مسلمانوں کے اجتماعی مجاہدے کی اہمیت

سوال نمبر 1096

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی




اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال:

کل کے درس قرآن میں سورتِ حجر کی آیت نمبر 85 کی تشریح میں یہ بات آئی تھی کہ مکی زندگی میں مسلمانوں کو صبر کے جس مجاہدے سے گزارا گیا، وہ ایک اجتماعی مجاہدہ تھا، جس سے ایک جماعت تیار ہو گئی۔ یہی بات ایک حدیث شریف میں بھی آئی ہے، جس کا مفہوم یہ ہے کہ تمام مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں۔ اگر جسم کے ایک حصے کے اندر تکلیف ہو تو پورا جسم تکلیف میں مبتلا ہوتا ہے۔ ابتدائے اسلام میں جب ایک مسلمان کو کفار سے تکلیف پہنچتی تو ہر مسلمان ایسا محسوس کرتا جیسا کہ یہ تکلیف اس کو دی جا رہی ہو۔ یعنی ایک مسلمان کا جسمانی مجاہدہ دوسرے مسلمان کا نفسیاتی مجاہدہ ہوتا۔ انہیں دو قسم کے مجاہدات سے ایک بہترین جماعت تیار ہوئی، جو ساری دنیا پر چھا گئی۔

سوال یہ ہے کہ اگر آج کے دور میں ان مجاہدات کی کچھ صورت مسلمانوں کے اندر پیدا کی جائے تو کیا ہماری نشأۃِ ثانیہ (یعنی دوسری مرتبہ عروج) ہو سکتی ہے؟ اس کے لئے کیا کیا سٹیپس در کار ہوں گے؟ اور مسلمانوں کے کن شعبوں کے لوگوں کو اس میں محنت کرنا ہو گی؟

جواب:

دیکھیں! ہر چیز کے لئے پہلا کام ذہن سازی کا ہوتا ہے۔ یعنی جب تک کسی کا ذہن نہیں بنا، اس وقت تک وہ آگے قدم اٹھانے کے قابل نہیں ہوتا۔ ذہن سازی کا کام علمائے کرام، مشائخ اور امت کے ان سنجیدہ افراد کا ہے جو علماء کرام کے ساتھ بیٹھنے کی وجہ سے یا کتابوں کے پڑھنے کی وجہ سے علم جانتے ہیں۔ یہ حضرات لوگوں کی ذہن سازی کریں کہ مسلمان ایک ملت ہیں اور ہم ایک دوسرے کے تعاون سے کام چلا سکتے ہیں۔ یوں سمجھ لیں کہ مسلمانوں میں جوڑ کی صورت پیدا کرنے کی جو کوشش ہے، اس کوشش کو آگے بڑھانا چاہئے۔ یعنی مسلمانوں کو تقسیمِ کار کا طریقہ بتا کر متحد کرنا چاہئے۔ تقسیم میں ہر شخص کے حصے میں جو بھی کام آئے، وہ اسے کرے، لیکن وہ اس کام کو جماعتی سطح کا کام سمجھے۔ جیسے ایک جماعت میں مختلف کام لوگوں میں تقسیم کئے جاتے ہیں تو وہ ایک ہی جماعت کہلاتی ہے۔ مثال کے طور پر تبلیغی جماعت میں ایک جماعت چلتی ہے تو کوئی متکلم ہوتا ہے تو کوئی رہبر، کوئی راستہ دکھانے والا تو کوئی تعلیم کرنے والا اور کوئی کھانا پکانے والا ہوتا ہے۔ مختلف خدمات کی ڈیوٹیآں لگائی ہوتی ہیں۔ یہ سب لوگ ایک جماعت ہیں۔ اب اگر کھانا تیار کرنے والے کو کوئی شخص تبلیغ میں نہ سمجھے تو اس کو کیا کہا جائے گا؟ بھائی! اگر کھانا تیار نہیں ہو گا تو جماعت چل ہی نہیں سکے گی۔

پھر تشکیل دو قسم کی ہوتی ہے: ایک تشکیل انسانوں کی طرف سے ہوتی ہے اور ایک تشکیل اللّٰہ کی طرف سے ہوتی ہے۔ انسانوں کی طرف سے تشکیل یہ ہے کہ جیسے میں نے جماعت کی مثال دی کہ امیر صاحب تشکیل کر دیتے ہیں کہ فلاں یہ کام کرے، فلاں یہ کام کرے، فلاں یہ کام کرے۔ یہ انسانی تشکیل ہے۔ ایک تشکیل من جانبِ اللّٰہ ہوتی ہے یعنی طبیعتوں کی تشکیل؛ کسی کا دل ایک طرف لگا دیا تو کسی کا دل دوسری طرف اور کسی کا دل تیسری طرف لگا دیا۔ مشائخ اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ وہ اللّٰہ کی تشکیل کے مطابق لوگوں کی تشکیل کریں۔ یعنی اللّٰہ پاک نے جس انسان کی تشکیل جس طرف کی ہے، اسی طرف کا اس کو مواد مہیا کریں، اس طرف کی باتیں اس کو بتائیں اور اس طرف کی سوچ اس کو دلائیں تاکہ وہ اس طرف ہی چلے جس طرف اللّٰہ پاک نے اس کو بھیجا ہے۔ یہی وہ بات ہے جس کے بارے میں مجدد الف ثانی صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں کہ ’’اسمِ مربی‘‘ کے اندر یہی بات چھپی ہوئی ہے، کیوں کہ اسم صفت سے وجود میں آیا ہے اور صفات لوگوں میں مختلف ہوتی ہیں۔ اس وجہ سے ان کی صفات کے ذریعے سے ان کی تشکیل کی جاتی ہے اور ہر شخص کو اس کی صفت سے ہی تیار کیا جاتا ہے، اسی صفت سے اس کو آگے بڑھایا جاتا ہے اور اسی صفت سے ہی اللّٰہ تعالیٰ اس کو اپنی طرف کھینچتا ہے یعنی وہ صفت اس کا مبدأ فیض ہے۔

اصطلاحات بعض دفعہ ذرا مشکل ہوتی ہیں، سمجھ میں نہیں آتیں، لیکن چیزیں وہی ہوتی ہیں جو عام طور پر بات چیت میں بولی جاتی ہیں۔ صرف یہ بات ہے کہ لوگوں کو ان اصطلاحات کا پتا نہیں ہوتا تو وہ سمجھتے ہیں کہ پتا نہیں یہ کیا بات ہے!

دیکھیں! اگر آپ کسی اسم کے ذریعے سے اپنی صفت کی شناخت کریں تو کام تو وہ صفت ہی کرے گی۔ مگر یہ ایک الگ شعبہ ہے، مشائخ کو اللّٰہ پاک یہ سمجھ عطا فرما دیتے ہیں کہ جو شعبہ کسی کے لئے مناسب ہو وہ اس شعبہ کی طرف اس کی تشکیل کر دیتے ہیں۔ جیسے حاجی عبدالمنان صاحب کی تشکیل حضرت مولانا صاحب نے مکہ مکرمہ کے لئے فرمائی تھی اور کسی کی تشکیل کسی دوسری طرف کی اور کسی کی تبلیغی جماعت میں تشکیل کی۔ لوگوں کے مختلف مزاجوں کے مطابق حضرت نے ان کی تشکیلیں کی ہیں۔

اگر ہم اس بات کو سمجھ لیں تو میرے خیال میں اس سے جوڑ پیدا ہو جائے گا اور جوڑ سے جماعت بنتی ہے۔ ہمارے حضرات بتاتے ہیں کہ بازار میں کتنے لوگ ہوتے! بھیڑ لگی ہوتی، لیکن وہ ایک جماعت نہیں کہلاتے، کیوں کہ ان سب کی فکر اپنی اپنی ہے، اس لئے وہ جماعت نہیں ہیں۔ جب کہ مثال کے طور پر اگر ایک آدمی امریکہ میں ہو، ایک روس میں، ایک چائنہ میں، ایک پاکستان میں اور ایک سعودی عرب میں ہو اور ان سب کی فکر ایک ہو تو وہ جماعت ہے یعنی ان کو ہم جماعت کہیں گے اور اس کی وجہ ان سب کی فکر کا ایک ہونا ہے۔ اس وجہ سے ہم لوگوں کو یہ کوشش کرنی چاہئے کہ ہم لوگ اپنی فکر کو ایک بنائیں۔ شعبوں کی تقسیم مزاجوں کی وجہ سے اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔

فکر ایک ہونے کے بعد ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا؛ یہ جوڑ کا ذریعہ ہے، کم از کم ایک دوسرے کے لئے دعائیں کرنی چاہئیں اور اس کے کام کو بھی اپنا کام سمجھنا چاہئے۔ اس کی وجہ سے ما شاء اللّٰہ آپس میں جوڑ ہو سکتا ہے۔ پھر اس کے بعد شعبوں کی معیت ہو۔ حدیث شریف میں تو آیا ہے کہ کسی شخص کو تکلیف پہنچتی ہے تو دوسرا اس کو اپنی تکلیف سمجھتا ہے۔ اب اس کو آپ ذرا Broad sense (وسیع احساس) میں دیکھیں تو ایک جماعت جو دین کا کام کر رہی ہے (ظاہر ہے کہ ان کی تشکیل اسی طرف ہے) ان کو اگر کوئی trouble (مصیبت) پہنچے تو کیا باقی جماعتیں اس پر خوش ہو جائیں! نہیں، بلکہ ان کو بھی اس پر تکلیف پہنچنی چاہئے۔ وہ یہ سمجھیں کہ یہ ہمارا کام ہے اور اس کی وجہ سے ان کے ساتھ یہ معاملہ پیش آیا ہے، اس لئے وہ ان کے واسطے دعائیں کریں اور جتنا ان سے ان کے ساتھ تعاون ہو سکتا ہو، ان کا تعاون کریں، تاکہ وہ اس مشکل مرحلے سے نکل جائیں۔ یہ چیز ضروری ہے اور آج کل اسی چیز کی کمی ہے۔ مولانا یوسف کاندھلوی صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ نے آخری بیان میں جو فرمایا تھا کہ ’’افسوس! امت سے امت پنَّا ختم ہو گیا‘‘، وہ یہی بات تھی۔ ہم لوگ بحیثیتِ امت سوچنا چھوڑ چکے ہیں، بحیثیتِ فرد سوچتے ہیں۔ علامہ اقبال کی جو ’’خودی‘‘ ہے، یہ اصل میں بحثیتِ امت خودی ہے، بحیثیتِ فرد نہیں ہے۔ اگر آپ اس کو بحثیتِ فرد کہیں تو یہ خود رائی اور تکبر کی صورت اختیار کر جائے گی، لیکن اگر آپ اسے بحیثیتِ امت سمجھیں تو پھر یہ غیرت، اللّٰہ تعالیٰ پر بھروسہ اور توکل کے حکم میں آئے گی۔ اس لئے اگر ہم لوگ ان معنوں میں دیکھیں تو ہمارے سامنے کام کرنے کا بہت وسیع میدان ہے۔ اللّٰہ جل شانہ اس میں ہمیں کامیاب فرمائے۔

وَ آخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ