اَلْحَمْدُ لِلّٰہ رَبِّ الْعَلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال نمبر 1:
تاسو کومې سلسلے نه ئئ؟
جواب:
زمونږ سلسلے څلور دي طريقه چشتيه، نقشبنديه، قادريه، سهرورديه۔ البته دَ هر چا خپل نسبت وي نو چې دَ چا کوم نسبت وي نو پهٔ هغه طريقه ورته مونږ کار کوو۔ بهرحال سلسلے ټولې ښې دي نو دچا چې کومې سره مناسبت وي نو پهٔ هغې کښې ورته طريقے ملاويږي۔
سوال نمبر 2:
جی معذرت سر! میں یہ اعمال continously کررہا ہوں۔ اب آپ مزید کوئی ذکر دیں گے یا میں اسی کو continue کروں؟ آپ نے یہ بتایا تھا۔
جواب:
میں نے یہ اس لئے بتایا تھا کہ آپ اپنا ذہن بنا لیں کہ آپ ہمارے ساتھ تعلق رکھنا چاہتے ہیں یا کسی اور کے ساتھ۔ اگر آپ ہمارے ساتھ تعلق رکھنا چاہتے ہیں تو ہم آپ کو ذکر بتا دیں گے۔ کیونکہ یہ مناسبت کی بات ہوتی ہے، جس کے ساتھ آپ کی مناسبت ہو اسی سے آپ کو زیادہ فائدہ ہوگا۔ اگر آپ ہمارے ساتھ ہی تعلق رکھنا چاہتے ہیں تو میں آپ کو ذکر بتا دیتا ہوں، لیکن پھر آپ کو ہمارے ساتھ ہی تعلق رکھنا پڑے گا، کیونکہ ایک وقت میں کئی لوگوں کے ساتھ اصلاح کے لئے رابطہ نہیں ہوسکتا۔ ہاں! علم حاصل کرنے کے لئے ایک سے زائد لوگوں سے رابطہ ہوسکتا ہے۔
سوال نمبر 3:
السلام علیکم! میں نے محسوس کیا کہ میں لوگوں کے ساتھ سخت ہوں۔ ایک دفعہ میں servis کی دکان سے جوتے خرید کر نکلا، ایک بڑھیا عورت سستی چیزیں بیچ رہی تھی، اس نے مجھے خریدنے کا کہا تو میں نے سوچا کہ یہ بس اس کے مانگنے کا طریقہ ہے، اس لئے اسے نا کہہ دیا۔ اس نے کہا کہ وہ غریب ہے۔ بعد میں مجھے محسوس ہوا کہ میں زیادہ سخت ہوں۔
جواب:
اعتدال سے چلنا چاہئے، نہ زیادہ سخت ہونا چاہئے نہ زیادہ نرم ہونا چاہئے۔ ہمارے ہاں پشتو میں کہتے ہیں کہ نہ اتنے زیادہ میٹھے ہوجاؤ کہ لوگ تمہیں کھا جائیں اور نہ اتنے تلخ ہوجاؤ کہ لوگ تمہیں تھو کر دیں، یعنی تھوک دیں۔ اس لئے درمیان درمیان میں رہنا چاہئے، اسی میں فائدہ ہے۔
سوال نمبر 4:
السلام علیکم شاہ صاحب! میں یہ ذکر کررہا تھا: ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ دو سو مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ چار سو مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ چھ سو مرتبہ، دس منٹ مراقبہ اور ’’اَللّٰہْ‘‘ سو مرتبہ۔ اس میں بہت لمبا ناغہ ہوگیا ہے۔ میں دوبارہ شروع کرنا چاہتا ہوں۔ یہ بھی بتا دیں کہ درود پاک کون سا پڑھوں؟
جواب:
ناغہ نہیں کرنا چاہئے کیونکہ ناغے سے انسان کا وقت ضائع ہوتا ہے اور وہ بہت پیچھے ہوجاتا ہے۔ آپ اس پر استغفار کریں اور دو رکعت صلوٰۃ توبہ پڑھیں۔ اصلاح کے کام میں سستی کرنا اپنے ساتھ بہت برا کرنا ہے۔ اللہ پاک کے ساتھ اس مقصد کے لئے دوبارہ تعلق جوڑ لیں۔ ابھی یہی دو سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘، چار سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘، چھ سو مرتبہ ’’حَقْ‘‘، سو مرتبہ ’’اَللّٰہْ‘‘ اور دس منٹ مراقبہ کریں جس کے بارے میں بتایا تھا کہ یہ تصور کریں کہ میرے دل میں ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ ہورہا ہے۔ اور درود شریف اگر مختصر پڑھنا ہے تو ’’صَلَّی اللہُ عَلَی النَّبِیِّ الْأُمِّیِّ‘‘ پڑھا کریں اور اگر پورا پڑھنا چاہتے ہیں تو درود ابراہیمی پڑھا کریں۔ ایک مہینہ اعمال کرکے مجھے اطلاع کردیں۔
سوال نمبر 5:
Name فلاںfrom ڈھاکہ
شیخ I safely reached Dhaka اَلْحَمْدُ لِلّٰہ. I am having lots of confusion regarding تصوف and طریقہ. I am missing many Salahs and engaging in sins. I restarted the ذکر but I feel tired when I am doing the ذکر of اسمِ حَقْ. I am getting distracted. My temperature and latitude is becoming very bad. I am misbehaving with others. حضرت please help me. I feel like to do ذکر of بارہ تسبیح alongside but I don’t do it. I am too much interested in نقشبندی مجددی طریقہ and previously I learned some مراقبہ and now try to do to engage myself in this مراقبہ. I like it. I was always interested in this طریقہ and especially on حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ
جواب:
Very good. One can have a مناسبت with any طریقہ. It’s no problem and we are having اَلْحَمْدُ لِلّٰہ all the four طریقہ and we have many naqbandies in our سلسلہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ. I myself am نقشبندی as far as my مناسبت is concerned. But the thing is, what is نقشبندیت? This is a little bit questionable and debatable. نقشبندیت is actually the procedure where جذب is achieved first and then after that سلوک is processed and is attained. After that جذب وہبی is achieved. So this is نقشبندیت. When جذب can be achieved by any method we have this one method in place. Therefor, first of all we give بارہ تسبیح and after that when a person has achieved this in a good manner after that we give مراقبات
اَلْحَمْدُ لِلّٰہ people are doing very good مراقبات and you can do this also. But this is not the right of a patient to tell the doctor that you should give me this medicine. This is the job of a doctor not the job of a patient. So if you are not interested in our procedure you can go to another doctor. I will not compel you to come to me but if you are coming to me then you will have to follow what I am telling you. This is the best principle of the treatment. So then you should follow it and you see what happens when you leave these things. You are indulging yourself and then tell me. So you should understand this thing that you should not go far from this and follow the instructions of your doctor if you want to treat yourself.
سوال نمبر 6:
ایک سالک کا سوال آیا تھا جو کہ حضرت نے مجلس میں نہیں سُنایا، بلکہ اُس کا صرف جواب حضرت نے دیا ہے۔
جواب:
آپ یہ مراقبہ جیسے بتایا گیا ہے، اسی طریقہ سے جاری رکھیں۔
سوال نمبر 7:
السلام شیخ صاحب ما ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ دوه سوه ځله، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ څلور سوه ځله، ’’حَقْ‘‘ څلور سوه ځله اؤ ’’اَللّٰہْ‘‘ سل ځله يوه مياشت سره دَ نورو ازکارو ووې مخکښې مې راهنمائی وکړئ۔
جواب:
تهٔ اوس حق شپږ سوه ځله اؤ باقي نور هم هغه شان يو مياشت دپاره وکړه
سوال نمبر 8:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! حضرت جی ذکر کا ایک مہینہ بلا ناغہ مکمل ہوگیا ہے، ذکر دو سو، چار سو، چھ سو، اور دو ہزار دفعہ ’’اَللّٰہْ‘‘ تھا۔ ذکر میں اس بار باقاعدگی رہی اور زیادہ تر ایک ہی وقت پر ذکر کیا اور اس میں سستی کم رہی۔ نمازیں چند قضا ہوئیں جن کی وجہ سے ترتیب نہیں بنی، اس کے لئے حکم فرمایئے۔
جواب:
مَاشَاءَ اللّٰہ! اللہ پاک نے آپ کو ذکر اَلْحَمْدُ لِلّٰہ regular کرنے کی توفیق عطا فرمائی ہے، تو باقی چیزیں بھی اِنْ شَاءَ اللہُ آہستہ آہستہ ٹھیک ہوجائیں گی۔ لیکن یہ نماز والا معاملہ وقت پہ کرلیا کریں، اس کے لئے آپ نیند کے اوقات کو صحیح طریقہ سے تھوڑا سا arrange کرلیں تو پھر ٹھیک ہوجائیں گی۔ مثلاً جو لوگ دیر سے سوتے ہیں وہ دیر سے جاگتے ہیں لہٰذا جلدی سونا چاہئے۔ اور بھی بہت ساری چیزیں ہوتی ہیں، مثلاً اگر رات کو نیند پوری نہ ہوسکے تو دن میں نماز کے علاوہ اوقات میں پوری کرلیا کریں، کیونکہ نمازیں اپنے وقت پہ پڑھنا یہ فرض ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿اِنَّ الصَّلٰوةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ كِتٰبًا مَّوْقُوْتًا﴾ (النساء: 103)
ترجمہ1: ’’بیشک نماز مسلمانوں کے ذمے ایک ایسا فریضہ ہے جو وقت کا پابند ہے۔‘‘
نمازیں اپنے وقت پہ پڑھ لیا کریں اور یہ ذکر جو آپ نے بتایا دو سو، چار سو، چھ سو، اور دو ہزار۔ اس میں دو ہزار کو ڈھائی ہزار کرلیں اور باقی وہی رکھیں۔
سوال نمبر 9:
مراقبے کے دوران اگر دھیان ادھر ادھر رہے تو کیا کرنا چاہئے؟
جواب:
اگر دھیان ادھر ادھر رہتا ہے تو اس کی پروا نہ کریں۔ آپ کو اپنے کام میں لگنا چاہئے۔ خود بخود جو خیال آتا ہے اس کی پروا نہ کریں۔ اور جو آپ خود کررہی ہیں اس میں آپ غلط نہ کریں بلکہ صحیح کرلیا کریں۔ جو کچھ انسان کے اختیار میں ہو وہ صحیح کرنا چاہئے، غلط نہیں کرنا چاہئے اور جو بات انسان کے اختیار میں نہیں اس کی پروا نہیں کرنی چاہئے۔
سوال نمبر 10:
السلام علیکم!
Sir اَلْحَمْدُ لِلّٰہ I did Allah ten minutes towards the heart and fifteen minutes on the right side. I was doing it without pressure and tears came. Need to have concentration for a longer period.
جواب:
مَاشَاءَ اللّٰہ very good. Now you should do this ذکر of Allah for ten minutes on the قلب and ten minutes on the right side and fifteen minutes four fingers above the heart. This is لطیفۂ سِر. So you should do this on لطیفۂ سِر for fiften minutes and قلب and روح ten minute each for one month.
سوال نمبر 11:
السلام علیکم شیخ محترم! میرا دل ہی دل میں پندرہ منٹ والا مراقبہ معیت، دعا والا عمل اور پانچ پانچ منٹ لطائف کا ذکر اس ماہ بھی مکمل ہوچکا ہے۔ شیخ محترم مجھے بہت سچے خواب آرہے ہیں، ہر چھوٹا بڑا معاملہ خواب میں نظر آجاتا ہے۔ آپ نے عیوب میں رب کے ساتھ شکوہ کرنے پر control اور زیادہ سے زیادہ دعا کرنے کا حکم دیا تھا. میرے حالات بہت پریشانی والے ہیں، اس دوران یہ آیت دن میں کئی بار میرے سامنے آئی:
﴿اُدْعُوْنِیْۤ اَسْتَجِبْ لَكُمْؕ﴾ (المومن: 60)
ترجمہ: ’’مجھے پکارو، میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا‘‘۔
تو میں نے دل کھول کے دعا کی۔ شیخ محترم! آگے رہنمائی فرما دیجئے۔
جواب:
اب آپ آیت الکرسی کا ترجمہ سیکھ لیں اور اس ترجمے کو ذہن میں حاضر کرکے تصور کریں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کا فیض حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف آرہا ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے شیخ کی طرف آرہا ہے اور شیخ کی طرف سے آپ کے دل پہ آرہا ہے۔
سوال نمبر 12:
السلام علیکم حضرت شاہ صاحب میری چھوٹی بہن کی سہیلی کا ذکر دس منٹ کا لطیفۂ قلب تھا، جس کو ایک ماہ ہوگیا ہے۔ جب ذکر شروع کیا تھا تو بہت غصہ آتا تھا، خواب میں خانہ کعبہ کی زیارت ہوئی جس کے بعد غصہ آنا کم ہوگیا ہے۔ مزید رہنمائی فرمائیں، دل میں ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ محسوس نہیں ہوتا۔
جواب:
اب اس ذکر کو پندرہ منٹ کرلیں اور دل میں ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ محسوس کرنے کی کوشش کریں۔ باقاعدگی کے ساتھ بیٹھیں، آپ نے دل سے ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کروانا نہیں ہے بس آپ تصور کرلیں کہ جب ہونا شروع ہوجائے تو کم از کم آپ کو پتا چلے اور اس کی طرف آپ متوجہ رہیں۔
سوال نمبر 13:
السلام علیکم حضرت! احساسِ کمتری کو دور کرنے کا کیا طریقہ ہے؟
جواب:
یہ دیکھنا چاہئے کہ احساسِ کمتری کیوں ہوتا ہے۔ دو references ہیں: اگر اللہ تعالیٰ کے لئے اپنے آپ کو کم سمجھیں تو یہ تواضع ہے اور اگر دنیا کے لئے اپنے آپ کو کم سمجھیں تو یہ احساس کمتری ہے۔ جس کے دل سے دنیا کی محبت نکل جائے، اس کو احساسِ کمتری نہیں ہوسکتا۔ دل سے دنیا کی محبت نکالنے کی کوشش کریں، دل سے جب دنیا کی محبت نکل جائے گی تو احساس کمتری بھی ختم ہوجائے گا۔
سوال نمبر 14:
السلام علیکم حضرت شاہ صاحب! اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند فرمائے۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ آپ کی برکت سے ذکر دو سو، چار سو، چھ سو، ساڑھے آٹھ ہزار اور دس منٹ مراقبہ قلب ایک ماہ سے زیادہ ہوگیا ہے۔ ذکر میں آپ کی برکت سے آسانی ہے۔ ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کے ذکر میں اچانک نیند آجاتی ہے۔ مراقبہ میں کچھ محسوس نہیں ہوتا اور کبھی کبھی مراقبہ میں بھی نیند آجاتی ہے۔ جب ٹائم پورا ہوجاتا ہے تو دل کی دھڑکن کچھ دیر کے لئے محسوس ہوتی ہے۔ آپ کی برکت سے منزلِ جدید بلا ناغہ جاری ہے۔ آپ کی برکت سے اَلْحَمْدُ لِلّٰہ گھر والوں کو خانقاہ شریف میں خواتین کے جوڑ میں شرکت کی توفیق حاصل ہوئی۔
نمبر 2: بیٹے کی عمر گیارہ سال جس کا ذکر دو سو مرتبہ درود شریف، سو مرتبہ استغفار، تیسرا کلمہ، ذکر کو ایک ماہ ہوگیا ہے جس میں دو دن کا ناغہ ہوا ہے۔ نماز پڑھنے میں مشقت ہوتی ہے۔
جواب:
ٹھیک ہے، اِنْ شَاءَ اللہُ الْعَزِیْز اسی کو فی الحال جاری رکھیں ایک مہینہ اور اس کے بعد پھر بتا دیجئے گا۔
سوال نمبر 15:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ میرے طبیب! بچنے کا بس ایک ہی راستہ ہے کہ دنیا سے کان ہٹاؤں، سب سے آنکھ چراؤں اور تجھے ہی دیکھوں تجھے ہی سنوں، زبان سے کچھ بھی نہ کہوں۔ حضرت جی! میرے دل کے احوال عرض ہیں کہ میرے لئے شاید سب سے بڑا مانع بد نظری کے بارے میں حساسیت ہے۔
جواب:
دیکھیں! بد نظری کا شوق ہوجانے اور بد نظری کی طرف توجہ ہوجانے پر گرفت نہیں ہے، بلکہ جب یہ چیز ہوگی اور آپ اس پر عمل نہیں کریں گے تو اس پر اجر ملے گا، اور اگر نہیں ہوگی تو اجر والی بات بھی نہیں رہے گی، صرف حفاظت رہے گی۔ جب آپ کو اللہ پاک اجر دینا چاہتے ہیں تو اس اجر کو وصول کریں۔ مطلب یہ کہ اگر آپ کے دل میں بد نظری کرنے کا میلان موجود ہے اور اس کے باوجود بھی آپ اپنے آپ کو بچاتے ہیں تو یہ تقویٰ ہے۔ تقویٰ کے بارے میں اللہ پاک کیا فرماتے ہیں، آپ خود دیکھیں۔
سوال نمبر 16:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ حضرت! مجھے آپ نے ایک ماہ کے لئے پندرہ منٹ کا مراقبہ دیا تھا کہ دل پر توجہ دینی ہے کہ میرا دل ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کررہا ہے۔ لیکن مجھے ابھی کچھ محسوس نہیں ہوا۔
جواب:
مَاشَاءَ اللّٰہ اب آپ اس کو ایک مہینہ تک بیس منٹ کرلیں اِنْ شَاءَ اللہُ۔
سوال نمبر 17:
السلام علیکم
Dear Sheikh, I am writing to you again in one month. I am doing ذکر practice as you said.
جواب:
اَلْحَمْدُ لِلّٰہ it's very good that you are doing this ذکر and مَاشَاءَ اللّٰہ as I have told you I think, you will do this one month again.
سوال نمبر 18:
السلام علیکم حضرت! میرا نام فلاں ہے۔ حضرت جو خواب دیکھا تھا اس کی تعبیر آپ نے بتائی تھی کہ شاید شیطان کو اپنے شیخ سے دور کرنے کا کوئی راستہ مل گیا ہے۔ حضرت اپنے شیخ سے اتنی محبت ہونے کے باوجود وہ کیسے شیخ سے دور کرسکتا ہے؟ وہ ایسا کون سا طریقہ اختیار کرسکتا ہے جس سے وہ مجھے شیخ سے دور کر دے؟ جَزَاکُمُ اللہُ خَیْراً کَثِیْراً
جواب:
دراصل یہ تنبیہ ہے کہ کوئی ایسی بات ایسی ہوسکتی ہے جو آپ کو شیخ سے دور کر دے، اس لئے محتاط رہیں۔
سوال نمبر 19:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! بندہ دعا گو ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کے سایۂ شفقت میں برکت عطا فرمائے۔ بندہ کے معمولات: دو، چار، چھ اور تین ہزار ہیں۔ یہ معمولات کئی مہینوں سے جاری ہیں۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ حضرت کی دعا سے ذکر کے ساتھ ساتھ تلاوت قرآن اور منزلِ جدید پڑھنے کی توفیق بھی ہوتی ہے۔ درس قرآن اَلْحَمْدُ لِلّٰہ جاری ہے۔ مغرب کے بعد سورۃ النساء کا درس شروع کیا ہے، آٹھ سے دس بندے ہوتے ہیں جن کو پڑھانے کے بعد سب سے سنتا ہوں۔ سب اسی جگہ بیٹھ کر یاد بھی کرلیتے ہیں۔
جواب:
مَاشَاءَ اللّٰہ! بڑی اچھی بات ہے، اللہ تعالیٰ مزید برکت عطا فرمائیں اور ذکر پر بھی استقامت عطا فرمائیں۔ اب دو، چار، چھ اور ساڑھے تین ہزار کرلیں۔
سوال نمبر 20:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! حضرت جی اللہ پاک سے آپ کی خیر و عافیت اور بلندیٔ درجات کے لئے دعا گو ہوں۔ میرا ذکر مکمل ہوگیا ہے۔ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ دو سو مرتبہ، ’’اِلَّا اللّٰہ‘‘ چار سو مرتبہ، ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ چھ سو مرتبہ اور ’’اَللّٰہْ‘‘ تین ہزار مرتبہ۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ! ذکر میں ناغہ نہیں ہے، البتہ اس ماہ فجر کی جماعت کئی مرتبہ رہ گئی ہے۔ تہجد کی نماز کے لئے تقریباً تین بجے سے پہلے آنکھ کھلتی ہے لیکن یہ سوچ کر پھر سو جاتا ہوں کہ ابھی کافی وقت باقی ہے، کچھ دیر تک اٹھتا ہوں۔ اس کے بعد فجر کی اذان سے ہی آنکھیں کھلتی ہیں۔ کچھ عرصہ کے لئے غصہ اور زبان درازی کافی کم ہوگئی تھی، لیکن آج کل پھر بالخصوص اہل وعیال پر غصہ کرنے لگا ہوں۔ حضرت جی میں ایک مغلوب الحال قسم کا شخص ہوں جو بھی کیفیت طاری ہوجائے اس کے مطابق ہی میرا رویہ ہوتا ہے، حالانکہ مجھے اعتدال کا راستہ اپنانا چاہئے اور شریعت کے مطابق عمل اختیار کرنا چاہئے اور مختلف حالات میں سنت کے مطابق راستہ اپنانا چاہئے، لیکن اس کے برعکس میں اپنی طبیعت کے مطابق عمل کرتا ہوں۔ نماز کے دوران بھی زیادہ تر دھیان دنیاوی اور نفسانی خواہشات کی جانب رہتا ہے، خشوع و خضوع کی کیفیت تو خواب و خیال ہی لگتا ہے۔ معمولات کا جلوہ آپ کو Email کے ذریعہ بھی ارسال کیا ہے، براہِ مہربانی اس بارے میں رہنمائی فرمائیے۔ اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند فرمائے اور آپ کو بہترین اجر عطا فرمائے۔
جواب:
ذکر تو فی الحال یہی کرلیں، لیکن نماز کے لئے اٹھنے کو آپ اپنے لئے مجاہدہ سمجھیں۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ کسی اور کو پابند کرلیں جو آپ کو باقاعدگی سے جگائے۔ اور چونکہ آپ نمازِ فجر کے لئے جاگ جاتے ہیں، صرف تہجد کی بات ہے تو آپ تہجد کی چار رکعت وتروں سے پہلے تہجد کی نیت سے پڑھ سکتے ہیں۔ اور اگر پھر مل جائے تو مزید چار رکعت بھی پڑھ لیجئے گا۔ البتہ alarm کا ٹائم آپ اس طرح لگا دیں کہ اس میں آپ صرف تہجد کی نماز ہی پڑھ سکیں یعنی آپ کی نیند پوری ہوجائے۔ مثال کے طور پر آج کل یہاں پر تہجد کا وقت تقریباً پانچ بج کر ستائیس منٹ تک ہے تو آپ اگر پانچ بجے بھی alarm لگا دیں تو آپ پانچ بجے جلدی سے وضو کرکے آپ چار رکعت اطمینان کے ساتھ پڑھ سکتے ہیں۔ اس طرح اِنْ شَاءَ اللہ آپ کی نیند بھی پوری ہوجائے گی۔ جہاں تک غصہ کرنے کی بات ہے تو غصہ آنا کوئی مسئلہ نہیں ہے، غصہ کرنے سے پہلے سوچ لیا کریں کہ اللہ پاک مجھ پر غصہ فرمائے تو میں کیا کروں گا؟ اس وجہ سے غیر ضروری غصہ چھوڑ دیا کریں اور ضروری غصے کی جتنی ضرورت ہو وہ control کے ساتھ کرلیا کریں۔
سوال نمبر 21:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
نمبر 1:
اَلْحَمْدُ لِلّٰہ کم کھانے کا مراقبہ جاری ہے۔ پچھلے ہفتے آپ کو report دینا بھول گئی تھی۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ دونوں ہفتے مجاہدہ میں کامیابی نصیب ہوئی ہے۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ ثُمَّ الْحَمْدُ لِلّٰہ اب سولہ گھنٹے کچھ نہیں لیتی اور آٹھ گھنٹوں میں کھاتی ہوں۔ صبح گیارہ سے شام سات بجے تک کبھی ایک وقت کھانا لیتی ہوں اور کبھی دو وقت۔ اب معدہ زیادہ کھانے کو برداشت نہیں کرتا، بوجھ محسوس کرتی ہوں۔ رات کا کھانا بہت ہلکا لیتی ہوں کیونکہ پھر معدہ پر بوجھ ہی رہتا ہے اور اٹھنے میں سستی محسوس کرتی ہوں۔ اکثر روٹی بالکل نہیں لیتی۔ کوئی اور چیز لے لیتی ہوں۔ ناشتہ بھی پہلے کے مقابلے میں کافی ہلکا کرلیتی ہوں۔ اگر ناشتا بھاری ہو تو پھر دوپہر کا کھانا نہیں لیتی۔ ’’لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيْمِ‘‘ کا ذکر کرتے وقت مجاہدہ میں آسانی کی نیت بھی کرتی تھی اور اس کی کافی تاثیر محسوس کی۔
جواب:
اَلْحَمْدُ لِلّٰہ! اس کو جاری رکھیں۔ اللہ تعالیٰ مزید توفیقات سے نوازے۔
نمبر 2:
لطیفۂ قلب دس منٹ، محسوس ہوتا ہے۔
جواب:
مَاشَاءَ اللّٰہ! اب پندرہ منٹ کرلیں۔
نمبر 3:
لطیفۂ قلب دس منٹ، لطیفۂ روح دس منٹ، لطیفۂ سِر پندرہ منٹ۔ تمام لطائف پر ذکر محسوس ہوتا ہے۔
جواب:
تین پر دس منٹ اور چوتھے پر پندرہ منٹ کا بتا دیں۔
نمبر 4:
لطیفۂ قلب دس منٹ، لطیفۂ روح پندرہ منٹ۔ دونوں لطیفوں پر ذکر محسوس نہیں ہوتا۔
جواب:
اب صرف قلب پر ہی بیس منٹ کرلیا کریں۔
نمبر 5:
لطیفۂ قلب پانچ منٹ، محسوس نہیں ہوتا۔
جواب:
اس کو اب دس منٹ کروا دیں۔
سوال نمبر 22:
دَ چا چې يوۍ سلسلے سره هم مناسبت نهٔ وي نو دَ هغې دپاره دَ سلسلے انتخاب څنګه کيږي؟
جواب:
هغة دې دَ شيخ انتخاب وکړي چې شيخ ورته کومه سلسله ورکړي بس پهٔ هغې باندې دې چليږي
سوال نمبر 23:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! میرا نام فلاں ہے۔
I hope you are well dear حضرت جی. I have completed my third month of twenty minutes مراقبہ imaginenning my heart saying ‘‘اَللہ اَللہ’’ while Allah تعالیٰ is looking at it with love while facing قبلہ شریف. In this month, I was regular in my مراقبہ apart from four continuous days in which my routine was completely off and so I didn’t fix a time and kept delaying. I am still struggling to focus on it but I definitely feel it when I think about those four days when I missed it. I felt very low. It was this low time that Allah تعالیٰ granted me توفیق to reduce my use of youtube to almost zero. I put a punishment on my نفس for not being allowed to play football. I have watched it on weekdays and more than an hour on Saturday. I also now keep my phone in the kitchen when at home and the only social media app I have had for a while is WhatsApp. I wish it could delete it but I need to stay in touch with you حضرت جی family and for the necessary reasons. However, I tried to respond to messages twice a day and have my notifications off. My تہجد and daily تلاوت is starting to get a bit regular اَلْحَمْدُ لِلّٰہ but could have been better and my goal on acting on five new sunnah from اسوۃ حسنہ every week and daily محاسبہ is not regular at all. I will try improving it for this month and report back for next. I also increased my Friday درود شریف to fifteen hundred and will try to add five hundred this month. My fasting on Monday and Thursday is also quite regular with a couple of other days of نفل fast. I plan to start صوم داؤد this week. I will fast on Monday, Wednesday, Thursday and Saturday. My معمولات چارٹ is attached to show these. Kindly advise for the next.
جواب:
مَاشَاءَ اللّٰہ its very good and I think you should continue this in the same way and اِنْ شَاءَ اللہ we shall be talking about this in the next month اِنْ شَاءَ اللہ.
سوال نمبر 24:
السلام علیکم حضرت! لاہور سے فلاں عرض کررہا ہوں۔ گزشتہ ماہ آپ نے میرا جہری ذکر دو سو، چار سو، چھ سو اور ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ اور ’’حَقْ‘‘ کے ساتھ ’’اَللّٰہْ‘‘ دس ہزار مرتبہ تک بڑھانے کا فرمایا تھا، جس کو کرتے ہوئے اَلْحَمْدُ لِلّٰہ ایک ماہ مکمل ہوگیا ہے۔ اس کے علاوہ اکثر ریا کاری کا ادراک ہونے لگا ہے اور معاملات میں لوگوں کی رعایت کی فکر رہتی ہے۔ آپ سے مزید رہنمائی کی درخواست ہے۔
جواب:
مَاشَاءَ اللّٰہ! اب آپ دس ہزار پانچ سو مرتبہ ذکر کرلیں اور باقی چیزیں وہی رکھیں جو آپ کررہے ہیں۔
سوال نمبر 25:
لطيفهٔ قلب اؤ لطيفهٔ روح دا څهٔ شې وي؟
جواب:
دراصل لطائف کو ہم Sensing points بھی کہتے ہیں، یعنی جہاں ذکر محسوس ہوتا ہے۔ اور لطائف کی اصل تو عرش کے اوپر ہے لیکن یہاں محسوس کرنے کے سرے ہیں۔ اگر کسی کے لطائف صحیح معنوں میں جاری ہوجائیں تو عرش سے جو فیوض و برکات آتے ہیں وہ ان کے ذریعہ سے آنے لگتے ہیں۔
لطیفۂ قلب دل کے بالکل اوپر ہے۔ اگر جسم کو بالکل آدھا کیا جائے تو جو لائن بنتی ہے اس لائن سے دل بائیں طرف جتنا دور ہے اتنا دائیں طرف دور جو جگہ ہے اس کو لطیفۂ روح کہتے ہیں۔ اس کے بعد دل سے چار انگل اوپر اور اس جگہ سے دو انگل سینے کی طرف جو جگہ ہے اس کو لطیفۂ سِر کہتے ہیں۔ اس کے بعد لطیفۂ روح سے چار انگل اوپر اور اس سے دو انگل سینے کی طرف جو جگہ ہے اس کو لطیفۂ خفی کہتے ہیں۔ پھر یہ point اور یہ point دونوں لطائف اور ساتھ گلے کی جڑ، ان تین point کے درمیان کی جگہ کو ہم لطیفۂ اخفیٰ کہتے ہیں۔
ان کو معصومیہ لطائف کہتے ہیں یعنی حضرت خواجہ معصوم رحمۃ اللہ علیہ کی تحقیق کے مطابق یہ پانچ لطائف ہیں۔ لیکن حضرت آدم بنوری رحمۃ اللہ علیہ کی تحقیق کے مطابق لطیفۂ قلب یہ ہے، لطیفۂ روح یہ ہے، لطیفۂ سِر ان کے درمیان میں ہے، لطیفۂ خفی ماتھے پہ ہے اور لطیفۂ اخفیٰ بالکل تالو کے اوپر ام دماغ کو کہتے ہیں۔ یہ مختلف لطائف کی تحقیق ہے۔ ان پہ ذکر کو محسوس کیا جاتا ہے، اگر ذکر محسوس ہونے لگے تو مَاشَاءَ اللّٰہ ان کو بڑھایا جاتا ہے۔ اس طریقہ سے پورے اعضاء کو ذکر میں مشغول کرنے کا نظام موجود ہے۔
سوال نمبر 26:
السلام علیکم! ذکر کرتے ہوئے کھانے میں بھی کمی آتی ہے، کھانا کم کھاتے ہیں زیادہ نہیں کھا پاتے۔
جواب:
جی ہاں یہ کہہ سکتے ہیں کہ انسان جتنا ذکر میں مصروف ہوتا جاتا ہے تو اس کا روحانیت کی طرف میلان بڑھتا جاتا ہے اور جسمانیت کی طرف میلان کم ہوتا جاتا ہے۔ اس کا اثر جسم پر بھی پڑتا ہے۔
سوال نمبر 27:
حضرت! میں شیخ الاسلام حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کی ایک بات پڑھ رہا تھا حضرت نے ایک بات فرمائی کہ میں تو یہ کہتا ہوں کہ کسی ایک اللہ والے کے ساتھ ہوجائیں جس پہ آپ کو اعتماد ہو، اور اہلِ حق میں سے بھی ہر ایک کو نہ سنیں، کیونکہ مزاج مختلف ہوتے ہیں، اور فرمایا کہ میں اس کو ناجائز تو نہیں کہتا، لیکن میں کہتا ہوں کہ فائدہ بالکل نہیں ہوگا، بلکہ نقصان ہوجائے گا۔
جواب:
مَاشَاءَ اللّٰہ! بہت صحیح بات کی ہے۔ میرے ساتھ یہ ہوچکا ہے اس وجہ سے میں اس کی پوری پوری تائید کرتا ہوں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اہل حق، حق بات ہی کریں گے لیکن اپنے ذوق کے مطابق کریں گے اور ذوق مختلف ہوتے ہیں۔ یعنی کچھ چیزوں میں ذوقیات پر بات منحصر ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر کسی کو خاموش رہنے کا ذوق ہے، کسی کو زیادہ بولنے کا ذوق ہے۔ اب وہ خاموشی کے فضائل سنائے گا اور دوسرا بولنے کے فضائل سنائے گا۔
ہم ایک مرتبہ تبلیغی جماعت میں گئے، رائیونڈ میں بات ہورہی تھی۔ حضرت مولانا مصطفیٰ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے یہ بات کی کہ اگر آپ کی تشکیل ایسی جگہ پہ ہوجائے جہاں کے پیسے آپ کے پاس نہ ہوں تو تشکیل والوں سے اپنی تشکیل تبدیل کروا لیں کیونکہ آپ کی جماعت کو بھی تکلیف ہوگی اور آپ کو بھی تکلیف ہوگی۔ اس کے بعد حاجی عبدالوہاب صاحب بات فرما رہے تھے تو انہوں نے فرمایا کہ اگر کوئی اسٹیشن جاتا ہے اور اس کی نظر جیب پر ہے کہ میرے پاس پیسے ہیں یا نہیں تو ابھی اس کا کلمہ نہیں بنا۔ اب میں پریشان ہوگیا کہ مولانا مصطفیٰ صاحب کی مانوں یا حاجی عبدالوہاب صاحب کی مانوں۔ حالانکہ دونوں اہل حق ہیں۔ پھر میں اپنے شیخ کے پاس گیا تو ہمارے شیخ مسکرائے اور فرمایا دیکھو سنو سب کی لیکن مانو اس کی جس کو تم نے مربی بنایا ہے۔ ورنہ ایک آپ کو ایک ٹانگ سے کھینچے گا دوسرا دوسری ٹانگ سے کھینچے گا اور درمیان میں آپ کا حشر ہوجائے گا۔
دوسری بات یہ کہ مثلًا ایک شخص کو سیاست کا ذوق ہے اور دوسرے شخص کو گوشہ نشینی کا ذوق ہے. اب اس کی مجلس میں آپ بیٹھیں گے تو آپ پوری دنیا کی خبریں سنیں گے اور گوشہ نشینی والا کہے گا کہ بھائی آپ ایک طرف بیٹھ جاؤ۔ اس طرح آپ خواہ مخواہ tension میں مبتلا ہوں گے۔ لیکن اگر آپ کسی ایک ذوق والے کو لے لیں تو مَاشَاءَ اللّٰہ ایک تو وہ آپ کے مزاج کو پہچان لیں گے، جس کی وجہ سے وہ آپ کے ساتھ وہی بات کریں گے جو آپ کے مناسب ہوگی، دوسرا آپ ان کے ذوق کو پہچان لیں گے کہ وہ کون سی چیز کا کیا مطلب لیتے ہیں۔ اس طرح آپ کے لئے ان سے استفادہ کرنا آسان ہوجائے گا۔ ہمارے ہاں پشتو میں کہتے ہیں کہ کئی گھروں کا مہمان بھوکا سوتا ہے۔ کیونکہ ہر ایک سمجھے گا کہ وہ اُس کا مہمان ہے، اور اسے اپنی طرف سے کھانا نہیں بھجوائے گا۔ اس طرح جو شخص ہر ایک کے ساتھ اس طرح تعلق رکھے گا تو جو بھی ہوگا وہ یہ کہے گا کہ اس کا تو فلاں کے ساتھ تعلق ہے، اس طرح وہ ان کو full توجہ نہیں دے گا۔ جب آپ کا کسی ایک کے ساتھ تعلق ہوگا تو وہ کہے گا کہ یہ تو ہے ہی میرے ساتھ، اگر میں بھی اس کی طرف توجہ نہ دوں تو یہ کیا کرے گا۔ اس طرح وہ اس کا خیال رکھے گا۔ ان تمام مصلحتوں کی وجہ سے حضرت نے بالکل ٹھیک فرمایا ہے۔
سوال نمبر 28:
حضرت اقدس! اللہ تعالیٰ آپ کا زکام دور فرمائے اور عافیت فرمائے۔ تواضع کی حقیقت کیا ہے اور اپنے دل میں اسے کیسے پیدا کریں؟
جواب:
دیکھیں! انسان کا نفس ترفع، بزرگی، بڑائی اور سب کے اوپر فوقیت چاہتا ہے یہ اس کی فطرت ہے۔ شیطان پہ بھی نفس نے اسی طرح حملہ کیا، اس نے کہا:
﴿اَنَا خَیْرٌ مِّنْهُۚ خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَّخَلَقْتَهٗ مِنْ طِیْنٍ﴾ (الأعراف: 12)
ترجمہ: ’’میں اس سے بہتر ہوں۔ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا، اور اس کو مٹی سے پیدا کیا‘‘۔
دیکھیں! یہاں شیطان نے ایک دعویٰ کیا اور پھر اپنی طرف سے اس دعویٰ کی دلیل دی۔ اگرچہ ذوق فاسد تھا لیکن دلیل تو بہر حال دی کہ چونکہ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور اس کو مٹی سے پیدا کیا، لہٰذا میں اس سے افضل ہوں، تو میں اس کو کیسے سجدہ کروں؟ اب اس کی دلیل جو بھی تھی لیکن اس کی نافرمانی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی تھی کیونکہ اللہ جل شانہ کا فرمان سب سے اوپر ہوتا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کا فرمان سب سے اوپر ہے تو سب سے اوپر والے کی بات ماننی چاہئے۔ یہ دلیل سب سے مضبوط ہے۔ اگر وہ اس بات کو سمجھ جاتا اور اپنے نفس کے اوپر پیر رکھ لیتا اور اپنی بات کو دبا دیتا کہ میں بڑا نہیں ہوں، بلکہ بڑا وہ ہے جس کو اللہ مجھ سے بڑا سمجھے۔ کیونکہ اللہ کے سامنے تو کوئی کچھ بھی نہیں ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ لہذا تواضع کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنی نفسانی خواہشات جن کو وہ کچھ دلائل کے ذریعے مانتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ میں اس وجہ سے افضل ہوں جس سے تکبر اور عجب پیدا ہوتا ہے، ان کا جواب نفس کو دینےکا نام ہے کہ اگر مجھ میں یہ صفات ہیں بھی تو اللہ نے دی ہیں۔ جب اللہ نے دی ہیں تو اللہ تعالیٰ مجھ سے کیا چاہتا ہے، میں اپنی بڑائی ظاہر کروں یا عاجزی ظاہر کروں؟ اللہ کا حکم یہ ہے کہ میں عاجزی ظاہر کروں، لہٰذا مجھے عاجزی اختیار کرنی چاہئے اور ان چیزوں پر شکر ادا کرنا چاہئے۔ مثلاً ایک آدمی اگر عالم ہے تو عالم ہونے انکار تو نہیں کرسکتا، لیکن یہ کہہ سکتا ہے کہ میں درس نظامی کا فارغ ہوں۔ یعنی اگر اپنے آپ کو عالم نہ بھی کہے تو درس نظامی کا فارغ کہہ سکتا ہے۔ اس وجہ سے کہ اس کا عالم ہونا ایک درجے میں ہے، لیکن اس عالم ہونے کو اپنی بڑائی کی دلیل نہیں بنا سکتا کیونکہ اصل فائدہ قبولیت کا ہے اور قبولیت کا علم نہیں ہے کہ کون قبول ہے۔ عین ممکن ہے کہ بالکل ان پڑھ آدمی اپنی تواضع کی وجہ سے زیادہ مقبول ہو۔ چونکہ اس بات کا پتا نہیں ہے لہٰذا میں اپنی بڑائی کا دعویٰ نہیں کرسکتا۔
اگر انسان اللہ تعالیٰ کے فرمان اور اس کی حکمت کے حوالے سے سوچے تو یہ سوچ سکتا ہے کہ اللہ پاک نے مجھے جو صفات دی ہیں ان کا شکر مجھ پر واجب ہے، اور شکر واجب ہونے کا مطلب یہ ہے کہ میں ان کو اللہ کے لئے استعمال کروں، اللہ کی نافرمانی میں استعمال نہ کروں، اور اس پر بڑائی کا دعویٰ نافرمانی ہے، لہٰذا میں نافرمانی کیوں کروں؟ اپنے آپ کو یہ سمجھائیں۔ یہ وقتی اور فوری علاج ہے۔ اصل علاج پورا سلوک طے کرنا ہے جس میں اس کا پورا پورا انتظام ہے۔ جب انسان پورے کا پورا سلوک طے کرلیتا ہے تو اس کے بعد اس کا نفس ٹھکانے آجاتا ہے۔ پھر اس کو اپنے اندر کوئی اچھائی نظر نہیں آتی۔ مولانا احمد لاٹ صاحب رائیونڈ اجتماع میں فرما رہے تھے کہ جب دل کے ڈھول کا پول کھل گیا تو پتا چلا کہ ہم تو بالکل خالی ہیں۔ واقعی! اس طرح ہی ہوتا ہے۔ انسان اگر سمجھ جائے تو پتا چلے گا کہ ہم تو کچھ بھی نہیں ہیں۔ یہ سارا شور شرابا صرف اور صرف ہمارا نفسانی شور شرابا ہے۔ ورنہ جس وقت انسان اللہ کی طرف دیکھتا ہے تو جب اِدھر چراغ ہے اور اِدھر ہزار watt کا بلب ہے، اِدھر موم بتی لگی ہوئی ہے اور اِدھر سورج چڑھ گیا، تو یہ سب کیوں محسوس ہوں گی؟ اسی طرح جس پہ توحید کا سورج چڑھ گیا دوسری چیزوں کا اس کو پتا بھی نہیں چلے گا کہ یہ بھی کچھ ہیں۔ جب یہ حالت ہوگی تو وہ کیسے اپنے آپ کو کچھ سمجھے گا؟ جب تک انسان کو وہ چیز حاصل نہیں ہوتی جس کو وحدت الوجود اور وحدت الشہود کہتے ہیں، اس وقت صحیح معنوں میں ان چیزوں سے فراغت نہیں ہوتی۔ لیکن فوری علاج ہوسکتا ہے اور انسان اسی کا مکلف ہے۔ یہ علاج عقل کے ذریعہ سے ہوتا ہے کہ انسان اپنی عقل کو استعمال کرے اور اپنے دل کو سمجھائے۔
ہمارے حضرت مولانا عزیر گل صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے پاس کوئی صاحب تشریف لائے تھے، میں بھی وہاں جاتا تھا، اس وقت میں بھی بیٹھا ہوا تھا۔ کسی نے پوچھا کہ حضرت! عاجزی کیسے بنتی ہے؟ کہنے لگے: خلق دې ځان عاجز وګڼي کنه څهٔ مسئله ده۔ یعنی لوگ اپنے آپ کو عاجز سمجھ لیں، اور یہ بھلا کون سا مشکل مسئلہ ہے۔ ہم عاجز ہی تو ہیں۔ ہمیں یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ ایک second کے بعد ہمارا کیا ہوگا؟ ابھی تک جو شخص ہٹا کٹا بیٹھا ہوا ہے، یکدم دماغ میں ایک رگ پھٹے گی اور ہسپتال جائے گا، پھر پتا نہیں ہسپتال میں کس حالت میں پڑا ہوگا، اس کے ساتھ کیا ہوگا۔ یعنی انسان اپنے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتا کہ اس کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ مولانا عزیر گل صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی بات بالکل صحیح ہے کہ بس اپنے آپ کو عاجز مان لیں۔ یہ عقلی طور پہ ماننا ہے۔ البتہ اصل اصلاح تو یہی ہے کہ اپنا پورا سلوک طے کریں۔
سوال نمبر 29:
ابھی تھوڑی دیر پہلے ایک بھائی نے سوال کیا تھا، میرا سوال بھی اسی سے متعلق ہے۔ میں مثال سے سمجھاتا ہوں مثلًا زید اور عمرو دونوں کا تعلق ایک ہی شیخ سے ہے، زید صرف اپنے شیخ کے بیانات وغیرہ سنتا ہے جب کہ عمرو کسی اور بزرگ کے اصلاحی بیانات بھی سنتا ہے اور اپنے شیخ کے ساتھ تعلق میں بھی پختہ نہیں ہے۔ زید اس کو کہہ رہا ہے اگر آپ نے اصلاحی بیانات سننے ہیں تو اپنے شیخ کے ہی سنیں۔ اس صورت میں عمرو کو کیا کرنا چاہئے؟
جواب:
بالکل بہتر یہی ہے کہ اپنے شیخ کے بیانات ہی سنیں۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ میں آپ کو حضرت تھانوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی بات بتاتا ہوں۔ حضرت اس دور کے مجدد ہیں اس لئے اس مسئلہ میں ان کی بات معتبر ہوگی۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ جب انسان کسی شیخ سے بیعت ہوجائے تو کافی عرصہ تک ان کی صحبت اختیار کرے تاکہ شناسائی ہوجائے۔ یعنی شیخ کو آپ کی شناسائی ہوجائے اور آپ کو شیخ کی شناسائی ہوجائے۔ مطلب یہ کہ تعلق اور مناسبت بن جائے۔ پھر اس کے بعد دور ہونے سے کوئی مسئلہ نہیں ہوگا بلکہ دور سے بھی خط اور ٹیلی فون کے ذریعے سے وہ تعلق نصیب ہوگا لیکن ابتدا میں اپنی نسبت مضبوط کرنے کے لئے ساتھ رہنا ضروری ہے۔
حضرت نے فرمایا کہ بزرگوں کے حالات ومقالات کا مطالعہ اس صحبت کا بدل ہے۔ صحبت اہل اللہ کی کثرت مرغوب ہے اور اگر کثرت کے لئے فراغ نہ ہو تو بزرگوں کے حالات و مقالات کا مطالعہ اس کا بدل ہے۔ یعنی جس بزرگ کے ساتھ تعلق ہے اس کے بیانات وغیرہ سننا اس کا بدل ہے۔ کیونکہ انسان کا جس بزرگ کے ساتھ تعلق ہو، اللہ تعالیٰ اس کی تمام اصلاح کے لئے اس بزرگ کو ذریعہ بناتے ہیں۔ میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ گویا کہ مختلف کھڑکیاں ہیں، آپ نے جس کھڑکی کو بھی چن لیا وہاں پر آپ کے لئے وہ چیز رکھ دی جائے گی۔ یہ اللہ پاک کا نظام ہے، تو آپ نے جس شیخ کو چن لیا اللہ پاک اس کے ذریعے سے آپ کو عطا کریں گے۔ جس وقت آپ اپنے شیخ کو سنیں گے تو آپ کو بہت زیادہ فائدہ ہوگا کیونکہ ان کی باتوں میں آپ کے لئے وہ سامان موجود ہوگا جو کہ آپ کو چاہئے ہوگا۔ دوسرے حضرات کو سننے میں علم میں تو اضافہ ہوسکتا ہے لیکن تربیت والی بات اتنی نہیں ہوگی۔ اور انسان کو زیادہ ضرورت اسی بات کی ہے کہ اس کی تربیت ہوجائے۔ لہٰذا اپنے شیخ کے بیانات سننا ہے زیادہ مناسب ہے، اس سے زیادہ فائدہ ہوتا ہے۔ یہ بات دوسروں کے بیانات سے انکار کرکے یا ان کی اہمیت کو کم کرکے یا ان کو غلط کہہ کے نہیں بتا رہا۔ اس کی ہمیں اجازت نہیں ہے کہ ہم کسی کو کم کہیں۔ اللہ بہتر جانتا ہے کہ کون اچھا ہے اور کون افضل ہے اور کون افضل نہیں ہے۔ لیکن آپ کے لئے بہتر آپ کا شیخ ہی ہے۔
میں آپ کو اس کی مثال دیتا ہوں۔ ہزارہ کی side پر ایک بزرگ تھے، جن کا ایک مرید تھا۔ ہزارہ کا علاقہ پہاڑی علاقہ ہے یعنی آپ ایک پہاڑ سے نیچے اترتے ہیں پھر دوسرے پہاڑ پہ چڑھتے ہیں۔ وہاں پر یہی نظام ہے۔ یہ مرید پکلائی کے علاقے کے قریب رہتا تھا۔ ایک دن وہ اپنے شیخ کے لئے دوائی لے جا رہا تھا تو پیچھے سے ایک شخص نے آواز دی کہ ادھر آؤ۔ رات کا وقت تھا، اس نے کوئی پروا نہیں کی تو پھر آواز آئی کہ میں خضر ہوں۔ اس نے پھر بھی کوئی توجہ نہیں دی۔ تیسری آواز میں انہوں نے کہا کہ میرے پاس تو لوگ بڑی منت کرکے پہنچتے ہیں، آپ کو میں خود آواز دے رہا ہوں اور آپ نہیں آرہے۔ اس نے بغیر دیکھے یہ جواب دیا کہ میرا خضر اُدھر ہے۔ یعنی جن کے پاس میں جارہا ہوں وہ میرے خضر ہیں۔ حضرت کو اس کے پہنچنے سے پہلے ہی اس بات کی اطلاع ہوگئی تھی۔ اللہ پاک کا اپنا نظام ہے۔ جب یہ وہاں پہنچا تو مَاشَاءَ اللّٰہ پھر اس کو خلافت عطا فرمائی۔ کیونکہ یہ پکا ثابت ہوگیا تھا۔ اس معاملے میں پکا ہونا بہت بڑی بات ہے کہ انسان بالکل ہلے جلے نہیں۔ جس کو ہم کہہ سکتے ہیں کہ یک گیر، محکم گیر کہ ایک کو پکڑو، اور مضبوطی سے پکڑو تو پھر کام بن سکتا ہے۔ اس وجہ سے جس نے جس کو بھی پکڑا ہے پھر اس کے بعد پکا ہوجائے۔ البتہ اگر ان کے ساتھ بالکل رابطہ نہ ہوسکے یا ان سے فیض نہ لے سکے اور پھر اس کے بعد بدلنا چاہے تو پورا پورا بدل لے۔ کبھی ادھر اور کبھی ادھر یہ والی بات نہ ہو۔ کیونکہ بعض دفعہ بعض کو ایک کے ساتھ مناسبت نہیں ہوتی، صرف غلطی سے سنے سنائے طریقہ سے کوئی بیعت ہوجاتا ہے۔ مثلاً ماحول میں بیٹھے ہیں اور سب لوگ بیعت ہورہے ہیں تو وہ بھی بیعت ہوجائے۔ یہ بیعت ہونا by choice نہیں ہے۔ یہ صرف ماحول کی وجہ سے ایسے لوگوں میں ایک ابال سا آگیا۔ بہت سارے لوگ بعد میں کہتے ہیں پتا نہیں ہم بیعت بھی ہوئے ہیں یا نہیں ہوئے ہیں۔ اس کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ وہ باقاعدہ choice کی وجہ سے تو بیعت نہیں ہوتے بلکہ صرف ایک ماحول کی وجہ سے بیعت ہوتے ہیں۔ جو لوگ باقاعدہ choice سے بیعت ہوتے ہیں اس کو حقیقی بیعت ہونا کہہ سکتے ہیں۔ اگر کسی کو for example اپنی choice مل جائے اور پھر وہ اپنی choice کے مطابق پکا ہوجائے، ادھر ادھر نہ جائے بس ادھر ہی ٹک جائے اور عمر بھر اسی کے ساتھ رہے تو اس میں فائدہ اور کامیابی ہے۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ
۔ (آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب)
نوٹ! تمام آیات کا ترجمہ آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم سے لیا گیا ہے۔