اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال نمبر 1:
السلام علیکم!
My name is فلاں and I am thirteen from Rochdale. You told me to do Zikr for forty-four days. I feel more happy and I tend to do more good things. What should I do now?
جواب:
Now you should recite 100 times third kalma ‘‘سُبْحَانَ اللهِ، وَالْحَمْدُ للهِ، وَلَآ إِلٰهَ إلَّا اللهُ، وَاللهُ أَكْبَرُ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيْمِ‘‘۔
100 times Darood Sharif ‘‘وَصَلَّی اللہُ عَلَی النَّبِّی مُحَمَّدٍ’’
And 100 times Astaghfar ‘‘اَسْتَغْفِرُ اللهَ رَبِّىْ مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ وَّاَتُوْبُ اِلَيْهِ’’
And daily, you should do after each prayers 33 times ‘‘سُبْحَانَ اللہِ’’
33 times اَلْحَمْدُ لِلّٰہ 34 times ‘‘اَللهُ أَكْبَرُ’’
3 times کلمہ طیبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ’’
3 times darood e ibrahemi
’’اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّعَلٰى اٰلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلٰى إِبْرَاهِيْمَ وَعَلٰى اٰلِ إِبْرَاهِيْمَ إِنَّكَ حَمِيْدٌ مَّجِيْدٌ، اَللّٰهُمَّ بَارِكَ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّعَلٰى اٰلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلٰى إِبْرَاهِيْمَ وَعَلٰى اٰلِ إِبْرَاهِيْمَ إِنَّكَ حَمِيْدٌ مَّجِيْدٌ‘‘
And 3 times Astaghfar ‘‘اَسْتَغْفِرُ اللهَ رَبِّىْ مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ وَّاَتُوْبُ اِلَيْهِ’’
And 1 time آیت الکرسی. Besides this 100 times لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ ذکر جہری like this and 100 times ‘‘لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ’’ and 100 times ‘‘حَقْ’’ and 100 times ‘‘اَللّٰہ’’.
This is only for one month and after one month you should contact again.
سوال نمبر 2:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! دین و دنیا کی کامیابی صرف اللہ اور رسولﷺ کے احکام پر چلنے میں ہے۔ لیکن جو انسان حلال و حرام کا خیال رکھتا ہے، حق و باطل کی تمیز بھی رکھتا ہے، اللہ کے بنائے ہوئے قانون کے دائرے میں رہ کر زندگی گزارتا ہے، حقوق اللہ، حقوق العباد، کی پاسداری بھی کرتا ہے، کیا یہ اللہ کے نزدیک کامیاب بندہ ہے؟ اگر آپ کہتے ہیں کہ ہاں اور یہی آپ کی تعلیمات بھی ہیں، تو کیا یہ تعلیمات مسلمان قوم کو انسانیت کی خدمت سے روک تو نہیں رہیں؟ بندہ تو ذکر و اذکار اور دعاؤں میں ہی لگا رہے گا۔ جب کہ کافر انسانیت کی خدمت میں کہیں آگے نکل چکا ہوگا۔ آپ اپنے اردگرد نظر دوڑائیں یہ موبائل، کمپیوٹر، انٹرنیٹ، ٹیکنالوجی، جو آپ کی خانقاہ کی بنیاد بن گئی ہے، یہ تو کافروں کی بدولت ہے۔ یہاں تک کہ آپ کا کاغذ اور قلم بھی مسلمانوں کا اپنا ایجاد کیا ہوا نہیں ہے۔ اور آپ کی آنکھوں کی روشنی چاہے آپ کے عینک کے شیشے ہو، بلب ہو، یا بجلی، سب کفار کی بدولت ہے۔ سوال میرا یہ ہے کہ اللہ کی پہچان کے لئے متجسس ہوں، کیا دنیاوی ترقی جو انسانیت کی خدمت سے دور رہ کر میں اللہ کا پسندیدہ بندہ بن سکتا ہوں، اور یہ کہ آپ لوگ مسجد، مدرسہ، خانقاہ اور تبلیغ ایک مسلمان کو ذکر واذکار سے جنت کے حصول میں لگا کر دنیاوی ترقی سے روک نہیں رہے۔ یہاں بنیادی ترقی سے میری مراد وہی ایک انسانیت کی خدمت ہے۔
جواب:
اللہ جل شانہٗ ہم سب کو ہدایت نصیب فرمائے۔ مجھے آپ کی غلط فہمیوں پہ بڑی حیرت ہے، اور شاید میرے خیال میں آپ نے سیرت النبیﷺ نہیں پڑھی۔ اور اگر آپ چاہیں کہ ان چیزوں کو سمجھ جائیں تو سیرت النبیﷺ جو سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھی ہے، وہ آپ پڑھ لیں، یا خطبات مدراس اور جو حضرت کے دروس ہیں، جو انہوں نے ہندوؤں کو دیئے تھے، وہ آپ پڑھ لیں تو پتا چل جائے گا کہ مسلمان زیادہ انسانیت کی خدمت کررہے ہیں، یا کافر۔ میں آپ سے ایک بات عرض کرتا ہوں، کافر جو کام کررہے ہیں، جس کو آپ دین کی خدمت کہتے ہیں، وہ اصل میں زیادہ تر ان کی اپنی خدمت ہے، اور وہ ان چیزوں سے کماتے ہیں۔ مثلاً موبائل انہوں نے ایجاد کیا ہے، تو موبائل انہوں نے انسانیت کی خدمت کے لئے ایجاد نہیں کیا، بلکہ انہوں نے کمانے کے لئے ایجاد کیا ہے۔ البتہ اگر کوئی اس کو انسانی خدمت کے لئے استعمال کرنا چاہتا ہے تو کرسکتا ہے، وہ اس کا Extra version ہے۔ اس طریقے سے جہاز اگر انہوں نے ایجاد کیا تو یہ جہاز انہوں نے انسانیت کی خدمت کے لئے ایجاد نہیں کیا، اس سے وہ کما رہے ہیں۔ یعنی اس سے وہ دنیاوی فوائد حاصل کررہے ہیں۔ اور اگر آپ اس کو دین کے لئے استعمال کرلیں تو یہ آپ کی نیت پر ہے۔ جیسے حدیث پاک میں آتا ہے:
''إِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ'' (صحيح البخاري، حدیث نمبر: 1)
ترجمہ: ''اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے''۔
ایک بات اور یاد رکھیں کہ جتنی بھی سائنسی خدمات ہیں ان سب کی ابتدا مسلمانوں سے ہوئی تھی۔ یورپ والے اس وقت کہاں تھے جب مسلمان یہ سارے کام کررہے تھے؟ انہوں نے یہ مسلمانوں سے سیکھے ہیں اور مسلمان اگر اپنے طریقہ کو چھوڑ دیں گے اور یورپ والے ان کے طریقوں کو لے لیں تو یقیناً دنیا کی کامیابی پھر ان کے لئے ہوگی، کیونکہ صحیح معنوں میں جو دین پر چلتا ہے وہ دونوں جہانوں میں کامیاب ہوتا ہے۔ اور آپ نے حقوق اللہ اور حقوق العباد کی بات کی ہے، تو حقوق العباد کی جتنی تعلیم اسلام نے دی ہے، کیا کافر دیتے ہیں؟ مجھے عجیب بات لگ رہی ہے کہ آپ کس طرح یہ باتیں کررہے ہیں۔ اب مسلمانوں نے یہ ایجادات کیں ہیں، ان ایجادات کی بنیاد پر یورپ والوں نے ایجادات کی ہیں، تو کبھی تو اُنہوں نے ایجاد کیا اور کبھی اِنہوں نے ایجاد کیا، اب ان دونوں میں برابری ہوگئی، اور اب بھی اس وقت امریکہ کے اندر کیا صرف کافر ہی ایجادات کررہے ہیں؟ کتنے مسلمان ہیں جو ان کی فیکٹریوں میں لگے ہوئے ہیں اور ایجادات کررہے ہیں، آپ کو اگر اس کا علم نہیں ہے تو ذرا تھوڑا سا اس کا مطالعہ کریں، آپ کو پتا چل جائے گا۔ البتہ ضروری بات یہ ہے کہ وہ جب دیکھتے ہیں کہ کسی مسلمان کو کامیابی مل رہی ہے، اس کا نام روشن ہورہا ہے، یا اس کو قتل کردیتے ہیں، یا اس کو اپنا بنا لیتے ہیں۔ اگر آپ ان چیزوں سے واقف نہیں ہیں تو تھوڑا سا دیکھ لیں۔ مسلمان کبھی بھی تنگ نظر نہیں ہے، مَاشَاءَ اللہ جو خدمت کررہے ہیں وہ کررہے ہیں۔ ٹھیک ہے مسلمانوں میں گناہگار بھی ہیں اور اچھے لوگ بھی ہیں۔ لیکن ان کا جو طریقہ کار ہے اس کو آپ سمجھیں۔ دو areas ہیں، پوری دنیا کے اندر جو غیر مسلم ہیں، ایک capitalism ہے، اور دوسرا communism ہے۔ تو capitalism کی بنیاد بھی پیسہ ہے، پیسہ کمانا قارونیت ہے۔ جو communism ہے، وہ بھی آہنی زنجیروں سے لوگوں کو باندھنا ہے اور ان سے اپنے مقاصد کے لئے کام لینا ہے۔ مگر مَاشَاءَ اللہ! مسلمان نے جہاں جہاں حکومتیں کی ہیں، تو انہوں نے سب کو حقوق دیئے ہیں، اور بہت سارے رفاعی کام بھی کیے ہیں، یقیناً وہ تاریخ میں موجود ہیں۔ اب بھی مَاشَاءَ اللہ وہ کررہے ہیں، مسلمانوں نے کب کہا کہ ایجاد نہ کرو، اور کب کہا کہ دنیا میں ترقی نہ کرو، یہ تو مسمانوں نے نہیں کہا، آپ نے شاید کہا ہوگا، و اللہ اعلم! مجھے تو علم نہیں ہے۔ بہرحال آپ اسلام کو پورا study کرلیں تو پھر یہ بات بنے گی اِنْ شَاءَ اللہ۔
سوال نمبر 3:
السلام علیکم! حضرت آپ مجھے جواب نہیں دیتے۔ اگر دیتے ہیں تو آدھی بات کا جواب دیتے ہیں، اور آدھی کا دیتے ہی نہیں۔ مجھے اچھا نہیں لگتا آپ کو بار بار تنگ کرنا۔
جواب:
سُبْحَانَ اللہ! کیا بات کی ہے، آپ پوری بات بتا دیا کریں، پھر آپ سے بعد میں نہ پوچھا کروں، اگر آپ مجھے کہتے ہیں، مثال کے طور پر میرا ذکر مکمل ہوگیا، تو کون سا ذکر مکمل ہوا؟ مجھے تو سارے لوگوں کے ذکر یاد نہیں ہوتے، میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ اس کا effect کیا ہے؟ آپ effect اپنی طرف سے بتاتی نہیں، تو میں آپ سے پوچھوں کہ اس کا effect کیا ہے، تو آپ سمجھتی ہیں کہ شاید میں نے آدھی بات کرلی ہے، بھئی میں آپ سے پوری معلومات کرنا چاہتا ہوں۔ کبھی ڈاکٹر کے ساتھ اس قسم کی بات کی ہے۔ ڈاکٹر جو بھی آپ سے پوچھے گا، تو آپ جواب دیں گی، تو اس کے بعد وہ آپ کو مزید prescribe کرے گا۔ اندازے سے تو نہیں کرسکتا۔ آپ پوری details مجھے بتا دیا کریں، تو ان شاء اللہ پھر بعد میں آپ کو نہیں پوچھوں گا۔ اور پھر آپ کو ایک بار ہی جواب دے دوں گا۔ باقی ماشاء اللہ آپ کی فکر صحیح ہے، آپ کی فکر غلط نہیں۔ لیکن آپ جلدی مچا رہی ہیں۔ ہر چیز کا اپنا طریقہ کار ہوتا ہے، اس طریقہ کے مطابق آپ اپنے احوال بتا دیا کریں، تو ان شاء اللہ کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔
سوال نمبر 4:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! حضرت جی مراقبہ پندرہ منٹ کا ہے، اور پھر’’اَللّٰہْ اَللّٰہْ‘‘ محسوس ہوتا ہے، اور کبھی پتا نہیں چلتا۔ حضرت جی مراقبہ میں ناغہ رہتا ہے، اور کوشش کے ساتھ ذکر پورا ہوجاتا ہے، مزید رہنمائی کی درخواست ہے۔
جواب:
آپ نے کہا کہ کبھی پتا نہیں چلتا۔ اور پھر آپ کہتے ہیں کبھی ناغہ بھی رہتا ہے، تو پھر یہ چیزیں ہوا کرتی ہیں۔ آپ ناغے نہ کیا کریں، توجہ کے ساتھ کرلیا کریں، ان شاء اللہ جلدی فائدہ ہوجائے گا۔
سوال نمبر 5:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ! حضرت صاحب مجھے مندرجہ ذیل ذکر ملے ہوئے دو مہینے ہوگئے ہیں: ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ 200 مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ 400 مرتبہ ’’حَقْ‘‘ 600 مرتبہ اور ’’اَللّٰہ‘‘ 1000 مرتبہ، لیکن دو مہینہ سے ناغے ہی ہوتے رہے ہیں۔ بار بار سوچا کہ ذکر کی روٹین شروع کروں لیکن ناغے ہی ہوتے رہتے ہیں، اللہ کے فضل سے آج ذکر کیا ہے اور ارادہ ہے کہ باقاعدگی سے ذکر کروں گا، دعاؤں کی اشد ضرورت ہے۔
جواب:
اللہ پاک استقامت نصیب فرما دے۔ ناغوں سے جو نقصان ہوتا ہے، اس کو ذہن میں رکھیں۔
سوال نمبر 6:
السلام علیکم! میرا نام فلاں ہے، فلاں جگہ سے تعلق رکھتا ہوں، بارھویں جماعت میں ہوں، آپ نے مجھے مندرجہ ذیل ذکر دیا تھا: ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ 200 مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ 400 مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ 600 مرتبہ اور ’’اَللّٰہْ‘‘ 2000 مرتبہ، اور دس منٹ مراقبہ قلب کا جو پورا ہوا ہے۔ مہربانی فرما کر مجھے رہنمائی فرمائیں۔ نیز ذکر کا فائدہ مند وقت کون سا ہے اس کی بھی کچھ وضاحت کریں۔
جواب:
آپ نے دس منٹ قلب کے مراقبہ کا حال نہیں بتایا، وہ بھی بتا دیں کہ کیسے ذکر ہورہا ہے؟ اور فی الحال آپ ڈھائی ہزار مرتبہ ’’اَللّٰہْ اَللّٰہْ‘‘ کرلیں۔ باقی ذکر کا سب سے بہتر وقت تہجد کا ہے، وہ نہ ہوسکے تو پھر فجر کی نماز کے بعد کا ہے، وہ نہ ہوسکے تو پھر عصر کی نماز کے بعد ہے، نہیں تو پھر مغرب کے بعد، اور سب سے نکما وقت عشاء کے بعد کا ہے۔
سوال نمبر 7:
السلام علیکم! حضرت کچھ دن پہلے پیر مہر علی شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی لکھی ہوئی نعت سننے کا موقع ملا معنی کے ساتھ، نعت شریف پنجابی میں ہے، اس کے بعد پنجابی زبان سے محبت ہوگئی، ہر وقت سننے کا دل کرتا ہے، اور سنتے ہوئے رونا آتا ہے، اور رونے کے بعد بہت ہلکا محسوس کرتا ہوں، دل کا سب غبار اتر جاتا ہے، سڑک پر چلتے ہوئے لوگ جن کی داڑھی ہو، ان سے نعت شریف زیادہ تر اپنے ساتھ گنگناتے ہوئے دیکھتا ہوں۔ سبحان اللہ! نعت شریف میں کئی بار آتا ہے، سمجھتا ہوں کہ کیفیات بھی بن جاتی ہے، اور کچھ نہ کچھ ذکر بھی ہوجاتا ہے، کیا یہ ٹھیک ہے۔
جواب:
ٹھیک ہے ماشاء اللہ کبھی کبھی سن سکتے ہیں۔ اعمال کی فکر وہ سب سے زیادہ ہے، اور یہ کبھی کبھی ہوسکتا ہے۔
سوال نمبر 8:
السلام علیکم! حضرت جی اللہ رب العزت آپ کے درجات بلند فرمائے، آپ کا سایہ ہم پر قائم اور لمبی حیات عطا فرمائے، محترم حضرت جی جو وظیفہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ 200 مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ 400 مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ 600 مرتبہ ’’اَللّٰہْ‘‘ 500 مرتبہ، مراقبہ پانچ منٹ کے لئے، لطیفہ قلب، لطیفہ روح، لطیفہ سِر، لطیفہ خفی، لطیفہ اخفیٰ، اور پندرہ منٹ کے لئے مراقبہ معیت میں اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنے کا بتایا تھا، اور دو نفل صبح و شام اسی کیفیت کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ مجھے دیکھ رہے ہیں، پڑھنے کے لئے بتایا تھا، اَلْحَمْدُ للہ تقریباً چھ ماہ سے زیادہ کا وقت ہوگیا ہے، کیونکہ اس کو جاری رکھنے کا کہا تھا۔ آپ نے اپنے عیوب بتانے کا فرمایا تھا۔ حضرت میں بہت سے موقع پر ضرورت سے زیادہ بات کر جاتا ہوں، مطلب سے زیادہ بولتا ہوں، کوشش بھی کرتا ہوں کہ کم بولوں، مگر کوئی بہتری نہیں آئی، موبائل کا بھی استعمال زیادہ ہوگیا ہے، غصہ بھی زیادہ آتا ہے، جس کی وجہ سے کافی معاملات پر مسئلے ہوجاتے ہیں، کافی کوشش کی غصہ قابو کرنے کی اور بہتری بھی آئی، مگر ابھی بھی کافی آتا ہے۔ حضرت جی آپ سے دعا کی درخواست ہے کہ اللہ مجھ سے راضی ہو اور عافیت اور خاتمہ ایمان پر ہو، حضرت جی میرے لیے آئندہ کیا حکم ہے آپ کی دعاؤں کا طلبگار۔
جواب:
جو عیوب آپ نے بتائے ہیں اب آپ اس پر عمل کرنا شروع کرلیں، یعنی اس کو دور کرنے کی کوشش کریں، سب سے پہلے غصہ کو قابو کرنے کی کوشش کرلیں۔ وہ یہ ہے کہ جب بھی غصہ آجائے تو اس وقت یہ تصور کریں کہ اللہ تعالیٰ کو مجھ پر اس سے زیادہ قابو ہے جتنا کہ میرا اس پر ہے، تو اگر اللہ پاک نے مجھ پر غصہ کرلیا تو پھر کیا کروں گا! اور اس تصور کے ساتھ غصہ اس وقت روک لیا کریں۔ نہ رُکے تو اپنی حالت بدل لیا کریں، ورنہ اگر بڑا ہو تو اس سے جدا ہوجائیں اور اگر چھوٹا ہو تو اس کو اپنے سے جدا کرلیں۔
سوال نمبر 9:
Question about Zikr: Hazrat السلام علیکم I have been reciting ‘‘اَللّٰہْ اَللّٰہْ’’ nine thousands times followed by ‘‘یَا اَللہُ یَا سُبْحَانُ یَا عَظِیْمُ رَحْمٰنُ یَا رَحِیْمُ یَا وَھَّابُ یَا وَدُوْدُ یَا کَرِیْمُ یَا شَافِیُ یَا سَلَامُ’’ hundred times followed by ‘‘یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ’’ hundred times followed by 15 minutes مراقبہ احدیت. This is in addition to مراقبہ five points and thirteen tasbehaat 200, 400, 600 and 100. The question is that the nine thousand times of Allah Allah Zikr seems to be exhausting recently. Therefore if possible I wanted to reduce it. Kindly advise جزاک اللہ
جواب:
Yes, you can reduce this and you should do it five thousand but in addition to this you should perform مراقبہ تجلیات افعالیہ for fifteen minutes. تجلیات افعالیہ means that you should think that everything is done by اللہ سبحانہ وتعالیٰ and you should feel that the فیض of this is coming from اللہ سبحانہ وتعالیٰ to رسول اللہ ﷺ and from the there to your شیخ and from there to your لطیفہ قلب.
سوال نمبر 10:
السلام علیکم!
I am فلاں from Lahore. My husband is your مرید. Three years ago, he asked me to contact you and you gave me the initial Zikr of third kalma which I could not complete. Now again, I want to start Zikr and follow your guidance. Please suggest to me what I should do to become persistent on the right path?
جواب:
انسان کیوں persistent نہیں رہتا، اور انسان کی دنیاوی چیزوں کے ساتھ دلچسپیاں ہوتی ہیں، ان دلچسپیوں میں گم ہوکر انسان اپنی آخرت کے راستے کو بھول جاتا ہے، یا اس میں غفلت کر جاتا ہے، تو اس وجہ سے سارے کام یہ ہوتے ہیں کہ انسان کو اللہ یاد رہے، اور اس کے ذریعے سے اپنے نفس کو قابو کرلے۔ اور ان دلچسپیوں پر قابو پائیں، اور جو اصل کام ہے اس کی طرف متوجہ ہوں، وہ جو ذکر میں نے بتایا تھا: ’’سُبْحَانَ اللهِ، وَالْحَمْدُ للهِ، وَلَآ إِلٰهَ إلَّا اللهُ، وَاللهُ أَكْبَرُ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيْمِ‘‘ 300 دفعہ، اس کو چالیس دن تک بغیر ناغہ کے مکمل کرلیں ایک مہینہ تک، اور پھر مجھے اطلاع کردیں، اور اپنے لئے کچھ arrangement کرلیں، یا کسی کے بتانے کا تاکہ آپ کو یاد رہے کہ یہ ذکر روزانہ آپ نے کرنا ہے، اپنے وقت پر کوئی وقت مقرر کرکے چالیس دن مکمل کرکے پھر مجھے بتا دیں، تو ان شاء اللہ اگلا سبق پھر مل جائے گا۔
سوال نمبر 11:
اَلْحَمْدُ لِلّٰہ! جس چیز سے آپ نے روکا تھا ابھی تک اس پر قائم ہوں، دو ہفتوں سے تہجد نہیں چھوٹی اور نہ ہی تکبیر اولیٰ کے بغیر کوئی نماز ہوئی ہے۔ حالیہ رپورٹ یہ ہے:
نمبر 1:
حُب مال کے باعث بہت سی مالی بد عنوانیاں پیش آتی ہیں جن کی تفصیل آپ کو پیش کرنا چاہتا ہوں۔
نمبر 2:
حب جاہ کی وجہ سے اپنے بڑے بننے کا خیال بھی آتا رہتا ہے۔ نورانی حجاب یہ ہے کہ اب تو دنیا کے کاموں میں بھی بڑھنے کا خیال آتا رہتا ہے، اور اب تو شدید تکلیف ہوتی ہے کہ میرا سب کچھ ختم کر دیتا ہے۔
نمبر 3:
حب باہ کے مرض میں ایک عرصہ سے مبتلا ہوں اور کبھی اللہ کی مدد اور رحمت کی امید بھی ہوتی ہے اور مایوسی بھی ہونے لگتی ہے، کبھی بہت سنگین غلطیاں کر بیٹھتا ہوں، شاید ان بیماریوں کا دور ہونا ممکن نہیں ہے، بلکہ اب ایسے گزارا کرنا پڑے گا۔ ان بیماریوں میں کوئی بھی ایسی نہیں جو جائز حد اعتدال میں ہو، ایسے میں مجھے کیا کرنا چاہیے؟
جواب:
سب کا جواب یہ ہے کہ ہمت کرنی پڑے گی اور ہمت سے ہی یہ ساری چیزیں دور ہوسکتی ہیں۔ البتہ اس میں تدریج لازم ہے، سب سے پہلے آپ حب مال سے شروع کرلیں، جو مالی بد عنوانیاں ہیں وہ آپ تفصیل سے بتا دیں، تاکہ اس کے بارے میں بات ہوسکے، اس کے بعد پھر دوسری باتوں کی طرف جائیں گے ان شاء اللہ۔
سوال نمبر 12:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ!
Hope you are well ان شاء اللہ. I would like to ask you about concentration. Out of the times we make Zikr, what can I do to preserve the concentration I have during Zikr or prayers? May Allah bless you and preserve you ya Maulana.
جواب:
Of course in Zikr one action is done and in one action concentration is more possible. But if there are multiple actions just like in prayers so the concentration becomes difficult as compared to Zikr. But if one tries to get concentration in Zikr and he achieves this than after that it becomes easy in صلوٰۃ as well because it is a type of Zikr ﴿وَاَقِمِ الصَّلٰوةَ لِذِكْرِیْ﴾ (طٰہ: 14). So this is also Zikr. When in ,صلوٰۃ if you have concentration and اخلاص (purity) then after that ماشاء اللہ it effects your other amals (actions) as well because ﴾اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالْمُنْكَرِؕ وَلَذِكْرُ اللّٰهِ اَكْبَرُؕ﴾ (العنکبوت: 45. So these things are achieved gradually and steadily. So you should continue that till you achieve the desired results but don’t make haste (تعجیل). It means to get results before the time. Everything is achieved on time. For example, if you want to cook bread if it takes five minutes so you cannot cook it in three minutes. It will be either burned or it will remain uncooked. Therefore, everything needs that time. So, you should not be having تعجیل in this. May Allah سبحانہ وتعالیٰ help you understand the words I am using and give you strength to act upon that.
سوال نمبر 13:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ!
Respected مرشد صاحب I pray that you and your loved ones are well. Ameen. حضرت اقدس I wish to first share my zikr update with you and then relate a dream ان شاء اللہ.
Zikr update: الحمد للہ I have completed the current zikr beyond thirty days without miss which is,
200 times لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘
400 times ‘‘لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ’’
600 times ‘‘حَقْ’’
500 times ‘‘اَللہ’’ and five minutes zikr on heart مراقبہ.
Regarding the جہری ذکر I am able to focus much more as compared to last update الحمد للہ and in past some days while doing the Zikr, at times I hear secondary and crackly voice emulated from my mouth also doing that exact same zikr with me in unison. I also on your instructions have been attentive to listen my heart saying ‘‘اَللّٰہ اَللّٰہ’’ throughout the day at random times. I tried to do this often when falling asleep.
Regarding مراقبہ I think as compared to last update I am able to sense internally that ‘‘اَللّٰہ اَللّٰہ’’ is emanating from the heart much more but I am unsure whether this is in my mind or actual قلب causing it. At times غیر اللہ thoughts spring during it. الحمد للہ as compared to last update, I feel much more spiritually close to Allah and have the ability توفیق to refrain from sins and do good deeds and gain islamic علم with consistency.
My mother had this dream around one to two weeks ago. She had already started the routine of ten minutes daily مراقبہ on your prescription. She dreams that I get rid of my first length beard and become clean-shaven and my face shape is very round and my skin is very white. In the dream she asks me why I did so and I replied that my پیر مرشد said that because I am already praying نماز etc so that is enough and I can shave my beard off. It was on my مرشد command basically. In the dream she then says that she is not going to follow a پیر that tells their مرید to shave their beards off. After my Mom told this dream to me, I gave her consolation that the true interpretation of the dream can be completely opposite of the ظاہر (appearance) of the dream and that the reality is that my شیخ is so strict on Sunnah and شریعت and would not tell their مرید to shave their beard. Could you kindly give the interpretation of the dream.
جواب:
ما شاء اللہ! یہ اچھی باتیں ہیں، جو آپ نے الحمد للہ اپنی updates کے بارے میں بتا دی ہیں۔ جہاں تک ذکر کا تعلق ہے تو یہ پانچ منٹ جو مراقبہ ہے اس کو دس منٹ کرلیں، باقی جتنا ہے وہ ٹھیک اور کافی ہے۔ اور dream کے بارے میں آپ نے بالکل صحیح کہا ہے کہ یہ اس پر منحصر ہوتا ہے کہ اس کی تعبیر کیا ہے۔ اگر کوئی خواب میں داڑھی shave کرتا ہے تو یہ اس کی اندرونی صفائی کی طرف اشارہ ہے، یعنی اس کا باطن صاف ہورہا ہے۔ اگر خواب میں داڑھی خود بخود گر جائے تو یہ ٹھیک نہیں ہے، لیکن اگر کوئی اس کو shave کرلے تو یہ ٹھیک ہے۔ بہرحال چونکہ آپ نے خود shave کی ہے تو ہمارا کام ہی باطن کی صفائی کے لئے کہنا ہے تو یہ بالکل صحیح ہے۔ اپنی والدہ کو تسلی دیں۔ بزرگ کہتے ہیں کہ ہم خوابوں پر اتنا زیادہ depend نہیں کرتے، ہمارا اصل کام ظاہر کے ساتھ ہے کہ ظاہر کیسا ہے۔ اگر ظاہر اچھا ہو تو خواب چاہے کتنا ہی خطرناک کیوں نہ ہو ہمیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اور اگر ظاہر برا ہو تو خواب کتنے ہی اچھے کیوں نہ ہوں، ان سے بہتری نہیں ہوسکتی کیونکہ یہ بات بالکل ظاہر ہے ہمارا اعمال نامہ خواب کے مطابق نہیں ہوگا، ہمارا اعمال نامہ ان اعمال کے مطابق ہوگا۔ یہ دونوں باتیں ان کو بتا دیں تو ان شاء اللہ العزیز کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔
سوال نمبر 14:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! جو اذکار آپ نے دیئے ان کا ایک مہینہ مکمل ہوچکا ہے، 200 مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘، 400 مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘، 600 مرتبہ ’’حَقْ‘‘، اور ’’اَللّٰہْ‘‘ 8500 مرتبہ۔ اس کے ساتھ پانچ منٹ تصور کرنا ہے کہ دل ’’اَللّٰہْ اَللّٰہْ‘‘ کررہا ہے، لیکن ایسا محسوس نہیں ہوتا۔
جواب:
اسم ذات 9000 مرتبہ کریں، باقی وہی رکھیں۔
سوال نمبر 15:
السلام علیکم! سیدی و سندی و مولائی حضرت شاہ صاحب! اللہ پاک سے دعا اور امید ہے کہ آپ سب خیریت سے ہوں گے۔ حضرت جی اگر مراقبہ کرتے وقت اذان شروع ہوجائے تو کیا اذان کا جواب دے کر اور دعا پڑھ کر نئے سرے سے مراقبہ شروع کریں یا مراقبہ جاری رکھیں؟ آپ سے خصوصی دعاؤں کی درخواست ہے۔
جواب:
جب اذان شروع ہوجائے تو اس وقت مراقبہ روک کر اذان کا جواب دے دیا کریں اور اس کے بعد مراقبہ وہاں سے شروع کرلیا کریں جہاں روکا تھا۔ البتہ کوشش کرلیں کہ اختیاری طور پر ایسے وقت میں مراقبہ شروع کرلیں جس کے درمیان میں آذان نہ آئے۔ لیکن اگر کبھی وقت کا خیال نہ ہو اور درمیان میں اذان آجائے تو پھر یہ کرنا ہے۔
سوال نمبر 16:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
I pray you are well beloved Sheikh. May اللہ تعالیٰ prolong your shadow and grant me توفیق to fully benefit and spread your فیض. This is فلاں from UK. الحمد للہ I started daily تعلیم as per your advice in our local masjid. I thought it is appropriate to do فضائل رمضان by Hazrat Sheikh Maulana Zakriya رحمۃ اللہ علیہ one day فرض عین تعلیم on رمضان from نور الایضاح the day after. I explained the need of فضائل و مسائل to everyone and الحمد للہ it was well received. I hope this implementation of your advice was appropriate.
Hazrat G my exams are coming up for which I humbly request your duas. The saddest part is that they start on the last عشرہ of رمضان and this has depressed me greatly as I always had a burning desire to spend رمضان or at least اعتکاف in your blessed presence. By Allah, there was nothing more beloved for me that I wanted to do more in my holidays than the fact that we are blessed with a رمضان with you but I can say nothing accept: ﴿اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ﴾ (البقرۃ: 156) ’’اَللّٰهُمَّ أْجُرْنِيْ فِيْ مُصِيْبَتِيْ، وَأَخْلِفْ لِيْ خَيْرًا مِنْهَا‘‘ Hazrat G, this has led me to a thought in my mind which I strongly considered hiding but as you advise that سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ told and asked his Sheikh, everyone please forgive me and I wanted to ask. Since everyone will one day move on from this temporary world and nobody knows when. If Allah forbid (and may He preserve your shadow for a long time) اللہ تعالیٰ was to call you back with what should I do specifically and what instructions and advice would you give to all of us. I beg your forgiveness if this question has caused any offense. I waited a month before thinking that I should ask.
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
جواب:
ما شاء اللہ! بہت اچھی بات ہے کہ آپ نے الحمد للہ فرض عین علم فضائل رمضان سے شروع کرلیا ہے اور اس میں مسائلِ رمضان آپ ساتھ کررہے ہیں۔ یہ جو آپ نے آخری عشرے کے بارے میں بتایا کہ اس میں آپ کا امتحان آرہا ہے، تو واقعتًا یونیورسٹیوں میں ایسا ہوتا ہے۔ مدرسوں میں سب کچھ دینی امور کے ساتھ related ہوتا ہے مثلًا رمضان شریف میں چھٹی ہوتی ہے، امتحانات رجب میں ہوجاتے ہیں تو شعبان بھی فری ہوجاتا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ آپ کے ہاں مدارس کی کیا ترتیب ہے، البتہ پاکستان اور ہندوستان میں یہی ترتیب ہے، لیکن یہاں کی یونیورسٹیوں میں بھی ایسا ہی ہے کہ رمضان شریف میں بھی پیپر آجاتے ہیں، ہمارے پیپر بھی کئی دفعہ رمضان شریف میں آ چکے ہیں۔ بہرحال! یہ ہماری مجبوریاں ہیں۔ ایسے وقت میں اگر کسی کا دل چاہتا ہو کہ وہ اعتکاف کرے لیکن وہ مجبورا اعتکاف نہ کرسکے تو ان شاء اللہ اس کو اس حسرت پر اجر ملے گا، یہ اللہ پاک کا فضل ہے۔ جیسے کوئی بیمار ہوجاتا ہے تو بیماری کے اپنے احکامات ہیں، سفر کے اپنے احکامات ہیں، ٹھیک اسی طرح مجبوری کے ابھی اپنے احکامات ہیں۔ البتہ اختیاری چیزوں میں انسان یہ کوشش کرسکتا ہے کہ کوئی ایسا کام نہ ہو جس کی وجہ سے انسان ان چیزوں سے محروم ہوجائے۔ آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ اللہ جل شانہٗ آپ کے لئے آسانیاں پیدا فرمائے اور میں بھی دعا کرتا ہوں۔ باقی بات یہ ہے کہ اس میں اور کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اگر تکمیل ہوگئی ہے تو ظاہر ہے کسی اور کے پاس جانے کی ضرورت ہی نہیں ہے، اور اگر تکمیل نہ ہوئی ہو تو تکمیل تو کسی سے کروانی پڑتی ہے۔ جب تکمیل کسی اور سے کروانی ہوتی ہے تو اس میں اسی کے اوپر بات جاتی ہے۔ ہمارے اصول بالکل وہی ہیں، ہم وہ نشانیاں بتا چکے ہیں جن کے ذریعے سے انسان پہچان لے کس کے پاس جانا ہے اور کس کے پاس نہیں جانا۔ لیکن جب کسی کے پاس چلے جائیں تو پھر انہی کی بات ماننی پڑے گی۔ اس معاملے میں میں صرف یہی guideline دے سکتا ہوں کہ تکمیل ضروری ہے اور اگر تکمیل اس وقت تک نہ ہوئی ہو تو اس کے لئے کسی کے پاس جانا ہوگا۔ باقی یہ ہے کہ آپ کو موجودہ حالت میں اللہ تعالیٰ نے جو مقام دیا ہے اس سے پورا فائدہ اٹھائیں تاکہ بعد میں کوئی پریشانی نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ما شاء اللہ اس موجودہ موقع سے ہی ساری چیزیں نصیب فرما دے گا۔ اللہ پاک ہم سب کو عافیت اور ہدایت دونوں نصیب فرمائے۔
سوال نمبر 17:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ! اللہ پاک سے دعا ہے کہ آپ سلامت رہیں، آمین۔ میرے لئے قبولیت کی دعا فرمائیں، میرے ذکر کی ترتیب مندرجہ ذیل ہے: 200 بار’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘، 400 مرتبہ ''اِلَّا اللہْ''، 600 مرتبہ ’’اَللّٰہْ اَللّٰہْ‘‘، 500 مرتبہ زبان سے خفی طور پر ’’اَللّٰہْ اَللّٰہْ‘‘ کا ذکر، دس منٹ پانچوں لطائف پر ’’اَللّٰہْ اَللّٰہْ‘‘ محسوس کرنا اور پندرہ منٹ لطیفہ اخفیٰ پر شان جامع کا مراقبہ ہے۔ حضرت جی الحمد للہ لطائف اچھے ہورہے ہیں، مراقبہ میری اپنی سستی کی وجہ سے صحیح نہیں ہوا۔ حضرت جی احوال میں یہ ہے کہ لوگوں میں خوبیاں بھی ہوتی ہیں اور خامیاں بھی ہوتی ہیں لیکن میری نظر لوگوں کی خامیوں پر جاتی ہے اور لوگوں کی خوبیاں مجھ سے نظر انداز ہوجاتی ہیں، اس سے کیسے بچا جائے کہ میں لوگوں میں مثبت چیزیں دیکھ سکوں۔ اس کے علاوہ آج کل اللہ پاک بہت یاد آتے ہیں۔ جی چاہتا ہے کہ ایک جگہ الگ تھلگ بیٹھ کر اللہ پاک سے مانگتا رہوں اور شکر کرتا رہوں۔
جواب:
ٹھیک ہے، اللہ پاک آپ کو نصیب فرمائے۔ اس کے لئے آپ کوئی اختیاری عمل کرسکتے ہیں۔ جہاں تک دوسروں کی خوبیوں اور خامیوں کو دیکھنے کی بات ہے تو یہ مناسب نہیں ہے۔ جب اس سلسلہ میں ذمہ داری لگ جاتی ہے تو تب کی بات الگ ہے، لیکن جب تک ایسا نہیں ہوتا تب تک لوگوں کی خوبیاں تلاش کرتے رہیں اور خامیوں کو زیادہ سامنے نہ رکھیں۔ اس سے یہ فائدہ ہوگا کہ ان شاء اللہ آپ کو نقصان نہیں ہوگا۔ حضرت شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ کے مشہور اشعار ہیں کہ ؎
مرا پیر دانائے مرشد شہاب
کہ بر خود خوش بین مباش
کہ مجھے میرے دانا مرشد شیخ شہاب نے نصیحت فرمائی کہ ایک تو اپنے آپ کے اوپر کبھی خوش گمان نہ ہو اور دوسرا یہ کہ لوگوں کے اوپر کبھی بد گمان نہ ہو۔ یہ ماشاء اللہ زبردست نصیحت ہے، اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس سے فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا فرمائے۔ یہ بہت بڑی بات ہے کہ انسان دوسروں کے اوپر بد گمانی نہ کرے اور اپنے آپ کے ساتھ خوش گمانی نہ کرے۔ اس سے فائدہ یہ ہوتا ہے کہ دوسروں سے بد گمانی نہ ہونے کی وجہ سے ان کی غیبت نہیں کرے گا یعنی ان کے لئے برا نہیں سوچے گا اور ان کی خوبیوں سے فائدہ اٹھائے گا اور اپنے اوپر بد گمان ہونے کا یہ فائدہ ہوگا کہ اپنا احتساب کر کر کے اپنی اصلاح کرتا رہے گا۔ ما شاء اللہ بزرگوں کی چھوٹی چھوٹی نصیحتوں میں بہت بڑی کام کی باتیں ہوتی ہیں۔ حضرت مولانا تاج محمود امروٹی رحمۃ اللہ علیہ ایک سندھی بزرگ تھے۔ دیہاتی زبان میں انہوں نے ایک بات کی تھی کہ دودھ کو اگر بلو بلو کے سرخ بھی کر دو تو جب تک جھاگ نہیں ہوگی تب تک دہی نہیں بنے گا۔ اور نہ ہی مکھن نہیں نکلے گا۔ فرمایا جھاگ کا مطلب یہ ہے کہ جب تک کسی مرشد کے ساتھ تعلق نہ ہو انسان بھلے کتنی ہی محنت کرلے، اصلاح نہیں ہوتی۔ اس کو میں آسان لفظوں میں ایسے عرض کرسکتا ہوں کہ ایک Faulty meter کے ساتھ انسان صحیح اندازہ نہیں لگا سکتا۔ ہم لوگ اپنی گھڑی کو ہی دیکھ لیں کہ اگر ہماری گھڑی خراب ہو تو اس گھڑی پہ ہم فیصلہ نہیں کرتے، بلکہ کسی اور سے پوچھتے ہیں کہ بھائی کیا ٹائم ہے؟ جب ہمیں پتا ہو کہ ہماری گھڑی خراب ہے تو ہم اس پہ عمل نہیں کرتے، اسی طریقہ سے جب ہمیں پتا ہے کہ ہماری اصلاح نہیں ہوئی تو میں کیسے اپنے عیوب کے بارے میں فیصلہ کرسکتا ہوں کہ کیا ہونا چاہئے؟ ظاہر ہے وہ فیصلہ علیل کی رائے جیسا ہوتا ہے اور ’’رَأْیُ الْعَلِیْلِ عَلِیْلٌ‘‘ علیل کی رائے بھی علیل ہوتی ہے۔ اس وجہ سے کسی اور کے پاس جانا پڑتا ہے، اس کے بغیر کام نہیں ہوتا۔ اللہ جل شانۂ ہم سب کو بزرگوں کے ان فیوض و برکات سے مکمل حصہ عطا فرمائے۔
سوال نمبر 18:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! حضرت شاہ صاحب دامت برکاتھم میں میران شاہ سے فلاں ہوں۔ میرے معمولات درج ذیل ہیں: دو سو، چار سو، چھ سو، ساڑھے چار ہزار، تمام لطائف پر دس دس منٹ اور تجلیات افعالیہ پر پندرہ منٹ۔ اس مہینے میں اب تک ایک ہفتہ بخار اور شدید کھانسی رہی جس کی وجہ سے معمولات میں دو دن کا ناغہ ہوا۔ اب بھی کھانسی کی وجہ سے ذکر علاجی جہر کے ساتھ نہیں کررہا۔ تجلیات افعالیہ میں دھیان اس طرف لگ رہا ہے کہ ہر کام اللہ تعالیٰ کے امر اور ارادہ سے ہورہا ہے، دوسری بات یہ ہے کہ ذہن پہ ہر وقت آپ کا تصور ہوتا ہے۔ طبیعت پہ بوجھ زیادہ محسوس کررہا ہوں، مزید رہنمائی فرمائیں۔
جواب:
ما شاء اللہ! یہ بہت اچھی بات ہے کہ آپ کا ذکر چل رہا ہے۔ بیماری کی حالت میں مجبوری ہوتی ہے، اس میں انسان بہت سارے کام نہیں کرسکتا لیکن اس کو پتا ہوتا ہے کہ میں کون سا کام کرسکتا ہوں اور کون سا کام نہیں کرسکتا، تو اس مطابق وہ دیکھتا ہے۔ اب باقی معمولات وہی رکھیں، صرف تجلیات افعالیہ کے مراقبہ کہ جگہ اب آپ صفات ثبوتیہ کا مراقبہ کریں اور صفات ثبوتیہ کا مراقبہ یہ ہے کہ اللہ پاک کی جو آٹھ صفات ہیں، بالخصوص یہ کہ اللہ پاک نے سب کچھ پیدا کیا ہے، اللہ حیّ ہے، اللہ پاک ارادہ فرماتے ہیں، اللہ جل شانہ دیکھتے ہیں، اللہ سنتے ہیں، اور اللہ پاک خالق ہیں۔ ان کا آپ مراقبہ آپ کرلیں کہ ان کا فیض اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ ﷺ کی طرف آرہا ہے، آپ ﷺ کی طرف سے شیخ کی طرف آرہا ہے اور شیخ کی طرف سے آپ کے لطیفہ روح پہ آرہا ہے۔
سوال نمبر 19:
السلام علیکم! حضرت میں فلاں کی بہن ہوں۔ حضرت کچھ عرصہ آپ سے مستقل رابطہ نہیں ہوسکا۔ ابھی House job کررہی ہوں، اس کے مکمل ہونے میں ان شاء اللہ دو ماہ رہ گئے ہیں۔ حضرت کچھ عرصہ سے اصلاحی ذکر میں ناغہ ہورہا ہے۔ کبھی مستقل On call ہوتی ہوں۔ باقی ذکر بھی کچھ ٹائم سے نہیں ہو پا رہا۔ دس منٹ قلب، پندرہ منٹ روح اور دس منٹ سر پر ’’اَللّٰہْ اَللّٰہْ‘‘ محسوس ہونے کا ذکر ملا ہوا ہے۔ 313 والے وظیفہ کے بعد مجھے صرف باجی نے بتایا کہ کسی اور ساتھی کو میرے ساتھ ملا لیں گی اور ہم دونوں اس وقت پڑھیں گی اور آگے report بھی ساتھ دیں گی۔ میں اَلْحَمْدُ للہ 313 والا وظیفہ بھی پڑھتی ہوں، لیکن کبھی کال کی وجہ سے یا سو رہی ہوں تو رہ جاتا ہے۔ اَلْحَمْدُ للہ منزل باقاعدگی سے پڑھتی ہوں، چہل درود شریف، مناجات مقبول بھی پڑھ رہی ہوں اور آج کل خاص طور پر تین چار بار نظر کی آیات بھی دم کرتی ہوں۔ ہر ماہ اَلْحَمْدُ للہ جتنا بھی درود پاک پڑھ سکتی ہوں تو آگے پیش کرنے کے لئے بتا دیتی ہوں۔ صبح شام کی دعائیں اور وبائی امراض سے حفاظت والا وظیفہ بھی کرتی ہوں۔ میں اَلْحَمْدُ للہ اپنے کام سے مخلص ہوں، سب کام پورے کرتی ہوں تو Senior PG اور consultant بھی میرے کام کو سراہتے ہیں۔ میں کسی کو دکھانے کے لئے کام نہیں کرتی، دوسرے لوگ اپنا کام پورا نہیں کرتے تو میرا کام خود بخود نمایاں ہوجاتا ہے اور سب نوٹ کرتے ہیں کہ میں محنت سے اپنے سب کام پورے کرتی ہوں اور اپنا ٹائم پورا ہونے پر ward سے جاتی ہوں۔ باقی لوگ بارہ بجے سے ایک بجے کے بعد نکل جاتے ہیں اس لئے نظر کی آیت بھی دم کرتی رہتی ہوں۔ ان شاء اللہ House job کے بعد آگے Gynae part one FCPS میں جانے کا ارادہ ہے۔ ان شاء اللہ 18 اپریل کو House job ختم ہورہی ہے، 23 مئی کو Part one specialization کا paper ہے۔ اللہ تعالیٰ اس پڑھائی کو دین کے لئے قبول فرمائے اور بہترین ڈاکٹر بنائے۔ ایک اور بات کرنا چاہتی ہوں کہ شادی کے لئے رشتے تو آتے ہیں لیکن اب تک کوئی final نہیں ہوا۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے ایک ڈاکٹر کا رشتہ آیا تھا، ایک دو بار وہ ہمارے گھر آئے اور ہمارے گھر والوں کو بھی اپنے گھر بلایا۔ بات تقریباً final لگ رہی تھی، ان لوگوں نے ہمیں شادی کرنے کے لئے ٹائم دیا لیکن پھر ہم نے رابطہ ہی نہیں کیا۔ ایک بات جو غیر مناسب لگی وہ یہ کہ ان کے والد نے مجھے دیکھنے کو کہا تھا، میں نے ان کو کہہ دیا کہ اگر صرف لڑکا مجھے دیکھنا چاہے تو دیکھ لے، اس کے والد کے سامنے نہیں جاؤں گی۔ تصویر تو میں نے پہلے دکھائی تھی، اس کے بعد پتا نہیں کیا ہوا، اللہ تعالیٰ بہترین نصیب فرمائے۔
جواب:
ٹھیک ہے، ما شاء اللہ بیٹی آپ جو کررہی ہیں وہ بہت اچھا کام ہے، کیونکہ ایک اچھا ڈاکٹر امت کو مل جائے یہ بہت بڑی بات ہے۔ البتہ اچھا ڈاکٹر ہونے کے لئے اللہ کے ساتھ تعلق ضروری ہے لہٰذا ناغے بالکل نہ کیا کریں۔ جب بھی وقت ملے قلب والا مراقبہ کرلیا کریں اور اگر آپ کے لئے وقت نکالنا ممکن ہو تو درود شریف پڑھنے کے لئے اپنے ساتھ counter وغیرہ رکھ لیا کریں۔ اس طریقہ سے آپ کچھ نا کچھ ذکر کرتی رہیں گی اور بالکل ناغے والی بات ختم ہوجائے گی۔
سوال نمبر 20:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
نمبر 1:
تمام لطائف پر پانچ منٹ ذکر مراقبہ عبدیت اور دعائیہ پندرہ منٹ۔ حقیقتًا محسوس ہوتا ہے کہ تمام اعضا سجدے میں ہیں اور کثرت سے دعائیں بھی کرتی ہوں۔
جواب:
ما شاء اللہ! اس کو جاری رکھیں۔
نمبر 2:
تمام لطائف پر پانچ منٹ ذکر اور مراقبہ شیونات ذاتیہ پندرہ منٹ۔ اللہ تعالیٰ کی مختلف شان محسوس کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھی یقین بڑھ گیا ہے۔
جواب:
ماشاء اللہ! بہت اچھی بات ہے، اب ان کو مراقبہ تنزیہ یا صفات سلبیہ والا دے دیں۔
سوال نمبر 21:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! حضرت اقدس امید ہے مزاج بخیر و عافیت ہونگے۔ بندہ کو جب کسی کے بارے میں یقینی معلوم ہوجائے کہ فلاں گناہ میں مبتلا ہے، مثلًا سود کھاتا ہے یا ظلم کرتا ہے تو ایسے شخص پر یا اس کے خاندان میں کسی پر بلا یا مصیبت آتی ہے تو بندہ خوش ہوتا ہے کہ جب نافرمانی کرتے ہو تو یہی انجام ہونا چاہئے۔ اس بارے میں آپ حضرت رہنمائی فرمائیں۔
جواب:
دیکھیں! سزا کا فیصلہ اللہ پہ چھوڑا کریں، یہ فیصلہ اللہ پاک کرتے ہیں۔ ہم صرف اور صرف دعا کرسکتے ہیں کہ اللہ پاک ہدایت عطا فرمائے اور بیماریاں دور فرمائے۔ جب کبھی بھی ایسا ہو تو طبیعت بے شک یہ چاہتی ہو کیونکہ اس میں انسان غیر مکلف ہے، لیکن ارادتًا یہی کریں کہ اس کے لئے دعا کرلیا کریں کہ اللہ پاک اس کو معاف کر دے۔ آپ دیکھیں کہ آپ ﷺ نے اپنی امت کے لئے کیسے دعائیں کیں۔ آپ ﷺ نے تو یہاں تک دعا کی ہے کہ یا اللہ! اگر میں نے کسی کے لئے سخت بات کی ہو تو وہ اس کے لئے صدقہ بنا دے۔ اس لئے اگر ہم آپ ﷺ کی سنت پہ عمل کررہے ہیں تو ہمیں یہی کرنا پڑے گا، البتہ اللہ جل شانہ مختار کل ہے، وہ جو فیصلہ کرے کرسکتا ہے۔ ہم اللہ پاک سے اپنے لئے اور پوری امت کے لئے صرف معافی مانگیں گے۔
سوال نمبر 22:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! آپ کو صحت و تندرستی دے۔ آج کا مراقبہ پھر بتا دیں۔
جواب:
مراقبے میں یہ تصور کریں کہ میں پیار سے اللہ کو یاد کررہی ہوں اور اللہ محبت کے ساتھ مجھے دیکھ رہے ہیں۔
سوال نمبر 23:
السلام علیکم!
My dear and respected مرشد all اذکار are completed this month.
ذکر ترتیب: Two, four, six, and four thousand. Ten minutes on لطائف قلب، روح، سر، خفی، اخفیٰ fifteen minutes مراقبہ معیت
اس مراقبہ میں دل میں آیا کہ بند کروں تو دل و دماغ بھی مراقبہ معیت میں چل رہے ہوتے ہیں۔ اس مراقبہ سے میرا اللہ پہ توکل اور بھروسہ بہت زیادہ بڑھ گیا ہے اور مراقبہ معیت کے بعد میرے اندر صبر بھی بڑھ گیا ہے۔
جواب:
ما شاء اللہ! اس مراقبہ کو جاری رکھیں کیونکہ اس میں اور بھی فائدے آپ کو نصیب ہوں گے۔
سوال نمبر 24:
ایک سالک کا سوال آیا تھا جو کہ حضرت نے مجلس میں نہیں سُنایا، بلکہ اُس کا صرف جواب حضرت نے دیا ہے۔
جواب:
ابھی آپ ڈھائی ہزار مرتبہ اللہ کا ذکر کریں اور باقی مراقبہ اتنا ہی کریں جتنا بتایا۔
سوال نمبر 25:
حضرت السلام علیکم!
نمبر 1:
حضرت عقل اور قلب کے باہمی تعلق اور ربط پر آپ کی کوئی الگ تحریر موجود ہے؟ الطاف القدس تعلیمات میں تو کافی وضاحت کے ساتھ حضرت والا نے بیان فرمایا اگر اس بارے میں آپ نے کوئی جدید تحریر فرمائی ہو تو از راہِ کرم send کر دیں۔
جواب:
دراصل قلب برزخ ہے، اس کا تعلق عقل کے ساتھ بھی ہے اور نفس کے ساتھ بھی ہے۔ کمال کی بات یہ ہے کہ ہمارے اردو محاورے میں بھی یہ چیزیں موجود ہیں جیسے کہا جاتا ہے کہ دل و دماغ پر فلاں چیز چھائی ہوئی ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ جہاں تک سمجھنے کا تعلق ہے تو اس میں دل کا بھی contribution ہے کیونکہ قرآن سے ثابت ہے:
﴿لَهُمْ قُلُوْبٌ لَّا یَفْقَهُوْنَ بِهَا﴾ (الأعراف: 178)
ترجمہ: "ان کے ایسے دل ہیں جن کے ذریعے وہ سمجھتے نہیں"۔
اس کا مطلب ہے کہ سمجھنے کا تعلق دل سے بھی ہے اور دماغ کے ساتھ تو ہے ہی۔ چونکہ علم کا تعلق اس کے ساتھ ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ فیصلہ دل و دماغ میں ہوتا ہے، اندازہ دل و دماغ میں لگایا جاتا ہے اور اس پر تمام تجزیہ وغیرہ ادھر ہوتا ہے۔
دوسری چیز قلب و جگر ہے۔ جگر چونکہ نفس کا مرکز ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ قلب کا تعلق نفس کے ساتھ بھی ہے۔ آپ حیران ہوں گے کہ قوت عازمہ یعنی ارادی قوت قلب میں ہوتی ہے۔ جیسے کہا جاتا ہے کہ فلاں کا دل بڑا مضبوط ہے یعنی اس کی قوت ارادی زیادہ ہے۔ قوت عازمہ اگرچہ دل میں ہوتی ہے لیکن قوت عمل نفس میں ہوتی ہے۔ گویا کہ دل driver ہے اور نفس گاڑی ہے۔ حاصل یہ ہے کہ عمل کا تعلق بھی دل کے ساتھ ہے اور سوچنے سمجھنے اور فیصلہ کرنے کا تعلق بھی دل کے ساتھ ہے۔ دل دونوں جگہ پر interact کرتا ہے۔ اس کی اور بھی بہت ساری مثالیں دی جا سکتی ہیں۔
نمبر 2:
ایک سوال یہ ہے کہ جہاں محبت نہ ہو یا New knowledge ہو تو وہ بات پہلے دل مانتا ہے یا عقل مانتی ہے؟ کیا دل صرف emotions اور جذبات کا مرکز ہے مثلًا محبت، بغض، خوف etc. اور کیا قلب ان چیزوں میں نفس اور عقل سے independent ہوتا ہے؟ کیونکہ حضرت آپ نے یہ بات ہمیں بار بار سمجھائی ہے کہ:
All three لطائف are interconnected and effect one another but what is the role of the قلب? Is it only the مقام قلب where روح and نفس fight and struggle with each other? So does this make the قلب a neutral place but with independent actions thus only and influenced either by good or evils?
جواب:
میرے خیال میں آپ کو اپنا کلام سنانا مناسب ہے۔ ان شاء اللہ العزیز اس میں میرے خیال سے کچھ سوالات اور ان کے جوابات آجائیں گے۔ اس کا عنوان ہے:
عقل اور جذبات
وقتی جذبہ کوئی انگڑائی سی اگر لے لے
عقل کمزور ہے اس سے اگر اثر لے لے
عقل تسلیم کرے خود سے حقیقت کوئی
دو آتشہ بنے اس کو اگر دل پر لے لے
یعنی اگر دل بھی ساتھ دے۔ یہ عقلی اور طبعی محبت کی approach حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی ہے۔ ہم عقلی محبت کے مکلف ہیں، عقلی محبت جب اس حد تک بڑھ جائے کہ وہ طبیعت پر غالب ہوجائے تو وہ طبعی محبت بھی بن جاتی ہے۔
پھر اسی بات کی تائید وحی سے بھی ہو
اور پرزور بنے اس کو تو خاص کر لے لے
حسنِ فانی نرے جذبات اور حسنِ ازل
دیکھیں یہاں پر مقامات قریب قریب آرہے ہیں، ایک حسن فانی ہے اور ایک حسن ازل ہے۔ اگر ہم غور کریں تو حسن ازل کے ساتھ ہمارا دونوں جہاں کا واسطہ ہے۔ ہم اگر عقل کی بات مانیں تو ہم اس سے convinced ہوسکتے ہیں۔ کیونکہ حسن فانی کا ہمیں پتا ہے کہ یہ عارضی ہے۔ اگر یہ آپس میں ایک دوسرے کو endorse کرلیں تو تب کوئی مسئلہ نہیں ہے، لیکن اگر ایک دوسرے کے خلاف ہوں تو پھر ہم حسن ازل کی بات کریں گے کیونکہ اس کا تعلق عقل اور وحی دونوں کے ساتھ ہے۔ تو کچھ محنت کر کے دل کو اس پر لانا پڑے گا۔
عقل سے ہے یہ اثر جذب سے مگر لے لے
یعنی عقل سے تو ہے، لیکن جذب حاصل کرنے کے لئے محنت کرنی پڑے گی۔
حسنِ فانی تو محض امتحان ہے اپنا
یہ ہے کیا حسنِ ازل سے اگر ٹکر لے لے
جس نے اس حسنِ ازل سے کیا سودا دل کا
وہ اس کے واسطے سبق ایک مختصر لے لے
بتقاضائے وفا کوئی تقاضا ہی نہ ہو
ہو نظر اس پہ نام اس کا برابر لے لے
یعنی اس سے کوئی تقاضا نہ کرے کیونکہ وہ خود جانتا ہے۔
وہ قدردان ہے تو قدر نہ مانگو اس سے
وہ جتنا دے شبیرؔ تو بھی اُس قدر لے لے
ما شاء اللہ میرے خیال سے اس میں آپ کے سوال کا جواب آگیا ہے۔ بعد میں اگر کوئی بات آئے گی تو اُس وقت ان شاء اللہ اس پہ discuss کرسکتے ہیں۔ سوال نمبر 26:
جس طرح آج آپ نے پشتو بیان میں فرمایا کہ شکر سلوک کی آخری stage ہے۔
جواب:
یہ طبعی طور پر سلوک کے طے کرنے کے بعد حاصل ہوتا ہے۔ عقلی طور پر پہلے بھی حاصل ہوسکتا ہے۔
سوال نمبر 27:
لیکن اگر عقلی طور پہ کسی چیز کو وہ حاصل کرنا چاہ رہا ہوگا تو وہ جبر کر کے کرے گا اگرچہ اس کا دل نا مانے؟
جواب:
بھلے دل نا مانے، دل سے کون پوچھتا ہے؟ ہم تو وہی کریں گے جو اللہ چاہتا ہے۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ جو ہمارا دل چاہتا ہے ہم وہ کریں۔ اس وقت ہم اللہ پاک کی مانیں گے۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ