سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 646

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال نمبر 1:

السلام علیکم۔ محترم شیخ! پانچ پانچ منٹ لطائف کا ذکر اور پندرہ منٹ مراقبۂ معیت میں دل ہی دل میں دعا والا عمل اس ماہ بھی مکمل ہو چکا ہے۔ اور خامیوں میں سے دوسری خامی رب سے شکوہ نہیں کرنا، بس دعا کرنی ہے، اس میں بہت حد تک کامیاب رہی ہوں۔ اور شیخ محترم! پچھلے سال میں بہت مشکل حالات کاٹے ہیں، طعنے، تکلیفیں، الزامات اور مجھے تنگ کرنے والے بھی انجام کو پہنچ گئے ہیں۔ رب کو یاد کرنے سے میرا وقت بدل گیا ہے۔ مجھے سلائی کے Training institute میں Job offer ہوئی تھی، وہاں مجھے تمام insitute کی بچیاں بہت محبت دے رہی ہیں، میری اچھائیاں آ آکر بیان کرتی ہیں، مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ رب مجھے اتنی عزت اور محبت دے رہا ہے کہ میری position بہتر ہوگئی ہے۔ شیخ محترم! آگے رہنمائی فرمائیں۔

جواب:

ابھی آپ کا مراقبۂ معیت تو جاری رہے گا اور پانچ پانچ منٹ لطائف کا عمل بھی جاری رہے گا، البتہ اب آپ کی جو خامیاں ہیں، وہ مجھے آپ نے اچھی طرح غور کرکے بتانی ہیں اور آئندہ ایک ہفتے کے اندر اندر سارا کچھ بتانا ہے کہ آپ کے اندر کیا کیا خامیاں ہیں یعنی جو آپ محسوس کرتی ہیں، پھر ایک ایک کرکے اس کا علاج ہوگا ان شاء اللہ۔ باقی پانچ پانچ منٹ لطائف کا ذکر اور پندرہ منٹ مراقبۂ معیت میں دعا والا عمل جاری رکھیں بالخصوص فلسطین کے لئے جو دعا ہے، وہ آج کل کے حالات میں بہت زیادہ ضروری ہے، وہ بھی جاری رکھیں۔

سوال نمبر 2:

السلام علیکم۔ حضرت! میں اسلام آباد نہیں آسکا، لاہور میں ہی ہوں۔ لاہور میں لائبریری کی routine ہے کہ فروری میں سی ایس ایس کا امتحان دینا ہے۔ آپ مہربانی فرما کر ذکر دے دیں۔ درود شریف یا کوئی کلمہ تو میں کرتا رہتا ہوں، مگر آپ کی رہنمائی کی ضرورت ہے۔

جواب:

ابھی آپ جو ذکر کررہے ہیں، وہ مجھے تفصیل سے بتا دیں کہ کیا کیا ذکر کررہے ہیں، تاکہ اس کے علاوہ پھر میں آپ کو بتاؤں اور یہ ذرا جلد بتا دیں۔

سوال نمبر 3:

السلام علیکم۔ کیا حال ہے حضرت؟ تیسرا کلمہ، درود شریف، استغفار سو دفعہ اور ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ دو سو مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ چار سو مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ چھے سو مرتبہ اور ’’اَللّٰہ‘‘ ساڑھے آٹھ ہزار مرتبہ ہے، جسے مہینے سے زیادہ ہوگیا ہے۔ آگے حکم فرمائیں۔

جواب:

ماشاء اللہ! ابھی نو ہزار مرتبہ ’’اَللّٰہ‘‘ کا ذکر کریں اور باقی وہی ہے۔ اور تیسرا کلمہ، درود شریف اور استغفار والا بھی جاری رکھیں اور اس کے علاوہ نماز کے بعد والا بھی ایک مہینے کے لئے جاری رکھیں۔

سوال نمبر 4:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت! میں نے سوال پوچھا تھا کہ ہم نے اپنے مولوی صاحبان سے سنا ہے کہ انسان جب جنت میں چلے جاتے ہیں تو وہاں وہی ہوگا جو انسان کی خواہش اور مرضی ہوگی، انسان جو چاہے گا، وہی اس کو ملے گا، دوسرے الفاظ میں یہ کہا جائے کہ مکمل آزادی ہوگی یعنی من چاہی زندگی ہوگی۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا اللہ کا اپنی جنت میں اپنے بندوں سے صرف یہی مقصود ہے کہ جو چاہیں کریں یا کچھ اور اللہ اپنے بندوں سے چاہے گا؟ آپ کا جواب آیا کہ یہ سوال بچوں والا ہے۔ اور پھر آپ نے کہا کہ وہاں انسان اللہ کا مہمان ہوگا اور مہمان سے کوئی مطالبہ نہیں کیا جاتا۔ لیکن میں تھوڑی سی وضاحت کروں کہ میرا سوال یہ ہے کہ جیسے دنیا کی تمام تر مادی ترقی انسان کی محدود صلاحیتوں کی بدولت ہے جو کہ اللہ نے عطا کی ہیں، اور جنت میں تو انسان کی صلاحیتیں کئی سو گنا بڑھ جاتی ہوں گی، تو جنت کی ترقی میں انسان کا کوئی عمل دخل نہیں ہوگا؟ کہ یہ جو انسان کو دائمی اور انتہا کی ذہنی، جسمانی صلاحیتیں ملی ہوں گی، تو ان کا مصرف صرف انسان کی عیاشی ہوگی کہ درجہ بدرجہ ترقی کا انحصار صرف اس دنیا سے بھیجے گئے توشے کی بنیاد پر ہوگا یا وہاں بھی ترقی میں انسان کی دیگر صلاحیتوں کو عمل میں لایا جائے گا؟

جواب:

اس پر میں نے کہا تھا کہ یہ سوال بچوں کا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ میں خود اپنی طرف سے نہیں کہتا، بلکہ میں قرآن کی آیت پڑھتا ہوں، آپ اس کو سنیں، پھر اس کے بعد بتائیں کہ میں نے جو کہا تھا، اس کے اندر کیا کمی تھی؟ چنانچہ اللہ پاک فرماتے ہیں:

﴿اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْهِمُ الْمَلٰٓىِٕكَةُ اَلَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّةِ الَّتِیْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ ۝ نَحْنُ اَوْلِیٰٓؤُكُمْ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَةِۚ وَلَكُمْ فِیْهَا مَا تَشْتَهِیْۤ اَنْفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِیْهَا مَا تَدَّعُوْنَ ۝ نُزُلًا مِّنْ غَفُوْرٍ رَّحِیْمٍ﴾ (حم السجدہ: 30-32)

ترجمہ1: ’’(دوسری طرف) جن لوگوں نے کہا ہے کہ ہمارا رب اللہ ہے، اور پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے تو ان پر بیشک فرشتے (یہ کہتے ہوئے) اتریں گے کہ: نہ کوئی خوف دل میں لاؤ، نہ کسی بات کا غم کرو، اور اس جنت سے خوش ہوجاؤ جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا۔ ہم دنیا والی زندگی میں بھی تمہارے ساتھی تھے، اور آخرت میں بھی رہیں گے۔ اور اس جنت میں ہر وہ چیز تمہارے ہی لیے ہے جس کو تمہارا دل چاہے، اور اس میں ہر وہ چیز تمہارے ہی لئے ہے جو تم منگوانا چاہو۔ یہ سب کچھ اس ذات کی طرف سے پہلی پہل میزبانی ہے جس کی بخشش بھی بہت ہے جس کی رحمت بھی کامل‘‘۔

یعنی پوری شریعت پر چلتے رہے اور جو جو اللہ تعالیٰ نے چاہا وہ کرتے رہے اور اللہ پاک کی نافرمانی سے بچتے رہے، تو یہ استقامت ہے۔ پھر اس کے بعد اللہ فرماتے ہیں کہ فرشتے اتریں گے موت کے وقت اور ان کے پاس آئیں گے اور کہیں گے کوئی خوف نہ کرو اور کوئی غم نہ کرو یعنی یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ قرآن میں بیان کررہے ہیں۔ اب آپ مجھے بتاؤ کہ کہاں پر یہ آیا کہ آپ کچھ کام کریں گے تو پھر اس کا صلہ آپ کو ملے گا۔ نہیں کام آپ نے کرلیا، اب صرف من چاہی والی بات ہے۔ آپ ذرا اچھی طرح ﴿مَا تَشْتَهِیْۤ اَنْفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِیْهَا مَا تَدَّعُوْنَ﴾ پر غور کریں کہ جو تمھارا جی چاہے گا، وہ تمہارے لئے ہوگا۔ یعنی من چاہی زندگی اور منہ مانگی دولت یہ دونوں باتیں وہاں پر ہوں گی۔ چنانچہ تفصیلات میں آیا ہے کہ اگر کسی شخص کو کھیتی باڑی کے ساتھ دلچسپی ہے اور وہ کہتا ہے کہ میں جس طرح دنیا میں کھیت بوتا تھا، اس طرح میں یہاں بھی کرلوں تو اس کے لئے وہی چیز بن جائے گی، پھر وہ جو چاہے گا وہ ہوجائے گا۔ لہٰذا اگر آپ کو بھی جنت مل جائے تو اس طرح سوچتے رہیں، بس وہ چیزیں ہوجایا کریں گی، ان شاء اللہ! اور ان شاء اللہ! اللہ نے ہمیں بھی جنت دی تو ہم بھی جو چاہیں گے وہی ہوجائے گا۔ اس لئے کہ وہاں من چاہی والی بات ہے، اس میں کوئی شک نہیں اور وہاں مزے ہی مزے ہیں، اس میں کوئی شک نہیں۔ اور دوزخ میں تکلیفیں ہی تکلیفیں ہیں۔ جن چیزوں کا ہمارے ساتھ وعدہ ہے، وہ وہاں پورا پورا ہے۔ لہٰذا اگر کوئی کام کرنا چاہے گا تو کرے، منع نہیں ہوگا، کیونکہ اس کی خواہش ہوگی، اور وہاں پر کام اپنی مرضی کا ہوگا۔ اللہ پاک بار بار پوچھے گا کہ کوئی چیز چاہتے ہو؟ حتیٰ کہ لوگ حیران ہوجائیں گے کہ ہم مزید کیا مانگیں؟ تو پھر علماء سے پوچھیں گے کہ اب کیا مانگیں؟ وہ فرمائیں گے کہ دیدار ابھی تک نہیں ہوا، آپ دیدار مانگیں، پھر دیدار کا انتظام ہوجائے گا اور وہ ایسی بات ہوگی، جس کا کوئی انسان حساب نہیں کرسکتا، سوچ نہیں سکتا، وہاں پھر انسان کہیں گے کہ ابھی تک ہمیں کیا ملا تھا؟ اس وجہ سے خواہ مخواہ کی پریشانی سے اپنے آپ کو بچاؤ، بس دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ جنتی بنا دے اور یہاں کی ڈیوٹی پوری کرو اور جو آپ جنت میں کرنا چاہتے ہیں، وہ محنت اور مشقت یہاں کرو، تاکہ جنت مل جائے، باقی وہاں پر ان شاء اللہ! آپ کے لئے مزے ہی مزے ہوں گے۔ اللہ نصیب فرمائے۔

سوال نمبر 5:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت! تمام لطائف پر انگوٹھا رکھ کر ذکر کرتی ہوں اور کبھی مراقبے کے بغیر ہی ذکر محسوس ہونے لگتا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کی عمر دراز فرمائے، میرے میاں کی وجہ سے مجھے آپ کا تعلق نصیب ہوا ہے، میں آپ کے بیانات باقاعدہ سنتی رہتی ہوں اور اس سے بھی بہت فرق پڑتا ہے، زیادہ عمل کی میں کوشش کرتی ہوں، اللہ تعالیٰ سے گزشتہ گناہوں کی معافی طلب کرتی ہوں، آپ دعا فرما دیجئے کہ اللہ پاک مجھے قبول فرما لیں۔ میں نے آپ کی طرف سے عمرہ بھی کیا ہے اور روضۂ اقدس پر سلام بھی پیش کرتی ہوں۔ یہ آپ کو بتانا نہیں چاہتی تھی، لیکن سوال وجواب میں آپ نے کسی کو سلام عرض کرنے کو کہا تھا تو سوچا کہ آپ کو بتا دوں تو آپ کو خوشی ہوگی۔ اللہ تعالیٰ کی رضا اور دنیا اور آخرت کی آسانی کے لئے کوئی نصیحت فرما دیں، جس پر ہمیشہ عمل کرتی رہوں یا کوئی دعائیہ آیت یا کوئی ذکر بتا دیں۔

جواب:

آپ ﷺ سے کسی نے اس طرح کا سوال پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا: اپنی زبان ذکر سے ہمیشہ تر رکھا کریں یعنی ذکر سے رطب اللسان رہیں۔ (ابن ماجہ، حدیث نمبر 3793) بس میں بھی آپ سے یہی کہتا ہوں کہ ایک تو آپ دعا کا اہتمام کریں کہ ہر وقت مانگتی رہیں اور ذکر سے اپنی زبان کو تر رکھا کریں اور گناہ سے بچیں۔

سوال نمبر 6:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔

Si,r after doing ذکر hundred times each third کلمہ درود شریف استغفار I did مراقبہ ten minutes Allah on the heart and fifteen minutes Allah on the right side. I have to concentrate. Timings are short after عصر and I will do ذکر on time to be able to complete مراقبہ before مغرب

جواب:

آپ کوئی اور وقت بھی منتخب کرسکتی ہیں، تنگ وقت کو کیوں منتخب کرتی ہیں؟ کوئی اور وقت منتخب کرلیا کریں، جس میں کھلا وقت ہو، پھر اس میں اپنا ذکر پورا کرلیا کریں۔ اور آپ ذرا آگے بڑھیں، یہ ابھی تک دو لطائف پر آپ چل رہی ہیں، جبکہ آپ کا تو ہمارے ساتھ تعلق دس سال سے بھی زیادہ پرانا ہے، اتنے پر آپ نہ رہیں، آگے بڑھیں، ابھی تو بہت سارے لطائف باقی ہیں اور بہت سارا کام باقی ہے۔ باقی ابھی آپ نے جو فرمایا ہے کہ دل پر دس منٹ اور پندرہ منٹ لطیفۂ روح پر ہے، تو اب دل پر دس منٹ، لطیفۂ روح پر دس منٹ اور لطیفۂ سر پر جو کہ دل سے بالکل چار انگل اوپر جو point ہے اور اس چار انگل اوپر والے point سے سینے کی طرف دو انگل پر جو point ہے، اس کو لطیفۂ سر کہتے ہیں، اس پر پندرہ منٹ رکھیں اور باقاعدہ regular رہیں، تاکہ کچھ ترقی کرلیں۔

سوال نمبر 7:

السلام علیکم۔ میرا نام فلاں ہے، کوئٹہ شہر میں رہتا ہوں، چار سال پہلے آپ کی کتاب پڑھی تھی ’’محبت کے چالیس اصول‘‘ اس کے بعد سے میری زندگی میں خاموشی بڑھ گئی ہے، میں شیخ کامل کی تلاش میں رہا، ابھی ابھی فلاں شاہ صاحب سے ملا ہوں، جو لاہور میں رہتے ہیں، لیکن شاہ صاحب کسی کو مرید نہیں بناتے، ہاں! مگر انہوں نے مجھے عشاء کے بعد ایک سورۃ پڑھنے کو ضرور کہا۔ اس سورۃ کو پڑھتے پڑھتے آٹھ یا نو مہینے ہوگئے ہیں۔ میں نے ’’مثنوی‘‘ مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ترجمہ کے ساتھ بھی پڑھی ہے۔ شاہ صاحب! سالک کے لئے عشق الہٰی ممکن ہے اگر سالک ایک کامل شیخ کے زیر تربیت اور رہنمائی میں رہے؟ میرا جذبہ یہ ہے کہ مجاہدہ تو کرتا ہوں، لیکن عشق کی محرومی میں خود کو کچھ نہیں سمجھتا، اس لئے کھانا پینا چھوڑ دیا ہے، کماتا ہوں، مگر اوروں کے لئے۔ بات چیت میں کوئی کچھ پوچھے تو جواب دیتا ہوں، ورنہ خاموش رہتا ہوں۔ میرا پیٹ دنیاوی خوراک سے خالی ہے، مگر اس میں روحانی غذا بھی نہیں ہے۔ عقل میں عشق الہٰی تو ہے، مگر اب تک اس کا کوئی عکس نہیں۔ دل تو ہے لیکن معرفت کے نور سے خالی ہے۔ نفس اور شیطان کی بات بے کار ہے۔ میرے لئے فنا ہونا، مرنے سے پہلے مر جانا، خود کو مٹا دینا عشق کا روح بن جانا، اس کے علاوہ ہر شے ہیچ ہوگئی ہے۔ شاہ صاحب! برائے کرم میری رہنمائی فرمائیں۔

جواب:

سبحان اللہ! بڑی خوش قسمتی ہے کہ آپ کا اللہ پاک نے رخ اس طرف پھیرا ہے، لیکن ابھی کچھ چیزیں آپ کو سمجھنی بھی ہوں گی اور کرنی بھی ہوں گی، ان شاء اللہ۔ اصل بات یہ ہے کہ انسان کا یہاں پر آنا یہ پورا ایک نظام ہے اور حکمت کے ساتھ مرتب کیا گیا ہے۔ دیکھیں! ہماری روح جو اللہ پاک کی عاشق تھی، لیکن یہاں نفس کے اندر پھنس گئی ہے اور اللہ پاک کو بھول گئی ہے، اب اس کو یاد دلانے کے لئے ہم یہ ذکر و اذکار کرتے ہیں، پھر جب یہ اس کو یاد ہوجاتا ہے کہ میں اللہ کی عاشق تھی تو اس کے بعد پھر وہ نفس سے اپنا پیچھا چھڑانا چاہتی ہے، جو کہ ایک مشکل کام ہے، کیونکہ نفس نے اس کو باندھا ہوا ہے، مثال کے طور پر نفس ہر جگہ ہے، آنکھوں میں ہے، کان میں ہے، زبان پر ہے، دماغ میں ہے یعنی جسم کے ہر حصے میں ہے، اس لئے اس کو چھڑانے کے لئے مجاہدہ کرنا پڑتا ہے، لیکن مجاہدہ کسی خاص ترتیب سے کرنا پڑتا ہے، بے ترتیبی سے نہیں۔ مثلاً جو بھی mechanic ہو، وہ ایک خاص ترتیب سے کام کرتا ہے، اس لئے دوسرا اس کام کو نہیں کرسکتا، کیونکہ اس کو ترتیب کا پتا نہیں ہوتا۔ ایسے ہی ڈاکٹری کا جو علاج ہوتا ہے، اس میں بھی سب ترتیبیں ہوتی ہیں۔ اس وجہ سے زور لگانے سے کام نہیں ہوتا، ترتیب کے ساتھ کام کرنے سے کام ہوتا ہے، اور جب زور لگانے کا وقت ہو تو پھر زور بھی لگانا پڑتا ہے۔ لہٰذا اس کو باقاعدہ طریقے سے کرنے کے لئے آپ کو کسی کے ساتھ اپنا تعلق بنانا ہوگا اور وہ آپ کو ذکر دے، مجاہدہ دے یعنی جو بھی دے اس پر عمل کرنا ہوگا، اس طریقے سے پھر ان شاء اللہ! اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے آپ کو جلدی ساری چیزیں مل سکتی ہیں، بالخصوص اگر انسان کے اندر طلب ہو تو پھر اللہ پاک بہت جلدی عطا فرماتے ہیں۔ ارشاد باری ہے:

﴿وَالَّذِیْنَ جَاهَدُوْا فِیْنَا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَا﴾ (العنکبوت: 69)

ترجمہ: ’’اور جن لوگوں نے ہماری خاطر کوشش کی، ہم ان کو ضرور بالضرور اپنے راستوں پر پہنچا دیں گے‘‘۔

لہٰذا آپ کے اندر طلب تو ہے، بس کام کو باقاعدہ شروع کرلیں اور ایک ترتیب کے ساتھ چلیں یعنی جس ترتیب سے آپ کو بتایا جائے۔ اور اس کے بارے میں فیصلہ کرنا کہ کس کے ساتھ آپ نے ہونا ہے، تو میں آپ کو آٹھ اصول بتا دیتا ہوں اس کے سمجھنے کے لئے، تاکہ آپ کو صحیح شیخ مل جائے۔ سب سے پہلے یہ بات ہے کہ وہ اہل سنت و الجماعت میں سے ہو یعنی آپ ﷺ کی سنت پر صحابہ کے طریقے پر عمل کرتا ہو، دوسری بات فرض عین درجہ کا علم کم از کم اس کے پاس ہو، پھر اس علم پر عمل کرتا ہو اور اس کی صحبت کا سلسلہ آپ ﷺ کی صحبت تک پہنچتا ہو، کیونکہ صحبت کے برابر کوئی چیز نہیں ہے، پھر کسی صاحبِ سلسلہ نے اس کے اوپر اعتماد کیا ہو اور اس کو اجازت دی ہو اور وقت کے مشائخ اور علماء ان کی تائید کرتے ہوں اور ان کو اچھا سمجھتے ہوں۔ ساتویں بات یہ ہے کہ مروت نہ کرتا ہو، بلکہ اصلاح کرتا ہوں اور آٹھویں بات یہ ہے کہ ان کی مجلس میں، ان کے ساتھ رابطہ میں اور تعلق میں دنیا کی محبت کم ہوتی ہو اور اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ بڑھتی ہو، اللہ پاک کی محبت بڑھتی ہو۔ اگر یہ آٹھ نشانیاں کسی میں ہیں تو پھر دیکھو کہ میری ان کے ساتھ مناسبت ہے یا نہیں ہے، بس اپنی مناسبت دیکھ لو تو جس کے ساتھ مناسبت ہو، ان کے ساتھ اپنا تعلق قائم کرلو۔ ان شاء اللہ! سلسلے کی برکت سے بہت جلدی رہنمائی ہوجاتی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک برکت بھی ہے اور دوسرا شیخ کا تجربہ ہوتا ہے، تو دونوں چیزیں مل کر وہ کام جو مشکل ہوتا ہے، وہ اللہ تعالیٰ آسان بنا دیتے ہیں۔ اللہ پاک ہم سب کے لئے آسانیاں بنا دے۔

سوال نمبر 8:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔

I hope and pray my مرشد مربی سیدی and شیخ is in good health ان شاء اللہ.

اَلْحَمْدُ للہ I feel that I am getting more punctual with my اذکار and قرآن تلاوت but I have missed a few days so I am restarting ان شاء اللہ. I have a question. During university we have to work in groups on a project. We have spent a lot of time talking together and sometimes sitting together for a long time to do the work. My group contains only girls who sometimes talk about other things as well which are not work related. What's the best way of approaching this situation? Please guide me. جزاک اللہُ

جواب:

اَلْحَمْدُ للہ! آپ کو اللہ پاک نے توفیق عطا فرمائی کہ ان چیزوں سے بچنے کی آپ کے اندر طلب ہے، اور آج کل یہ طلب بھی بہت بڑی بات ہے۔ بہرحال اس کے بارے میں عرض کرتا ہوں کہ اول تو کسی بھی لڑکی کے ساتھ تنہائی میں نہ ملیں، دوسری بات یہ ہے کہ اپنی طرف سے کوئی بات نہ کریں، اگر کوئی بات کام سے related کوئی پوچھے تو اس کو آنکھیں نیچے کیے جواب دیا جائے اور تیسری بات یہ ہے کہ غیر ضروری باتوں میں اپنے آپ کو مشغول نہ رکھیں، اگر وہ اپنی طرف سے کوئی بات کریں، تو ان سے کہیں کہ آپس میں اپنی بات کریں، میں ذرا مصروف ہوں یعنی اپنے آپ کو کسی اور کام میں مصروف کرلیا کریں اور بس کام کے ساتھ کام رکھیں، اس صورت میں جتنی دیر آپ ادھر ہیں اور آپ ان چیزوں سے بچیں گے، اتنی دیر آپ کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق بڑھتا رہے گا، کیونکہ ایک تو مجاہدہ بنے گا اور مجاہدہ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا قرب نصیب ہوتا ہے۔ کیونکہ ہر وقت، ہر لمحے جو نفس کی خواہش ہے اور اس کے مقابلے میں اللہ پاک کا حکم ہے، تو جب آپ نفس کی خواہش کو رد کرتے جائیں گے اور اللہ پاک کے حکم کو لیتے جائیں گے تو وہ اللہ پاک کی طرف بڑھنا ہے۔ مثلاً اندھا کہے کہ میں بدنظری نہیں کرتا۔ تو اس کو کوئی ثواب نہیں مل رہا، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے اندر capability نہیں ہے، موقع بھی نہیں ہے اور طاقت بھی نہیں ہے۔ لیکن جس میں طاقت بھی ہے، موقع بھی ہو پھر وہ گنا نہ کرے تو ایسی صورت میں گناہ نہ کرنے پر ثواب ملتا ہے۔ ہمارے سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ ہماری رہبانیت یہ ہے کہ شباب ہو، موقع ہو، دعوت ہو، لیکن ہم کہیں کہ ہمیں اللہ تعالیٰ کا ڈر ہے۔ بس ہماری اصل رہبانیت اب یہی ہے۔ لہٰذا اسی پر آپ لوگ اپنا پروگرام رکھیں۔ اللہ جل شانہٗ آپ کا حامی و ناصر ہوجائے، میں بھی دعا کرتا ہوں اور آپ بھی دعا کرتے رہیں اور ہمارے لئے بھی دعا کریں۔

سوال نمبر 9:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ پچھلے دو مہینوں سے میرا ذکر دو سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ چار سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ چھے سو مرتبہ ’’حَقْ‘‘ اور ڈھائی ہزار مرتبہ ’’اَللّٰہ‘‘ ہے، جو اکثر میں نے مکمل کیا ہے، لیکن پچھلے تین ہفتے میں سب سے زیادہ ناغے ہوئے ہیں، رات کے وقت چھے سے آٹھ دفعہ ذکر مکمل کرنے پر بھی مکمل نہ ہوا، کئی دفعہ شروع کیا، لیکن مکمل نہ ہوا، پھر میں نے کوشش کی دن میں کرنے کی، لیکن پھر بھی خدمت کی وجہ سے یا کوئی دوسرے کام کی وجہ سے نہیں ہوسکا اور منزل کے ساتھ بھی اس طرح ہوا ہے۔ میں کوشش کررہا ہوں کہ واپس لائن پر آجاؤں ان شاء اللہ! اور ذکر میں کچھ نہیں محسوس ہوتا۔

جواب:

اللہ تعالیٰ آپ کو ہمت عطا فرمائے۔ اور یہ جن کاموں کی وجہ سے ایسا ہورہا ہے تو اس میں جب بھی آپ کو وقت ملے تو آپ اس کے لئے اپنا وقت نکالتے رہیں، اتنی گنجائش اس میں ہے۔ البتہ دوسرے لوگوں کے لئے تو ہم کہتے ہیں کہ continous کرو، لیکن چونکہ آپ کا کام اس طرح ہے تو پھر آپ اس طرح کرلیں کہ اس میں جب بھی موقع ملے تو باقی پورا کرلیا کریں۔

سوال نمبر 10:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت! اللہ پاک سے دعا ہے کہ آپ سلامت رہیں۔ میرے ذکر کی ترتیب مندرجہ ذیل ہے۔ بارہ تسبیحات، اس کے بعد پانچ سو دفعہ زبان سے خفی طور پر ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘، دس منٹ پانچوں لطائف پر ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ محسوس کرنا اور پندرہ منٹ لطیفۂ قلب پر مراقبۂ معیت ہے۔ حضرت! پچھلے مہینے میں والدہ ہسپتال داخل تھی اور آفس میں آڈٹ تھا، جس کی وجہ سے بہت مصروفیت تھی، گھر سے آفس اور آفس سے ہسپتال کی routine تھی، اس لئے ذکر مکمل نہیں کرسکا، کوشش کرتا تھا، لیکن پورا نہیں ہو پاتا تھا، اب ان شاء اللہ! اس کی ترتیب بنا رہا ہوں، اللہ تعالیٰ استقامت عطا فرمائے، مزید آپ رہنمائی فرمائیں اور استقامت کی دعا فرمائیں۔

جواب:

(آمین) اللہ تعالیٰ آپ کو ہمت بھی دے اور ترتیب کے انتظام بھی دے، تاکہ سارے کام وقت پر پورے ہوجایا کریں۔

سوال نمبر 11:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت! امید کرتی ہوں کہ آپ خیریت سے ہوں گے۔ میں اپنی اصلاح چاہتی ہوں، رہنمائی فرمائیں۔ پریشانیاں ہیں، جو آئے دن کسی نہ کسی صورت میں رونما ہوتی ہیں، شادی شدہ زندگی میں دکھ ہی دکھ ہیں، مجھے دلی سکون اور اللہ کی رضا چاہئے۔

جواب:

تھوڑی سی کچھ تفصیل اگر بتا دیں تو کچھ عرض کر سکوں گا، ویسے دعا سے تو مفر نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ دونوں جہاں میں آسانی والا معاملہ آپ کے ساتھ فرمائے اور خیر کا فیصلہ آپ کے لئے فرما دے اور جتنی پریشانیاں ہیں، اس کا آپ کو اجر عطا فرمائے اور پریشانیاں دور فرمائے۔

سوال نمبر 12:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت! میں میٹھا بہت زیادہ کھاتی ہوں، بہت کوشش کی ہے کہ نہ کھایا کروں، لیکن نفس پر بالکل control نہیں ہورہا، نفس ہر دفعہ مجبور کرتا ہے اور نہ چاہتے ہوئے بھی بات مان لیتی ہوں۔ ہر ماہ ارادہ کرتی ہوں کہ اس ماہ بالکل نہیں کھاؤں گی، لیکن پھر بھی کھا لیتی ہوں۔ مجھے اس کے لئے مجاہدہ دے دیں۔ جزاک اللہُ۔

جواب:

اصل بات یہ ہے کہ جو نفس کا کھانے پینے والا معاملہ ہے، یہ تو آپ کو خود ہی کرنا پڑے گا، فی الحال میں آپ کو یہ بتا دیتا ہوں کہ یہ آہستہ آہستہ کریں کہ جتنا آپ اس وقت کھاتی ہیں، اس کا اندازہ کرلیں اور اس کے آدھے پر آجائیں یعنی میٹھا جتنا کھاتی ہیں، وہ آدھا کھا لیا کریں اور کھانا جتنا کھاتی ہیں اس کو بھی آدھا کھا لیا کریں اور ہر ہفتے مجھے report دے دیا کریں۔

سوال نمبر 13:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔

Sheikh as per your instructions, I have been focusing on the following حسنات virtuous deeds related to others for the last one month as follows,

No. 1: Increase visiting my mother

No. 2: Visiting patients.

After doing this, I feel psychological improvement with balanced health control of unhealthy emotions and feel internal satisfaction. Thanks to Almighty Allah for this. جزاک اللہُ خیراً

جواب:

ماشاء اللہ I am very happy to hear from you. May Allah سبحانہ وتعالیٰ grant you more توفیق to do all these things.


سوال نمبر 14:

شیخ! السلام علیکم۔

As per your instructions I was able to do the following حسنات

No. 1: Read pages of تفسیر daily

No. 2: Fast on Monday and Thursday

No. 3: Sharing one to two حدیث with others and teaching some brothers and sisters recitation of the Quran. After doing the above, I have almost the same feelings as last month, which are that I feel peaceful and confident and have more patience.

جواب:

سبحان اللہ you can continue this and you can find more to do ان شاء اللہ and then have to tell me what you have found.


سوال نمبر 15:

السلام علیکم۔ حضرت جی! مجھے غصہ بہت آرہا ہے، کوئی میرے مزاج کے خلاف بات کرے یا میرے حوالے سے وہ بات کرے جو میرے اندر نہیں I mean الزام تراشی، تو مجھے اس پر بڑا غصہ آتا ہے، بچوں کی چھوٹی غلطی پر بھی hyper ہوجاتی ہوں۔ kindly رہنمائی فرمائیں۔ میری عادت لڑنے کی نہیں ہے، بس مجھے غصہ آتا ہے اور میں خاموش ہوجاتی ہوں، اس پر گھر والے چڑ جاتے ہیں کہ یہ منہ بنا کے پھرتی ہے یعنی خاموش رہوں تو تب بھی خیر نہیں ہوتی اور بولوں تو پھر بھی خیر نہیں ہوتی۔

جواب:

آپ اس کو ایک مجاہدہ سمجھیں اور یہ مجاہدہ غیر اختیاری ہے۔ غیر اختیاری سے مراد اضطراری ہے یعنی آپ کے اوپر یہ ڈال دیا گیا ہے۔ اور اضطراری مجاہدہ میں جتنی ترقی ہوتی ہے، اتنی اختیاری مجاہدہ میں نہیں ہوتی۔ لہٰذا آپ کو جب غصہ آجائے تو اس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوجائیں اور کہیں کہ یا اللہ! جتنا غصہ مجھے آرہا ہے، میں تیرے لئے یہ نہیں کرتی، تو بھی اے اللہ! میرے اوپر غصہ نہ فرما اور مجھے معاف فرما دے، تو اس وقت یہ دعا کرلیا کریں، ان شاء اللہ! آسانی ہوگی۔

سوال نمبر 16:

السلام علیکم۔ حضرت!

It is mentioned in ‘‘ مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ ’’مکتوب that when امام مہدی PBUH comes all the سلاسل will finish except نقشبندیہ سلسلہ and all the مذاہب will finish except the حنفی مذہب. Can you please elaborate on this and if I am mistaken please correct me.

جواب:

یہ اصل میں معرفت کی باتیں ہیں اور ہر عارف کی اپنی معرفت ہوتی ہے۔ چنانچہ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ ہی کا قول ’’مکتوبات شریف‘‘ میں ہے کہ عارف کی معرفت دوسرے عارف کی معرفت سے مختلف ہوسکتی ہے، یہ ایسا ہے جیسے کوئی ایک چیز کو ایک angle سے دیکھ رہا ہے اور دوسرا دوسرے angle سے دیکھ رہا ہے، تو لہٰذا اس میں اختلاف ہوسکتا ہے، فرق ہوسکتا ہے۔ لہٰذا یہ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی معرفت ہے، مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی سوچ ہے اور مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا کشف ہے اور ظنی ہے، قطعی نہیں ہے، کیونکہ قطعی چیز تو قرآن و حدیث ہے۔ خود حضرت فرماتے ہیں کہ جو کشف قرآن و حدیث کے مقابلہ میں آئے تو اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ لہٰذا ان چیزوں کو چونکہ مبہم رکھا گیا ہے، اس لئے ہمیں بھی ان کو مبہم رکھنا چاہئے، بس جو ہوگا وہ وقت پر ہوجائے گا، اگر مجھے یہ معلوم بھی ہو کہ وہ نقشبندی سلسلے سے ہوں گے تو اس سے وہ فرق نہیں پڑے گا اور اگر مجھے معلوم نہیں بھی ہوگا تو بھی فرق نہیں پڑے گا، بس وہ اپنے کام پر ایسے ہی ہوجائے گا، میرے سوچنے سمجھنے سے کچھ بھی فرق نہیں پڑے گا۔ لہٰذا جس چیز سے کوئی فرق نہ پڑتا ہو، اس کو سوچنے سے کیا فائدہ؟ اس لئے مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو غلط بھی نہیں کہیں گے اور اس بات پر سوچیں گے بھی نہیں، کیونکہ یہ ہمارا domain ہے ہی نہیں، اگر کسی کے لئے وہ پیغام ہے تو اس کو پہنچ جائے گا، لیکن ہمارے لئے نہیں ہے، اس لئے ہم اپنا کام کریں اور اپنے اخلاق کو درست کرلیں، اپنے اعمال کو درست کرلیں اور جس مسلک پر ہم ہیں، اس مسلک پر چلیں اور جس سلسلے میں ہیں، اس سلسلے کی مانیں اور اس سلسلے کے مطابق چلیں، تاکہ ہماری اصلاح ہوجائے۔ اور حضرت امام مہدی علیہ السلام جس سلسلے پر بھی ہوں، لیکن میں اگر اپنے سلسلے کو ان کے لئے چھوڑوں گا تو امام مہدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس سے خوش نہیں ہوں گے، کیونکہ اصول ہے کہ ہر ایک کو اپنے اپنے سلسلے سے فائدہ ہوتا ہے۔ جیسے حضرت شاہ غلام علی رحمۃ اللہ علیہ جیلانی سید تھے، وہ فرماتے ہیں کہ میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ تشریف فرما ہیں اور میں نقشبندی سلسلے کے خیمے میں جارہا ہوں، تو حضرت فرماتے ہیں: کوئی بات نہیں، کوئی بات نہیں، اللہ کی مرضی ہے، اللہ کی مرضی ہے، یعنی جب اللہ کی مرضی ہے تو مجھے اس پر کیا اعتراض ہے۔ اس وجہ سے اللہ کی مرضی ہے کہ جس کو چاہے قادری سلسلہ میں رکھے اور اگر وہ حضرت بہاء الدین نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ کی اولاد میں سے بھی ہے تو بھی بہاء الدین نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ خوش ہوں گے اور اگر کسی کا حصہ چشتی سلسلہ میں ہے تو جو نقشبندی ہوگا یا کوئی قادری ہوگا تو وہ خوش ہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان چیزوں میں پڑنا ہی نہیں چاہئے، بس اپنے کام سے کام رکھنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرما دے۔

سوال نمبر 17:

میں نے بارہا کوشش کی اور کرتا ہوں کہ دینی کتابیں پڑھ لوں، لیکن بیٹھا ہی نہیں جاتا، laptop پر کام ہو تو کرلیتا ہوں، مگر بیٹھ کر دینی کتابیں نہیں پڑھتا۔ میں کیا کروں؟

جواب:

بس وہ کریں جو اللہ کی مرضی ہے اور اللہ کی مرضی یہ ہے کہ جو وقت کا حکم ہے یعنی شریعت کا حکم ہے، اس کے مطابق کام کریں، اس کے لئے اگر کتاب پڑھنا ضروری ہوا تو کتاب پڑھا کریں اور اگر ضروری نہ ہو تو بس وہ کام کریں۔ یہی طریقہ ہے۔

سوال نمبر 18:

السلام علیکم۔ حضرت جی! فلسطین کے لئے کیا کیا جائے؟ guide کردیں۔

جواب:

وہی کریں جو اس وقت علماء فرماتے ہیں کہ فلسطین کے خلاف جو قومیں ہیں اور جو ملک ہیں، ہم ان سے بائیکاٹ کرسکتے ہیں، ان کی چیزیں انسان نہ خریدے اور استعمال نہ کرے، بلکہ ان کی چیزیں استعمال کرلے جو اسرائیل کے خلاف ہیں یا ان کے ساتھ نہیں ہیں۔ اور اگر امداد پہنچانے کا بندوبست ہوجائے تو اپنی امداد وہاں پر پہنچائی جائے اور ان کے لئے دعائیں بھی کی جائیں بالخصوص ’’اَللّٰهُمَّ إِنَّا نَجْعَلُكَ فِيْ نُحُوْرِهِمْ وَنَعُوْذُ بِكَ مِنْ شُرُوْرِهِمْ‘‘ والی دعا میں امت مسلمہ کی حفاظت کی نیت بالخصوص فلسطینیوں کی حفاظت کی نیت کرلیا کریں۔

سوال نمبر 19:

السلام علیکم۔ حضرت جی! عامل کو جب دکھایا تھا تو انہوں نے بتایا تھا کہ آپ کو میاں سے دور کرنے کے لئے یہ سب ہورہا ہے کہ آپ کسی طرح اس سے الگ ہوجائیں۔ اور انہوں نے دن میں تین دفعہ سورۃ تحریم پڑھنے کے لئے دی تھی کہ اس کا پانی خود بھی پئیں اور میاں پر بھی دم کردوں، یہ تصور میں میں کرنے لگ گئی تھی، لیکن آپ نے تین بار ’’منزل جدید‘‘ کا جو فرمایا تو اب وہی کررہی ہوں، اَلْحَمْدُ للہ۔ پھر یہ عامل والا عمل چھوڑ دوں؟

جواب:

فی الحال آپ اس کو نہ چھوڑیں، کیونکہ ’’منزل جدید‘‘ کا کام تو آہستہ آہستہ چلتا ہے یعنی یہ انسان کے اندر ایک مزاحمت ان چیزوں کے خلاف develop کرتی ہے، اس لئے آپ عامل والا جو کام ہے، وہ جاری رکھیں، لیکن یہ بھی ساتھ جاری رکھیں۔

سوال نمبر 20:

حضرت جی! ناپاکی کے ایام میں اس دعا کا متبادل فرما دیں۔

جواب:

اس وقت ’’لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيْمِ‘‘ پانچ سو مرتبہ پڑھ لیا کریں۔

سوال نمبر 21:

السلام علیکم۔

I pray you are well dear Sheikh. I have completed my second month of twenty minutes مراقبہ imagining my heart saying Allah while Allah is looking at it with love. I have found my focus to be very poor. In fact it feels worse than I had ten or fifteen minutes مراقبہ for the past two weeks. In fact I keep falling asleep during it despite trying before and after all the five day’s prayers. I can’t understand what the reason may be for this? I missed my مراقبہ for two days. Kindly advise for next time. Below, I have attached my معمولات چارٹ for last month. Even though it is far from perfect I experienced great benefits in it. It has forced me to have discipline. I am still struggling with تہجد but ان شاء اللہ I have plan in place to start getting regular soon. I also wanted to ask dear Sheikh, can I keep more fasts as in winter now they also last for eleven hours in the UK and are quite easy. If so, should I fast daily or do it with some breaks?

جواب:

آپ کو اختیار ہے کہ آپ دونوں میں سے جو بھی کرسکتے ہیں، وہ کریں۔ یہ بات صحیح ہے، کیونکہ فرمایا گیا ہے کہ جو سردیاں ہیں، یہ مومن کے لئے جنت کی طرح ہیں، کیونکہ اس میں تہجد بھی آسان ہوجاتی ہے اور روزہ رکھنا بھی آسان ہوجاتا ہے۔ بہرحال آپ اگر کرسکتے ہیں تو بیشک کرلیں۔ باقی آپ اپنے معمولات کو regular کرنے کی کوشش کرلیں یعنی اپنی جو نیند ہے وہ پوری کرکے، تاکہ آپ کے معمولات صحیح طریقے سے پورے ہوجایا کریں، اس لئے آپ timetable ایسا بنا لیں کہ آپ کی نیند بھی پوری ہو اور معمولات بھی پورے ہوں۔

سوال نمبر 22:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت جی! اللہ پاک سے آپ کی صحت و تندرستی اور بلندیٔ درجات کے لئے دعاگو ہوں۔ حضرت جی! میرا مسئلہ یہ ہے کہ 23 اکتوبر کو مجھے شدید قسم کا typhoid کا بخار ہوا، جس کے نتیجے میں کئی دن بستر پر پڑا رہا اور چھے یا سات مرتبہ فجر کی نماز قضا ہوئی اور اس کے علاوہ دو دن کا ذکر بھی قضا ہوا۔ اور نفس انتہائی سرکشی اور گناہ کبیرہ پر تلا ہوا ہے، مجھے اپنے آپ پر کچھ بھی اختیار محسوس نہیں ہورہا اور اپنے آپ کو بے بس محسوس کرتا ہوں، اگر برائی کے لئے سازگار ماحول ملے تو خدانخواستہ کبیرہ گناہ کا ارتکاب نہ کر بیٹھوں۔ ساتھ ساتھ وساوس بھی آتے ہیں کہ گناہ اگر ہو بھی جائے تو کیا ہوا توبہ کرلینا۔ میں عزم تو کرتا ہوں کہ ایسی جگہ جاؤں ہی نہ جہاں گناہ کا خدشہ ہو، لیکن اس عزم کو بہت کمزور پاتا ہوں، مجھے لگتا ہے کہ میں نفس کا غلام بن چکا ہوں۔ معمولات تقریباً ہورہے ہیں، تلاوت قرآن، چہل حدیث شریف، مناجاتِ مقبول تقریباً روز پڑھ رہا ہوں۔ اور بیماری کے بعد جماعت کی نماز میں کوتاہی ضرور ہوگئی ہے، لیکن جیسے تھکاوٹ اور کمزوری میں افاقہ محسوس ہوتا ہے تو نماز باجماعت ادا کرتا ہوں۔ برائے مہربانی اس بارے میں رہنمائی فرمائیں۔ اللہ پاک آپ کے درجات کو بلند فرمائے، آپ کو اجر عظیم عطا فرمائے۔

جواب:

دیکھیں! بیماری تو ایک غیر اختیاری یعنی اضطراری مجاہدہ ہے، جس میں بہت بہت فیض ملتا ہے، لہٰذا اس کے بارے میں آپ سے جو ہوسکتا ہے، اس میں کمی نہ کریں اور جو نہ ہوسکے اور وہ ایسی چیزیں ہوں جو فرائض و واجبات کے بعد کی چیزیں ہوتی ہیں تو اس پر آپ کی جو دل کی کڑھن ہے یہ اس کی تلافی کردیتی ہے۔ بہرحال آپ کوشش کرلیں کہ کوئی ناغہ نہ ہو، لیکن بیماری وغیرہ کی وجہ سے ناغہ ہوجائے تو کوشش کرلیں کہ مکمل ناغہ نہ ہو، تھوڑا بہت اس میں اپنا حصہ ضرور ادا کرلیا کریں۔ باقی جو گناہ ہے، تو اس کے وساوس تو عمر بھر آتے رہیں گے، اس سے مفر نہیں ہے، کیونکہ شیطان موجود ہے، نفس موجود ہے، لہٰذا یہ تو ہوتا رہے گا، لیکن ہم لوگوں کو باہمت ہونا چاہئے اور ہمیں یہ سوچنا چاہئے کہ جب بھی کوئی اس قسم کا موقع آئے گا تو وہ موقع ہی کمانے کا ہوگا، کیونکہ ایک طرف اللہ کا حکم ہے اور ایک طرف نفس کی چاہت ہے، اگر ہم نفس کی چاہت کو چھوڑ کر اللہ کے حکم پر عمل کریں گے تو یہی تقویٰ ہوتا ہے اور تقویٰ ہی سے سارے کام ہوتا ہے، لہٰذا اس کے لئے اپنا ذہن بنا لیا کریں۔

سوال نمبر 23:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔

نمبر 1: تمام لطائف پر پانچ منٹ ذکر اور مراقبہ شیونات ذاتیہ پندرہ منٹ ہے، محسوس نہیں ہوتا۔

جواب:

آپ اس کو ایک مہینہ اور کروا دیں۔

نمبر 2: تمام لطائف پر پانچ منٹ ذکر اور مراقبہ آیت الکرسی پندرہ منٹ ہے، محسوس نہیں ہوتا۔

جواب:

آپ اس کو ایک مہینہ اور کروا دیں۔

نمبر 3: تمام لطائف پر پانچ منٹ ذکر اور مراقبہ شیونات ذاتیہ پندرہ منٹ ہے اور محسوس ہونے لگا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مختلف شانیں ہوتی ہیں۔

جواب:

سبحان اللہ! تو اب آپ اس طرح کرلیں کہ اس کی جگہ صفات سلبیہ والا یعنی مراقبہ تنزیہ ان کو دے دیں۔

نمبر 4: اس ہفتہ میں اَلْحَمْدُ للہ! بھوک رکھ کے کھانا کھایا ہے، لیکن ایک کمی آئی ہے، وہ یہ کہ اس ہفتہ میں اکثر رات کا کھانا کھایا ہے، اگرچہ پیٹ بھر کر نہیں کھایا، بلکہ کھانا چھوڑتے وقت کھانے کا اشتیاق باقی رہتا تھا اور کھاتے وقت یہ ڈر لگ رہا تھا کہ یہ مقررہ مقدار سے بڑھ نہ جائے، لیکن اَلْحَمْدُ للہ! معدہ بھی کافی ہلکا رہتا ہے، ورنہ پہلے اکثر وقت بوجھل رہتا تھا۔

جواب:

ماشاء اللہ! اس کو جاری رکھیں۔

سوال نمبر 24:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت! میرے وظیفہ کا مہینہ پورا ہوگیا ہے۔ میرا وظیفہ پانچ ہزار مرتبہ ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کا زبان سے ذکر ہے اور تین مرتبہ آیت الکرسی اور دس منٹ ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کا مراقبہ دل پر ہے۔ حضرت! مراقبے میں توجہ بالکل نہیں رہتی اور توجہ اس لئے نہیں رہتی کہ مجھے فلاں تکلیف ہے، اس کی وجہ سے بھی میں زیادہ ایک جگہ پر نہیں بیٹھ سکتی اور توجہ بالکل بھی نہیں رہتی، باقی میں زبانی ذکر کرتی ہوں، کبھی بیٹھے اور کبھی چلتے پھرتے کرلیتی ہوں۔ اور میرا دل خالی خالی سا ہوتا ہے اور حضرت دل کے خالی خالی ہونے کے بارے میں میں نے آپ کو پچھلے مہینے بھی بتایا تھا اور ابھی بھی ویسے ہی ہوتا ہے۔ اب میرے لئے کیا حکم ہے؟

جواب:

اب ساڑھے پانچ ہزار مرتبہ ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کا ذکر زبان سے کرلیا کریں اور مراقبہ میں کوشش کرلیا کریں کہ اگر بیٹھا نہیں جاتا تو کھڑے کھڑے بھی آپ مراقبہ کرسکتی ہیں، کیونکہ یہ کسی بھی طریقے سے ہوسکتا ہے، لہٰذا اگر آپ کی مجبوری ہے تو کھڑے کھڑے بھی کرسکتی ہیں۔

سوال نمبر 25:

حضرت! میں نے شادی اپنی مرضی سے اور اپنے والدین کی مخالف جگہ میں کی ہے، اب سب ٹھیک ہیں اور راضی ہیں، مگر خاوند سے مسائل چلتے رہتے ہیں، کسی لڑکی کے ساتھ شاید اس کے تعلقات ہیں، مجھ سے وہ لڑتے ہیں، جھگڑتے ہیں۔ آپ مجھے وظائف بتا دیں کہ جس سے مجھے دلی سکون رہے اور آپ کی اگر کوئی مجلس ہوتی ہے تو وہ بھی بتا دیں، تاکہ میں آیا کروں اور میں بیعت ہونا چاہتی ہوں، میرے بھائی نے مجھے آپ کے بارے میں بتایا تھا۔ اور میں عدنان کاکاخیل صاحب کے بیانات بھی سنتی ہوں۔

جواب:

مجھے نہیں معلوم کہ آپ کہاں پر رہتی ہیں۔ اگر آپ راولپنڈی یا اسلام آباد میں رہتی ہیں تو پھر تو یہاں پر آسکتی ہیں۔ اس وقت میں آپ کو location send کردوں گا، اتوار کے دن ہمارا بیان ہوتا ہے خواتین کے لئے گیارہ بجے سے لے کر بارہ بجے تک، اس میں آپ آسکتی ہیں اور پھر اگر چاہیں تو بیعت بھی ہوسکتی ہیں۔ بہرحال اس وقت آپ ’’وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيْمِ‘‘ پانچ سو مرتبہ عصر کی نماز کے بعد اور اگر کسی وقت نماز نہ پڑھنی ہو تو جو عصر کا وقت ہوتا ہے، اس میں پانچ سو مرتبہ پڑھ لیا کریں۔ ان شاء اللہ العزیز! اللہ پاک آسانی فرمائیں گے۔

سوال نمبر 26:

حضرت! ویسے تو پرانی بات ہے، لیکن تھوڑی تجدید کرنا چاہتا ہوں کہ جو بعض نقشبندی حضرات ہیں، وہ کہہ رہے ہیں کہ اصلاح قلب کے ذریعہ سے بھی ہوتی ہے۔ اس کی کیا حقیقت ہے؟ بار بار وہ ہر جگہ یہی بات کہتے ہیں اور حدیث مبارکہ میں جو آتا ہے: ’’‏‏‏‏‏‏أَلَا وَإِنَّ فِي الْجَسَدِ مُضْغَةً إِذَا صَلُحَتْ صَلُحَ الْجَسَدُ كُلُّهُ وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ كُلُّهُ، ‏‏‏‏‏‏أَلَا وَهِيَ الْقَلْبْ‘‘۔ (بخاری، حدیث نمبر 52)

ترجمہ: ’’سن لو بدن میں ایک گوشت کا ٹکڑا ہے جب وہ درست ہوگا تو سارا بدن درست ہوگا اور جہاں وہ بگڑا تو سارا بدن بگڑ گیا۔ سن لو وہ ٹکڑا آدمی کا دل ہے۔‘‘

یعنی اس حدیث کی روشنی میں وہ کہتے ہیں کہ دل کی اصلاح سے نفس کی اصلاح بھی ہوجاتی ہے۔

جواب:

ہم بھی یہی کہتے ہیں۔ لیکن کس طرح ہوجاتی ہے؟ وہ بتاتا ہوں، اور یہ میں نہیں بتاتا بلکہ مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں، شاہ غلام علی صاحب فرماتے ہیں، شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں یعنی بڑے بڑے نقشبندی حضرات یہ بات فرماتے ہیں۔ اور دو کے بارے میں تو سارے بتاتے ہیں یعنی نفس اور قلب کے بارے میں، لیکن عقل کے بارے میں شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے بہت زیادہ بات کی ہے، آپ یوں کہہ سکتے ہیں کہ پہلی دفعہ انہوں نے اس کو باقاعدہ علمی صورت دی ہے، اگرچہ انکار تو کسی نے بھی پہلے نہیں کیا تھا، لیکن اتنا زیادہ stress جو کیا ہے وہ حضرت نے اس پر کیا ہے۔ لہٰذا اب اگر دو لطائف سمجھیں یا تین لطائف سمجھیں، اس سے اس وقت میں غرض نہیں رکھتا، کیونکہ یہ سب قرآن میں ہیں اور حدیث میں ہیں، لہٰذا اس پر بھی کوئی بات کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ بہرحال اگر حدیث شریف میں یہ ہے کہ دل اصل ہے، اگر وہ ٹھیک ہوگیا تو سارا جسم ٹھیک ہوگیا، اگر وہ خراب ہوگیا تو سارا جسم خراب ہوگیا، تو قرآن میں نفس کے بارے میں ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

﴿قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَا﴾ (الشمس: 9-10)

ترجمہ: ’’فلاح اسے ملے گی، جو اس نفس کو پاکیزہ بنائے، اور نامراد وہ ہو گا، جو اس کو (گناہ میں) دھنسا دے‘‘۔

اور اس سے پہلے فرمایا:

﴿وَنَفْسٍ وَّمَا سَوّٰىهَا فَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَتَقْوٰىهَا﴾ (الشمس: 7-8)

ترجمہ: ’’اور انسانی جان کی، اور اس کی جس نے اسے سنوارا۔ پھر اس کے دل میں وہ بات بھی ڈال دی جو اس کے لیے بدکاری کی ہے، اور وہ بھی جو اس کے لیے پرہیزگاری کی ہے‘‘۔

آپ علماء حضرات جانتے ہیں کہ ﴿قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَا﴾ میں ھا ضمیر کس طرف راجح ہے، یہ نفس کی طرف ہے، کیونکہ قریب ترین یہی ہے۔ یعنی یقیناً کامیاب ہوگیا وہ شخص جس نے اپنے نفس کو پاک کردیا یا رذائل کو دبا دیا۔ تو اس میں اللہ تعالیٰ قد کے ساتھ یہ فرما رہے ہیں یعنی یقیناً۔ تو ایک اللہ تعالیٰ کی بات ہے اور ایک آپ ﷺ کی بات ہے، کیا ان دونوں میں اختلاف ہوسکتا ہے؟ دونوں میں اختلاف نہیں ہوسکتا۔ لیکن اب ان کو کیسے جمع کیا جائے گا؟ اور میں اس وقت دو کی بات کررہا ہوں، تیسرے کی ابھی فی الحال بات نہیں کررہا۔ خیر دو کو اس طرح جمع کیا جائے گا کہ اگر دل کی اصلاح ہوتی ہے تو پھر نفس کی اصلاح ممکن ہے اور اگر نفس کی اصلاح ہوتی ہے تو پھر دل کی اصلاح ممکن ہے، یعنی دل کی اصلاح ذریعہ بنتی ہے نفس کی اصلاح کا، کیونکہ قوت عازمہ دل میں ہے، اس لئے نفس کو اصلاح پر مجبور کرنے والا دل ہے، لہٰذا دل کی اصلاح پہلے اس لئے کی جاتی ہے، تاکہ نفس کی اصلاح کے لئے انسان تیار ہوجائے۔ اسی کو جذب کہتے ہیں اور جذب حاصل اس لئے کیا جاتا ہے، تاکہ سلوک طے کیا جائے اور سلوک نفس کی اصلاح ہے، لہٰذا سلوک طے کرنے کے لئے جذب پہلے حاصل کیا جاتا ہے۔ اور پہلے وقتوں میں سلوک ہی سے کام شروع کیا جاتا تھا، اس کے بعد پھر جب دل صاف ہوجاتا تھا تو اس کو جذب وہبی حاصل ہوجاتا تھا، کیونکہ اصل بات یہ ہے کہ دل اور نفس آپس میں ایک دوسرے کو متأثر کرتے ہیں۔ قوت عازمہ دل میں ہے تو وہ نفس کو متأثر کرتی ہے اصلاح کے لئے اور دل کو خراب نفس کرتا ہے، کیونکہ آنکھیں، کان، زبان ان سب میں نفس ہے، اس لئے جتنی چیزوں کے ساتھ ان کی interaction ہوتی ہے تو اثر دل پر پڑتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ نفس میں فجور ہے اور تقویٰ دل میں store ہوتا ہے، لہٰذا اگر نفس کے فجور کو مجاہدہ کرکے نہ مانا جائے اور اپنے آپ کو اس سے بچایا جائے، تو دل پر اثر ہوگا اور تقویٰ store دل میں ہوگا، لیکن بنے گا نفس میں اور فجور نفس میں بنے گا اور اثر دل پر ہوگا۔ لہٰذا جب تک نفس کی اصلاح نہیں ہوجاتی، اس وقت تک دل کی صفائی ممکن ہی نہیں، اس پر قسم کھائی جاسکتی ہے کہ جب تک نفس کی اصلاح نہیں ہوتی، اس وقت تک دل کی اصلاح ممکن ہی نہیں۔ لہٰذا اگر آپ ﷺ نے فرمایا ہے تو بالکل ٹھیک فرمایا ہے کہ دل کی اصلاح اگر ہوجائے تو ساری چیزیں ٹھیک ہوجائیں گی، لیکن اس سے پہلے نفس کی اصلاح ضروری ہے اور بغیر اس کے ممکن ہی نہیں اور جب ممکن ہی نہیں تو پھر دل کی اصلاح کیسے ہوسکتی ہے؟ وہ کہتے ہیں کہ دل کی اصلاح سے بھی نفس کی اصلاح ہوجاتی ہے تو بیشک ہوجاتی ہے، لیکن اس صورت میں کہ اس سے ابتدا ہوجاتی ہے، کیونکہ قوت عازمہ دل میں ہے۔ خلاصہ یہ کہ ان دونوں کو آپس میں مربوط سمجھنا چاہئے، ان دونوں کو آپس میں ایک دوسرے سے آزاد نہیں سمجھنا چاہئے، کیونکہ یہ ایک دوسرے کو متأثر کرتے ہیں۔ اور شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے ایک تیسری چیز کا بھی ذکر فرما دیا ہے اور وہ عقل ہے، عقل پہلے متأثر ہوتی ہے علم کے ذریعہ سے یعنی علم کا اثر عقل پر ہے، اور عقل جب ایک کام پر مطمئن ہوتی ہے تو وہ دل کو مطمئن کرتی ہے اور وہ قوت عازمہ apply کرکے نفس کو متأثر کرتا ہے یعنی channel اس طرح بنتا ہے، لیکن reverse بھی ہوتا ہے کہ نفس عقل کو بھی متأثر کرسکتا ہے، نتیجتاً وہ عقل برائی کے لئے استعمال ہوتی ہے۔ لہٰذا اس کا مطلب یہ ہے کہ ان تینوں کی اصلاح بیک وقت ضروری ہے، البتہ ترتیب کون سی ہونی چاہئے؟ مثلاً کافر میں بھی عقل ہوتی ہے، کافر کا بھی نفس ہوتا ہے اور کافر کا بھی قلب ہوتا ہے، لیکن اس میں ایمان نہیں ہوتا، کفر ہوتا ہے، لہٰذا اس کی عقل بھی کفر کے لئے استعمال ہوتی ہے اور اس کا نفس تو خیر ہے ہی برا، لیکن اس صورت میں ایمان کی روشنی جب دل میں آجاتی ہے، کیونکہ ایمان، کفر، محبت، نفرت اور جذبات یعنی یہ سب دل میں ہوتے ہیں، تو جب ایمان کی روشنی کسی دل میں آجائے تو اس ایمان کی روشنی سے عقل منور ہوجاتی ہے، پھر اس عقل کے ذریعہ سے اچھے برے کی پہچان ہوجاتی ہے یعنی پھر اچھے کو اگر اپنے ارادے کے ساتھ استعمال کرنا چاہے تو اس کے لئے قوت عازمہ دل کا استعمال کرلیتی ہے اور پھر اگر نفس کی اصلاح کرلے تو ماشاء اللہ! مکمل اصلاح ہوجاتی ہے، گویا کہ یہ تینوں آپس میں باہم مربوط ہیں، اور اس پر شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے ’’الطاف القدس‘‘ میں پورا ایک chapter لکھا ہے، جو پڑھنے کے قابل ہے، اس لئے اگر کوئی اس کو پڑھے تو بہت تفصیل کے ساتھ حضرت نے یہ بات بیان فرمائی ہے اور ہر ایک کی قرآن اور حدیث سے دلیل دی ہے، کیونکہ قرآن کی خدمت بھی اس خاندان نے کی ہے اور حدیث کی خدمت بھی ہندوستان میں کم از کم اس خاندان نے کی ہے یعنی شروع ان حضرات نے کیا ہے، لہٰذا ان دونوں طریقوں سے ان حضرات نے اس کو اچھی طرح سمجھا ہے۔ باقی صرف عقل تو یہ یونانیوں کی بات ہے، اور صرف قلب یہ مجذوبوں کی بات ہے یعنی وہ مجذوب جو کہ سمجھ نہ رکھتے ہوں، اور صرف نفس کی صفائی تو یہ جوگیوں کا کام ہے، لیکن ان تینوں کا مجموعہ یہ ہمارا کام ہے، اَلْحَمْدُ للہ! بس ان تینوں کی خدمت صفائی کے اعتبار سے ہم نے کرنی ہے۔

سوال نمبر 27:

حضرت! یہ قوت عازمہ قوت ارادی ہے؟

جواب:

جی قوت ارادی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

﴿فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِؕ﴾ (آل عمران: 159)

ترجمہ: ’’پھر جب تم رائے پختہ کر کے کسی بات کا عزم کرلو تو اللہ پر بھروسہ کرو۔‘‘

یعنی عزم اسی چیز کا نام ہے۔ دراصل اس چیز کو میں بار بار بیان کرتا ہوں اور اسی وجہ سے بیان کرتا ہوں جیسے آپ نے فرمایا، تو بار بار یہ چیزیں اٹھتی ہیں یعنی ذہنوں سے نہیں نکلتی، حالانکہ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ’’مکتوب نمبر 287‘‘ بہت قرب کے ساتھ لکھا ہے، اس سے پتا چلتا ہے کہ حضرت کو اس کا احساس ہوگیا تھا کہ یہ معاملہ بہت خطرناک بنتا جائے گا، اس لئے حضرت نے اس قسم کا مکتوب شریف لکھ دیا یعنی حضرت نے ایسے لوگوں کو جو صرف دل کی باتیں کرتے ہیں، ان کو مجذوب متمکن بتایا ہے اور مثال جو دی ہے، وہ انتہائی عجیب مثال ہے، چنانچہ حضرت نے فرمایا کہ ایک شخص ہے جو خانہ کعبہ حج کے لئے یا طواف کے لئے جانا چاہتا ہے یا زیارت کے لئے یا اعتکاف کے لئے جانا چاہتا ہے، لیکن اس کو خانہ کعبہ کا پتا نہیں ہے، بس اس نے سنا ہے، لیکن پتا نہیں ہے، اب وہ کہیں جاکر کسی عمارت کو خانہ کعبہ کی طرح سمجھ کر ادھر ہی ٹھہر جاتا ہے، تو فرمایا کہ نہ اس کا علم صحیح ہے، نہ عمل صحیح ہے، کیونکہ وہ جانتا نہیں ہے، اس لئے غلط جگہ پر بیٹھ گیا ہے۔ دوسرا وہ شخص ہے جو علماً جانتا ہے کہ خانہ کعبہ کون سا ہے، لیکن گھر میں بیٹھا ہے، ایک قدم بھی باہر نہیں نکالا، لیکن کم از کم یہ علماً تو ٹھیک ہے، لہٰذا یہ اُس آدمی سے اچھا ہے جو علماً بھی صحیح نہیں ہے اور عملاً بھی صحیح نہیں ہے، حالانکہ اس نے سفر بھی کیا، لیکن دوسرے سے کم ہے۔ اور تیسرا وہ شخص ہے جو چل پڑا ہے اور وہ خانہ کعبہ جانتا ہے، لیکن ابھی پہنچا نہیں ہے، تو وہ ان دونوں سے اچھا ہے۔ اور چوتھا وہ ہے جو پہنچ گیا ہے۔ خیر حضرت نے اس طرح مثال دی ہے۔ اب جو لوگ دوسری جگہ بیٹھ گئے اور خانہ کعبہ کو سمجھے نہیں ہیں، تو وہ بیچارے کیا ہیں؟ وہ کچھ بھی نہیں رہے۔ ایسے ہی اس وقت نقشبندی سلسلے میں بہت سارے حضرات اسی طرح بیٹھے ہوئے ہیں، جن کا یہ concept ہے جو آپ فرما رہے ہیں اور مجدد صاحب کے نزدیک مجذوب متمکن ہیں اور ساری نشانیاں ان میں مجذوب متمکن کی ہیں جو حضرت نے بتائی ہیں کہ توجہ کی قوت ان کی زیادہ ہوتی ہے اور اس طرح وہ پیر بن جاتے ہیں اور لوگوں کو متأثر بہت کرلیتے ہیں۔ لہٰذا اگر یہ چیزیں ان کی صحیح نہیں ہوئیں تو بیچارے بہت خسارے میں ہیں۔ ہمارے پاس یہاں فرحان صاحب آتے ہیں، انہوں نے اپنا خواب بتایا کہ خواب میں آپ ﷺ کی زیارت ہوئی، یہ recently وہ خواب میں دیکھتے ہیں کہ آپ ﷺ تشریف فرما ہیں اور ان کے اردگرد صوفی لوگ حلقے کی صورت میں بیٹھے ہوئے ہیں اور صوفیانہ لباس میں ہیں یعنی جیسے پورا طریقۂ کار صوفیوں کا ہوتا ہے اور وہ آپ ﷺ کی طرف دیکھ رہے ہیں، پھر فرحان صاحب کہتے ہیں کہ جس وقت میں آیا تو حضرت ﷺ نے فرمایا: کہ یہ نہیں، بلکہ ادھر (ایک اور گروپ جو کہ دور ہے اور وہ لوگوں کی اصلاح میں مشغول ہے، آپ ان کو نہ دیکھو بلکہ ان کو) دیکھو یعنی وہ اصل لوگ ہیں۔ اب میں نے جب دیکھا کہ وہ لوگوں کی اصلاح میں مشغول ہیں اور پورے اس کے اندر خوار وزار ہورہے ہیں اور اس کے اندر پوری محنت کررہے ہیں اور ان کا کوئی جبہ قبہ نہیں ہے، بس عام سادہ لباس میں ہیں، لیکن وہ کام کررہے ہیں۔ اب بتائیں! آپ ﷺ کی توجہ کس طرف ہے؟ بس یہ اصل بات ہے۔ لیکن آج کل یہ بڑا مسئلہ ہے کہ صوفیانہ شان تو بنا لیتے ہیں جو ان کا طریقۂ کار ہوتا ہے، لیکن وہ صوفیوں والا کام نہیں کرتے، بس اپنے خیالات میں رہتے ہیں، بس اِدھر پہنچ گئے اور اُدھر پہنچ گئے، بس ساری باتیں وہی ہورہی ہوتی ہیں اور اصل چیز نہیں ہوتی۔ جیسے ان حضرات کو اچھی طرح آپ نے دیکھا بھی ہوگا اور اگر دیکھنا چاہتے ہیں تو دیکھ بھی لیں کہ کبھی وہ اپنی اصلاح کی باتیں کرتے ہیں؟ یعنی تکبر نکالنے کی، اخلاص پیدا کرنے کی کہ کچھ ترتیب بتاتے ہوں یا کوئی ان کو خط میں بتاتے ہوں؟

سوال نمبر 28:

حضرت! وہ یہ کہتے ہیں کہ لطیفۂ قلب کا اثر یہ ہے کہ اس سے فلاں رذیلہ نکلتا ہے، نفس سے فلاں رذیلہ نکلتا ہے یعنی اس پر مراقبہ کرنے سے رذائل خود بخود نکل رہے ہیں۔

جواب:

صرف مراقبہ کرنے سے نہیں ہوتا، ورنہ وہ نفس کے اوپر محںت کرنے کی بات کہاں جائے گی؟ کہ اللہ فرماتے ہیں:

﴿وَالَّذِیْنَ جَاهَدُوْا فِیْنَا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَا﴾ (العنکبوت: 69)

ترجمہ: ’’اور جن لوگوں نے ہماری خاطر کوشش کی، ہم ان کو ضرور بالضرور اپنے راستوں پر پہنچا دیں گے‘‘۔

باقی یقیناً لطائف ابتدا ہیں، اور دوسری بات یہ ہے کہ جو لطائف ہیں، وہ انسان کے اندر شعور اور احساس پیدا کرتے ہیں اور جب شعور اور احساس پیدا ہوجائے تو پھر اس پر کام کرنا پڑتا ہے اس کے مطابق۔ اور اصل بات یہ ہے کہ لطائف کے پیچھے پوری محنت ہوتی ہے، بلکہ آپ یوں کہہ سکتے ہیں کہ ایک ہوتا ہے لطائف کا محسوس کرنا اور ایک ہوتا ہے لطائف کا صحیح معنوں میں جاری ہونا، صحیح معنوں میں جاری ہونے کا مطلب اس کا وہاں مرکز کے ساتھ تعلق ہوجائے جو عرش سے اوپر ہے اور جس کا تعلق ہوجائے تو وہ بالکل فنا ہوجاتا ہے، آپ یقین کیجئے جس کا قلب واقعی صحیح معنوں میں جاری ہوجائے تو وہ دنیا سے متنفر ہوجاتا ہے، وہ دنیا میں رہ کر دنیا کا نہیں رہتا اور اس کا مجھے تجربہ ہوا ہے۔ تجربہ ایسے ہوا کہ ایک خاتون نے مجھے فون کیا جو مجھ سے بیعت تھی اور وہ کراچی میں تھی اور اس کی شادی نئی نئی ہوئی تھی، اس نے مجھے فون کیا کہ شاہ صاحب! مجھے تو بڑا مسئلہ ہے، سسرال والے بڑے پریشان ہیں، میرا تو دنیا کے کسی کام میں بھی جی نہیں لگتا، اب میں حیران ہوں کہ کیا کروں؟ وہ بھی بڑے پریشان ہیں کہ یہ تو پاگل ہے یا کیا ہے؟ اور واقعتاً ان کی بات بھی صحیح ہے، تو میں اب کیا کروں؟ میں نے کہا کہ بیٹا! آپ کے لطائف میں لطیفۂ قلب کیسا چل رہا ہے؟ کہتی کہ ٹھیک چل رہا ہے، میں نے کہا کہ لطیفۂ روح کیسا چل رہا ہے؟ کہتی کہ کمزور ہے، میں نے کہا کہ لطیفۂ سر کیسا چل رہا ہے؟ کہتی کہ وہ ٹھیک چل رہا ہے، میں نے کہا کہ بس مسئلہ اسی میں ہے، پھر میں نے کہا کہ آپ اس طرح کرلیں کہ لطیفۂ قلب کی محنت کو آدھا کرکے باقی ٹائم لطیفۂ روح کو دیں اور لطیفۂ روح کے اوپر محنت کریں۔ لہٰذا جب لطیفۂ روح کے اوپر محنت شروع کی تو کچھ عرصے بعد اس کا فون آیا کہ اب ٹھیک ہوگیا معاملہ۔ اب دیکھیں! قلب نے تو اس کو بھگا دیا تھا، لیکن روح اس کو دنیا میں واپس لاتی ہے کہ اب کام کرو۔ اس کا چونکہ لطیفۂ روح ٹھیک نہیں چل رہا تھا تو معاملہ گڑبڑ تھا اور وہ چونکہ اس وقت مجذوبہ تھی، اس لئے کام نہیں کرسکتی تھی۔ جب مجھے فون کیا تو مجھے فوراً پتا چل گیا کہ اس کا مسئلہ یہ ہوگیا ہے۔ لہٰذا صحیح معنوں میں جب لطائف جاری ہوجائیں تو اس کا اثر ہوتا ہے، اس لئے یہ جو باتیں کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے ان کے صحیح لطائف جاری نہیں ہوئے، انہوں نے اپنے لطیفۂ قلب کو سمجھا ہی نہیں کہ لطیفۂ قلب ہوتا کیا ہے؟ مجھے حضرت مسرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے چلتے چلتے فرمایا یعنی یہ کوئی باقاعدہ وعظ یا مجلس نہیں تھی، بس اس طرح چل رہے تھے اور باتیں ہورہی تھیں، مجھے کہتے ہیں کہ شبیر! یہ لوگ کہتے ہیں کہ جب ہم اچھی محفل میں ہوتے ہیں تو ہمارے لطائف چل پڑتے ہیں۔ لیکن ہمارا معاملہ تو الٹا ہے کہ جب ہم بری جگہ پر جاتے ہیں تو ہمارے لطائف چلتے ہیں یعنی غلط جگہوں پر جب جاتے ہیں تو وہاں ہمارے لطائف چل پڑتے ہیں۔ اب یہ میرے لئے ایک information تھی، لیکن بعد میں وہ مجھے سمجھ میں آگیا، پھر اس پر میں نے ویڈیو بھی بنائی ہے، اس ویڈیو میں یہ ہوتا ہے کہ جو لطیفہ ہے، یہ پہلے کثیف ہوتا ہے چونکہ ذاکر نہیں ہوتا، لیکن جب آپ اس پر ذکر کرتے ہیں تو یہ لطیف ہوتا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ amplitude کی طرح چلتا ہے اور پھر جس وقت لطیفہ میں لطافت مزید آتی جاتی ہے تو اس کا amplitude کم ہوتا جاتا ہے اور frequency بڑھتی جاتی ہے یعنی حرکت تیز ہوجاتی ہے اور amplitude کم ہوتا ہے حتیٰ کہ amplitude اس کا اتنا کم ہوجاتا ہے اور frequency اتنی زیادہ ہوجاتی ہے کہ بالکل غیر محسوس ہوجاتی ہے، جیسے جہاز میں آپ جارہے ہوں تو آپ کو چلتا ہوا محسوس ہی نہیں ہوتا، کیونکہ اس کی frequency بہت زیادہ ہوتی ہے اور amplitude بہت کم ہوتا ہے، اس لئے آپ کو محسوس ہی نہیں ہوتا اور اگر گاڑی میں آپ جاتے ہیں تو آپ کو بہت محسوس ہوتا ہے۔ لہٰذا عام حالات میں آپ کو محسوس ہی نہیں ہورہا ہوتا، لیکن آپ کے لطائف تو چل رہے ہیں۔ تو جس وقت آپ گناہ کے ماحول میں جاتے ہیں تو اس وقت پھر یہ کثیف ہونا شروع ہوجاتا ہے اور جیسے کثیف ہونا شروع ہوگیا تو اس نے کام شروع کرلیا۔ یہی وہ اصل چیز ہے جو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمائی کہ اصل ذکر وہ ہے جو انسان کو گناہ سے بچائے۔ اس لئے جس وقت انسان کے لطائف گناہ کے وقت چل پڑیں تو اس نے alarm دے دیا، اب صرف ہمت کی بات ہے کہ ہمت کرکے اس سے بچ جائیں، کیونکہ alarm تو ہوگیا ہے۔ کرنل صاحب نے مجھے یہ بات بتائی ہے جو شوڈاگو بابا جی کے خلیفہ ہیں جو چارسدہ میں تھے، ان سے میں نے باتوں باتوں میں ایک بات کی اور میں نے کہا کہ جو لطائف لسانی ذکر کی کثرت سے جاری ہوجاتے ہیں تو وہ پھر بند نہیں ہوتے، پھر وہ چل پڑتے ہیں۔ وہ کہنے لگے کہ یہ بات تو شوڈاگو بابا نے کی ہے، انہوں نے فرمایا کہ میں ایک سو چھے سال کا (چونکہ حضرت بڑی عمر میں فوت ہوئے تھے، تو فرمایا کہ میں تمہیں ایک سو چھے سال کا) تجربہ بتا رہا ہوں کہ جو لسانی ذکر کی کثرت سے لطائف چل پڑتے ہیں وہ پھر رکتے نہیں ہے۔ میں نے کہا یہ تو آپ سے حضرت کی تائید بھی حاصل ہوگئی۔ چونکہ ہم لوگ ذرا دوسرے طریقے سے آئے ہیں، اس لئے اَلْحَمْدُ للہ! دوسرے طریقے بھی ہمارے سامنے تھے، ہمیں معلوم تھا کہ اس طریقے سے بھی ہوسکتا ہے، جبکہ یہ لوگ ان چیزوں سے آشنا ہی نہیں کہ اس طریقے سے بھی ہوسکتا ہے، مثلاً میں نے کبھی بھی لطائف کی وہ محنت نہیں کی جو نقشبندی حضرات نے کی ہے، لیکن وہ ذکر جہری سے جاری ہوئے ہیں اور اب چل پڑے ہیں اَلْحَمْدُ للہ! اور کبھی بھی نہیں بند ہوئے، بلکہ مفتی مختار الدین شاہ صاحب ایک دفعہ آئے تھے تو مجھے باقاعدہ بیٹھایا اور مجھے کہتے ہیں کہ اپنا ذکر کرو تو میں نے ذکر شروع کیا، تو مجھے کہتے ہیں کہ یہاں پر ہورہا ہے۔ دراصل ہمارے لطائف میں بنوری لطائف ہوتے ہیں، چونکہ ہمارا تو نظام اُُدھر کا تھا، جیسے قلب، روح، سر، خفی، اخفیٰ، اخفیٰ ادھر ہے، تو لطیفۂ اخفیٰ اِدھر چل پڑتا ہے اور بنوریہ کے لطیفۂ اخفیٰ کا یہ اثر ہے کہ اس سے سارے لطائف چل پڑتے ہیں، یعنی جس کا لطیفۂ اخفیٰ چل پڑا تو اس کے سارے لطائف چل پڑتے ہیں۔ خیر! میرا مقصد یہ ہے کہ ہم نے چونکہ دوسرے سلسلوں کے کام کو بھی دیکھا تھا، اس وجہ سے اَلْحَمْدُ للہ! یہ چیزیں سامنے آگئی ہیں اور ان حضرات کو وہ چیزیں ابھی سامنے نہیں آئیں، بس ان کی اپنی routine ہے کہ توجہ سے لطائف جاری کرواتے ہیں اور آپ نے دیکھا ہوگا کہ اکثر وہ جو اجتماعی مراقبہ کرتے ہیں، وہ توجہ کرتے ہیں اور باقاعدہ توجہ کرتے ہیں، میں خود بھی اس میں بیٹھا ہوں، یا پھر شاعری کرتے ہیں یعنی اشعار پڑھ پڑھ کے توجہ کرتے ہیں، لیکن یہ اشعار کی توجہ ہوتی ہے، اور اس کے ذریعے سے جاری کرتے ہیں، مگر یہ وقتی چیز ہوتی ہے، بس مجلس میں جاری ہوگئے، مجلس سے اٹھ کے چلے گئے تو ختم۔ جبکہ ہمارے ہاں یہ چیزیں نہیں ہوتی، ہم مجلس میں توجہ کے ذریعے سے ان چیزوں کو نہیں جاری کرتے، ہاں! ان کو ذکر دیتے ہیں، جیسے دو ہزار، چار ہزار اور چھے ہزار، بس یہی چیزیں آخر میں راستہ بن جاتی ہیں۔ حضرت تھانوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ چوبیس ہزار صبح اور چوبیس ہزار شام ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کا ذکر بھی دیتے تھے اور حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ بھی دیتے تھے۔ اگرچہ مجھے تو نہیں دیا تھا، لیکن دیتے تھے۔

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ


  1. ۔ (آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب)

    نوٹ! تمام آیات کا ترجمہ آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم سے لیا گیا ہے۔

سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات - مجلسِ سوال و جواب