سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 620

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال نمبر 1:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ میں نے بچوں کے مراقبہ کی report دینی ہے۔ ان کے مراقبہ کو تقریباً دو ماہ ہوگئے ہیں۔ لیٹ report میری سستی کی وجہ سے ہوئی ہے۔

نمبر 1: مراقبۂ معیت ہے۔ پہلے پانچوں لطائف پر پانچ پانچ منٹ یہ تصور کرنا ہے کہ میرے لطیفہ کی طرف اللہ تعالیٰ محبت کے ساتھ دیکھ رہے ہیں اور میرا لطیفہ ’’اَللّٰہْ اَللّٰہْ‘‘ کررہا ہے، اس کے بعد پندرہ منٹ مراقبۂ معیت کرنا ہے، اس کے ساتھ پھر جب اللہ تعالیٰ کی معیت کا اجرا ہو تو مراقبہ کے دوران ہی اللہ تعالیٰ سے پاکستان اور امت مسلمہ کے لئے خصوصی دعا کرنی ہے۔ اَلْحَمْدُ للہ! پانچوں لطائف پر ذکر محسوس ہوتا ہے، اور اللہ تعالیٰ کی موجودگی کا احساس کافی حد تک ہورہا ہے۔ امت مسلمہ کے لئے، خاص کر پاکستان کے لئے دعائیں کی ہیں۔

جواب:

ان کو آیت الکرسی کا ترجمہ سمجھا دیں اور ان سے کہہ دیں کہ اس کو ذہن میں رکھ کر اس کے فیض کا تصور کریں کہ اس کا فیض اللہ تعالیٰ سے آپ ﷺ کے پاس آرہا ہے، اور آپ ﷺ سے شیخ کی طرف آرہا ہے اور شیخ کی طرف سے ان کے اوپر آرہا ہے یعنی ان کے پورے جسم پر آرہا ہے۔

نمبر 2: مراقبۂ تنزیہ اور صفات سلبیہ کا مراقبہ ہے۔ پہلے پانچوں لطائف پر پانچ پانچ منٹ یہ تصور کرنا ہے کہ میرے لطیفہ کی طرف اللہ تعالیٰ محبت کے ساتھ دیکھ رہا ہے اور میرا لطیفہ ’’اَللّٰہْ اَللّٰہْ‘‘ کررہا ہے، اس کے بعد پندرہ منٹ کا مراقبۂ تنزیہ اور صفات سلبیہ کا مراقبہ کرنا ہے۔ چار ناغے ہوئے ہیں۔ پانچوں لطائف پر ذکر محسوس ہوتا ہے، اللہ کے ساتھ قربت کا احساس بڑھ رہا ہے، دعا مانگتے وقت اور قبول ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ کی قربت کا احساس بڑھتا ہے۔

جواب:

ان کو بتا دیں کہ مراقبۂ شانِ جامع شروع کرلیں۔

نمبر 3: وظیفے کی ترتیب یہ ہے، درود پاک دو سو مرتبہ، تیسرا کلمہ دو سو مرتبہ، استغفار دو سو مرتبہ اور ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ دو سو مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ تین سو مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ تین سو مرتبہ اور ’’اَللّٰہ‘‘ سو مرتبہ ہے۔

جواب:

اب ان کو ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ اور ’’حَقْ‘‘ چار چار سو مرتبہ کرنے کا بتا دیں اور باقی وہی ہے۔

باقی تینوں کو اَلْحَمْدُ للہ! نماز پڑھنے اور قرآن پاک کی تلاوت پر استقامت ہے۔ شوال کے مہینے میں ہمارا اجتماعی درود پاک 81 ہزار اور رمضان کا اجتماعی درود دو لاکھ بانوے ہزار تھا۔ معمولات میں اَلْحَمْدُ للہ! بہتری تھی، آخری عشرہ تقریباً سب نے جاگ کر گزارا اور قرآن پاک، نوافل، درود پاک اور مراقبہ کرنے کا اہتمام کرتے رہے۔ اب آپ سے درخواست ہے کہ آگے رہنمائی فرمائیں۔

سوال نمبر 2:

السلام علیکم۔ حضرت! فلاں جگہ سے فلاں عرض کررہا ہوں۔ حضرت! میرا جہری ذکر ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ دو سو، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ چار سو، ’’حَقْ‘‘ چھے سو اور سات ہزار مرتبہ جہری طور پر ’’اَللّٰہْ اَللّٰہْ‘‘ کو دو ماہ ہونے والے ہیں۔ گزشتہ ماہ رمضان کے خیال سے آپ سے رابطہ نہیں کیا، لیکن اب اپنی غلطی کا احساس ہورہا ہے۔ حضرت! آپ سے مزید رہنمائی کی درخواست ہے۔

جواب:

اب ساڑھے سات ہزار مرتبہ جہری ذکر ’’اَللّٰہْ اَللّٰہْ‘‘ کریں اور باقی وہی رکھیں۔

سوال نمبر 3:

السلام علیکم۔ حضرت جی! میرا ذکر پورا ہوگیا ہے جو کہ دو سو، چار سو، چھے سو اور پانچ ہزار مرتبہ ہے اور پندرہ منٹ مراقبہ ہے۔ حضرت جی! مراقبہ میں دل پر ’’اَللّٰہْ اَللّٰہْ‘‘ محسوس ہورہا ہے۔ مزید رہنمائی کی درخواست ہے۔

جواب:

اب اس طرح کرلیں کہ اس کو دل پر دس منٹ اور لطیفۂ روح پر پندرہ منٹ شروع کرلیں۔

سوال نمبر 4:

حضرت دعا فرما دیں کہ اللہ پاک مجھے شریعت پر چلنے کی توفیق عطا فرمائیں اور استقامت بھی نصیب فرمائیں۔

جواب:

دل سے دعا ہے کہ اللہ جل شانہٗ آپ کو شریعت پر جلد از جلد چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور اس پر استقامت نصیب فرمائے۔

سوال نمبر 5:

میں ابھی دو سو، تین سو، تین سو اور سو والا ذکر کررہا ہوں جو کہ آپ نے رمضان میں دیا تھا۔

جواب:

ماشاء اللہ! ابھی آپ اس طرح کرلیں کہ دو سو، چار سو، چار سو اور سو والا ذکر کرلیں۔

سوال نمبر 6:

حضرت سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتہم۔ حضرت جی! مندرجہ ذیل اذکار 35 دن تک بلاناغہ مکمل کر چکا ہوں:

’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ دو سو مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ چار سو مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ چھے سو مرتبہ اور ’’اَللّٰہ‘‘ سو مرتبہ ہے۔ مزید نماز کے بعد کی تسبیحات اور دس مرتبہ درود شریف، دس مرتبہ تیسرا کلمہ، سو مرتبہ استغفار بھی جاری ہے۔ حضرت! آپ نے ایک نماز کے قضا ہونے پر بطور جرمانہ تین روزوں کا کہا تھا جو آج ہی مکمل کیے ہیں، لیکن حضرت! پچھلے عرصے میں مزید فجر کی نمازیں قضا ہوئی ہیں، ان کا دل پر بوجھ اور شرمندگی ہے۔ حضرت! دل میں یہ خیال اکثر آتا ہے کہ میں صحیح راستہ پر چل پڑا ہوں، لہٰذا اس کا اختتام آخر نیکی ہوگا، لیکن مجھے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ یہ کبر کی وجہ سے میں سوچتا ہوں یا کسی اور وجہ سے۔ حضرت! ہماری مسجد میں ایک عالم دین آئے ہیں جو کہ تنزانیہ سے ہیں اور درس نظامی لاہور سے مکمل کیا ہے۔ ان سے میں نے قرآن پاک پڑھنا شروع کیا ہے، ان شاء اللہ! کچھ ہفتوں کے بعد حفظ شروع کرنے کا ارادہ ہے۔ حضرت! آگے رہنمائی فرمائیں۔

جواب:

ماشاء اللہ! یہ تو بہت اچھی بات ہے کہ آپ نے ان سے قرآن پاک پڑھنا شروع کیا ہے۔ اللہ پاک اس کو بہتر طریقے سے تکمیل کروا دے۔ باقی ابھی آپ اس طرح ذکر کرلیں کہ ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ تین سو دفعہ اور باقی سب اسی طرح کریں۔

سوال نمبر 7:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔

Respected and honorable مرشد صاحب I pray you and your loved ones are well. Ameen! حضرت اقدس I wish to first share my ذکر update with you.

ذکر update: اَلْحَمْدُ للہ I have completed the ذکر beyond thirty days without miss which is two hundred times ‘‘لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ’’ four hundred times ‘‘لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ’’ five hundred times اللہ and six hundred times ‘‘حَقْ’’ five hundred times ‘‘اَللّٰہ’’ ten minutes ذکر on heart. Regarding the جہری ذکر, I think I am able to focus most of the time اَلْحَمْدُ للہ but in the recent few days I felt getting more sleepy while doing the ذکر even though I was not feeling sleepy outside of the ذکر. Regarding مراقبہ in terms of having feeling of ‘‘اَللّٰہ اَللّٰہ’’ sometimes, I am able to feel that ‘‘اَللّٰہ اَللّٰہ’’ is emanating from the heart for just few moments by itself but most of the time I feel nothing emanating from the heart. Mind also deviates many time into stray thoughts. One night, I happened to fall asleep while doing ذکر and I think later when I woke up I focused on my heart and I could feel something in my heart related to ‘‘اَللّٰہ اَللّٰہ’’ more than normal. I also on your instructions have been attempting to listen to my heart saying ‘‘اَللّٰہ اَللّٰہ’’ throughout the day at random times. I mostly try to do this when falling asleep.

Brief Practical Life Update: اَلْحَمْدُ للہ with your barka this رمضان was ان شاء اللہ my best رمضان yet of my life compare to previous Ramzans. Firstly, I abstained from sins more and get much more worship and give much more charity than usual and felt more closer to Allah سبحانہ و تعالیٰ spiritually and cared about good habits like reading more Quran daily.

Secondly, I feel Allah’s رحمت more and feel more comfortable making توبہ quickly.

Thirdly, I am studying your فہم التصوف lectures and they are all increasing the desire of اصلاح and clarifying a lot of points like how a murid should be etc.

Fourthly, I pretty entertain reading fifteen minutes of معارف القرآن and سیرت books daily each and forty five to fifty minutes Quran. اَلْحَمْدُ للہ I have almost finished a seven hundred pages سیرۃ النبی book. This way, this was my first time reading the Prophet ﷺ biography and I am with consistency fulfilling my قضاء عمری prayers.

Negative: Firstly, I fell prey to recurring sins in my life after Eid and I have been falling prey to these sins for around 10-15 years. I am not completely disappointed as through your barka (blessing) this disease feels to have been reduced. Sometimes, I was falling prey to more sins some years ago perhaps on average. But now after months and weeks on average these are perhaps less. So nevertheless I understand the cycle.

Secondly, I have plenty of free time physically and mentally in the day for ذکر but yet I fail to compel myself physically and mentally many times on ذکر. When my tongue moves for ذکر my mind is indulged in useless and needless غفلت most of the time.

جواب:

ماشاء اللہ! آپ کا curve positive کی طرف جارہا ہے۔ اور یہ ایسے ہی ہوتا ہے، کیونکہ انسان جس وقت دل پر محنت کرتا ہے تو اس کے اندر جو گندگی موجود ہوتی ہے، وہ feel ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ اور یہ feel ہونا بھی ایک نعمت ہے، کیونکہ اس کے ذریعے سے انسان کو اپنی اصلاح کا موقع ملتا ہے، خود احتسابی اسی سے نکلتی ہے، کیونکہ نفس تو یہ کام نہیں کرتا، نفس تو بس زیادہ سے زیادہ یہ کرسکتا ہے کہ وہ بغاوت نہ کرے، باقی یہ feeling دل کی طرف سے آتی ہے۔ لہٰذا ماشاء اللہ! آپ کا دل بیدار ہورہا ہے اور اَلْحَمْدُ للہ! اس کے ذریعے سے آپ کو مزید برکات حاصل ہوں گی۔ ہمارا ایک مقالہ ہے جو اس موضوع پر ہے کہ رمضان کی روحانیت کو باقی دنوں میں کیسے برقرار رکھا جائے؟ اس کی translation بھی ہوئی ہے، وہ ان شاء اللہ! آپ کو بھیج دیں گے، آپ اس کو بھی پڑھ لیں، بلکہ اس کو عام کرلیں، تاکہ جو رمضان شریف میں کما چکے ہیں، اس کو ہم ضائع نہ کریں۔ باقی ذکر اب آپ لطیفۂ روح کے اوپر بھی شروع کرلیں۔ لطیفۂ قلب پر دس منٹ اور لطیفۂ روح پر پندرہ منٹ کریں۔

سوال نمبر 8:

السلام علیکم۔ سیدی و مرشدی! 25 مارچ سے آج تک اَلْحَمْدُ للہ میرا ذکر اور تسبیحات کا روزانہ کا معمول ہے سوائے دو دن کے، ایک دن مدینہ منورہ سے رخصتی کے وقت اور ایک پیر کے دن ناغہ ہوا، کیونکہ ہماری عید جمعہ کو تھی، اس لئے جمعہ کو بھی نہیں کرسکا۔ جب routine میں خلا آتا ہے تو اس کا اثر ہوتا ہے۔ حضرت! سے دعاؤں کی درخواست ہے کہ مجھے اپنے آپ پر غصہ اور ناراضگی ہوتی، کیونکہ اپنی ناکامیوں، سستیوں پر کوشش کرتا ہوں، لیکن جب کوئی کام وقت پر پورا نہ کرسکوں تو اس سے ہمت ٹوٹ جاتی ہے۔ مثلاً رمضان کے بعد پکا ارادہ تھا کہ روزانہ ایک پارہ تلاوت سناؤں گا، تاکہ ہر مہینے قرآن مکمل ہو، لیکن پورا ہفتہ نہ پڑھ سکا، 9 شوال کو تلاوت شروع کی اور جب سے کام کی چند دن چھٹیاں آئیں ہیں تو دو دو سپارے سنانے کی کوشش کررہا ہوں، لیکن کل سے پھر ڈیوٹیاں شروع ہوجائیں گی، جس کی وجہ سے دو سپاروں پر target سے پیچھے رہنے یا فیل ہونے کے ڈر سے اثر پڑے گا۔ اس طرح عید کا جو معمول شروع کیا تھا، کوشش کے باوجود وقت پر پورا نہ ہوا، تو اس میں بھی اپنی ناکامی پر سخت ناراض ہوں اور صحت پر بھی اثر ہورہا ہے۔ ان سب چیزوں میں تاخیر کا سبب یہ ہے کہ کسی نئے کام کا پیش آجانا۔ میری تسبیحات یہ ہیں کہ دو سو ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘، چار سو ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘، چھ سو ’’حَقْ‘‘ اور پانچ سو ’’اَللّٰہ‘‘۔ والسلام۔

جواب:

اب آپ قلبی ذکر کو پانچ منٹ کے لئے شروع کرلیں یعنی دل پر آپ تصور کرلیں کہ آپ کا دل ’’اَللّٰہْ اَللّٰہْ‘‘ محبت کے ساتھ کررہا ہے اور اللہ پاک محبت کے ساتھ آپ کے دل کو دیکھ رہے ہیں۔ اور یہ دو سو، چار سو، چھ سو اور پانچ سو والا ذکر کرنے کے بعد آپ کیا کریں۔ اور جو تلاوت ہے تو وہ آپ average میں آسانی کے ساتھ جتنا کرسکتے ہیں، وہ آپ کرلیں، اور پچھلے کو آپ فی الحال واپس نہ لائیں، کیونکہ عید کے دنوں میں مصروفیت تو ہوتی، لیکن اب آپ شروع کرلیں اور اگر ایک پارہ کرسکتے ہیں تو بہت اچھی بات ہے، ورنہ پھر کم از کم آدھا پارہ تو کر ہی لیا کریں۔ جیسے کہتے ہیں کہ Something is better than nothing اور tension بھی نہیں ہونی چاہئے۔ لہٰذا balance طریقے سے کام جاری رکھیں۔

سوال نمبر 9:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت جی! مجھے آپ کی مبارک مجلس میں آتے ہوئے تیسرا سال ہے۔ علمی طور پر تصوف سے متعلق کافی تسلی بخش جواب ملے ہیں اور کافی تشفی ہوئی ہے۔ میں نے آپ کی تعلیم کے مطابق علاجی ذکر بھی کافی کیا ہے، لیکن سلوک طے نہیں ہوسکا، شاید میرا علاج ناممکن ہے۔ مجھے اپنی حالت پر کافی تشویش ہے۔

جواب:

سبحان اللہ! حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کو کسی نے کہا کہ حضرت! مجھے اپنے اوپر خطرہ ہے۔ حضرت نے فرمایا کہ یہی خطرہ معرفت کا ایک قطرہ ہے۔ لہٰذا آپ کو چونکہ احساس ہوگیا ہے اور احساس ہی کا انتظار تھا، اس لئے اب کام شروع کرتے ہیں۔ البتہ آپ بھی تھوڑا سا regular آنا شروع کرلیں تو ان شاء اللہ! کام شروع ہوجائے گا۔

سوال نمبر 10:

ایک دو تین پوائنٹ کے بعد احوال ہیں۔ تنہائی محسوس نہیں ہوتی، بلکہ محسوس ہوتا ہے کہ اللہ ساتھ ہے۔

(ب) تبلیغ کسی کو نہیں کرتا، بس اپنے آپ سے کام رکھنے کا خیال رہتا ہے۔

(پ) دنیا پر قناعت کے ساتھ آخرت پر بھی قناعت محسوس ہوتی ہے، زیادہ اعمال کرنے کی فکر نہیں ہوتی، اور نمازیں بھی اکثر گھر پر ہی ادا ہوجاتی ہیں کہ بچے چھوٹے ہیں، تنگ کرتے ہیں یعنی طرح طرح کے بہانے بنا لیتا ہوں۔

(ج) ہفتہ کا آغاز اور اختتام سوموار سے سوموار ہوگیا ہے کہ سوموار کو میں آپ حضرت جی کو احوال دوں گا اور آپ کا جواب ملنے سے بہت راحت مل جاتی ہے۔

(د) آفس کے کاموں میں خاطر خواہ اضافہ ہوگیا ہے یا اپنی محنت سے افسران کی نظروں میں آگیا ہوں۔ کبھی خیال آتا ہے کہ دنیا میں آگے بڑھوں یا بہتر پوسٹ حاصل کرنی چاہئے، لیکن پھر یہ خیال آتا کہ کسی سے سوال نہیں کرنا۔ اس لئے آپ سے اصلاح اور رہنمائی کی درخواست۔

جواب:

سبحان اللہ! یہ تو بڑی اچھی بات ہے کہ آپ کو job میں آسانی ہوگئی ہے اور اس پر محنت کرنا آپ کو آسان ہوگیا ہے۔ بس آپ جتنی محنت اپنی job کے لئے کریں، اتنی محنت آخرت کے لئے بھی کریں۔ میرے خیال میں فی الحال یہ timetable کافی ہے، اس پر ان شاء اللہ بہت سارے مسائل حل ہوجائیں گے۔

سوال نمبر 11:

السلام علیکم۔ آپ سے ایک عرض ہے کہ میں وہ اعمال جو آپ نے بتائے تھے جب بھی شروع کرتی ہوں تو کوئی نہ کوئی عمل رہ جاتا ہے، پھر میں دوبارہ سے دن گننا شروع کردیتی ہوں۔ تین یا چار ماہ ایسے ہی گزرے ہیں، کیونکہ میری طبیعت ٹھیک نہیں ہوتی۔ آگے مجھے کیا کرنا چاہئے کہ میں پورے چالیس دن کرسکوں؟

جواب:

دیکھو! پورے تو کرنے ہیں، لیکن اس کی آپ سے ایک پابندی ہٹا دیتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ آپ کے لئے یہ ضروری نہیں ہے کہ کسی ایک وقت میں کریں، بلکہ آپ دن کے کسی وقت میں بھی اس کو کرسکتی ہیں، لیکن چالیس دن تک بلاناغہ کرنا ضرور ہے۔

سوال نمبر 12:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ گزشتہ ماہ کے معمولات کا چارٹ پیش خدمت ہے۔ میرا ذکر دو سو، چار سو، چھ سو اور دو ہزار مرتبہ ہے۔ حضرت جی اکثر قوت فیصلہ وارادہ میں ضعف پاتا ہوں اور دوسروں کے زیر اثر ہوجاتا ہے، جس کی وجہ سے اپنے ارادے پر عمل کرنا یا بات کرنا ایک مجاہدہ لگتا ہے، جس سے کبھی نقصان بھی ہوجاتا ہے، اگرچہ دین کا مسئلہ ہو یا دنیا کا، لیکن ایک confusion سی ہے۔ برائے مہربانی رہنمائی فرما دیجئے۔

جواب:

آپ اسم ذات کے ذکر کو ڈھائی ہزار مرتبہ کرلیں۔ باقی قوتِ فیصلہ کا جو مسئلہ ہے اور دوسروں کے بارے میں اپنے آپ کو جو کمزور سمجھنا ہے، وہ اصل میں احساسِ کمتری کی ایک صورت ہے۔ لہٰذا جب اس قسم کی بات آجائے تو آپ ’’لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيْمِ‘‘ پڑھ کر اور ہمت کرکے جو جائز بات ہو وہ کرلیا کریں، اس میں پیچھے نہ ہوں۔ اور یہ بات سمجھ لو کہ کام تو اللہ ہی بناتا ہے اور فائدہ بھی اللہ ہی پہنچاتا ہے، نقصان سے بھی اللہ ہی بچاتا ہے، اس وجہ سے کسی طرح کی اس میں کمزوری نہ دکھائیں۔

سوال نمبر 13:

میرا قلبی ذکر پانچ منٹ کے لئے ہے، حضرت یہ کیسے کرنا ہے؟

جواب:

قلبی ذکر پانچ منٹ کے لئے اس طرح کیا کریں کہ آپ قبلہ رخ بیٹھ کر، زبان بھی بند کرکے، آنکھیں بھی بند کرکے یہ تصور کرلیں کہ میرا دل ’’اَللّٰہْ اَللّٰہْ‘‘ محبت کے ساتھ کررہا ہے اور اللہ پاک محبت کے ساتھ میرے دل کو دیکھ رہے ہیں۔

سوال نمبر 14:

میرے لئے دعا کیجئے کہ مجھے بھولنے کا مسئلہ ہے۔ جزاک اللہ۔

جواب:

بھولنے کے مسئلے کا علاج بھی ہوتا ہے اور ساتھ ساتھ اس کی ایک ترتیب بھی بنتی ہے، جیسے لوگ ڈائریاں رکھتے ہیں، یہ اس لئے رکھتے ہیں کہ وہ چیزیں اگر فوراً نوٹ کرلیں تو دماغ پر بوجھ نہیں رہے گا اور وقت پر آپ اس کو دیکھ کر یاد کرسکتے ہیں۔

سوال نمبر 15:

السلام علیکم۔ حضرت! شرعی پردہ کے بارے میں پوچھنا تھا کہ جب ہم شادی پر جاتے ہیں، تو Marriage hall میں مرد ویٹرز ہوتے ہیں، تو کیا ہم تیار ہوکر یعنی ڈھیلے لیکن fancy کپڑے پہن سکتے ہیں؟ اور وہاں نقاب کرکے بیٹھ سکتے ہیں؟ میری اپنی شادی بھی ہوئی تھی اور ہال etc میں ہوئی تھی تو اس میں کیا دلہن اپنے دلہن لباس میں (جو رواج کے مطابق انتہائی fancy ہوتا ہے) باقاعدہ گھونگٹ کے ساتھ سٹیج پر جاسکتی ہے یا اس موقع پر کیا کرنا ٹھیک ہوتا ہے؟

جواب:

دیکھیں! غلط چیز غلط ہوتی ہے اور اس کو غلط کہنا لازم ہے، البتہ اگر مجبوری ہو تو وہ علیحدہ بات ہوتی ہے، اس پر انسان استغفار کرے یعنی اگر احتیاط نہیں کرسکے تو اس پر استغفار کرلے اور جتنا انسان کے بس میں ہو تو اس میں انسان ہمت کرکے اس کام کو کرے، مثلاً دولہن اتنی زیادہ pressure میں آجاتی ہے کہ وہ نماز وغیرہ بھی چھوڑ دیتی ہیں، حالانکہ ویسے نمازی ہوتی ہیں، لیکن اس موقع پر نماز چھوڑ دیتی ہیں۔ لہٰذا نماز چھوڑنے کی بالکل اجازت نہیں ہے۔ اسی طریقے سے بے پردہ ہونے کی اجازت بھی نہیں ہے، بلکہ پردہ کرنا چاہئے۔ یہ بے غیرتی آج کل بہت زیادہ ہے کہ جو کیمرے وغیرہ ہوتے ہیں یعنی جو cameramen ہوتے ہیں وہ بھی مرد ہوتے ہیں اور شاید اس کا شوہر بعد میں دیکھتا ہو، لیکن یہ cameramen پہلے دیکھ لیتے ہیں، اب اس کو ہم بے غیرتی ہی کہیں گے۔ اس بے غیرتی سے جتنا انسان بچ سکتا ہے، اتنا اپنے آپ کو بچانا چاہئے۔ باقی جو waiters وغیرہ ہیں تو ان کے ساتھ تو یہ بات ہوسکتی ہے کہ خواتین نقاب پہنے یعنی پورے پردے میں ہوں اور waiters کھانا وغیرہ اپنے لوگوں دیں اور پھر وہ آگے لے آئیں، اور اس طرح بھی ہوسکتا ہے کہ waiters کہیں پر رکھ دیں اور پھر وہاں سے عورتیں خود اٹھائیں، یہ طریقہ زیادہ مناسب ہے۔ لیکن بہرحال ایسے ہال بھی ہوتے ہیں جہاں عورتیں waiters ہوتی ہیں۔ لہٰذا ایسے ہالوں کو prefer کرنا چاہئے۔

سوال نمبر 16:

السلام علیکم۔ حضرت جی! میں فلاں اسلام آباد سے ہوں۔ میرا دو ہزار مرتبہ اللہ کا ذکر رمضان میں پورا ہوگیا تھا، بعد میں دو ناغے بھی ہوگئے ہیں۔

جواب:

اب اس کو اڑھائی ہزار مرتبہ کرلیں۔

سوال نمبر 17:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت جی! اللہ پاک سے آپ کی صحت وتندرستی کے لئے دعاگو ہوں۔ میرا مسئلہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی مسئلہ میں میری مخالفت کرے تو میرے دل میں اس کے لئے زبردست بغض پیدا ہونا شروع ہوجاتا ہے، اگرچہ اس کی بات صحیح ہی کیوں نہ ہو، لیکن میں اسے اپنا مخالف سمجھنا شروع کر لیتا ہوں اور دل میں اس کی وجہ سے مخالف جذبات بھڑکنا شروع ہوجاتے ہیں، اس پر قابو کرنے کی کوشش بھی کرتا ہوں، لیکن قابو نہیں پایا جاتا۔ برائے مہربانی اس میں رہنمائی فرمائیں۔ اللہ پاک آپ کو بہترین اجر عطا فرمائے۔

جواب:

دراصل جو غلط جذبات ہیں، ان کو عقل کے ذریعے سے دبایا جاتا ہے۔ لہٰذا جب آپ کو آپ کی اپنی عقل کہہ دیتی ہے کہ یہ صحیح نہیں ہے اور آپ اس کو محسوس بھی کررہے ہیں، جیسے کہ مجھے بتا رہے ہیں، تو اس صورت میں اس وقت پھر ہمت کرنی چاہئے۔ ہمت دل میں قوت عازمہ کے ذریعے سے ہوتی ہے اور جو عقل ہے وہ اس کو guide کرے گی یعنی قوت عازمہ کے ذریعے سے ہمت کر کے عقل کی رہنمائی میں اس کی مخالفت کرنی چاہئے۔ اس لئے اگر آپ کی کوئی مخالفت کرے تو آپ یہ ذہن میں رکھ لیں کہ ممکن ہے کہ اس کی بات صحیح ہو، اس لئے مجھے اس پر غور کرنا چاہئے، کیونکہ اگر کوئی آپ کی غلط بات کو پکڑ لیتا ہے تو یہ آپ کے ساتھ احسان ہے کہ وہ آپ کو ایک غلط کام سے روک رہا ہے کہ جو کام بعد میں آپ کے لئے مصیبت بن سکتا ہے۔ لہٰذا اس پر ذہن کو قائل کرکے قوتِ عازمہ کے ذریعے سے اس کو مان لینا چاہئے اور اپنے برے جذبات کو روکنا چاہئے۔ اور پھر جیسے آپ کہہ رہے ہیں کہ خود آپ کو محسوس بھی ہوجاتا ہے کہ وہ صحیح کہہ رہا ہے، تو صحیح بات کی صورت میں یقیناً عقلمندی یہی ہے کہ انسان اپنے نفس کو قابو کرلے۔ نفس کو قابو کرنا دو قسم کا ہے، ایک مستقل طور پر قابو کرنا جس کے لئے پوری اصلاح کا نظام ہے یعنی اس نظام کو پورا کرنا پڑتا ہے اور ایک فوری طور پر قابو کرنا ہے، جس کا ہر شخص مکلف ہے یعنی جتنا بھی انسان کے پاس اختیار ہے، اس اختیار کو استعمال کرتے ہوئے اپنے نفس کو اس غلط کام سے روک لے۔ اور اتنا تو کم از کم ہر ایک کرسکتا ہے۔ باقی اس کے لئے کچھ طریقۂ کار بھی ہے، جیسے کہ غصہ کے بارے میں ہے کہ اگر کھڑا ہے تو بیٹھ جائے، بیٹھا ہو تو لیٹ جائے یا پھر پانی پی لے، جگہ بدل لے، کوئی اور ترتیب اس طرح کر لے، کیونکہ پندرہ بیس منٹ ہی زیادہ تر یہ pressure ہوتا ہے، اس کے بعد پھر ختم ہوجاتا ہے، اس لئے یہ پندرہ بیس منٹ عافیت سے نکل جائیں تو بس کافی ہے۔ لہٰذا اس طریقے سے آپ بھی کرسکتے ہیں۔

سوال نمبر 18:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔

نمبر 1: لسانی ذکر نو ہزار مرتبہ ہے۔

جواب:

اب اس کو ساڑھے نو ہزار کرلیں۔

نمبر 2: لطیفۂ قلب دس منٹ، لطیفۂ روح پندرہ منٹ ہے۔ لطیفۂ قلب پر محسوس ہوتا ہے، لیکن لطیفۂ روح پر کبھی محسوس ہوتا ہے اور کبھی محسوس نہیں ہوتا۔

جواب:

ابھی اسی کو جاری رکھیں۔

نمبر 3: تمام لطائف پر پانچ منٹ ذکر اور مراقبہ شیونات ذاتیہ پندرہ منٹ ہے۔ رمضان تک ایک مہینہ پورا ہوگیا تھا، لیکن میں نے سوچا کہ حضرت جی رمضان المبارک میں مجھے ذکر کو جاری رکھنے کا حکم فرماتے ہیں، اس لئے یہی جاری رکھا، لیکن پھر رمضان میں ان سے ذکر رہ گیا تھا۔

جواب:

شیونات ذاتیہ کا اس کے اوپر کیا effect ہے؟ یعنی کیا اثر اس نے لیا ہے، وہ ذرا بتا دیں۔

نمبر 4: لسانی ذکر ساڑھے چار ہزار مرتبہ ہے۔ ان سے ناغے بہت ہوتے ہیں، اور یہ کہتی ہیں کہ میرے احوال نہ بھیجیں، مجھے حضرت جی سے ڈر لگتا ہے۔

جواب:

ڈر تو اللہ تعالیٰ سے لگنا چاہئے کہ اس کی نافرمانی نہ کریں، اور تقویٰ اسی کو کہتے ہیں، کیونکہ شیخ تو صرف guide کرتا ہے۔ خیر اب اس کو ذکر ساڑھے چار ہزار کی جگہ پانچ ہزار بتا دیں اور ان سے کہہ دیں کہ ناغے نہ کریں۔

نمبر 5: تمام لطائف پر پانچ پانچ منٹ ذکر ہے اور مراقبہ حقیقت کعبہ پندرہ منٹ ہے۔ نہ مراقبہ کے دوران یکسوئی ہوتی ہے اور نہ مراقبہ کے بعد کچھ خاص کیفیات حاصل ہیں اور نہ ہی نماز میں کچھ محسوس ہوتا ہے۔

جواب:

مراقبہ حقیقتِ کعبہ کو فی الحال جاری رکھیں اور نماز کے دوران آپ یہ تصور کرلیں کہ میں کعبہ کے دروازے کے سامنے کھڑی ہوں۔ باقی جو بتایا ہے اس کو جاری رکھیں۔

سوال نمبر 19:

السلام علیکم۔ حضرت جی! میں دو سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘، دو سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘، دو سو مرتبہ ’’حَقْ‘‘ اور سو مرتبہ ’’اَللّٰہ‘‘ کا ذکر مکمل کر چکا ہوں، تاہم حضرت جی! ذکر جہری سے حالت اچھی نہیں رہتی، شدید غصہ، تکبر، حسد اور انتقام کی کیفیت طاری ہوتی ہے۔ کبھی کبھی ذکر کے بعد بے ہوشی، بے خودی اور جذب کی حالت طاری رہتی ہے۔ کبھی دفتر، مسجد اور باہر کے عزیز اور دوست کہتے ہیں کہ آپ کے اخلاق اور صحت دن بدن خراب ہورہی ہے۔ سلسلہ چشتیہ میں سری ذکر سے طبیعت کچھ بہتر ہوتی تھی۔ مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ جہری ذکر میری برداشت سے باہر ہے۔ مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آرہا۔ آپ سے قوت کی دعا اور رہنمائی دونوں کی عاجزانہ درخواست ہے۔ حضرت جی! جسمانی لحاظ سے پیدائشی طور پر کمزور اور حساس طبیعت کا مالک ہوں، ذکر کے بغیر بھی حالت وجد رہتی ہے، ادب، شاعری اور فلسفہ کی جانب ذوق اور میلان زیادہ ہے، جہر سے زیادہ سر اور خاموشی کا غلبہ زیادہ ہے۔ کسی جید عالمِ دین نے مشورہ دیا ہے کہ ذکر یا تو کم کرلیں یا جہر سے نہ کریں، بلکہ مراقبات کریں۔ میں نے کہا کہ شیخ سے مشورہ کروں گا، وہ جو بھی بہتر سمجھیں، میں اس پر عمل کروں گا۔

جواب:

بہت اچھی بات ہے، یہ ساری باتیں ممکن ہیں، لیکن اس کے لئے کچھ تحقیق کرنی پڑے گی، اس لئے آپ وقت نکال کر کم از کم ایک دن کے لئے یہاں پر آجائیں۔ پھر اس کے بعد کچھ عرض کرسکوں گا۔

سوال نمبر 20:

ایک سالک کا سوال آیا تھا جو کہ حضرت نے مجلس میں نہیں سُنایا، بلکہ اُس کا صرف جواب حضرت نے دیا ہے۔

جواب:

بس ان سے یہ کہیں کہ یہ ذکر فی الحال ابھی جاری رکھیں۔

سوال نمبر 21:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ جناب محترم شاہ صاحب! اللہ تعالیٰ خیر و عافیت والی زندگی عطا فرمائے۔ (آمین) حضرت! آپ کا دیا ہوا ذکر تیسرا کلمہ، درود شریف اور استغفار جاری ہے۔ اور ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ دو سو مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ چار سو مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ چھے سو مرتبہ اور ’’اَللّٰہ‘‘ ساڑھے چار ہزار مرتبہ اَلْحَمْدُ للہ! جاری ہے۔ جناب محترم! مہینہ پورا ہوگیا ہے، مزید جو حکم ہو۔

جواب:

اب اسم ذات ’’اَللّٰہ‘‘ پانچ ہزار مرتبہ کریں اور باقی سارے یہی اعمال کرلیں۔

سوال نمبر 22:

حضرت! سوال یہ تھا کہ جس طرح نبی کریم ﷺ کی زندگی تھی کہ آپ ﷺ اپنے ہاتھ سے کام کرلیا کرتے تھے اور اسی طرح نبی علیہ السلام صحابہ کرام میں ایسے رہنا چاہتے تھے کہ کسی پر فوقیت ظاہر نہ ہو اور یہی صحابہ کی تربیت کی ہے۔ میں ’’حیاۃ الصحابہ‘‘ پڑھ رہا تھا، اس میں بہت سے ایسے واقعات ہیں۔ لیکن آج کل جو ہمارے دین کے رہنما اور پیشوا ہیں ان میں بہت سی متضاد چیزیں نظر آتی ہیں۔

جواب:

اصل میں اس وقت جو صورتحال ہے کہ اس وقت میں سارے کاموں کو ٹھیک بھی نہیں کہا جاسکتا اور سارے کاموں کو غلط بھی نہیں کہا جاسکتا۔ بس جتنا ٹھیک ہے اس کو ختم نہیں ہونا چاہئے، اور جتنا غلط ہے اس کو جتنا ہوسکتا ہو روکنا چاہئے، کیونکہ انہی حالات میں آپ نے گزارا کرنا ہے۔ مثال کے طور پر ہمارے حلیمی صاحب فرمایا کرتے تھے کہ First divisioners چلے گئے ہیں، اب Second divionsers پر آپ کو کرنا پڑے گا اور اگر تھوڑا سا انتظار کیا تو پھر third divisional کے پاس جانا پڑے گا۔ لہٰذا اس طرح کی صورتحال تو ہے اور اس میں آج کل کمیاں بھی ہیں، لیکن ان کمیوں میں بہت سارا role لوگوں کا ہے کہ لوگ unnecessarily بہت ہی غیر ضروری طور پر خیال رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر کوئی شیخ اپنے جوتے کو ہاتھ بھی نہیں لگا سکتا، کم از کم یہ میرا تو تجربہ ہے، کئی دفع کوشش کرتا ہوں کہ میں اپنے جوتے لے لوں، بہت کوشش میں نے کی ہے، لیکن کوئی چھوڑتا ہی نہیں ہے۔ اسی طریقہ سے کتنے لوگوں کو میں نے منع کیا کہ نہ اٹھیں، اور آپ سب ماشاء اللہ! گواہ ہیں، لیکن ہر بار جب میں آتا ہوں تو لوگ اٹھ جاتے ہیں، حالانکہ میرے مزاج کا بھی پتا ہے۔ اس لئے اس قسم کی چیزیں اور مسائل عوام کی طرف سے بہت زیادہ ہیں۔ اب جو ہمارا خاندان ہے یعنی میں اپنے خاندان کی بات کرتا ہوں کہ جو چھوٹا بچہ ہے، جو بمشکل چلتا ہو، اس کو بھی لوگ بادشاہ کہتے ہیں یعنی ہمارے علاقے میں لوگ بادشاہ کہتے ہیں، جیسے آپ لوگ شاہ صاحب کہتے ہیں، وہ بادشاہ کہتے ہیں۔ بس پھر اسی حالت میں وہ پل اور بڑھ جاتا ہے، اب یہ ساری چیزیں ابتدا سے ہی اس میں ہوتی ہیں، لیکن اگر کسی کی اصلاح ہوگئی تو ان چیزوں سے چھٹکارا مل جاتا ہے، ورنہ پھر یہ چیزیں اس میں رہ جاتی ہیں۔ لہٰذا یہ سارا معاملہ اسی طریقہ سے چلا ہے۔ بہرحال طریقہ تو سنت کا ہی معتبر ہے، اس پر جتنا جلدی انسان آجائے اتنا ہی اچھا ہے اور مشائخ، علماء کے لئے بھی اچھا ہے، لوگوں کے لئے بھی اچھا ہے، معیار وہی ہے۔ البتہ بے ادبی اور گستاخی کی طرف بھی نہیں جانا چاہئے۔ لیکن ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ جو لوگ اس بات کو لے اٹھتے ہیں، وہ بے ادبی اور گستاخی میں چلے جاتے ہیں، جبکہ اس کی بھی آپ ﷺ نے اجازت نہیں دی۔ جیسا کہ حدیث پاک میں آتا ہے:

’’قُوْمُوْا إِلىٰ سَيِّدِكُمْ‘‘ (بخاری: 6262)

ترجمہ: ’’اپنے سردار کے لئے کھڑے ہوجاؤ‘‘۔

اس لئے گستاخی اور بے ادبی نہیں کرنی چاہئے، صحیح طریقے سے اور شریعت کے مطابق کام کرنا چاہئے۔

سوال نمبر 23:

حضرت! اس کے اوپر میں نے شاید بڑوں سے یہ سنا ہے کہ وہ جواز کے لئے یہ قول پیش کرتے ہیں کہ اس زمانہ میں صحابہ تہذیب یافتہ تھے، لیکن اس زمانہ میں بد تہذیبی، بے ادبی بہت زیادہ ہے، اس لئے دین کے پیشواؤں کو اپنا وقار بنانا اور اپنی تہذیب میں رہنا ضروری ہے، اس لئے ان کو یہ طریقہ رکھنا پڑتا ہے۔

جواب:

یہ بات آپ کی صحیح ہے، کیونکہ کچھ لوگوں نے اس طریقہ کو اپنایا ہوا ہے، لیکن میرا اپنا خیال یہ ہے کہ ہمارے جتنے مشائخ گزرے ہیں، جیسے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ اور اسی طرح مولانا زکریا صاحب رحمۃ اللہ علیہ انہوں نے ان چیزوں کی پروا نہیں کی، جبکہ ان کو اللہ پاک نے بڑی عزت دی ہے، ایسا نہیں کہ ان کی عزت لوگوں نے نہ کی ہو، نہیں، بلکہ ان کو اللہ نے باوجود اس کے بڑی عزت دی تھی۔ لہٰذا ایسی کوئی بات نہیں ہے کہ میں کوئی قبہ یا چوغہ پہنوں گا تو میری عزت ہوجائے گی۔ یہ صرف اپنا خیال ہے، بس اپنے آپ کو دل کو تسلی دینے والی بات ہے، ورنہ یہ بات ہے کہ انسان جتنا سادہ رہے، اتنی ہی راحت ہے یعنی protocol وغیرہ جتنے زیادہ ہوتے ہیں، اس کے مسائل بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ البتہ آپ لوگوں کو جس طرح عادی کرلیں گے، اس طریقے سے پھر لوگ آپ کے ساتھ معاملہ کریں گے۔ میں خود جب چینوٹ گیا تھا، وہاں ایک مفتی صاحب ہیں، انہوں نے مجھے بلایا تھا۔ مفتی صاحب نے پہلے مجھے اچھا خاصا سمجھایا کہ دیکھو! آپ چینوٹ میں ہیں، آپ اپنے علاقہ میں نہیں ہیں، یہاں جس نے بڑا لمبا چوغہ نہ پہنا ہو تو اس کو پیر نہیں سمجھا جاتا، اس لئے آپ پگڑی پہنیں اور اسی طرح ان کا خاص جوتا ہوتا ہے، یہ انہوں نے میرے لئے باقاعدہ منگوائے تھے یعنی پہلے سے موجود تھے، مجھے کہتے کہ آپ کو یہ کرنا پڑے گا، ورنہ یہ لوگ آپ کو پیر نہیں مانیں گے۔ اب یہ بالکل میرا مزاج نہیں ہے اور نہ کبھی میں نے ایسا کیا تھا، لہٰذا میرے لئے یہ بڑا مشکل تھا۔ آپ یقین جانئے کہ وہ میں نے جب پہنا تو مجھے سٹیج تک پہنچنا ہی مشکل تھا، بڑی مشکل حالت تھی۔ خیر میں سٹیج تک پہنچا تو کچھ راحت ہوگئی، بیان ہوگیا، اس کے بعد میں چلا آیا۔ لہٰذا اس قسم کی جو باتیں ہیں یعنی عوام کے پیچھے چلنا یہ مناسب نہیں ہے، بلکہ عوام کو اپنے پیچھے چلانا چاہئے۔ عوام جو چاہتی ہے وہ نہیں کرنا ہوتا۔ باقی یہ تحریکی type کے جو لوگ ہوتے ہیں، وہ زیادہ تر ان چیزوں میں پائے جاتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ بھائی! اگر ہم یہ نہیں کریں گے تو لوگ ہمارے پیچھے نہیں رہیں گے۔ لیکن جو صحیح معنوں میں اصلاحی کاموں میں لگے ہوتے ہیں، وہ ان چیزوں کی پروا نہیں کرتے، لیکن جو تحریکی مزاج ہوں، جو جلسے جلوسوں اور اس قسم کی چیزوں میں پڑ جاتے ہیں، ان کو ان چیزوں کی ضرورت پڑتی ہے۔

سوال نمبر 24:

حضرت! کیا باوقار رہنا ٹھیک نہیں ہے؟ کہ جس سے پہچان ہو، جیسے ںقشبندی سلسلے کے لوگ ہوتے ہیں۔

جواب:

باوقار ہونا اور چیز ہے، باوقار انسان سادہ لباس میں بھی رہ سکتا ہے۔ باقی نقشبندی سلسلے کا طرۂ امتیاز سنت پر عزیمت سے عمل ہے، یہ نقشبندی سلسلے کا طرۂ امتیاز ہے یعنی ان کا کوئی اور نعرہ نہیں ہے، بلکہ یہی نعرہ ہے کہ کہ سنت پر جم کر رہنا، عزیمت کے ساتھ رہنا، اس کو بالکل نہیں چھوڑنا۔ اب سنت کتابوں میں موجود ہے کہ وہ کیا ہے۔ لہٰذا اس پر عمل کریں اور لوگوں کی پروا نہ کریں، کیونکہ سنت تو سنت ہے، وہ تبدیل نہیں ہوسکتی، زمانہ بدل جائے، لیکن سنت نہیں بدلتی۔ البتہ حالات کے مطابق اور لوگوں کو اس پر لانے کے لئے حکمتِ عملی اپنائی جاسکتی ہے، لیکن سنت تبدیل نہیں ہوسکتی۔ لہٰذا آپ ﷺ کا جو طریقہ تھا اور صحابہ کا جو طریقہ تھا وہ اپنانا پڑے گا۔ باقی اپنی کمزوری یہ علیحدہ چیز ہے، کیونکہ باقی سلسلے والے اگر یہ بات کرلیں تو شاید اُن کی بات تو سنی جائے گی، لیکن اِن کی بات اس میں بالکل نہیں سنی جائے گی، کیونکہ اِن کا تو دعویٰ ہی یہی ہے کہ ہم سنت پر عزیمت کے ساتھ عمل کرتے ہیں۔ اس لئے اِن کو کیسے اس بات کی ضرورت پڑے گی؟ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے کیسے کیا ہے؟ ان کے حالات موجود ہیں، کیا انہوں نے ایسے کیا تھا؟ البتہ باوقار رہنا یہ اور بات ہے۔ اور باوقار رہنے کا مطلب یہ ہے کہ منہ سے کوئی غلط بات نہ ہو یعنی موقع شناسی، محل شناسی اور مردم شناسی کے مطابق بات ہو، اور اپنے آپ کو اس طرح نہیں کرنا کہ جس سے لوگوں کو بات کرنے کا موقع مل سکے، آپ کے اندر خامی نہ ہو، بلکہ ایک پختگی ہو، کیونکہ پختگی ہو تو وہ وقار کے لحاظ سے بات ہے، جسے آپ لا ابالی پن یا چھچھورا مزاج کہتے ہیں، وہ نہیں ہونا چاہئے۔ ایسے ہی مذاق زیادہ نہیں کرنا چاہئے یعنی اس قسم کی باتیں نہیں ہونی چاہئیں، یہ وقار کے خلاف ہیں۔ اور یہ بات تو سادہ لباس میں بھی ہوسکتی ہے۔

سوال نمبر 25:

حضرت! ہمارے ادارے میں کراچی میں حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو ایک پروگرام میں بلایا گیا۔ جو بلانے والے عالم دین تھے انہوں نے بتایا کہ یہ بڑے شیخ الحدیث ہیں اور یہ اتنے بڑے عالم دین ہیں اور وفاق کے صدر ہیں، تو میں ان کو بلا رہا ہوں۔ اب لوگ بڑے متاثر ہوئے، لیکن جب حضرت سٹیج پر آئے تو حضرت نے کہا کہ میں تو ایک طالب علم ہوں۔ لہٰذا اس کے بعد ان صاحب کی پیشی ہوگئی کہ آپ تو کہہ رہے تھے یہ اتنا بڑا عالم ہے، لیکن یہ تو کہہ رہا ہے کہ میں طالب علم ہوں۔ آپ نے طالب علم کو کیوں بلا لیا؟ لہٰذا اب حالات یہ ہیں کہ جب تک کوئی اپنا تعارف نہ کروائے کہ میں بڑا scholar ہوں یا فلاں ہوں تو کوئی متأثر ہی نہیں ہوتا۔

جواب:

جی یہ بات آپ کی صحیح ہے، لیکن لوگ متأثر ہوں یا نہ ہوں، اس کے لئے یہ ضروری تو نہیں کہ وہ خود کہے، بلکہ دوسرے حضرات یہ کہیں، ان کو تو نہیں روکا گیا، باقی وہ یہی کہے گا۔ دیکھو! آپ ﷺ اپنے لئے اٹھنا پسند نہیں کرتے تھے، لیکن صحابہ کرام بہت اکرام کرتے تھے، یہاں تک کہ وہ تھوک مبارک بھی نیچے زمین پر نہیں گرنے دیتے تھے۔ لہٰذا صحابہ کرام کا اپنا عمل تھا، آپ ﷺ کا اپنا طریقہ تھا کہ آپ ﷺ اس کو اپنے لئے پسند نہیں فرماتے تھے، لیکن صحابہ کرام کا کیا طریقہ تھا؟ جیسے آپ ﷺ نے ایک صحابی کو اپنا خون دیا اور کہا کہ اس کو جا کر دفن کردو، جب وہ صحابی واپس آئے تو پوچھا کہ کیسے دفن کیا؟ کہا وہ تو میں نے پی لیا۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ جس جسم میں میرے جسم کا کوئی حصہ چلا جائے تو اس کو آگ نہیں جھو سکتی۔ اب دیکھو! ان کی محبت کا تو یہ عالم تھا، لہٰذا یہ اعزازات دوسرے حضرات کریں، دوسرے حضرات کو نہیں روکا گیا، البتہ خود نہ کرے۔

سوال نمبر 26:

میں آرمی میں خطیب ہوں۔ میں نے بس آپ سے دعاؤں کی درخواست کرنی تھی کہ میرا تھوڑا سا ایک impression ہے یعنی ذاتی مسئلہ ہے کہ میں پچھلے تین چار سال سے جب نماز پڑھانے کے لئے کھڑا ہوتا ہوں تو میری زبان میں بہت رکاوٹ ہوتی ہے، لیکن جب میں بول رہا ہوں یا عام بات چیت کررہا ہوں، جیسے اب بات کررہا ہوں تو پھر کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی، تقریر بھی میں کرلیتا ہوں، خطبہ بھی سادہ سا پڑھ لیتا ہوں اردو میں یا عربی میں۔ لیکن نماز کے لئے پھر میں حافظ کو آگے کرتا ہوں، کیونکہ نماز میں تکبیرات اور قرات میں میری بہت زبان رکتی ہے۔ بس آپ سے دعاؤں کی درخواست کرنی تھی۔

جواب:

ان شاء اللہ العزیز ضرور دعا کروں گا اور اس پر آپ کو ایک واقعہ سناتا ہوں اور یہ سچا واقعہ ہے۔ مجھے مفتی زرولی خان صاحب نے سنایا ہے اور ان کا یہ اپنا ذاتی واقعہ ہے۔ ایک مرتبہ ان پر جادو ہوگیا تھا اور جادو بھی ایسا کہ وہ خطبہ نہیں پڑھ سکتے تھے اور نماز نہیں پڑھا سکتے تھے، باقی سب کچھ کر لیتے تھے، اس کی وجہ سے بہت پریشانی تھی۔ جب مولانا حمد اللہ صاحب جو ڈاگئی کے ہیں یعنی صوابی کے علاقہ کے، وہ وہاں گئے تو ان کو بتایا، انہوں نے check کیا تو کہا آپ پر جادو ہے۔ پھر انہوں نے ان کو ایک عمل بتایا، وہ عمل جب انہوں نے کیا تو اگلا جمعہ جب آیا تو ان کی زبان درمیان میں بڑی رک رہی تھی جیسے pressure آگیا ہو، یہاں تک کہ زبان چل پڑی اور لفظ اَلْحَمْدُ للہ بڑے زور سے کہہ دیا۔ پھر کہتے ہیں کہ میرے ایک دوست تھے، انہوں نے جب لاؤڈ سپیکر پر میرا خطبہ سنا تو فوراً انہوں نے بطور شکر کے بھینس ذبح کرنے کا ارادہ کرلیا اور بہت خوش ہوئے۔ اور پھر دوسرا یہ کام ہوا کہ وہ شخص اعتکاف میں ہی تھا جس نے یہ جادو کیا تھا وہ اٹھا اور کہتا کہ مجھے آگ لگ رہی ہے اور وہ وہاں سے بھاگا اور پھر سیدھا وہ مولانا حمد اللہ صاحب کے پاس چلا گیا، کیونکہ اس کو پتا چل گیا کہ انہوں نے جادو اتارا ہے، کیونکہ وہ اس کو جانتے تھے۔ اس نے کہا کہ میں سال میں ایک دفعہ کرسکتا ہوں، دوبارہ نہیں کرسکتا یعنی اس نے گویا کہ اپنی جان چھڑا لی۔ لہٰذا ایسی چیزیں ہوتی ہیں، اس لئے آپ ’’منزلِ جدید‘‘ لے لیں اور اس کو باقاعدہ پڑھیں، بلکہ میں کہتا ہوں کہ جتنے بھی علماء ہیں، دینی کام کرنے والے ہیں، ان کو آج کل یہ لازمی طور پر پڑھنا چاہئے، کیونکہ حاسدین بہت زیادہ ہیں، یہ تھوڑے نہیں ہیں، ہر وقت اور ہر جگہ موجود ہیں، اس لئے اس میں حفاظت کے راستے کو اپنانا چاہئے۔ اس کو باقاعدہ مغرب کے بعد آپ پڑھ لیں، اس میں پوری تفصیل لکھی ہوئی ہے، آپ اس پر عمل کرلیں۔ ہمارے ہاں چونکہ اصلاحی کاموں کی طرف زیادہ رجحان پایا جاتا ہے اور عملیات وغیرہ سے ذرا تھوڑا سا اجتناب کرتے ہیں، کیونکہ پھر یہی چیزیں شروع ہوجاتی ہیں اور پھر بس یہی چلتی ہیں اور باقی سارے کام پیچھے رہ جاتے ہیں۔ اللہ پاک نے فضل فرما کر یہ چیز ہمیں عطا فرما دی، اس لئے کوئی بھی بات کرے تو ہم کہتے ہیں کہ آپ اس کو پڑھ لیں۔ کیونکہ اصل بات یہ ہے کہ سورۃ فاتحہ کی آیت: ﴿اِیَّاكَ نَعْبُدُ وَاِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُ (الفاتحہ: 4) اور ’’لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللّٰهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيْمِ‘‘ ان دونوں چیزوں میں اتنی بڑی طاقت ہے کہ اس کا ہم تصور بھی نہیں کرسکتے۔ لہٰذا اگر یقین ساتھ ہو تو کسی اور چیز کی ضرورت ہی نہیں پڑتی، آدمی اسی سے ہی یہ بلائیں دفع کر لیتا ہے۔ مثال کے طور پر جیسے نفس کا علاج ہے کہ نفس کی بات نہ مان کر اس کے خلاف پر عمل کیا جائے، تو یہ پہلے تو بہت زور و شور سے مخالفت کرتا ہے، پھر اس کی مخالفت آہستہ آہستہ کم ہونا شروع ہوجاتی ہے اور پھر کم ہوتے ہوتے بالکل ختم ہوجاتی ہے۔ اسی طریقے سے یہ جو چیزیں ہیں اور ان چیزوں کا جو زور ہوتا ہے، وہ جب آپ نہیں مانتے اور اللہ پر یقین ہوتا ہے اور آپ اس کے ساتھ اپنے کام کو جاری رکھتے ہیں تو پھر ان کے زور میں وقت کے ساتھ ساتھ کمی آتی ہے حتیٰ کہ وہ چیز ختم ہوجاتی ہے، چونکہ start میں اس کا زور بہت ہوتا ہے، اس لئے لوگ سمجھتے ہیں کہ شاید اس نے کم نہیں کیا یعنی اس میں وہ رہ جاتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ بھائی! اس سے تو کم نہیں ہوتا، حالانکہ کم ہوتا ہے، لیکن ہر چیز کا اپنا ایک وقت ہوتا ہے، اور وقت کے ساتھ اس کے اوپر جتنی محنت کی ضرورت ہوتی ہے تو اس کے ساتھ وہ ہوجاتا ہے۔ باقی جو عامل type لوگ ہوتے ہیں، یہ دعوے بہت کرتے ہیں کہ یہ کردیں گے اور وہ کردیں گے۔

سوال نمبر 27:

حضرت! بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ کوئی سالک خانقاہ آنا چاہتا ہے یا شیخ کی مجلس میں آنا چاہتا ہے، لیکن گھر کا یا کوئی اور ضروری کام بھی ہوتا ہے، اب اگر دل کے لحاظ سے وہ فتویٰ لیتا ہے تو دل خانقاہ آنا چاہتا ہے یا شیخ کی مجلس میں جانا چاہتا ہے، لیکن عقل کے لحاظ سے وہ سوچتا ہے تو عقل سے اس کو وہ کام زیادہ اہم لگ رہا ہوتا ہے، اس وقت میں کیا فیصلہ کرنا چاہئے؟

جواب:

اگر وہ شخص مستقل یہاں پر آنے والا ہے تو اس وقت کام کو ترجیح دینی چاہئے۔ اور اس کی تلافی اس طرح کرسکتا ہے کہ جو بیان ہے وہ online بھی سن سکتا ہے اور اگر سن نہ سکا تو پھر اس کو بعد میں بھی سن سکتا ہے، کیونکہ ہماری recording ہو چکی ہوتی ہے۔ لیکن جو کبھی کبھی آتا ہے، اس کو مقابلہ کرکے آنا چاہئے، کیونکہ اس کے لئے شیطان پورا منصوبہ بناتا ہے یعنی عین اسی وقت رکاوٹیں ڈالتا ہے کہ کوئی بھی کام اس کا بنا لیتا ہے۔ لہٰذا اس کو ہمت کرکے آنا چاہئے، تاکہ کم از کم اس کی عادت بن جائے، اس کے بعد پھر وہ ترجیحی بنیادوں پر کام کرسکے گا یعنی پہلے وہ شیطان کی رکاوٹ کی zone سے نکل آئے۔ جیسے یہاں پر ہمیں خود ساتھی بتاتے ہیں کہ جب ہم آنے کا ارادہ کرتے ہیں تو بہت کام ہمیں یاد آجاتے ہیں، لیکن پھر ہم کہتے ہیں کہ ہم جاتے نہیں ہیں، بس وہاں دروازہ کو touch کرکے واپس آجائیں گے، اور پھر جب یہاں آجاتے ہیں یعنی جب اندر آجاتے ہیں تو پھر کچھ نہیں ہوتا۔ لہٰذا اس قسم کی باتیں ہیں، اس لئے ان کو ہمت کرکے آنا پڑے گا۔ وجہ یہ ہے کہ شیطان کا طریقۂ کار یہ ہے کہ اگرچہ وہ آپ کو نماز سے بھی روکتا ہے، لیکن اس کے مقابلہ میں نماز پڑھنے دے گا، حج کرنے دے گا، زکوٰۃ آپ کو دینے دے گا، سب کچھ کرنے دے گا، لیکن کسی مصلح کے پاس نہیں جانے دے گا، اس کے لئے سب سے بڑی رکاوٹ ڈالے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ کہتا ہے کہ یہ جو عبادت کررہے ہیں یعنی جو اذکار وغیرہ کررہے ہیں، ان کو ختم کرنا میرے لئے کوئی مشکل کام نہیں ہے، میں عجب ڈال دوں گا تو وہ ختم ہوجائیں گے، ان کا اثر ختم ہوجائے گا۔ لہٰذا اس کے لئے یہ چیزیں مشکل نہیں ہیں، لیکن یہ چیز اس کے لئے مشکل ہے کہ ایک دفعہ اگر یہ اصلاحی لائن پر آگیا اور اس کی اصلاح ہوگئی تو پھر میری range سے نکل جائے گا، بلکہ دوسروں کو بھی فائدہ پہنچائے گا۔ لہٰذا یہاں پر سب سے زیادہ رکاوٹ ڈالتا ہے۔

سوال نمبر 28:

اسی طرح ہمارا جو یہاں بارہ گھنٹے کا جوڑ ہوتا ہے یا چوبیس گھنٹے کا ہوتا ہے یا تین دن کا ہوتا ہے، اس میں بھی جب آجاتے ہیں تو بہت سارے کام سامنے آجاتے ہیں، اس میں پھر کیا کریں؟

جواب:

بس یہی کرنا چاہئے جو بتایا ہے۔

سوال نمبر 29:

حضرت جی! کبھی کبھی ایسے ہوتا ہے کہ آدمی اپنے آپ کے بارے میں سمجھتا ہے کہ میں جو کچھ کررہا ہوں، وہ غلط ہے یا شک پڑ جاتا ہے کہ پتا نہیں کیسا ہے یعنی جو کام ہم کررہے ہیں اسی میں شک پڑنا شروع ہوجاتا ہے اور ہر چیز میں ہوتا ہے مثلاً کھانے میں، نماز میں اور چھوٹی چھوٹی باتیں بہت لمبی ہوجاتی ہیں، بندہ سوچتا ہے کہ میں دوبارہ نئے سرے سے سارے کام کروں گا، کیونکہ میرا سارا کام صحیح نہیں ہے۔ اس میں کیا کرنا چاہئے؟

جواب:

دیکھیں! جو ہمارا دین ہے یہ بالکل واضح اور روشن ہے، اس میں کوئی ایسی بات نہیں ہے کہ جو کوئی confusion ہو۔ البتہ فرق صرف یہ ہے کہ اگر یہ وسوسہ شیطان ڈالتا ہے تو پھر اس کی پروا نہیں کرنی چاہئے، کیونکہ اس کا کام ہی یہ ہے۔ اور اگر واقعی اس میں کوئی علمی گرفت ہے تو پھر اس کی تحقیق کرکے اس کو ٹھیک کرنا چاہئے۔ میرے خیال میں جو خود عالم ہے وہ تو خود تحقیق کرسکتا ہے کہ یہ کام علمی لحاظ سے کیسا ہے۔ اور اگر پھر بھی سمجھ نہ آئے تو جن کو اس سلسلہ میں اپنا مشیر بنایا ہو ان سے discuss کرلے، اور جب پتا چل جائے کہ صرف یہ وسوسہ ڈالنے والی بات ہے تو پھر اس کی پروا نہ کرے۔ بعض دفعہ کسی کام سے روکنے کا طریقہ بھی یہ ہوتا ہے کہ اس کو اس کے لئے بہت مشکل بنا دیا جائے یعنی وسوسہ ڈال ڈال کر اس کو مشکل بنا دیں۔ بعض لوگوں کو اتنا وسوسہ آتا ہے کہ وہ نماز کی نیت میں بھی بہت دیر لگا دیتے ہیں، ان کی نیت ہی نہیں بنتی۔ جیسے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک واقعہ بیان کیا ہے کہ ایک صاحب تھے ان کو اس قسم کا شک ہوتا تھا، اس سے حاضر اس امام کے پیچھے کا لفظ نہیں بولا جاتا تھا، لہٰذا وہ امام کے پیچھے کھڑا ہوکر ہاتھ رکھ کر کہتا کہ اس امام کے پیچھے۔ اور آپ کو پتا ہے کہ یہ ایک بیماری ہے اور بیماری کا علاج ہونا چاہئے اور اس کا آسان اور فوری طور پر یہی علاج ہے کہ اس کی پروا نہیں کرنی چاہئے۔

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ