سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 647

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال نمبر 1:

اللہ پاک آپ کو مزید برکتوں سے نوازے، (آمین) شاہ صاحب! یہ سچ ہے کہ میں کسی سلسلہ سے مطابقت نہیں رکھتا اور نہ کسی کامل شیخ سے وابستہ ہوں۔ جب مجھے ڈھونڈنے پر کوئی نہیں ملا تو اللہ رب العٰلمین سے التجا کرنی شروع کردی اور بہت سے اولیاء کرام جو رخصت ہوچکے ہیں، تو رب کے حضور دو رکعت پڑھ کر ان کی طرف متوجہ ہونے کی کوشش کی، مگر محروم ہی رہا، طلب ذات تو باری تعالیٰ کی ہے کہ اس کی دوستی، قرب، عشق اور محبت مل جائے، میں اس کا اور وہ میرا ہوجائے۔ باقی نہ مجھے جنات دیکھنے کی طلب ہے، نہ مستجاب الدعوات ہونے کی، نہ کشف کے اقسام ملنے کی، نہ آسمان اور زمین کی سیر کرنے کی اور نہ کسی کرامت کی، مگر یہ چیزیں جب عطا ہوجائیں تو رب تعالیٰ کا شکر ادا کرنا ہے، لیکن یہ چیزیں بھی راستے کی رکاوٹ بن جاتی ہیں، کیونکہ منزل تو صرف ایک ہی ہے، اگر بندہ ان چیزوں میں کھو گیا تو رہ گیا، اس وجہ سے اس پر توجہ کم ہی رکھنا ہوتی ہے۔ شاہ صاحب! اتنے عرصہ مرشد سے محروم رہنے کے سبب کبھی کبھی دل اکتا جاتا ہے اور بے بسی اور محتاجی سی محسوس ہوتی ہے۔ خیال ہوتا ہے کہ اب تک محروم ہو، تو آخر کب تک اپنے آپ کو اذیت دیتے رہو گے؟ راستہ تمھارے لئے نہیں ہے، ورنہ اب تک تمھاری رہنمائی ہوجانی چاہئے تھی اور یہ راہ مرشد کے بغیر ممکن نہیں ہے اور تم اس سے ہی محروم ہو، لہٰذا اب پلٹ جاؤ اپنی پہلے والی دنیا کی زندگی کی طرف اور فائدہ اٹھا لو، کھا، پی لو اور دوستی، یاری لگاؤ، گھومو پھرو، عیش و عشرت کرو، طرح طرح کے کپڑے، کوٹ اور جوتے پہنو اور دوسرے کو اپنی کوئی چیز نہ دو، بس سب تمھارا ہی ہے اور سب کچھ تم ہی ہو، کوئی دوسرا تمھارا کچھ بھی نہیں۔ شاہ صاحب! مجھے معاف کردیں کہ ایسے جاہلانہ الفاظ میں بات کررہا ہوں، میں آپ کے ایک چھوٹے بھائی کی طرح ہوں، میری عمر تقریباً چوبیس سال ہے، میری ایک بیٹی ہے، میرے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ میرا ہاتھ تھام لے اور مجھے خود پر فنا ہونے کا راستہ دکھا دے۔

جواب:

دیکھیں! یہ ایک طے شدہ بات ہے کہ جو چاہتا ہے کہ اس کو ہدایت مل جائے، تو اس کو اللہ ہدایت دیتے ہیں، یہ نہیں ہوسکتا کہ کوئی چاہے اور اس کو ہدایت نہ ملے۔ جیسا کہ اللہ پاک خود فرماتے ہیں:

﴿وَالَّذِیْنَ جَاهَدُوْا فِیْنَا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَا﴾ (العنکبوت: 69)

ترجمہ1: ’’اور جن لوگوں نے ہماری خاطر کوشش کی، ہم ان کو ضرور بالضرور اپنے راستوں پر پہنچا دیں گے‘‘۔

لہٰذا کوشش ضروری ہے اور کوشش صحیح طریقے سے کرنا ضروری ہے، یعنی اگر صرف اپنی اصلاح کرنی ہے، تو اصلاح کے لئے جو نظام ہے، وہ بتا دیتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ رہنمائی تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مل جاتی ہے، لیکن اس پر عمل کرنا سالک کا اپنا کام ہوتا ہے، یہ نہیں ہوتا کہ کوئی شخص کسی پر ایسی حالت طاری کردے کہ خود بخود اس کی اصلاح ہوجائے اور سارا کچھ خود بخود ہونے لگے، یہ جاہل پیروں کی باتیں ہیں، لیکن صحیح پیر اس طرح کبھی نہیں کہیں گے۔ اور یہ ماشاء اللہ! آپ کو بھی علم ہے، اس وجہ سے رہنمائی حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے، کام خود کرنا پڑے گا اگر آپ کو یہ مطلوب ہے۔ اور جیسے ہمیں آپ نے لکھا ہے، تو اگر ہم پر آپ کو اطمینان ہے، اور یہ آپ کا اپنا کام ہے، اس میں آپ کو مجبور نہیں کرسکتا، بس اگر آپ کو اطمینان ہے تو میں جو عرض کروں گا، اس کو اچھی طرح سن لیں اور اس پر عمل کرنا شروع کرلیں، راستہ ملتا جائے گا، ان شاء اللہ! اللہ تعالیٰ کسی کو مایوس نہیں فرماتے۔ لہٰذا سب سے پہلے آپ یہ کرلیں کہ تین سو دفعہ تیسرے کلمہ کا پہلا حصہ ’’سُبْحَانَ اللهِ، وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ، وَلَآ إِلٰهَ إِلَّا اللهُ، وَاللهُ أَكْبَرُ‘‘ اور دو سو دفعہ ’’وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيْمِ‘‘ چالیس دن تک بلاناغہ پڑھیں یعنی اس میں ناغہ نہیں ہوتا، اگر ناغہ ہوجائے تو پھر دوبارہ شروع کرنا پڑتا ہے اور شیطان اس میں ناغہ ضرور کرانے کی کوشش کرتا ہے، اس لئے یہ آپ کا اپنا کام ہے کہ اس کو کب مکمل کرتے ہیں، بس یہ آپ چالیس دن تک کریں گے، ان شاء اللہ! اور اس میں ناغہ نہیں ہونا چاہئے، اس لئے کوئی وقت مقرر کرکے آپ کرلیں۔ دوسرا ہر نماز کے بعد تینتیس بار ’’سُبْحَانَ اللهِ‘‘، تینتیس بار ’’اَلْحَمْدُ للهِ، چونتیس بار ’’اَللهُ أَكْبَرُ‘‘، تین دفعہ کلمہ طیبہ، تین دفعہ درود ابراہیمی، تین دفعہ استغفار، ایک مرتبہ آیت الکرسی پڑھنا ہے۔ اور یہ جو نماز کے بعد والا ہے، یہ عمر بھر کے لئے ہے اور پہلے والا چالیس دن تک کے لئے ہے۔ جب یہ پورا ہوجائے تو پھر آپ بتا دینا، ان شاء اللہ! اگلا سبق ملے گا، لیکن یہ بنیادی سبق ہے، اس لئے اس میں ناغہ نہیں ہونا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرما دے، باقی اللہ کی مدد سے سب کچھ ہوتا ہے۔

سوال نمبر 2:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ میں فلاں لاہور سے ہوں، آپ سے تین سال سے بیعت ہوں اور فلاں صاحبہ کو report دیتی ہوں۔ حدیث شریف میں آتا ہے:

’’إنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ‘‘ (مسلم: 4927)

ترجمہ: ’’تمام اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے‘‘۔

سوال یہ ہے کہ کبھی کسی فرد کی خدمت یا اس سے محبت اللہ کو خوش کرنے کی نیت سے کرتے رہے، مگر پھر کیا وجہ ہے کہ جب اس خدمت یا محبت یا اطاعت پر اس فرد کی طرف سے کسی قسم کی قدر نہ ملی ہو تو اپنے دل میں تکلیف ہوتی ہے، شکوہ ہوتا ہے، آخر اس کی کیا وجہ ہے، کیا یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ اپنے رشتوں سے محبت اور خیال رکھنے کے جواب میں کم از کم محبت کی توقع رکھتا ہے یا اس کے ایسے عمل کو اسی level کا ہونا چاہئے کہ اس فرد کی ناقدری، مسلسل حقارت کے جواب میں بھی خود کو تکلیف نہ دے اور سوچے کہ یہ سب میں نے اصل میں اللہ تعالیٰ کے لئے کیا تھا۔ اگر ایسا required ہے تو پھر اس کی تکلیف سے کیسے خود کو بچایا جائے؟ دراصل سوال میرے ذہن میں یہ ہے کہ کیا ایسا required اللہ کی طرف سے ہے؟ یہ سب خدمت وغیرہ جو اپنی طرف سے اللہ کے لئے ہے، وہ ضائع تو نہیں جائے گی؟ اگرچہ عملی طور پر دوسروں کے نامناسب رویے کے باوجود اپنے فرائض ادا کرنے کی انسان کوشش کرتا ہے، مگر دل میں تکلیف اور غصہ بھی ہوتا ہے، تو کیا یہ غلط ہے؟ اور اگر نیت اللہ تعالیٰ کے لئے تھی تو پھر تکلیف کیوں ہے؟

برائے مہربانی یہ بات جو اوپر لکھ کر بھیجی ہے، اس کا جواب عطا فرما دیں، کیونکہ میرے لئے اہمیت رکھتا ہے کہ میں نے اپنے سارے تعلق داروں کے ساتھ معاملات میں اصول رکھنے کی کوشش کی ہے، اَلْحَمْدُ للہ! مجھے بڑی عزت ملی ہے، مگر اپنے دل کا اگر یہ حال ہو تو کہیں میرا سارا کیا کرایا تباہ نہ ہوجائے اور اللہ کے حضور خالی ہاتھ نہ ہوں۔

جواب:

آپ نے جو سوال کیا ہے، اس سوال میں کچھ چیزیں آپ نے شاید قصداً مخفی رکھی ہیں، اگرچہ میں اس کو کریدنے کی کوشش تو نہیں کروں گا، لیکن جس انداز میں آپ نے پوچھا ہے، اس انداز میں آپ کو جواب دوں گا۔ اگر آپ نے clearly پوچھا ہوتا کہ کس کے ساتھ آپ کا معاملہ ہے؟ تو میں clearly بات کرلیتا، لیکن اب جس level کی آپ نے بات کی ہے، اس level کا جواب دے دوں گا۔ دیکھیں! ایک ہوتی ہے طبعی بات اور ایک ہوتی ہے عقلی بات۔ عقلی بات تو یہی ہے جو آپ نے کہی ہے کہ جب آپ نے اللہ کے لئے کیا ہے، تو پھر کسی اور سے اس کا صلہ نہیں مانگنا چاہئے۔ اس پر میں نظیر کے طور پر ایک بات کرتا ہوں یعنی اگرچہ مسئلہ اس کا نہیں ہے، لیکن نظیر کے طور پر بات کرتا ہوں کہ صلہ رحمی میں یہ فرمایا گیا ہے کہ اصل صلہ رحمی وہی ہے کہ اگر دوسرا قطع رحمی کررہا ہو، لیکن یہ صلہ رحمی کررہا ہو، تو پھر یہ واقعی صلہ رحمی ہوگی، ورنہ پھر یہ بدلہ ہے۔ اسی طریقہ سے آپ کے سوال میں بھی بات یہ ہے کہ عقلی بات یہی ہے کہ آپ کو اس کی پروا نہیں کرنی چاہئے کہ وہ میرے ساتھ کیا رویہ رکھتا ہے، اگر آپ نے اس کے ساتھ اللہ کے لئے تعلق رکھا ہے اور اللہ کے تعلق کی وجہ سے آپ اس کی خدمت کررہی ہیں، لیکن اگر طبعی طور پر ایسا محسوس ہورہا ہے تو اس کی پروا نہیں کرنی چاہئے، کیونکہ طبیعت انسان کی پابند اس طرح آسانی کے ساتھ نہیں ہوتی، لیکن جب وہ طبیعت ثانیہ بن جاتی ہے اور پوری اصلاح ہوجاتی ہے، تو پھر ایسا مسئلہ نہیں ہوتا، لیکن وہ ایک کام ہے، جو بعد میں ہوسکتا ہے، ابھی آپ پہلی طبیعت پر چل رہی ہیں اور پہلی طبیعت میں یہ ہے کہ تکلیف ہوگی۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ جیسے operation کسی کا ہورہا ہو، اب اس کی کوئی چیز اگر کاٹی جارہی ہو اور اس کو anesthesia نہیں دیا تو تکلیف اس کو ہوگی، لیکن خوش بھی ہوگی کہ میرا مرض اس سے زائل ہوجائے گا اور مجھے صحت ہوجائے گی، لہٰذا صحت ملنے کی وجہ سے وہ خوش ہوا ہے اور موجودہ تکلیف پر فریاد بھی کرتا ہے۔ اس لئے آپ طبعی چیزوں اور عقلی چیزوں کو گڑبڑ نہ کریں، پھر اس قسم کی بات نہیں پیش آئے گی۔

سوال نمبر 3:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت جی!

‘‘لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ’’ two hundred ‘‘لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ’’ four hundred ‘‘حَقْ’’ six hundred ‘‘اَللّٰہ’’ five hundred, ten minutes مراقبہ of قلب، روح، سر خفی and اخفیٰ fifteen minutes مراقبہ معیت have been completed for one month اَلْحَمْدُ للہ. For future, waiting for your instructions. احوال: Feeling ashamed of my sinful life and feeling closeness with Allah سبحانہ و تعالیٰ. Meeting with people rarely. جزاک اللہ خیراً

جواب:

سبحان اللہ! اب مراقبۂ معیت کے ساتھ مراقبہ دعائیہ بھی شامل فرما لیں یعنی جب آپ کو احساس ہو کہ اللہ میرے ساتھ ہے تو اللہ پاک سے مانگنا شروع کرلیں۔ اور آج کل جو بہت زیادہ مانگنے کی چیز ہے، وہ فلسطین میں جو کچھ ہورہا ہے، وہ مانگیں یعنی اللہ تعالیٰ سے مسلمانوں کے لئے مدد مانگیں اور ہم سب کے لئے عافیت اور دجالی فتنوں سے حفاظت مانگیں اور امام مہدی علیہ السلام اگر ہمارے وقت میں تشریف لائیں تو ان کے ساتھ ہونے کی دعا کریں۔ بس یہ دعائیں کریں ہمارے لئے بھی اور اپنے لئے بھی اور باقی چیزیں اپنی جاری رکھیں۔

سوال نمبر 4:

السلام علیکم۔ حضرت جی! میں شادیوں میں شرکت کرنے کے حوالے سے کافی پریشان ہوں، اس لئے کہ شادیوں میں جو آج کل حالات ہیں، وہ شرکت کرنے والے نہیں ہیں، بس میں سب سے معذرت کرلیتی ہوں اور شادی سے چند دن پہلے جاکر تحفہ دے آتی ہوں۔ کیا میرا یہ عمل درست ہے؟

جواب:

ہاں! بالکل آپ کا یہ عمل درست ہے، البتہ اس تحفہ کے بدلے کی نیت نہ کیا کریں کہ وہ آپ کو بدلہ دیں گے۔

سوال نمبر 5:

السلام علیکم۔

Sir اَلْحَمْدُ للہ مراقبہ went so well. I started it with an intention to have connection with Allah سبحانہ وتعالیٰ and ان شاء اللہ I will do my efforts. Sir you are required to do dua for this goal to achieve ان شاء اللہ. When I inform you after the completion of this month I will tell you what happened. Today, I did not put any pressure it was the نیت and most importantly Allah سبحانہ وتعالیٰ bless me with His help.

جواب:

ماشاء اللہ! اللہ تعالیٰ مزید توفیقات سے نوازے اور آپ اپنے مراقبہ کے بارے میں مجھے بتا دیں۔

سوال نمبر 6:

السلام علیکم شاہ صاحب

I have completed ‘‘ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ two hundred times ‘‘لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ’’ four hundred times ‘‘حَقْ’’ six hundred times and ‘‘اَللّٰہ’’ two hundred times. Please guide further. جزاک اللہ خیراً

جواب:

Now you should do اللہ three hundred times. The rest will be the same. ان شاء اللہ

سوال نمبر 7:

السلام علیکم۔ آپ نے جو ذکر بتایا ہوا ہے، وہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ دو سو مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ چار سو مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ چھ سو مرتبہ اور ’’اَللّٰہ‘‘ پانچ سو دفعہ اور دس دس منٹ یہ تصور کرنا ہے کہ میرا لطیفۂ قلب، لطیفۂ روح، لطیفۂ سر، لطیفۂ خفی اور لطیفۂ اخفیٰ پر ذکر ہورہا ہے، پانچوں لطائف سے ہلکی ہلکی آواز ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کی محسوس ہوتی ہے اور پندرہ منٹ مراقبۂ معیت کے ساتھ قلبی دعائیں امت کے لئے ہیں اور نماز میں خشوع و خضوع کی کوشش ہے، اسے ایک مہینہ مزید ہوگیا ہے، دو دن بخار کی وجہ سے ناغہ ہوگیا تھا۔ جب آپ سے بات ہوئی تھی اور میسج آیا تھا تو کچھ دن ذکر میں توجہ رہتی ہے، نماز میں بھی سکون محسوس ہوتا ہے، بعد میں پھر وہی بے چینی شروع ہوجاتی ہے۔ آگے آپ guide کریں۔

جواب:

اب آپ یہ کریں کہ آپ میں جتنے بھی عیوب ہیں، وہ آپ نوٹ کرلیں اور اس کی ایک پوری list بنا کر وہ مجھے بھیج دیں، پھر ان شاء اللہ! مزید بات ہوگی اور ذکر یہی جاری رکھیں۔

سوال نمبر 8:

السلام علیکم۔

فلاں from Karachi. I have completed the third level of ذکر for forty days. Please advise further.

جواب:

Now you can start fourth level.

سوال نمبر 9:

جی! دل میں حرکت بھی محسوس ہوئی تھی، جیسے کہ گوشت کا ٹکڑا Back and forth motion کرے اور مراقبہ کے دوران دماغ میں جو آئے، جیسے کمر سیدھی ہوجائے یا ہاتھ دعا کی حالت میں آجائیں، تو خود بخود جسم حرکت شروع کرتا ہے اس حالت میں آجانے کی محنت کرنے کے باوجود۔

جواب:

ٹھیک ہے، ماشاء اللہ! اگر آپ کو لطیفۂ قلب میں محسوس ہوتا ہے تو اب لطیفۂ روح پر یہی ذکر کریں پندرہ منٹ یعنی دس منٹ دل میں یہ کیفیت محسوس کریں کہ ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ ہورہا ہے اور پندرہ منٹ لطیفۂ روح میں۔ لطیفۂ روح کی position یہ ہے کہ آپ اگر ناک سے پاؤں تک درمیان میں جسم کو بالکل آدھا کریں، تو جو لائن اس کو آدھا کررہی ہے، اس لائن سے جتنا بائیں طرف دل ہے، اتنا دائیں طرف اور اتنے ہی فاصلہ پر لطیفۂ روح ہے، بس اسی پر پندرہ منٹ تصور کرلیں۔ یہ ایک مہینے کے لئے کریں۔

سوال نمبر 10:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ احوال: حضرت جی! معمولات اَلْحَمْدُ للہ معمول کے مطابق ہورہے ہیں۔ حضرت جی! میرا ذکر ایک مہینہ کے لئے دو سو، چار سو، چھ سو اور ساڑھے پندرہ ہزار مرتبہ ’’اَللّٰہ‘‘ کے فضل اور آپ کی دعاؤں کی برکت سے مکمل ہوگیا ہے۔ حضرت جی! کیفیت میں خاص تبدیلی محسوس نہیں ہورہی، نمازیوں کی جوتیاں سیدھی کرنے کا مجاہدہ بھی جاری ہے۔ میرے لئے آگے کیا حکم ہے؟ حضرت جی! کوتاہیوں پر معافی کا طلبگار ہوں۔

جواب:

ذکر اب سولہ ہزار مرتبہ کریں، باقی چیزیں وہی ہیں ان شاء اللہ!

سوال نمبر 11:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت جی! ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کا ذکر ہے یعنی یہ خیال کرنا کہ دل ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کررہا ہے اور اللہ محبت سے دیکھ رہے ہیں۔ اس ذکر سے میرے دل میں ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کرنے کا خیال تو ہوجاتا ہے، لیکن جب یہ خیال کرتا ہوں کہ اللہ محبت سے دیکھ رہے ہیں، تو اوقات یاد آجاتی ہے کہ کرتوت ایسے ہیں، پھر بھی محبت کے ساتھ کیسے؟ عملی طور پر جانتا ہوں کہ مایوسی گناہ ہے اور اللہ کی رحمت ہر حال میں میرے گناہوں سے وسیع ہے، پر سوچ سے چھٹکارا مشکل ہوجاتا ہے، guide کیجئے گا۔

جواب:

اصل بات یہ ہے کہ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ ہم بہت گناہگار ہیں، لیکن اللہ پاک ہم پر اپنی ماؤں سے بھی زیادہ مہربان ہے، لہٰذا مائیں بچوں کے ساتھ محبت کی نگاہ سے دیکھتی ہیں یا نہیں؟ دیکھتی ہیں، بس آپ تصور کریں کہ اللہ پاک تو ماؤں سے بھی زیادہ مہربان ہے، اس لئے وہ بھی مجھے محبت کے ساتھ دیکھ رہے ہیں اور مجھے گناہ نہیں کرنا چاہئے اور ساتھ یہ مراقبہ کریں۔

سوال نمبر 12:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔

I hope you are well Sheikh. I have a couple of different problems. I am really struggling to keep up with my معمولات. I have still not been able to complete my first forty days. اَلْحَمْدُ للہ with third کلمہ because each time I start within a week I forget to do it one day and have to start again. I have set the time to do my معمولات after فجر but usually. I have lost a week to do and forget about doing my معمولات. As a result I find it hard to start again because I think I will just forget again and have to start again. I also pay attention to start listening to your بیانات but when I sit down, at the end of the day, I think that I am too tired to listen. When I watch something entertaining instead I feel that I am starting to lose my connection with Allah and have gone back into my bad habits, for example, watching movies and some of the other ones that I spoke with you about. What should I do?

جواب:

سبحان اللہ! مرض کی تشخیص تو آپ نے کرلی ہے، بس اب علاج سن لیجئے گا کہ آپ اپنے اوپر کسی کو نگران بنا دیں، جو آپ سے پوچھے کہ آپ نے ذکر کیا ہے؟ اور پھر اس کی بات کو وزن دیں کہ جب وہ آپ کو بتائیں تو آپ ذکر کرلیں، اس کا ان شاء اللہ! فائدہ ہوگا۔ دوسرا بیانات کے سلسلے میں یہ بات ہے کہ اگر آپ entertainment کی بات کررہے ہیں تو ہمارے جو کلام ہیں، اس کے ذریعے سے آپ تھوڑا سا entertainment کرکے پھر اس کے بعد بیان سن لیا کریں، یعنی دو تین کلام سن لیں، پھر اس کے بعد کوئی چھوٹا سا بیان سن لیں، اس طریقہ سے ان شاء اللہ العزیز! مسئلہ نہیں ہوگا۔ باقی ہمت سے ہی کام ہوتا ہے، بے ہمتی سے تو کام خراب ہوتا ہے، لہٰذا آپ اپنے اندر ہمت پیدا کریں، ورنہ آپ کوئی کام بھی نہیں کرسکیں گی۔ اس لئے جیسے دنیا کے کاموں میں انسان ہمت کرتا ہے، تو پھر وہ حاصل ہوجاتا ہے، اسی طرح اس میں بھی ہمت کرکے کچھ حاصل کیا جاسکتا ہے۔

سوال نمبر 13:

السلام علیکم۔ حضرت شاہ صاحب! میرا ذکر دس منٹ لطیفۂ قلب، دس منٹ لطیفۂ روح، پندرہ منٹ لطیفۂ سر تھا، اس کی برکت سے تینوں جگہ ’’اَللہ اَللہ‘‘ محسوس ہوتا ہے۔ حضرت depression بہت ہوتی ہے، طبیعت کافی بوجھل رہتی ہے، نیند نہیں آتی ہے، لیکن اَلْحَمْدُ للہ! ذکر میں ناغہ نہیں ہوا۔ چھوٹی بہن کا پندرہ منٹ کا لطیفۂ قلب کا مراقبہ تھا، اسے دل میں ’’اَللہ اَللہ‘‘ محسوس ہوتا ہے۔ اس ماہ گھر والوں نے بہت سختی رکھی ہے، ہر بات پر ڈانٹ پڑی، جبکہ اس سے پہلے گھر والوں کا رویہ ایسا نہیں تھا۔

جواب:

ماشاء اللہ! آپ ہمت کے ساتھ کام لیں اور ابھی آپ تینوں لطائف یعنی لطیفۂ قلب، لطیفۂ روح، لطیفۂ سر پر دس دس منٹ اور لطیفۂ خفی پر پندرہ منٹ مراقبہ کرلیں۔ باقی لوگوں کی باتوں سے depression میں نہ آئیں، بلکہ ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک امتحان سمجھیں اور اس پر اللہ تعالیٰ آپ کو اجر دے گا۔ ان کے ساتھ الجھیں بھی نہیں، بس اپنے کام سے کام رکھیں۔ اور اپنی چھوٹی بہن کو پندرہ منٹ کا مراقبہ دے دیں کہ وہ اب دس منٹ لطیفۂ قلب کا مراقبہ کرے اور پندرہ منٹ لطیفۂ روح کا بتا دیں۔

سوال نمبر 14:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔

Respected حضرت صاحب I pray that you and your loved ones are well. Ameen! حضرت I have completed this month ذکر without miss اَلْحَمْدُ للہ. Verbal ذکر two hundred times ‘‘لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ’’ four hundred times ‘‘لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ’’ six hundred times ‘‘حَقْ’’ and اللّٰہْ‘‘’’ five hundred times. مراقبہ twenty minutes Allah Allah on لطیفہ قلب. Regarding مراقبہ I sometimes feel the ذکر but most of the time I don’t and my mind goes elsewhere.

جواب:

ماشاء اللہ. Now you should do ‘‘اللّٰہْ اللّٰہْ’’ thousand times and the rest will be the same. ان شاء اللہ

سوال نمبر 15:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔

نمبر 1: اسم ذات کا زبانی ذکر نو ہزار پانچ سو مرتبہ ہے، کافی عرصے سے یہی ذکر ہے، صحت کی خرابی کی وجہ سے اب ذکر بھی مشکل سے پورا کرتی ہے، کبھی تو یہ بھی ادھورا رہ جاتا ہے، لیکن اَلْحَمْدُ للہ! کہتی ہے کہ مزید ذکر بھی کرسکوں گی۔

جواب:

پہلے اس کو ایک مہینہ بغیر کمی کے مکمل کرلیں، پھر اس کے بعد مزید بڑھاؤں گا، ان شاء اللہ۔

نمبر 2: لطیفۂ قلب دس منٹ، لطیفۂ روح پندرہ منٹ ہے اور آپ کی اجازت سے کھلی آنکھوں سے ذکر کرتی ہوں، لیکن ذکر محسوس نہیں ہوتا۔ پہلے بند آنکھوں سے ذکر کرتی تھی تو قلب پر محسوس ہوتا تھا، اب قلب پر بھی محسوس نہیں ہوتا۔

جواب:

اگر ایسا ہے تو پھر لطیفۂ قلب پر ذکر کرتے ہوئے اپنی آنکھیں بند کرلیں، پھر دیکھیں کہ کیا ہوتا ہے۔

نمبر 3: اسم ذات کا لسانی ذکر پانچ ہزار مرتبہ ہے۔ پہلے ذکر کی مقدار پوری نہیں ہو پاتی تھی، لیکن اب اَلْحَمْدُ للہ! آسانی سے پورا کرلیتی ہے۔

جواب:

ماشاء اللہ! ابھی ساڑھے پانچ ہزار مرتبہ ذکر لسانی کریں۔

نمبر 4: تمام لطائف پر پانچ منٹ ذکر اور مراقبہ حقیقت کعبہ پندرہ منٹ ہے۔ بیعت سے پہلے بھی یہ عقیدہ راسخ تھا کہ اللہ کی ذات مسجود ہے اور اللہ تعالیٰ کی ذات مبارک اور خانہ کعبہ سمت ہے، جس کو اللہ تعالیٰ نے ساجدین کے لئے مقرر فرمایا ہے اور خانہ کعبہ کی تعظیم بھی صرف اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب ہونے کی وجہ سے ہے، اور اللہ تعالیٰ نے اس کی تعظیم کا حکم فرمایا ہے، ورنہ اس میں ذاتی کوئی عظمت نہیں ہے۔ اس مراقبہ میں یہ عقیدہ مزید واضح ہوا ہے۔ نماز میں اگر غفلت نہ ہو تو آسانی سے یہ بات محسوس ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سامنے نماز کے لئے کھڑی ہوں، لیکن اکثر غفلت ہی رہتی ہے اور حضور قلب کم ہی رہتی ہے اور اب تو نسیان کا غلبہ بھی کافی زیادہ ہوگیا ہے۔

آدھا کھانا کھانے کا مجاہدہ جاری ہے، لیکن اس ہفتے مجاہدہ میں کمزوری ہوئی ہے، میرے اندازے کے مطابق کھانے کی مقدار کبھی تہائی تک پہنچ جاتی تھی، اس کے علاوہ fruits زیادہ کھائے ہیں اور چائے بھی دو وقت پی ہے، البتہ دونوں وقت آدھا کپ لیا ہے۔ اور اس ہفتے کے اکثر دن امی کے یہاں رہی ہوں اور امی کے گھر میں میرے کھانے کی مقدار گھر کے مقابلہ میں پہلے بھی بڑھ جاتی تھی، کیونکہ گھر میں کھانے کی زیادہ فرصت نہیں ملتی اور امی کے گھر فارغ ہوتی ہوں، اس بار امی کے گھر کافی control رہا ہے کھانے پر، لیکن گھر کے مقابلہ میں زیادہ کھانا کھایا ہے، اس لئے آج اس نیت سے روزہ رکھا ہے کہ کثرتِ طعام کا کچھ مداوا ہوجائے۔ اب اگر مزید کچھ سزا تجویز فرمائیں تو ان شاء اللہ! عمل کرنے کی کوشش کروں گی۔

جواب:

ٹھیک ہے، اب اس طرح کریں کہ نماز کی جو غفلت ہے وہ آپ اپنے ارادے سے دور کرلیں یعنی نماز شروع کرنے سے پہلے باقاعدہ اس کی نیت کرلیں کہ میں اس میں غافل نہیں ہوں گی اور نماز میں جو الفاظ ہیں، کم از کم ان کی طرف آپ کی توجہ ہونی چاہئے اور یہ سوچنا کہ میں اللہ کے سامنے کھڑی ہوں۔

سوال نمبر 16:

السلام علیکم۔ حضرت شاہ صاحب! میری خالہ جان کا بیس منٹ لطیفۂ قلب کا ذکر تھا، اور ذکر کو ایک ماہ سے زیادہ ہوگیا ہے۔ ’’اَللہ اَللہ‘‘ محسوس ہوتا ہے، دل میں سکون محسوس ہوتا ہے اور ذکر بلاناغہ جاری ہے۔ اور دوسروں کے احوال پوچھ کر بتانے میں کون سی احتیاط کو مدنظر رکھنا چاہئے؟ تاکہ جو پابندی ہے کہ کسی کو احوال نہ بتائے جائیں اور نہ پوچھے جائیں اور اس میں جو نقصان ہے اس سے بچا جائے۔ اس کے بارے میں رہنمائی کی درخواست ہے۔

جواب:

آپ کی خالہ اگر خود message کرسکتی ہیں تو خود ان کو message کرنے کا بتا دیں، پھر کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔ اور اب دس منٹ کے لئے لطیفۂ قلب کرلیں اور پندرہ منٹ لطیفۂ روح کا بتا دیں۔

سوال نمبر 17:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت جی! بندہ کے احوال پیش خدمت ہیں کہ ذکر دو سو، چار سو، چھ سو اور دو ہزار۔ اہتمام نہیں ہے، نمازوں میں فجر کا مسئلہ رہتا ہے، توبہ بھی ہوتی رہتی ہے اور آنکھ اور زبان سے اور دیگر رذیلے بھی رہتے ہیں، اپنی طبیعت میں uncertainity بہت زیادہ ہے، اچانک غفلت یا بھول طاری ہوجاتی ہے، اس وجہ سے سخت پریشانی اور خطرہ لاحق رہتا ہے کہ کوئی ارادہ وفا نہیں ہو پاتا، اس کے باوجود دل سے سمجھتا ہوں اور جانتا ہوں کہ صحیح طریقہ اصلاح نفس، عقل اور دل والا ہے، جس پر چلنا ہے، دوران مہینہ احوال میں اتار چڑھاؤ کے باعث آخر میں یاد نہیں رہتا کہ کون سا رذیلہ زیادہ زور آور ہے اور کون سا نسبتاً control ہے۔ حضرت والا! سے رہنمائی کی درخواست ہے۔

جواب:

پہلے آپ یہ کرلیں کہ اپنے جو معمولات ہیں، ان کو مجاہدہ سمجھ کر بہت پابندی کے ساتھ کرلیں، اس میں کوئی بھول چوک نہ کریں۔ باقی چیزیں حسب حال ہیں۔

سوال نمبر 18:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ میرے مراقبات دو ماہ پندرہ دن سے جاری ہیں، اگلے مرحلہ کی رہنمائی فرمائیں۔ مراقبات: پانچ منٹ کے لئے دل پر ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘کا مراقبہ، پانچ منٹ روح پر، پانچ منٹ لطیفہ سر پر، پانچ منٹ لطیفۂ خفی پر، پانچ منٹ لطیفہ اخفیٰ پر اور پندرہ منٹ مراقبہ شیونات ذاتیہ لطیفۂ سر پر کرتا ہوں۔ کیفیت یہ ہے کہ مراقبہ کے دوران دھیان focus کرتا ہوں کہ اللہ سب کچھ عطا کرنے والا ہے اور اس کا فیض اللہ سے نبی ﷺ پر، نبی ﷺ سے شیخ پر اور شیخ سے میرے لطیفۂ سر پر آتا ہے۔ اور اعمال میں کمزوری واقع ہورہی ہے۔

جواب:

ابھی آپ اس طرح کرلیں کہ جو مراقبہ شیونات ذاتیہ ہے، یہ صفات سے ذات کی طرف توجہ کرنا ہے، اس کو آپ ذہن میں رکھیں اور اللہ تعالیٰ کی جو شیونات ذاتیہ ہیں، ان کا جو فیض ہے وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ ﷺ کی طرف آرہا ہے اور آپ ﷺ کی طرف سے شیخ پر اور شیخ سے آپ کے لطیفۂ سر پر آرہا ہے، اس طریقے سے یہ کریں، ان شاء اللہ! باقی جو اعمال میں کمزوری ہے، اس کو دور کرنے کی کوشش کریں۔

سوال نمبر 19:

السلام علیکم۔ پچھلے ہفتے آپ نے کم کھانے کا مجاہدہ دیا تھا اور آپ نے کہا تھا کہ ہر ہفتے مجھے report دینی ہے۔ حضرت! میں آج کل روزے رکھ رہی ہوں، جس سے میرے کھانے میں balance ہوگیا ہے، لیکن ایک دو دفعہ بھول گئی تھی اور پوری پلیٹ بھر کے کھائی، پھر یاد آیا کہ میں نے تو ابھی آدھی پلیٹ کھانی تھی، لیکن ان شاء اللہ! آگے بھی کوشش کروں گی کہ آدھے پر آجاؤں۔

جواب:

بالکل ٹھیک ہے، کوشش جاری رکھیں۔

سوال نمبر 20:

السلام علیکم۔ حضرت! محمد فاروق نام ہے، پشاور سے تعلق ہے، میں نے آپ کی کتاب ’’جذب و سلوک‘‘ پڑھی تھی، آج کل job اسلام آباد میں ہے، ابھی یہاں پہنچا ہوں پہلی دفعہ، بہت خوش ہوا ہوں آپ کو دیکھ کے۔ سر جی! یہ سلوک کیا چیز ہے؟ سلوک اور احسان میں کیا فرق ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔

جواب:

ماشاء اللہ! بڑا اچھا سوال ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے واقعی حقیقت میں ’’جذب وسلوک‘‘ پڑھی ہے اور اس کا فائدہ آپ کو ہوا ہے۔ دیکھیں! اللہ پاک فرماتے ہیں:

﴿وَنَفْسٍ وَّمَا سَوّٰىهَا ۝ فَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَتَقْوٰىهَا ۝ قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا ۝ وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَا﴾ (الشمس: 7-10)

ترجمہ: ’’اور انسانی جان کی، اور اس کی جس نے اسے سنوارا۔ پھر اس کے دل میں وہ بات بھی ڈال دی جو اس کے لئے بدکاری کی ہے، اور وہ بھی جو اس کے لئے پرہیزگاری کی ہے۔ فلاح اسے ملے گی، جو اس نفس کو پاکیزہ بنائے، اور نامراد وہ ہوگا، جو اس کو (گناہ میں) دھنسا دے‘‘۔

لہٰذا یہ سلوک کی بنیادی آیات کریمہ ہیں یعنی سلوک کو define کرنے والی کہ اللہ جل شانہٗ فرماتے ہیں کہ نفس میں دونوں چیزیں رکھی ہیں یعنی تقویٰ کی بھی صلاحیت اور فجور کی بھی، یعنی انسان فجور کی طرف بھی جاسکتا ہے اور تقویٰ کی طرف بھی۔ اب تقویٰ کیا ہے اور فجور کیا ہے؟ وہ بتاتا ہوں۔ نفس کی جو خواہشات ہیں، مثلاً بڑا بننے کا شوق، یہ نفس کی خواہش ہے، لذتوں کی طلب، یہ نفس کا شوق ہے، اسی طرح مال کو جمع کرنے کا شوق، یہ بھی نفس کا شوق ہے، اسی طرح اس سے مختلف قسم کے شوق بنتے ہیں، خواہشات بنتی ہیں اور وہ لامحدود ہوتی ہیں، اس پر کبھی انسان کو سیر نہیں ہوتی، لہٰذا یہ نفس کی خواہشات ہیں۔ دوسری طرف اللہ پاک کے احکامات ہیں یعنی ان خواہشات کے ہوتے ہوئے، ان کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ کے جو احکامات ہیں، ان احکامات کو پورا کرنا اور نفس کی خواہش کی پروا نہ کرنا یہ تقویٰ ہے اور نفس کی خواہش کو اس وقت پورا کرنا کہ جب اللہ کا حکم موجود ہو، لیکن اس کو چھوڑ کر اسے پورا کرنا یہ فجور ہے۔ اور ان دونوں کی صلاحیت نفس میں موجود ہے اور ہر وقت ہے، گویا کہ ہر وقت دونوں چیزیں ہمارے سامنے ہیں کہ ہم نفس کی بات مانیں یا اللہ کی بات مانیں At each and every instant اور اب یہ بات ہے کہ ہم کس طرح ہر آن، ہر وقت، ہر جگہ اور ہر چیز میں اللہ کے حکم کے پابند ہوجائیں اور نفس کی جو خواہشات ہیں، ان پر عمل نہ کریں یعنی نفس کی خواہشات کو دبا دیں، یہ تزکیہ نفس کہلاتا ہے۔ اس نفس کے تزکیہ کے ہم مکلف ہیں کہ اللہ پاک فرماتے ہیں:

﴿قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا﴾ (الشمس: 9)

ترجمہ: ’’فلاح اسے ملے گی، جو اس نفس کو پاکیزہ بنائے‘‘۔

﴿وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَا﴾ (الشمس: 10)

ترجمہ: ’’اور نامراد وہ ہوگا، جو اس کو (گناہ میں) دھنسا دے‘‘۔

یعنی نفس خراب ہوگا اور یہ خراب اس لئے ہے کہ انسان کا جو نفس ہے، وہ نفس امّارہ کے ساتھ پیدا ہوتا ہے یعنی خرابیوں کے ساتھ پیدا ہوتا ہے، لیکن انسان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کو نفس مطمئنہ تک لے جائے، تاکہ ان خرابیوں سے بچ جائے۔ لہٰذا یہ انسان کی ذمہ داری ہے کہ اپنی تربیت ایسی کروائے کہ نفس امّارہ نفس مطمئنہ حاصل کرلے۔ اور نفس امّارہ سے نفس مطمئنہ تک کا جو سفر ہے، یہ سلوک ہے اور نفس امّارہ سے نفس مطمئنہ تک کا جو سفر ہے، اس کو سیر الی اللہ بھی کہتے ہیں۔ سیر الی اللہ کیوں کہتے ہیں؟ سیر الی اللہ اس لئے کہتے ہیں کہ اللہ کے حکم کو نفس کی خواہش کے مقابلہ میں پورا کرنا ہوتا ہے، اس لئے یہ سیر الی اللہ ہے یعنی اللہ تک جانا نفس کو چھوڑ کے، تو اللہ کی طرف جانا یہ سیر الی اللہ ہے، اسی کو سلوک بھی کہتے ہیں اور جب سلوک پورا ہوجاتا ہے تو سیر الی اللہ مکمل ہوجاتا ہے۔ اب جب یہ بات سمجھ میں آگئی تو سلوک اب طے کیسے ہوگا؟ دیکھیں! آپ کوئی بھی چیز بنتے ہوئے دیکھیں، مثلاً مسجد فیصل کو دیکھیں تو آپ حیران ہوجائیں گے کہ یہ کیسے بنی ہوگی، لیکن اگر آپ اس کے انجینئر کے ساتھ بیٹھ جائیں تو آپ کو اس کا ایک ایک step بتا دے گا کہ یہ ہوا تھا، پھر یہ ہوا تھا، پھر یہ ہوا تھا اور پھر یہ ہوا تھا یعنی پہلے وہ cause کے اوپر سارا کچھ ہوگیا اور پھر اس کے بعد material آگیا، پھر اس کے بعد بتایا گیا، پھر supervision اور پھر سارے steps جو تھے وہ مکمل ہوگئے، کیونکہ کوئی بھی کام کرنے کے لئے اس کو باقاعدہ انتظام کے ساتھ، ایک طریقہ کے ساتھ، step by step کیا جاتا ہے، تب کامیابی ہوتی ہے۔ بس اسی طریقے سے جو سلوک ہے، یہ بھی step by step کرنا ہوتا ہے، ان steps کو دس steps میں تقسیم کیا گیا ہے، اگرچہ ضروری نہیں کہ ہر ایک کے لئے ایسا ہو، کیونکہ بعض مشائخ نے اس کی زیادہ تعداد بتائی تھی، لیکن وہ بھی انہی دس میں حاصل ہوجاتی ہے۔ بہرحال حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ اس کو دس steps میں تقسیم کرتے ہیں اور ان steps کو مقامات کہتے ہیں، ان میں مقام توبہ سب سے پہلے ہے Disconnection from their past sins، پھر اس کے بعد connection ہے کہ اب میں اللہ کی بات مانوں گا اور اس کے لئے planning کروں گا اور طریقۂ کار کے مطابق چلوں گا اور پھر اس کے لئے سوچنا شروع کرلے، فکر کرنا شروع کرلے، تو یہ مقام انابت ہے، پھر اس کے بعد اس کا جو سب سے بڑا مسئلہ ہے، وہ سستی ہے، اس کو دور کرنا، کیونکہ اس کی وجہ سے اکثر لوگ شکایت کرتے ہیں کہ جی سستی ہوجاتی ہے، غفلت ہوجاتی ہے، اور اس کو دور کرنے کے لئے مقام ریاضت ہے، کیونکہ ریاضت سے ہی نفس کی جو سستی ہے، وہ دور ہوتی ہے۔ مثلاً gymnastic والے ایسے کام کرتے ہیں کہ لوگ حیران ہوجاتے ہیں، لیکن کیا پہلے دن اس طرح کرنے کے وہ قابل تھے؟ نہیں، بلکہ مسلسل انہوں نے محنت کی ایک طریقے سے، پھر اس تک وہ پہنچ گئے، تو یہ ریاضت ہے۔ اور اس کو وہ ریاضت ہی کہتے ہیں۔ اور یہ موسیقی والے بھی اس کو ریاض کہتے ہیں، اگرچہ ہم تو سمجھتے ہیں کہ اچھا گاتے ہیں، لیکن اچھی خاصی ان کو ریاضت کرنی ہوتی ہے۔ لہٰذا یہ مقام ریاضت ہے، پھر اس کے بعد بہت بڑا مسئلہ حرص کا ہے یعنی سستی میں تو اچھی چیز کو حاصل نہیں کیا جاتا یعنی اس سے گویا کہ step نہیں لے سکتا، بس سستی چھا جاتی ہے۔ اور جو حرص ہے، اس میں انسان کسی چیز کی طرف زیادہ ولولہ کرتا ہے More than required تو یہ حرص ہے، اور حرص جو کہ بیماری ہے، اسے دبایا جائے اور جس کی وجہ سے دور کیا جاتا ہے، یہ مقام قناعت ہے۔ اسی طرح جو فجور کے instant واقعات ہیں، ان سے دور کرنے کے لئے مقامِ تقویٰ ہے، پھر اس کے بعد مقام صبر ہے کہ مشقتوں، تکلیفوں اور undesired چیزوں پر انسان کو صبر ہو اور لگے رہیں، تو یہ مقام صبر ہے۔ پھر اس کے بعد مقام زہد ہے یعنی تھوڑی چیز پر قناعت، اس کے ساتھ اپنے آپ کو maintain رکھنا۔ پھر مقام توکل ہے یعنی اللہ پر بھروسہ کہ اگر پاس کچھ بھی نہ ہو، لیکن اللہ پر بھروسہ ہو اور اگر بہت کچھ ہو، تب بھی اللہ پر بھروسہ ہو اور پھر اس کے بعد مقام تسلیم ہے کہ اس کو ہر ہر ذرے پر یہ پتا چل جاتا ہے کہ جو اللہ نے کہا ہے وہ حق ہے، جو رسول نے کہا ہے وہ حق ہے اور پھر مقام رضا ہے کہ جو اللہ کی طرف سے آیا ہے، بس وہ ٹھیک ہے، اس کو رضا بالقضا بھی کہتے ہیں۔ لہٰذا یہ جو مقامات ہیں یہ سلوک ہے۔

سوال نمبر 21:

دو کیفیات ہوتی ہیں، حالتِ بسط اور حالتِ قبض۔ بسط میں تو انسان کرتا رہتا ہے، لیکن جب قبض کی کیفیت آجاتی ہے، تو اس میں انسان اپنے آپ کو کیسے چلاتا رہے؟

جواب:

جی بالکل! بسط اور قبض یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے احوال طاری کردیئے جاتے ہیں اور اس میں اللہ تعالیٰ کی بڑی حکمتیں ہیں۔ بسط اس لئے طاری کیا جاتا ہے کہ انسان مایوس نہ ہو اور چلتا رہے اور اس کو ہمت ملتی رہے۔ جبکہ قبض اس کی ترقی کے لئے ہوتا ہے کہ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اللہ کا حکم سمجھ کر کرے، اس لئے قبض میں بسط سے زیادہ فائدہ ہوتا ہے، لیکن اللہ پاک سب کے اوپر مسلسل قبض نہیں رکھتے، بلکہ درمیان میں بسط بھی بھیجتے ہیں۔

سوال نمبر 22:

سلوک اور احسان میں کیا فرق ہے؟

جواب:

اصل میں پورے تصوف کو ہم احسان کہہ سکتے ہیں۔ حدیث پاک میں آتا ہے:

’’اَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَاَنَّکَ تَرَاہُ فَانْ لَّمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَاِنَّہٗ یَرَاکَ‘‘ (بخاری، حدیث نمبر: 50)

ترجمہ: ’’اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو اور اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے ہو تو وہ یقیناً تمہیں دیکھ رہا ہے‘‘۔

لہٰذا کیفیت احسان حاصل کرنے کا جو طریقہ ہے، وہ احسان ہے۔ اور کیفیت احسان نفس مطمئنہ کے بعد حاصل ہوتی ہے، کیونکہ نفس مطمئنہ جب انسان کو حاصل ہوجائے تو پھر وہ رکاوٹیں دور ہوجاتی ہیں، جس سے وہ محجوب ہوتا ہے، کیونکہ کبھی مال کی وجہ سے انسان محجوب ہوتا ہے کہ مال میں اتنی نظر ہوتی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے محجوب کر دیتا ہے، کبھی جاہ محجوب کرتا ہے، کبھی باہ محجوب کرتا ہے یعنی جو انسان کی لذات ہیں۔ اور جب ان تمام چیزوں سے گزر کے آدمی ان سے چھٹکارا پا لے اور وہ حجابات دور ہوگئے تو اس کی کیفیت ایسی ہوگی کہ عبادت کرتے وقت گویا کہ وہ اللہ کے سامنے کھڑا ہے اور اللہ کو دیکھ رہا ہے، یہ کیفیت احسان ہے۔

سوال نمبر 23:

ابھی تھوڑی دیر پہلے ایک سالک کے سوال کے جواب میں آپ نے ان کو بتایا تھا کہ اپنے عیوب بھیجنے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا جب شیخ کہے کہ اپنے عیوب بھیجنے ہیں، اس وقت بتانا شروع کریں یا جیسے کوئی عیب اپنا ظاہر ہو تو بتا دینا چاہئے؟

جواب:

جس وقت بھی اپنا عیب ظاہر ہو تو بتا دیا کریں، کیونکہ شیخ تو مجبوراً اس سے پوچھتا ہے، اس لئے کہ جب اس نے ابھی تک یہ نہیں بتایا تو پھر کسی وقت تو اس سے پوچھے گا۔ البتہ پہلے میں اس لئے نہیں پوچھتا کہ اپنے عیوب بتانا کوئی آسان بات نہیں ہے، اس میں انسان ڈنڈی مارتا ہے اور ضرور مارتا ہے۔ اس لئے کم از کم وہ اتنا ذکر کرلے اور اتنا تعلق مع اللہ حاصل ہوجائے کہ وہ پھر ڈنڈی نہ مارے اور صحیح صحیح اپنے عیوب بتائے، اس وجہ سے اتنی دیر کے بعد پوچھے جاتے ہیں، لیکن کسی کو پہلے سے احساس ہوجائے تو اچھی بات ہے۔

عارفانہ کلام سیدی ومولائی سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم العالی۔ عنوان ہے:

نفس کی کارگزاری:

میرا نفس اس سے مجھ کو تو کبھی ملنے نہیں دیتا

جو شیطان ہے مجھے اللہ کا بننے نہیں دیتا


اگر میں بات اس کی مان لوں تو اور وہ مانگے

کسی اک بات پہ مجھ کو کبھی ٹکنے نہیں دیتا

یہ نفس کی بہت زبردست عادت ہے کہ اس کی بات اگر مانوں گے تو وہ اس پر مطمئن نہیں ہوگا، بلکہ مزید مانگے گا۔ میں اس کی مثال دیتا ہوں کہ ہم جب گاؤں میں تھے تو گاؤں میں ہمیں سال میں دو دفعہ پراٹھا ملتا تھا یعنی عید کے دن، اس لئے وہ پراٹھا ہمیں بہت لذیذ ہوتا تھا کہ وہ سال میں دو دفعہ ملتا تھا، لیکن جس وقت ہم شہر میں آگئے تو روزانہ پراٹھا ہوگیا، تو اب پراٹھے میں نخرے ہونے لگے کہ یہ تو ایسا ہونا چاہئے اور ایسا ہونا چاہئے، لیکن پہلے جو بھی ملتا تھا، وہ بہت اچھا لگتا تھا۔ لہٰذا یہی بات ہے کہ انسان کو جب ملتا ہے تو پھر وہ نخرے کرتا ہے۔ مثال کے طور پر گاڑی ملی تو پھر گاڑی میں نخرے شروع کرلیں گے کہ فلاں ماڈل ہونا چاہئے، یہ ہونی چاہئے حتیٰ کہ یہ دور آگیا ہے کہ بعض لوگ جن کے پاس پیسے کی فراوانی جائز ناجائز کی بہت ہوتی ہے، تو وہ گاڑیوں کے colour میں بھی matching کرتے ہیں یعنی گھر اور اپنے لباس اور گاڑی میں بھی matching لاتے ہیں۔ لہٰذا یہ پھر Never satisfaction ہے اور یہ چیز پھر چلتی رہتی ہے یعنی اس کا کوئی end نہیں ہے، اس وجہ سے اس کو اگر آپ دیں گے تو یہ مزید مانگے گا اور اگر آپ اس کو دبائیں گے تو دبتا جائے گا، اگر آپ اس کو دبائیں گے اور نہیں مانیں گے تو یہ کم پر بھی ماننا شروع کرلے گا۔

مگر خوبی جو اس میں ہے کہ مانے جبر سے بھی یہ

ہلاؤ اس کو ہل جائے کوئی یوں ہلنے نہیں دیتا

مقام ریاضت یہی ہے کہ جبر سے کرتے ہیں یعنی زبردستی اس پر کرتے ہیں، ایسے وہ نہیں چاہتا، لیکن آپ کرتے ہیں۔

طریقہ اس کی اصلاح کا ہے کہ مانو نہیں اس کا

بغیر اس کے کسی طرح سنبھلنے نہیں دیتا

یعنی نفس کی نہ ماننا اور نفس کی نہ ماننا مجاہدہ ہے۔ اس کو مجاہدہ اس لئے کہتے ہیں کہ اس کے بغیر نفس کی اصلاح نہیں ہوسکتی، یہ ناممکن ہے، لیکن آج کل لوگوں نے مشہور کیا ہے کہ ہمارے سلسلہ میں مجاہدہ نہیں ہے۔ خدا کے بندو! کیا کہہ رہے ہو، یہ کیا کررہے ہو؟ اب تو دنیاوی علاج بھی مجاہدہ کے بغیر نہیں ہوتا، تو آپ کا روحانی علاج کیسے بغیر مجاہدہ کے ہوجائے گا؟ کون سی باتیں کررہے ہو؟

کوئی ہو رہنما اپنا جو گر اصلاح کا جانتا ہو

کرائے اس سے جو ہم کو کبھی کرنے نہیں دیتا

یہ عجیب کراماتی تعلق ہے کہ جو کام انسان خود نہیں کرسکتا، لیکن جب شیخ کہہ دے تو آدمی کرلیتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی اس طرح رہنما ہو تو اس رہنما کے ساتھ محبت بھی ہوتی ہے اور اپنی عقل سے مانتا بھی ہے کہ بھائی میرا رہنما ہے اور مجھے صحیح بات بتا رہا ہے، میرے فائدے کی ہے، اور جب یہ دونوں چیزیں جمع کرکے اس کی بات انسان مانتا ہے تو نفس کی مخالفت جو مشکل کام ہے، وہ شیخ کی برکت سے آسان ہوجاتی ہے۔

دل اپنا بھی منور ہو کہ راستہ جان لے اپنا

کہ ہرگز حق کو گندا دل کبھی پڑنے نہیں دیتا

یہ معرفت ہے۔ اور معرفت دل میں آتی ہے۔ لہٰذا جب انسان کا نفس ٹھیک ہوتا ہے، تو پھر نفس کے اثرات جو دل کے اوپر آتے ہیں، وہ برے نہیں ہوتے، بلکہ اچھے ہوتے ہیں، پھر ذکر اللہ کے ذریعہ سے دل پاک اور صاف ہوجاتا ہے، نتیجتاً پھر وہ حق کی بات ماننے لگتا ہے یعنی قرآن کی بات ماننے لگتا ہے، حدیث کی بات ماننے لگتا ہے، اچھے لوگوں کی بات مان لیتا ہے۔

اگر ہو نفس گاڑی تو بنے دل اس کا ڈرائیور پھر

ہو ان میں نقص کسی میں آگے وہ بڑھنے نہیں دیتا

ان دونوں میں جس میں بھی نقص ہوگا، چاہے گاڑی میں نقص ہو پھر بھی نہیں جاسکتے، چاہے ڈرائیور میں کمزوری ہو پھر بھی نہیں جاسکتے۔ اس لئے دل کو بھی صاف کرنا ضروری ہے اور نفس کو بھی پاک کرنا ضروری ہے یعنی دونوں باتیں بیک وقت ہونی چاہئیں۔

ذکر سے دل ہو ٹھیک اور نفس کو دینا جہد کی گولی

علاج دونوں کا مختلف ہے، دل کا علاج ذکر اللہ سے ہوتا ہے، یہ حدیث شریف سے ثابت ہے کہ دل کا علاج ذکر سے ہوتا ہے اور نفس کا علاج مجاہدہ سے ہوتا ہے۔ لہٰذا نفس کو مجاہدہ کرائیں گے اور ذکر کریں گے دل کی صفائی کے لئے۔

ذکر سے دل ہو ٹھیک اور نفس کو دینا جہد کی گولی

ہو رہبر ساتھ کہ داؤ شیطان کا وہ چلنے نہیں دیتا

یعنی بغیر رہبر کے ممکن نہیں ہوتا، کیونکہ رہبر نہ ہو تو پھر کیا ہوتا ہے؟ پھر یہ ساری چیزیں ہوتی ہیں، لیکن نتیجے صحیح نہیں ہوتے۔ کیونکہ اس سے انسان اپنے آپ کو بزرگ سمجھنا شروع کرلیتا ہے، تو یہ کام غلط ہوگیا اور اس میں جاہ والی بات آجائے گی یا پھر یہ ہوگا کہ غلط طریقے سے کرے گا تو اپنا نقصان کرلے گا یا مجاہدہ کوئی ایسا کرلے گا جو کہ کرنا نہیں چاہئے، اس کے لئے مناسب نہیں ہے، یا دل پر کوئی ایسا تصور کرلے گا اور پھر اس کو اٹھا نہیں سکے گا، اس لئے رہبر ساتھ ہو تو پھر اس کا صحیح فائدہ ہوسکتا ہے۔


چراگاہ ہیں وہ جنت کی ملیں ہم کو چریں ان میں

مگر شیطان کبھی بھی مکر سے چرنے نہیں دیتا

اب ذکر کی جو محافل مختلف جگہوں پر ہیں، ان کے بارے میں حدیث شریف ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جب جنت کی چراگاہوں میں پہنچو تو وہاں خوب چرو، صحابہ کرام نے پوچھا یا رسول اللہ! جنت کی چراگاہیں کون سی ہیں؟ فرمایا: ذکر کے حلقے۔ لیکن اب دیکھیں! ذکر کے حلقوں کے بارے میں لوگ باتیں کرتے ہیں، یا نہیں کرتے؟ کہ او ہو! ایسا ہوجائے، یہ ٹھیک نہیں ہے، یہ ثابت نہیں ہے، فلاں نہیں ہے، فلاں نہیں ہے۔ یعنی مختلف قسم کی باتیں کرتے ہیں اور یہ شیطان لوگوں کے دلوں میں ایسی باتیں ڈال دیتا ہے کہ وہ اس سے متنفر کرتے ہیں۔ میں جب گلگت گیا تو وہاں میں بیان کررہا تھا کہ ایک مفتی صاحب جو میرے سامنے بیٹھے ہوئے تھے، وہ کہتے کہ یہ جو ذکر جہری ہے، یہ تو ثابت نہیں ہے۔ میں نے کہا کہ مولانا احمد علی لاہوری رحمۃ اللہ علیہ جو ذکر جہری کراتے تھے، کیا خیال ہے وہ غلط آدمی تھے؟ آپ بھی ٹھیک آدمی ہیں، لیکن وہ بھی تو ٹھیک تھے، تو آپ کس طرح کہتے ہیں کہ یہ غلط ہے؟ باقی یہ علاجی ذکر ہے، یہ ثوابی نہیں ہے۔ اور جو علاجی ہوتا ہے وہ تجربہ پر منحصر ہوتا ہے، وہ منصوص نہیں ہوتا، کیونکہ یہ ذریعہ ہے اور ذریعہ تجربہ سے ثابت ہوتا ہے، مثال کے طور پر میں نے کہا کہ ہمارے پاس جو ہمارا درسِ نظامی ہے، کیا صحابہ کے وقت میں درس نظامی تھا؟ اس وقت کیا تھا؟ کیا اب درس نظامی بدعت ہوگیا؟ اگر درس نظامی بدعت نہیں ہے، تو اس طریقے سے یہ بھی بدعت نہیں ہے، ایک طریقۂ کار ہے، بس وہ علم کے لئے ایک نیا طریقہ ہے اور یہ اصلاح کے لئے ایک نیا طریقہ ہے، کیونکہ طریقے بدلتے رہتے ہیں، ذرائع بدلتے رہتے ہیں۔

جو شر ہے بڑھ رہا ہے خوب رکاوٹ خیر کے واسطے ہے

خدا سے ہم کو وہ ظالم کبھی ڈرنے نہیں دیتا


کریمی کا مگر در ہے کھلا رب کا کریں توبہ

کہ مایوسی کا کوئی لفظ وہ سننے نہیں دیتا


شبیرؔ پھر فضل رب کا ہو تو مقصد پورا ہوجائے

کبھی شیطان جو دال اپنی ہے وہ گلنے نہیں دیتا

یعنی شیطان کی جو چالیں ہیں، وہ لامتناہی ہیں نفس کی خواہشات کی طرح، اس لئے ان کا مقابلہ ہم نہیں کرسکتے، انسان کا چھٹکارا بس اللہ کی مدد سے ہی ہوتا ہے، لیکن اللہ پاک مدد فرما دیتے ہیں جب اللہ پاک دیکھتے ہیں کسی کو کہ یہ کام کررہا ہے اور جب وہ اللہ چاہتا ہے کہ اس کی اصلاح ہوجائے تو پھر اللہ جل شانہٗ ایک خاص مقام پر جا کے اس کو pick کرلیتا ہے، اسی کو جذبِ وہبی کہتے ہیں، پھر اس کا برسوں کا راستہ آن کی آن میں پورا کر دیتا ہے، لہٰذا اللہ کے فضل سے ہی کام ہوتا ہے، لیکن اللہ کے فضل کو کھینچنے کے لئے بھی تو اعمال ہوتے ہیں، اور ان اعمال کو کرنا پڑتا ہے۔ دیکھیں! ہم خانہ کعبہ کیوں جاتے ہیں؟ دعا تو اِدھر بھی کرسکتے ہیں، لیکن اللہ پاک کے فضل کو کھینچنے کا ایک راستہ ہے کہ ہم وہاں جاتے ہیں اور وہاں دعا کرتے ہیں اور ایسے ہی تہجد کے وقت دعا کرنا، اسی طرح افطار کے وقت کی دعا کرنا، یہ سب اللہ تعالیٰ کے فضل کو کھینچنے کے راستے ہیں۔ اس طرح یہ بھی ہے کہ کوشش ہم کریں، پھر اللہ تعالیٰ چن لیتے ہیں اور یہ جذبِ وہبی ہے، اللہ پاک ہم سب کو نصیب فرمائے۔

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ


  1. ۔ (آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب)

    نوٹ! تمام آیات کا ترجمہ آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم سے لیا گیا ہے۔

سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات - مجلسِ سوال و جواب