اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
سوال نمبر 1:
السلام علیکم، آپ نے مراقبہ دیا تھا تو اب میرے دل سے اللہ اللہ کی آواز آ رہی ہے اور آپ نے جو تین تسبیحات دی تھیں وہ بھی چل رہی ہیں۔
جواب:
ما شاء اللہ، ان تین تسبیحات کو تو عمر بھر جاری رکھنا ہے اور اب دس منٹ کی جگہ پندرہ منٹ دل پر اللہ اللہ کی آواز سننے کی کوشش کریں۔
سوال نمبر 2:
السلام علیکم حضرت جی
Allah سبحانہ و تعالیٰ give you acceptance in both worlds! You asked me about my احوال, I listen to some of your bayans to understand what to write to you? These are the following.
No. 1: By the grace of Allah سبحان و تعالیٰ stop using facebook I used to a lot.
No. 2: Professional jealousy at work exists especially with the person. Now I am trying to keep my heart clean from him even if I know he is harming me behind my back.
No. 3: Keeping relations with my kith and kin and even though I used to have different relations to some family members. But now الحمد للہ trying to improve
No. 4: الحمد للہ pray all صلوۃ with jamat but خشوع is lacking. That's all I could think of. If there is anything else you want to know please let me know. Waiting for your further instructions. My Zikr
’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘ 200 times
’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ 400 times
’’حَقْ‘‘ 600 times
’’اَللہ‘‘ 500 times
Ten minutes مراقبہ on قلب، روح، سرِ خفی and اخفیٰ. Fifteen minutes مراقبہ تجلیات صفات ثبوتیہ on روح done for one month الحمد للہ. Now for future waiting for your instructions.
Answer:
So, now you should do fifteen minutes مراقبہ شیونات ذاتیہ on لطیفہ سِر. For this purpose you should think that the فیض of شیونات ذاتیہ is coming to رسول اللہ ﷺ and from there to your Sheikh and from there to your لطیفہ سِر and the rest, you may keep the same.
سوال نمبر 3:
السلام علیکم سر
May Allah سبحانہ و تعالیٰ show me the right path ameen! A few days, I had the feeling, even with tears in my eyes, that I was thinking of a temporary time in the world. I have to have more concentration الحمد للہ. My anger has gone down but sometimes, it still is there.
جواب:
ٹھیک ہے، آپ مقاصد بتا رہے ہیں۔ مقاصد تو بالکل صحیح ہیں لیکن اس کے لئے جو ذرائع اختیار کرنے چاہئیں، آپ ان میں دلچسپی لیں تاکہ وہ مقاصد حاصل ہو جائیں۔ اپنے ذکر اور مراقبہ کے بارے میں آپ مجھے واضح بتایا کریں کہ وہ کیسے چل رہے ہیں اور اگلا ذکر جب دیا جائے تو پھر اس کو مکمل کریں۔ اس کے لئے جو باقاعدہ رابطہ ہے وہ رکھیں یعنی ہر مہینے اپنا معمولات کا چارٹ بھیجنا اور ساتھ ساتھ جو مہینے کا ذکر آپ کو بتایا جائے، اس مہینے میں اس کو پورا کرنا۔ یہ شروع کر لیں تاکہ آپ آگے بڑھتے جائیں۔
سوال نمبر 4:
السلام علیکم حضرت
Hope you are fine. My name is فلاں کاکا خیل. I am from زیارت .کاکا صاحب محلہ بابا خیل Now I am living in Rawalpindi. I already passed the law admission test a few days back and I will take admission in Law College but I am very interested in Islamic knowledge. I already studied all sects of Shia and Ahl-e-Hadees, Barlvi, Wahabi, Deobandi and I found that Deobandi is a true sect. Reading the book of Maulana Hakeem Akhtar رحمۃ اللہ علیہ Maualana Qasim Nanotawi رحمۃ اللہ علیہ Rasheed Ahmed Gangohi رحمۃ اللہ علیہ Ashraf Ali Thanvi رحمۃ اللہ علیہ Haji Imdad Ullah Majir Maki رحمۃ اللہ علیہ. I listen to many of your lectures which are very beneficial for me. Now I hate music. I want to become true مرید. What should I do? Going to the خانقاہ is compulsory every day?
جواب:
آپ ضرور تشریف لائیے یہ ہمارے لئے خوشی کی بات ہے۔ کیوں کہ کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی جو اولاد ہے ان کو تو اللہ تعالیٰ نے ایک نسبت عطا فرمائی ہے۔ البتہ اس کے لئے جو ہمت کرنی ہوتی ہے وہ ہمت لازمی ہے۔ تو آپ ضرور تشریف لائیے۔ آپ کو اندازہ ہو چکا ہو گا کہ ہمارے پروگرامز مغرب سے لے کر عشاء تک چل رہے ہوتے ہیں۔ ان میں آپ ضرور تشریف لایا کریں اور اگر چھٹی نہ ہو تو گیارہ بجے سے لے کر بارہ بجے تک اتوار کے دن خواتین کا بیان ہوتا ہے، اس میں مرد بھی آتے ہیں۔ مرد ہمارے ساتھ بیٹھے ہوتے ہیں اور خواتین نیچے تہہ خانے میں بیٹھی ہوتی ہیں۔ تو بہرحال آپ تشریف لانا چاہیں تو ضرور تشریف لائیں۔
سوال نمبر 5:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ میں نے بچوں کے مراقبہ کی رپورٹ دینی ہے۔ تقربیاً ان کا مراقبہ کا ایک مہینہ مکمل ہو گیا ہے، ان کی ترتیب یہ ہے۔ باقی تینوں بچوں کی الحمد للہ نماز پڑھنے اور قرآن پاک کی تلاوت پر استقامت ہے۔ رجب کے مہینہ میں ہمارا اجتماعی درود پاک ایک لاکھ اٹھارہ ہزار تھا۔ اب آپ سے درخواست ہے کہ آگے رہنمائی فرمائیں۔
نمبر 1: کا مراقبہ معیت ہے۔ پہلے پانچوں لطائف پر پانچ منٹ یہ تصور کرنا ہے کہ میرے لطیفہ کی طرف اللہ تعالیٰ محبت کے ساتھ دیکھ رہے ہیں اور میرا لطیفہ اللہ اللہ کر رہا ہے۔ اس کے بعد پندرہ منٹ کا مراقبہ معیت کا مراقبہ ہے۔ اس کے ساتھ مراقبہ کے دوران جب اللہ تعالیٰ کی معیت کا اجرا ہو تو اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگنی ہیں اور امت مسلمہ کے لئے خصوصی دعائیں کرنی ہیں۔
کیفیت:
الحمد للہ پانچوں لطائف پر ذکر محسوس ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی موجودگی کا احساس کافی حد تک ہو رہا ہے اور امت مسلمہ پر خاص کر پاکستان کے لئے دعائیں کی ہیں۔
جواب:
یہ دعائیں جاری رکھیں۔ ابھی دعاؤں کی بہت ضرورت ہے اور یہ مراقبہ کافی مفید ہے۔ اس کو جاری رکھیں۔
نمبر 2: کا مراقبہ تنزیہ اور صفات سلبیہ ہے۔ پہلے پانچوں لطائف پر پانچ منٹ یہ تصور کرنا ہے کہ میرے لطیفہ کی طرف اللہ تعالیٰ محبت کے ساتھ دیکھ رہے ہیں اور میرا لطیفہ اللہ اللہ کر رہا ہے۔ اس کے بعد پندرہ منٹ کا مراقبہ تنزیہ اور صفات سلبیہ کا مراقبہ کرنا ہے۔ ایک ناغہ ہوا ہے۔ کیفیات کچھ محسوس نہیں ہو رہی ہیں۔
جواب:
آپ نے یہ نہیں بتایا کہ مراقبہ تنزیہ اور صفات کا کیا اثر ہے؟
نمبر 3: درود پاک دو سو مرتبہ، تیسرا کلمہ دو سو مرتبہ، استغفار دو سو مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘ 200 مرتبہ اور ’’اَللہ‘‘ 300 مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ 200 مرتبہ۔ الحمد للہ ناغہ نہیں ہوا۔
جواب:
اب اس طرح کر لیں کہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘ 200 مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ اور ’’حَقْ‘‘ یہ دونوں 300، 300 دفعہ اور ’’اَللہ‘‘ 100 دفعہ۔
سوال نمبر 6:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
Ya Maulana, I really hope you are well ان شاء اللہ. It's not a question but a description of my state during Zikr. I feel a great peace in my heart especially when doing the صلوٰۃ صلوات on the Holy Prophet ﷺ and also during the loud voice of the recitation. I feel that it makes my faith grow الحمد للہ. May Allah bless you and preserve you Maulana! Ameen!
Answer:
It is very good ان شاء اللہ continue it.
سوال نمبر 7:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
Respected honorable مرشد صاحب I pray that you and your beloved ones and your loved ones are well Ameen! Hazrat اقدس I wish to share the Zikr update both of my wife and mother as their thirty days have been completed.
Wife: current zikr 10 minutes Allah Allah مراقبہ on لطیفہ قلب کیفیت she says she feels nothing but feels peaceful in مراقبہ and wants to force sleep in the state. She states that her love of Allah has increased and فکر to act on شریعت
Note: for some of the initial days of her مراقبہ I noticed that she was always using her tongue voice to say Allah Allah lightly. I corrected her and told her that a tongue should not move.
جواب:
OK. الحمد للہ یہ بہت اچھی بات ہے۔ اب دس منٹ کی جگہ ان کو پندرہ منٹ کا مراقبہ بتا دیں اسی طریقے سے۔
Mother: current zikr ten minutes Allah Allah مراقبہ at لطیفہ قلب
کیفیت: She feels Allah from her heart most days and has more indication towards worship.
Note: In مراقبہ on the third day she saw a sharp round light and on some days she was able to see colorful dim light moving. Some days, she sees low dim light and also some scenery once where she saw and told that at the back of house and there was blue light in the water. She sees all this even though her eyes were closed
جواب:
اب ان کو پندرہ منٹ کا مراقبہ بتا دیں اور ان چیزوں کی طرف دھیان نہ کریں۔ ان چیزوں میں کچھ نہیں ہے۔ اصل میں تو اللہ تعالیٰ کا تعلق حاصل کرنا ہے، بس اسی کی طرف دھیان رکھیں اور جو مراقبہ ہے پندرہ منٹ کا، اس میں اللہ اللہ ہوتا ہوا محسوس کر لیں اور یہ بھی ساتھ محسوس کریں کہ اللہ تعالیٰ محبت کے ساتھ مجھے دیکھ رہے ہیں۔
سوال نمبر 7:
السلام علیکم محترم حضرت جی، زبانی ذکر 4000 مرتبہ، مراقبہ دل پندرہ منٹ۔ ذکر میں دھیان رہتا ہے کہ اللہ پاک کا ذکر کر رہی ہوں۔ مراقبہ میں خیالات آنا شروع ہو جاتے ہیں۔ منزل کی پابندی ہے۔ تہجد میں مکمل پابندی نہیں ہے۔ میں نے خواب دیکھا کہ آپ نے پیغام بھیجا ہے کہ میرے لئے چاکلیٹ بھیجو۔ میں سوچتی ہوں کہ سب سے اچھی کون سی چاکلیٹ ہے جو میں آپ کو بھیجوں؟ بچوں کے لئے خصوصی دعا کی درخواست ہے۔
جواب:
زبانی ذکر اب 5000 مرتبہ کر لیں اور مراقبہ یہی رکھیں۔
سوال نمبر 8:
السلام علیکم نام فلاں، تعلیم فلاں، شہر فلاں۔ تسبیحات: کلمہ سوم 100 مرتبہ، درود ابراہیمی 100 مرتبہ، استغفار 100 مرتبہ۔ لسانی ذکر ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘ 200 مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ 400 مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ 600 مرتبہ اور ’’اَللہ‘‘ 500 مرتبہ۔
قلبی ذکر: لطیفۂ قلب، لطیفۂ روح، لطیفۂ سِر، لطیفۂ خفی، لطیفۂ اخفیٰ پر دس منٹ، مراقبہ شیونات ذاتیہ پندرہ منٹ۔ یہ مراقبہ سمجھنے میں کچھ مشکل آئی۔ مجھے اکثر یہ مشکل ہوتی ہے کہ کیفیت بیان نہیں ہوتی، مراقبہ محسوس ہوتا ہے۔ دل و دماغ ہر چیز سے خالی ہوتا ہے اور صرف اللہ کا نام ہے۔ سوچ اور خیال ایک حد سے آگے نہیں بڑھتے۔ فکر کیسے develop ہو گی؟
جواب:
اب آپ مراقبہ شیونات ذاتیہ کر لیں کیونکہ صفات ثبوتیہ میں پہلے صفات کے ذریعے سے ہمیں اللہ تعالیٰ کے بارے میں سوچنے کی کوشش نصیب ہوئی۔ اب ان صفات کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کی ذات کی طرف متوجہ ہونا ہے۔ اس مراقبے میں یہ سوچنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کی شیونات کا جو فیض ہوتا ہے، وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ ﷺ کی طرف آ رہا ہے اور آپ ﷺ کی طرف سے آپ کے شیخ کی طرف آ رہا ہے اور آپ کے شیخ سے آپ کے لطیفۂ سر پہ آ رہا ہے۔
سوال نمبر 9:
السلام علیکم، حضرت لاہور سے فلاں عرض کر رہا ہوں۔ حضرت گذشتہ مہینہ 06 تاریخ کو آپ نے میرے جہری ذکر میں 200، 400، 600 ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘، ’’حَقْ‘‘ کے ساتھ ’’اَللہ اَللہ‘‘ 6500 پڑھنے کا فرمایا تھا، جس کا ایک ماہ ہو جائے گا ان شاء اللہ۔ آپ سے مزید رہنمائی کی درخواست ہے۔ حضرت احوال کے بابت عرض ہے کہ کچھ روز قبل ایک دن میری فجر کی نماز قضا ہو گئی تھی۔
جواب:
ہمارے ہاں طریقہ کار یہ ہے کہ اگر نماز قضا ہو جائے تو اپنے نفس کے اوپر بطور جرمانہ کے تین روزے رکھنے کا بتاتے ہیں۔ کیونکہ نفس کو آزادی نہیں دینی چاہیے۔ ویسے بھی روزوں کے دن ہیں، تو آپ تین روزے رکھ لیں تاکہ آئندہ نفس اس قسم کی سستی نہ کرے اور ”اللہ اللہ“ اب 7000 مرتبہ کریں۔
سوال نمبر 10:
السلام علیکم محترم مرشدی دامت برکاتھم، امید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گے۔ حضرت جتنا مجھے شوق اللہ سے ملاقات کا ہے آخرت میں، اتنا شوق مجھے نبی کریم ﷺ کی ملاقات کا نہیں۔ کیا یہ جذبات غلط ہیں؟
جواب:
اصل میں اللہ اور اللہ کے رسول، یہ جو دونوں کی محبتیں ہیں، یہ ایک ہی ہیں۔ ظاہری طور پر ایک کا غلبہ ہو سکتا ہے دوسرے کے مقابلہ میں، لیکن اگر اللہ کے ساتھ محبت ہے تو آپ ﷺ کے ساتھ بھی محبت ہو گی۔ آپ ﷺ کے ساتھ محبت ہے تو اللہ کے ساتھ بھی محبت ہو گی۔ ان دونوں کی محبت میں کوئی حد نہیں کھینچی جا سکتی، کیوں کہ آپ ﷺ نے اللہ کی محبت کی دعوت دی ہے اور اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کی طرف بلایا ہے۔ اللہ پاک کا ارشاد ہے: ﴿قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ﴾ (آل عمران: 31)
ترجمہ: (اے پیغمبر لوگوں سے) کہہ دو کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا۔
لہذا اس میں افراط و تفریط کی ضرورت نہیں ہے۔ دونوں محبتیں اپنی اپنی جگہ بہت اہم ہیں۔ یعنی اللہ کی محبت اور آپ ﷺ کے ساتھ محبت۔ لہذا ان دونوں میں کوئی فرق نہیں کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کی محبت سے آپ ﷺ کی محبت حاصل ہوتی ہے کیونکہ آپ ﷺ اللہ پاک کے محبوب ہیں اور آپ ﷺ کی محبت سے اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل ہوتی ہے۔ کیونکہ آپ ﷺ ہمیں اللہ تعالیٰ کے محبت کی دعوت دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی توحید کی طرف لاتے ہیں۔ لہذا ان دونوں میں فرق نہیں کرنا چاہیے۔
سوال نمبر 11:
السلام علیکم
My name is فلاں. You told me to do Zikr of third kalma for forty days but I skipped one day. Should I start again?
Answer: Actually this was not third kalma it was in parts 300 times
”سُبْحَانَ اللہِ وَ الْحَمْدُ لِلّٰہِ وَ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَ اللہُ اَکْبَرُ“
And 200 times
”لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ“
If you have done this way so ok, otherwise do it again ان شاء اللہ and it has normal برکات ان شاء اللہ you will get them.
سوال نمبر 12:
السلام علیکم حضرت میں فلاں ہوں اللہ تعالیٰ آپ کو صحت اور عافیت میں رکھے علاجی ذکر کو ایک ماہ ہو گیا تھا سب لطائف کا ذکر پانچ منٹ اور مراقبہ تنزیہ اور صفات سلبیہ پندرہ ملا ہوا تھا مراقبہ دعائیہ بھی دس منٹ کا ملا ہوا تھا حضرت جی وساوس کا مسئلہ ہوتا ہے پھر بھی الحمد للہ کچھ حد تک ذکر محسوس ہوتا ہے مراقبہ کے اثر کا اندازہ نہیں ہو سکا، حضرت جی اس کے اثر میں کیا حاصل ہونا چاہیے؟ اللہ پاک سب انسانی کمزوریوں سے پاک ہے اور اس کی کوئی مثال نہیں۔ مراقبہ دعائیہ میں کبھی سستی بھی ہو جاتی ہے باقی معمولات جاری ہیں۔ چہل درود شریف، مناجات مقبول کبھی رہ جاتی ہے۔ اس کے علاوہ حضرت جی میرے شوہر ابھی گذشتہ جمعرات آپ سے بیعت بھی ہوئے الحمد للہ اور اصلاحی ذکر اور نماز بھی شروع کی ہے آپ ان کے لئے استقامت کی دعا کریں۔ حضرت اس جوڑ میں شب برأت میں صلوٰۃ خیرات کا بتایا گیا تھا کہ بزرگوں کا طریقہ رہا ہے 100 رکعت نفل ہر رکعت میں دس بار سورۃ اخلاص اس کے بعد جو دعا کریں قبول ہوتی ہے اس کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟
جواب:
دیکھیں شب برأت بذات خود بہت برکت والی رات ہے اور اس میں اللہ جل شانہ کی طرف سے بہت انعامات اور برکات ملتے ہیں۔ یہ سب سے بڑی بات ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا ہے کہ اس میں اعمال اٹھائے جاتے ہیں اور رزق اتارے جاتے ہیں تو اس کا تعلق تکوینی امور کے ساتھ ہے اور تکوینی امور کو ہمیشہ مخفی رکھا جاتا ہے یہ اللہ تعالیٰ کی سنت عادیہ ہے اس وجہ سے اس رات کو اتنا ظاہر نہیں کیا گیا جتنا کہ لیلۃ القدر کو ظاہر فرمایا گیا ہے تو جو اہل بصیرت ہیں ان کے اوپر یہ بات کھلی ہے وہ اس کو جانتے بھی ہیں اور مانتے ہیں اور بتاتے بھی ہیں لیکن جو دوسرے حضرات ہیں چونکہ ان کے لئے استدلال کا وہ طریقہ جو کہ عام طور پر ہوتا ہے اس کے ذریعہ سے اس کو نہیں کھولا گیا، لہذا اگر کوئی نہ مانے تو اس کی مرضی، ہمیں انکار نہیں کرنا چاہیے، خود کام کرنا چاہیے۔ کسی اور کو مطمئن کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ جس کو پتا ہو کہ اس کا فائدہ ہے تو اس کو وہ کام کرنا چاہیے اس کو ما شاء اللہ فائدہ حاصل ہوتا ہے۔ میں خود اگر عرض کروں کہ میری زندگی کا Life turn یہی رات ہے تو غلط نہیں ہو گا۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے الحمد للہ کہ اس کی برکت سے اللہ جل شانہ نے بہت ساری نعمتوں سے نوازا۔ اس وجہ سے جو بھی اس کے بارے میں علمی طور پر رد کرے اس کے ساتھ مناظرہ نہیں کرنا چاہیے۔ مناظرہ کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ حدیث شریف کی قسمیں ہوتی ہیں۔ ایک حدیث شریف صحیح ہوتی ہے، ایک حدیث شریف ضعیف ہوتی ہے، ایک حدیث شریف موضوع ہوتی ہے۔ تو موضوع کو موضوع کہنا ضروری ہے تاکہ وہ سنت کے ساتھ خلط ملط نہ ہو جائے۔ لیکن جو حدیث شریف ضعیف ہے اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ وہ موضوع ہے بلکہ اس کی سند میں کمزوری ہوتی ہے اور سند میں کمزوری کسی بھی وجہ سے آ سکتی ہے۔ مثلاً ایک راوی اگر مجہول ہو جس کو کوئی جانتا نہ ہو تو اس کی بیان کی ہوئی حدیث شریف ضعیف ہو گئی۔ لیکن کیا کسی راوی کا مجہول ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے؟ یہ اس بات کی دلیل نہیں ہے۔ میں اس کی مثال دیتا ہوں کہ اگر کوئی شخص راستہ پہ جا رہا ہو اور کوئی اس کو کہہ دے کہ آگے ہڑتال ہے، راستہ بند ہے۔ اب جس نے اس کو خبر دی اس کو وہ جانتا نہیں ہے لیکن اس کے دل میں خطرہ پیدا ہو گیا، لیکن وہ سوچتا ہے کہ چلو کوئی بات نہیں۔ تھوڑی دور جا کر ایک اور مجہول شخص اس کو یہ بات بتاتا ہے۔ تو اس کے دل میں خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ آگے جا کر اگر تیسرے نے بتا دیا تو کیا خیال ہے پھر بھی جائے گا آ گے؟ نہیں پھر نہیں جائے گا۔ حالانکہ یہ تینوں مجہول ہیں۔ حضرت مولانا تقی عثمانی صاحب نے احادیث مبارکہ کے متعلق یہی اصول ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ اگر حدیث کمزور ہو لیکن وہ مختلف طریقوں سے مروی ہو تو مختلف طریقوں سے آنا اس کو مضبوط کر دیتا ہے۔ اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ فضائل کی متعلق حدیث شریف ضعیف بھی ہو پھر بھی اس کا استعمال فقہا نے جائز بتایا ہے۔ یعنی اس کو بدعت نہیں کہا۔ بدعت تو وہ ہوتی ہے جس کی کوئی دلیل ہی نہ ہو۔ جس کی کوئی بنیاد ہی نہ ہو لیکن یہ حدیث موضوع نہیں بلکہ حدیث ضعیف ہے۔ مثال کے طور پر اگر مختلف طرق سے مروی ہو تو اس میں طاقت آ جاتی ہے۔ کیونکہ یہ اس میں کئی طرق سے آئی ہے۔ اس وجہ سے اس خطرے کے پیش نظر کہ اگر یہ چانس مجھ سے مِس ہو گیا تو پھر نہیں ملے گا تو اس کو ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ دوسری بات یہ ہے کہ چونکہ تکوینی امور کے ساتھ تعلق ہے اور تکوینی امور کا معاملہ قرآن سے ثابت ہے۔ ﴿ظَهَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ۔﴾ (الروم: 41)
ترجمہ: ’’لوگوں نے اپنے ہاتھوں جو کمائی کی، اس کی وجہ سے خشکی اور تری میں فساد پھیلا۔‘‘
گویا اعمال کا اس پر اثر ہوتا ہے۔ مثلاً اگر اعمال اچھے ہیں تو اچھے فیصلے اتریں گے۔ اگر اعمال برے ہیں تو سخت فیصلے آئیں گے۔ تو اگر مختلف طرق سے کسی نے بتا دیا ہے کہ اس میں اعمال اٹھائے جاتے ہیں اور رزق اتارے جاتے ہیں تو کیا خیال ہے؟ ایک شخص اگر ایسا ہو کہ اس کے اوپر حکم لگنے والا ہو کہ پھانسی کی سزا بھی ہو سکتی ہے، عمر قید بھی ہو سکتی ہے اور کچھ سالوں کی قید بھی ہو سکتی ہے اور بری بھی ہو سکتا ہے۔ تو اس دن جب اس کا فیصلہ ہونے والا ہو، تو کیسے رہے گا؟ بہت زیادہ اللہ کی طرف متوجہ ہو گا۔ بس یہی بات ہے کہ ہم لوگ اس رات میں اللہ کی طرف متوجہ ہوں کیوں کہ ہماری طرف خود اللہ پاک کی رحمت متوجہ ہے اور عام دنوں میں سحری کے وقت آواز لگتی ہے، اس میں پوری رات آواز لگتی ہے لہٰذا اللہ پاک سے مانگنا چاہیے۔ بہرحال میں یہ نہیں کہتا کہ یہ جو آپ نے بتایا ہے اس طرح نہ کریں کیونکہ اس کی دلیل میرے پاس نہیں ہے۔ یہ کوئی تجرباتی بات ہو گی۔ ہم جو تجرباتی بات آپ سے عرض کریں گے وہ اپنے تجربہ کی بنیاد پر کریں گے۔ ظاہر ہے یہ آپ نے کسی اور کے تجربہ کی بات کی ہے، اس کو میں رد نہیں کروں گا۔ لیکن ہمارے ہاں بزرگوں نے فرمایا ہے کہ اعمال کا گلدستہ بنائیں۔ تو اعمال کا گلدستہ اس طرح بنائیں کہ مختلف اعمال کریں جن کو حدیث شریف میں اچھا بتایا گیا ہے۔ مثلاً نفل پڑھنا، ذکر کرنا، دعا کرنا اور تلاوت کرنا یہ سب اچھے اعمال ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف براہ راست متوجہ کرنے والے اعمال ہیں۔ لہذا ان اعمال میں لگنا چاہیے۔ ہم نے یہ طریقہ دیکھا ہے کہ اگر اس کو بدل بدل کے کیا جائے تو اس میں انسان کو نشاط رہتا ہے۔ مطلب کچھ نوافل پڑھے، پھر اس کے بعد کچھ تلاوت کر لے، کچھ ذکر کر لے، درود شریف پڑھ لے، استغفار کر لے اور کچھ دعائیں کرے۔ دعاؤں میں مناجات مقبول جس میں مسنون اور قرآنی دعائیں ہیں وہ آپ پڑھ لیں ان شاء اللہ العزیز آپ کو جو چاہیے مل جائے گا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو نصیب فرمائے۔
سوال نمبر 13:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ حضرت اقدس مزاج بخیر ہوں گے۔ بندہ کو جو ذکر دیا تھا اس کا ایک مہینہ بلا ناغہ پورا ہو گیا اور وہ یہ تھا 200 مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘ 400 مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ 600 مرتبہ ’’حَقْ‘‘ اور 500 مرتبہ ’’اَللہ‘‘ اور پندرہ منٹ تک مراقبہ شیونات ذاتیہ۔ جس کا اثر سوائے اس کے کہ بعض اوقات لطیفہ سِر پر کچھ درد اور گرمی محسوس ہوتی ہے اور کچھ محسوس نہیں ہوتا۔
جواب:
ذکر کا ایک اثر ایسا ہوتا ہے جیسے کہ جسم کی کیفیت میں اثر، جیسے آپ بتا رہے ہیں اور ایک اثر یہ ہے کہ آپ کے اعمال پر کیا اثر پڑا۔ جیسے عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ اصل ذکر وہ ہے جو انسان کو گناہوں سے بچائے۔ اللہ پاک کا استحضار اتنا حاوی ہو جائے کہ انسان گناہ نہ کر سکے۔ اصل فائدہ تو اس کا یہ ہے۔ لیکن بہرحال ہر مراقبہ کا اپنا ایک فائدہ بھی ہے۔ یہ مراقبہ چونکہ شیونات ذاتیہ کا ہے یعنی اللہ پاک کی طرف خاص توجہ کا ہے، اللہ پاک کی صفات سے آگے بڑھ کر اللہ پاک کی ذات کی طرف توجہ کرنے کا مراقبے کا ہے۔ ایک بات یاد رکھیے کہ ایک حدیث قدسی ہے، جس میں اللہ پاک فرماتے ہیں کہ میں بندے کے گمان کے ساتھ ہوں، جیسا گمان وہ میرے ساتھ رکھتا ہے۔ بعض احادیث شریفہ ایسی ہیں جن کو اگر کوئی انسان سمجھ جائے تو بہت ساری چیزیں واضح ہو جاتی ہیں۔ جیسے ”اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ“ (بخاری شریف، حدیث نمبر: 1) ہے۔ اس حدیث شریف میں اگر آپ غور کریں گے تو ہر چیز کے اندر اس کا اثر آپ دیکھیں گے۔ اسی طرح یہ حدیث شریف ”اَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِیْ بِیْ“ کہ میں بندے کے گمان کے ساتھ ہوں۔ اب اللہ کے ساتھ جو گمان آپ کریں گے تو اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ وہی معاملہ کرے گا۔ اگر اللہ پاک کی صفت رحیم آپ کے اوپر غالب ہے تو اللہ کی رحمت آپ کی طرف متوجہ ہو گی۔ اگر صفتِ کریم آپ پر غالب ہے تو اللہ تعالیٰ کا کرم آپ کی طرف متوجہ ہو گا۔ اگر اللہ پاک کی کوئی اور صفت آپ پر غالب ہے تو وہی صفت آپ کی طرف متوجہ ہو گی۔ چنانچہ اب آپ کو شیونات ذاتیہ کا مراقبہ کرنا چاہیے اور جو آٹھ صفات ہیں ان سے آگے بڑھنا چاہیے کیونکہ انسان بعض دفعہ صفات میں پھنس جاتا ہے، تو پھنسنے کی بجائے آگے بڑھنا چاہیے۔ کیونکہ اصل میں تو ساری صفات ذات کے ساتھ وابستہ ہیں تو جس کا ذات کے ساتھ تعلق ہو جائے تو پھر وہ صفات میں پھنستا نہیں ہے بلکہ ہر حالت میں اللہ پاک کے ساتھ ہوتا ہے اور جو صفات میں پھنس جائے، تو جس صفت میں پھنسا ہے اس صفت کے ساتھ تو ہو گا باقی صفات کے ساتھ نہیں ہو گا۔ لہذا اس میں پھر مسائل ہو سکتے ہیں۔ تو شیونات ذاتیہ کو آپ اس انداز میں لیں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کی طرف متوجہ ہونے کا جو فیض ہے وہ فیض اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ ﷺ کی طرف آ رہا ہے اور آپ ﷺ ہر آن اللہ کی طرف متوجہ تھے، تو یہ وہی فیض ہے۔ پھر وہ آپ ﷺ کی برکت سے شیخ پہ آ رہا ہے تو شیخ بھی اپنی حیثیت کے مطابق اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوتا ہے، پھر اس کے بعد آپ کی طرف آ رہا ہے۔ تو اصل میں یہی وہ چیز ہے جو انسان کی زندگی میں تبدیلی لاتی ہے۔ بس آپ اس پر غور کریں۔
سوال نمبر 14:
السلام علیکم حضرت جی میرا مراقبہ چار ماہ سے جاری ہے۔ اگلے مرحلہ کی رہنمائی فرمائیں۔ مراقبات پانچ منٹ کرنے ہیں۔ پانچ منٹ کے لئے مراقبہ دل پر ’’اَللہ اَللہ‘‘ لطیفہ روح پر پانچ منٹ، لطیفہ سر پانچ منٹ، لطیفہ خفی پانچ منٹ اور پندرہ منٹ مراقبہ تجلیات افعالیہ کرتا ہوں۔
کیفیت: ابھی کیفیت میں توازن ہے لیکن مجھ سے اعمال نفلی میں ترقی نہیں ہو رہی۔
جواب:
اس کے بعد اب مراقبہ صفات ثبوتیہ شروع کر لیں۔ اللہ پاک کی جو آٹھ صفات ہیں آپ ان کا استحضار کر لیں۔ اللہ پاک کا علم، اللہ پاک دیکھ رہے ہیں، اللہ جل شانہ کی قدرت میں سب کچھ ہے، اللہ جل شانہ حیّ ہے اور اللہ پاک نے ساری چیزوں کو پیدا کیا ہے، اللہ پاک سن رہے ہیں، اللہ کا کلام ہے۔ ان سب چیزوں کا جو فیض ہے آپ سوچیں کہ وہ فیض اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ ﷺ کی طرف اور آپ ﷺ کی طرف سے آپ کے شیخ کی طرف اور آپ کے شیخ سے آپ کے لطیفہ روح پہ آ رہا ہے۔ اب یہ شروع کر لیں۔
سوال نمبر 15:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ نام فلاں، والد فلاں، شہر فلاں، تعلیم یہ ہے۔ گذشتہ ماہ کے اذکار قلبی: ذکر لطیفہ قلب، لطیفہ روح، لطیفہ سر، لطیفہ خفی، لطیفہ اخفیٰ دس دس منٹ، مراقبہ تجلیات افعالیہ پندرہ منٹ، کیفیت اچھی ہے، اب غصہ نہیں آتا۔ بچپن سے مایوسی والی زندگی گزر رہی ہے، جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ سے بہت دوری تھی۔ اب اللہ تعالیٰ سے اپنائیت کا احساس ہو رہا ہے۔ شکر گزاری آتی جا رہی ہے۔ روزانہ کی تسبیحات معمول کے مطابق جاری ہیں الحمد للہ۔
جواب:
سبحان اللہ بڑی اچھی بات ہے، اللہ کا شکر ہے آپ کو اس سے فائدہ ہوا۔ اب آپ مراقبہ صفات ثبوتیہ کرنا شروع کر دیں۔ مراقبہ صفات ثبوتیہ کا مطلب یہ کہ اللہ پاک کی جو آٹھ صفات ہیں یعنی اللہ پاک دیکھ رہے ہیں، اللہ پاک سن رہے ہیں، اللہ پاک کلام فرماتے ہیں، اللہ پاک کی قدرت، اللہ پاک کا ارادہ، ان تمام چیزوں کا جو فیض ہے وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ ﷺ کی طرف اور آپ ﷺ کی طرف سے آپ کے شیخ کی طرف، آپ کے شیخ کی طرف سے آپ کے لطیفۂ روح پر آ رہا ہے۔ باقی چیزیں وہی جاری رہیں گی جو پرانی ہیں۔
سوال نمبر 16:
السلام علیکم میرا مراقبہ پندرہ والا چل رہا ہے۔ اب میرے دل سے اللہ کی آواز آ رہی ہے۔ میرا ایک مہینہ پورا ہو گیا ہے۔ تین تسبیحات چل رہی ہیں۔ صبح شام کے اذکار بھی چل رہے ہیں۔
جواب:
اب آپ اس طرح کر لیں کہ دس منٹ لطیفہ قلب پہ کریں اور پندرہ منٹ لطیفہ روح پہ۔ لطیفہ روح یہ ہے کہ جیسے اگر پورے جسم کے درمیان ایک خط کھینچا جائے تو وہ لائن جہاں جہاں سے گزر رہی ہے اور اس میں دل کی طرف جتنا فاصلہ ہے دائیں طرف اتنے فاصلے پر جسم کا جو حصہ ہے وہ جگہ لطیفہ روح کہلاتی ہے وہاں بھی پندرہ منٹ کریں اور دس منٹ دل کے اوپر۔
سوال نمبر 17:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
I pray you are well Hazrat G. This is فلاں from UK. Another month has passed to my مراقبہ facing قبلہ and imagining my heart saying “اَللہ اَللہ” for ten minutes. Unfortunately, still I am not feeling it and sometimes I think that I felt it more when I started last year. I have also attached my معمولات چارٹ for the last month. The first day, I was traveling and so missed my entries but ان شاء اللہ it will not happen again. I also sadly missed three prayers this month for which I am almost keeping the nine fasts. Kindly advise for the next. I also wanted to ask a question dear Sheikh. Maulana Yousaf Mutala رحمۃ اللہ علیہ had advised a model for life when he was alive which I think was.
No. 1: Ten year of age childhood, ten to twenty studying hard, twenty to thirty working on becoming financially stable and thirty to forty full focus on اصلاح and forty onward ارشاد و تبلیغ. I wanted to ask if it is still applicable today or not?
جواب:
ما شاء اللہ بڑی خوشی ہوئی کہ آپ نے اپنا اصلاح کا کام جاری رکھا ہے۔ اب دل کا سننے والا مراقبہ دس منٹ کی جگہ پندرہ منٹ کر لیں اور باقی اعمال وہی کرنے ہیں۔ ہر ایک کا اپنا اپنا تجربہ ہوتا ہے۔ ہم تو کہتے ہیں کہ اصلاح کا کام بچپن سے شروع ہوتا ہے۔ یہ ایسی چیز ہے کہ اس کو ملتوی نہیں کیا جا سکتا کیونکہ قرآن پاک میں اللہ پاک فرماتے ہیں جس کا مفہوم ہے کہ کوئی جوان ہوتا ہے پھر بوڑھا ہوتا ہے، اور کوئی جوان ہونے یا بڑھاپے سے پہلے ہی مر جاتا ہے۔ ہر کوئی بڑھاپے تک نہیں پہنچتا۔ تو اس زندگی کا چونکہ پتا نہیں ہے لہذا یہ جو اصلاح والا عمل ہے اس کو متاخر نہیں کیا جا سکتا۔ ہر ایک کی اپنی ریسرچ ہے۔ میں ان کی ریسرچ کو چیلنج نہیں کرتا لیکن ہمارا خیال یہی ہے کہ بچن سے اصلاح کا عمل شروع ہو جاتا ہے اور بچپن سے ہی اصلاح جتنی جلدی ہوتی ہے اتنی زیادہ مؤثر ہوتی ہے، کیونکہ انسان جتنی بڑی عمر کو پہنچتا ہے تو پھر اس کا متاثر ہونا کم ہو جاتا ہے۔ یعنی بوڑھے لوگ بہت کم لوگوں سے متاثر ہوتے ہیں۔ جوان جلدی متاثر ہوتے ہیں اور بچے تو اور زیادہ جلدی۔ تو اگر ہم اصلاح کا کام تاخیر سے شروع کریں تو پھر وہ جو متاثر ہونے والا سلسلہ ہے وہ کم ہو جائے گا۔ تو پھر نتیجہ کیا ہو گا؟ لہٰذا اس بارے میں میری رائے یہ ہے کہ یہ ساری چیزیں ساتھ ساتھ چل سکتی ہیں۔ الحمد للہ پشاور یونیورسٹی میں ہم نے داخلہ لیا۔ ہم نے داخلہ اسلامیہ کالج میں لیا تھا لیکن ہمیں وہاں شیخ مل گئے، الحمد للہ شیخ کے پاس آنا جانا بھی تھا اور کالج میں پڑھتا بھی تھا۔ دونوں چیزیں ساتھ ساتھ چل رہی تھیں۔ الحمد للہ وہ ہماری زندگی کے بہترین دن تھے۔ تو یہ چیزیں ساتھ ساتھ چل سکتی ہیں۔ اگر شیخ محقق ہو تو وہ معاش والے سلسلے کو بھی روکنے نہیں دیتے، اس کے بارے میں بھی ان کو فکر ہوتی ہے۔ بلکہ خود وہ اس پر زور دیتے ہیں کہ ایسا کرو ویسا کرو اور اصلاح والا کام بھی جاری رہتا ہے۔ لہذا ہم تو کہتے ہیں کہ اس کو ہر وقت جاری رہنا چاہیے۔ و اللہ اعلم بالصواب
سوال نمبر 18:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ حضرت 200 مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘ 400 مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ 600 مرتبہ ’’حَقْ‘‘ اور 3500 مرتبہ اسم ذات ’’اَللہ‘‘ کا ذکر اور لطیفہ قلب، روح، لطیفہ سر، خفی اور اخفیٰ دس منٹ اور مراقبہ تجلیات افعالیہ اور مراقبہ توحید افعالی پندرہ منٹ جاری ہے اور چار دن ناغے ہوئے ہیں۔ ذکر اور مراقبہ دونوں اکثر بغیر وضو کے ہوتا ہے۔ ذکر عموماً صبح اور مراقبہ رات سونے سے پہلے۔ مہینہ پورا ہو گیا ہے۔ جو کیفیت بوجھ والی تھی اس میں کمی ہے۔ البتہ ہمیشہ کی طرح مراقبہ میں یکسوئی حاصل نہیں ہو سکی۔
جواب:
ما شاء اللہ جو تجلیات افعالیہ ہیں آپ اس کی جگہ اب مراقبہ صفات ثبوتیہ کر لیں۔ البتہ ذکر اور مراقبہ دونوں میں کوشش کریں کہ وضو کے ساتھ ہوں۔ کیوں کہ وضو ”سِلَاحُ الْمُؤْمِنِ“ ”مومن کا اسلحہ“ ہے۔ یعنی شیطانی چیزوں سے اور دوسری چیزوں سے یہ بچاتا ہے۔ جتنی پاکی دل میں ہو گی اتنا اثر زیادہ ہو گا۔ وضو اگرچہ اس کے لئے لازمی نہیں ہے لیکن یہ جو اصلاح کا طریقہ ہے اس میں یہ تجربہ ہے کہ اگر کوئی با وضو حالت میں ذکر کرتا ہے تو اس کا اثر بہت زیادہ ہوتا ہے۔ ثوابی ذکر اگر آپ بغیر وضو کے کر لیں تو کوئی آپ کے اوپر پابندی نہیں لگائے گا، ثواب پھر بھی ہو گا۔ چونکہ اس کے لئے شریعت نے پابندی نہیں لگائی تو آپ کے اوپر کوئی اور کیسے پابندی لگائے گا؟ البتہ یہ ضرور ہے کہ اگر آپ اصلاح کے لئے ذکر کرتے ہیں تو اس میں اصلاح مقصود ہوتی ہے، ذکر کے الفاظ مقصود نہیں ہوتے۔ کسی نے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا تھا ہم کہ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ کا ذکر کرتے ہیں تو بعض دفعہ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ پورا صحیح طور پہ ادا نہیں ہوتا، کیونکہ ذکر کے الفاظ میں کیفیت آ جاتی ہے۔ فرمایا: یہاں پر کیفیت مطلوب ہے، الفاظ مطلوب نہیں ہیں۔ چنانچہ ذکر اور مراقبہ دونوں وضو کے ساتھ کر لیں، اس سے آپ کو فائدہ ہو گا ان شاء اللہ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو نصیب فرمائے۔
سوال نمبر 19:
السلام علیکم شاہ صاحب امید ہے آپ خیریت سے ہوں گے۔ الحمد للہ میرا 1500 مرتبہ ’’اَللہ اَللہ‘‘ کے ذکر کا ایک مہینہ بغیر ناغے کے پورا ہو گیا ہے۔ قرآن پاک حفظ کیا تھا، اب وہ کچا ہے۔ اس کی کوئی مناسب ترتیب بتا دیں اور حج بھی فرض ہے لیکن بچے چھوٹے ہیں اس کی کیا مناسب ترتیب ہو سکتی ہے اور غیبت سے کیسے بچنے کی کوشش کروں؟
جواب:
ما شاء اللہ۔ 1500 مرتبہ ’’اَللہ اَللہ‘‘ والا ذکر اب 2000 مرتبہ کریں۔ قرآن پاک حفظ کیا ہے تو اس کا آپ ایک معمول بنا لیں کہ دن میں اتنا وقت آپ نے قرآن پاک کو دینا ہے۔ جس حساب سے کچا ہے اس حساب سے آپ اس کو ٹائم دے دیں اور روزانہ آپ اپنے اوپر لازم کر لیں کہ میں نے اتنا حصہ قرآن پاک کا دہرانا ہے۔ بہتر یہ ہے کہ کسی اور کو سنائیں اگر یہ ہو سکتا ہے تو یہ بہت زیادہ اچھا ہے لیکن آج کل اور طریقے بھی موجود ہیں، جیسے آپ اپنی آواز ریکارڈ کر لیں، پھر اس کو سنتے رہیں۔ لیکن یہ مجبوری کے وقت ہے کہ اگر دوسرا کوئی انتظام نہ ہو سکتا ہو تو پھر یہ کر لیں۔ اور حج فرض ہے تو اگر آپ کے پاس اور وسائل موجود ہیں تو بچوں کا انتظام مناسب طریقے سے ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر کوئی شخص بیمار ہو جائے، ہسپتال میں داخل ہو جائے اس کے بچے چھوٹے ہوں تو کیا کرتے ہیں؟ کسی کے حوالے کر دیتے ہیں۔ کچھ لوگ تو ہوں گے دونوں طرف کے جو اس کو سنبھال سکتے ہیں۔ اس کے لئے آپ استخارہ بھی کر لیں امید ہے ان شاء اللہ بہتر ہو جائے گا۔
سوال نمبر 20:
السلام علیکم حضرت جی میرا نام فلاں ہے اور والد صاحب کا نام فلاں ہے۔ عمر بائیس سال ہے۔ میں سٹوڈنٹ ہوں۔ حضرت جی چھٹا ذکر آپ نے تیس دن کے لئے دیا تھا، تیسرا کلمہ، درود شریف، استغفار 200، 200 مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘ 200 مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ 400 مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ 600 مرتبہ اور’’اَللہ اَللہ‘‘ 300 مرتبہ۔ الحمد للہ مکمل ہو چکا ہے۔ آپ سے گزارش ہے کہ مجھے اگلا ذکر بتا دیں۔
جواب:
اب باقی سب وہی رکھیں اور ’’اَللہ اَللہ‘‘ 500 مرتبہ کر لیں۔
سوال نمبر 21:
محترمی و مکرمی حضرت اقدس دامت برکاتھم السلام علیکم آپ نے مختلف مواقع پہ اپنی تعلیمات مبارکہ میں مشکل مضامین اور اصلاحات، آسان الفاظ اور جدید مثالوں سے بہت آسانی سے سمجھا دیں کہ بعض اوقات وہ مسائلِ تصوف جو کافی عرصہ سے نہیں سمجھ میں آ رہے تھے، وہ اتنے واضح طور پہ سمجھ میں آئے کہ اس پر شکر کی توفیق ہوئی الحمد للہ۔ میں جانتا ہوں کہ حضرت ہی کی برکت ہے اور قسم بھی کھا سکتا ہوں۔ بہرحال نفس نے کچھ ایسا محسوس کیا کہ جیسے علوم میں سے کچھ سمجھ لیا ہو، تو فجر کے بعد مراقبہ میں یوں دل میں آپ کا جملہ یاد آیا کہ علوم و معارف جو تعلیم دیئے جاتے ہیں ان کو اپنے علوم نہ سمجھو۔ اس سے فوراً علم کا بخار یا وسوسہ جاتا رہا الحمد للہ۔ حضرت اقدس آپ نے اپنی تعلیمات میں ایک لفظ عنایت فرمایا تھا ”ہوش دیوانگی“ جس سے عروج و نزول فنا و بقا کو آپ نے دو جملوں میں سمیٹ لیا تھا۔ اگر مناسب ہو تو اس کی شرح دوبارہ فرما دیجئے تاکہ اس کا ترجمہ کر کے آپ کے ساتھ میں شیئر کر سکوں اور اپنی سمجھ میں کوئی غلطی ہو تو اس کی اصلاح بھی ہو جائے۔
جواب:
پہلی بات تو یہ ہے کہ جو علم ہے وہ تو ہے ہی اللہ جل شانہ کا عطا کیا ہوا۔ ہر چیز اللہ پاک کی عطا کی ہوئی ہے اور علم تو ایسی چیز ہے جس کے لئے انسان کچھ کہہ بھی نہیں سکتا کہ کس وقت عطا ہوتا ہے کس وقت واپس لیا جاتا ہے۔ جیسے آپ ﷺ صحابہ کرام کو لیلۃ القدر کے بارے میں بتانا چاہتے تھے، لیکن اللہ پاک نے اس کا علم اس وقت اٹھا لیا۔ آپ ﷺ نے ان کو خبر دی کہ مجھے یہ بتا دیا گیا تھا، لیکن اب اٹھا لیا گیا۔ تو جب آپ ﷺ سے اس علم اٹھا لیا گیا تو اور کون ان کے مقابلے میں ہو سکتا ہے؟ اللہ پاک ہر چیز پر قادر ہے۔ اللہ پاک سب کچھ کر سکتا ہے اور جب دیتا ہے تو وہ بھی اپنی طرف سے دیتا ہے۔ یعنی انسان جو بھی کرتا ہے اس کو خود احساس ہو جاتا ہے کہ من جانب اللہ ہے۔ اس وجہ سے اس پر فخر کی کوئی بات ہی نہیں ہے۔ ہاں شکر کی بات ضرور ہے کہ انسان اس پر شکر کرے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو یہ نصیب فرمائے۔ دوسری بات انہوں نے ”ہوش دیوانگی“ کی کی ہے۔ ہوش دیوانگی کیا چیز ہے؟ اس کے بارے میں میں نے ایک مثال عرض کی تھی۔ جیسے راکٹ کی ایک خاص رفتار ہے، اس رفتار سے اگر کم ہو تو واپس آ جائے گا۔ مثلاً اگر پچیس ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے کم رفتار ہو جائے گی تو بے شک کتنا اوپر چلا جائے اخیر میں واپس آئے گا، لیکن اگر پچیس ہزار میل فی گھنٹہ سے زیادہ ہو تو پھر کیا ہو گا؟ پھر یہ واپس نہیں آئے گا، بس خلا میں چلا جائے گا۔ اس کو Critical velocity کہتے ہیں۔ اسی طرح ہمارے اوپر جو نفس کی بندش ہے، ہمارے نفس نے روح کو پکڑا ہوا ہے جس وجہ سے ہمیں نفس کچھ کرنے نہیں دیتا، سمجھنے بھی نہیں دیتا، ہر وقت ہمارے اوپر مسلط ہے۔ لہذا اس کے لئے اللہ پاک کی اتنی زیادہ محبت کی ضرورت ہے جس کو ہم جذب کہتے ہیں، تاکہ یہ نفس کے تمام بندھنوں کو توڑ دے، چاہے وقتی طور پر کیوں نہ ہو۔ اس صورت میں جب نفس کے بندھن ٹوٹ جائیں تو اس کو پھر قرآن بھی سمجھ آ جائے گا، حدیث بھی سمجھ میں آ جائے گی، الفاظ کی بات نہیں کر رہا ہوں بلکہ اس اصل سمجھ میں آ جائے گا۔ تو یہ ہوش ہے۔ انسان اگر اتنا زیادہ محبت میں مبتلا ہو جائے تو لوگ ایسے آدمی کو دیوانہ کہتے ہیں۔ آپ ﷺ نے بھی فرمایا کہ اتنا ذکر کرو کہ لوگ تمھیں پاگل کہیں۔ چنانچہ لوگ تو اس کو دیوانہ کہیں گے۔ لیکن لوگوں کے نزدیک یہ دیوانہ اصل میں اللہ کے نزدیک بڑا دانا ہے۔ کیونکہ اللہ نے اس کو نفس سے آزاد کر دیا۔ اس لئے بہلول کو بہلول دیوانہ بھی کہتے تھے اور بہلول دانا بھی کہتے تھے۔ جنہوں نے ان کی دانائی کو دیکھا انہوں نے بہلول دانا سمجھ لیا، جنہوں نے ان کی باتوں کے ظاہر کو دیکھا تو انہوں نے ان کو دیوانہ سمجھا۔ لہذا ”ہوش دیوانگی“ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی محبت میں دیوانگی کی وہ کیفیت کہ جس میں انسان نفس کے تمام بندھنوں کو توڑ ڈالے اور پھر اس کو حقیقت سمجھ میں آ جائے۔ یہ ہوش ہے۔ گویا فنا پہلے حاصل ہوتی ہے۔ اس لئے انسان اپنے نفس کے تمام اثروں سے نکل جاتا ہے، یہ فنا ہے، خود اپنے آپ کو بھی بھول جاتا ہے، ساری چیزوں کو بھول جاتا ہے۔ اس فنا کے بعد پھر بقا ملتی ہے، یعنی پھر دوبارہ علم لوٹا دیا جاتا ہے۔ لیکن وہ علم اللہ کی پہچان کے ساتھ ہوتا ہے۔ پھر چیزوں کا علم بھی آ جاتا ہے۔ اپنا علم بھی آ جاتا ہے۔ ایسی صورت میں اس کو جو حاصل ہو جائے تو وہ عارف بن کر آتا ہے۔ یعنی اللہ جل شانہ کے ساتھ تعلق بھی ہوتا ہے اور چیزوں کو بھی برت سکتا ہے۔ لہذا اس کیفیت کو بقا کہتے ہیں۔ تو یہ فنا و بقا یا ہوش اور مدہوشی یہ ساری چیزیں آپس میں اس طریقے سے ہیں کہ ہم لوگ اگر نفس کے جال سے نکل آئیں تو پھر ان شاء اللہ ہم اللہ جل شانہ کی بات مان سکیں گے اور سمجھ سکیں گے اور جان سکیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں نصیب فرمائے۔
سوال نمبر 22:
السلام علیکم حضرت تصوف میں اپنے خوف کا سامنا کرنے (facing ones fear) کے سلسلہ میں کوئی تعلیمات دی جاتی ہیں کہ یہ کیسے کیا جاتا ہے؟ مثلاً کسی چیز کا سامنا نہ کر سکنا۔ کیا اس کا سامنا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، اس سلسلہ میں تصوف میں کیا مدد مل سکتی ہے؟
جواب:
اگر انسان کے اوپر اللہ تعالیٰ کی قدرتوں کا اثر زیادہ ہو تو اللہ تعالیٰ کے احکامات سے زیادہ متاثر ہو گا اور لوگوں کی باتوں سے کم متاثر ہو گا۔ جبکہ دوسری طرف جب لوگوں کی باتوں کا اثر زیادہ ہو گا تو پھر ان سے زیادہ متاثر ہو گا اور ان احکامات سے متاثر نہیں ہو گا۔ مثال کے طور پر شادی بیاہ ہے تو شادی بیاہ میں یہ خیال آتا ہے کہ جی لوگ کیا کہیں گے؟ گویا لوگوں سے زیادہ متاثر ہیں اللہ پاک اور اللہ کے رسول سے زیادہ متاثر نہیں ہیں۔ نتیجتاً اس میں پھر ان چیزوں کی طرف دھیان چلا جاتا ہے، اگر اللہ تعالیٰ کے احکامات کی طرف زیادہ متوجہ ہوں، ان کا اثر اس پر زیادہ ہو تو لوگوں کی پروا نہیں کرے گا۔ لوگ چاہے کچھ بھی کہہ دیں لیکن وہ لوگوں کی پروا نہیں کرتا وہ اللہ تعالیٰ کے احکامات کو سامنے رکھے گا۔ اگر یہ بات کسی میں آ جائے تو پھر وہ کسی کی بھی پروا نہیں کرے گا۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ کے لئے وہ کوئی بھی کام کر سکتا ہے جو اللہ پاک چاہتا ہو اور مخلوق سے وہ بالکل نہیں ڈرے گا۔ یہ صحابہ کرام کی صفت تھی تو ہمیں بھی حاصل کرنی چاہیے۔ جو رسول ﷺ کے صحابہ ایران گئے تھے ایرانیوں نے انہیں رعب میں ڈالنے کے لئے قالین بچھایا اور تلواریں کھڑی کیں تاکہ وہ متاثر ہو جائیں، صحابی نے جب پورا نقشہ دیکھا تو وہ اپنے گھوڑے سمیت ان کے قالینوں پہ آئے اور وہ نیزہ گھونپ رہے تھے اور اپنا گھوڑا ان کے بادشاہ کے تخت کے ساتھ باندھ دیا، لوگوں کو تو وحشی پن نظر آتا تھا، لیکن اس وقت وہ صحابی ان کی ایک چیز کو توڑنے کے لئے ایسا کر رہے تھے جو ٹوٹ گئی۔ مطلب یہ ہے کہ ان کو پتا چل گیا کہ یہ کسی سے متاثر ہونے والے نہیں ہیں۔ تو بس یہی بات ہے۔ اگر یہ ہم سیکھ جائیں، تو ان شاء اللہ پھر ایسا ہی ہو گا۔ اللہ نصیب فرمائے۔
وَ آخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ