اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ
اَمَّا بَعْدُ
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال نمبر 1:
السلام علیکم۔ حضرت جی!
This is فلاں. I hope you are well and in good health. You are always in my heart but I feel ashamed and embarrassed to have not contacted you. I would like to restart my تزکیہ journey. I have left behind all affairs of life. Please guide me! جزاک اللہ
جواب:
پہلے تو آپ یہ سوچیں کہ آپ کے اعمال کہاں تک ہو چکے تھے، جہاں تک ہو گئے تھے، وہ مجھے بتا دیں اور وہیں سے اعمال شروع کر لیں، اب باقاعدگی سے اعمال شروع کریں، جس وجہ سے بھی رکاوٹ آئی تھی، اس کو آپ اپنا تجربہ بنا لیں، کیوں کہ تجربہ اصل میں حادثہ کا ثمرہ ہوتا ہے یعنی جب کوئی حادثہ پیش آتا ہے تو اس سے جو تجربہ ہوتا ہے، اس تجربے کے ذریعے آئندہ اس قسم کی چیزوں سے بچنے کا طریقہ حاصل ہو جاتا ہے، لہذا آپ اس تجربے کو استعمال کریں اور آئندہ اس قسم کی رکاوٹ نہیں آنی چاہئے۔
سوال نمبر 2:
دس منٹ، دس منٹ، دس منٹ اور پندرہ منٹ۔
جواب:
آپ نے یہ نہیں بتایا کہ آپ ہر لطیفہ کا بیان کر رہے ہیں یا اس ترتیب سے میں نے آپ کو ذکر دیا ہوا ہے۔ بات پوری کرنی چاہئے، بات پوری کرنے سے ہی فائدہ ہوتا ہے، جب بھی آپ سے سوال کیا جائے تو اس کا مکمل جواب دیں، پورا جواب دینے سے پیچھے دیکھنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔
سوال نمبر 3:
حضرت جی! ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘ 200 مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ 400 مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ 600 مرتبہ، ’’اَللہ‘‘ 500 مرتبہ۔ قلب، روح، سر، خفی اور اخفی پر دس دس منٹ اور روح پر مراقبہ تجلیات صفاتِ ثبوتیہ پندرہ، الحمد للہ یہ تمام اذکار ایک ماہ تک کر لئے ہیں، مزید رہنمائی کی درخواست ہے۔
جواب:
آپ مجھے بتائیں کہ مراقبہ تجلیاتِ صفاتِ ثبوتیہ کا آپ پر کیا اثر ہوا ہے؟ تاکہ آئندہ کے لئے میں آپ کو ذکر بتا سکوں۔
سوال نمبر 4:
حضرت جی! آپ نے میری والدہ کو 9000 مرتبہ زبانی ’’اَللہ، اَللہ‘‘ کا ذکر تلقین فرمایا تھا، جسے ایک مہینہ تک کرنے کے بعد آپ کو اطلاع کرنی تھی، بلاناغہ ذکر کرتے ہوئے ایک مہینہ 27 جنوری کو مکمل ہو چکا ہے، اب آگے انہیں کیا کرنا چاہئے؟
جواب:
آئندہ وہ 9500 مرتبہ ’’اَللہ، اَللہ‘‘ کا ذکر کر لیا کریں۔
ہدایت:
اس نمبر پر آپ وائس کال نہ کیا کریں، کال کے لئے جو ہمارا ٹائم ہے یعنی دو بجے سے تین بجے تک، اس ٹائم میں ہمارے پی ٹی سی ایل نمبر 5470582-051 پر کال کیا کریں، کیوں کہ یہ ٹیب لیٹ ہے اور میرے پاس پیر کے دن یا بیان کے وقت میں ہوتا ہے، باقی اوقات میں یہ میرے پاس نہیں ہوتا، باقی اوقات میں موبائل میرے پاس ہوتا ہے لیکن میرے موبائل نمبر پر بھی کال نہیں کرنی چاہئے، ہاں اگر واٹس ایپ کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں، اگر کال کرنی ہے تو جمعہ کے علاوہ باقی ایام میں کال ٹائم کے اندر یعنی دو بجے سے تین بجے تک پی ٹی سی ایل نمبر پر کال کیا کریں۔
سوال نمبر 5:
200، 400، 400 اور 600 والا ذکر مکمل ہو گیا ہے، اگلا ذکر ارشاد فرما دیں۔
جواب:
مجھے نہیں معلوم کہ آپ کیا کہنا چاہتے ہیں، غالباً آپ یوں کہنا چاہتے ہیں کہ 200، 400، 600 اور 400، میرے خیال میں اسم ذات کا ذکر 400 مرتبہ ہو گا، کیوں کہ پہلے جو آپ نے مجھے ذکر بتایا تھا، وہ 100، 200، 400 اور 600 مرتبہ تھا، لہذا ترتیب سے لکھا کریں یعنی 200، 400، 600 اور 400، اگر آپ بلا ترتیب لکھیں گے تو پھر میں غلط سمجھوں گا، اگر آپ کا ذکر 200، 400، 600 اور 400 مرتبہ ہے تو اب آئندہ 200، 400، 600 اور 500 مرتبہ کر لیں۔
سوال نمبر 6:
حضرت جی! 200، 400، 600 اور 4500 والا ذکر پورا ہو چکا ہے، مراقبہ میں ناغہ رہتا ہے، کوشش کر کے ذکر پورا کرتا ہوں، مزید رہنمائی فرما دیجئے۔
جواب:
آپ نے مراقبہ کے بارے میں بتایا ہی نہیں کہ آپ کا مراقبہ کون سا ہے۔ اگر مراقبہ نہیں ہو رہا ہے تو پھر ذکر 200، 400، 600 اور 5000 مرتبہ کریں، نیز مراقبہ کی تفصیل بھی بتائیں۔
سوال نمبر 7:
یا مولانا!
I hope you are well ان شاء اللہ! May Allah preserve you! I am currently facing a problem. I haven’t done my daily zikr for more than a week for worldly reasons. I don’t know what to do? What would be your instructions and councils? May Allah bless you یا مولانا!
Answer:
But you didn’t tell me what are you planning now? If you are stuck telling me, why? If you want to do so please continue and inform me.
سوال نمبر 8:
میری بیٹی ہے جس کی عمر چودہ سال ہے، جب ہم لاہور آئے تھے تو اتوار والے جوڑ میں الحمد اللہ اس نے آپ سے بیعت کی تھی۔
دوسری بات آپ کو یہ بتانی تھی کہ ایک باجی کے منع کرنے کی وجہ سے ہم فلاں جگہ نہیں جا رہے تھے، اس کی بجائے اپنے گھر میں بخاری شریف اور سیرت صحابہ پڑھتے ہیں اور فلاں صاحب کی تفسیر دیکھ لیتے ہیں، اس کے علاوہ آپ کے جو بیانات قرآن والے گروپ میں شیئر کئے جاتے ہیں، وہ بھی سنتے ہیں۔
جواب:
تفسیرِ قرآن کے لئے آپ تین تفاسیر میں سے کسی ایک کا انتخاب کر لیجئے، ایک تفسیر معارف القرآن (از مفتی شفیع رحمۃ اللہ علیہ) یعنی اگر آپ نے تفصیل سے تفسیر پڑھنی یا سننی ہے تو معارف القرآن اس مقصد کے لئے بہت موزوں ہے۔ دوسری تفسیر بیان القرآن ہے جو حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی تصنیف ہے، یہ تفسیر بامحاورہ ترجمہ کے ساتھ ہے، لیکن بیان القرآن کا بامحاورہ ترجمہ معارف القرآن میں بھی شامل ہے، اگر آپ اس ترجمہ کو علیحدہ پڑھنا چاہتے ہیں تو بیان القرآن سے پڑھ سکتے ہیں اور تیسری تفسیر؛ تفسیرِ عثمانی ہے جو کہ مختصر ہے۔
میرے خیال میں معارف القرآن اس اعتبار سے بہت بہتر ہے کہ اس میں مفتی صاحب نے معارف و مسائل بھی لکھے ہیں اور اس تفسیر میں جو مسائل لکھے گئے ہیں، وہ فتویٰ کی حیثیت رکھتے ہیں، اس وجہ سے آپ کو کسی دوسرے سے مسائل پوچھنے کی ضرورت نہیں رہے گی اور اطمینان بھی ہو گا۔
دوسری بات یہ ہے کہ معارف القرآن میں دو طرح کا ترجمہ ہے، ایک تحت الفظ ترجمہ ہے جو شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ کا کیا ہوا ترجمہ ہے اور ایک بامحاورہ ترجمہ ہے جو حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے کیا ہے، ان دونوں ترجموں کے اپنے اپنے فوائد ہیں، بیان القرآن سے جو ترجمہ لیا ہے اس کے ساتھ قوسین کے اندر جو کچھ لکھا گیا ہے، اگر اسے بھی ترجمہ کے ساتھ پڑھا جائے تو وہ تفسیر بن جاتا ہے اور اگر آپ اس میں سے صرف انڈر لائن عبارت کو پڑھیں گے تو وہ صرف ترجمہ ہو گا، اس سے بہت مختصر الفاظ میں بہت کچھ علم حاصل ہو جاتا ہے اور جو معارف و مسائل ہیں وہ تو پورے مضمون کی حیثیت رکھتے ہیں، اس لئے میرے خیال میں یہ تفسیر آپ کے لئے زیادہ مفید ہو گی۔ ان شاء اللہ العزیز۔
باقی بیان وغیرہ جو آپ سنتی ہیں، یہ بہت اچھا کام ہے، اللہ جل شانہ آپ کو اس سے مستفید فرمائے۔
سوال نمبر 9:
امید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گے۔ شاہ صاحب! میں نے اب نیا کام شروع کیا ہے، وہ کام جو پہلے میں نے آپ کو بتایا تھا، اس کے لئے مجھ سے ٹائم کی ترتیب سیٹ نہیں ہو رہی، اب تک ایسا کرتی رہی کہ صبح آٹھ بجے سے پروف ریڈنگ شروع کرتی اور نو، دس بجے تک کرتی رہتی۔
جواب:
اس سوال کا تعلق صرف آپ کے ساتھ ہے، لہذا اس کا میں الگ جواب دے دوں گا۔
سوال نمبر 10:
حضرت سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم۔ حضرت! میں نے آپ کے حکم کے مطابق مندرجہ ذیل ذکر تیس دن تک بلاناغہ مکمل کر لیا ہے، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘ 200 مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ 300 مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ 300 مرتبہ، ’’اَللہ‘‘ 600 مرتبہ، روزانہ کے معمولات ہر نماز کے بعد پابندی سے جاری ہیں، نماز پڑھنے میں الحمد للہ بہت آسان ہوتی ہے اور اللہ کی مہربانی سے نماز کی پابندی آسان ہو گئی ہے اور نماز قضا کرنا مشکل ہو گیا ہے۔
حضرت! یہاں پر نظر کی حفاظت، کانوں کی حفاظت اور باقی برائیوں سے اجتناب آسان ہو گیا ہے، اس کی بڑی وجہ داڑھی رکھنا ہے۔
حضرت! دو چیزوں میں معاملہ کافی پریشان کن ہے، ایک غصہ طبیعت میں کافی آ گیا ہے اور دوسرا کھانے کی شہوت بہت بڑھ گئی ہے، اکثر اوقات طبیعت پر غصہ طاری رہتا ہے یا پھر کھانے کا خیال لگا رہتا ہے، یہ معاملہ ابھی تھوڑے عرصہ سے زیادہ ہو گیا ہے۔
حضرت! آپ سے اس معاملہ میں توجہ کی درخواست ہے، ذکر میں بھی آگے رہنمائی کی درخواست ہے۔
جواب:
دیکھیں! میں آپ سے عرض کرتا ہوں کہ یہ تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو ذکر کی برکات نصیب فرمائی ہیں۔ اب ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘ 200 مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ 400 مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ بھی 400 مرتبہ اور ’’اَللہ‘‘ 100 مرتبہ کریں۔ باقی روزانہ کے معمولات آسان ہونے پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں، نظر کی حفاظت اور کانوں کی حفاظت بھی آپ کے لئے آسان ہو گئی ہے، اس پر بھی اللہ کا بہت شکر ادا کریں۔
باقی غصہ ایک فطری چیز ہے۔ یہ کسی کو بھی آ سکتا ہے لیکن غصہ کو کنٹرول کرنا ہوتا ہے یعنی غصہ آنا مسئلہ نہیں ہے، غصہ کرنا مسئلہ ہے، لہذا آپ غصہ نہ کیا کریں۔ اگر غصہ آ بھی جائے تو اسے برداشت کریں۔
غصہ برداشت کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ جس پر غصہ آئے، وہ اگر آپ سے عمر میں چھوٹا ہے تو اسے اپنے سے علیحدہ کر دیں اور اگر وہ آپ سے بڑا ہے تو آپ خود اس سے علیحدہ ہو جائیں، اگر کھڑے ہوں تو بیٹھ جائیں، بیٹھے ہوں تو لیٹ جائیں یعنی اپنی حالت تبدیل کر لیں اور پانی پی لیں۔ اس طریقے سے وقتی طور پر یہ ہیجان ختم ہو جائے گا، ویسے بھی غصہ پندرہ بیس منٹ کے لئے ہوتا ہے، اس کے بعد پھر خود بخود ختم ہو جاتا ہے۔
اور جہاں تک کھانے کی بات ہے تو یہ نفس کی شرارت ہے۔ یہ بات یاد رکھیں کہ نفس کا فوری علاج عقل سے کیا جاتا ہے اور مستقل علاج مجاہدہ کے ذریعے ہوتا ہے۔ اگر عقل آپ کو بتا رہی ہے کہ اس سے آپ کو نقصان ہو گا تو اپنا نقصان نہ ہونے دیں اور اتنا کھائیں جتنا کھانے کی ضرورت ہے، اس سے زیادہ نہ کھائیں، بہتر تو یہ ہے کہ مسنون طریقے سے کھائیں یعنی جتنا کھانا مسنون ہے اتنا کھائیں یا پھر کم از کم اتنا تو نہ کھائیں کہ کھانا آپ کو نقصان دینے لگے، اس سلسلہ میں فوری طور پر اپنی عقل سے کام لیں اور بعد میں جب اس کے مجاہدات وغیرہ ہوں گے اور سلوک طے ہو گا تو ان شاء اللہ اس میں یہ ساری چیزیں آ جائیں گی۔
سوال نمبر 11:
محترم جناب شبیر کاکاخیل صاحب! آپ نے 09 جنوری کو 200 مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘، 200 مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘، 200 مرتبہ ’’حَقْ‘‘ اور 100 مرتبہ ’’اَللہ‘‘ کا ذکر دیا تھا، اب کیا حکم ہے؟
جواب:
آپ نے ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘ دو مرتبہ لکھا ہے، سو اگر آپ نے یہ ذکر درست طریقے سے نہیں کیا تو اب ٹھیک طریقے سے کر لیں، یعنی 200 مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘، 200 مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘، 200 مرتبہ ’’حَقْ‘‘ اور 100 مرتبہ ’’اَللہ‘‘۔ اگر آپ نے اسی طریقے سے ذکر کیا ہے تو پھر اب ایسا کریں کہ 200 مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘، 300 مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘، 300 مرتبہ ’’حَقْ‘‘ اور 100 مرتبہ ’’اَللہ‘‘ کا ذکر کریں اور اگر آپ نے یہ ذکر درست طریقے سے نہیں کیا تو پھر اسی ذکر کو درست طریقے سے کر لیں یعنی 200 مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘، 200 مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘، 200 مرتبہ ’’حَقْ‘‘ اور 100 مرتبہ ’’اَللہ‘‘ کا ذکر کریں۔
سوال نمبر 12:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
Respected dear Hazrat Sahib I pray you and your family all are well. I have these questions.
No. 1: How can I as someone who doesn’t understand Arabic get spiritually charged after reciting my daily Quran portion? I have a routine of reading 15 minutes daily at least. Usually thoughts go here and there towards غفلت even when making تلاوت.
No. 2: I have estimated around 2.5 years of قضا عمری Salat. The علماء کرام say to read at least six daily قضا Salat along with your current Salat. This feels difficult at the moment. So, I procrastinate as it takes around 30 to 40 minutes to read six قضا Salat daily and due to that time job it is not ideal for me to read one along with each normal Salat. What do you advise? Dua is requested.
جواب:
پہلی بات تو یہ ہے کہ عجمیوں کو چوں کہ عربی تو آتی نہیں، اس لئے قرآن سمجھنا اس کے لئے ایک مسئلہ ہے، اس کا حل یہ ہے قرآن کے دو حقوق ہیں، ایک حق یہ ہے کہ قرآن محبوب کا کلام ہے، لہذا محبت کے ساتھ اس کی تلاوت کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ بھی محبت کے ساتھ ایسے شخص کو دیکھ رہے ہوتے ہیں جس وقت وہ تلاوت کر رہا ہوتا ہے، لہذا اللہ پاک کی محبت حاصل کرنے کے لئے محبت کے ساتھ قرآن کی تلاوت کرنا؛ یہ قرآن کا ایک مستقل حق ہے، اس میں اگر آپ کو قرآن سمجھ نہ بھی آئے تب بھی کوئی بات نہیں کیوں کہ اس میں محبت کے ساتھ پڑھنا ہی اصل بات ہے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ کبھی کبھی علماء کو بھی بغیر سمجھے قرآن کی تلاوت کرنی چاہئے۔ یعنی قرآن چوں کہ محبوب کا کلام ہے، اس لئے اگر مجھے سمجھ نہ بھی آئے پھر بھی اس کی تلاوت سے مجھے فائدہ ہو گا۔
قرآن کا دوسرا حق یہ ہے کہ اسے سمجھا جائے، قرآن چوں کہ احکم الحاکمین کا کلام ہے، اس لئے اس کا سمجھنا بھی ضروری ہے، کم از کم زندگی میں ایک دفعہ تو ہمیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ اللہ پاک ہم سے کیا چاہتے ہیں، اس کے لئے ہمیں قرآن پاک کا ترجمہ اور تفسیر حسبِ استطاعت پڑھنی چاہئے۔ میں اکثر بتایا کرتا ہوں کہ اگر مختصر تفسیر پڑھنی ہے تو تفسیر عثمانی اور اگر تفصیلی تفسیر پڑھنی ہے تو معارف القرآن کا مطالعہ کرنا چاہئے، یہ دونوں تفسیریں ما شاء اللہ نیٹ پر بھی موجود ہیں اور ویسے بھی موجود ہیں، آپ روزانہ ایک رکوع کا ترجمہ تفسیر کے ساتھ پڑھ لیا کریں، اس سے ان شاء اللہ قرآن کا یہ حق بھی ادا ہو جائے گا۔
دوسری بات آپ نے قضائے عمری کے بارے میں کی ہے، یہ بات آپ یاد رکھیں کہ قضا اللہ پاک کا حق ہے اور ہم نے جرم کیا ہے، کیوں کہ نماز نہ پڑھنا ایک جرم ہے، اب اگر اللہ پاک نے اتنی آسانی کی ہے کہ اس جرم کو قضا کے ذریعے سے معاف کر رہے ہیں تو ہمیں تو اس پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئے، نہ یہ کہ اس کو اپنے اوپر بوجھ سمجھا جائے یعنی اگر قیامت میں مطالبہ ہوا تو پھر انسان کیا کرے گا؟ ظاہر ہے کہ پکڑا جائے گا، اس لئے علماء کرام نے آسانی کے لئے یہ طریقہ بتایا ہے ورنہ حضرت فرماتے ہیں کہ ہونا تو یہ چاہئے کہ جس انسان کو معلوم ہو کہ فلاں کام میرے ذمہ ہے تو اسے چاہئے کہ جلد سے جلد اس کو پورا کر لے، کیوں کہ زندگی کا کچھ علم نہیں ہے، اس لئے روزانہ بہت سارے دنوں کی نمازوں کی قضا پڑھ لینی چاہئے، لیکن چوں کہ لوگوں کے پاس ٹائم نہیں ہوتا اس لئے علماء کرام نے فرمایا کہ ہر نماز کے ساتھ ایک نماز کی قضا پڑھ لینی چاہئے، صرف آسانی کے لئے علماء نے یہ طریقہ بتایا ہے، اس سے زیادہ آسانی تو یہ ہے کہ فوت شدہ نماز کی قضا ہی نہ کی جائے، مگر یہ نہیں ہو سکتا کیوں کہ جو کام ذمہ میں لازم ہو، وہ کرنا ہی پڑتا ہے لہذا نماز کی قضا تو ہر صورت میں پڑھنی ہی ہو گی، یہی آسانی ہے، اس سے زیادہ کیا آسانی ہو سکتی ہے؟ اس سے زیادہ آسانی ممکن ہی نہیں، البتہ میں یہ بتا سکتا ہوں کہ ہر نماز کے ساتھ صرف ایک نماز کی قضا کرنا چوں کہ ضروری نہیں ہے اس لئے جس نماز میں آپ کے پاس وقت زیادہ ہو تو آپ دو نمازوں کی قضا پڑھ لیں اور جب آپ کے پاس وقت نہ ہو تو اس وقت آپ قضا نہ پڑھیں لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ آپ خواہ مخواہ بہت ساری نمازوں کی قضا جمع کرتے جائیں کہ پھر ایک ساتھ قضا پڑھ لوں گا بلکہ ایسا ہو سکتا ہے کہ اگر آپ فجر کے ساتھ دو نمازوں کی قضا پڑھیں تو عشاء کے ساتھ تین نمازوں کی قضا پڑھ لیں، مطلب یہ ہے کہ جو بھی طریقہ آپ کو مناسب معلوم ہو، آپ اسے اختیار کر لیں لیکن کم از کم روزانہ چھ نمازوں کی قضا ضرور پڑھ لیا کریں، چھ اس لئے کہا کہ پانچ نمازوں کے ساتھ وتر بھی شامل ہیں، اس کی بھی قضا ضروری ہے، اس لئے روزانہ چھ نمازوں کی قضا کر لینی چاہئے ورنہ انسان کے اوپر قضا کا بوجھ جمع ہو جائے گا۔ اللہ پاک ہماری حفاظت فرمائے۔
سوال نمبر 13:
شاہ صاحب! اللہ پاک آپ کو لمبی زندگی صحت، تندرستی اور عافیت کے ساتھ عطا فرمائے۔ معمولات لکھنا شروع کر دیئے ہیں، دنیا کی سوچوں سے تنگ آ گئی ہوں، کبھی داخلہ کے بارے میں، کبھی ٹیچنگ، کبھی کسی چیز میں اپلائی کرنے کے بارے میں، لیکن سوائے تھکاوٹ کے کچھ بھی ہاتھ نہیں آتا، اچھے رشتہ آ جاتے ہیں لیکن بات آگے نہیں چلتی۔
جواب:
دیکھیں! ہمارا کام کوشش کرنا ہے، فیصلہ اللہ پاک کے ہاتھ میں ہے۔ مثلاً ایک آدمی بیمار ہو تو اس کا کام علاج کرنا ہے، ڈاکٹر جو نسخہ بتائے اس پر عمل کرنا مریض کا کام ہے، باقی شفا تو اللہ کے ہاتھ میں ہے، ڈاکٹر کے اختیار میں بھی شفا نہیں ہے، اس وجہ سے ہم کوشش تو نہیں چھوڑ سکتے لیکن نتیجہ چوں کہ اللہ کے ہاتھ میں ہے اور اللہ پاک ہم کو ہم سے زیادہ جانتا ہے اور ہم پر ہم سے زیادہ مہربان ہے، اس لئے کوشش کے بعد نتیجہ حاصل ہونے پر پریشان نہیں ہونا چاہئے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب سے مجھے پتا چلا کہ اللہ علیم بھی ہے اور حکیم بھی تو میرے سارے وسوسہ دور ہو گئے کیوں کہ اللہ علیم ہے تو سب چیزیں اسے معلوم ہیں اور اللہ حکیم بھی ہے تو اس کا ہر کام حکمت پر مبنی ہوتا ہے لہذا پھر مجھے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔
آپ کا کام صرف کوشش کرنا ہے، اللہ پاک کو آپ سے زیادہ آپ کے بارے میں علم ہے اور آپ کے حالات بھی جانتا ہے، ان حالات میں جتنی عاجزی آپ سے ہو سکتی ہے وہ عاجزی پیدا کر لیں اور عاجزی کے ذریعے سے اللہ پاک سے مانگا کریں، ہمارے پاس اللہ کے سامنے پیش کرنے کے لئے عاجزی ہی سب سے بڑی چیز ہے لہذا عاجزی کے ساتھ ہم اللہ پاک سے اپنی حاجات مانگا کریں، اللہ پاک مدد فرمانے والا ہے۔ میں بھی دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کے سارے مسئلہ حل فرمائے۔
سوال نمبر 14:
میرا ذکر 8000 مرتبہ زبانی ’’اَللہ، اَللہ‘‘ کرنے کا ہے، اس ذکر کو مہینہ پورا ہو چکا ہے، مزید رہنمائی فرمائیں۔
جواب:
اب 8500 مرتبہ روزانہ یہی ذکر کر لیا کریں۔
سوال نمبر 15:
حضرت! جیسا کہ مراقبہ میں یہ گمان کرنا ہوتا ہے کہ لطیفہ پر ’’اَللہ، اَللہ‘‘ کا ذکر ہو رہا ہے اور ہم اسے سن رہے ہیں، اس طرح وقوف قلبی میں بھی کیا یہی گمان کیا جائے گا کہ قلب میں ’’اَللہ، اَللہ‘‘ کا ذکر ہو رہا ہے اور ہم صرف اس کی طرف متوجہ ہیں؟ نیز قلبی دعا میں کیا یہ گمان کر سکتے ہیں کہ ’’اَللہ، اَللہ‘‘ کا ذکر پہلے سے ہو رہا ہے، صرف دعا اپنے ارادہ سے ذکر میں شامل کر رہے ہیں؟
جواب:
دیکھیں! دعا تو آپ اپنے ارادہ سے ہی کرتے ہیں یعنی جب بھی آپ دعا کرتے ہیں تو اس میں ارادہ تو شامل ہوتا ہے جب کہ جو ذکر خود بخود ہو رہا ہو، وہ محض توجہ سے چلنا شروع ہو جاتا ہے، وہ پھر آپ نہیں کر رہے ہوتے، وہ خود ہو رہا ہوتا ہے تو ذکر ہونا اور چیز ہے اور ذکر کرنا اور چیز ہے، پس دعا تو آپ کر رہے ہوتے ہیں اور ذکر ہو رہا ہوتا ہے تو دونوں کی جنس ہی تبدیل ہے، جب جنس تبدیل ہے تو پھر کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ آپ دیکھیں کہ ہمارے جسم میں خون چل رہا ہے یا نہیں؟ تو ہم بہت سارے کام کر رہے ہوتے ہیں اور خون بھی چل رہا ہوتا ہے۔ کیا ہمارے جسم میں دل دھڑک رہا ہے یا نہیں؟ ظاہر ہے کہ دل دھڑک رہا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ہم بہت سارے کام کر رہے ہیں۔ اس طرح دماغ میں بھی بہت سارے خیالات آ رہے ہوتے ہیں اور پھر بھی ہم کام کر رہے ہوتے ہیں۔ پس جو کام ہو رہے ہوتے ہیں ان کی پروا نہ کریں، اور جو کام کرنے ہوتے ہیں ان کی پروا کریں کہ کروں یا نہ کروں۔
سوال نمبر 16:
جناب محترم شاہ صاحب! اللہ تعالیٰ آپ کو خیر و عافیت والی زندگی عطا فرمائے، آمین۔ حضرت! آپ کا دیا ہوا ذکر یعنی تیسرا کلمہ، درود شریف، استغفار ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘ 200 مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ 400 مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ 600 مرتبہ اور ’’اَللہ‘‘ 3500 مرتبہ، الحمد اللہ 07 فروری کو یہ ذکر کرتے ہوئے ایک مہینہ ہو رہا ہے، آگے جو حضرت کا حکم ہو۔
جواب:
ما شاء اللہ! باقی سب ذکر پہلے کی طرح کریں، البتہ اللہ کا ذکر 4000 مرتبہ کرتے رہیں۔
سوال نمبر 17:
نماز پڑھنے میں جیسا نور محسوس ہوتا ہے ویسا رزقِ حلال کے حصول میں محسوس نہیں ہوتا حالاںکہ مجھے یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ میری رزق کی کمزوری دین کا بھی نقصان کروائے گی، اب کیا کریں کہ جس طرح نماز میں دل لگتا ہے، اسی طرح حلال رزق کمانے میں بھی نور محسوس ہو؟
جواب:
دیکھیں! جو چیزیں غیر اختیاری ہیں، ان کے پیچھے آپ نہ پڑیں، حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اختیاری چیز میں سستی نہ کرو اور غیر اختیاری کے درپے نہ ہو۔ میرے خیال میں اگر یہ بات آپ کو سمجھ آ گئی تو آپ کو جواب بھی مل چکا ہو گا۔
سوال نمبر 18:
حضرت جی! اللہ پاک سے دعا ہے کہ آپ سلامت رہیں۔ آمین۔ حضرت جی! میری دادی محترمہ کے جنازے کے وقت کچھ باتیں پیش آئیں جو میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں۔
جب جنازہ اٹھایا گیا تو اس وقت بعض لوگوں نے اونچی آواز سے کلمہ وغیرہ پڑھنا شروع کر دیا، میں ان لوگوں کے پاس گیا اور ان سے کہا کہ آپ کلمہ وغیرہ اونچی آواز سے نہ پڑھیں، دوسرے لوگوں کو پریشان نہ کریں، آہستہ آواز میں پڑھ لیں، لیکن انہوں نے میری بات نہیں مانی اور اسی طرح بلند آواز سے پڑھتے رہے، بالآخر میں آگے چلا گیا تاکہ فساد نہ ہو۔
دوسری بات یہ ہے کہ میں نے چچا سے کہا کہ گاؤں میں تدفین کے بعد اذان دی جاتی ہے، لیکن آپ انہیں منع کر دیں، انہوں نے کہا کہ میری بات کوئی نہیں سننے گا، میں نے کہا کہ پھر میں خود جا کر امام مسجد سے بات کر لیتا ہوں جنہوں نے نمازِ جنازہ پڑھانا ہے، میں ان کے پاس گیا اور ان سے پوچھا کہ تدفین کے بعد اذان کا کیا حکم ہے؟ انہوں نے کہا کہ مستحب ہے حالانکہ مجھے معلوم تھا کہ یہ بدعت ہے، اس لئے میں نے ان سے کہا کہ میری دادی کی تدفین کے بعد آذان نہیں ہو گی، آپ اپنی ٹیم کو منع کر دیں، جب تدفین ہو چکی تو مسجد کا مؤذن کھڑا آذان دینے کے لئے کھڑا ہوا، مجھے غصہ آیا تو میں نے اسے پکڑ لیا اور کہا آپ آذان کیوں دے رہیں؟ جب پہلے میں نے آپ سے کہہ دیا تھا کہ آذان نہیں ہو گی تو آپ اذان کیوں دے رہے ہیں؟ بالآخر میں نے اسے بیٹھا دیا، لیکن گاؤں کے لوگوں نے شور ڈال دیا اور میرے والد سے کہا کہ آپ آذان دلوائیں، ان کے کہنے سے پھر آذان دی گئی لیکن میں غصہ کی وجہ سے واپس آ گیا، اس رات میری عمرہ کے لئے روانگی تھی، میں عمرہ کے لئے چلا گیا، واپسی پر معلوم ہوا کہ بہت سے رشتہ داروں نے میرے خلاف باتیں کی ہیں جن میں میرے سسر بھی شامل ہیں، مجھے انہوں نے کہا کہ تم نے ایسا کیوں کیا؟ اور پھر غصہ بھی کیا، میں نے ان سے کہا کہ تدفین کے وقت اذان بدعت ہے اور میں تو اس کے خلاف ہی رہوں گا۔ ان شاء اللہ۔
حضرت جی! یہ فرمائیے کہ مذکورہ صورت میں میرا رویہ درست تھا یا نہیں؟ اور مجھے آئندہ کے لئے کیا کرنا چاہئے؟
جواب:
اس مسئلے کا شرعی حکم تو آپ مفتیوں سے پوچھیں، اگر مفتی حضرات کہہ دیں کہ آپ نے ٹھیک کیا ہے تو پھر آپ اس پر جمے رہیں اور اگر انہوں نے کہا کہ آپ نے غلط کیا تو پھر توبہ کریں۔ اس صورت حال میں یہی ہو سکتا ہے کیوں کہ شرعی حکم کی بات ہے۔ مفتی صاحب ہمارے پاس بیٹھے ہوئے ہیں، وہ فرما رہے ہیں کہ اگر ثواب سمجھ کر ایسا کرتے ہیں تو یہ بدعت ہے۔ لہذا آپ نے صحیح کیا ہے لیکن حکمت بھی اپنی جگہ پر ہے، حکمت کے ساتھ چلنا چاہئے یعنی اس کے لئے لوگوں کی ذہن سازی کرنی ہوتی ہے، بہر حال جو ہو گیا، سو وہ ہو گیا، اب آپ اس سے پیچھے نہ ہٹیں، بلکہ آپ ان سے کہیں کہ آپ خود فتویٰ پوچھ لیں، کیوں کہ میں خود مولوی تو ہوں نہیں، اس لئے میں اس بارے میں کیا کہہ سکتا ہوں البتہ میں نے مولویوں سے سنا ہے کہ یہ بدعت ہے، نیز اس کا طریقہ یہ بھی ہے کہ نیٹ پر اس کے بارے میں بنوری ٹاؤن اور دار العلوم کراچی کا فتویٰ موجود ہو گا، آپ اسے سرچ کر کے اس کا پرنٹ نکال لیں اور پھر وہ فتوی لوگوں کو دیکھا دیں۔
اسی طرح نیٹ پر دار العلوم دیوبند کا فتوی بھی ہو گا اور لوگ کہتے ہیں کہ گولڑہ شریف والوں کا بھی یہی فتویٰ ہے کہ تدفین کے بعد قبر پر اذان نہیں ہے، لہذا آپ ان سے بھی فتویٰ لے لیں اور پھر یہ تمام فتاوٰی لوگوں کو دیکھا دیں۔
سوال نمبر 19:
حضرت جی! اللہ پاک سے آپ کی صحت اور تندرستی کے لئے دعا گو ہوں۔ حضرت جی! میرا مسئلہ یہ ہے کہ کچھ دنوں سے نامحرم کو چھونے اور اس سے تعلق قائم کرنے کے خیالات کثرت سے آ رہے ہیں، بعض مرتبہ تو استغفار یا تعوذ پڑھنے سے دور ہو جاتے ہیں لیکن چوں کہ مجھے خیالی پلاؤ پکانے کی کافی عادت ہے اس لئے بعض مرتبہ خیالات کی رو میں بہہ بھی جاتا ہوں، بعد میں شرمندگی بھی ہوتی ہے۔
دوسرا مسئلہ ہے کہ میں معمولات کا چارٹ پُر کرنا بھول جاتا ہوں۔ براہ مہربانی! اس بارے میں رہنمائی فرما دیں۔ اللہ پاک آپ کو بہترین اجر عطا فرمائے، آپ کے درجات کو بلند سے بلند فرمائے۔
جواب:
دونوں مسئلوں کا حل موجود ہے، ایک تو یہ کہ جو خیالات خود بخود آئیں، آپ ان کی پروا ہی نہ کریں یعنی جب آپ کو اس قسم کے خیالات آنا شروع ہوں تو آپ اپنی توجہ کسی مثبت خیال کی طرف پھیر دیں، اور چوں کہ ایک وقت میں انسان دو خیالوں کی طرف متوجہ نہیں ہو سکتا اس لئے مثبت خیال کی طرف توجہ کرنے سے اس قسم کے خیالات ختم ہو جائیں گے۔
باقی جہاں تک چارٹ پُر کرنے کو بھولنے کا مسئلہ ہے تو اس کا حل یہ ہے کہ آج کل آپ کے پاس موبائل تو ہو گا، موبائل پر رات کے وقت میں یاد دہانی لگا لیں، وہ آپ کو یاد دہانی کرا دے گا، کم از کم اس دن کی نمازوں کے بارے میں تو آپ کو یاد ہی ہو گا کہ کون سی نماز آپ نے پڑھی ہے اور کون سی نہیں پڑھی، پھر آپ چارٹ کو پُر کر لیں، اس طرح چارٹ پُر ہو جائے گا۔ ان شاء اللہ۔
سوال نمبر 20:
حضرت! میں نے بیعت ہونے کے حوالہ سے آپ کو آڈیو میسیج کیا تھا، براہِ مہربانی! مجھے فون پر بیعت ہونے کے لئے وقت بتا دیجئے۔
جواب:
آپ کل تین بجے پی ٹی سی ایل نمبر 5470582-051 پر مجھے کال کر لیں، ان شاء اللہ بیعت ہو جائے گی، تین بجے سے ذرا بھی تاخیر نہ کریں کیوں کہ تین بجے ٹیلی فون سننے کا ہمارا ٹائم ختم ہوتا ہے اور بیعت کا وقت شروع ہو جاتا ہے، اس لئے آپ بالکل تین بجے کال کریں۔
سوال نمبر 21:
میں آپ سے کال پر کس وقت بات کر سکتی ہوں؟
جواب:
آپ مجھے میرے پی ٹی سی ایل نمبر 5470582-051 پر کال کر سکتی ہیں، اگر آپ بیرون پاکستان سے فون کر رہی ہیں تو نمبر کے ساتھ 0092 کا کوڈ بھی ملائیں، کوڈ کے ساتھ نمبر اس طرح ہو گا: 0092515470582، اس نمبر پر آپ مجھے کال کر سکتی ہیں، البتہ پاکستانی وقت کے مطابق دو بجے سے تین بجے تک کے وقت میں کال کریں، اس وقت میں بات ہو جائے گی۔ ان شاء اللہ۔
سوال نمبر 22:
حضرت! میں نے صادق آباد میں آپ سے بیعت کی تھی، میں پچھلے دو سال سے اپنے MBBS کے داخلہ کے لئے پریشان ہوں، کوئی نہ کوئی رکاوٹ آ جاتی ہے، آپ سے دعا کی درخواست ہے۔
جواب:
اصل میں یہ سوچ بہت زیادہ ہو گئی ہے کہ رکاوٹ آ گئی ہے۔ مثلاً دو پہلوان آپس میں لڑ رہے ہیں تو لازماً ایک جیتے گا اور دوسرا ہارے گا، اب جو ہارے گا وہ کہے گا کہ رکاوٹ آ گئی۔ لیکن جو جیتے گا وہ کیا کہے گا؟ پس مقابلہ کے امتحانات میں تو اسی طرح ہوتا ہے، بعض لوگوں کو لیا جاتا ہے اور بعض کو نہیں لیا جاتا۔ اگر آپ کے نمبر کم ہیں تو اس میں کون سی رکاوٹ ہے؟ رکاوٹ اس کو نہیں کہتے، میرے خیال میں اگر آپ ان چیزوں کے پیچھے پڑیں گے تو ممکن ہے کہ مقابلہ میں آپ پھر رہ جائیں۔
ہمارے اکثر سٹوڈنٹس وغیرہ کا مزاج تھا کہ جب پیپر ہوتا تھا تو پیپر کے بعد وہ اس پر تبصرے کرتے، مثلاً فلاں نے فضول سوال دے دیا، فلاں نے نصاب سے باہر سوال دے دیا، اس طریقے سے وہ ٹیچروں کے خلاف اپنا غصہ نکالتے تھے، میں ان سے کہتا کہ آپ ٹیچروں کے خلاف باتیں کرنے کی بجائے اگلے پیپر کی تیاری کر لیں، اس سے آپ کو کچھ نمبر مل جائیں گے لیکن اگر آپ اس طرح آپ اپنا غصہ نکالیں گے تو آپ کو کیا ملے گیا؟ کچھ بھی حاصل نہ ہو گا اور اپنا وقت بھی ضائع ہو گا یعنی کل کے پیپر کی تیاری کا وقت ضائع ہو جائے گا۔
میرے خیال میں آپ رکاوٹ وغیرہ کے چکر میں نہ پڑیں، اپنے مقابلہ کے لحاظ سے جو طریقہ کار ہے اسے اختیار کریں۔ آخر میں بھی اسی شعبے میں رہ چکا ہوں، انجینئرنگ میں نے بھی کی ہے، انجینئرنگ میں مقابلہ ہی تھا، پھر بعض کو لے لیا گیا اور بعض رہ گئے۔ یہ تو ایک فطری بات ہے، لہذا آپ بالکل ان باتوں میں نہ پڑیں کہ فلاں رکاوٹ ہے، اگر وہ رکاوٹ نہ ہوتی تو کام بن جاتا۔
ایک مرتبہ ایک ٹیچر خاتون نے مجھے لکھا کہ شاہ صاحب! مجھے کوئی وظیفہ بتائیں کہ میری شادی نہیں ہو رہی، میری عمر 33 سال ہے، میں نے کہا کہ میں آپ کو وظیفہ بتا سکتا ہوں لیکن میں آپ کو وظیفہ سے بہتر چیز بتاتا ہوں جس سے آپ کو فائدہ ہو گا، اس نے کہا: بتایئے! میں نے کہا کہ ایک لائن ہے جس پر لاکھوں لڑکیاں اپنے اپنے مقام کے لحاظ سے کھڑی ہیں یعنی نمبر 1، نمبر 2، نمبر 3، اور دوسری طرف اپنے اپنے مقام کے لحاظ سے لاکھوں لڑکوں کی قطار ہے، میں نے کہا کہ دو ہزارویں پوزیشن پر کوئی لڑکا کھڑا ہو اور وہ پہلی نمبر کی لڑکی کے ساتھ شادی کرنا چاہے تو کیا یہ ممکن ہے؟ اس نے کہا کہ نہیں، میں نے کہا کہ پہلی پوزیشن پر لڑکی کھڑی ہے، دو ہزارویں پوزیشن پر کھڑا ہونے والا لڑکا اس لڑکی سے شادی کرنا چاہے تو کیا یہ ممکن ہے؟ اس نے کہا کہ نہیں، میں نے کہا کہ پھر کیا کرنا چاہئے؟ کہنے لگی کہ میں بات سمجھ گئی اور پھر اس کے بعد ایک سال کے اندر ہی اس کی شادی ہو گئی۔
پھر اس کی بہن نے بھی جو کہ اس کے ساتھ جڑواں تھی، اپنا یہی مسئلہ مجھے بتایا، میں نے کہا کہ اپنی بہن کے طریقہ پر عمل کرو، تو اس کی بھی شادی ہو گئی۔ اصل میں مسئلہ ہمارے اندر ہوتا ہے، اس لئے ہم ان چیزوں میں نہ پڑیں، یہ گاؤں والوں کی باتیں ہیں جو ان پڑھ ہوتے ہیں، ان پڑھ تو مرفوع القلم ہوتے ہیں یعنی ان بیچاروں کو تو سمجھ نہیں ہوتی، اس لئے وہ اگر اس قسم کی باتیں کریں تو درگزر کی جا سکتی ہیں، لیکن آپ تو پڑھے لکھے آدمی ہیں، MBBS کے مقابلے میں تو پڑھے لکھے آدمی ہوتے ہیں، اس لئے آپ تو اس طرح کی باتیں نہ کریں، یہ مناسب نہیں ہے۔
سوال نمبر 23:
میری تین تسبیحات ابھی تک چل رہی تھیں، اب مجھے اندر سے جواب آنا شروع ہو گیا ہے، دس منٹ ’’اَللہ، اَللہ‘‘ کا مراقبہ کرنا تھا، میں تسبیحات پڑھ رہا ہوں۔
جواب:
کیا اندر سے جواب آنے کا مطلب یہ ہے کہ ’’اَللہ، اَللہ‘‘ ہونا شروع ہو گیا ہے، کیا یہی آپ کہنا چاہتی ہیں؟ اگر آپ یہی کہنا چاہتے ہیں تو ٹھیک ہے، اب آپ ’’اَللہ، اَللہ‘‘ کا ذکر پندرہ منٹ کے لئے مزید ایک مہینہ تک کر لیں اور پھر مجھے اطلاع کریں۔
سوال نمبر 24:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ یا مولانا!
I have an intention to restart Zikr you had prescribed to me, which is 100 times
’’سُبْحَانَ اللہِ وَ الْحَمْدُ لِلّٰہِ وَ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَ اللہُ اَکْبَرُ‘‘
100 times ‘‘صلوات’’ on Holy Prophet ﷺ
And 100 times استغفار and with loud voice 100 times ‘‘لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ’’
100 times ‘‘لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ’’
100 times ‘‘حَقْ’’ and 100 times ‘‘اَللہ’’ for one month ان شاء اللہ May Allah bless you and preserve you!
Answer:
ما شاء اللہ very good just you start and don’t discontinue.
سوال نمبر 25:
نمبر 1:
تمام لطائف پر 5 منٹ ذکر، مراقبہ معیت اور دعائیہ دونوں ایک ساتھ پندرہ منٹ، مراقبہ شروع کرتے وقت ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے دیکھ رہا ہے جس کی وجہ سے اللہ کا خوف دل پر طاری ہو جاتا ہے، پورے جسم کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں، پھر اپنی برائیوں کو سوچنے لگتی ہوں، خدا سے معافی مانگتی ہوں اور ایسی دعا دل میں آتی ہے جو نہ کبھی سنی ہوتی ہے اور نہ کبھی سوچی ہوتی ہے، دل کو سکون محسوس ہوتا ہے، مراقبہ سے مطمئن ہوں۔
جواب:
ما شاء اللہ! ما شاء اللہ! ابھی اس کو جاری رکھیں، اس وجہ سے نہیں کہ آپ نے کام نہیں کیا بلکہ اس لئے کہ آپ نے اچھا کام کیا ہے اور آپ کو اس سے فائدہ ہو رہا ہے۔
نمبر 2:
تمام لطائف پر دس منٹ ذکر اور مراقبہ تجلیاتِ افعالیہ پندرہ منٹ۔ یہ عقیدہ پختہ ہو گیا ہے کہ دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ سب اللہ تعالیٰ ہی کرتا ہے، یہ خاتون کہتی ہیں کہ مجھے دمہ کی بیماری کی وجہ سے بیٹھ کر مراقبہ کرنے سے تکلیف ہوتی ہے کیا ٹیک لگا کر مراقبہ کر سکتی ہوں؟
جواب:
بالکل کر سکتی ہیں۔
نمبر 3:
تمام لطائف پر پانچ منٹ ذکر اور مراقبہ شیوناتِ ذاتیہ پندرہ منٹ، نماز کی پابندی نصیب ہو گئی ہے اور ذکر کی کثرت ہو گئی ہے، جب ذکر نہیں کرتی تو دل تنگ ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ کی ذات پر پختہ یقین ہو گیا ہے کہ جو کچھ دنیا میں ہوتا ہے، سب اللہ ہی کرتا ہے، غم میں دل مطمئن رہتا ہے، نیز درود شریف کی کثرت بھی نصیب ہو گئی ہے۔
جواب:
ما شاء اللہ! ما شاء اللہ! بہت اچھی بات ہے، اب آپ مراقبہ شیوناتِ ذاتیہ کے بعد پندرہ منٹ کے لئے مراقبہ تنزیہ بھی شروع کر لیں اور باقی تمام لطائف پر پانچ منٹ کا ذکر ہو گا۔
نمبر 4:
لطیفہ قلب دس منٹ اور لطیفہ روح پندرہ منٹ، قلب پر محسوس ہوا اور روح پر کبھی کبھی محسوس ہوتا ہے۔
جواب:
اب روح پر پندرہ منٹ کی بجائے بیس منٹ مراقبہ کر لیں، باقی ٹھیک ہے۔
نمبر 5:
مراقبات بہت ہیں لیکن لکھنے میں بہت وقت صرف ہو گیا، باقی کل بھیج دوں؟
جواب:
جی بالکل، باقی کل بھیج دیں۔
سوال نمبر 26:
سیدی، مولائی، حضرت شاہ صاحب! اللہ پاک سے دعا اور امید ہے کہ آپ سب خیریت سے ہوں گے۔ اللہ پاک کے فضل و کرم اور آپ کی دعا سے درود شریف کی ایک تسبیح، کلمہ کی ایک تسبیح اور استغفار کی ایک تسبیح چل رہی ہے، نماز کے بعد تین مرتبہ درود شریف، تین مرتبہ پہلا کلمہ، تین مرتبہ استغفار، ایک مرتبہ آیت الکرسی، 33 مرتبہ ’’سُبْحَانَ اللہِ‘‘، 33 مرتبہ ’’اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ‘‘ اور 34 مرتبہ ’’اَللہُ اَکْبَرُ‘‘ بلاناغہ جاری ہے، الحمد للہ پندرہ منٹ کے لئے دل پر ’’اَللہ، اَللہ‘‘ کا مراقبہ جاری ہے، حضرت جی! اس مرتبہ طویل عرصہ کے بعد رابطہ کر رہی ہوں، اس کے لئے معذرت خواہ ہوں، حضرت! میں ہر وقت تھکی ہوئی رہتی ہوں، بس ضروری کام ہی کرتی رہتی ہوں، مراقبہ کے وقت بھی بیٹھے بیٹھے اکثر سو جاتی ہوں لیکن کرتی ضرور ہوں۔
الحمد للہ! مراقبہ سے بہت فائدہ ہوا، نماز پڑھنے میں اور پڑھانے میں دل لگتا ہے، خاص طور پر نظر کی حفاظت کرنا یاد رہتا ہے، آپ سے دعاؤں اور توجہ کی درخواست ہے۔
بہت عرصہ سے حرمین شریفین کی حاضری نہیں ہوئی، جب یہ معلوم ہوا کہ آپ بھی حرمین شریفین تشریف لے گئے ہیں تو شوق مزید بڑھ گیا، آپ سے خصوصی دعاؤں میں یاد رکھنے کی درخواست ہے۔
میرے بچوں کے لئے بھی خصوصی دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں بھی کامیاب فرمائے، اپنا محبوب بنائے۔ میرے دو بیٹے دار العلوم برمنگھم اور بیٹی جامعہ بریڈ فورڈ میں ہے، ایک بیٹا ابھی قرآن پاک حفظ کرنے کے بعد دہرائی کر رہا ہے، ساتھ اے لیول کر رہا ہے، اس کے لئے مشکل ہو رہی ہے خصوصی دعاؤں کی درخواست ہے۔
جواب:
اللہ تعالیٰ آپ کے تمام کام آسانی کے ساتھ پورے فرمائے اور اللہ پاک آپ کی تھکاوٹ بھی دور فرمائے۔ آپ ہمت کے ساتھ اذکار کرتی رہیں، جب ذکر انسان کے لئے مشکل ہو رہا ہو اور پھر بھی انسان کرتا رہے تو اس سے دو فائدے حاصل ہوتے ہیں، ایک فائدہ تو یہ ہوتا ہے کہ ذکر سے دل بنتا ہے اور دوسرا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ذکر چوں کہ مشکل لگ رہا ہوتا ہے تو ذکر کرنے سے نفس کی مخالفت ہوتی ہے اور اس طرح مجاہدہ بھی ہوتا رہتا ہے اور مجاہدہ سے نفس کی اصلاح ہو جاتی ہیں تو ایسی صورت میں دونوں چیزیں حاصل ہو جاتی ہیں۔ اللہ پاک آپ کو ہر قسم کی کامیابی نصیب فرمائے۔
سوال نمبر 27:
ایک خاتون نے پردہ کے بارے میں پوچھا ہے کہ حضرت! ہاتھوں کا پردہ کرنا ہوتا ہے یا نہیں؟ یعنی ہاتھوں کا پردہ شرعی پردہ میں آتا ہے یا نہیں؟ اسی طرح پیروں کا حکم بھی بتا دیں۔
جواب:
مفتی صاحب میرے پاس موجود ہیں، مفتی صاحب فرما رہے ہیں کہ ہاتھوں کا پردہ بھی ضروری ہے، بس اس طرح کریں کہ جو چادر آپ نے اوڑھی ہوتی ہے، اپنے ہاتھ اسی کے اندر کر لیں اور اگر ہاتھ باہر رکھنے ہوں تو پھر دستانے پہن سکتی ہیں۔
باقی جو پیر ہیں تو وہ جوتے کے اندر ہی ہوں، ویسے بھی عورتوں کا پاجامہ ٹخنوں سے نیچے ہوتا ہے، تو پاؤں کا کچھ حصہ اس سے چھپ جاتا ہے اور جو باقی بچتا ہے تو وہ جوتے میں چھپ جاتا ہے تو اس وجہ سے پاؤں کے پردہ کا مسئلہ نہیں بنتا، اگر گھر میں کسی کام سے کبھی غیر محرم کے سامنے جانا پڑے تو اس وقت بھی اسی باہر والے طریقہ پر عمل کر لیں۔
سوال نمبر 28:
فرانس میں دو مریدین ہیں دونوں کے میسیج آ گئے ہیں یا حضرت شاہ صاحب
May Allah preserve you بارک اللہ فیکم! I am contacting you to update my ورد. I have been practicing for almost 1.5 months but I haven’t been regular at all again. I am feeling that I didn’t have time but it was clearly due to neglect and laziness. Sometimes, I study hard. Then I have little time to practice اوراد or sometimes, I want to study after work and sport, then I am too tired. I again want to renew. My Allah help me in this سلوک! Also, الحمد للہ it’s going very well with my wife الحمد للہ. Actual ورد
500 times ‘‘لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ’’
1500 times ‘‘حَقْ، اَللہ’’
1500 times ‘‘حَقْ’’
And اَللہ‘‘ 500’’ times
500 times ‘‘حَقْ ھُوْ’’
And 500 ‘’ھُوْ’’
30 minutes ‘‘اَللہ’’ with respiration. May Allah preserve you!
جواب:
سبحان اللہ
You are right in what you feel that it is because of laziness. Ok, one thing to remember, this سلوک starts from Zikr because Zikr brings جذب and this جذب is used in سلوک. So, if you don’t do this مجاہدہ to perform ذکر how will you perform مجاہدہ to suppress نفس? This is a big question. So you should answer this. Therefore, if you feel laziness in Zikr, then tell me how will you complete the سلوک? Therefore, you should not lose your ہمت and practice this zikr regularly. Then you are fit for completing سلوک ان شاء اللہ. You can do it I hope, and I will make dua for you.
سوال نمبر 29:
حضرت! پہلی بات یہ ہے کہ میں 80 دن سے مسلسل صلوۃ التسبیح پڑھ رہا ہوں، آپ مجھے یہ بتایئے کہ اب میں اسے جاری رکھوں یا اس میں مزید کچھ تبدیلی کروں؟
دوسری بات یہ ہے کہ جس وقت غیر اختیاری ذکرِ قلبی شدت کے ساتھ جاری ہوتا ہے تو اس کے بعد کچھ ہی دیر میں ذہن و دماغ تھک جاتا ہے، جب دماغ تھک جاتا ہے تو اس وقت صفحۂ خیال پر جو خیالات آئیں اچھے ہوں یا برے، میں کوشش کرتا ہوں کہ انہیں نظر انداز کروں، خواہ کسی چیز کی طرف ذہن نہ جائے یعنی میں بالکل خالی الذہن ہو جاؤں وہ قابلِ قبول ہے لیکن ذہن میں مسلسل شدتِ خیالات کی وجہ سے کچھ دیر کے بعد ایک تھکاوٹ سی ہو جاتی ہے، اب کچھ عرصہ سے یعنی تقریباً ایک ماہ سے میں یہ کوشش کر رہا ہوں کہ صفحہ خیال کے اوپر کوئی بھی خیال نہ آئے خواہ اچھا ہو یا برا، تاہم پھر بھی اگر خیالات آنے لگیں تو اس وقت ﴿فَاسْتَعِذْ بِاللّٰهِ، اِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ﴾ (حم السجدہ: 36) پر عمل کرتے ہوئے ’’أَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ‘‘ پڑھ لیتا ہوں، تعوّذ پڑھنے سے افاقہ تو ہو جاتا ہے لیکن ذہن بہت زیادہ تھک جاتا ہے یعنی تھکاوٹ کی وجہ سے خومار جیسی حالت ہو جاتی ہے۔
جواب:
میں آپ کی بات سمجھ گیا ہوں، آپ نے پہلی بات یہ فرمائی کہ ذکر غیر اختیاری سے ذہن تھک جاتا ہے، تو ذکرِ غیر اختیاری جو قلب کرتا ہے اس سے ذہن کا کوئی تعلق نہیں ہوتا، آپ کی بات کا مطلب یہ ہے کہ آپ کا ذہن اس کے ساتھ مشغول ہوتا ہے، تبھی تو تھک جاتا ہے، اس لئے آپ اپنے ذہن کو اس ذکر سے لا تعلق کریں، دیکھیں! ذکر کی جتنی تعداد اور اس کے لئے جو وقت آپ سے مطلوب ہے، اس میں تو آپ توجہ سے ذکر کریں، لیکن جب ذکر کا مطلوبہ وقت پورا ہو جائے تو پھر اس کی طرف توجہ نہ دیں، وہ خود بخود ہوتا رہے تو ہوتا رہے، آپ اس کی طرف متوجہ نہ ہوں، جب آپ توجہ نہیں کریں گے تو تھکاوٹ نہیں ہو گی، کیوں کہ غیر اختیاری ذکر آپ کا کام نہیں ہے بلکہ وہ سسٹم کا کام ہے اور سسٹم تو چل رہا ہے لہذا اس سے تھکاوٹ نہیں ہوتی، آپ کو جو تھکاوٹ ہو رہی ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کا ذہن اس کے ساتھ مشغول رہتا ہے لہذا ذہن کو اس سے لا تعلق کرنے کے لئے آپ کسی کام کی طرف متوجہ ہو جائیں، خواہ وہ لکھنے کا کام ہو یا کوئی اور کام ہو۔
میں آپ کو ایک بات بتاؤں کہ جو کام آپ جسمانی طور پر کر رہے ہوتے ہیں، اس میں اتنی جلدی تھکاوٹ نہیں ہوتی، لیکن جو کام صرف ذہن سے کیا جائے اور اس میں کوئی چیز رکاوٹ بھی بن رہی ہو تو اس سے بہت تھکاوٹ ہو جاتی ہے۔ مثلاً میں نے اس کا بہت تجربہ کیا ہے کہ جب میں کاغذ کے اوپر کوئی حسابی کام کرتا ہوں تو میں اگر گھنٹوں بھی حساب میں لگا رہوں تو نہیں تھکوں گا اور اگر میں صرف ذہن میں پانچ منٹ بھی حساب کروں تو بہت تھک جاؤں گا، یہ میرا تجربہ ہے۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر میرے پاس کاغذ قلم نہیں ہے اور میں کوئی حساب کر رہا ہوں تو اس وقت ذہن دو کاموں میں مشغول ہوتا ہے، ایک حساب کرنا اور دوسرا اسے یاد رکھنا، یہ دونوں کام چوں کہ ایک ہی وقت میں ہو رہے ہوتے ہیں اس وجہ سے تھکاوٹ زیادہ ہوتی ہے، لیکن اگر آپ صرف حساب کر رہے ہیں اور پھر اسے کاغذ پر لکھ رہے ہیں تو اس وقت تھکاوٹ کم ہو گی۔ اسی وجہ سے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ جب مجھے کوئی بات یاد آ جاتی ہے تو میں فوراً نوٹ بک نکال کر اس پر لکھ لیتا ہوں اور اپنے آپ کو فارغ کر لیتا ہوں تاکہ میرے ذہن پر بوجھ نہ رہے اور میں اس بارے میں سوچتا نہ رہوں۔ لہذا آپ اپنے ذہن کو ذکرِ غیر اختیاری کے ساتھ مشغول نہ کیا کریں پھر ان شاء اللہ یہ مسئلہ نہیں ہو گا۔
اور آپ نے جو صلوٰۃ التسبیح کو جاری رکھنے کے بارے میں پوچھا ہے تو یہ آپ کی اپنی صواب دید ہے، اگر آپ ثواب کے لئے جاری رکھیں تو یقیناً اس کا ثواب تو بہت ہے، آپ نے اگرچہ اس عمل کو علاج کے لئے کیا ہے لیکن اس کا ثواب بھی تو ہے کیوں کہ یہ ایک مسنون عمل ہے۔ لیکن چوں کہ آپ نے یہ عمل کر لیا ہے اور اس عمل سے جو فائدہ ہونا تھا وہ بھی ہو چکا ہے اس لئے اب آپ اس عمل کو جمعہ کے دن کر لیا کریں کیوں کہ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے آپ ﷺ نے فرمایا تھا کہ صلوۃ التسبیح روزانہ پڑھا کریں، اگر روزانہ نہ پڑھ سکیں تو ہفتہ میں ایک مرتبہ پڑھ لیں اور اگر یہ بھی نہ ہو سکے تو مہینہ میں ایک مرتبہ، اور اگر مہینہ میں بھی ایک مرتبہ نہ پڑھی جا سکے تو پھر زندگی میں ایک مرتبہ پڑھ لیں۔
مطلب یہ ہے کہ اس میں متعدد اختیارات ہیں، اب آپ کی اپنی پسند ہے کہ آپ ان میں سے کون سا آپشن اختیار کرتے ہیں۔
جہاں تک علاج کی بات تھی تو اس میں عمل کی ترتیب بتانے کا ہمیں اختیار حاصل تھا اور جہاں تک ثواب کی بات ہے تو اس میں سنت کا اعتبار ہو گا، اس میں ہماری بات نہیں چلے گی، یعنی اللہ تعالی نے چوں کہ آپ کو آپ ﷺ کی زبان مبارک سے اختیار دیا ہے اس لئے اس معاملے میں آپ کا اپنا اختیار ہے۔
سوال نمبر 30:
پہلا، دوسرا، تیسرا اور چوتھا لطیفہ پچاس منٹ کے لئے، ذکر میں یہ میرا سبق ہے۔
جواب:
ٹھیک ہے۔ اب پہلا، دوسرا، تیسرا اور چوتھا لطیفہ دس منٹ دس منٹ کے لئے کریں اور اور پانچواں لطیفہ یعنی لطیفۂ اخفیٰ پندرہ منٹ تک کریں۔
سوال نمبر 31:
حضرت! آج کل لوگ مہنگائی اور پریشانیوں کا رونا روتے ہیں، خصوصاً حال ہی میں جو زلزلہ آیا ہے، اس کے بارے میں لوگوں کا خیال یہ ہے کہ یہ ایک مصنوعی زلزلہ تھا۔
پہلی بات؛ کہ جب لوگ یہ کہتے ہیں کہ مہنگائی ہے اور اس وجہ سے ملک دیوالیہ ہو رہا ہے تو ہم ان کو کہتے ہیں کہ رزق اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے، جتنی بھی مہنگائی ہو یا جو بھی پریشانی ہو، رزق کا معاملہ تو ہمیں اللہ تعالیٰ پر چھوڑنا چاہئے، باقی جو کام ہمارے اختیار میں ہیں، ہمیں ان کی طرف توجہ دینی چاہئے، اپنے اعمال کو درست کرنے کی فکر کرنی چاہئے، یہ چیزیں ہمارے اختیار میں ہیں جب کہ مہنگائی کو کنٹرول کرنا یا اس کا بڑھنا چڑھنا؛ یہ ہمارے اختیار میں نہیں ہے، جو اللہ تعالیٰ چاہیں گے وہی ہو گا، لوگوں کو فقر سے ڈرانا؛ یہ تو شیطان کا کام ہے۔
حضرت جی! کیا یہ ہم صحیح کر رہے ہیں؟
جواب:
دیکھیں! ہم مسئلے کا علاج بتا سکتے ہیں جو پہلے سے بتا دیا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ: ﴿فَفِرُّوْۤا اِلَى اللّٰهِ﴾ (الذاریات: 50)
ترجمہ: ’’پس دوڑو اللہ کی طرف۔‘‘
یعنی اللہ پاک کی طرف متوجہ ہو جاؤ، اللہ پاک سے مدد مانگو، کیوں کہ ہماری پریشانی کی وجہ اللہ کو معلوم ہے اور وہی مسئلہ کا حل کرنے والا ہے، یہ بات ہم لوگوں کو بتا سکتے ہیں۔
جہاں تک بات ہے زلزے کے مصنوعی ہونے کی، تو مصنوعی کا مطلب یہ ہے کہ ان کے پاس کوئی زبردست قسم کی پاور ہے کہ جس سے وہ اتنے لیول کی زمین ہلا سکتے ہیں، اس بات کی صداقت کے لئے ہمیں حساب کرنا پڑے گا کہ اس کے لئے کتنی انرجی ان کے پاس ہو گی اور اتنی انرجی آج کل کسی کے پاس ہے بھی یا نہیں؟ اتنی زمین کو ہلانے کے لئے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں ایٹم بمبوں کی ضرورت ہے، پھر کہیں جا کے زمین ہلائی جا سکتی ہے اور اتنے ایٹم بمب آخر کس کے پاس ہوں گے؟ یہ کیسی عجیب بات لوگ کہہ رہے ہیں! بات کی کوئی بنیاد بھی ہوتی ہے یا نہیں؟ اب تک تو کسی کے پاس اتنی ٹیکنالوجی بھی نہیں ہوئی کہ وہ زلزلہ کا وقت معلوم کر سکے۔
باقی یہ بات صحیح ہے کہ تکوینی نظام والے ہمارے اہل خدمت حضرات کو اس کا علم ہو جاتا ہے لیکن وہ وہ کسی کو بتاتے نہیں ہیں، اور جب بتا دیں تو ٹھیک بتایا ہوتا ہے یعنی پھر واقعی اسی طرح ہو جاتا ہے، جس طرح انہوں نے کہا ہوتا ہے، لیکن وہ بھی اللہ پاک کی طرف ہی رجوع کرتے ہیں۔ جیسے ڈاکٹر فدا صاحب نے لکھا ہے کہ مولانا خلیل محمد صاحب نے فرمایا کہ: آج پشاور کے لئے اس قسم کے زلزلہ کا فیصلہ ہو گیا تھا جیسا زلزلہ 1937 میں کوئٹہ کے اندر آیا تھا لیکن اس وقت کے جو قطب ہیں، وہ اللہ کے حضور سجدہ میں گر گئے اور بہت رو رو کر اور گڑ گڑا کر دعا کی تو اللہ پاک نے ان کی دعا کو قبول فرمایا اور اس فیصلہ کو ختم کر دیا، جس وقت حضرت نے یہ بات کہی، اس کے بعد صرف ایک رات گزری اور رات کے ایک بجے ایک زور دار جھٹکا لگا لیکن اس کا دورانیہ اتنا کم تھا کہ زلزلے کی وجہ سے نقصان کچھ نہیں ہوا، صبح ڈاکٹر فدا صاحب نے ایک ساتھی سے کہا کہ حضرت کی بات پوری ہو گئی، زلزلہ تو آیا لیکن نقصان نہیں ہوا، اللہ پاک نے بڑے زلزے کو ہٹا دیا۔
پس اس قسم کی باتیں تو ہو سکتی ہیں لیکن ہم ان میں بھی نہیں پڑیں گے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمیں اس کو جاننے کا کیا فائدہ ہو گا؟ بھائی! جس کے پاس اس کو روکنے کی طاقت ہے، ہم اسی کی طرف رجوع کریں گے، یہ باتیں اگر ہم ہزار مرتبہ بھی کر لیں تو آپ مجھے بتائیں کہ کیا اس سے زلزلہ کنٹرول ہو جائے گا؟ ظاہر ہے کہ زلزلے کو کنٹرول کرنا ہمارے اختیار میں نہیں ہے، جب ہمارا اختیار نہیں ہے تو کیوں نہ ہم اس ذات کی طرف متوجہ ہو جائیں جو اسے کنڑول کر سکتی ہے۔
ایک مرتبہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے مواعظ میں فرمایا کہ ایک نبی سے کسی فلاسفر نے پوچھا، شاید کوئی یونانی فلاسفر تھا، کہ اگر زمین و آسمان کمان بن جائیں، مصیبتیں تیر بن جائیں، تیر پھینکنے والا اللہ ہو اور نشانہ انسان کا دل ہو تو ہم کیسے بچیں گے؟ اس نبی نے جواب دیا کہ تیر پھینکنے والے کے پاؤں پڑ جاؤ یعنی پھینکنے والے سے معافی مانگو، تو اس فلاسفر نے کہا کہ یہ جواب کسی نبی کا ہو سکتا ہے۔
حقیقت یہی ہے کہ اگر اللہ نے فیصلہ کر لیا ہو تو پھر اللہ کے سوا کوئی مائی کا لعل نہیں بچا سکتا، لہذا اللہ کی طرف رجوع کیا جائے اور اس سے معافی مانگی جائے، ہمارا کام تو یہی ہے کہ ہم لوگوں کو یہ بات بتائیں کہ بھائی! اللہ کی طرف متوجہ ہو جاؤ، توبہ کرو، استغفار کرو، اس وقت کی ضرورت یہی کام ہے۔ دیوبند کے متعلق ایک واقعہ لکھا ہے کہ ایک دفعہ حضرت مولانا یعقوب نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ جو کہ تکوینی بزرگ تھے، انہوں نے فرمایا کہ: دیوبند پر ایک عذاب آنے والا ہے، اگر لوگ صدقہ کریں تو شاید واپس ہو جائے۔ یہ بات گاؤں والوں کو پہنچ گئی، دیوبند چھوٹا گاؤں تھا، بڑا گاؤں نہیں تھا۔ جب گاؤں والوں کو یہ بات پہنچی تو انہوں نے کہا کہ: آج کل مولویوں کو ضرورت پڑی ہو گی تو اس قسم کی بات بنا لی۔ گاؤں والوں کی یہ بات حضرت مولانا یعقوب نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کو بھی پہنچ گئی، حضرت جلالی بزرگ تھے اور تکوینی بھی تھے، جب انہوں نے یہ سنی تو فرمایا: اچھا! یعقوب اور یعقوب کی اولاد، یعقوب اور یعقوب کی اولاد، یعقوب اور یعقوب کی اولاد اور سارا دیوبند، یعقوب اور یعقوب کی اولاد اور سارا دیوبند، جو لوگ جاننے والے تھے، انہوں نے حضرت کے منہ پر ہاتھ رکھا مگر حضرت نے فرمایا: اب جو ہو چکا ہے، بس وہ ہو چکا ہے۔ اس کے بعد طاعون کی ایسی وبا آئی کہ گھر گھر سے دو دو تین تین جنازے نکلے، اس میں مولانا یعقوب نانوتوی اور ان کا بیٹا بھی فوت ہوا۔
وَ آخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ