ فرمایا گیا۔ لہٰذا ہمیں وہ چیز حاصل کرنی ہے جس سے بھاری چیزیں آسان ہوجاتی ہیں اور ہم کیا کرسکتے ہیں۔ آپ ذرا تھوڑا سا سوچیں کہ اگر آپ کو option مل جائے کہ آپ کو اختیار ہے، آپ دنیا کے سب سے خوبصورت آدمی کی طرح ہونا چاہیں تو ہوجائیں، تو آپ ہوجائیں گے۔ دنیا کا سب سے خوبصورت ترین آدمی کون ہے؟ آپ ﷺ سے زیادہ کوئی خوبصورت ہے؟ لہٰذا آپ کو ایک option ملا ہوا ہے۔ دوسرے لوگ کیا کہتے ہیں، اس سے ہمیں کوئی غرض نہیں ہے۔ لوگ تو اپنے اپنے ظرف کے مطابق بات کریں گے، لیکن اللہ اور اللہ کے رسول کیا کہیں گے، فرشتے کیا کہیں گے، نیک لوگ کیا کہیں گے۔ میں آپ کو اپنا بچپن کا واقعہ سناتا ہوں ہے اور میں حیران ہوں کہ کیسے ہوا! لیکن اَلْحَمْدُ لِلّٰہ ہوگیا، مجھے خود بھی پتا نہیں کیسے ہوا، اس وقت مراقبہ نام کی مجھے کوئی چیز یاد نہیں کہ مراقبہ بھی ہوتا ہے اور مراقبہ کے نام سے بھی شاید میں آگاہ نہیں تھا، لیکن میں نے ایک دن سوچا، اس وقت میری نئی نئی داڑھی آئی تھی یعنی just start ہوئی تھی، تو دل میں یہ خیال آیا کہ دنیا میں اچھے لوگ بھی ہیں اور برے لوگ بھی ہیں، یہ تو fact ہے۔ اب جو اچھے لوگ ہیں، ان کو اچھے لوگ پسند کریں گے اور جو برے لوگ ہیں، ان کو برے لوگ پسند کریں گے۔ یہ تو نہیں ہوسکتا کہ اچھے لوگوں کو برے لوگ پسند کریں یا برے لوگوں کو اچھے لوگ پسند کریں۔ چنانچہ جن کو آپ اچھا کہتے ہیں، اگر آپ ان کی طرح ہونا چاہتے ہیں تو پھر برے سے اچھا کہلوانا، یہ سوچنا ہی چھوڑ دیں کہ وہ مجھے اچھا سمجھیں گے۔ اس کے لئے ذہنی طور پہ تیار ہوجائیں کہ بھائی یہ ہمیں اچھا نہیں سمجھیں گے۔ لہٰذا یہ بات سوچنا ہی چھوڑ دیں کہ باقی لوگ جو اس چیز کو پسند نہیں کرتے، وہ مجھے اچھا کہیں گے۔ مجھے تو اسی طریقے سے اَلْحَمْدُ لِلّٰہ ایک determination پیدا ہوگئی اور اس کے بعد واقعتاً جو لوگوں نے آوازیں کسنا شروع کیں، کیونکہ ہمارے علاقوں میں اس قسم کی چیزیں تو چلتی تھیں، کہتے تھے او شیخا۔ لہٰذا ان کو تُرکی بترکی ہم جواب دیتے تھے، اَلْحَمْدُ لِلّٰہ اس وقت ہماری زبان چلتی تھی تو ان کی بات کو ان کے منہ پر مل دیتے تھے۔ آپ لوگوں کو پتا ہے کہ کالج میں تو ایسا چلتا ہے۔ لیکن بس وہ تھوڑا سا عرصہ تھا، غالباً سال سے بھی کم، پھر میری داڑھی پوری ہوگئی۔ اس کے بعد مَاشَاءَ اللہ جو گاؤں کے معزز لوگ تھے انہوں نے مجھے اپنے ساتھ بٹھانا شروع کر دیا، مشوروں میں شریک کرنا شروع کرلیا، گویا انہوں نے مجھے ایک عزت کا مقام دے دیا، باقی جو ہم عمر لوگ تھے یا چھوٹے تھے ان سب نے بھی عزت کرنا شروع کر دی۔ بہرحال وہ چیز جو پہلے ذرا اور قسم کی تھی اب وہ عزت میں بدل گئی۔

﴿وَلِلّٰهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُوْلِهٖ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ﴾ (المنافقون: 8)

ترجمہ: ’’حالانکہ عزت تو اللہ ہی کو حاصل ہے اور اس کے رسول کو، اور ایمان والوں کو‘‘۔

تو اصل عزت یہی ہے۔ باقی عزتیں تو جھوٹی ہوتی ہیں، اپنی غرض کی عزتیں ہوتی ہیں۔ آپ یقین کیجئیے کہ جو آدمی بڑی post پر ہوتا ہے، ان کی خوشامدیں اور پتا نہیں ان کو کیا کیا کہتے ہیں لیکن جیسے ہی وہ retire ہوتے ہیں، ان کو کتا بھی نہیں سمجھتے، بالکل چھوڑ دیتے ہیں، پروا ہی نہیں کرتے۔ جن سے Monitory benefits کا خیال ہوتا ہے تو بڑی عزت کرتے ہیں لیکن جیسے اپنا فائدہ نکل آتا ہے، پھر پروا ہی نہیں کرتے کہ یہ بھی کوئی چیز ہے۔ لہٰذا ایسے لوگوں کی ہم کیا پروا کریں گے، اس کے لئے ایک جملہ اگرچہ برا لگتا ہے لیکن علاج کے طور پر کہہ دیں کیونکہ بعض دفعہ مرچیں بھی علاج کرتی ہیں کہ ’’بھاڑ میں جائیں‘‘ یعنی پروا نہ کریں، جو بھی کہیں بس کہنے دیں، مجھے ان سے کیا غرض، مجھے ان سے کیا لینا۔ جو لوگ مجھے اس وجہ سے اچھا نہیں سمجھتے تو اس کی مجھے کوئی پروا نہیں، یہی چیز ہمیں stable کرسکتی ہے۔ اور یہ خدا کی شان ہے کہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ میں جب جرمنی گیا تو مجھے اللہ کی طرف سے ایک نو مسلم بھائی کے ذریعے سے ایک message ملا اَلْحَمْدُ لِلّٰہ۔ انگریزی میں translated ایک حدیث شریف ہے جو بعد میں مجھے غالباً کتاب التوحید میں بھی مل گئی تھی۔ ’’حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے نصیحت کی درخواست کی، تو عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ آپ ﷺ نے فرمایا: جو کوئی شخص اللہ کو راضی کرنے کے لئے مخلوق کی ناراضگی کی پروا نہ کرے، اللہ ان کے لئے کافی ہوجاتا ہے اور جو لوگ مخلوق کی ناراضگی سے بچنے کے لئے اللہ کی ناراضگی کی پروا نہ کریں تو اللہ اسی مخلوق کو اس پہ مسلط کر دیتے ہیں اور اس کے فقر کو دور نہیں فرماتے‘‘۔ (ترمذی: 2414)

میں نے کہا اِنْ شَاءَ اللہ میں جرمنی میں جب تک رہوں گا، میں نے جرمنوں کی پروا نہیں کرنی، میں اپنے اسلامی status کے مطابق رہوں گا۔ پھر میں اپنے انہی کپڑوں میں رہا ہوں اور اللہ نے اتنی عزت دی کہ VIP treatment مجھے ملا ہے اَلْحَمْدُ لِلّٰہ، اپنے دفتر میں بھی اور اپنے محلے میں بھی، بازاروں میں بھی اللہ پاک نے عزت دی، دینے والی تو اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ لہٰذا اَلْحَمْدُ لِلّٰہ مجھے کوئی مسئلہ نہیں ہوا بلکہ بہت فائدہ ہوا۔ میرے خیال میں یہ بات کافی ہے آپ کی برکت سے یہ بات کافی لوگوں تک پہنچی ہوگی اِنْ شَاءَ اللہ بہت سارے لوگوں کا فائدہ ہوگیا ہوگا۔

سوال نمبر 6:

السلام علیکم شیخ!

I completed doing Allah’s with me. I don't know how He is with me but yes He is really with me. This فیض is coming to our Prophet , to my Sheikh and then to my whole body. I got some feelings last month which are given below.

My heart feels more peaceful and stronger

No need to think about What are Allah’s سبحانہٗ وتعالیٰ arrangement for me whether its good or bad for me. Thanks to Allah only because I don’t know if it's good for me or bad, only Allah knows better. I am just to be obedient.

Hazrat Ji. (This should also be corrected. I can’t associate the word bad for anything coming from Allah سبحانہٗ وتعالیٰ . So, I should say whichever thing is coming from Allah سبحانہٗ وتعالیٰ is good for me. It means there is حکمت in this) So Allah knows better and I am just to be obedient and patient.

Sometimes, I have some family issues, for example, my wife gets very angry due to very small matters that makes me become angry too even though I have more patience than before. This matter has always happened since last year. I don’t know why? Is it testing? Sheikh above are my main feelings after doing the مراقبہ. Kindly guide me what I should do next? جَزَاکَ اللہ

جواب:

I think you should correct those things which I have told you. So do this again with this concept. اِنْ شَاءَ اللہُ الْعَزِیْز it will give you more.

سوال نمبر 7:

السلام علیکم شیخ!

Completed doing Allah is with me. I don’t know how He is with me but He is really really with me. Allah سبحانہٗ وتعالیٰ فیض of this معیت is coming to our Prophet from رسول اللہ ﷺ to my Sheikh and from my Sheikh to my whole body. I got some feelings which are given below:

I have no concentration during the month of رمضان so I feel self-acquisition and self-abasement and self-resentment. Sheikh kindly guide me what should I do next? جَزَاکَ اللہ


جواب:

You shouldn’t feel anything like this. Ok. It is good and you can continue. ان شاء اللہ you will get more benefits.

سوال نمبر 8:

السلام علیکم شیخ

I completed thinking about all four فیض from Allah سبحانہٗ وتعالیٰ to our Prophet ﷺ and from رسول اللہ ﷺ to my Sheikh and from my Sheikh to my fifth point. I didn’t complete meditation perfectly but during this period I feel that I am calm down and peaceful than before and I am able to better control my temper. Kindly guide me what I should do next? جَزَاکَ اللہ

جواب:

Ok. All the five points are completed. Now you should aslo do the مراقبہ of معیت which your mother is doing. Ask her اِنْ شَاءَ اللہ she will tell you.

سوال نمبر 9:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! میرا پانچواں مراقبہ: صبح کے وقت دس منٹ یہ سوچا کہ آج میں کیا نیک کام اور لوگوں کی کیا جائز خدمت کروں۔ رات کو پانچ منٹ مراقبہ کرنے کی اور نیک کام اور جو لوگوں کی جائز خدمت کی اس پر اللہ کا شکر اور جو رہ گیا اس پر استغفار، تو آپ نے فرمایا کہ اس پر کتنا کامیاب ہوتے ہو، اس کی report کروں۔ صبح مراقبہ کرتا ہوں کہ آج کہ اپنے دن کے فرائض و معمولات اور مجاہدات پر پورا عمل کروں گا، کامیابی ہوتی ہے اَلْحَمْدُ لِلّٰہ۔ لوگوں کے ساتھ اس طرح پیش آؤں گا جیسے اپنے لئے توقع رکھتا ہوں کہ لوگوں کا میرے ساتھ معاملہ ہو، 95٪ کامیابی اَلْحَمْدُ لِلّٰہ۔ لوگوں کے ساتھ حسن سلوک اور ان کی تکالیف میں مدد، رشتہ داروں کے ساتھ اچھا برتاؤ، ماتحتوں کے ساتھ نرمی اور اپنے سینئرز کے ساتھ سچ اور کام کا پورا کرنا، 90 فیصد کامیابی ہے اَلْحَمْدُ لِلّٰہ۔ کبھی کبھی لوگوں کی کسی بڑی غلطی پر بے حد زیادہ غصہ کرنا، مہینے میں دو مرتبہ لوگوں کو اپنے عمل سے دین کی طرف رغبت دلانا، سچ بولنا اور ہر بات میں اللہ کو یاد کرنا، 80 فیصد کامیابی۔ رات کو مراقبہ کرنا اور تمام توفیقات پر اللہ تعالیٰ کا شکر، جو نہیں ہوسکا اس پر استغفار اور لوگوں پر زیادہ سختی، غصہ اور منہ سے نامناسب الفاظ ادا کرنا، مہینے میں دو سے تین بار control نہیں ہوسکا اور یہ غلطیاں ہوجاتی ہیں، استغفار کرتا ہوں۔ سینئر کے ساتھ زیادہ تر مسئلہ خلافِ واقعہ بات بیان کرنا، مہینے میں ایک سے دو مرتبہ غلطی ہوجاتی ہے۔ لوگوں کو، خاص طور پر اپنے گھر والوں اور ماتحتوں پر دین پر عمل درآمد نہ کروانے پر اپنے آپ کو ملامت کرنا، ہر وہ کوشش جاری ہے کہ گھر والے نماز کے پابند ہوں اور باقی 20 فیصد لوگوں پر اثر پڑتا ہے۔

ذکر اور مراقبات کی تفصیل: ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ دو سو مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ چار سو مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ چھ سو مرتبہ، ’’اَللّٰہ‘‘ سو، ’’حَقْ اَللّٰہ‘‘ پانچ سو مرتبہ، ’’ھُوْ‘‘ پانچ سو مرتبہ، ’’اَللّٰہُ‘‘ دو سو، ’’حَقْ اَللّٰہ‘‘ کے ساتھ یہ تصور کیا کہ میں اللہ کا بندہ ہوں اور اللہ تعالیٰ سے راضی ہوں۔ مراقبہ: پہلا مراقبہ یہ تصور کیا کہ اللہ جل شانہٗ میرے ساتھ ہیں جیسا کہ اس کی شان ہے، مقدار پندرہ منٹ۔ دوسرا مراقبہ: میں اللہ کے بھیجے ہوئے طریقۂ شریعت پر چلنے کی کوشش کررہا ہوں، مقدار دس منٹ۔ تیسرا مراقبہ: اللہ تعالیٰ نبی کریم ﷺ کی امت کو تمام فتنوں سے بچائیں، ہمارے سلسلے کو قبول فرمائیں اور کامیاب وکامران کریں، دل میں دعا، مقدار پندرہ منٹ۔ چوتھا مراقبۂ شکر: کہ اللہ نے مجھ پہ جو فضل اور کرم کیا ہے، دنیا میں رہ کر ان کا شکر ادا کروں، مقدار پانچ منٹ۔ پانچواں مراقبہ: صبح کے وقت دس منٹ یہ سوچنا کہ آج میں کیا نیک کام اور لوگوں میں کیا جائز خدمت کرسکتا ہوں، رات کو پانچ منٹ مراقبہ کرنا کہ جو نیک کام اور لوگوں کی جائز خدمت کی اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر اور جو رہ گیا اس پر استغفار۔

جواب:

مَاشَاءَ اللہ فی الحال اس کو جاری رکھیں، بہت اچھا اللہ پاک مزید توفیقات سے نوازیں۔

سوال نمبر 10:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ یا مولانا!

I pray that you are well اِنْ شَاءَ اللہ. I am informing you about my current state. اَلْحَمْدُ لِلّٰہ I do loud ذکر everyday. I feel a lot of peace and enjoy my heart when I perform it. I feel the effects of the ذکر throughout the day. My prayers and my reading of the Holy Quran is in a kind of different state اَلْحَمْدُ لِلّٰہ. My faith grows when I think of that. May Allah bless you and preserve you Ya Maulana!

جواب:

May Allah سبحانہٗ وتعالیٰ grant you more توفیقات and as far as the ذکر I given you you should also explain to me what are you doing with that and how much time you are doing so

سوال نمبر 11:

السلام علیکم! حضرت جی میں فلاں ہوں۔ پچھلی بار آپ نے فرمایا تھا کہ مراقبۂ تنزیہ اور صفاتِ سلبیہ سے کیا اثر محسوس کیا؟ حضرت جی میرے اندر اپنے آپ کو کم تر سمجھنے کا جذبہ تھوڑا زیادہ ہوگیا ہے، مجھے نہیں پتا کہ احساس کمتری ہے یا میں اللہ پاک کی اور اس کی سب چیزوں سے خود کو ادنیٰ محسوس کرتی ہوں۔

جواب:

مراقبۂ سلبیہ کا جو اثر ہے وہ different چیز ہے۔ آپ اس پر غور کریں کہ مراقبۂ سلبیہ اور صفاتِ سلبیہ میں کیا ہے، مراقبۂ تنزیہ میں کیا ہے؟ اس پر غور کریں، پھر اس کے بعد اس کے effect کو دیکھیں۔

سوال نمبر 12:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! حضرتِ اقدس مزاج بخیر وعافیت ہوں گے۔ بندہ کو جو ذکر دیا تھا اس کا ایک مہینہ بلاناغہ پورا ہوگیا ہے، وہ یہ ہے کہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ دو سو مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ چار سو مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ چھ سو مرتبہ اور ’’اَللّٰہ‘‘ پانچ سو مرتبہ اور مراقبۂ شیوناتِ ذاتیہ، جس کا اثر محسوس ہوا کہ ہر وقت استحضار کی کیفیت ہوتی ہے۔

جواب:

مَاشَاءَ اللہ! اب مراقبۂ صفاتِ سلبیہ اور مراقبۂ تنزیہ آپ شروع فرما لیں، یعنی مخلوق کی وہ صفات جو اللہ تعالیٰ کے لئے ثابت نہیں ہیں، ان سے اللہ تعالیٰ پاک ہیں۔ اس میں غور کریں کہ اس کا فیض اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ ﷺ پر آرہا ہے اور آپ ﷺ کی طرف سے شیخ کی طرف آرہا ہے اور شیخ کی طرف سے آپ کے لطیفۂ چہارم یعنی خفی پر آرہا ہے۔

سوال نمبر 13:

السلام علیکم! حضرت ایک نفسیاتی طور پر بیمار انسان کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ کیسے تعلق رکھنا چاہئے؟ depression ایک بیماری ہے جس میں مریض Bipolar disorder کا شکار ہوتا ہے یعنی غیر معمولی تیزی۔ اس بیماری میں مریض کو کیا کرنا چاہئے؟

جواب:

سب سے پہلے تو اللہ جل شانہٗ کا شکر کرنا چاہئے کہ اس سے زیادہ بیمار نہیں ہوا، کم ازکم سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں ہیں۔ دوسری بات یہ کہ صبر کرنا چاہئے کیونکہ صبر سے اللہ پاک کی مدد آتی ہے اور تیسری بات یہ ہے کہ شریعت کی جو چیزیں سمجھ میں آرہی ہیں ان پر پکا عمل کرنا چاہئے اور باقی چیزوں کے سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔

سوال نمبر 14:

السلام علیکم! حضرت میں نے نہ کبھی سود لیا، نہ دیا اور نہ Credit card استعمال کیا، مگر قرض بہت ہے، واپس کرنے کی پوری نیت ہے اور توبہ بھی کررہا ہوں، اسباب بھی اختیار کررہا ہوں۔

جواب:

ٹھیک ہے مَاشَاءَ اللہ، بس جتنا انسان کرسکتا ہے اس کو کرنا چاہئے اور اس سے پھر سبق بھی لینا چاہئے کہ آئندہ قرض لینے میں احتیاط کرنی چاہئیے کیونکہ یہ واقعی ذلت کا جھنڈا ہے، اللہ تعالیٰ اس سے سب کو بچائے۔

سوال نمبر 15:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

نمبر 1:

لطیفۂ قلب دس منٹ، لطیفۂ روح دس منٹ، لطیفۂ سِر پندرہ منٹ، محسوس ہوتا ہے۔

جواب:

مَاشَاءَ اللہ اب ان کو پندرہ منٹ لطیفۂ خفی کا بتا دیجئے، باقی سب دس منٹ۔

نمبر 2:

لطیفۂ قلب دس منٹ۔

جواب:

یہ نہیں بتایا کہ محسوس ہوتا ہے یا نہیں۔

نمبر 3:

تمام لطائف پر دس منٹ ذکر اور مراقبۂ احدیت پندرہ منٹ، محسوس ہوتا۔

جواب:

ان کو لطیفۂ قلب دس منٹ اور لطیفۂ روح پندرہ منٹ کا بتا دیں۔

سوال نمبر 16:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

I pray you are well beloved Sheikh. This is فلاں from UK. اَلْحَمْدُ لِلّٰہ I finished my university exams a couple of days ago and I am now set to begin full time training from the end of July اِنْ شَاءَ اللہ. Until then اَلْحَمْدُ لِلّٰہ تعالیٰ has granted me opportunity to request if I could spend time in your blessed خدمت اِنْ شَاءَ اللہ. I plan to come to Pakistan next Monday with one of my younger brother and maybe of friend of mine and stay in Pakistan for just over three weeks. I would have liked to spend my whole summer at خدمت but with my parents I am intending to go to Hajj and because of امامت, teaching, studies, and duties this was the maximum period I could arrange. I was hoping to spend most of my time at the خانقاہ and a couple of days visiting my grandparents and some relatives. If my friend comes then we will come to the خانقاہ straightaway. That is Ok. But if he doesn’t come then I wanted to ask if it is better to visit my relatives first and then come to the خانقاہ and spend time in the خانقاہ or visit them towards the end of my journey or some other time. I humbly seek your advice in this regard. Also dear حضرت جی I wanted to ask how I can prepare and what points I should keep in mind to make most of my time in your best صحبت اِنْ شَاءَ اللہ? I can’t thank اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ enough for granting me your company نسبت and attention. May Allah تعالیٰ grant me sincerity and توفیق to complete اصلاح at your blessed hands and may He preserve you and allow me to do قدر of His many favors upon me جَزَاکَ اللہُ خیراً۔ والسلام علیکم. My mother also wanted to ask if she is allowed to sit on a chair to do مراقبہ as she has experienced difficulty due to her leg.

جواب:

اِنْ شَاءَ اللہ!

We will welcome you in خانقاہ and اِنْ شَاءَ اللہ we hope that you will find good chance to spend time here and with attention of اصلاح and Allah سبحانہٗ وتعالیٰ will help you in this.

﴿وَالَّذِیْنَ جَاهَدُوْا فِیْنَا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَاؕ﴾ (العنکبوت: 69)

ترجمہ: ’’اور جن لوگوں نے ہماری خاطر کوشش کی ہے، ہم انہیں ضرور بالضرور اپنے راستوں پر پہنچائیں گے‘‘۔

This aya is the proof of this and as far as your mother is concerned, she can do it on a chair. There is no problem because it is عذر.


سوال نمبر 17:

I am currently finishing the previous ذکر ya Maulana. Two hundred times each formula اِنْ شَاءَ اللہ. I will start the other one you gave me which time soon? اِنْ شَاءَ اللہ.

جواب:

Ok. So with this اِنْ شَاءَ اللہ its going to finish.

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ


  1. ۔ (آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب)

    نوٹ! تمام آیات کا ترجمہ آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم سے لیا گیا ہے۔