سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 652

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال نمبر 1:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ ایک شخص نے ایک حدیث شریف بھیجی ہے کہ ارشادِ محمد رسول اللہ ﷺ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: آخر زمانے میں کچھ لوگ ایسے نکلیں گے جو دین کے ساتھ دنیا کے بھی طلبگار ہوں گے، وہ لوگوں کو اپنی سادگی اور نرمی دکھانے کے لئے بھیڑ کی کھال پہنیں گے، یعنی بھیڑ کی کھال کی طرح نرم و ملائم لباس اور ان کی زبان شکر سے بھی زیادہ میٹھی ہوگی، جبکہ ان کے دل بھیڑیوں کے دل کی طرح ہوں گے۔ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ لوگ مجھ پر غرور کرتے ہیں یا مجھ پر جرأت کرتے ہیں؟ میں اپنی ذات کی قسم کھاتا ہوں کہ ضرور ان پر ایسا فتنہ نازل کروں گا جس سے ان میں عقلمند آدمی بھی حیران رہ جائے گا۔ (جامع ترمذی، حدیث نمبر: 2404) حضرت! اس حدیث کی تشریح کیا ہوگی؟ کہ دین کے ساتھ دنیا کے بھی طلبگار ہوں گے، کیونکہ ہم تو دعا کرتے ہیں کہ دنیا بھی بہترین دے اور آخرت بھی۔ اب اس حدیث شریف کا کیا مطلب لیں؟

جواب:

اصل بات یہ ہے کہ جو لوگ دین کو show کرکے اس میں دنیا کے طالب ہوں گے وہ اس سے مراد ہیں یعنی بظاہر تو دین کا کام کررہے ہوں گے، لیکن اس میں اصل ان کا مطلوب دنیا ہوگی۔ باقی یہ بات نہیں کہ انسان دنیا کی جو ضروریات ہیں، وہ طلب نہیں کرسکتا، مثال کے طور پر آپ کے پیٹ میں درد ہے، تو اللہ تعالیٰ سے آپ دعا کرتے ہیں کہ یا اللہ! میرے پیٹ کا درد ٹھیک ہوجائے۔ تو یہ آخرت کی بات ہے یا دنیا کی بات ہے؟ دنیا کی بات ہے، لیکن جائز ہے یا ناجائز ہے؟ جائز ہے، لہٰذا اس پر ممانعت نہیں ہے۔ جیسے: قرآن کریم میں ہے:

﴿رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً وَّفِی الْاٰخِرَةِ حَسَنَةً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ﴾ (البقرۃ: 201)

ترجمہ1: ’’اے ہمارے پروردگار! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی عطا فرما اور آخرت میں بھی بھلائی، اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے‘‘۔

اب دیکھیں! یہ قرآنی دعا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ پاک سے دنیا کی چیز مانگنا کوئی بری بات نہیں ہے۔ دراصل دنیا کی دو حیثیتیں ہیں، جس پر لوگ confuse ہوجاتے ہیں، دنیا کی ایک حیثیت یہ ہے کہ یہ ہمارے لئے امتحان گاہ ہے، یہاں پر ہم لوگ آئے ہیں آخرت کو بنانے کے لئے اور آخرت جو ہم بنائیں گے، تو اس کے لئے دو چیزوں کی ضرورت ہے، ایک زندگی کی اور ایک صحت کی، ان دو چیزوں کے بغیر آخرت نہیں بنا سکتے، کیونکہ اگر بیمار ہوگئے تو پھر آپ کام نہیں کرسکیں گے اور اگر دنیا سے چلے جائیں گے تو پھر اعمال نامہ ختم ہوجائے گا، لہٰذا صحت بھی برقرار رکھنی ہے اور زندگی بھی برقرار رکھنی ہے اور جیسے اپنی مرضی سے کوئی آ نہیں سکتا، اسی طرح اپنی مرضی سے کوئی جا نہیں سکتا، لہٰذا جب یہ بات سامنے آگئی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ زندگی کو برقرار رکھنے کے لئے اور صحت کو برقرار رکھنے کے لئے جن چیزوں کی دنیا میں ضرورت ہے، تو وہ ذریعہ ہے آخرت کو کمانے کا، کیونکہ آخرت کو کمانے کے لئے بھی آپ کو اس کی ضرورت ہوگی، البتہ یہ بات ضرور ہے کہ حد سے نہ بڑھیں، جو حد اللہ نے مقرر کی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

﴿كُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَلَا تُسْرِفُوْا﴾ (الأعراف: 31)

ترجمہ: ’’کھاؤ اور پیو، اور فضول خرچی مت کرو‘‘۔

لہٰذا ہر چیز میں جو حد شریعت نے مقرر کی ہے، اس پہ رہنا یہ ضرورت ہے۔ اب اگر کوئی شخص حد میں رہتا ہے اور گناہ نہیں کرتا اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے اس کو استعمال کرتا ہے تو یہ بڑی اچھی بات ہے، پیغمبر بھی استعمال کرتے تھے، اسی لئے پیغمبر پہ جو لوگوں نے اعتراضات کیے تھے، ان میں سے ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ یہ کیسے نبی ہیں کہ بازاروں میں پھرتے ہیں، کھاتے ہیں، تو اللہ پاک نے اس کا جواب دیا ہے۔ لہٰذا مسئلہ یہ نہیں ہے، بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ ہم لوگ دین کو دنیا کا ذریعہ نہ بنائیں، بلکہ دنیا کو دین کا ذریعہ بنا دیں، مثال کے طور پر میں نماز پڑھتا ہوں اور نماز اس لئے پڑھتا ہوں کہ میری exercise ہوجائے اور میری صحت اس سے اچھی ہوجائے، تو اگرچہ صحت بنانا ٹھیک ٹھاک کام ہے، لیکن نماز اس کے لئے نہیں ہے، بلکہ نماز صرف اللہ کے لئے ہے، جیسے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

﴿اِیَّاكَ نَعْبُدُ وَاِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُ﴾ (الفاتحۃ: 4)

ترجمہ: ’’ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے ہی مدد مانگتے ہیں‘‘۔

یعنی عبادت صرف اللہ کے لئے ہے، اللہ کو راضی کرنے کے لئے کی جاتی ہے، دنیا کے لئے نہیں کی جاتی، اس لئے عبادت میں دنیا کی نیت کرنا یہ دنیا بنانا ہے، لہٰذا ان چیزوں سے بچنا چاہئے، اللہ تعالیٰ ہم سب کو سمجھ کی توفیق عطا فرمائے۔

سوال نمبر 2:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت جی! میں جب مراقبہ سے پہلے ساڑھے چار ہزار مرتبہ ذکر کرتی ہوں اور پھر دس منٹ مراقبہ کرتی ہوں، تو ذکر کرتے وقت خیالات پر قابو نہیں ہوتا اور مسلسل مختلف خیالات آتے ہیں، جبکہ مراقبہ کے وقت دھیان دل پر ہوتا ہے اور کبھی کبھی میں اپنے جسم کو بھی محسوس نہیں کرتی، بس دل کی دھڑکن محسوس کرتی ہوں اور باقی کچھ بھی محسوس نہیں کرتی، گویا کہ بالکل فنا ہوجاتی ہوں۔ اپنی برائیاں زیادہ نظر آنے لگتی ہیں اور بہت پریشان رہتی ہوں کہ میں کتنی بری ہوں اور عجیب و غریب خیالات آتے ہیں، جس کی وجہ سے بہت پریشان ہوتی ہوں، پھر معمولات بھی مشکل سے کر پاتی ہوں، یہاں تک کہ پھر رات دیر تک اپنے معمولات جیسے تیسے پورے کرلیتی ہوں اور ذکر بھی کم ہوجاتا ہے، درود شریف کی تعداد میں بھی کمی ہوجاتی ہے، کچھ دن ایسے رہتی ہوں، پھر ٹھیک ہوجاتی ہوں، تب پھر ذکر بڑھا دیتی ہوں، پھر ذہنی انتشار کا شکار ہوجاتی ہوں اور پھر depression ہوجاتا ہے، جس کی وجہ سے روزانہ کے کاموں کا حرج ہوتا ہے، بہت مشکل سے اپنا کام پورا کر پاتی ہوں، کبھی کبھی رات کو پریشانی کی وجہ سے نیند بھی نہیں آتی۔

جواب:

سبحان اللہ! اصل میں یہ جو آپ کو مراقبہ نصیب ہوا ہے، یہ بھی ذکر کی برکت سے ہوا ہے، اس وجہ سے ذکر میں آپ قصداً توجہ دوسری طرف نہ کریں، اگر خود بخود کوئی خیالات آنے لگیں، تو ان کے ساتھ الجھیں بھی نہیں، بس اس کو ignore کریں یعنی اس کو ایسے سمجھیں جیسے پنکھے کا شور ہوتا ہے، اب پنکھے کے شور کی طرف کوئی توجہ کرتا ہے؟ حالانکہ شور تو ہوتا ہے، اس سے انکار نہیں ہے، لہٰذا جس طرح پنکھے کے شور کی طرف کوئی توجہ نہیں کرتا، اسی طرح آپ اپنے خیالات کی طرف بھی توجہ نہ کریں، بس اپنے ذکر کی طرف توجہ رکھیں۔ اور جو مراقبہ ہے، اس میں آپ ماشاء اللہ! مراقبہ ذرا بڑھا لیں اور اس کو دس منٹ کی جگہ پندرہ منٹ کرلیں۔ اور یاد رکھیں کہ حالات اوپر نیچے ہوتے رہتے ہیں اور اسی میں انسان کا امتحان ہوتا ہے، لہٰذا آپ اس کے بارے میں پریشان نہ ہوں، اگر آپ کو ماشاء اللہ! اللہ دوبارہ توفیق عطا فرمائے تو اس پہ اللہ کا شکر ادا کریں اور اگر کسی وقت مشکل ہوجائے تو اس وقت ہمت کرلیا کریں۔

سوال نمبر 3:

السلام علیکم۔ میں خیالوں کے مزے میں مبتلا ہوتا ہوں، خیال ہی خیال میں حالات کے بدلنے کا سوچتا ہوں، اور مزے لیتا ہوں اور گھنٹوں اس طرح ضائع کردیتا ہوں۔ کیا کروں؟

جواب:

جو چیزیں اختیاری ہوں، اس میں اختیار کو استعمال کرنا مطلوب ہے اور جو چیزیں غیر اختیاری ہوں، تو اس کی پروا نہیں کرنی چاہئے۔ لہٰذا آپ جو فرما رہے ہیں کہ یہ اختیاری ہے یعنی آپ خود ہی اس میں مبتلا ہوتے ہیں، تو اپنے آپ کو اس سے نکال لیا کریں اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ جس وقت آپ کو خیالات آنے لگیں اور خیالات کا ہجوم ہونے لگے، تو اپنے آپ کو کسی مفید کام میں مشغول کرلیا کریں، کیونکہ یہ اختیاری ہے اور اختیاری کو اختیار سے ہی بدلا جاسکتا ہے، بس جیسے ہی آپ کو یاد آرہا ہے کہ بھئی! اس سے وقت ضائع ہوتا ہے، تو آپ اپنے وقت کو اختیاری طور پر ضائع نہ کریں اور اللہ پاک کا ذکر کریں۔ اور سب سے پہلے اختیاری طور پر جو سب سے زیادہ آسان کام انسان کرسکتا ہے، وہ ذکر اللہ ہے، اس میں نہ پیٹرول لگتا ہے، نہ پیسے لگتے ہیں، نہ کوئی اور مشکل ہے، لہٰذا آپ جیسے سمجھنے لگتے ہیں کہ یہ تو خیالات شروع ہوگئے، تو آپ زبانی ذکر کرنا شروع کردیں۔

سوال نمبر 4:

السلام علیکم۔ کیا حال ہے حضرت! تیسرا کلمہ، درود شریف اور استغفار سو سو دفعہ اور ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ دو سو مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ چار سو مرتبہ ’’حَقْ‘‘ چھ سو مرتبہ اور ’’اَللّٰہ‘‘ نو ہزار مرتبہ ہے اور مہینے سے زیادہ ہوگیا ہے۔

جواب:

ماشاء اللہ! اللہ تعالیٰ مزید برکت عطا فرمائے۔ اب ’’اَللّٰہ‘‘ ساڑھے نو ہزار کرلیں اور باقی یہی رکھیں۔ ان شاء اللہ العزیز! اللہ تعالیٰ مزید توفیقات سے نوازے۔

سوال نمبر 5:

شیخ! السلام علیکم۔

As per your instructions I was able to do the following حسنات virtuous deeds in the last one month.

No. 1: Read two pages of تفسیر daily

No. 2: Fast on monday and thursday

No. 3: Share one to two حدیث شریفہ with others and teach some brothers and sisters to recite the Quran. I also started teaching Arabic alphabets.

After doing the above, I have almost the same feelings as last month. That is, I feel peaceful and confident and have more patience, especially more concentration during prayers. I am feeling as if I have recently started to know how to pray. Besides, I feel like a person who knows nothing.

جواب:

سبحان اللہ it is very good. You should continue this ان شاء اللہ العزیز and especially ask help from Allah سبحانہ وتعالیٰ in these things and also pray for Palestinians. May Allah سبحانہ وتعالیٰ grant them فتح and may Allah سبحانہ وتعالیٰ crush Israelis who are doing ظلم on them.

سوال نمبر 6:

السلام علیکم۔ کچھ دن پہلے میرے ساتھ بینک کے کچھ پیسوں کا fraud ہوا تھا، جس کی وجہ سے پریشان تھا اور message میں بھی تاخیر ہوگئی ہے، اس کے لئے معذرت خواہ ہوں، آپ دعا کیجئے کہ اللہ پاک خیریت سے recovery کرا دے۔ باقی آپ نے جو عیوب کی list بنانے کے لئے کہا تھا، تو جو مجھے سمجھ میں آئے ہیں، وہ ایسے ہیں:

نمبر 1: غصہ بلاوجہ آتا ہے۔

نمبر 2: موبائل کا بے جا استعمال۔

نمبر 3: لوگوں سے بلاوجہ ان کی ظاہری حالت دیکھ کر متأثر ہونا۔

نمبر 4: خود اعتمادی کی کمی جس کی وجہ سے کبھی کوئی اچھا کام کرنے سے بھی ڈر لگتا ہے۔

نمبر 5: فجر کی نماز اکثر لیٹ ہوجاتی ہے۔

نمبر 6: داڑھی بھی نہیں رکھی ہوئی۔

باقی آپ guide کردیں۔

جواب:

سبحان اللہ! اللہ جل شانہٗ آپ کے جو پیسوں کا مسئلہ ہے، اس کو جلد سے جلد recover کرا دے، امید ہے ان شاء اللہ! recover ہوجائیں گے، بس ٹائم بعض دفعہ لگ جاتا ہے، لیکن ہوجاتے ہیں۔ اور جو عیوب کی list آپ نے بتائی ہے، تو اس میں سے پہلی بات ہے کہ غصہ بلاوجہ آتا ہے۔ دیکھیں! آتا ہے، اس کا کوئی مسئلہ نہیں ہے، بلکہ کرنے کا مسئلہ ہے، مگر آجائے تو سوچیں کہ یہ کرنا چاہئے یا نہیں، اور کرنا چاہئے تو کتنا کرنا چاہئے یعنی یہاں پر اپنے ذہن اور سوچ کو استعمال کرنا چاہئے، باقی خود بخود آجائے تو اس سے کوئی مسئلہ نہیں ہے، ایسی چیزیں ہوتی رہتی ہیں۔ اور جہاں تک موبائل کا بے جا استعمال ہے، تو یہ چونکہ اختیاری چیز ہے، لہٰذا اختیار سے اس کو ختم کیا جاسکتا ہے، اس لئے آپ اپنے اختیار کے ساتھ اس پر control کرنا شروع کرلیں۔ اور لوگوں سے بلاوجہ متأثر ہونے کے بارے میں بعد میں کہوں گا، پہلے ان دونوں چیزوں کو آپ بہتر کرلیں۔ ان شاء اللہ! باقی پھر بعد میں بتاؤں گا، فی الحال ان دونوں پر control کریں۔

سوال نمبر 7:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت!

Hope you are well. I have put a few questions below and I am eager for your response. جزاک اللہ خیرا and thanks in advance for your time and efforts.

شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ وحدت الوجود اور وحدت الشہود میں کوئی فرق نہیں ہے، لیکن مکتوبات میں مجدد صاحب واضح طور پر فرماتے ہیں، تو شاہ صاحب یہ دعویٰ کیسے کرسکتے ہیں؟

جواب:

اصل میں چیزوں کو جس angle سے دیکھنا ہوتا ہے، تو اس کے لحاظ جواب الگ ہوسکتا ہے۔ خود حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جو معرفت ہوتی ہے، یہ ایک نقطۂ نظر کی طرح ہوتی ہے یعنی جس چیز کی طرف آپ کی نظر گئی ہے، تو وہ چیز آپ کو اسی طرح نظر آئے گی اور پھر اس میں اس وجہ سے فرق ہوسکتا ہے۔ لہٰذا اس میں حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک فرق کا نقطۂ نظر جو تھا، وہ یہ تھا کہ لوگوں نے وحدت الوجود کو فلسفہ بنایا ہوا تھا، جبکہ یہ ایک حال ہے، اس لئے اس کو فلسفہ کے طور پر نہیں لینا چاہئے، اس وجہ سے حضرت نے شد و مد کے ساتھ اس کی مخالفت کی، کیونکہ اس وقت اس قسم کی چیزیں ہورہی تھیں، ورنہ ہمارے پرانے بزرگوں میں اس نام کے ساتھ یہ چیز نہیں تھی، لیکن یہ چیز موجود تھی یعنی حضرت مجدد صاحب نے نئی چیز دریافت نہیں کی ہے، بس اس کو نیا نام دیا ہے، بس آپ یوں کہہ سکتے ہیں۔ کیونکہ سمجھانے کے لئے بعض دفعہ نیا نام دینا ضروری ہوتا ہے، جیسے ہم نے بھی نیا نام دیا ہے، اللہ پاک معاف فرمائے کہ سیر فی اللہ کو ہم نے نام دیا ہے طریقِ صحابہ، کیونکہ یہ طریقِ صحابہ آسانی سے سمجھ آجاتا ہے، اور اس میں کسی کو اعتراض نہیں ہوسکتا۔ نام دینے کی وجہ یہ ہے کہ چونکہ سیر الی اللہ سے مراد سلوک ہے اور سلوک طے کرنے سے مراد اپنے نفس کی خواہشات کو دبانا ہے، اور جب یہ کام ہوجائے، (چونکہ یہی شرارت کرتا ہے) لہٰذا جب یہ دب جائے تو پھر آپ آزاد ہیں، جب آپ آزاد ہیں، تو پھر کرنا کیا ہے، پھر صحابہ کے طریقہ پہ چلنا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

﴿فَاِنْ اٰمَنُوْا بِمِثْلِ مَاۤ اٰمَنْتُمْ بِهٖ فَقَدِ اهْتَدَوْاۚ وَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا هُمْ فِیْ شِقَاقٍۚ فَسَیَكْفِیْكَهُمُ اللّٰهُۚ وَهُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ﴾ (البقرۃ: 137)

ترجمہ: ’’اس کے بعد اگر یہ لوگ بھی اسی طرح ایمان لے آئیں جیسے تم ایمان لائے ہو تو یہ راہ راست پر آجائیں گے۔ اور اگر یہ منہ موڑ لیں تو درحقیقت وہ دشمنی میں پڑگئے ہیں۔ اب اللہ تمہاری حمایت میں عنقریب ان سے نمٹ لے گا، اور وہ ہر بات سننے والا، ہر بات جاننے والا ہے‘‘۔

اور آپ ﷺ نے فرمایا:

’’مَا اَنَا عَلَیْہِ وَاَصْحَابِیْ‘‘ (ترمذی، حدیث نمبر: 2641)

ترجمہ: ’’جس پر میں چلا اور جس پر میرے صحابہ چلے ہیں‘‘۔

لہٰذا صحابہ کا طریق ہمارے لئے مطلوب ہے اور اس میں جو رکاوٹ ہے، وہ نفس ہے، اس لئے نفس کے اوپر پیر رکھ کر صحابہ کے طریقے پر چلنا ہے، بس اسی لئے یہاں ہم نے اس کو طریقِ صحابہ بتایا ہے۔ اب ممکن ہے کہ کچھ لوگ ہمارے خلاف بھی بات کریں گے کہ یہ کیا کہہ رہا ہے؟ لیکن کرنے دیں، ہمارا نقطۂ نظر یہی ہے۔ اس لئے ہمارے اس نقطۂ نظر سے اگر کوئی اختلاف کرتا ہے، تو ہم اس کے ساتھ الجھیں گے نہیں۔ چنانچہ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس وجہ سے یہ چیز اس طرح discuss کی ہے، کیونکہ لوگ گمراہ ہورہے تھے۔ باقی ہمارے پرانے بزرگوں میں یہ چیز موجود تھی، اور اس کا نام تھا وحدت الوجود بالسکر اور وحدت الوجود بدون السکر، چونکہ سکر میں مدہوشی کی حالت ہوتی ہے، تو مدہوشی کی حالت میں وحدت الوجود بالسکر اور ہوش کی حالت میں وحدت الوجود بدون السکر۔ اب ہوش کی حالت میں وحدت الوجود یہ ہوتا ہے کہ انسان کو احساس ہوتا ہے کہ اصل کام اللہ پاک ہی کرتا ہے، باقی چیزیں اس کے ذہن سے فنا ہوجاتی ہیں، اس کو بس ایک کام کرتا ہوا نظر آتا ہے، اور اس کو تجلیات افعالیہ بھی کہتے ہیں، لہٰذا اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ کیونکہ ہوش میں انسان جب رہے گا تو وحدت الوجود ہی ہوگا یعنی ایک کام کرتا ہوا نظر آئے گا، لہٰذا یہ وحدت الشہود ہوگیا یعنی جیسے ایک آپ کو نظر آرہا ہے تو اس کا نام حضرت نے وحدت الشہود رکھ دیا، لیکن یہ چونکہ وہی وحدت الوجود ہی ہے جو کہ سکر کے بغیر ہے، اسی لئے شاہ ولی اللہ صاحب نے یہ بات کی ہے، لہٰذا دونوں کی باتیں ٹھیک ہیں۔

سوال نمبر 8:

میری سمجھ میں یہ تھا کہ وحدت الوجود کی ایک تفسیر ہے جو کفر ہے اور ایک تفسیر ہے جو صحیح ہے۔

جواب:

یہ کفر والی بات فلسفے کی ہے کہ اگر آپ نے ’’نَعُوْذُ بِاللہِ مِنْ ذَالِکَ‘‘ یہ کہا کہ واقعی اللہ کے علاوہ کوئی نہیں ہے، تو یہ قرآن کس پر اترا ہے، عمل کا حکم کس کو ہے؟ اگرچہ مخلوق کو اللہ پاک سے جدا آپ مانیں گے۔ دیکھو! مخلوق کیا کہتی ہے، قرآن میں اللہ فرماتے ہیں:

﴿رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هٰذَا بَاطِلًاۚ﴾ (آل عمران: 191)

ترجمہ: ’’اے ہمارے پروردگار! آپ نے یہ سب کچھ بے مقصد پیدا نہیں کیا‘‘۔

لہٰذا قرآن میں یہ صاف فرمایا گیا ہے، اس لئے اس کا انکار ہم نہیں کرسکتے، بلکہ جو انکار کرے گا وہ کفر کی طرف جائے گا، وہ قرآن کا انکار کرے گا، لیکن اگر فلسفہ نہیں ہے، بلکہ حال ہے تو حال پر کوئی گرفت نہیں ہے، کیونکہ اس میں انسان معذور ہوتا ہے، اس لئے حال کی حالت میں ٹھیک ہے، لیکن فلسفہ کی حالت میں ٹھیک نہیں ہے، اس میں گمراہی ہے، زندیقی ہے۔ اور حضرت مجدد صاحب بھی فرماتے ہیں کہ یہ زندیقی ہے اگر کوئی اس کو فلسفہ کے طور پر سمجھے گا یعنی یہ وجود کو بالکل ختم سمجھے گا، جیسے ہم کہتے ہیں فنا فی اللہ، اب فنا فی اللہ میں ہمارا وجود ختم نہیں ہوتا، بلکہ وجود موجود ہوتا ہے، البتہ اس کا احساس ختم ہوجاتا ہے۔ جیسے ابھی ایک خاتون نے بتایا تھا کہ مجھے محسوس ہوا جیسے میرا وجود بھی نہیں ہے۔ اور یہ تو آج کل کی بات ہے، دور کی بات نہیں ہے، ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی بات گزری ہے، اس لئے ایسا ہوسکتا ہے۔

سوال نمبر 9:

مجدد صاحب پہلے اس بارے میں صحیح سمجھ پر تھے، پھر توحید شہودی میں صحیح نہیں تھے۔

جواب:

بات وہی ہے جو میں نے ابھی عرض کی کہ توحید وجودی اسے کہتے ہیں کہ مخلوق موجود ہی نہیں، صرف حق ہے اور توحیدِ شہودی اسے کہتے ہیں کہ مخلوق موجود ہے، لیکن میری توجہ حق کی طرف ہے، لہٰذا یہ مختلف ہیں ہی نہیں، بس بات یہ ہے کہ نقطۂ نظر مختلف ہے، چیز مختلف نہیں ہے، میرا Angle of vision جس کو ہم کہتے ہیں، وہ مختلف ہے، اور یہ مختلف ہوسکتے ہیں۔ اور مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ خود فرماتے ہیں کہ مختلف ہوسکتا ہے، آپ کسی بھی چیز کو دیکھیں، مثلاً ہاتھی کو کچھ لوگوں نے دیکھا، مگر تھے سب اندھے، اب کسی کا پیٹ پہ ہاتھ رکھا گیا تو اس نے کہا کہ ہاتھی ایسے flat چیز ہوتی ہے، کسی کا پیر پہ ہاتھ پڑ گیا تو اس نے کہا کہ ہاتھی ستون کی طرح ہوتا ہے، کسی کا دانتوں پہ ہاتھ پڑ گیا تو اس نے کہا چھری کی طرح ہوتا ہے یعنی ان کو جو محسوس ہوا، وہ انہوں نے بتا دیا، اب جھوٹا کوئی بھی نہیں تھا، لیکن احساس ان کو اس طرح ہورہا تھا، لہٰذا اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

سوال نمبر 10:

میں نے ڈاکٹر اسرار صاحب کو وحدت الوجود کی وضاحت کرتے ہوئے سنا، وہ کچھ اور کہہ رہے تھے۔

جواب:

ڈاکٹر اسرار صاحب ایک مقرر تھے، خطیب تھے اور ایک scholar تھے یعنی میں scholar ان کو کہہ سکتا ہوں، لیکن وہ صوفی نہیں تھے اور وہ اپنے آپ کو صوفی خود بھی نہیں کہتے تھے، البتہ تصوف کے قائل رہے ہیں، تصوف کے منکر نہیں ہیں، کیونکہ میں نے حضرت کی زیارت خود کی ہے، وہ تشریف لائے تھے مولانا عزیر گل صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں، لیکن وہ صوفی اپنے آپ کو کہتے بھی نہیں ہیں اور اس تصوف سے گزرے ہی نہیں ہیں، لہٰذا جب وہ گزرے نہیں ہیں تو ان کے خیالات اس کے بارے میں کیسے ہوں گے؟ یہ باتیں تو صوفیوں کی ہیں، مثلاً جو ڈاکٹری کی بات ہے وہ ڈاکٹر ہی جانے گا، اس میں انجینئر بات کرسکے گا؟ کیا انجینئر کو میں بیوقوف کہوں گا کہ جو ڈاکٹری نہیں جانتا ہوگا؟ نہیں، وہ ڈاکٹر ہے ہی نہیں، جب وہ ڈاکٹر ہے ہی نہیں، تو بیوقوف بھی اس کو نہیں کہوں گا اگر وہ ڈاکٹری نہیں جانتا، البتہ میں اس کو ڈاکٹر نہیں کہوں گا۔ اسی طرح ڈاکٹر اسرار صاحب خود تصوف سے گزرے نہیں ہیں، لہٰذا میرے خیال میں ان کی ان باتوں پر آپ کچھ بات نہ کریں، خواہ مخواہ ان بیچاروں کو کیوں درمیان میں لاتے ہیں؟ اس کے لئے بزرگ موجود ہیں، اس لئے اگر آپ نے بات سننی ہے تو اس میں آپ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی سنیں، حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کی سنیں، حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی سنیں یعنی جو تصوف سے گزرے ہیں، ان چیزوں سے گزرے ہیں، وہ جو بات کریں گے، وہ ماشاء اللہ! مستند بات ہوگی، باقی جو باتیں ہوں گی، وہ ان کے اپنے خیالات ہوں گے، اور یہ معرفت کی بات نہیں ہوگی، بس ان کے خیالات کی بات ہوگی یا کسی اور کی معرفت کو understand یا misunderstand کررہے ہوں گے۔ لہٰذا ہم اس کے بارے میں ان پر کوئی گرفت بھی نہیں کرتے اور ان کی بات کو ہم اس مسئلہ میں کوئی authentic بھی نہیں مانتے۔

سوال نمبر 11:

نقشبندیہ مجددیہ کا ذکر خاموش ذکر ہے اور بلند آواز میں ذکر ’’مکتوبات‘‘ کے مطابق بدعت ہے۔ کیا نقشبندیہ ذکر کرنا ٹھیک ہے؟

جواب:

دیکھو! جو ذکر علاجی ہے، اس پر کوئی پابندی نہیں ہے، بلکہ جو علاجی ذکر ہے، کوئی زور سے کرے گا، کوئی خاموشی سے کرے گا، کوئی لطائف کا کرے گا، کوئی خیال سے کرے گا یعنی مختلف طریقے ہیں ذکر کے، اور اس سے مقصود صرف دل کی صفائی ہے، اس لئے اس سے خاص طریقہ مقصود نہیں ہوتا، بلکہ یہاں تک حضرت تھانوی صاحب سے کسی نے کہا کہ فلاں شخص ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ کا جو ذکر کررہے ہیں، وہ اس میں تجوید کے قواعد کا خیال نہیں رکھ رہے، تو حضرت نے فرمایا کہ اس میں تجوید مطلوب نہیں ہے، اس میں کیفیت مطلوب ہے، اس لئے اس میں کیفیت کا خیال رکھنا چاہئے۔ لہٰذا اس میں جو ذکر ہے، تو چاہے زبان سے ہو، چاہے دل سے ہو، چاہے لطائف سے ہو، چاہے خیالات سے ہو، چاہے سانس سے ہو، یہ ساری صورتیں ذکر کی ہیں اور اس کو بدعت نہیں کہا جاسکتا، کیونکہ بدعت اس چیز کو کہتے ہیں کہ جب اسے دین سمجھا جائے لیکن وہ دین نہ ہو، اس وقت وہ بدعت کہلاتی ہے، لیکن اب اس کو دین نہیں سمجھا جاتا، بلکہ اس کو دین پر آنے کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے اور ذریعہ تبدیل ہوسکتا ہے، بلکہ ذریعہ غیر منصوص بھی ہوسکتا ہے، لہٰذا اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

سوال نمبر 12:

السلام علیکم۔ حضرت! امید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گے، سر! میری ایک request ہے آپ سے کہ میری sister کا ہم نے رشتہ کیا تھا، تقریباً آٹھ Month ago ہوگئے ہیں، اس وقت اس نے ہنسی خوشی قبول کرلیا تھا، لیکن اب وہ بالکل انکار کرگئی ہے کہ میں نے نہیں کرنا۔ آپ سے ہم نے حساب کروانا ہے۔

جواب:

دیکھو! نہ میں عامل ہوں، نہ میں عملیات جانتا ہوں، لہٰذا میں اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا اور عملیات کے بارے میں مجھ سے نہیں پوچھنا چاہئے اور نہ ہی میری کسی بات پہ عمل کرنا چاہئے، کیونکہ میں عامل نہیں ہوں، جیسے میں ڈاکٹر نہیں ہوں، بس اسی طرح عامل بھی نہیں ہوں۔ جیسے مجھ سے بعض خواتین ٹیلی فون پہ بات کرتی ہیں کہ میرا فلاں نام ہے اور میری ماں کا نام فلاں ہے، تو میں کہتا ہوں کہ نہ تمھارے نام کی ضرورت ہے، نہ تمھاری ماں کے نام کی ضرورت ہے، کیونکہ میں ان چیزوں کو جانتا ہی نہیں۔ لہٰذا اس مسئلہ میں اگر آپ کسی مستند اور صحیح عامل کے پاس جائیں تو زیادہ بہتر ہے، میرے پاس آئیں گے تو میں عملیات کی بات نہیں بتاؤں گا، میں تو وہ بتاؤں گا جو صحابہ بتاتے رہے ہیں، کیونکہ میں صحابی نہیں، لیکن صحابی کے پیچھے چل تو سکتا ہوں، جیسے میں عامل ہوں تو نہیں، لیکن عامل کے پیچھے میں چلتا ہوں، جبکہ صحابہ کے پیچھے چلنے کا تو حکم ہے، مگر عامل کے پیچھے چلنے کا حکم کہیں نہیں ہے۔ لہٰذا میں صحابہ کے پیچھے چلتا ہوں، اس لئے میرے پاس کوئی آئے گا تو میں صحابہ کا طریقہ بتاؤں گا اور وہ کیا ہے؟ تہجد کے وقت اللہ سے مانگو، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

﴿اُدْعُوْنِیْۤ اَسْتَجِبْ لَكُمْؕ﴾ (المومن: 60)

ترجمہ: ’’مجھے پکارو، میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا‘‘۔

لہٰذا قرآن پاک میں دعا مانگنے کا صاف حکم ہے اور تہجد کے وقت تو اللہ پاک کی طرف سے باقاعدہ اعلان ہوتا ہے کہ ہے کوئی پریشانی میں مبتلا؟ اور آپ پریشانی میں مبتلا ہیں، لہٰذا اس وقت آپ لبیک کہیں اور اللہ پاک سے مانگیں۔ اصل میں مسئلہ یہ ہے کہ لوگوں کے خیال میں یہ ہوتا ہے کہ عملیات تو certain ہوتے ہیں، بس وہ یقیناً ہوجائیں گے، لیکن دعا کا پتا نہیں قبول ہوگی یا قبول نہیں ہوگی، مگر عملیات certain نہیں ہوتے، بلکہ اللہ چاہے گا تو ہوگا، اللہ نہیں چاہے گا تو نہیں ہوگا، اور دعا میں بھی یہی بات ہے، بلکہ دعا میں کوئی خطرہ بھی نہیں ہے، نہ آپ کے کوئی پیسے لگیں گے، لہٰذا دعا کریں، میں بھی دعا کرتا ہوں کہ اللہ جل شانہٗ آپ کو اور آپ کے حالات کو آپ کے لئے بہتر بنا دے اور جو آپ کے حق میں بہتر ہو وہی اللہ تعالیٰ کردے۔

سوال نمبر 13:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت جی! معمولات اَلْحَمْدُ للہ! معمول کے مطابق ہورہے ہیں۔ حضرت جی! میرا ذکر ایک مہینے کے لئے دو سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘، چار سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘، چھ سو مرتبہ ’’حَقْ‘‘ اور سولہ ہزار مرتبہ ’’اَللّٰہ‘‘ ہے۔ اور اللہ کے فضل سے اور آپ کی دعاؤں کی برکت سے مکمل ہوگیا ہے۔ حضرت جی! کیفیت میں کچھ خاص تبدیلی محسوس نہیں ہورہی اور دوران ذکر جہری خیالات کا غلبہ رہتا ہے، کوشش ہوتی ہے اور تعوّذ بھی پڑھتا ہوں، لیکن پھر بھی خیالات غالب آجاتے ہیں، اور نمازیوں کے جوتے سیدھے کرنے کا مجاہدہ بھی جاری ہے۔

جواب:

آپ کو جو خیالات آئیں، ان کو دفع کرنے کی بھی بالکل کوشش نہ کریں، حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ وساوس جو آرہے ہوں، وہ بھی بجلی کے تار کی طرح ہیں، اگر ان کو دور کرنے کی نیت سے بھی ہٹانے کی کوشش کرو گے تو پکڑیں گے، لہٰذا وساوس کی طرف توجہ نہ کریں، اور جو خود سے آئیں تو آپ پروا نہ کریں، بس اپنے ذکر کی طرف متوجہ رہیں اور اب ’’اَللّٰہ‘‘ ساڑھے سولہ ہزار مرتبہ کریں، باقی سب کچھ وہی ہے۔

سوال نمبر 14:

السلام علیکم۔ سو دفعہ تیسرا کلمہ، سو دفعہ درود شریف، سو دفعہ استغفار تھا اور اب میں نے آپ کو کال کی تھی confirm کرنے لئے، کہ کہیں تسبیح بھول نہ جاؤں، آپ مجھے WhatsApp پر بتا دیں please، مجھے فون پر ٹھیک سنائی نہیں دیا۔

جواب:

ٹھیک ہے آپ اس طرح کرلیں کہ سو دفعہ تیسرا کلمہ، سو دفعہ درود شریف، سو دفعہ استغفار عمر بھر کے لئے اور نماز کے بعد والا جو ذکر بتایا تھا، وہ بھی عمر بھر کے لئے ہوگا اور اس کے علاوہ دس منٹ کے لئے آنکھیں بند، زبان بند کرکے قبلہ رخ بیٹھ کر آپ نے یہ تصور کرنا ہے کہ میرا دل ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کررہا ہے یعنی خالص آپ نے تصور کرنا ہے، باقی آپ نے اس کو کروانا نہیں ہے، کیونکہ دل کو کوئی کچھ کروا نہیں سکتا، لیکن جب دل بولنا شروع کردے یعنی ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کرنا شروع کردے، تو کم از کم آپ کو پتا چل جائے، پھر آپ اس کی طرف متوجہ رہیں، یہی آپ کا کام ہے اور روزانہ دس منٹ کوئی وقت مقرر کرکے آپ اس کو ایک مہینہ کے لئے کریں، پھر ان شاء اللہ! مجھے بتائیں گے اور جب تک رابطہ نہ ہو تو جاری رکھیں۔

سوال نمبر 15:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت جی! میں نے ’’مکتوبات شریفہ‘‘ کے درس میں سنا کہ مرید کو اپنے عیوب بتانے چاہئیں، لیکن معمولات، مراقبات بتاتے ہیں، مگر کیفیات نہیں بتاتے۔ حضرت! مجھے اپنے عیوب نظر نہیں آرہے، میں بہت پیچھے ہوں، میری حالت بہت خراب ہے، میں نے اتنے سال عجب اور بدگمانیوں میں گزارے ہیں اور مجھے پتا ہی نہیں چلا، جب پتا چلا تو بہت سارے سال گزر گئے تھے، اور میرا وقت ضائع ہوگیا، جو اب واپس نہیں آسکتا، لیکن میں آگے بڑھنا چاہتی ہوں، مجھے سلوک طے کرنا ہے اور اپنی اصلاح کی نیت سے شروع کرنا چاہتی ہوں، اس کے لئے مجھے شروعات کیسے کرنی ہوگی؟ پہلے مقام سے کیسے شروع کرنا ہوگا؟ کیونکہ مجھے اپنے عیوب نظر نہیں آرہے۔

جواب:

آپ نے کہا کہ اپنے عیوب نظر نہیں آرہے۔ یہ بات مجھے سمجھ نہیں آرہی یعنی دونوں فعل ہیں، میں بھی فعل ہوں، آپ بھی فعل ہیں، لہٰذا مجھے یہ بات سمجھ نہیں آرہی کہ آپ کو عیوب نظر کیوں نہیں آرہے۔ دیکھیں! ایک بات یقینی اور confirm ہے کہ مرنا ہے، اس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا اور مسلمان ہونے کے لحاظ سے ہم جانتے ہیں کہ وہاں حساب ہوگا اور صاف طور پر قرآن میں فرمایا گیا ہے:

﴿فَاَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ ۝ فَهُوَ فِیْ عِیْشَةٍ رَّاضِیَةٍ ۝ وَاَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗ ۝ فَاُمُّهٗ هَاوِیَةٌ﴾ (القارعۃ: 6-9)

ترجمہ: ’’اب جس شخص کے پلڑے وزنی ہوں گے۔ تو وہ من پسند زندگی میں ہوگا۔ اور وہ جس کے پلڑے ہلکے ہوں گے۔ تو اس کا ٹھکانا ایک گہرا گڑھا ہوگا۔‘‘

لہٰذا اب آپ دیکھ لیں کہ نیکیوں کے پلڑے میں آپ کے کون سے کام آسکتے ہیں اور برائی کے پلڑے میں آپ کے کون سے کام آسکتے ہیں؟ ابھی سے اس کا اندازہ لگانا شروع کرلیں اور جو برائی کے پلڑے میں جانے کے امکان والے کام ہیں، ان کو شریعت کے مطابق ٹھیک کرنے کی کوشش کرلیں، مثلاً کسی سے غیبت ہورہی ہے تو اس کو پتا ہونا چاہئے کہ غیبت ممنوع ہے، شریعت میں حرام ہے، لہٰذا نہیں کرنی چاہئے یا نماز وقت پہ نہیں پڑھی جارہی یا مکروہ ہوگی یا قضا ہوجائے گی تو اس کو ٹھیک کرنا چاہئے، اسی طرح اور بہت ساری چیزیں ہیں، میں نے صرف مثالیں دی ہیں۔ اور جو اچھے کام ہوسکتے ہیں تو ان کو بڑھانے چاہئیں، مثال کے طور پر سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ایک انسان کسی وقت بھی (جتنا وقت اس کے پاس، اس میں) اللہ کا ذکر کرسکتا ہے، مگر وہ نہیں کررہا، تو محروم ہورہا ہے، اس لئے اپنی محرومی کو کم کرنے کے لئے ذکر کو کرنا چاہئے۔ یہ میں نے مثال دی ہے صرف، ورنہ بہت ساری باتیں ہیں۔ لہٰذا آپ تصور کرلیں کہ میزان لگا ہوا ہے، میرے اعمال اللہ پاک کے سامنے پیش ہورہے ہیں، اب میرا کون سا عمل ہے جو اللہ کے سامنے پیش ہونے کے قابل ہے اور کون سا نہیں ہے، بس اس کے بارے میں سوچ کے آپ مجھے بھی لکھ کے بھیجیں اور خود بھی اس کے مطابق عمل کرنا شروع کرلیں، ان شاء اللہ! آپ کو اپنے عیوب نظر آنا شروع ہوجائیں گے، پھر اس کے مطابق جیسے جیسے آپ کو اپنے عیوب نظر آئیں تو فوراً پہلے اس کے اوپر توبہ کرلیا کریں اور پھر مجھے اس کی اطلاع کردیا کریں، تاکہ اس کے بارے میں کچھ آپ کو عرض کرسکوں۔

سوال نمبر 16:

حضرت جی! السلام علیکم۔ حضرت جی! میرا نام فلاں ہے، میرا ذکر دو سو، چار سو، چھ سو اور سو ہے، اسے ایک ماہ مکمل ہوگیا ہے، مزید رہنمائی فرمائیں۔

جواب:

اب دو سو، چار سو، چھ سو اور تین سو کا ایک مہینہ کرلیں۔ ایک ماہ بعد پھر مجھے بتائیں۔

سوال نمبر 17:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔

نمبر 1: کم کھانے کا مجاہدہ ہے، اس ہفتے مجاہدہ میں کامیابی کچھ نصیب ہوئی اَلْحَمْدُ للہ! جب سے مجاہدہ شروع کیا ہے، اب تک تقریباً ساڑھے چار کلو وزن کم ہوا ہے، اَلْحَمْدُ للہ!

جواب:

اللہ تعالیٰ مزید توفیق عطا فرمائے۔ (آمین ثم آمین)

نمبر 2: لطیفۂ قلب دس منٹ ہے اور دونوں کو محسوس ہوتا ہے۔

جواب:

سبحان اللہ، ماشاء اللہ! بالکل ٹھیک ہے، اب آپ اس طرح کرلیں کہ اس کو دوسرا لطیفہ بھی بتا دیں پندرہ منٹ کے لئے یعنی پندرہ منٹ کے لئے لطیفۂ روح اور دس منٹ کے لئے لطیفۂ قلب۔

نمبر 3: لطیفۂ قلب دس منٹ اور لطیفۂ روح پندرہ منٹ ہے، قلب پر محسوس ہوتا ہے اور روح پر محسوس نہیں ہوتا۔

جواب:

روح پر بیس منٹ کرلیں اور قلب پر دس منٹ ہی رہے۔

نمبر 4: تمام لطائف پر پانچ پانچ منٹ ذکر اور مراقبہ حقیقتِ کعبہ، حقیقتِ صلوٰۃ، حقیقتِ قرآن پندرہ منٹ ہے۔ اس طالبہ نے ایک سال پہلے مدرسہ چھوڑ دیا تھا اور ذکر بھی، اب دوسرے مدرسے جاتی ہے، لیکن ذکر کو دوبارہ شروع کرنا چاہتی ہے۔

جواب:

جہاں سے روکا ہے، وہیں سے دوبارہ شروع کرکے پھر ایک مہینہ بعد اطلاع کردیں۔

سوال نمبر 18:

السلام علیکم۔ حضرت! اللہ پاک سے دعا ہے کہ آپ سلامت رہیں اور اللہ پاک ہم سب سے راضی ہو۔ میرا ذکر کی ترتیب مندرجہ ذیل ہے: بارہ تسبیحات، اس کے بعد پانچ سو زبان سے خفی طور پر ’’اَللّٰہْ‘‘، دس منٹ پانچوں لطائف پر ’’اَللّٰہْ اَللّٰہْ‘‘ محسوس کرنا اور پندرہ منٹ لطیفۂ قلب پر مراقبۂ معیت ہے۔

جواب: پندرہ منٹ لطیفۂ قلب پر نہیں ہے، بلکہ پورے جسم پر ہے مراقبۂ معیت۔

سوال نمبر 19:

حضرت جی! احوال بہت خراب ہوچکے ہیں، نفس و شیطان نے پوری طرح مجھے مغلوب کیا ہوا ہے۔

نمبر 1: ذکر شروع کرتا ہوں، لیکن مراقبۂ معیت تک نہیں پہنچ پاتا، بلکہ مراقبہ کرتے کرتے ہی آنکھ لگ جاتی ہے۔

نمبر 2: دفتری اوقات میں نماز جماعت سے ادا نہیں ہورہی، کبھی سستی اور کبھی مصروفیت کی وجہ سے جماعت میں شامل نہیں ہوتا۔

جواب: جائز مصروفیت ہو تو اس کے لئے تو گنجائش ہے، لیکن سستی کی گنجائش نہیں ہے۔

نمبر 3: دعاؤں میں بھی غفلت ہے، دھیان نہیں ہوتا۔

جواب: یہ اختیاری چیز ہے، آپ غفلت کو دور کرسکتے ہیں۔

نمبر 4: نمازوں میں بھی اور نماز کے علاوہ بھی ہر جگہ دھیان نہیں ہوتا نہ ہی قرآن پاک کی تلاوت میں دل لگتا ہے۔

جواب: دل لگے یا نہ لگے، لیکن کرتے رہیں۔

نمبر 5: معمولات کا چارٹ بھی تین ماہ سے نہیں بھیج سکا۔

جواب: بھیجنا شروع کرلیں۔

نمبر 6: بارہ سال کی قضا نمازوں میں سے تقریباً ایک سال کی ادا ہوئی ہیں۔

جواب: جاری رکھیں۔

نمبر 7: تہجد کی نماز ادا نہیں کر پاتا، صرف عشاء کی نماز کے ساتھ چار نفل پڑھ لیتا ہوں۔

جواب: یہ آج کل تو شروع کیا جاسکتا ہے، آج کل کوئی مشکل نہیں ہے، اگر کوئی دس بجے بھی سو جائے، تو پانچ بجے تک اس کی سات گھنٹے نیند پوری ہوجاتی ہے اور ڈاکٹر بھی یہی بتاتے ہیں۔ لہٰذا آپ تہجد پڑھ سکتے ہیں 05:35 کے لگ بھگ تک ٹائم ہے، اس لئے تہجد پڑھنا شروع کرلیں۔

نمبر 8: حضرت جی میری کوئی خواہش نہیں ہے سوائے اس کے کہ اللہ پاک راضی ہوجائے۔

جواب: یہ میری بھی خواہش ہے۔ اللہ ہم دونوں کو کامیاب کردے۔

نمبر 9: لیکن نفس قابو میں نہیں آرہا اور عمر گزرتی جارہی ہے۔

جواب: اسی کی تو محنت ہے۔

نمبر 10: آپ سے دعاؤں کی درخواست ہے۔

جواب: ضرور، اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے اس کام میں کامیاب فرما دے۔

سوال نمبر 20:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ آپ نے فرمایا تھا کہ بیعت کرنے کے لئے آپ مجھے آڈیو message بھیجیں گے، تو میں آڈیو record میں وہی الفاظ دہرا کے آپ حضرت کو بھیجوں گا۔ میں آپ کے message کے انتظار میں ہوں، اگرچہ حضرت آپ مصروف ہیں، صرف آپ کو یادہانی کے لئے message کررہا ہوں، جب حضرت کو وقت ملے، تو میں بیعت کرنا چاہتا ہوں۔

جواب:

میں ان شاء اللہ! ابھی الفاظ آپ کو بھیج رہا ہوں، آپ کسی وقت اس کے ساتھ اپنے الفاظ شامل کرکے آڈیو بنا کر مجھے بھیج دیں۔

’’اَشْھَدُ اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللہِ‘‘ میں شہادت دیتا ہوں نہیں کوئی عبادت کے لائق مگر اللہ اور میں شہادت دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ میں توبہ کرتا ہوں تمام گناہوں سے، چھوٹے ہیں یا بڑے، معلوم ہیں یا نہیں، مجھ سے قصداً ہوئے یا خطا سے، ظاہر کے ہیں یا باطن کے۔ اے اللہ! میری توبہ قبول فرما، آئندہ کے لئے ان شاء اللہ! میں کوئی گناہ نہیں کروں گا، اگر غلطی سے ہوا تو فوراً توبہ کروں گا۔ میں بیعت کرتا ہوں آپ ﷺ سے آپ ﷺ کے خلفاء کے واسطہ سے اور ہاتھ میں ہاتھ دیتا ہوں حضرت صوفی محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی، حضرت سید تنظیم الحق رحمۃ اللہ علیہ کی، حضرت ڈاکٹر فدا محمد صاحب کی شبیر احمد کے واسطے سے اور اپنے آپ کو داخل کرتا ہوں سلسلہ چشتیہ میں، نقشبندیہ میں، قادریہ میں اور سہروردیہ میں۔ اے اللہ! میری بیعت کو قبول فرما۔ (آمین)

اس کو آپ اس طرح پڑھ کے اپنی آواز ساتھ شامل کرکے مجھے وہ آڈیو بھیج دیں۔

سوال نمبر 21:

آپ نے مراقبہ کرتے ہوئے دل کی کیفیت پوچھی تھی۔ مجھے کبھی ایسا لگتا ہے کہ اوپر کا حصہ حرکت کرتا ہے اور کبھی وہم لگتا ہے، لیکن اَلْحَمْدُ للہ! ناغہ نہیں ہوتا۔ اب آگے کیا حکم ہے؟

جواب:

ماشاء اللہ! اگر آپ نے یہ محسوس کیا ہے کہ دل پر ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ محسوس ہورہا ہے تو بس ٹھیک ہے، اب پندرہ منٹ کے لئے لطیفۂ روح پر بھی ایسا محسوس کرنے کی کوشش کریں۔ لطیفۂ روح اصل میں پورے جسم کو اگر آدھا کیا جائے تو بائیں طرف جتنے فاصلہ پر دل ہے اتنے فاصلے پر دائیں طرف جو جگہ ہے، اس کو لطیفۂ روح کہتے ہیں، لہٰذا اب اس پر بھی پندرہ منٹ تصور کریں کہ وہاں پر بھی ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ہورہا ہے یعنی پہلے دل پر پندرہ منٹ اور پھر اس کے بعد دائیں طرف لطیفۂ روح پر پندرہ منٹ کریں۔

سوال نمبر 22:

السلام علیکم۔ مرشد! آپ خیریت سے ہوں گے اور اللہ پاک کی عطا کردہ نعمتوں سے لطف اندوز ہورہے ہوں گے۔ حضرت! بڑی پریشانی میں مبتلا ہوں اور ندامت بھی ہے کہ ابھی تک آپ کے بتائے گئے اذکار بھی پورے نہیں کرسکا، کوئی اِدھر اُدھر کی کہانی نہیں بنانا چاہتا، کیونکہ اس میں مجھ سیاہ کار اور ریاکار کی نااہلی ہے، ناجانے رب کو کون سی بات پسند آئی ہے کہ اب تک اس نے فرائض سے محروم نہیں کیا، باقی مسجد میں ہفتے میں ایک ہی بار جانا نصیب ہوتا ہے، میرے لئے خصوصی دعا کیجئے کہ اللہ پاک اس کاہل کو اپنے نفس پر قابو پانے کی صلاحیت اور توفیق عطا فرما دے۔ میری آپ سے گزارش ہے کہ خدا کے لئے میری رہنمائی فرمائیں۔ آپ کا تو تجربہ بھی ہے، اگرچہ یہ سچ ہے کہ کوشش وسعی محنت خود ہی کرنی ہے، پر کچھ سمجھ نہیں آرہی کہ اس صورتحال سے کیسے اپنے آپ کو نکالوں؟

جواب:

ماشاء اللہ! آپ کی سوچ تو اچھی ہے اور آپ کی عقل کام کررہی ہے، لیکن ابھی آپ کا دل ساتھ نہیں ہے، کیونکہ تین stages ہوتی ہیں کہ پہلے انسان کی عقل کسی چیز کو مانتی ہے، پھر اس کے بعد اس کا دل مانتا ہے، پھر اس کے بعد اس کا نفس مانتا ہے، اس لئے اگر کوئی شخص اس ترتیب کو الٹ کرنا چاہے تو نہیں کرسکتا۔ لہٰذا پہلے convince ہوگا، اور convince آپ ہیں، تبھی آپ لکھ رہے ہیں۔ اور دل مطمئن ہونے کے لئے دل کو ضرورت ہے ذکر کی، کیونکہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہر چیز کا صقالہ یعنی صاف کرنے کا آلہ ہوتا ہے اور دلوں کا صاف کرنے کا آلہ ذکر اللہ ہے۔ لہٰذا جو ذکر بتایا گیا ہے، وہ آپ پابندی کے ساتھ کرنا شروع کرلیں۔ دیکھیں! اگر کوئی دوائی نہیں کھاتا اور کہتا ہے کہ میں ٹھیک نہیں ہوا، تو یہ اس کی عقلی غلطی ہے، اس لئے اس کو ملامت کیا جائے گا کہ آپ اپنا علاج کررہے ہیں؟ علاج کرنا نہیں چاہتے، جیسے بہت سارے شوگر کے مریض ہوتے ہیں، ان کو بتایا جاتا ہے کہ میٹھا نہ کھائیں، لیکن وہ پروا نہیں کرتے، آخر میں اور بیمار ہوجائیں، اور مزید بیماریاں بن جاتی ہیں تو ڈاکٹر ان کو یہی کہہ سکتا ہے، باقی عمل خود ہی کرے گا۔ لہٰذا آپ اس طرح کرلیں کہ ابھی آپ کم از کم ذکر شروع کرلیں جیسے آپ کو ذکر بتایا ہے اور وہ ذکر آپ مکمل کریں جو سب سے پہلے دیا گیا ہے یعنی وہی تین سو اور دو سو والا ذکر اگر آپ نے نہیں کیا ہے، تو اس کو مکمل کرکے مجھے چالیس دن کے بعد inform کرلیں، پھر اس کے بعد ان شاء اللہ! مزید بات ہوگی، کیونکہ خیالی باتوں سے کچھ نہیں ہوتا، بس یہ بات بظاہر اچھی لگتی ہے کہ میں ٹھیک نہیں ہوں، لیکن نہیں، بلکہ آپ ٹھیک ہوسکتے ہیں اور جو آپ کے بس میں ہے، وہ آپ ضرور کرسکتے ہیں اور وہ ذکر ہے کہ آپ ذکر کریں، اس سے کسی نے آپ کو روکا تھوڑا ہے کہ آپ ذکر نہ کریں؟ لہٰذا آپ ذکر شروع کرلیں اور چالیس دن تک اس ذکر کو کرلیں، پھر اس کا آپ کے دل پر اثر ہوگا، مزید باتیں پھر ہوں گی، بس پہلا stage پورا کریں۔

سوال نمبر 23:

السلام علیکم۔ حضرت! اتوار والے دن گیارہ بجے جب بیان ہورہا تھا، تو اس میں آپ نے ایک بات ارشاد فرمائی تھی کہ بندے کے دل کی جو اصلاح ہے، اس وجہ سے وہ دل پہ تو لگا ہوا ہے، لیکن نفس کی فکر نہیں کرتا، جس کی وجہ سے وہ مجذوب متمکن بن جاتا ہے۔ پوچھنا یہ تھا کہ مجذوب متمکن کون ہوتا ہے؟ دوسرا سوال یہ تھا کہ دل کی جو اصلاح ہے، اس کا تعلق اذکار کے ساتھ ہے، لیکن نفس کی اصلاح کا تعلق کس کے ساتھ ہے؟ اور جو حضرات نفس کی اصلاح کے اوپر زور نہیں دیتے، کیونکہ بہت سی خانقاہیں ہیں کہ صرف قلوب کے اوپر زیادہ ان کا focus ہوتا ہے، تو کیا وہ مجذوب متمکن کی طرف چلے جاتے ہیں؟

جواب:

ماشاء اللہ! آپ نے بہت اچھا نکتہ پکڑا ہے، کیونکہ یہی بات حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے کی ہے۔ چنانچہ مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے جو مکتوب (مکتوب نمبر 287) اپنے بھائی کو بھیجا ہے، اس میں یہی باتیں کی ہیں اور بڑے ہی درد سے وہ خط لکھا ہے اور اس میں حضرت نے یہی بات فرمائی ہے کہ جب انسان دل پر محنت کرتا ہے، ذکر و اذکار کرتا ہے، تو دل بیدار ہوجاتا ہے اور مدہوش ہوجاتا ہے، محبت میں جوش میں آتا ہے اور جوش میں بہت کچھ وہ کرسکتا ہے اور کرتا بھی ہے۔ لہٰذا پھر کیا کرنا چاہئے اس کو؟ پھر اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کام لینا چاہئے، جیسے لوہا گرم ہوتا ہے، تو اس سے اگر کوئی چیز بنانی ہو تو اس وقت بنا سکتے ہیں۔ اسی طرح جب دل بیدار ہوجاتا ہے، تو اس وقت وہ مقام قلب پہ آجاتا ہے یعنی مقام قلب پہ سالک آجاتا ہے۔ میں اس بارے میں زیادہ تو نہیں کہہ سکتا، البتہ اتنا حضرت فرماتے ہیں کہ مقام قلب میں نفس اور روح آپس میں اکٹھے ہوتے ہیں، جیسے اگر نفس میں انسان دیکھے کہ پہلے روح آزاد تھی، پھر جس وقت انسان پیدا ہوجاتا ہے تو اس روح کے ساتھ جسم بھی آجاتا ہے اور نفس بھی آجاتا ہے اور وہ اس کو trap کرلیتا ہے یعنی اپنے لئے استعمال کرتا ہے، پھر اس وقت انسان نفس کے لئے استعمال ہورہا ہوتا ہے، لیکن جس وقت یہی روح کو ذکر کے ذریعہ سے جگا دیا جاتا ہے، تو پھر وہ اس سے آزاد ہونا چاہتا ہے، لیکن اس وقت وہ خود آزاد نہیں ہوسکتا، بلکہ آپ نے اس کی help کرنی ہے اور جو آپ کی help ہے، یہی سلوک ہے، کیونکہ نفس کا علاج مجاہدہ کے ذریعہ سے ہوتا ہے، جس میں دس مقامات طے کرنے ہوتے ہیں، اسی میں مقام ریاضت بھی ہے، مقام قناعت بھی ہے، مقام صبر بھی ہے، مقام زہد بھی ہے یعنی یہ سارے مقامات طے کرنے ہوتے ہیں اور یہ کسی کی نگرانی میں طے کرنے ہوتے ہیں اور اگر کوئی اس کو نگرانی میں طے کرلے، اور مقام رضا تک پہنچ جائے تو نفس مطمئن ہوجاتا ہے اور اس کو نفس مطمئنہ کہتے ہیں، جس کے لئے اللہ پاک نے فرمایا:

﴿یٰۤاَیَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَىٕنَّةُ ۝ ارْجِعِیْۤ اِلٰى رَبِّكِ رَاضِیَةً مَّرْضِیَّةً ۝ فَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰدِیْ ۝ وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ﴾ (الفجر: 27-30)

ترجمہ: ’’(البتہ نیک لوگوں سے کہا جائے گا کہ) اے وہ جان جو (اللہ کی اطاعت میں) چین پاچکی ہے۔ اپنے پروردگار کی طرف اس طرح لوٹ کر آجا کہ تو اس سے راضی ہو، اور وہ تجھ سے راضی۔ اور شامل ہوجا میرے نیک بندوں میں۔ اور داخل ہوجا میری جنت میں‘‘۔

لہٰذا اس صورت میں انسان کا سیر الی اللہ مکمل ہوجاتا ہے اور پھر وہ سیر فی اللہ پہ چل سکتا ہے۔ لیکن اگر وہ اس stage پر اسی حالت میں مقام قلب میں رہے اور اس میں انسان کو ہوش رہے یعنی وہ سارے لوگوں کے ساتھ مل جل سکتا ہو، سارے دنیا کے کام کرسکتا ہو یعنی اگر دل کی اس حالت کو پہنچ گیا ہو، لیکن اس سے سلوک کی طرف نہیں چلا گیا، تو یہ مجذوب متمکن ہے۔ اس کے بارے میں حضرت نے فرمایا ہے کہ اس کی توجہ کی کیفیت جو منتہی مرجوع ہوتے ہیں، اس سے زیادہ ہوتی ہے یعنی جو نفس مطمئنہ تک پہنچ چکا ہو، اس سے اس کی قوت زیادہ ہوتی ہے اور لوگ اس سے زیادہ متأثر ہوتے ہیں، لوگ اس کو زیادہ بزرگ سمجھتے ہیں، لیکن حقیقت میں نہ خود پہنچے ہوتے ہیں بقول حضرت کے اور نہ دوسروں کو پہنچا سکتے ہیں، اس وجہ سے جو لوگ یہ باتیں کرتے ہیں، میں ان کی شخصیت کے بارے میں بات نہیں کرتا، لیکن ان کی بات کی بات کرتا ہوں کہ سو فیصد غلط بات کرتے ہیں جو کہتے ہیں کہ بس دل پر ہی محنت کرنی چاہئے، نفس پر نہیں کرنی چاہئے اور جس حوالے سے نقشبندیہ سلسلے کے لوگ اپنے آپ کو سمجھتے ہیں کہ ہم کچھ جانتے ہیں نقشبندی سلسلے کو، تو مجدد صاحب زیادہ واقف ہیں، اور تم ان سے زیادہ واقف نہیں ہو، تم کون ہو اس کے خلاف بات کرنے والے؟ مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی تعریف پڑھو، پھر اس کا جواب دو، کیا لکھا ہے حضرت نے؟ اور خط ایسا لکھا ہے جیسے رو رو کے لکھا ہو، پھر بھی آپ کو حیا نہیں آتی؟ ہمارا دل اس سے کڑھتا ہے یعنی جو اس قسم کی باتیں کرتے ہو اور ایسی بے شرمی سے بات کرلیتے ہیں کہ سلوک کے ذریعہ سے بھی اصلاح ہوتی ہے اور جذب کے ذریعہ سے بھی اصلاح ہوتی ہے اور جذب کے ذریعہ سے اصلاح کا مطلب ایسا ہے جیسے lift کے اوپر چڑھنا اور سلوک کے ذریعے اصلاح ایسے ہوتی ہے جیسے سیڑھیوں کے ذریعہ سے چڑھنا۔ خدا کے بندو! ہوش کے ناخ لو یہ کیا کہہ رہے ہو، کہاں سے کہہ رہے ہو؟ اپنی طرف سے باتیں بنا رہے ہو، یہ باتیں غلط ہیں، ان کو ہم غلط کہیں گے اور یہ میں نہیں کہتا، بلکہ مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ غلط کہتے ہیں، اس طرح اور بزرگ فرماتے ہیں کہ غلط کہتے ہیں۔ لہٰذا اس کے لئے ہمیں واقعی خیال کرنا پڑے گا، اپنے آپ کو تبدیل کرنا پڑے گا، عقل کے ناخن لینے پڑیں گے۔ ابھی میں نے ایک سالک کو بتایا ہے کہ بھائی! پہلے عقل کی بات ہے، پھر دل کی بات ہے، پھر نفس کی بات ہے، جب تک عقل مطمئن نہ ہو، اس وقت تک دل کا کام بھی شروع نہیں ہوسکتا۔ اب تبلیغی جماعت میں کیا سکھاتے ہیں؟ وہاں صرف بیان کرتے ہیں اور کچھ نہیں کرتے، اور یہ بیان کون سی چیز کو متأثر کرتا ہے؟ عقل کو متأثر کرتا ہے، پھر انسان مجاہدہ شروع کرلیتا ہے، لیکن ان کی missing چیز ذکر اللہ ہے، اس لئے اس کمی کو جو ذکر اللہ کی ہے دور کرنی چاہئے۔ اور مجذوب متمکن کی کمی کیا ہے؟ وہ نفس والی بات ہے، اسے اس کے اوپر محنت کی کمی کو دور کرنا چاہئے، تبھی دونوں مکمل ہوجائیں گے۔ بھائی! آدھا کام کرکے چھوڑنا کیوں ہے؟ پورا کام کرو، کیونکہ تینوں کام مطلوب ہیں، عقل کی بھی اصلاح ضروری ہے، دل کی بھی اصلاح ضروری ہے اور نفس کی بھی اصلاح ضروری ہے۔ جس وقت پہلے پہلے میں نے حضرت کے ’’مکتوب شریف‘‘ پڑھانا شروع کرلئے تو مجھے messages آنے شروع ہوگئے، ایک جگہ سے message آیا کہ آپ نے نفس کی بات کہاں سے لی ہے؟ حدیث شریف میں تو دل کی بات ہے یعنی حدیث شریف موجود ہے کہ جسم کے اندر گوشت کا ایک لوتھڑا ہے، اگر وہ ٹھیک ہوجائے تو سارا جسم ٹھیک ہوجائے، اگر وہ خراب ہوجائے تو سارا جسم خراب ہوجائے۔ میں نے کہا بالکل ٹھیک ہے، حدیث شریف غلط نہیں ہے، البتہ میں نے یہ قرآن سے لیا ہے، قرآن پاک میں اللہ فرماتے ہیں:

﴿قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَا﴾ (الشمس: 9-10)

ترجمہ: ’’فلاح اسے ملے گی، جو اس نفس کو پاکیزہ بنائے، اور نامراد وہ ہوگا، جو اس کو (گناہ میں) دھنسا دے‘‘۔

لہٰذا قرآن و حدیث آپس میں مخالف نہیں ہوسکتے، بلکہ ان کی آپس میں تطبیق ہے اور وہ تطبیق کیا ہے؟ کہ جب تک نفس کام صحیح نہ کرے یعنی مطمئن نہ ہوجائے، اس وقت تک دل صاف نہیں رہ سکتا اور دل جب تک ٹھیک نہ ہو، تو نفس ٹھیک نہیں ہوسکتا، کیونکہ دل ذریعہ ہے نفس کے ٹھیک کرنے کا اور نفس کا ٹھیک کرنا ضروری ہے دل کو ٹھیک رکھنے کے لئے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے حوض کہ حوض میں مختلف ذریعوں سے پانی آتا ہے، اب اگر اس میں گند آرہا ہو، تو اس حوض کو صاف کرنے کا طریقہ کیا ہوگا؟ اس کا طریقہ یہ ہوگا کہ پہلے جو گند آرہا ہے، اس کو روکو، جب وہ رک جائے، اس کے بعد پھر حوض صاف کریں گے تو وہ صاف ہوجائے گا، ورنہ اگر آپ اس کے ہوتے ہوئے اس کو صاف کریں گے تو کبھی صاف نہیں کرسکتے۔ ایسے ہی ہماری آنکھ ایک نہر ہے، ہمارے کان ایک نہر ہیں، ہمارا دماغ ایک نہر ہے، ہمارے ہاتھ پاؤں یعنی جہاں جہاں کوئی حس ہے، وہ ایک نہر ہے اور وہاں سے گندگی آرہی ہوتی ہے ہمارے دل کی طرف، ہماری ایک غلط نظر ہمارے دل کو خراب کردیتی ہے، ایک غلط بات سن کر ہمارا دل خراب ہوسکتا ہے، ہمارا ایک خیال غلط دل کو خراب کرتا ہے، لہٰذا جب تک ان چیزوں کی اصلاح نہیں ہوگی، تو ہمارا دل کیسے پاک صاف ہوسکتا ہے؟ باقی یہ الگ بات ہے کہ جب دل پاک اور صاف ہوجاتا ہے تو یہ چیزیں محسوس ہونے لگتی ہیں یعنی آنکھ کی ناپاکی محسوس ہوجاتی ہے، کان کی ناپاکی محسوس ہوجاتی ہے، زبان کی ناپاکی محسوس ہوجاتی ہے، دماغ کی ناپاکی محسوس ہوجاتی ہے، اس وقت پھر ہمت کرنی پڑتی ہے اور وہ ہمت کرنا نفس کے اوپر محنت ہے اور وہی سلوک طے کرنا ہے، تو یہ آپس میں بالکل لازم ملزوم ہیں، باہم مربوط ہیں، ان کو آپس میں جدا کرنا یہ عقل کے خلاف بات ہے۔ لہٰذا ہم لوگوں کو ان تمام چیزوں کو سمجھنا بھی ہے اور اس کے مطابق کام کرنا ہے، خواہ مخواہ اپنا وقت کیوں ضائع کریں اور اگر اپنا وقت ضائع کرنا ہو تو چلو کرلو، لیکن دوسروں کا وقت کیوں ضائع کرتے ہو؟ دوسروں کو غلط باتیں کیوں بتاتے ہو؟ دوسروں کو کم از کم غلط باتیں نہ بتاؤ۔ بھئی! میں اگر غلطی پہ جا رہا ہوں (اللہ مجھے بھی غلطی سے بچائے) اور میں کسی اور کو غلط بات بتا کر اس کا بھی گناہ اپنے سر پہ لے لوں تو یہ کتنی خطرناک بات ہے، کم از کم اس سے مجھے تو بچنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کی اصلاح فرما دے۔

سوال نمبر 24:

حضرت! ایک بات یہ ہے کہ مغرب کی نماز کے بعد اگر بیان میں پہنچنا ہو اور اوابین اگر پڑھو تو یہاں شروع والا بیان نکل جاتا ہے، کیونکہ پیدل آتے ہوئے پانچ منٹ سات منٹ لگ جاتے ہیں، تو کیا اوابین چھوڑ دیں یا نہیں؟

جواب:

’’اِسْتَفْتِ قَلْبَکَ‘‘ (یعنی اپنے دل سے پوچھ لیں)

سوال نمبر 25:

دوسرا حضرت! بعض اوقات کسی ایسی جگہ نکاح میں جانا ہوتا ہے، جہاں موسیقی کا ماحول ہوتا ہے یا اس طرح اچانک شروع ہوجاتا ہے یا کوئی پہلے سے ہورہا ہوتا ہے، تو ہم اس وقت ’’یَاھَادِیُ یَانُوْرُ‘‘ کا وظیفہ جو آپ نے بتایا تھا وہ کرلیتے ہیں اور ادھر توجہ بھی نہیں ہوتی، باقی جو آواز آرہی ہوتی ہے، اسے تو control نہیں کرسکتے، لیکن ہم یا تلاوت شروع کرلیتے ہیں یا درود شریف پڑھتے رہتے ہیں اور ہم بدنظری سے بھی بچنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس سے نکل جاتے ہیں، لیکن بعد میں اس کا طبیعت پہ اثر ہوتا ہے، یہ کیا وجہ ہے؟

جواب:

اثر تو ہوتا ہے، کیونکہ قدرتی بات ہے، جیسے گرم چیز کا گرم اثر ہوتا ہے، ٹھنڈی چیز کا ٹھنڈا اثر ہوتا ہے، اب کوئی آدمی کہے کہ مجھے یہ بھی اثر نہ ہو، تو وہ غلط بات ہے۔ البتہ گرم کپڑے پہننا کہ آپ کو سردی نہ لگے اور پنکھا چلانا اور اے سی چلانا گرمی کو دور کرنے کے لئے، یہ الگ بات ہے۔ ایک حدیث شریف ہے جو ہماری رہنمائی کرتی ہے اس مسئلہ میں کہ ایک صحابی کے ساتھ ایک تابعی جو اس وقت بچے تھے وہ جارہے تھے، صحابی کو کچھ آواز آئی میوزک یا بانسری کی، جب آواز آئی تو انہوں نے کانوں کے اندر انگلیاں دے دیں اور جاتے جاتے انہوں نے پوچھا کہ اب تو نہیں آرہی؟ تابعی نے کہا کہ اب نہیں آرہی، تو پھر انہوں نے انگلیاں نکال کر کہا کہ آپ ﷺ کو میں نے ایسے کرتے دیکھا ہے کہ میں اس وقت بچہ تھا، اور آپ ﷺ کے ساتھ تھا، تو اس طرح آواز آرہی تھی، تو آپ ﷺ نے اپنی انگلیاں رکھ لیں، پھر بعد میں مجھ سے پوچھا کہ اب تو آواز نہیں آرہی؟ جب میں نے کہا کہ نہیں آرہی تو آپ ﷺ نے انگلیاں نکال لی۔ لہٰذا اب انگلیاں ڈالنے والی بات تو چلو ذرا مشکل ہے، لیکن آج کل ایک اچھی چیز وجود میں آئی ہے کہ By air جو سفر کرتے ہیں، ان کے لئے کان میں لگانے کے لئے Ear plug ملتے ہیں، ان سے آواز پھر نہیں آتی۔ اب اگر آدمی کان میں یہ ڈال لے (آج کل تو ویسے بھی لوگ وہ ڈالتے ہیں) تو لوگ سمجھیں گے کہ شاید آپ نے وہ ڈالے ہوئے ہیں، لیکن آپ کی حفاظت ہوگی ان شاء اللہ! پھر بعد میں تنگ نہیں کریں گے۔

سوال نمبر 26:

عمل کرنے میں تھوڑی سی مشکل پیش آتی ہے یعنی دل نہیں کرتا تو اس کے لئے کوئی وظیفہ اگر بتا دیا جائے کہ اعمال کی طرف رغبت ہوجائے۔

جواب:

آپ نے دونوں باتیں صحیح کی ہیں کہ دل نہیں چاہتا اور عمل کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ دراصل عمل کرنا مشکل ہے نفس کے لئے اور دل نہیں چاہتا کہ دل میں دنیا کی محبت ہے۔ اور ان دونوں کا اپنا اپنا علاج ہے، ذکر اللہ سے دل کی صفائی ہوتی ہے، لیکن وہ دیرپا تب ہوتی ہے، جب نفس کی بھی ساتھ اصلاح ہو، اس کے لئے ہی سلوک طے کرنا ہوتا ہے، مشائخ کے پاس اسی مقصد کے لئے جاتے ہیں، مشائخ اسی راستے پہ چلاتے ہیں کہ وہ پہلے ان کو ذکر و اذکار دیتے ہیں، ذکر اذکار سے ان کا دل صاف ہوجاتا ہے اور ان کو احساس ہونے لگتا ہے کہ مجھ میں کمی کیا ہے، کمزوریاں کیا ہیں، ان کمزوریوں کو دور کرنے کے لئے پھر ان کو مقامات طے کرنے ہوتے ہیں، مقام توبہ، مقام انابت، مقام قناعت، مقام ریاضت، مقام تقویٰ، مقام صبر، مقام زہد، مقام توکل، مقام تسلیم اور مقام رضا یہ باقاعدہ اس کو Step by step طے کرنے ہوتے ہیں اور جب وہ طے ہوجاتے ہیں تو پھر نفس ماننا سیکھ لیتا ہے، پھر ماشاء اللہ! عمل کرنا اس کے لئے آسان ہوجاتا ہے۔

سوال نمبر 27:

حضرت! اتوار والے دن کچھ ایسا ہوا کہ میں مدرسہ میں پڑھا رہا تھا کہ وہاں پر اطلاع آئی کہ خواجہ خان محمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ مولانا محبوب الرحمٰن صاحب بلوچستان کے وہ کہیں تشریف لائے تھے کسی مدرسہ میں، تو اطلاع یہ آئی کہ قریب کے سارے اساتذہ اور علماء بھی وہاں جائیں اور بیان سنیں، لیکن اتوار کے دن گیارہ بجے یہاں بھی بیان ہوتا ہے، لہٰذا جب نکلنے لگے تو میرے ذہن میں خیال آیا اور میں نے کہا کہ میرے شیخ کا بھی بیان گیارہ بجے چل رہا ہے اور ان کا بھی گیارہ بجے، تو میں نے کہا کہ میں اپنے شیخ کا بیان جا کے سن لیتا ہوں اور میں نے وہاں سے موٹر سائیکل لیا اور سیدھا خانقاہ میں آگیا۔ حضرت! ایسا اگر آئندہ بھی کبھی ہوجائے تو ایسا ہی کرنا چاہئے؟

جواب:

بالکل آپ نے صحیح کیا ہے۔ میں آپ کو کیا عرض کروں؟ آپ کو ہزارہ کی بات کرتا ہوں کہ ہزارہ میں پہاڑ ہوتے ہیں اونچے نیچے اور اوپر گھر ہوتے ہیں، وہاں کوئی اللہ والے تھے، ان کا ایک مرید تھا، انہوں نے اس کو کام دیا یعنی کوئی چیز لانی تھی، ظاہر ہے کہ دور دور بازار ہوتے ہیں، دور دور جگہیں ہوتی ہیں، تو وہ لا رہے تھے اور جب یہ نیچے اتر رہے تھے تو پیچھے سے ایک آواز آئی آؤ! مجھ سے ملو میں خضر ہوں، انہوں نے کچھ سنی ان سنی کردی اور پروا نہیں کی، بس چلتے رہے، تھوڑا سا آگے گئے تو پھر آواز آئی کہ بھائی! مجھ سے مل لو، لوگ منتیں کر کرکے مجھ سے ملتے ہیں، لیکن میں خود آواز دیتا ہوں، تم نہیں آرہے ہو؟ انہوں نے بغیر دیکھے کہا کہ میرا خضر اُدھر ہے۔ بس نہیں ملے، جب وہاں گئے تو حضرت کو پہلے سے کشفاً اطلاع ہوگئی تھی۔ اس کے بعد پھر اَلْحَمْدُ للہ! ان کو اس سے بڑی ترقی ہوئی۔ یہی توحیدِ مطلب ہے۔ اگرچہ حضرت کے مقام میں کمی نہیں ہے، اَلْحَمْدُ للہ! اللہ تعالیٰ نے حضرت کو بہت مقام دیا ہے، خواجہ خان محمد صاحب نے ان کے اوپر اعتماد کیا ہے، یہ معمولی شخص نہیں ہیں، لیکن تربیت میں توحیدِ مطلب بنیادی چیز ہوتی ہے، کیونکہ توحیدِ مطلب اگر نہ ہو تو بقول حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کے وہ راستے میں رہ جاتا ہے، کسی جگہ کا بھی نہیں رہتا اور شیطان اس کو detract کرلیتا ہے یعنی اپنے راستے سے ہٹا دیتا ہے، اس وجہ سے صرف اس مقصد کے لئے یعنی علاج کے Point of view سے ہے، کیونکہ علاج ایک وقت میں صرف ایک ڈاکٹر سے کیا جاتا ہے، کیونکہ کئی ڈاکٹروں سے علاج اگر ہو تو پھر اس میں نقصان ہوسکتا ہے، البتہ استاد ہزاروں ہوسکتے ہیں، علم کے لئے کوئی مسئلہ نہیں، وہ انسان ہزاروں سے حاصل کرسکتا ہے، لیکن جو تربیت ہے، وہ کسی ایک سے ہی ہوتی ہے۔ اَلْحَمْدُ للہ! اللہ کا شکر ہے کہ حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ جب موجود تھے، تو آپ یقین جانئے کہ ادھر پنڈی میں اور اسلام آباد میں بڑے بڑے بزرگ اس وقت تھے، لیکن مجھے کچھ بھی نہیں پتا تھا کہ یہاں کون تھے، بعد میں پتا چلا کہ ایسے بھی ہیں اور ویسے بھی ہیں اور حضرت کو بھی میں نے بتا دیا تھا، تو حضرت نے فرمایا صحبتِ صالحین کی نیت سے آپ ان کے پاس بیٹھ سکتے ہیں، ورنہ یہ بھی نہ ہوتا۔ اور جب حضرت ماشاء اللہ! موجود تھے تو ایک دفعہ حضرت بھی تشریف لائے اور مولانا فقیر محمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت کے ایک اور خلیفہ بھی تشریف لائے تھے اور محفل گرم تھی اور حضرت کی عارفانہ باتیں چل رہی ہوتی تھیں، اب ہم چونکہ student تھے، اس لئے درمیان میں پھر ہمیں جانا بھی ہوتا تھا، تو ہم جارہے تھے اور ہمارا طریقہ یہ تھا کہ حضرت سے مصافحہ کرکے جاتے تھے، لیکن حضرت کی طرف جب جاتے کہ مصافحہ کریں تو حضرت چپکے چپکے سے اشارہ کرتے کہ پہلے مولانا فقیر محمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے مصافحہ کرو، پھر میرے ساتھ کرو۔ لیکن ہمیں سمجھ ہی نہیں آرہی، اور بالکل خیال ہی نہیں تھا کہ اس میں وہ بھی ہیں، مگر جب بالکل خیال ہوگیا کہ اوہ یہ تو حضرت کہہ رہے ہیں، تو پھر ہم نے مولانا فقیر محمد کو مصافحہ کیا اور پھر حضرت سے اور پھر ہم چلے گئے یعنی اس وقت یہ والی بات تھی ہی نہیں کہ کون ہے، بس دیکھتے ہیں کہ ہمارے لئے ذریعہ تو مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ تھے۔ لہٰذا جن سے بھی فیض ملتا تھا، تو وہ حضرت کا ہی ہوتا تھا، اور حضرت صوفی اقبال صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے جو ہمیں ملا تو وہ بھی حضرت کا فیض ملا، بلکہ آپ یقین جانئے کہ جب میں حضرت سے ملا تھا تو حضرت کو کشفاً پتا چل گیا کہ میرا تعلق مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ ہے، لہٰذا اس کے بعد حضرت نے اپنی بات کبھی بھی مجھے نہیں بتائی، بس کہتے مولانا صاحب یہ کہتے ہیں، مولانا صاحب یہ کہتے ہیں، مولانا صاحب یہ کہتے ہیں یعنی میرے ساتھ مولانا صاحب کی باتیں کرتے تھے۔ تو مقصد یہ ہے کہ حضرت کو بھی اس چیز کا بڑا احساس ہوتا تھا، اس لئے وہ دوسری طرف نہیں جانے دیتے تھے۔ اس لئے یہ تو بہت اچھی بات ہے، یہ توحیدِ مطلب ہے اللہ تعالیٰ ہم سب کو نصیب فرمائے۔


وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ


  1. ۔ (آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب)

    نوٹ! تمام آیات کا ترجمہ آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم سے لیا گیا ہے۔

سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات - مجلسِ سوال و جواب