سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 648

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال نمبر 1:

السلام علیکم ورحمۃ اللّٰه وبرکاتہ۔ اگلے اتوار ان شاء اللّٰه! اسلامک ورک شاپ یعنی ایک اسلامی گروپ Youth club میں رکھا جارہا ہے، کیا میں اس میں شامل ہوسکتی ہوں؟

جواب:

صرف نام کی وجہ سے میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ امریکہ میں ایک website ہے allah.com اس نے بہت بڑا فتنہ بچھایا تھا قبلہ کے بارے میں، اس لئے نام سے میں کچھ نہیں جانتا، البتہ آپ اس کی تفصیلات بتا دیں تو پھر میں کچھ عرض کرسکتا ہوں کہ کیا ہے اور کیا نہیں ہے۔

سوال نمبر 2:

السلام علیکم۔ حضرت جی! میں شادیوں میں شرکت کرنے کے حوالے سے کافی پریشان ہوں، اس لئے کہ شادیوں میں جو آج کل حالات ہیں وہ شرکت کرنے والے نہیں ہیں، اسی لئے میں سب سے معذرت کرلیتی ہوں، بس شادی سے چند دن پہلے جا کے تحفہ دے آتی ہوں۔ کیا میرا یہ عمل درست ہے؟

جواب:

اس کے جواب میں نے ان سے کہا تھا کہ آپ تحفہ دے سکتی ہیں، کیونکہ ہدیہ، تحفہ وغیرہ دینا تو ٹھیک ہے، البتہ اس میں واپسی کی نیت نہیں کرنی چاہئے کہ وہ مجھے ملیں گے، ورنہ پھر یہ سود بن جاتا ہے۔ جس پر پھر یہ جواب آیا کہ جی حضرت! میں الحمد للّٰہ! واپسی کی بالکل امید نہیں رکھتی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ پھر یہ ٹھیک ہے، اس میں کوئی مسئلہ نہیں، اگر واپسی کی امید نہیں رکھتیں تو پھر کوئی بات نہیں، آپ یہ عمل کرسکتی ہیں۔

سوال نمبر 3:

السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ۔

Hoping for your long life and good health. May اللّٰہ سبحانہ و تعالیٰ blessing and mercy be upon you and your family. I am فلاں sister. Recently something happened which sometimes makes me feel unwanted and is making me lose confidence. As for our society, I don't mingle with people It's just limited to hi and hello. One day while I was taking a walk a neighbour of mine was just passing by. I greeted her but she just ignored me looking at me. When again she passed she just looked at me and passed away. I am not complaining about her but it did hurt me. I felt that maybe I have done something like this to someone. I felt that nobody should behave to anyone in such a way especially when someone greets you. It really hurts every now and then. I remember her. I feel less confident before her. Another neighbour also did the same thing. Maybe it is because I don't mix up and participate with them in all Hindu festivals that they celebrate. I try not to get affected by them or their behavior because I know اللّٰہ is the greatest but I feel sad whenever I remember that day. Here the situation is deteriorating rapidly. Festivals are celebrated with much pomp and show every coming year. Small children are being brainwashed in the name of religion without understanding the reality. They are Just following blindly. Women just get the chance to dress up and show and post pictures. I want to stay between my people who follow the right deen but here I don't get to see a single person. Everyone is busy and showing off. Living in such a society, it's not worth it. I just want to live with people of ‘‘لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ’’. Please pray for me and my family's guidance. Sorry for mistakes and thanks for everything. I was thinking whether I have behaved like this with anyone اَسْتَغْفِرُ اللّٰهَ. It hurts. No one should behave like this, not even with an enemy. If one greets you, you should also greet them properly. I think so.

جواب:

اس پر مجھے اپنے بچپن کا ایک واقعہ یاد آگیا کہ ایک دن میں سوچنے لگا کہ معاشرے میں دو قسم کے لوگ ہیں، اچھے لوگ بھی ہیں اور برے لوگ بھی ہیں، اگر آپ اچھا بنتے ہیں تو برے لوگ آپ کو dislike کریں گے اور اگر آپ برا بنتے ہیں تو اچھے لوگ آپ کو dislike کریں گے، یہ فطری بات ہے۔ اب اگر آپ کو اچھا بننا پسند ہے اور ہونا بھی چاہئے، تو پھر بروں کے ناپسند کرنے کو محسوس کرنا ایک فضول حرکت ہے، یعنی یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ آپ ان سے expect کریں کہ وہ آپ کو پسند کریں گے۔ اس لئے یہ بات ذہن سے بالکل نکال دیں، ورنہ آپ خود اپنے آپ کو کھا لیں گی، پریشان ہوں گی، اس لئے معاملہ آپ اللّٰه تعالیٰ کے ساتھ سیدھا رکھیں۔ اس پر میں آپ کو ایک اور واقعہ سناتا ہوں، حضرت تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے یہ بیان فرمایا ہے کہ ایک پیر صاحب تھے، ان کے بہت سارے مرید تھے، پیر صاحب کو ایک خاص مرید کے بارے میں الہام ہوگیا کہ ان کا طریقۂ تربیت بالکل مختلف ہونا چاہئے اور طریقۂ تربیت ان کے لئے یہ بنایا کہ تمام مریدوں سے کہہ دیا کہ روزانہ ان کے ساتھ کسی نہ کسی بہانے آپ کوئی نہ کوئی لڑائی کریں اور بات چیت بند کرلیں، لہٰذا ہر روز ان سے کوئی نہ کوئی لڑائی کرتا اور پھر ان سے کہتا کہ تم بات چیت کے قابل نہیں ہو، میرے ساتھ آئندہ نہ بولنا، لیکن یہ اپنے دل میں کہتا کہ کم از کم شیخ تو میرا ہے، لہٰذا کوئی مسئلہ نہیں ہے، مگر جب سب مرید ختم ہوگئے تو پھر شیخ کی باری آگئی تو شیخ نے اسے کہا کہ یہ سارے لوگ جھوٹے تو نہیں ہیں، جو تیرے بارے میں ایسا کہتے ہیں، آخر تیرے اندر کچھ مسئلہ ہوگا، لہٰذا اس سے اس کے دل کو بہت زیادہ تکلیف ہوئی اور اتنی تکلیف ہوئی کہ یہ مسجد میں جا کے رونے لگا اور نماز پڑھ کے سجدے میں پڑا رہا، اتنے میں حضرت کو الہام ہوگیا کہ اب ماشاء اللّٰہ! یہ قبول ہوگیا ہے، آپ جائیں اور ان کو مبارک باد دیں۔ لہٰذا شیخ اپنے تمام مریدوں کے ساتھ آگئے اور یہ سجدے میں پڑا تھا تو کوئی اس کا آستین چوم رہا ہے تو کوئی اس کا سر چوم رہا ہے، تو شیخ نے اسے کہا کہ ماشاء اللّٰه! سر اٹھا دیں اور اب ہمارے لئے دعا کریں کہ اللّٰه تعالیٰ ہمیں بھی قبول فرمائے۔ اس لئے اگر اللّٰه تعالیٰ نے آپ کے لئے یہ راستہ منتخب کیا ہے تو آپ کو پروا نہیں کرنی چاہئے۔ البتہ ہماری طرف سے کسی مخلوق کو نقصان نہیں ہونا چاہئے، باقی کوئی ہمیں تکلیف پہنچاتا ہے تو ہمارا ان کے ساتھ کوئی کام ہی نہیں ہے، بس ہمیں تو اللّٰه تعالیٰ کے طرف متوجہ ہونا چاہئے اور ان باتوں کی پروا کرنا چھوڑ دیں اور اللّٰه کے ساتھ لو لگا لیں۔ جیسا میرا ایک شعر ہے کہ؎

اس نے کس پیار سے دروازے کیے بند سارے

ایک دروازہ کھلا اس کا تو پھر کیا دیکھا

مطلب یہ ہے کہ اگر اللّٰه نے اپنا دروازہ آپ کے لئے کھول دیا اور باقی سارے دروازے آپ پر بند کردیئے ہیں تو یہ بڑی خوش قسمتی کی بات ہے، اس لئے آپ اس کی پروا نہ کریں۔

سوال نمبر 4:

السلام علیکم۔ میں فلاں صاحب کے گھر سے لکھ رہی ہوں، امید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گے، ان شاء اللّٰه! اللّٰہ پاک آپ کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ میں تقریباً ڈیڑھ ماہ سے بیس منٹ کا مراقبہ اور تین تسبیحات اور نماز کے بعد کے معمولات کررہی ہوں، اب آگے کیا حکم ہے؟ مراقبہ کرتے وقت دنیاوی خیالات آتے ہیں، دعاؤں کی درخواست ہے۔ جزاک اللّٰہ۔

جواب :

ماشاء اللّٰہ! آپ یہ مراقبہ کررہی ہیں، بڑی ہمت ہے، بس آپ اس کو جاری رکھیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ آپ نے بتایا نہیں کہ آپ کو دل میں ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ محسوس ہوتا ہے یا نہیں محسوس ہوتا؟ اس کے بارے میں اطلاع کیجئے، تاکہ آئندہ کے بارے میں بتا سکیں۔ باقی دنیای خیالات کا آنا کوئی برا نہیں ہے، آتے رہیں، آپ ان کی پروا نہ کریں، کیونکہ خیالات لانا برا ہے، خیالات کا آنا برا نہیں ہے، اس لئے اس کے بارے میں سوچیں بھی نہیں، پروا بھی نہ کریں، بس اپنے کام میں لگی رہیں۔

سوال نمبر 5:

السلام علیکم۔ زما فلانے نوم دے مردان سره تعلق لرم پهٔ بنک کښې نوکري کوم روحاني علم اؤ تصوف سره مې دَ مخکښې نه شوق دے اؤ دا غواړم چې الله سره مضبوط تعلق جوړ کړم ما بيعت نهٔ دے کړے ددې وجهې چې چا سره نهٔ يم ملاؤ شوے ستاسو ويب سائټ مې مخښې ته راغے نو ډير خوشاله شوم اميد لرم چې تاسو به ما لره راهنمائی وکړئ ستاسو دَ جواب پهٔ انتظار زهٔ دَ کتاب شوق ډير لرم باطني علم سره مې خصوصي لګاؤ دے اؤ دَ شيخ پهٔ تلاش کښې يم

جواب :

ماشاء الله دا ډير مبارک سوچ دے ستاسو الله جل شانه دې تاسو ته پهٔ دې کښې کاميابي نصيب کړي زهٔ ډير زيات خوشاله شوم ستاسو پهٔ جذبه باندې يقينًا دَ شيخ تلاش پکار دے زهٔ تاسو ته دَ شيخ نخښې بيانوم وړومبۍ خبره دَ هغه عقيده ده چې عقيده ئې دَ اهل سُنت والجماعت وي يعني دَ حضور صلي الله عليه وسلم پيروي هغوي دَ صحابؤ پهٔ طريقه باندې کوي دويمه خبره چې فرض عين علم ورته حاصل وي اؤ دريم دا چې پهٔ هغې باندې ئې عمل وي اؤ څلورم دا چې دَ هغوي دَ صحبت سلسله حضور صلي الله عليه وسلم ته رسي پنځم دا چې يو صاحب سلسله ورته اجازت ورکړے وي شپږم دا چې دَ وخت علماء اؤ مشائخ دَ هغه باره کښې ښه رائے لری اووم دا چې هغه اصلاح کوي اؤ مروت نهٔ کوي اؤ اتم دا چې دَ هغه پهٔ صحبت کښې دَ الله تعلق حاصليږي، دَ الله مينه حاصليږي اؤ دَ دنيا مينه کميږي اؤ بله خبره پکښې دا ضروري ده چې ستا ورسره مناسبت وي مناسبت دپاره پکار دي چې تاسو هغوي سره خط و کتابت وکړئ، ورسره کښينئ پاسئ ورسره خبرے اترے وکړئ چې تاسو باندې دَ هغه خبرے ښې لګي نو بيا دَ هغه مناسبت وي نو بيا ماشاء الله تاسو دَ هغوي نه بيعت کولې شئ اؤ کهٔ تاسو مثال پهٔ طور دې خانقاه ته راځئ نو ما ته ووائیٔ نو زهٔ به تاسو ته لوکيشن دروليږم هره ورځ دَ ماښام نه تر ماسخوتن پورے زمونږ مجلس وي اؤ اتوار پهٔ ورځ دَ سحر يولسو نه تر دولسو پورے هم مجلس وي نو دې کښې چې کوم کښې تاسو شامليدل غواړئ نو شامل به شئ ان شاء الله۔

سوال نمبر 6:

السلام علیکم۔ آپ نے کہا تھا کہ اپنے عیوب تلاش کرکے اس کی ایک list بنانی ہے، تو یہ بہت مشکل کام ہے، کیونکہ انسان کو اپنے عیوب نظر نہیں آتے، لیکن جو تھوڑا سوچنے کے بعد نظر آتا ہے، وہ یہ ہے کہ سب سے زیادہ غصے کا بہت زیادہ مسئلہ ہے، جب غصہ آتا ہے تو اس وقت بالکل ہی دماغ کام نہیں کرتا اور چھوٹے بڑے ہر ایک کی تمیز ختم ہوجاتی ہے جوکہ مجھے لگتا ہے کہ بہت خراب عادت ہے، اگرچہ بعد میں اکثر احساس بھی ہوجاتا ہے، لیکن پھر افسوس کے علاوہ کچھ نہیں کرسکتا۔ اور اس کے علاوہ موبائل کا بہت زیادہ غلط استعمال ہے، اس میں اچھا برا دونوں آجاتے ہیں، کبھی اچھا بھی ہوتا ہے، لیکن زیادہ تر برا استعمال ہوتا ہے اور اس میں کبھی خراب sides کا بھی استعمال ہوجاتا یعنی جیسے موقع ملے تو وہ بھی ہوجاتا ہے۔ اس کے علاوہ آپ guide کردیں کہ باقی مزید کس طرح عیب تلاش کروں، کیونکہ اگر سوچیں تو پھر سارا کچھ ہی اندر غلط نظر آتا ہوں، اور اگر توجہ نہ کریں تو ایسے لگتا ہے جیسے اپنے اندر کوئی خرابی ہے ہی نہیں۔

جواب:

یہ بات جو میں نے عرض کی ہے، یہ سوچنے کے لئے کی ہے کہ آپ سوچیں اور سوچ کر لکھیں، اس لئے آپ عیوب لکھ لیں اور ایک list بنا دیں، پھر اس میں سوچیں کہ priority کس کی زیادہ ہے یعنی کون سے زیادہ آپ کو نظر آرہے ہیں؟ اس پر آپ نمبر کے حساب سے نشان لگا دیں یعنی ایک دو تین چار پانچ نمبر لگا لیں، کیونکہ اصلاح تو سارے عیوب کی کرنی ہے اور عیوب سوچ سے ہی نظر آسکتے ہیں، بغیر سوچے نظر نہیں آسکتے۔ اور آپ نے جو دو بتائے ہیں تو ان کا بھی علاج ہونا چاہئے، لیکن آپ ذرا سوچیں، جتنے ہیں وہ سارے کے سارے مجھے لکھ دیں، تاکہ میں آپ کو پھر اس کے بارے میں کچھ عرض کرسکوں۔

سوال نمبر 7:

السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ۔ سر! امید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گے۔ میری کچھ دن پہلے آپ سے بات ہوئی تھی بدنظری اور وسوسوں کے حوالے سے، تو آپ نے جو اعمال بتائے تھے، وہ میں نے کیے ہیں، مجھے زیادہ تو نہیں but دس فیصد تک بہتری feel ہوئی ہے، اور میں دو week سے نہیں آسکا، کیونکہ میں village میں تھا، آج دوبارہ حاضر ہوا ہوں۔ آپ نے چونکہ فرمایا تھا کہ آپ یہ اعمال کریں اور پھر بتائیں۔

جواب:

اصل میں بات یہ ہے کہ جو بدنظری ہے، یہ بہت بڑا مرض ہے، اللّٰه تعالیٰ اس سے محفوظ فرمائے۔ باقی وسوسوں کا علاج تو آسان ہے کہ بس آپ اس کی پروا نہ کریں جیسا بھی وسوسہ ہے، کیونکہ وسوسہ وہ ہوتا ہے جو آپ کے اختیار میں نہیں ہے اور جو آپ کے اختیار میں ہے، وہ وسوسہ نہیں ہے، بلکہ وہ آپ کی سوچ ہے۔ لہذا جو آپ کے اختیار میں ہے، اس کو اپنے اختیار سے دبائیں اور جو آپ کے اختیار میں نہیں ہے، تو اس کی پروا نہ کریں۔ دیکھیں! کتنا آسان علاج ہے، اس میں کوئی مشکل نہیں ہے۔ اس لئے جو اختیار میں ہے، اس میں اختیار استعمال کرلو اور جو اختیار میں نہیں ہے، اس کی پروا نہ کرو، لیکن اس سے اثر بھی نہ لو۔ اور باقی ماشاء اللّٰه! جو ذکر ہے، وہ آپ جاری رکھیں، کیونکہ ذکر انسان کو علاج کے لئے تیار کرتا ہے اور ذکر بذات خود مکمل علاج نہیں ہے، بلکہ ذکر سے دل زندہ ہوتا ہے اور دل جب زندہ ہوتا ہے تو صحیح اور غلط کو پہچان لیتا ہے اور جب صحیح اور غلط کو پہچان لیتا ہے تو پھر ہمت کرنی پڑتی ہے اس صحیح کو حاصل کرنے کی اور غلط سے چھٹکار پانے کی، اسی کو سلوک کہتے ہیں یعنی پھر سلوک طے کرنا پڑتا ہے۔ بہرحال اس کے لئے آپ اپنی تیاری رکھیں اور اپنا ذکر جاری رکھیں اور جو ابھی بات ہوئی ہے، اس پر عمل جاری رکھیں۔

سوال نمبر 8:

السلام علیکم۔ حضرت شیخ صاحب! آپ نے فرمایا تھا کہ استخارہ کرو، تو میں نے استخارہ کرلیا ہے اور دلی اطمینان کے ساتھ سلسلے میں بیعت کرنا چاہتا ہوں، میری بیعت قبول فرمائیں اور مجھے بتائیں کہ آگے کیا ذکر و اذکار کرنے ہیں؟ جزاک اللّٰہ۔

جواب:

ٹھیک ہے، ان شاء اللّٰه! میں آپ کو آڈیو بھیج دوں گا، اس آڈیو کے ساتھ آپ اپنے الفاظ میں آڈیو مجھے send کردیں تو پھر میں accept کرلوں گا اور ذکر بھی بتا دوں گا، ان شاء اللّٰہ!

سوال نمبر 9:

السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ۔ حضرت!

I hope you are well. Questions for tomorrow Insha'Allah

نمبر 1: صوفیاء کا اس بات میں کیا مطلب ہے؟ جب وہ ہر جگہ اللّٰہ کی ذات کو دیکھنے کا دعوی کریں۔

جواب:

قرآن میں جو بات ہے، اس کو تو کوئی change نہیں کرسکتا، اللہ فرماتے ہیں:

﴿لَا تَبْدِیْلَ لِكَلِمٰتِ اللّٰهِؕ﴾ (یونس: 64)

ترجمہ1: ’’اللہ کی باتوں میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی‘‘۔

اور یہ نص قطعی ہے کہ کوئی اللّٰه کو نہیں دیکھ سکتا، چنانچہ اللہ فرماتے ہیں:

﴿لَنْ تَرَانِیْ﴾ (الأعراف: 143)

ترجمہ: ’’تم مجھے ہرگز نہیں دیکھ سکو گے‘‘۔

اور یہ موسیٰ علیہ السلام سے کہا گیا تھا، اب موسیٰ علیہ السلام سے تو کوئی بھی بڑا نہیں ہے، اور جب ان سے فرمایا گیا تو پھر کوئی بھی اللّٰه کو دیکھ نہیں سکتا۔ باقی اللّٰه کو دیکھنے کا مطلب کیا ہے؟ وہ بتاتا ہوں۔ دیکھیں! حدیث شریف میں آتا ہے:

’’اَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَاَنَّکَ تَرَاہُ فَاِنَّکَ اِنْ لَّا تَرَاہُ فَاِنَّہٗ یَرَاکَ‘‘ (مسلم، حدیث نمبر: 97)

ترجمہ: ’’اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو اور اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے ہو تو وہ یقیناً تمہیں دیکھ رہا ہے‘‘۔

یعنی جیسے تو خدا کو دیکھ رہا ہے یعنی آپ کے عمل کا اثر ایسا ہونا چاہئیے کہ جیسے اگر اللّٰه کو آپ دیکھتے تو جس طرح کرتے، تو اسی طرح اب عمل کرو، اس کو کیفیتِ احسان کہتے ہیں، لہٰذا کیفیتِ احسان والے دعویٰ نہیں کررہے، بلکہ وہ اپنی کیفیت بیان کررہے ہیں۔ جیسے مومن خان دہلوی کا شعر ہے؎

تم میرے پاس ہوتے ہو گویا

جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا

اسی پر غالب نے کہا تھا کہ یہ مجھے دے دو اور میرا سارا دیوان لے لو۔ لہٰذا یہ ایک کیفیت ہے، اور جس کو یہ کیفیت حاصل ہے تو وہ کہے گا، لیکن یہ کیفیتِ احسان کی بات ہے۔

سوال نمبر 10:

کیا تجلی ایسی چیز ہے کہ جسے دیکھا یا محسوس کیا جاسکتا ہو؟ کیا تجلی تخلیق ہے؟

جواب:

تجلی اصل میں ظل ہے، لیکن لوگ عموماً تجلی روشنی کو کہتے ہیں، جبکہ ایسا نہیں ہے۔ دراصل بات یہ ہے کہ جب کسی چیز کی اصل کو دیکھنا ممکن نہ ہو تو اس کا تنزل کرکے ایسی صورت میں آنا کہ لوگ اس کو برداشت کرسکیں، یہ تجلی ہوتی ہے، اس لئے یہ اصل سے کم ہوتی ہے اور لوگ سمجھتے ہیں کہ شاید یہ کوئی روشنی ہوگی اور روشنی کی وجہ سے آنکھیں چندھیا جائیں گی، کیونکہ اللّٰه تعالیٰ کی ذات کو کوئی دیکھ نہیں سکتا، لیکن اللّٰه جل شانہٗ کی ذات کے بعض آثار جو انسان محسوس کرلے وہ اس کی تجلی ہوتی ہے۔

سوال نمبر 11:

اللّٰه کا عکس کیسے ہوسکتا ہے اور اس کے عکس کی وجہ سے کیا اللّٰہ مخلوق نہیں ہے؟

جواب:

بالکل آپ صحیح کہتے ہیں کہ اللہ مخلوق نہیں ہے، لیکن اس کا عکس اس طرح نہیں ہوتا جیسے کہ سورج کا عکس ہوتا ہے یا شیشے میں عکس ہوتا ہے، بلکہ اس کا عکس ایسا ہوتا ہے جیسے ہوا آپ دیکھ نہیں سکتے، لیکن مرغ بادنما سے آپ کو پتا چل جاتا ہے کہ ہوا چل رہی ہے اور کس طرح کی direction میں چل رہی ہے۔ ایسے ہی بجلی آپ دیکھ نہیں سکتے، اگر کوئی بھی بجلی دیکھنے کا دعویٰ کرے گا تو اس کو نہیں مانا جائے گا، لیکن بجلی کے آثار سب لوگ دیکھ رہے ہیں، آج کل لوگ کہتے ہیں کہ بجلی آگئی، لیکن کیا بجلی دیکھ کر کہہ رہے ہیں؟ نہیں، بلکہ پنکھا چل گیا، ہیٹر چل گیا، فریج چل گیا، stove چل گیا یعنی یہ سب بجلی کے آثار ہیں، لہٰذا لوگ کہتے ہیں کہ بجلی آگئی اور بجلی چلی گئی، لیکن نہ جاتے وقت کوئی دیکھ سکتا ہے، نہ آتے وقت کوئی دیکھ سکتا ہے، لیکن کہتے کیا ہیں؟ کہ بجلی آگئی، بجلی چلی گئی۔ لہٰذا اگر آپ کو اس پر اعتراض نہیں تو اس پر کیوں اعتراض ہے؟ اس لئے اللّٰه جل شانہٗ کو کوئی نہ دیکھ سکتا ہے، نہ اللّٰہ تعالیٰ مخلوق ہے، نہ اللّٰہ تعالیٰ کا عکس اس طرح ہے جس طرح ہماری چیزوں کا عکس ہوتا ہے، بلکہ آثار ہیں جن سے اللّٰه جل شانہٗ کی معرفت حاصل ہوتی ہے۔

سوال نمبر 12:

السلام علیکم۔ حضرت جی! کافی ڈرا رہتا ہوں، ٹھنڈا پسینہ آتا ہے، سر پر دباؤ ہے، right گھٹنے میں درد ہے، کبھی دونوں میں بھی feel ہوتا ہے، لیکن میں اپنے حال کو کسی پر ظاہر نہیں ہونے دیتا، اگر کوئی پوچھے تو غلط بتاتا ہوں۔ تسبیحات میں سستی ہے، اور اپنے عیوب کا خود نہیں پتا چلتا، کوئی دوسرا ہی بتا سکتا ہے۔ kindly بتائیں کہ تین میں سے کس چیز کو improve کروں، کیونکہ میں اپنا حال کسی پر ظاہر نہیں ہونے دیتا، صرف کوشش کرتا ہوں۔

جواب:

دیکھیں! ہمارے یہاں جو اختیاری چیزیں ہیں، اس میں اپنے اختیار کو استعمال کرنا ہے اور جو غیر اختیاری ہیں۔ اس کی پروا نہیں کرنی۔ لیکن آپ کے جو اختیار میں تھا، اس کا تو آپ نے کہا کہ اس میں سستی ہے یعنی آپ نے فرمایا کہ تسبیحات میں سستی ہے، حالانکہ اس میں کیوں سستی ہے؟ جب آپ کو پتا ہے کہ یہ مفید چیز ہے، آپ کو اس سے فائدہ ہوتا ہے، لیکن اس میں آپ سستی کررہے ہیں اور وہ چیز آپ مجھے بتا رہے ہیں جس کا علاج میرے پاس نہیں ہے، کیونکہ نہ میں ڈاکٹر ہوں، نہ عامل ہوں، اس لئے اس سلسلے میں میں کیا خدمت کرسکتا ہوں۔ میں اگر کچھ عرض کرسکتا ہوں تو ان چیزوں میں عرض کرسکتا ہوں کہ بھئی! اصلاح کے لئے اپنا علاج کیسے کرو، اپنی اصلاح کیسے کرو، بس یہی میں عرض کرسکتا ہوں۔ میرے بزرگوں نے مجھے صرف اس کام کے لئے بٹھایا ہے، نہ تعویذ لکھنے کے لئے بٹھایا ہے، نہ کسی کے جسمانی علاج کے لئے بٹھایا ہے اور نہ مجھے آتا ہے۔ آپ یقین جانیے کہ اگر کوئی ڈاکٹر نہ ہو اور وہ ڈاکٹری کرنا شروع کرلے تو جرم ہے، اس سے پوچھا جائے گا اور اگر نقصان کسی کو ہوگیا تو وہ اس کا ذمہ دار ہوگا، اس لئے اس میں آسان بات یہی ہے کہ آدمی کہہ دے کہ میں ڈاکٹر نہیں ہوں، اپنے آپ کو اس سے بچانا چاہئے۔ لہٰذا مجھے جو چیزیں آپ نے بتائی ہیں، اس میں بھی صرف اس بات کے بارے میں عرض کرسکتا ہوں کہ آپ تسبیحات میں سستی نہ کریں، اپنے علاج میں سستی نہ کریں یعنی جو آپ کو اس مقصد کے لئے بتایا جائے، اس کو پورا کریں اور اس کے احوال بتا دیا کریں، پھر اس سلسلے میں جو بھی احوال آپ کے ہوں گے، ان شاء اللّٰه! اس کے بارے میں تحقیق بتائی جائے گی۔

سوال نمبر 13:

السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ۔ نبی صلی ﷺ کے روزہ اقدس پر پچھلے مہینے جو درود شریف پیش کیا ہے، تو کیا آپ ﷺ نے اسی وقت سلام کا جواب دیا؟ یعنی ان صاحب کو جو خواب میں آیا ہے، جنہوں نے درود شریف پیش کیا تھا۔

جواب:

خواب میں نہیں، بلکہ یہ کشف ہے۔ انہوں نے آپ ﷺ کے روزہ اقدس پر خود پیش فرمایا تھا اور کشف کا ہم انکار بھی نہیں کرتے، باقی یہ الگ بات ہے کہ اگر کسی کو اس پر اعتماد نہیں ہے تو حدیث شریف پر تو اعتماد ہونا چاہئے کہ آپ ﷺ سلام کا جواب دیتے ہیں، یہ حدیث شریف میں موجود ہے، اور پھر اگر اس کا کشف صحیح حدیث شریف کے مطابق ہے تو اس میں کیا غلطی ہے؟ اور یہ تو مجدد صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ بھی فرماتے ہیں کہ میرا جو کشف ہے وہ قرآن اور حدیث کے مطابق آتا ہے، اس لئے یہ بھی اس کے مطابق ہی ہے، لہٰذا اس پر کسی کو کیا اعتراض ہوسکتا ہے؟ باقی اگر حدیث پر کسی کو اعتماد اور یقین ہے تو اس کے لئے اس چیز کی ضرورت نہیں ہے، بس وہ درود شریف پڑھے گا اور اس کو یقین ہوگا۔ بلکہ یہ بھی بات ہے کہ ایک ہوتی ہے عقل اور ایک ہوتی ہے طبیعت اور شریعت میں طبیعت کا بھی خیال رکھا گیا ہے یعنی صرف عقل کا نہیں، بلکہ طبیعت کا بھی خیال رکھا گیا ہے، مثلاً اگر کوئی آپ ﷺ کو خواب میں دیکھتا ہے اور وہی چیز آپ ﷺ بتائیں جو حدیث شریف میں پہلے سے موجود ہے، تو کیا خیال ہے جس نے خواب نہیں دیکھا، لیکن حدیث شریف سنی ہے اور جس نے خواب دیکھا ہے اور حدیث شریف بھی سنی ہے، تو کیا دونوں برابر ہوگئے؟ طبعی طور پر پوچھ رہا ہوں یعنی طبعی طور پر کون زیادہ خوش ہوگا؟ خواب دیکھنے والا زیادہ خوش ہوگا، حالانکہ فرق کوئی نہیں ہے، کیونکہ حدیث شریف میں پہلے سے ایک بات موجود ہے، اس لئے دونوں اس میں برابر ہیں، لیکن ایک نے خواب دیکھا ہے اور ایک نے نہیں دیکھا، اس لئے دیکھنے والے کی خوشی بہت زیادہ ماشاء اللّٰہ! ہوگی، یہ انسان کی فطرت ہے، طبیعت ہے، اس لئے مولانا زکریا صاحب رحمۃ اللّٰه علیہ نے جو ’’فضائل درود شریف‘‘ کتاب لکھی ہے، اس میں خواب بھی لکھے ہیں۔ اگرچہ بعض لوگ اس پر بڑے اعتراض کرتے ہیں کہ خواب کیوں لکھے ہیں؟ بھئی! یہ طبیعت کی بات ہے کہ اگر کسی کو اس سے فرحت ملتی ہے اور عمل کی زیادہ توفیق ہوتی ہے تو آپ کو کیا اعتراض کرنے کا حق ہے؟ اور یہی چیز ہے کہ الحمد للّٰهِ! ثُمَّ الْحمد لِلّٰه! اس دفعہ ساتھیوں نے تراسی کروڑ کے لگ بھگ درود شریف پڑھا ہے۔ اب بتائیں! کیا یہ چیز اچھی نہیں ہے؟ اللّٰہ پاک نے اگر توفیق عطا فرمائی ہے کہ تراسی کروڑ ہوگیا اور وہ بھی ربیع الاول میں، اور ربیع الثانی میں تقریباً چار کروڑ اٹھتر لاکھ مرتبہ لوگوں نے پڑھ لیا ہے۔ لہٰذا اگر اس کی برکت سے اللّٰه پاک نے اتنی بابرکت چیز کی توفیق کسی کو دے دی تو اس کے بارے میں کیا خیال ہے؟ اسی لئے میں کہتا ہوں کہ یہ مشائخ جو ہوتے ہیں یعنی صوفیاء یہ ان دونوں چیزوں کا خیال رکھتے ہیں، علماء آپ کو صرف ایک چیز بتائیں گے، لیکن صوفیاء آپ کو دونوں چیزیں بتائیں گے اور اسی میں فائدہ ہے، کیونکہ آپ کو عمل کی توفیق ہوجاتی ہے اور یہی اصل میں سب سے بڑی بات ہے کہ توفیق ہوجائے۔ دیکھو! میں آپ کو آسان بات عرض کرتا ہوں کہ اگر میرے ہاتھ میں تسبیح ہو، تو اگر میں نے نیت نہ بھی کی ہو کہ ذکر کروں گا، لیکن پھر بھی کچھ نہ کچھ ذکر نصیب ہوجائے گا صرف تسبیح کی وجہ سے اور میرے ہاتھ میں اگر تسبیح نہ ہو اور میں نے ذکر کی نیت کی ہو، تو پھر بھی بہت مشکل ہوگا ذکر کرنا، کیوں؟ اس میں تسبیح کے ساتھ کیا مسئلہ ہے؟ تسبیح آپ سے زبردستی تو نہیں کرسکتی، لیکن ایک reminding ہے، مسلسل آپ کو remind کررہا ہے، اسی لئے اس کو مُسَبِّحہ کہتے ہیں یعنی یہ جو چیزیں ہوتی ہیں، یہ practical ہیں اور تصوف بھی practical چیز ہے۔ لہٰذا ہم لوگ صرف practical چیزوں کو دیکھتے ہیں، ہم لوگ theory کو زیادہ نہیں دیکھتے، بس theory کو اتنا دیکھتے ہیں کہ ہمارا practical غلط نہ ہو، باقی یہ practical پر زیادہ زور دیتے ہیں، تاکہ ہماری چیزیں ٹھیک ہوجائیں اور عملی طور پر نصیب ہوجائیں۔

سوال نمبر 14:

السلام علیکم۔ حضور! بڑے عرصے سے فجر کی نماز قضاء ہورہی، تقریباً سب طریقے آزما لئے ہیں یعنی روزے رکھنا، وقت پر سونا اور ابھی تو راتیں بھی لمبی ہوگئی ہیں، لیکن پھر بھی نمازیں قضاء ہورہی ہیں اور پہلے سے دوائی بھی کم ہوگئی ہے۔

جواب:

اگر آپ کے پاس کوئی ایسا ہو جو آپ کو اٹھا سکتا ہو تو آپ اس کی منت سماجت کرکے اس سے کہہ دیا کریں کہ مجھے اٹھا دیا کریں، چاہے وہ آپ کا چپڑاسی ہو، چاہے آپ کا نوکر ہو، چاہے آپ کا دوست ہو، چاہے آپ کے گھر والے ہوں یعنی جو بھی ہوں، لیکن جو نمازی ہوں، صبح اٹھتے ہوں، تو آپ ان کی منت کریں۔ اور یہ میرے ساتھ گزرا ہے، اگرچہ آپ تو دوائیوں کی وجہ سے اس طرح کررہے ہیں، لیکن میری تو دوائیوں والی بات نہیں تھی، بلکہ میری نیند ہی اتنی سخت تھی یعنی جب میں student تھا، تو صبح لوگ مجھے اٹھا دیتے، تو میں بیٹھے بیٹھے سو جاتا، یہاں تک کہ لوگ میرے ہاتھ میں لوٹا دے جاتے تو اس کے ساتھ ہی سو جاتا، اب وہ حیران ہوگئے کہ اس کے ساتھ ہم کیا کریں؟ ڈاکٹر حمید اللّٰه صاحب اس وقت Medical student تھے، ان سے روز میری لڑائی ہوتی کہ آپ نے مجھے نہیں اٹھایا، تو وہ کہتا کہ میں نے آپ کو اٹھایا تھا، آپ کے ہاتھ میں لوٹا دیا تھا، لیکن آپ نہیں اٹھے۔ خیر ان سے روز میری لڑائی ہوتی، چونکہ ان کے ساتھ Side roommate تھے، لیکن اخیر میں پھر اس کو طریقہ سمجھ میں آگیا یعنی اس نے یہ طریقہ دریافت کیا کہ اس کے ساتھ میں جب بات چیت کروں گا تو ان کا ذہن جاگ جائے گا، اب روز کوئی نئی بات لیتے کہ او شبیر صاحب! آپ کو پتا ہے یہ ہوگیا ہے؟ بس مجھے کوئی information دیتے، میں اس کو سنتا، تو اس پر بات کرلیتا تو میری آنکھ کھل جاتی۔ لہٰذا ہر ایک کے لئے کوئی چابی ہوتی ہے، میرے لئے چابی یہ تھی، اب آپ بھی اپنی چابی دریافت کرلیں، امید ہے کہ ان شاء اللّٰه! اللّٰه پاک مسئلہ حل فرمائے گا۔

سوال نمبر 15:

السلام علیکم۔ حضرت! میرے گھر والے میرے بچوں کی تصویریں مانگتے ہیں کہ میں تصویر بھیجوں، میں انکار کردیتی ہوں تو وہ ناراض ہوجاتے ہیں، چونکہ تصویر آج کے دور کا بڑا فتنہ ہے، لیکن جو شیخ کی تربیت میں نہیں ہوتے اور اصلاح کے راستے میں نہیں ہوتے تو ان کو اس بات کا اندازہ نہیں ہوتا، اس لئے جب میں انکار کردوں تو وہ ہم سے خفا ہوجاتے ہیں۔ اب ان کو کس حکمت سے سمجھایا جائے؟ تاکہ رشتوں میں دراڑ بھی نہ آئے اور ہماری بات بھی ہوجائے، تاکہ بہن بھائی بھی خفا نہ ہوں اور ہمارا مقصد بھی پورا ہوجائے۔

جواب:

میں تو صرف آپ کو حدیث شریف ہی سنا سکتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا:

’’لَا طَاعَةَ لِمَخْلُوقٍ فِيْ مَعْصِيَةِ الْخَالِقِ‘‘ (مصنف ابن ابی شیبہ، حدیث نمبر، 34406)

ترجمہ: ’’مخلوق میں سے کسی کی اطاعت نہیں ایسے کام میں جس میں اللہ کی نافرمانی لازم آئے‘‘۔

لہٰذا عقل اور فکر آپ کے پاس موجود ہوگی، تو بس ان کے ساتھ اس انداز میں بات کریں کہ کوئی feel بھی نہ کرے اور آپ ان کو صحیح بات بھی بتا دیں اور بات یہی بتانی ہے کہ یہ شریعت میں ناجائز ہے، البتہ آپ Video call کرلیں ان کو، کیونکہ Video call کی اجازت ہے، بس ان کو دکھا دیں کہ بچے ایسے ہیں، لیکن ان سے آپ قسم لے لیں کہ آپ نے photo نہیں لینی، کیونکہ Video call سے بھی photo لی جاسکتی ہے۔ بس آپ اپنی نیت یہ رکھیں، تو پھر اس طرح ان شاء اللّٰه! بات ہو جائے گی۔ اللّٰه پاک ہمیں خیر کی طرف لے جائے، شر سے بچائے۔

سوال نمبر 16:

میں باہر رہا ہوں اور اب پاکستان آگیا ہوں، لیکن یہاں پر ثواب اور دینداری تو ہے مگر رزق نہیں ہے، اور وہاں پر پیسہ ہے مگر دینداری کمزور ہے، اب میں کیا کروں؟ وہاں پر غیر مسلموں کی خدمت کرتے ہیں اور ان کے نظام کو support کرکے پیسہ ملتا ہے، جبکہ یہاں پاکستان میں کچھ ملتا ہی نہیں ہے۔ ایک مسلمان engineer جو کہ بغیر غیر مسلموں کی خدمت کے پیسہ لے ہی نہیں سکتا۔

جواب:

مجھے نہیں معلوم کہ آپ کی بات کس حد تک درست ہے۔ وَاللّٰهُ اَعْلَمُ بِالصَّوَاب۔ کیونکہ ہم بھی engineer تھے اور پاکستان میں رہے ہیں اور ہم نے ساری نوکری پاکستان میں کی ہے اور اللّٰه پاک نے رزق دیا ہے، جبکہ جرمنی میں مجھے پروفیسر واپس آنے کے لئے چھوڑ نہیں رہے تھے، میں ان کو ڈاچ دے کرکے آیا ہوں۔ اور آپ کو پتا ہے کہ جرمنی آسٹریلیا سے کچھ ranking میں اوپر ہی ہے، اس لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو بعض لوگوں کے نزدیک تو میں نے chance miss کیا ہے، لیکن الحمد للّٰہ! اللہ پاک نے بڑا اچھا رکھا ہے، شکر ہے اللّٰه کا۔ باقی یہ بات نہیں کہ یہاں پیسہ نہیں ہے، بلکہ اس پر انسان کو قناعت نہیں ہے یعنی اس کا کوئی end نہیں ہے کہ کتنا چاہئے آدمی کو۔ میں کہتا ہوں کہ اگر آپ کو دو وقت کا کھانا ملتا ہے اور آپ کا ایمان بچ جائے تو یہ اس سے بہت بہتر ہے کہ آپ کو باہر ساری دنیا مل جائے لیکن آپ کا ایمان یا آپ کے بچوں کا ایمان خطرہ میں پڑ جائے۔ اسی لئے میں وہاں سوچتا تھا کہ جو لوگ وہاں پر ہیں، بے شک وہ خود ٹھیک رہے ہیں، اور ان کی تربیت ہوچکی ہو، لیکن اپنی اولاد کی ان کو کوئی surety نہیں کہ وہ بچیں گے یا نہیں بچیں گے، کیوںکہ ان کا طریقہ تعلیمی ایسا ہے کہ اس میں بچے آپ کے نہیں رہتے، بچوں کو قربان کرلیا جاتا ہے، اس لئے اولاد والی بات وہاں بڑی مشکل ہے۔ ابھی جو U K کا وزیراعظم گزرا ہے، چوتھی پشت میں اس کا پردادا ترکی کا مسلمان تھا، لیکن یہ ایک متعصب عیسائی ہے اور غالباً یہ دوسری پشت سے معاملہ خراب ہونا شروع ہوگیا تھا اور اخیر میں یہ اس حد تک صورتحال پہنچ گئی۔ بہرحال میں آپ کو نہیں کہتا کہ آپ نہ جائیں، لیکن آپ نے سوال ہی ایسا کیا ہے کہ مجھے جواب دینا تھا۔ بس یہ Blowing question تھا، اس لئے اس کو blowing جواب سمجھ لیں۔

سوال نمبر 17:

السلام علیکم ورحمۃ اللّٰه وبرکاتہ۔ میں فلاں جگہ سے فلاں ہوں، اللّٰه کے فضل سے میرا ذکر دو سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘، چار سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘، چھ سو مرتبہ ’’حَقْ‘‘ اور ساڑھے پانچ ہزار مرتبہ ’’اَللّٰہ‘‘، ان کے ساتھ پانچوں لطائف پر دس دس منٹ مراقبہ اور پندرہ منٹ مراقبہ دعائیہ مکمل ہوگیا ہے۔ احوال: اس دفعہ آپ نے زبان، کان اور آنکھ کو کنٹرول کرنے کا سبق دیا تھا اور اس میں کوشش جاری ہے، لیکن ابھی کافی کمی ہے، خاص طور پر زبان اور کان۔ آپ سے مزید رہنمائی کی درخواست ہے۔

جواب:

آپ اس کو جاری رکھیں۔ اور زبان اور کان والی جو بات ہے، تو یہ تو بہت بڑا source ہے برائی کا، اس لئے اس کو جاری رکھیں، ان شاء اللّٰہ العزیز! فائدہ ہوگا۔ اور ذکر وہی رکھیں۔

سوال نمبر 18:

السلام علیکم۔ محترم مرشدی دامت برکاتہم! امید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گے۔ حضرت جی! سارے اذکار اس مہینے کے لئے پورے ہوگئے ہین دو، چار، چھ، چار اور تمام لطائف پر دس دس منٹ مراقبہ اور ’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ سُبحَانَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ‘‘ کا مفہوم پندرہ منٹ ہے۔ اس مراقبہ کے بعد مجھے وقوف قلبی بہت آسانی سے ہوجاتا ہے۔

جواب:

سبحان اللّٰہ! اب قرآن پاک کی ایک آیت ہے: ﴿وَهُوَ مَعَكُمْ اَیْنَ مَا كُنْتُمْؕ﴾ اس کا جو مفہوم ہے، اسے ذہن میں رکھ کر آپ پندرہ منٹ اس کا مراقبہ کریں۔

سوال نمبر 19:

السلام علیکم ورحمۃ اللّٰه وبرکاتہ۔ حضرت جی! امید ہے کہ آپ خیر وعافیت سے ہوں گے۔ میرا مراقبہ بیس منٹ ذکر قلبی کا ہے اور ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ ہوتا ہوا محسوس نہیں ہوتا۔ اکثر جب مہینہ پورا ہونے والا ہوتا ہے تو ناغہ ہوجاتا ہے۔ میرا سوال یہ تھا کہ کیا مراقبہ پھر نئے سرے سے شروع کرنا ہے یا ناغے نکال کر مہینہ پورا کرنا ہے؟ اور حضرت جی! اگر مراقبہ کرتے ہوئے درمیان میں بولنا پڑ گیا یا کسی مجبوری کی وجہ سے اٹھنا پڑا، مثلا بچہ رونا شروع کرلے تو کیا مراقبہ دوبارہ سے کرنا ہوگا یا جو منٹ باقی رہ گئے ہیں وہ پورے کرنے ہوں گے؟ مزید رہنمائی فرما دیں۔

جواب:

نہیں اس کو پورا کرلیں، بس وہ کافی ہے۔

سوال نمبر 20:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔

I pray you are well dear حضرت جی. May اللّٰه تعالیٰ prolong your shade over us all and grant me توفیق to be true مرید. I just wanted to ask one question. As we will be asked by اللّٰہ سبحانہ وتعالی on قیامت about what we did for the oppressed Muslims across the world, what's that every امہ and me especially should be doing for them?

جواب:

یہ بات تو ہم مسلسل کرتے رہے ہیں، اصل میں یہ depend کرتا ہے chance پر، will پر، نیت پر یعنی یہ تین چیزیں ہیں۔ اب نیت تو یہ رکھنی چاہئے کہ اس سے اللّٰه پاک راضی ہوجائے اور امت مسلمہ کی خدمت ہوجائے، اور will یہ بات ہے کہ جب اللّٰه پاک راستہ دے تو اس میں پھر سستی نہ کرے اور chance اس لئے کہ چونکہ اس میں ہر چیز انسان کے بس میں نہیں ہوتی، مثلاً passport ہی لے لو یا visa لے لو یعنی یہ سارے مسائل ہیں، لیکن بہرحال Where there is a will there is a way یعنی کچھ راستے تو بنتے ہیں، اس لئے اگر chance ملتا ہو تو اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔ اب ایک chance ہے جو ساری امت کو میسر ہے، جس کی مثال یہ ہے کہ آپ ﷺ نے جو پہلا لشکر جہاد کے لئے بھیجا، وہ کفارِ مکہ کے قافلے کو trap کرنے کے لئے تھا، جو کہ کفار مکہ کے طرف سے تجارت کرکے ابو سفیان کی سرکردگی میں واپس آرہا تھا اور چونکہ اس مال سے پھر وہ مسلمانوں کے خلاف ہتھیار خریدتے، اس لئے اس کو trap کرنے کے لئے یہ جماعت آئی۔ لہٰذا یہ طریقہ آج کل بھی میسر ہے کہ جو ان کی معیشت ہے، اس پر پیر رکھو اور boycott کرلو ان کی چیزوں کا، اگرچہ یہ Low level کی چیز ہو، لیکن ہماری ضرورت پوری ہوتی ہو تو یہ نہیں دیکھنا چاہئے کہ ان کی چیزیں High level کی ہیں، نہیں، بس قوت لایموت والی بات ہے کہ اگر یہ بھی ہو تو ہمیں اس میں پیش قدمی کرنی چاہئے اور ان کا boycott proper طریقے سے کرنا چاہئے یعنی جتنا ہم سے ہوسکے اور دوسروں کو بھی اس کا کہنا چاہئے۔ اور سخنے درمے قدمے یعنی جتنا انسان سے ہوسکتا ہے تو ان کی مدد کرنی چاہئے۔ اللّٰه نصیب فرمائے۔ (آمین)

سوال نمبر 21:

السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ۔ حضرت جی! اللّٰه پاک سے آپ کی صحت و تندرستی کے لئے دعاگو ہوں۔ حضرت جی! میرا مسئلہ یہ ہے کہ میں قساوت قلبی کا شکار ہوں، اکثر کچھ لوگ مالی مدد مانگتے ہیں، لیکن میں ان کی امداد پر توجہ نہیں کرتا اور یہ گمان کرتا ہوں کہ جھوٹے ہیں اور فراڈی ہیں، بعد میں اپنے رویے پر افسوس بھی ہوتا ہے، لیکن عین وقت پر کچھ گومگو کی سی کیفیت طاری ہوجاتی ہے، اور اس کے لئے پھر لوگوں کے عذر کو بھی تسلیم نہیں کرتا اور دل میں ان کو غلط ہی سمجھتا ہوں۔ برائے مہربانی اس بارے میں رہنمائی فرمائیں، اللّٰه پاک آپ کے درجات کو بلند فرمائے اور آپ کو اجر عظیم عطا فرمائے۔

جواب:

دیکھیں! یہ بات سمجھ لیں کہ یہ بات جو آپ کررہے ہیں، یہ غلط نہیں ہے، لیکن اس کا ٹیسٹ اس وقت ہوتا ہے جب آپ کو صحیح لوگ مل جائیں، لیکن اس وقت بھی آپ خدمت نہ کریں۔ اس لئے آپ اس کے لئے checks علماء کرام سے اور مشائخ سے سیکھ لیں کہ کون سی چیز کو چیک کرنا ہے کہ وہ مستحق ہے یا نہیں، اگر مستحق آپ کو نظر آئے تو پھر آپ ان کی ضرورت خدمت کریں جتنا ہوسکتا ہے، اور اگر مستحق نہ ہوا تو پھر علیحدہ بات ہوگی، لیکن ایسی صورت میں اگر آپ اس کو احتیاطاً نہیں کررہے تو یہ جرم نہیں ہے، یہی تو management ہے اور یہ management ہونی چاہئے، اس لئے اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

سوال نمبر 22:

السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ۔

نمبر 01: تمام لطائف پر پانچ منٹ ذکر اور مراقبہ شیوناتِ ذاتیہ پندرہ منٹ ہے، جو محسوس نہیں ہوتا۔

جواب:

اس کو جاری رکھیں۔

نمبر 02: لطیفۂ قلب دس منٹ، لطیفۂ روح دس منٹ، لطیفۂ سر دس منٹ اور لطیفۂ خفی دس منٹ ہے، اور ذکر محسوس ہورہا ہے اور ذکر میں کافی کمزوری محسوس ہوتی ہے، خاص کر جب ناغہ ہوجائے۔

جواب:

ناغہ بالکل نہ کریں اور اگر محسوس ہورہا ہے تو پھر سارے دس دس منٹ کرلیں اور جو مراقبۂ احدیت ہے، وہ ان کو دے دیں۔

نمبر 03: تمام لطائف پر پانچ منٹ ذکر اور مراقبۂ معیت اور دعائیہ پندرہ منٹ ہے، اللّٰه تعالیٰ کی معیت محسوس ہوتی ہے اور تکلیف میں یہ احساس بہت بڑھ جاتا ہے اور یقین ہوتا ہے کہ یہ تکلیف اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور یہ تکلیف ہمارے گناہوں کے کفارے کا سبب بنے گی، اللّٰه تعالیٰ ہماری تکالیف کو ضائع نہیں فرمائے گا۔ اور کثرت سے دعائیں مانگتی ہوں، اکثر دل میں ایسی دعائیں آتی ہیں جو بالکل نئی ہوتی ہیں اور جب وقت کی کمی یا جسمانی تکلیف کی وجہ سے کوئی اور عبادت نہیں کرسکتی تو دعا کرتی رہتی ہوں، فضول وقت ضائع نہیں کرتی، بلکہ دل ہی دل میں غیر اختیاری دعا شروع ہوجاتی ہے، دعا میں توجہ نصیب ہوتی ہے۔

جواب:

ٹھیک ہے، ماشاء اللّٰه! بہت اچھا فیض ہے۔ اب اس فیض پر شکر کی کیفیت میں رہیں یعنی پانچ منٹ یہ کرلیں جو ابھی ہے اور دس منٹ اس پر شکر کی کیفیت کے ساتھ متوجہ ریں۔

نمبر 04: لطیفۂ قلب دس منٹ، لطیفۂ روح دس منٹ، لطیفۂ سر دس منٹ، لطیفۂ خفی پندرہ منٹ ہے اور خفی پر تھوڑا تھوڑا محسوس ہوتا ہے، باقی پر صحیح محسوس ہوتا ہے۔

جواب:

فی الحال اس کو جاری رکھیں۔

نمبر 05: ابتدائی وظیفہ بلا ناغہ پورا کرلیا ہے۔

جواب:

سبحان اللّٰہ! اب ان کو پہلے والا دس منٹ کا ذکر دے دیں۔

نمبر 06: تمام لطائف پر پانچ منٹ ذکر اور مراقبہ صفات ثبوتیہ پندرہ منٹ ہے، اللّٰه تعالیٰ کی صفات پر پختہ یقین حاصل ہوگیا ہے۔ اس کے علاوہ درود شریف کی کثرت، نوافل اور تلاوت قرآن کی توفیق نصیب ہوئی ہے۔

جواب:

ماشاء اللّٰہ! بڑی اچھی بات ہے۔ اب مراقبہ شیونات ذاتیہ ان کو دے دیں۔

نمبر 07: لطیفۂ قلب دس منٹ، لطیفۂ روح دس منٹ، لطیفۂ سر پندرہ منٹ ہے اور تمام لطائف پر ذکر محسوس ہوتا ہے، الحمد للّٰہ!

جواب:

اب اس کو لطیفۂ خفی دے دیں پندرہ منٹ کے لئے اور باقی دس دس منٹ کریں۔

نمبر 08: تمام لطیفہ پر دس منٹ ذکر اور مراقبہ شیونات ذاتیہ پندرہ منٹ ہے۔ اس بات کا ادراک ہوا ہے کہ اللّٰه تعالیٰ کی شان مختلف ہوتی ہے، وہ ایک شان میں نہیں ہوتے یعنی شان بدلتی رہتی ہے۔

جواب:

ماشاء اللّٰہ! اب اس کو مراقبہ تنزیہ دے دیں۔

نمبر 09: لطیفۂ قلب دس منٹ ہے، جو کہ محسوس ہوتا ہے۔

جواب:

الحمد للّٰهِ! اب لطیفۂ قلب دس منٹ کی جگہ پندرہ منٹ کرلیں۔

نمبر 10: تمام لطائف پر پانچ منٹ ذکر اور مراقبہ آیۃ الکرسی کا مفہوم پندرہ منٹ ہے۔ آیۃ الکرسی میں اللّٰه تعالیٰ کی جو صفات بیان کی گئی ہیں، وہ دل و دماغ میں پختہ ہوگئی ہیں اور ان کا استحضار نصیب ہوا ہے۔

جواب:

اب ان کو آیت کریمہ کا مفہوم بتا دینا کہ وہ اس کا مراقبہ کریں۔

نمبر 11: لطیفۂ قلب دس منٹ، لطیفۂ روح پندرہ منٹ ہے اور محسوس ہوتا ہے۔

جواب:

الحمد للّٰهِ! اب دونوں لطیفے دس منٹ اور تیسرا لطیفہ پندرہ منٹ کا بتا دیں۔

نمبر 12: تمام لطائف پر پانچ منٹ ذکر اور مراقبہ حقیقت کعبہ پندرہ منٹ ہے اور محسوس نہیں ہوتا ہے۔

جواب:

اس کو جاری رکھیں۔

نمبر 13: تمام لطائف پر پانچ منٹ ذکر اور مراقبہ معیت اور دعائیہ پندرہ منٹ ہے، جو کہ محسوس نہیں ہوتا۔

جواب:

اس کو جاری رکھیں۔

سوال نمبر 23:

آدھا کھانے کا مجاہدہ جاری ہے، لیکن اس ہفتے نفس کا غلبہ زیادہ رہا ہے، Surbex-Z tablet اب لینا شروع کی ہیں، جس کی وجہ سے بھوک زیادہ لگ رہی ہے، اس لئے بھوک لگتی ہے تو کھانا کھا لیتی ہوں، لیکن سیر ہوکر نہیں کھاتی، بلکہ بھوک رکھ کر کھا لیتی ہوں، لیکن کھانے کی مجموعی مقدار بڑھ جاتی ہے، اس ہفتے کنٹرول کرنے کی کوشش کروں گی، ان شاء اللّٰه!

جواب:

کنٹرول کرنے کی کوشش کرلیں اور یاد رکھیں کہ جتنا demand آپ کو کھانے کی ہے، اس کی ضرورت نہیں ہوتی، بس یہ انسان کی اپنی خواہش ہوتی ہے۔ باقی انسان جب موٹا ہوتا ہے اور اس پر چربی ہوتی ہے تو وہ چربی کام آتی ہے یعنی جب انسان کو بھوک لگتی ہے تو سمجھ لو کہ اس وقت جسم چربی کھانا شروع کررہا ہے، لیکن اگر آپ اس وقت کھانا کھا لیں گے تو وہ چیز جب ان کو باہر سے مل گئی تو اندر سے کیوں کھائیں گے؟ لہٰذا اس بات کو اپنے خیال میں رکھ کر اپنی چربی کے ذریعے سے زندہ رہنا سیکھ لیں۔

سوال نمبر 24:

السلام علیکم۔ حضرت! آج کل عمل کی بہت کمی ہے، مدرسوں میں بھی زیادہ زور علوم پر ہے، تربیت تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے، حالانکہ پہلے زمانے میں لوگ باقاعدہ تربیت کے لئے جاتے تھے۔ کیا آج کے دور میں بھی علم سے فراغت کے بعد اپنی تربیت کے لئے اپنے شیخ کے پاس خاص طور پر اصلاح نفس کے لئے جایا جاسکتا ہے؟

جواب:

کیوں نہیں جایا جاسکتا؟ بلکہ علم حاصل کرنے کے بعد تو لازمی ہے، البتہ آج کل کے حالات کے مطابق بقول حضرت مولانا زکریا صاحب رحمۃ اللّٰه علیہ کے کہ بعد میں پھر توفیق کم ہی ملتی ہے، لہٰذا اپنے طالب علمی کے دوران ہی اپنے شیخ سے تعلق رکھنا چاہئے، تاکہ یہ چیز اس وقت تک اتنی develop ہوچکی ہو کہ جب عالم ہوجائے تو اس کو جاری رکھ سکے اور ماشاء اللّٰہ اس کے فوائد حاصل کرسکے۔

سوال نمبر 25:

Many things حضرت. I will listen and make notes. This is some good information to understand. جزاک اللّٰهُ خیراً

جواب:

ماشاء اللّٰه!

سوال نمبر 26:

حضرت! یہ تجلیات صفات سلبیہ کا جو مراقبہ ہے، اس میں کیا نیت کرنی چاہیے؟ اور یہ سلبی کیفیت کیا ہے؟

جواب:

دیکھیں! حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللّٰه علیہ کو اللّٰه تعالیٰ بہت بلند درجات نصیب فرمائے، یہ اصل میں انہوں نے ہمارے عقائد کو مستحضر کرنے کے لئے مراقبات بنائے ہیں. یہ سب ہمارے عقائد ہیں، تجلیات افعالیہ یقین ہے، اور جو صفات ثبوتیہ ہے یہ ہمارا عقیدہ ہے اور شیونات ذاتیہ ہمارا عقیدہ ہے، جیسے اللہ فرماتا ہے:

﴿كُلَّ يَوۡمٍ هُوَ فِىۡ شَاۡنٍ‌ۚ﴾ (الرحمٰن: 29)

ترجمہ: ’’وہ ہر روز کسی شان میں ہے‘‘۔

اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

﴿قُلۡ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ‌ ۝ اَللّٰهُ الصَّمَدُ ۝ لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْ ۝ وَلَمْ یَكُنْ لَّهٗ كُفُوًا اَحَدٌ﴾ (الاخلاص: 1-4)

ترجمہ: ’’کہہ دو: بات یہ ہے کہ اللہ ہر لحاظ سے ایک ہے۔ اللہ ہی ایسا ہے کہ سب اس کے محتاج ہیں، وہ کسی کا محتاج نہیں۔ نہ اس کی کوئی اولاد ہے، اور نہ وہ کسی کی اولاد ہے۔ اور اس کے جوڑ کا کوئی نہیں‘‘۔

یعنی اَحَدٌ یہ سلبیہ ہے۔ لہٰذا یہ چیزیں مستحضر رکھیں کہ اللّٰه ایسا نہیں ہے، یعنی جو ہمارا خیال ہے اللّٰه کے بارے میں کہ اللّٰه پاک نہ سوتے ہیں، نہ اللّٰہ پاک فوت ہوتے ہیں، نہ اللّٰہ جل شانہٗ کھاتے ہیں، نہ پیتے ہیں، نہ اس کی اولاد ہے، نہ وہ کسی کی اولاد ہے، نہ اس کی بیوی ہے یعنی جو انسانوں کی صفات ہوسکتی ہیں، اللّٰه پاک کی وہ نہیں ہیں، بس اس کو مستحضر کرنے کے لئے صفات سلبیہ کا مراقبہ ہے۔ اور اس کو اس طریقے سے اپنے ذہن میں لا کر اس کا ایک فیض ہے اور وہ فیض کیا ہے کہ وہ اللّٰه تعالیٰ کی طرف سے آپ ﷺ کی طرف آرہا ہے اور آپ ﷺ کی طرف ہی سے عقیدہ آیا تو پھر آپ ﷺ سے شیخ کی طرف، کیونکہ یہ شیخ ہی بتا رہا ہے اور شیخ سے ہماری طرف۔ لہٰذا حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کو اللّٰه پاک نے یہ فکر عطا فرمائی تھی کہ یہ چیزیں انسان کی درست ہوجائیں، کیونکہ اس وقت بگاڑ انہی چیزوں میں تھا اور بہت زیادہ بگاڑ تھا اور وحدت الوجود کا جو عقیدہ تھا اس میں بگاڑ پیدا ہوگیا تھی، اسی طرح اللہ تعالیٰ کی صفات میں لوگوں کو شریک کرلیتے تھے یعنی اللّٰه کی صفات کے بارے میں گڑبڑ بھی لوگ کرتے تھے، حتیٰ کہ لوگ اللّٰه پاک کے دیدار کا دعوی کرلیتے تھے، تو اور کیا نہیں ہوسکتا؟ جبکہ اللہ تعالیٰ کا جو فرمان ﴿لَنْ تَرَانِیْ﴾ ہے، اس میں بھی سلبیہ والی بات ہے کہ اللّٰه کو کوئی دیکھ نہیں سکتا۔ لہٰذا اس پر بھی حضرت نے زور دیا۔ البتہ چونکہ نقشبندی سلسلے میں مراقبات ہوتے ہیں اور مراقبات کا بعض کے لئے ایک Side effect کشف بھی ہے، کیونکہ کشف جب لوگوں کو ہونے لگتا ہے تو اگر اس کی اصلاح نہ ہوئی ہو تو شیطان کو راستہ مل جاتا ہے، وہ پھر ان کی detect کرتا ہے، اور اس میں مختلف قسم کی چیزیں وہ شامل کرلیتا ہے۔ کیونکہ اگر وہ قرآن کے اندر کوشش کرسکتا تھا اور وہ try کررہا تھا، جس کے لئے اللّٰه پاک نے پورا ایک نظام بنایا، تو ایک انسان کی کیا حیثیت ہے کہ وہ اس کے اس کشف میں شامل نہیں ہوسکتا۔ ہوسکتا ہے، کیونکہ وہ ہر چیز میں کوشش کرتا ہے، خواب میں کرسکتا ہے، کشف میں کرسکتا ہے، بہت ساری چیزوں میں وہ کرسکتا ہے، اس لئے وہ ان چیزوں کا استعمال کرتا ہے۔ بلکہ یہ بھی ایک کشف ہی ہے، اگرچہ جو نہ مانے تو وہ بالکل نہ مانے، ان کے اوپر لازم نہیں ہے، لیکن جو مجھ تک پہنچی ہے کہ مجدد صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ نے فرمایا کہ آج کل کے دور میں حقیقتِ محمدی، حقیقتِ احمدی، یہ مراقبات لوگ نہ کریں تو اچھا ہے، کیونکہ اس سے کشف ہوتا ہے اور کشف آج کل خطرناک ہے۔ اور دوسرا زیادہ اچھا ہے یعنی حقیقتِ کعبہ، کیونکہ اس کا عبادات کے ساتھ تعلق ہے، اس لئے اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللّٰه علیہ کے فیض کو لوگوں نے miss understand کیا ہے، جتنی چیزوں سے حضرت بچانا چاہتے ہیں، اسی میں لوگ پڑ رہے ہیں۔

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ



  1. ۔ (آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب)

    نوٹ! تمام آیات کا ترجمہ آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم سے لیا گیا ہے۔

سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات - مجلسِ سوال و جواب