سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 649

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

اَلْحَمْدُ لِلّٰہ رَبِّ الْعَلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ


سوال نمبر 1:

السلام علیکم! محترم شیخ صاحب امید ہے کہ خیریت سے ہوں گے۔ میں آپ کے بتائے ہوئے مندرجہ ذیل اذکار کرنے کی کوشش کررہا ہوں۔ نماز کے بعد کے اذکار، روزانہ کے اذکار تاحیات، ایک ماہ کے اذکار سو سو دفعہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ“، ”لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُو“، ’’حَقْ اَللّٰہ‘‘ کوشش ہوتی ہے کہ اذکار بلا ناغہ ہوں لیکن پھر بھی ناغہ ہوجاتا ہے، اب آپ بندہ کے لئے کیا ہدایت دیں گے؟

جواب:

ماشاءاللہ! نمبر ایک اور نمبر دو تو وہی رکھیں، اور نمبر تین میں آپ اب ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ“ دو سو مرتبہ، ”لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ“ دو سو مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ دو سو مرتبہ اور ’’اَللّٰہْ‘‘ سو مرتبہ کریں اور ناغہ بالکل نہ کریں، ناغے سے بڑی بے برکتی ہوتی ہے، انسان بڑا پیچھے چلا جاتا ہے۔ ابھی تو آپ نے ذکر شروع کیا ہے، شروع میں ہی اگر آپ ناغے کررہے ہیں تو پھر بڑے مسائل ہوجائیں گے، لہٰذا اپنے آپ کو ناغے سے بچانا چاہیے۔ ناغہ اکثر اس لئے ہوتا ہے کہ انسان ذکر کے لیے ایسے وقت کو چن لیتا ہے جو خطرے والا ہو، لہٰذا ذکر کے لیے سوچ سمجھ کر اپنا وقت چنیں تاکہ ناغے کی صورتحال نہ بنے۔

مثلاً اگر آپ کا وقت صبح یا دوپہر کا ہے اور اس میں خدانخواستہ ذکر نہ ہوسکے تو کم ازکم سونے سے پہلے پہلے ضرور ہونا چاہیے۔ لیکن عشاء کے بعد کا وقت مستقل نہ رکھیں کیونکہ اس میں ناغے کا امکان بہت زیادہ ہوجاتا ہے۔



سوال نمبر 2:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

Maulana I pray that you are well ان شاء اللہ. I performed the ذکر you had given to me, two hundred times ‘‘لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ’’ four hundred times ‘‘لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُو’’ six hundred times حق and fifteen hundred times ‘‘اَللّٰہْ’’. Always feel really good when I do the ذکر and after that when I read the Quran. I also see that it helps me to control my desires. It helps me to eat less for example اَلْحَمْدُ .لِلّٰہ May Allah bless you and preserve you ya maulana.

جواب:

مَاشَاءَ اللّٰہ you continue the ذکر by changing only from fifteen hundred times ‘‘اَللّٰہْ’’ to two thousands times ‘‘اَللّٰہْ’’. The rest will be the same اِنْ شَاءَ اللہُ for one month.

سوال نمبر 3:

حضرت السلام علیکم! میں فلاں from بہاولپور۔

حضرت! اس مہینے کی کار گزاری پیش خدمت ہے، نفی اثبات سو مرتبہ، ’’اِلَّا ھُوْ‘‘ سو مرتبہ، اسم ضمیر سو مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ سو مرتبہ، ’’حَقْ اَللّٰہ‘‘ سو مرتبہ، مراقبہ دعائیہ پندرہ منٹ، مراقبہ فنائیت پندرہ منٹ، خاموش اسمِ ذات ایک منٹ، مراقبہ سورۃ اخلاص پانچ منٹ، اسم ذات Forty eight thousand.

جواب:

مَاشَاءَ اللّٰہ اب سورۃ اخلاص کی جگہ آیت الکرسی کا مراقبہ کرلیا کریں باقی چیزیں وہی رکھیں اِنْ شَاءَ اللہُ۔

سوال نمبر 4:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! حضرت جی میرا نام فلاں ہے، میرا تعلق لیہ میں چوک منڈا سے ہے، میں نے اپنی بیٹی کا نام رکھنا ہے کوئی نام بتا دیں عائشہ، خدیجہ، آمنہ نام کی بچیاں ہیں۔

جواب:

آپ بچی کا نام زینب رکھ لیں۔

سوال نمبر 5:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ حضرت جی! کچھ مہینے پہلے میری ایک آفس میں Job تھی، کام کے سلسلے میں آفس کے accountant کے ساتھ فون پر اکثر رابطہ رہتا تھا، ہمیشہ کام کے سلسلہ میں ہی بات ہوتی تھی، accountant پاکستانی تھے، اس لئے سلام جواب اور حال احوال بھی پوچھتے۔ مجھے آفس کے لوگوں نے بتایا کہ یہ شخص قادیانی ہے۔ اس کے بعد کام کی نوعیت کی وجہ سے ان سے رابطہ رکھنا پڑا کیونکہ accountant کو تبدیل کرنا میرے اختیارات میں نہیں تھا۔ فون پر بات ہوتی تو وہ سلام کرتا اور میں مجبورًا جواب دیتا تھا۔ اب اپنی اس کمزوری پر شرمندگی ہوتی ہے، اس سے بات ہمیشہ کام کے بارے میں ہی ہوئی۔ میری یہ job اب ختم ہوچکی ہے اس لئے یہ مسئلہ فی الحال نہیں رہا لیکن آئندہ کبھی یہ صورتحال ہوجائے تو کیا کیا جائے؟ guide کیجئے۔

جواب:

واقعی ان کو آپ سلام تو نہیں کرسکتے اور دلی تعلق بھی نہیں رکھنا چاہیے، البتہ دفتر کے جو ضروری کام ہیں ان کے سلسلہ میں جو مجبوری ہے اس کو مجبوری کی سطح تک ہی رکھنا چاہیے۔ وہ یہی ہے کہ جب وہ سلام کرلیں تو آپ جواب نہ دیں بلکہ ان سے پوچھیں کہ آپ کیسے ہیں؟ یعنی اس بات کو گول کرلیا کریں اور دل میں آپ ”يَھْدِیْکُمُ اللهُ“ یعنی اللہ تعالیٰ تجھے ہدایت دے دے کہہ دیا کریں۔ بلا وجہ رابطہ تو کسی کے ساتھ بھی نہیں رکھنا چاہیے، اور جب موقع ملے تو ان کو سمجھانا بھی چاہیے، باقی ان کی اپنی قسمت ہے۔

سوال نمبر 6:

السلام علیکم حضرت! آپ نے جو اذکار دیئے تھے ان کو ایک مہینہ مکمل ہوچکا ہے، اَلْحَمْدُ لِلّٰہ۔ مزید رہنمائی کی درخواست ہے۔ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ دو سو مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ چار سو مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ چھ سو مرتبہ، ’’اَللّٰہْ‘‘ بارہ ہزار مرتبہ اور اس کے ساتھ پانچ منٹ تصور کرنا ہے کہ دل ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کررہا ہے۔ حضرت ایسا کبھی محسوس نہیں ہوتا کہ دل ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کررہا ہے۔

جواب:

ابھی آپ ’’اَللّٰہْ‘‘ ساڑھے بارہ ہزار کرلیا کریں اور ساتھ پانچ منٹ یہ تصور بھی کرلیا کریں کہ دل ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کررہا ہے، باقی چیزیں وہی رکھیں۔

سوال نمبر 7:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! حضرتِ اقدس امید ہے مزاج بخیر وعافیت ہوں گے۔ بندہ کو جو ذکر دیا تھا اس کا ایک مہینہ بلا ناغہ پورا ہوگیا ہے۔ وہ ذکر یہ تھا دو سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘، چار سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘، چھ سو مرتبہ ’’حَقْ‘‘، اور پانچ سو مرتبہ ’’اَللّٰہْ‘‘، اور یہ مراقبہ کہ چاروں مراقبوں کا فیض بندہ کے لطیفۂ اخفیٰ پر آرہا ہے۔ بظاہر بندہ کو اس کا اثر محسوس نہیں ہورہا۔ محتاجِ دعا فلاں۔

جواب:

مَاشَاءَ اللّٰہ! آپ یہ مراقبہ کہ لطیفہ اخفیٰ پر چاروں مراقبوں کا فیض آرہا ہے، اس کو ایک مہینہ مزید کرلیں۔ اور ان مراقبات کے بارے میں ذہن میں رکھیں کہ یہ کس مقصد کے لئے کیے گئے تھے۔ تاکہ آپ کو کچھ فیض آئے۔

سوال نمبر 8:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! حضرت میں جب بازار سے سودا سلف لاتی ہوں تو ساتھ میں extra چیزیں بھی خرید لیتی ہوں جس کی ضرورت بھی نہیں ہوتی، سوچتی ہوں کہ یہ ابھی سیل میں ہیں، ہوسکتا ہے بعد میں کام آجائیں، اپنی عادت کو ختم کرنا چاہتی ہوں۔ بازار جاتے ہوئے ذکر کرتی ہوں کہ دل چیزوں کی طرف نہ جائے، بس جس چیز کے لئے آئی ہوں وہی خرید لوں، لیکن پھر کچھ نہ کچھ لے آتی ہوں۔ اس عادت کو کس طرح ختم کروں؟ آپ کی رہنمائی چاہیے۔

جواب:

آپ اس طرح کریں کہ جو چیزیں آپ کو extra پسند آئیں، ان کو اپنے پاس لکھ لیں، اس وقت فورًا نہ خریدیں، بعد میں جس وقت آپ روانہ ہوں تو اس کے اوپر نظر دوڑائیں اور اس میں سے آدھی چیزیں خریدیں، آدھی نہ خریدیں۔ اگلی دفعہ آپ چوتھائی کریں اور پھر اگلی دفعہ آپ ختم کرلیں اِنْ شَاءَ اللہُ۔

سوال نمبر 9:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

نمبر 1:

ہزار مرتبہ اسمِ ذات کا لسانی ذکر۔

جواب:

ان کو یہ پندرہ سو مرتبہ بتا دیں۔

نمبر 2:

لطیفۂ قلب دس منٹ، محسوس ہوتا ہے۔

جواب:

’’مَاشَاءَ اللّٰہ‘‘! اب لطیفۂ قلب پندرہ منٹ کرلیں۔

نمبر 3:

درود شریف پڑھتی تھی، اب بڑی ہوگئی ہیں۔

جواب:

مَاشَاءَ اللّٰہ! ان کو پہلے والا ذکر بتا دیں۔

نمبر 4:

تمام لطائف پر پانچ پانچ منٹ ذکر اور مراقبہ، شیوناتِ ذاتیہ پندرہ منٹ، محسوس نہیں ہوتا۔

جواب:

ایک دفعہ اس کو مزید کروا دیں۔

نمبر 5:

لطیفۂ قلب دس منٹ، لطیفۂ روح دس منٹ، لطیفۂ سر بیس منٹ، سِر پر محسوس نہیں ہوتا۔ روح اور قلب پر پہلے محسوس ہوتا ہے لیکن اب تینوں پر محسوس نہیں ہوتا۔ مراقبہ کرتے وقت بہت ڈر محسوس ہوتا ہے ایسا لگتا ہے جیسے کوئی مجھے پیچھے سے پکڑ رہا ہے۔

جواب:

آیت الکرسی کا احصار کرلیا کریں، اس کے بعد یہ کرلیا کریں۔

نمبر 6:

تمام لطائف پر دس منٹ ذکر، اور مراقبۂ شانِ جامع پندرہ منٹ۔ اس بات کا پختہ یقین ہوگیا ہے کہ اس دنیا میں جو کچھ ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کی منشا سے ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ کی تمام ثبوتی اور سلبی صفات کا یقین بھی پختہ ہوگیا ہے اس بات کا ادراک بھی ہوگیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مختلف شانیں ہوتی ہیں، تمام مراقبات کا ادراک نصیب ہوا ہے۔

جواب:

مَاشَاءَ اللّٰہ اب اس کو سلبی صفات کے بارے میں بتا دیجئیے گا۔


نمبر 7:

اس طالبہ سے عصر کی دو نمازیں قضا ہوگئی ہیں، ایک نماز جب ربیع الاول کی دعا ہورہی تھی اس دن قضا ہوگئی تھی، گھر سے یہ سوچ کر آئی کہ مدرسے میں نماز پڑھ لوں گی، یہاں آئی تو دعا شروع ہوگئی۔ جب دعا ختم ہوئی تو مغرب کی آذان ہوگئی تھی۔ میرے پاس آئی کہ باجی نماز قضا ہوگئی ہے لیکن میں ان کی report دینا بھول گئی تھی، اب پچھلے ہفتے مہمان آئے تو ان کے ساتھ مصروفیت کی سے عصر کی نماز بھول گئی تھی جس کی وجہ سے قضا ہوگئی۔

جواب:

اس کا مطلب ہے یہ غفلت کی وجہ سے ہوا۔ ہر نماز کے لیے تین روزے رکھیں۔

سوال نمبر 10:

السلام علیکم! جب ہم خانقاہ آئیں یا کسی اچھے ماحول میں ہوتے تو اعمال میں پابندی اور اہتمام ہوتا ہے لیکن اگر کچھ دنوں کے لئے نا موافق حالات میں یا برے ماحول میں چلے جائیں تو وہاں کا اثر دل پر ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے معمولات کی پابندی نہیں ہوپاتی، یہاں تک کہ فرائض بھی خطرے میں پڑ جاتے ہیں اور اصلاحی لحاظ سے ہم کافی پیچھے چلے جاتے ہیں۔ اگر کسی کے ساتھ اس طرح کا معاملہ ہو تو کیا اپنی اصلاح ہونی چاہئے؟ برے ماحول میں جانے سے بچنے کے لئے ہمیں کیا تدبیر اختیار کرنی چاہیے؟ کیونکہ بعض اوقات اس طرح کے ماحول میں جانا پڑتا ہے۔ جیسے اگر کسی کے گھر کا ماحول دینی نہیں ہے لیکن پھر بھی اسے وہاں جانا پڑتا ہے۔

جواب:

ظاہر ہے گھر تو جانا پڑے گا، اس کا حل یہ ہے کہ گھر بھی دین کی دعوت کی نیت سے جائیں کہ وہاں میں سب کو نماز پڑھواؤں گا اور اس کے بارے میں ان کو سمجھاؤں گا۔ اور اصلاحی ذکر ایسی حالت میں تو بالکل نہ چھوڑیں کیونکہ اس وقت آپ اصلاحی ذکر کی برکت سے ہی بچیں گے۔

سوال نمبر 11:

میرے ساتھ بھی یہ مسئلہ ہے کہ جب کبھی خانقاہ میں یا اچھے ماحول میں ہوتا ہوں تو اعمال کی بہت پابندی ہوتی ہے اور اگر برے ماحول میں چلا جاؤں تو وہاں اس کی وجہ سے معمولات چھوٹ جاتے ہیں اور فرائض بھی خطرے میں پڑ جاتے ہیں۔

جواب:

آپ بھی یہی کرلیں کہ وہاں جب جائیں تو دعوت کی نیت سے جائیں کہ سب کو دعوت دینی ہے۔ داعی پر مدعو کا اثر نہیں ہوتا لہٰذا دعوت کی نیت سے جائیں۔ اور ساتھ اپنا اصلاحی ذکر کبھی بھی نہ چھوڑیں کیونکہ اسی کے چھوڑنے سے کام خراب ہوجاتا ہے۔

سوال نمبر 12:

السلام علیکم! حضرت جی میرے معمولات ہیں: دو سو، چار سو، چھ سو اور اسمِ ذات ساڑھے بارہ ہزار۔

جواب:

ٹھیک ہے، اب تیرہ ہزار کریں اِنْ شَاءَ اللہُ۔

سوال نمبر 13:

السلام علیکم! میرا نام فلاں ہے۔ میں مفتی صاحب کے reference سے آپ سے بیعت ہوا تھا۔ آپ نے جو مجھے ابتدائی ذکر دیا تھا وہ مکمل کرلیا تھا۔ اس کے بعد آپ نے جو ذکر دیا وہ مجھ سے نہیں ہورہا، چالیس دن سے زیادہ ناغہ ہوگیا ہے۔ آپ اس بارے میں رہنمائی کہ میں ذکر کیسے کروں؟

جواب:

مفتی صاحب سے اس ذکر کو سیکھ لیجئے گا اور آپ اگر اُدھر ہی ہوتے ہیں تو مفتی صاحب کو ہفتہ وار report دے دیا کریں، پھر اِنْ شَاءَ اللہ آپ ایک مہینے کے بعد مجھے بتائیں۔

سوال نمبر 14:

حضرت! نقشبندی سلسلہ کے مراقبات کیا علم کو حال میں تبدیل کرنے کے لئے ہیں؟

جواب:

در اصل میں بہت دفعہ عرض کرچکا ہوں کہ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اس دور کے حالات کے مطابق جب عقائد کے اندر بڑے مسائل پیدا ہوئے تھے، عقائد کو درست کرنے کے لئے کچھ مراقبات اس سلسلے میں شامل کیے جو ان مراقبوں کے علاوہ ہیں جو پہلے سے چلے آرہے ہیں۔ جیسے یہ مشارب (یعنی تجلیات افعالیہ) اس لئے ہیں کہ ہمیں سب کچھ اللہ تعالیٰ سے ہونے کا یقین پیدا ہوجائے اور ہمارا ﴿اِیَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُ﴾ ٹھیک ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ کی صفاتِ ثبوتیہ پر یقین آجائے تو انسان غیر اللہ سے کٹ جاتا ہے۔ اس کے بعد شیوناتِ ذاتیہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ تعلق کے لئے ہے۔ اور صفات سلبیہ کا مطلب ہے کہ تنزیہ کی کیفیت حاصل ہوجائے اور آدمی تشبیہ سے آہستہ آہستہ نکل آئے۔ اس کے بعد دوسرے مراقبات یعنی حقیقتِ کعبہ، حقیقتِ قرآن اور حقیقتِ صلوٰۃ، یہ کچھ بنیادی مفاہیم کو درست کرنے کے لئے ہیں۔ ان ساری باتوں کا مطلب تو یہی ہے، البتہ یہ بات ضرور ہے کہ اصل مراقبات، اصلاح والے مراقبات ہیں کہ انسان کی اصلاح ہوجائے، بنیادی چیز یہی ہے۔ اصلاح کے لئے سلوک طے کرنا ضروری ہے اس لئے حضرت نے اس پر بڑا زور دیا ہے کہ لوگ ان چیزوں میں نہ پھنس جائیں بلکہ اپنی اصلاح کی طرف توجہ کریں اور اللہ کا شکر ہے کہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ اب کافی سارے ساتھی ما شاءاللہ اس طرف متوجہ ہوئے ہیں اور وہ اب اصلاح کی باتیں کرنے لگے ہیں۔ شیطان بہت ظالم ہے، وہ بہت طریقہ سے وار کرتا ہے۔ نقشبندی سلسلے میں اس نے یہ کیا کہ پہلے یہ بات ذہن میں بٹھا دی کہ مراقبات کافی ہیں اور مراقبات سے نفس کا علاج بھی ہوجاتا ہے۔ پھر اس کے بعد مراقبات کو بہت سطحی کر دیا کہ ان کا اثر انسان کے اوپر کچھ نہیں ہوتا، یہ بات صرف الفاظ کی حد تک ہی رہتی ہے اور بعض دفعہ بعض الفاظ کے معانی بھی معلوم نہیں ہیں، کیونکہ الفاظ فارسی زبان میں کہتے ہیں، اس لئے ان کو کیا پتا کہ میں کیا کہہ رہا ہوں۔ ظاہر ہے جب ان کو یہ پتا ہی نہیں ہے کہ میں کیا کہہ رہا ہوں تو ایسی صورت میں مراقبات کا جو فائدہ مراقبات کے لحاظ سے تھا وہ بھی نہیں ہوا۔ پھر اس کے ساتھ نفس بھی باندھ لیا تو ساری چیزوں سے کاٹ دیا۔ تیسری بڑی غلطی یہ چلی کہ اصلاح کو automatic ان کے ساتھ سمجھ لیا حالانکہ اصلاح کے لئے سلوک طے کرنا پڑتا ہے۔ حضرت نے اس پر بڑا زور دیا ہے کہ لوگ جذب کے احوال کو اصلاح نفس اور تزکیہ کے احوال سمجھ لیتے ہیں، اس سے نقصان ہوجاتا ہے۔ یہ تمام مسائل اسی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں۔ یہاں تک کہ لوگوں نے مشہور کردیا کہ نقشبندی سلسلہ سب سے اونچا ہے اور نقشبندی سلسلہ سب سے آسان ہے۔ یعنی لوگوں کو دعوت یہ دیتے ہیں کہ گویا کہ اس میں شامل ہوتے ہی آپ کو ساری چیزیں محبوبیت کی وجہ سے خود بخود حاصل ہوجائیں گی۔ جب اس قسم کے concept کے ذریعہ آپ لوگوں کو داخل کریں گے تو خاک محنت کریں گے؟

ایک بہت بڑے نقشبندی بزرگ ہیں، نام میں نہیں لیتا کیونکہ لوگ ان سے چڑ جائیں گے۔ اس وقت میرے خیال میں نقشبندی بزرگوں میں وہ درجہ اول میں ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ وہ چار گھنٹے رات کو مراقبہ کرتے ہیں اور صبح جوا کھیلتے ہیں۔ یہ بالکل یہ ان کے الفاظ ہیں۔ اب اس صورت حال میں کیسے اصلاح ہو؟ اصل چیز یہی ہے کہ ہم لوگوں کو اصلاح کی طرف جانا چاہیے۔ اصلاح کی باتیں کیسی ہیں؟ یعنی اگر ایک سالک یہ بتائے گا ہی نہیں کہ مجھ میں کیا عیوب ہیں تو اس کی اصلاح کیسے ہوگی؟ دوسری بات اپنے احوال ہیں، اگر اپنے حال کا نہیں بتائیں گے اور صرف مراقبات بتائیں گے تو ان کی اصلاح کیسے ہوگی؟

حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب تربیت السالک میں جو خطوط اور ان کے جوابات ہیں، ان میں کیا باتیں ہوتی ہیں؟ وہ لوگ سارے کے سارے اپنے احوال بیان کرتے ہیں اور حضرت تحقیق بیان فرماتے ہیں۔ اس طرح ایک طرف concept بھی درست ہورہا ہوتا ہے اور ساتھ ساتھ وہ لوگ عمل پہ بھی آرہے ہوتے ہیں۔ اس طرح ماشاء اللہ فائدہ ہوتا ہے۔ آج کل کے دور میں بھی اصلاح کے یہی طریقے ہیں۔

سوال نمبر 15:

حضرت بیان میں آپ نے فرمایا تھا کہ جن لوگوں کو جب کھینچا جاتا ہے یعنی وہ اللہ کے قریب ہوتے ہیں، اور وہ جذب کی کیفیت میں ہوتے ہیں، جب وہ جذب کی کیفیت میں ہوتے ہیں اس کو فنا کی کیفیت کہا جاسکتا ہے کہ وہ اس وقت فنا ہوتے ہیں۔

جواب:

در اصل لوگ محبوب اور مجذوب میں لوگ فرق نہیں کرتے۔ کچھ محبین ہوتے ہیں، کچھ محبوبین ہوتے ہیں، تو جو محبوبین ہوتے ہیں ان کو اللہ تعالیٰ خود کھینچتے ہیں تو وہ مجذوب بھی ہوجاتے ہیں۔ وہاں پر محبوب اور مجذوب ایک جیسے ہوجاتے ہیں۔ (سائل) اسی جگہ پر محبوبین جب اس کیفیت سے نہیں نکلتے اور اسی حالت میں رہتے ہیں تو ان کے بارے میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ فنا کی کیفیت میں ہیں؟ (حضرت) وہ اسی حالت میں نہیں رہتے۔ دراصل جب ان کو کھینچا جاتا ہے تو ان اعمال کی طرف کھینچا جاتا ہے جو ان کی ترقی کے لئے ہوتے ہیں، گویا یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی تربیت میں ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کو ایسے لوگوں تک پہنچا دیتے ہیں جو ان کی اصلاح کرلیں اور مَاشَاءَ اللہ حضرت نے خود فرمایا ہے کہ محبین کا راستہ اگر محبوبین اختیار کرلیں تو ان کو فائدہ ہوتا ہے۔ البتہ محبین اگر محبوبین کا راستہ اختیار کرلیں تو ان کو فائدہ نہیں ہوتا، کیونکہ ان کے لئے وہ راستہ نہیں ہے۔

جتنے بھی اللہ والے ہیں، ان کو اللہ تعالیٰ کسی سلسلے میں ساتھ شامل کرلیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کی اس سلسلہ کے ذریعہ سے تربیت بھی کروا دیتے ہیں، لیکن ان کے لئے تربیت کے مواقع اللہ تعالیٰ خود بنا دیتے ہیں۔ کھینچنے کا مطلب یہی ہے۔ (سائل) یعنی جو محبوبین ہوتے ہیں وہ اس کیفیت میں نہیں رہتے بلکہ آگے نکل جاتے ہیں؟ (حضرت) جی بالکل! جیسے ہمارے کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ مادر ذاد ولی تھے، ان کے لئے بھی اللہ پاک نے راستہ بنا دیا۔ اسی طرح حضرت سلطان باھو رحمۃ اللہ علیہ، اسی طرح اور بھی کئی لوگ تھے۔ بلکہ میں کہتا ہوں حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ بھی ان میں تھے، تبھی تو حضرت نے اپنی ذات کے لئے کچھ ایسی باتیں فرمائی ہیں جو لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتیں۔ جیسے بعض مکتوبات شریفہ میں فرماتے ہیں کہ کچھ کے ساتھ ایسا ہوتا ہے، کچھ کے ساتھ ایسا ہے۔ دراصل وہ اپنے بارے میں بتا رہے تھے۔ باقی جو آپ فنائیت کے بارے میں فرما رہے ہیں، یہ ایک خاص کیفیت ہے جو کسی پر بھی آسکتی ہے۔ محبین پر بھی آسکتی ہے اور محبوبین پر بھی آسکتی ہے۔ جب انسان کا فنا والا سلسلہ شروع ہوجائے اور نفس دبنا شروع ہوجائے حتیٰ کہ اپنے آپ سے بھی بے خبر ہوجائے، تو یہ فنا کی کیفیت ہے۔

سوال نمبر 16:

ایک دفعہ فنائے روحانی اور جسمانی کا ذکر آیا تھا، ان میں کیا فرق ہوتا ہے؟

جواب:

فنا جسمانی طور پر تو نہیں ہوسکتا، کیونکہ وہ غائب نہیں ہوتا بلکہ ادھر ہی موجود ہوتا ہے۔ لیکن وہ قلباً اپنے آپ کو محسوس نہیں کررہا ہوتا۔ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف اتنا متوجہ ہوتا ہے کہ اس کو کسی اور چیز کی خبر نہیں ہوتی۔ اور جس وقت واپس آتا ہے تو اس کو ساری چیزوں کی خبر ہوتی ہے۔ لیکن اس کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ اتنا گہرا تعلق حاصل ہوچکا ہوتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے تعلق سے کسی چیز کی وجہ سے بھی نہیں ہٹتا۔ یہی ’’رِجَالٌ لَّا تُلۡهِيۡهِمۡ‘‘ والی حالت ہے جو اس کو حاصل ہوجاتی ہے۔ اور جس وقت وہ سکر اور فنا کی حالت میں ہوتا ہے تو اس وقت وہ کسی چیز سے واقف نہیں ہوتا اور اس کا کچھ بھی نہیں ہوتا۔

سوال نمبر 17:

حضرت یہ نسبت ایک دم منتقل ہوتی ہے یا آہستہ آہستہ ہوتی ہے؟

جواب:

تیاری تو آہستہ آہستہ ہوتی ہے، منتقل یک دم ہوجاتی ہے۔ یعنی جب اصل موانع دور ہوجائیں پھر آئے گی، موانع تو آہستہ آہستہ دور ہوتے ہیں اور چونکہ یہ اللہ کے فضل سے منتقل ہوتی ہے اور اللہ کا فضل انسان کے عمل سے نہیں ہوتا بلکہ کسی وقت بھی ہوسکتا ہے۔ البتہ اس کے لئے تیاری کرنی پڑتی ہے، جگہ بنانی پڑتی ہے۔ مثال کے طور پر آپ کو کوئی شخص کوئی چیز دینا چاہے لیکن راستہ بند ہو تو راستہ کو صاف کرنا آپ کی ذمہ داری ہے کہ وہ دینے آئے تو آپ لے سکیں۔ اس طریقہ سے اپنے عمل سے رکاوٹیں اور حجابات دور کرنا آپ کی ذمہ داری ہے، جب اللہ کا فضل آجاتا ہے تو نسبت اس وقت منتقل ہوجاتی ہے۔

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ

سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات - مجلسِ سوال و جواب