اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال نمبر 1:
حضرت جی! میں دوسروں کے اور بالخصوص اپنے شوہر کے عیوب دیکھتی رہتی ہوں، اپنے بارے میں نہیں سوچتی اور جب ان کے نظر انداز کرنے کے رویے سے سخت چڑ جاتی ہوں تو منہ بنا لیتی ہوں یا بدتمیزی کرلیتی ہوں۔ جب بھی check کراتی ہوں تو یہ بتایا جاتا ہے کہ شوہر پر اثر نہیں ہے، لیکن مجھ پر بہت اثر ہے، سوچتی ہوں کہ شوہر سے الگ ہوجاؤں اور کبھی جس طرح لوگ مجھے استعمال کرتے ہیں تو میرا دل کرتا ہے کہ میں مر جاؤں، پھر مجھے یہی لگتا ہے کہ میں اسی قابل ہوں۔ مجھے ہر چیز میں برائی اور بدگمانی ہی نظر آتی ہے اور ہر وقت کی شدید منفی سوچوں سے کبھی دل کرتا ہے کہ شوہر کو چھوڑ دوں، دنیا سے بھاگ جاؤں یا مر جاؤں۔ میری ساری توجہ شوہر کے رویہ پر رہتی ہے، حالانکہ عامل بھی کہتے ہیں کہ وہ ایک شریف انسان ہے، وہ برا نہیں ہے، میرے سمجھنے میں غلطی ہے۔ اللہ نے مجھے اولاد نہیں دی تو اس کے بارے میں بھی سوچتی رہتی ہوں، دین کی ساری باتیں پتا ہیں، لیکن شدید مایوسی ہے جو کسی بھی چیز سے ٹھیک نہیں ہوتی، اس لئے صرف اپنے اوپر محنت کرنے اور لوگوں سے اثر نہ لینے کے بارے میں سمجھ آئی ہے۔ اس سے کسی عجب کی طرف تو نہیں جارہی، لیکن کم از کم اپنی اچھی صلاحیتوں کو استعمال میں لانے کی طرف رجحان ہوا ہے۔ میں جن باتوں سے شدید ڈر جاتی ہوں وہ اپنی منفی سوچ ہے، کیونکہ جو سوچتی ہوں وہ باتیں ویسے ہی ہوجاتی ہیں، اس لئے بہت مثبت سوچنے کی فکر کرتی ہوں۔ میرا دل نہیں کررہا کہ میں بھاگ جاؤں اور زندگی سے میں اس لئے پریشان نہیں ہوتی کہ بیمار ہوجاؤں تو علاج کے لئے ماں باپ سے نہ مانگنا پڑے، زکوٰۃ دیتی ہوں تو پیسوں کے لئے پریشان نہ ہوں، حج فرض ہے، اس کے لئے پیسے جمع کرسکوں اور دوسروں سے خاص طور پر ماں باپ سے نہ کہوں۔ صبر کرتے رہنے سے لوگ دباتے ہی چلے جاتے ہیں اور تکلیف سے میں مزید صدمے اور depression میں چلی جاتی ہوں اور مستقل طور پر کوئی نہ کوئی بیماری لگ جاتی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ کوئی مجھ سے پیار نہیں کرتا، میں کسی قابل نہیں ہوں، کوئی مجھے سمجھنے کی کوشش نہیں کرتا، ہر کوئی کہتا ہے کہ میں اپنے شوہر کو سمجھوں، جبکہ میں اس کی محبت میں آدھی پاگل ہوں، لیکن وہ اپنی عادات و اطوار نہیں بدلتا، اس نے اندر سے مجھے ختم کردیا ہے، اس لئے میں اپنا focus اسے بتانا چاہتی ہوں کہ میں لوگوں کی محبت کی بھیک کی منتظر نہ رہوں۔ ان سب باتوں میں زیادہ تر میرا اپنا مسئلہ ہے کہ میں حساس ہوں اور مزاج کے مطابق باتوں سے شدید اثر لیتی ہوں، لیکن ابھی صرف یہ سوچ ہی رہی ہوں کہ میں کسی کو تبدیل نہیں کرسکتی، لیکن اپنے آپ کو میں نے کرنا ہے اور وہ تبھی ہوسکتا ہے، جب میرا کوئی ایسا مقصد ہو جس کا مجھے شوق ہو، جس سے مجھے خوشی ملے۔
جواب:
اصل میں جو آپ کی زندگی ہے وہ مجھے معلوم ہے، اور آپ کی جو مجبوریاں ہیں وہ بھی مجھے پتا ہیں۔ اب صرف یہ بات ہے کہ اس کا علاج کیسے کیا جائے؟ تو جو آپ نے بتایا ہے، اس سے تو یہ سمجھ آتا ہے کہ اثر بھی ہے اور اس کی وجہ سے نفسیاتی مسائل بھی ہیں، بلکہ اثر کی وجہ سے بھی مسائل ہوسکتے ہیں۔ لہٰذا اگر اثر دور ہوجائے تو کم از کم وہ مسائل بڑھنے سے رک جاتے ہیں، پھر اس کا علاج آسان ہوجاتا ہے، اس لئے اثر کو دور کرنے کے لئے آپ ہماری ’’منزل جدید‘‘ پڑھیں، اگرچہ مشکل تو ہوگا، لیکن مجبوری ہے، علاج کے لئے کرنا پڑے گا، لہٰذا دن میں تین دفعہ آپ اس کو پڑھا کریں، صبح، دوپہر اور شام، تاکہ یہ اثر کا مقابلہ کرسکے۔ باقی جو علاج ہے، تو میرے خیال میں کچھ باتیں تو آپ پہ خود ہی کھل چکی ہیں، البتہ صرف آپ اس کو اپنے ذہن میں مستحضر کرلیں کہ آپ سے آپ کے بارے میں پوچھا جائے گا کسی اور کے بارے میں نہیں پوچھا جائے گا۔ جیسے کہتے ہیں کہ ایک عورت کی وجہ سے چار مرد جہنم جاسکتے ہیں، لیکن یہ میں نے ابھی تک کہیں نہیں پڑھا کہ ایک مرد کی وجہ سے چار عورتیں جائیں گی۔ لہٰذا آپ کے اوپر جب یہ ذمہ داری ہے ہی نہیں تو آپ ان کو change کرنے کے بجائے صرف اپنے آپ کو change کریں۔ باقی جو آپ صبر کررہی ہیں، اس کا آپ کو اجر ملے گا۔ آپ سے بھی زیادہ مشکل حالات لوگوں کے ہیں، ان کے ساتھ پھر ہم کیا کریں گے؟ اس لئے حالات اگرچہ مشکل ہیں، اس سے انکار نہیں، لیکن ہمت کرنی پڑے گی۔ جیسے ہماری پشتو میں کہتے ہیں کہ اگر پہاڑ بڑا ہے تو اس کے اوپر راستہ ہے۔ لہٰذا راستہ تو ہوگا، بس آپ اس راستے کو پانے کی کوشش کرلیں اور اپنے جو معمولات ہیں، وہ آپ ٹھیک رکھیں اور ساتھ میں نے ’’منزل جدید‘‘ کا جو بتا دیا ہے اس کو تین دفعہ آپ روزانہ ُڑھ لیا کریں۔ اللہ جل شانہٗ آپ کو شفاءِ کاملہ عطا فرما دے۔
سوال نمبر 2:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ ہم نے اپنے مولوی صاحبان سے سنا ہے کہ جب انسان جنت میں چلا جاتا ہے تو وہاں وہی ہوگا جو انسان کی خواہش و مرضی ہوگی اور انسان جو چاہے گا وہی اس کو ملے گا۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہا جائے کہ مکمل آزادی اور عیاشی یعنی من چاہی زندگی ہوگی۔ میرا سوال یہ ہے کہ اللہ پاک کو جنت میں اپنے بندوں سے صرف یہی مقصود ہے کہ وہ جو چاہیں کریں یا کچھ اور بھی اللہ اپنے بندوں سے چاہے گا؟
جواب:
سوال تو بچوں والا ہے، لیکن بہرحال جواب دینا ہمارے لئے ضروری ہے۔ بات یہ ہے کہ یہ دنیا دار الابتلاء ہے اور وہ دنیا دار الجزاء ہے۔ دار الابتلاء میں آپ مزے تلاش نہ کریں، البتہ اگر مل جائیں تو خوشی کا اظہار کریں، شکر کریں اور اگر نہ ملیں تو صبر کریں اور اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کریں، شریعت کے مطابق چلیں۔ یہ دار الابتلاء کا کام ہے۔ اور دار الجزاء میں سبحان اللہ! اللہ کی مہمانی ہوگی۔ اب مہمانی میں کیا ہوتا ہے؟ مہمان سے کوئی کہتا ہے کہ فلاں کام کرو؟ نہیں، مہمانوں کی تو مہمانی ہوتی ہے۔ یہ میں نہیں کہتا، بلکہ اللہ تعالیٰ کا قرآن کہتا ہے:
﴿اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْهِمُ الْمَلٰٓىٕكَةُ اَلَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّةِ الَّتِیْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ نَحْنُ اَوْلِیٰٓؤُكُمْ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَةِۚ وَلَكُمْ فِیْهَا مَا تَشْتَهِیْۤ اَنْفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِیْهَا مَا تَدَّعُوْنَ نُزُلًا مِّنْ غَفُوْرٍ رَّحِیْمٍ﴾ (حم السجدہ: 30-32)
ترجمہ1: ’’(دوسری طرف) جن لوگوں نے کہا ہے کہ ہمارا رب اللہ ہے، اور پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے تو ان پر بیشک فرشتے (یہ کہتے ہوئے) اتریں گے کہ: نہ کوئی خوف دل میں لاؤ، نہ کسی بات کا غم کرو، اور اس جنت سے خوش ہوجاؤ جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا۔ ہم دنیا والی زندگی میں بھی تمہارے ساتھی تھے، اور آخرت میں بھی رہیں گے۔ اور اس جنت میں ہر وہ چیز تمہارے ہی لیے ہے جس کو تمہارا دل چاہے، اور اس میں ہر وہ چیز تمہارے ہی لئے ہے جو تم منگوانا چاہو۔ یہ سب کچھ اس ذات کی طرف سے پہلی پہل میزبانی ہے جس کی بخشش بھی بہت ہے جس کی رحمت بھی کامل‘‘۔
بس اس پر مزید سوال کیا ہوگا۔
سوال نمبر 3:
السلام علیکم۔ محترم شیخ! پانچ پانچ منٹ لطائف کا ذکر اور پندرہ منٹ مراقبۂ معیت میں دل ہی دل میں دعا والا عمل کو ایک ماہ مکمل ہوچکا ہے اور خامیوں میں سے دوسری خامی رب سے شکوہ نہیں کرنا، بس دعا کرنی ہے، اس میں بہت حد تک کامیاب رہی ہوں۔ اور شیخ محترم! پچھلے سال میں بہت مشکلات آئیں اور کاٹیں اور طعنے، تکلیفیں اور الزامات لگانے والے اور مجھے تنگ کرنے والے سبھی انجام کو پہنچے۔ اور دعاؤں کے ذریعے رب کو یاد کرنے سے میرا وقت بدل گیا ہے، مجھے سلائی کے Training institute میں Job offer ہوئی اور مجھے تمام insitute کی بچیاں بہت محبت دے رہی ہیں، آ آکر میری اچھائی بیان کرتی ہیں، مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ رب مجھے عزت اور محبت دے رہا ہے۔ میری position بہت بہتر ہوگئی ہے۔ شیخ محترم! آگے رہنمائی کیجئے۔ باقی عیوب کی list بھیج رہی ہوں۔
نمبر 2: ضرورت مند کو خوشی سے صدقہ دیتی ہوں، مگر پیسہ خود بھی اپنے پاس رکھنا پسند کرتی ہوں۔
جواب:
بالکل ٹھیک کرتی ہیں۔
نمبر 3: پہلے کسی کے برے رویے سے اپنے دل میں نفرت پال لیتی تھی، لیکن آپ کی صحبت میں آکر اب اگر غصہ آئے تو دل جلدی صاف ہوجاتا ہے، مگر ایسے لوگوں سے دور رہتی ہوں۔
جواب:
ماشاء اللہ!
نمبر 4: اپنا حق مارنے پر کبھی jeleousy محسوس ہوتی ہے۔
جواب:
اصل میں یہ jeleousy نہیں ہوتی، کیونکہ جو انسان کا اپنا حق ہوتا ہے، اس سے تکلیف تو ہوتی ہے، اس لئے یہ jeleousy نہیں ہے، بس یہ ایک کڑھن ہے۔
نمبر 5: جب گھر والے ناجائز ڈانٹیں تو میں آگے سے غصہ کرتی ہوں۔
جواب:
غصہ نہ کیا کریں اور اس کو لطائف الحیل سے ٹال دیا کریں۔
نمبر 6: ان معاملات کی وجہ سے میں depression کا شکار ہوچکی ہوں اور میرا treatment چل رہا ہے۔
جواب:
اللہ تعالیٰ آپ کو صحت عطا فرمائے۔ بہرحال غصہ بھی نہیں کرنا چاہئے اور ان معاملات کو اپنے دل پر بھی نہیں لینا چاہئے۔
نمبر 7: جب کوئی زیادتی کرے تو اس کے بارے میں دوسروں کو شکایت کرتی ہوں، لیکن پھر مجھے لگتا ہے کہ یہ غیبت ہورہی ہے۔
جواب:
اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں فرماتے ہیں:
﴿لَا یُحِبُّ اللّٰهُ الْجَهْرَ بِالسُّوْٓءِ مِنَ الْقَوْلِ اِلَّا مَنْ ظُلِمَؕ﴾ (النساء: 148)
ترجمہ: ’’اللہ اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ کسی کی برائی علانیہ زبان پر لائی جائے، الا یہ کہ کسی پر ظلم ہوا ہو‘‘۔
یعنی جس پر ظلم کیا جائے، اس کو اس کی اجازت ہے کہ وہ اس ظلم کا تذکرہ کرلے۔ لہٰذا اگر آپ کے اوپر ظلم ہوچکا ہے اور آپ کسی سے کہہ رہی ہیں تو اس میں غیبت نہیں ہے، یہ شکایت ہے اور جائز شکایت ہے، اگر واقعتاً ایسا ہی ہوا ہو تو۔
نمبر 8: ٹی وی، ڈرامہ گھر والوں کے ساتھ بیٹھ کر دیکھ لیتی ہوں۔
جواب:
بالکل نہ دیکھیں اور اس میں لوگوں کی رعایت نہ کریں، اپنے آپ کو بچائیں۔
سوال نمبر 4:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ فلسطین اور امت مسلمہ کا جو اس وقت حال ہے، اس پر سوچ کر ڈر لگتا ہے کہ ہم آرام سے کھا رہے ہیں، پی رہے ہیں اور اپنے گھروں میں ہیں۔ ہم پر کتنی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ان سب میں، اللہ تعالیٰ ہم سے کیا پوچھے گا اس بارے میں؟ اور اسرائیلی چیزوں کا بائیکاٹ کریں تو لوگ کہتے ہیں کہ یہود سے آپ ﷺ نے تجارت کی تھی اور منع نہیں کیا تھا۔ کیا یہ درست ہے؟ اس کا جواب کیا ہے؟
جواب:
جو کچھ ہم کرسکتے ہیں، وہ ضرور کریں۔ مثال کے طور پر اگر ہم وہاں امداد بھیج سکتے ہیں تو جو صحیح راستے ہیں، ان کے ذریعے سے ان کے لئے امداد بھیجیں اور ان کے لئے دعا کرسکتے ہیں اور اس کے بارے میں لوگوں کی غلط فہمی ہو تو ان کو دور کرسکتے ہیں۔ باقی اسرائیلی چیزوں کا بائیکاٹ ہونا چاہئے، کیونکہ ہر وقت کا اسلحہ اپنا ہوتا ہے، اور اس دور کا اسلحہ یہی ہے، کیونکہ معیشت آج کل بہت بڑا ہتھیار ہے، اگر آپ کسی کی معیشت پر پیر رکھیں تو اس کی دم پر پیر رکھنا ہے، اس سے وہ جھک جاتا ہے، اس وجہ سے آج کل جو بائیکاٹ ہے، یہ ٹھیک ہے۔ چونکہ اس وقت یہ مسائل اتنے زیادہ نہیں تھے، اس وقت دست بدست لڑائی تھی، لیکن اس وقت دست بدست لڑائی نہیں ہے، بلکہ دور والی باتیں ہیں۔ لہٰذا اس میں معیشت بھی ایک ہتھیار ہے، اس لئے اگر آپ بائیکاٹ کرتے ہیں تو ان کی معیشت کمزور ہوجائے گی اور وہ جھک جائیں گے۔ مثلاً Denmark کے واقعہ سے آپ دیکھیں کہ وہ کس طرح سوچنے پر مجبور ہوا تھا۔ اسی طریقے سے اگر ہم لوگ اس کو بطور ہتھیار لے لیں تو بات سمجھ میں آتی ہے۔
سوال نمبر 5:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ میں نے بچوں کے مراقبے کی report دینی ہے۔ ان کے مراقبے کا ایک ماہ ہوگیا ہے۔
نمبر 1: پہلے پانچوں لطائف پر پانچ منٹ یہ تصور کرنا ہے کہ میرے لطیفہ کی طرف اللہ تعالیٰ محبت سے دیکھ رہے ہیں اور میرا لطیفہ ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کررہا ہے۔ اس کے بعد آیت الکرسی کے ترجمے کو سمجھ کر پھر یہ مراقبہ کرنا ہے کہ اس کا فیض رسول کریم ﷺ کے قلب اطہر پر اور پھر آپ ﷺ کے قلب مبارک سے حضرت کے قلب پر اور حضرت کے قلب سے فلاں کے پورے جسم پر یہ فیض آرہا ہے۔ کیفیات: اَلْحَمْدُ للہ! پانچوں لطائف پر ذکر محسوس ہوتا ہے، مراقبہ کے دوران کچھ خاص کیفیت کا اندازہ نہیں ہورہا، اللہ تعالیٰ کی موجودگی اور اچھے کاموں پر دل خوش ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ میرے اس کام سے خوش ہوں گے اور غلط کام پر ناخوش ہوں گے۔ اور اسلام سے محبت اور اسلام کے بارے میں سوچتی رہتی ہوں۔ اَلْحَمْدُ للہ! ناغہ نہیں ہوا۔
جواب:
ٹھیک ہے، آپ نے ماشاء اللہ! آیت الکرسی کا مراقبہ کرلیا، اب ’’لَّاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنْتَ سُبْحٰنَكَ اِنِّیْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ‘‘ کا مراقبہ استغفار کی کیفیت کے ساتھ کرلیں کہ اس کا جو فیض ہے، وہ آرہا ہے۔
نمبر 2: اس کا مراقبۂ معیت ہے اور پہلے پانچوں لطائف پر پانچ منٹ یہ تصور کرنا ہے کہ میرے لطیفہ کی طرف اللہ تعالیٰ محبت کے ساتھ دیکھ رہا ہے اور میرا لطیفہ ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کررہا ہے، اس کے بعد پندرہ منٹ کا مراقبۂ معیت کرنا ہے۔ کیفیت: پانچوں لطائف پر ذکر محسوس ہوتا ہے اور جنت جانے کی خواہش اور ثواب کمانے کا جذبہ بڑھ رہا ہے۔
جواب:
اب مراقبۂ معیت کے ساتھ مراقبۂ دعائیہ بھی ملا دیں۔
نمبر 3: اس کے وظیفہ کی ترتیب یہ ہے: نمبر ایک درود پاک دو سو مرتبہ، تیسرا کلمہ دو سو مرتبہ، استغفار دو سو مرتبہ ہے، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ دو سو مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ چار سو مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ چھے سو مرتبہ۔
باقی تینوں کو اَلْحَمْدُ للہ! نماز پڑھنے اور قرآن پاک کی تلاوت پر استقامت ہے۔ ربیع الاول میں ہمارا اجتماعی درود شریف ایک لاکھ ستر ہزار پانچ سو تھا۔ ماشاء اللہ!
جواب:
ماشاء اللہ۔ اب ’’حَقْ‘‘ چھے سو مرتبہ اور ’’اَللّٰہ‘‘ تین سو مرتبہ کرلیں۔
سوال نمبر 6:
السلام علیکم۔ حضرت شاہ صاحب! اللہ تعالیٰ آپ کا کامل فیض نصیب فرمائے۔ چھوٹے بیٹے کا ذکر سو مرتبہ تیسرا کلمہ، سو مرتبہ درود شریف اور سو مرتبہ استغفار ہے، جسے ایک ماہ مکمل ہوگیا ہے۔ احوال یہ ہیں کہ غصہ آنا بہت کم ہوگیا تھا، لیکن درمیان میں ایک ناغہ ہوگیا تھا، تو اب پھر غصہ آجاتا ہے۔ مزید رہنمائی کی درخواست ہے۔
جواب:
بیٹے کی عمر کیا ہے؟ اس کی عمر ذرا بتا دیں۔
سوال نمبر 7:
السلام علیکم۔ حضرت جی! میرا ایک شوق ہے کہ میں painting کرتی ہوں، اکثر لوگ تو اپنی painting پر نام لکھتے ہیں کہ جس سے پتا چلتا ہے کہ یہ کس کی ہے، مگر میں چونکہ ایسا نہیں کرتی، لیکن میں کبھی کبھی اپنا sign کردیتی ہوں، تو کیا یہ جائز ہے؟ اگر کسی نامحرم کی نظر پڑے تو sign سے نام کا پتا نہ چلے یا میں sign بھی نہ کیا کروں؟ آپ اصلاح فرما دیں۔
جواب:
آپ کوئی ایسی نشانی لگا لیا کریں جس کو صرف آپ جانتی ہوں، کوئی اور نہ جانتا ہو۔
سوال نمبر 8:
سالک نے اپنا کوئی خواب سنایا ہے جسے حضرت نے مجلس میں نہیں پڑھا، صرف اس کا جواب دیا ہے۔
جواب:
آپ کا جو خواب ہے، اس میں آپ کو بتایا جارہا ہے کہ آپ کا راستہ صحبت شیخ والا ہے یعنی آپ کی اصلاح میں زیادہ فائدہ صحبت سے ہوگا اور باقی معمولات اس کے بعد آتے ہیں۔ بس خواب یہی بتا رہا ہے، اس میں مزید میں کیا کہہ سکتا ہوں۔
سوال نمبر 9:
السلام علیکم۔
Dear Sheikh, I am writing to you again in one month. I am doing ذکر practices as you said.
جواب:
So (ماشاء اللہ continue your ذکر اذکار ان شاء اللہ this will benefit you)
سوال نمبر 10:
السلام علیکم۔
I have completed the following. Two hundred times ‘‘لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ’’ two hundred times ‘‘لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ’’ two hundred times ‘‘حَقْ’’ and hundred times ‘‘اَللّٰہ’’
جواب:
Now you should do two hundred times ‘‘لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ’’three hundred times ‘‘لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ’’ three hundred times ‘‘حَقْ’’ and one hundred time اللہ. This is also for one month ان شاء اللہ.
سوال نمبر 11:
اَلْحَمْدُ للہ! میں عمرہ پر جارہا ہوں اور اس وقت میں جہاز میں ہوں، کچھ ہدایت فرما دیں کہ وہاں کیا کروں؟
جواب:
ماشاء اللہ! آپ تو کئی دفعہ عمرہ بھی کرچکے ہیں اور حج بھی کرچکے ہیں، اس لئے آپ کو تو معلوم ہے کہ عمرہ کے کیا مسائل ہیں، بس وہ آپ اسی کے مطابق کریں گے جو لکھے ہیں، البتہ یہ بات ہے کہ وہاں وقت کو ضائع نہ کریں، زیادہ وقت آپ کا حرم میں گزرے، فضول چیزوں میں بالکل نہ گزرے اور اِدھر اُدھر نہ دیکھیں، زیادہ تر خانہ کعبہ کو دیکھیں یا طواف میں زیادہ وقت مشغول ہوں یا پھر وہاں نمازیں ہوں۔ اور مدینہ منورہ میں صلوٰۃ و سلام کی کثرت اور قرآن پاک کی تلاوت کریں اور اس کا ثواب آپ ﷺ کو بھیجیں۔ اور ہمیں بھی حریمین شریفین میں دعاؤں میں یاد رکھیں اور ساتھ صلوٰۃ و سلام میں بھی ہمیں یاد رکھیں کہ ہماری طرف سے بھی صلوٰۃ و سلام بھیج دیا کریں۔
سوال نمبر 12:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت جی! مجھے ایک ماہ کے لئے پندرہ منٹ کا مراقبہ ملا تھا۔ اَلْحَمْدُ للہ! اس ماہ میرا کوئی ناغہ نہیں ہوا، لیکن ابھی تک کچھ محسوس نہیں ہورہا۔ نمازیں ساری پڑھتی ہوں۔ درود شریف کی تعداد میں کمی آگئی ہے، پہلے ساتھ ہزار پڑھتی تھی، لیکن اب تین ہزار پڑھنے لگی ہوں، قرآن پاک کی تلاوت میں بھی کمزوری ہے، کبھی ہفتے میں کوئی سورۃ پڑھ لی تو بس، باقی تلاوت نہیں کی۔ تین تسبیحات باقاعدگی سے بلاناغہ پڑھتی ہوں۔
جواب:
سب سے پہلے تو یہ دیکھیں کہ آپ نے اپنے WhatsApp میں جو بھیجا ہے، اس میں مراقبے کا بتایا ہی نہیں کہ کون سا مراقبہ ہے، کیونکہ مراقبات تو کئی قسم کے ہوتے ہیں، لیکن آپ نے یہ نہیں بتایا تو میں اس پر کیا کہوں؟ باقی ماشاء اللہ! نمازیں ساری پڑھی ہیں، لیکن درود شریف کی تعداد میں اگر کمی آگئی ہے تو اگر پورا کرسکتی ہیں تو پورا کریں۔ اور قرآن پاک کی تلاوت میں کمزوری بالکل نہیں آنی چاہئے، یہ کوئی سورۃ پڑھنا کافی نہیں ہے، بلکہ کم از کم ایک پاؤ پارہ تلاوت کرنا ضروری ہے، اس لئے آپ لوگ پڑھ لیا کریں، اس میں کمی نہ کریں اور کوشش کرلیں کہ آگے بڑھیں، پیچھے نہ ہٹیں۔
سوال نمبر 13:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت! لاہور سے میں فلاں عرض کررہا ہوں۔ گزشتہ ماہ آپ نے ’’اَللہ اَللہ‘‘ کا جہری ذکر ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ کے ساتھ ساڑھے نو ہزار تک بڑھانے کا فرمایا تھا، جسے اَلْحَمْدُ للہ! مہینہ مکمل ہوگیا ہے، البتہ اس ماہ تقریباً دو تین بار فجر قضا ہوگئی ہے اور ایک رات جہری ذکر کے دوران آنکھ لگ گئی تھی، لیکن اگلے صبح اشراق کے بعد ذکر مکمل کرلیا تھا۔ عموماً مہمانوں کے ساتھ رات دیر تک بیٹھنا غفلت کا سبب بن رہا ہے۔ آپ سے مزید رہنمائی کی درخواست ہے۔
جواب:
رہنمائی اس میں کی جاتی ہے جس میں کوئی راستہ معلوم نہ ہو، مثلاً کسی کو لاہور کا راستہ معلوم ہے تو کیا وہ کسی سے رہنمائی لینا چاہے گا کہ لاہور میں کیسے جاؤں؟ نہیں! وہ یہ نہیں پوچھے گا۔ البتہ اگر کوئی نئی جگہ جانا چاہتا ہو تو اس کے بارے میں پوچھے گا۔ اسی طرح آپ کو جس چیز کا خود پتا ہے، تو اس کو آپ نے خود ہی کرنا ہے۔ اب وہ کیا ہے؟ وہ مہمانوں کے ساتھ رات دیر تک بیٹھنا ہے۔ بس اگر یہ غفلت کا سبب بن رہا ہے تو اس کی تلافی کریں کہ مہمانوں کو سمجھا دیں کہ آپ بھی آرام کریں، میں بھی اب آرام کرنا چاہتا ہوں، حتیٰ کہ دینی باتیں بھی اگر آپ کررہے ہیں اور اس سے بھی اگر آپ کو نمازِ فجر کا نقصان ہورہا ہے تو وہ بھی نہیں کرنی چاہئیں۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ عشاء کے بعد کسی کو ایک دوسرے سے نہیں ملنے دیتے تھے۔ لہٰذا اس میں آپ ذرا ہمت کریں۔ اور اگر کوئی خود نہیں سمجھتا تو ان کو اس طرح سمجھا دیا کریں کہ آپ بھی آرام کریں، میں بھی آرام کرتا ہوں، کیونکہ صبح نماز کے لئے جلدی اٹھنا ہوگا۔ بس اس طریقے سے ان شاء اللہ العزیز! یہ بات ٹھیک ہوسکتی ہے۔ حضرت نے تو یہاں تک فرمایا ہے کہ دوسروں کے جوتوں کی حفاظت کے لئے اپنی گٹھڑی گم نہیں کرنی چاہئے۔ لہٰذا نماز فرض ہے، وہ آپ نہیں چھوڑ سکتے۔ باقی ’’اَللہ اَللہ‘‘ کا جہری ذکر دس ہزار تک کرلیں اور باقی وہی کرلیں جو پہلے کرتے رہے ہیں۔
سوال نمبر 14:
السلام علیکم۔ میرے نفس کی شرارتیں۔ ساری باتوں میں حضوری عطا ہے، اَلْحَمْدُ للہ! مگر جب منہ سے بولتا ہوں تو خدا کی قسم کوئی اخلاص نہیں ہوتا، لیکن جب احساس ہوتا ہے تو چپ ہوجاتا ہوں اور جو سامنے ہوتا ہے، اس کو شاید سمجھ نہیں آتا۔ ہر جملے میں ریا کی بو آتی ہے اور اگر ریا نہیں، جیسے کہ آپ فرماتے ہیں کہ یہ نیت سے ہوتا ہے تو عجب یقیناً ہے، نفس کہتا ہے نہیں نہیں یہ تو علمی نکتہ ہے اور اس کا اظہار تجھ پر لازم ہے کیونکہ تجھ سے پوچھا جارہا ہے۔ اگر یہ نفس کا دھوکہ ہوتا ہے تو بعد میں توبہ کرتا ہوں۔ ایک صاحب نے نماز کے بعد مصافحہ کیا اور پھر میرے ہاتھ کھینچنے سے پہلے بوسہ دیا تو مجھے اتنی شرم آئی کہ بہت مشکل سے آنسو روکے اور جی چاہا کہ ان کی چپل کو میں اپنے رومال سے صاف کردوں، مگر اندر سے کسی چیز نے پکڑ لیا اور روک دیا، یہ بھی شاید نفس تھا۔
جواب:
آپ کو میرے خیال میں صرف شک ہی ہورہا ہے اور شک میں انسان کو نہیں جانا چاہئے۔ اور جیسا کہ میں نے بتایا کہ ریا نیت سے ہوتا ہے، اس لئے اگر آپ کی ریا کی نیت نہیں ہے تو پھر کوئی پروا نہیں، کیونکہ وہ ریا نہیں ہے۔ دوسرا یہ کہ اگر آپ سے کسی نے کوئی بات پوچھی ہے اور آپ اس کو جانتے ہیں اور وہ تربیت سے متعلق نہیں ہے، بلکہ علم سے متعلق ہے تو آپ ضرور بتا دیا کریں، اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ آپ ﷺ نے بھی فرمایا ہے:
’’بَلِّغُوْا عَنِّیْ وَلَوْ آیَۃً‘‘ (بخاری، حدیث نمبر: 3461)
ترجمہ: ’’میرا پیغام لوگوں کو پہنچاؤ اگرچہ ایک ہی آیت ہو‘‘۔
لہٰذا یہ تبلیغِ دین ہے، اس لئے یہ آپ کرسکتے ہیں، لیکن اس کو اللہ کا فضل سمجھیں، اپنا کمال نہ سمجھیں۔ باقی آپ نے جو یہ کہا کہ میرا دل چاہا کہ میں اپنے رومال سے ان کی چپل صاف کردوں تو ایسا نہیں کرنا چاہئے، اس میں مزید بزرگی لوگوں کے ذہنوں میں آجاتی ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ بڑا متواضع ہے، اس لئے یہ بھی ہمارے لئے ایک فتنہ بن سکتا ہے، بس natural انداز سے اتنا کریں کہ خود اپنے دل میں یہ بات نہ لائیں کہ میرا کمال ہے، بلکہ اگر کوئی آپ کی قدر کرتا ہے تو اس پر اللہ کا شکر ادا کریں اور یہ اللہ کا فضل سمجھیں اور اگر کوئی برا بھلا کہے تو اس کو بھی ایک ابتلاء سمجھیں، اس پر صبر کریں، تو صبر اور شکر کے درمیان میں انسان رہے گا تو ان شاء اللہ العزیز! اسی میں خیر ہوگی۔
سوال نمبر 15:
السلام علیکم۔ حضرت میرے اوپر کچھ قرض ہے جس کی ادائیگی مشکل ہورہی ہے۔ ذکر و مراقبہ میں ناغے ہورہے ہیں۔ میرے اندر عجب کا مرض ہے یہ کیسے ختم ہو۔
جواب:
یہ جو قرض کی ادائیگی ہے، اس کے لئے ہمت کریں کہ یہ پورا ہوجائے۔ اور ذکر و مراقبہ میں ناغے بالکل نہیں ہونے چاہئیں، یہ آپ کا علاج ہے اور علاج میں ناغے نہیں ہونے چاہئیں۔ اور آپ کو عجب تب ہوگا جب آپ اس کو اپنا سمجھنے لگیں گے، لیکن جب اس کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے سمجھیں گے تو پھر عجب کیوں ہوگا؟ اس لئے بس اس کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے سمجھیں۔
سوال نمبر 16:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ لطیفۂ قلب دس منٹ ہے، اور ذکر محسوس ہوتا ہے۔
جواب:
ماشاء اللہ! اب اس کو پندرہ منٹ کرلیں۔
سوال نمبر 17:
ذکر کے دوران تھوڑی سی کبھی کبھار گھٹن ہوتی ہے یعنی سانس پھولتا ہے۔
جواب:
یہ ویسے ہی کوئی طبعی چیز ہوگی، کیونکہ بعض دفعہ گیس وغیرہ بن جاتا ہے تو اس کی وجہ سے ہوتا ہے، اس لئے یہ طبعی چیز ہوتی ہے اور یہ سب کے ساتھ ہوتا ہے، ذکر کے ساتھ نہیں ہوتا، بلکہ ویسے بھی ہوجاتا ہے۔ میں آپ کو ایک بات بتاؤں، اور یہ بہت direct قسم کی بات ہے۔ سیٹلائیٹ ٹاؤن کے پاس ایک صاحب تھے، جس نے مجھ سے ذکر لیا تھا، اس نے مجھے فون کیا کہ جب سے آپ کا ذکر شروع کیا ہے تو میں بیمار ہوں، میں کیا کروں؟ میں نے کہا آپ نے ماشاء اللہ! مجھے بہت زبردست information دی ہے۔ میں نے کہا کہ آپ کدھر ہیں؟ کہتے میں سیٹلائیٹ ٹاؤن، میں نے کہا سنٹرل ہسپتال تو آپ کے قریب ہی ہے، کہتے ہاں، میں نے کہا ادھر چل کے ہسپتال میں visit کرتے ہیں اور ہر بیمار سے پوچھتے ہیں کہ آپ نے کس کا وظیفہ پڑھا تھا کہ آپ بیمار ہیں؟ جو جو وظیفے انہوں نے پڑھے ہوں گے اس کو نوٹ کریں گے کہ اس وظیفے کے ساتھ یہ بیماری ہوجاتی ہے، اس وظیفے کے ساتھ یہ بیماری ہوجاتی ہے۔ اس پر وہ ہنس پڑا، تو میں نے کہا خدا کے بندے! کیا ویسے لوگ بیمار نہیں ہوتے؟
سوال نمبر 18:
حضرت! جو مقامات طے کرتے ہیں، ان میں آپ فرما رہے تھے کہ ایک مقام زہد ہے اور ایک مقام توکل ہے۔ دونوں میں کیا فرق ہے؟
جواب:
بہت زیادہ فرق ہے۔ مقام زہد میں یہ ہوتا ہے کہ انسان تھوڑے اسباب کے ساتھ وقت گزارتا ہے، مثال کے طور پر پیسے کم ہیں، گھر کے اندر چیزیں کم ہیں، جیسے چارپائی نہیں ہے اور وہ زمین پر سو رہا ہے۔ جیسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا زہد تھا۔ عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں حضرت تھانوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ ایک دفعہ وہ سو رہے تھے، شیطان کو دیکھا کہ ان کے ارد گرد چکر لگا رہا ہے، عیسیٰ علیہ السلام چونکہ پیغمبر تھے اس لئے ان کو پتا چل گیا، تو اس سے پوچھا کہ خبیث تو ادھر کیوں آگیا؟ تیری جرأت کیسے ہوئی میرے پاس آنے کی؟ اس نے کہا کہ میری متاع تیرے پاس ہے۔ انہوں نے کہا کہ تیری متاع میرے پاس کون سی ہے؟ اس نے نیچے اینٹ کی طرف اشارہ کیا کہ یہ جو اینٹ سر کے نیچے رکھی ہے یہ میری متاع ہے، تو حضرت نے وہ اینٹ اٹھائی اور اس کی طرف دے ماری کہ یہ لے لو اپنی متاع اور حضرت نے اپنا ہاتھ اپنے سر کے نیچے رکھ لیا اور اسی طرح سو گئے۔ اسی طرح ایک پیالہ تھا جس میں پانی پیتے تھے اور کھانا بھی کھاتے، ایک مرتبہ ایک شخص کو دیکھا کہ وہ لپ سے پانی پی رہے ہیں تو وہ بھی کسی کو دے دیا۔ یہ ہے زہد۔ اور توکل یہ ہے کہ انسان کو ہر کام میں اللہ پر بھروسہ ہو اور اللہ پاک کے پاس جو اسباب ہیں، ان کو اصل سمجھتا ہو اور جو اپنے پاس ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے سمجھتا ہو یعنی ان پر انحصار نہ ہو، بلکہ اللہ تعالیٰ کے پاس جو اسباب ہیں ان پر انحصار ہو۔ اللہ فرماتے ہیں:
﴿وَمَنْ یَّتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ فَهُوَ حَسْبُهٗؕ﴾ (الطلاق: 3)
ترجمہ: ’’اور جو کوئی اللہ پر بھروسہ کرے، تو اللہ اس (کا کام بنانے) کے لیے کافی ہے‘‘۔
سوال نمبر 19:
حضرت! کبھی کبھی کوئی آدمی خلاف شرع بات کرلیتا ہے، جس کی وجہ سے آدمی کو ایک دم غصہ آجاتا ہے اور وہ control سے باہر ہوجاتا ہے، تو اس کو کیا کہیں گے؟
جواب:
غصہ ٹھیک ہے، لیکن control سے باہر ہونا ٹھیک نہیں ہے، کیونکہ خلاف شرع چیز پر غصہ تو آئے گا، لیکن مقصود غصہ کرنا نہیں ہے، بلکہ مقصود اس کی اصلاح ہے۔ اس لئے اس کے لئے جو مناسب چیز ہے وہ اختیار کرنی چاہئے۔ اگر غصہ اس کے لئے مناسب ہے تو پھر غصہ کرنا چاہئے، لیکن وہ calculated انداز میں ہو کہ جتنا اس کے لئے غصہ چاہئے اتنا انسان کرلے اور اگر نرمی سے اس کے ساتھ گفتگو کرنا مناسب ہو تو اس کو نرمی سے سمجھانا چاہئے اور اگر کسی ترغیب و ترہیب کے ذریعہ سے اس کو سمجھانا مناسب ہو تو اس کے لئے پھر وہ طریقہ اختیار کرنا چاہئے۔
سوال نمبر 20:
اگر کوئی بچہ ہے اور وہ جان بوجھ کے خلاف شریعت کوئی ایسی بات تنگ کرنے کے لئے کرتا ہے اور بار بار اس طرح کرتا ہے، تو اس کے لئے اگر کوئی گالی گلوچ نکل جائے تو ٹھیک ہے؟
جواب:
گالی گلوچ تو نہیں نکلنی چاہئے، کیونکہ ایسی صورت میں اپنے آپ کو نقصان پہنچانا ہے، اب قصور کوئی اور کرے اور نقصان اپنے کو دیں تو یہ ٹھیک نہیں ہے۔ البتہ مناسب یہ ہے کہ اگر وہ انسان کو کوئی نفع پہنچا سکتا ہے تو ٹھیک اور اگر نہیں پہنچا سکتا تو پھر برداشت ہی کرنا ہوتا ہے اور اس کے لئے دعا کریں بس۔ لیکن اگر اس کو نفع پہنچا سکتا ہے تو نفع پہنچانے کی کوشش کرنی چاہئے، تاکہ اس کو اس بری عادت سے بچایا جائے۔
سوال نمبر 21:
اگر اس خاموشی سے یا برداشت سے مزید اس کا خطرہ ہو کہ یہ اور زیادہ آگے بڑھے گا، لیکن غصہ سے اس طرح نہیں ہوگا، تو ایسی صورت میں کیا کیا جائے؟
جواب:
اصل میں جیسے میں نے عرض کیا کہ یہ اس پر منحصر ہے کہ وہ آدمی کون ہے، یعنی اس کے حالات کیا ہیں؟ اس کے حالات کے مطابق فیصلہ ہوگا، مثلاً اگر وہ اپنا بچہ ہے تو اس کے لئے الگ ترتیب ہوگی اور اگر وہ کوئی اور آدمی ہے یعنی محلے کا ہے یا کوئی اور ہے اور وہ شرارت کررہا ہے تو اگر اس کا کوئی علاج کرسکتا ہے تو انسان علاج کرے، نہیں تو پھر برداشت کرے، بس یہی بات ہے۔ کیونکہ بعض دفعہ جواب دینے سے نقصان اور ہوجاتا ہے، مثال کے طور پر اس نے گناہ کی کوئی بات کی، آپ نے اس کو روکا، تو روکنے سے اس نے کوئی ایسی بات کردی کہ جس سے انسان کافر ہوجاتا ہے، اور ایسا معاملہ میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ ایسا ہوجاتا ہے، انسان غصے میں آکے زبان سے کچھ ایسی بات نکال لیتا ہے جس سے وہ کافر ہوجاتا ہے۔ اس لئے میں اس سے ڈرتا ہوں، مجھے اب مشکل ہوتی ہے کہ میں اس کو کس limit پر لے جاؤں، کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی ایسی بات زبان سے نکالے جس سے وہ کافر ہوجائے، کیونکہ میں نے اپنے ہاسٹل میں ایک آدمی کو دیکھا تھا، جسے میں نے کچھ بات کی تھی تو اس نے کچھ ایسی بات زبان سے نکالی کہ میرے پاؤں تلے زمین نکل گئی، میں نے کہا یہ تو کافر ہوگیا، پھر میں نے سوچا کہ کہیں میں اس گرفت میں نہ آجاؤں۔ بعینہٖ اسی طرح حضرت مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی یہ بات کی ہے کہ پہلے میں سفر میں لوگوں کو نصیحت کرتا تھا، لیکن اب نہیں کرتا، کیونکہ ایسا ہوا کہ ایک دفعہ میں نے کسی کو دیکھا کہ اس کے پانچے ٹخنوں سے نیچے تھے، میں نے اس سے کہا کہ آپ پانچے ٹخنوں سے اوپر کرلیں، اس نے کہا کہ کیوں کروں؟ میں نے کہا کہ اس سے شریعت کی مخالفت ہوتی ہے۔ اس نے ’’نَعُوْذُ بِاللہِ مِنْ ذَالِکَ‘‘ شریعت کو گالی دے دی، بس میں نے کہا کہ یہ تو کافر ہوگیا، لیکن پھر آئندہ کے لئے میں کسی اجنبی آدمی کو نصیحت نہیں کرتا، کیونکہ جب مجھے اس کے بارے میں پتا نہیں ہے کہ وہ کس position میں ہے تو میں کیوں اپنے آپ کو خراب کروں۔ لہٰذا بعض دفعہ یہ بات ہوتی ہے، اس لئے اس کو گناہگار رہنے دیا جائے، کافر نہ بنایا جائے۔ حضرت تسنیم الحق صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو میں دیکھتا تھا کہ جب اس قسم کی position ہوجاتی تو بات کا رخ بدل لیتے تھے، کوئی اور بات شروع کرلیتے، یعنی اگر کوئی حد سے بڑھ رہا ہو تو کہتے اچھا بھائی! چلو پانی لے، اسی طرح کوئی اور بات کرلیتے، بات کو آگے پیچھے کرلیتے۔
سوال نمبر 22:
السلام علیکم۔ حضرت! ذکر کیسے محسوس ہوتا ہے؟ ہمیں کیسے پتا چلے گا کہ یہ دل کی دھڑکن نہیں ہے، بلکہ یہ ذکر ہے؟
جواب:
دھڑکن تو ہر ایک کی ہوتی ہے، لیکن ذکر میں ذکر کا rythme محسوس ہوتا ہے، مثلاً ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ‘‘ کی جیسے حرکت ہوتی ہے، اگرچہ حرکت اور آواز بیشک اسی طرح دھڑکن کی ہو، لیکن وہ حرکت اس طرح محسوس ہوتی ہے جیسے ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ‘‘ کے ساتھ حرکت ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر ’’لَآ اِلٰہَ‘‘ کسی پردہ سے ٹکرا رہا ہے، تو پردہ کے اوپر جو effect ہے، وہ effect دل کے اوپر محسوس ہوتا ہے۔
سوال نمبر 23:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت! دو سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ‘‘، چار سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘، چھے سو مرتبہ ’’حَقْ‘‘ اور ساڑھے چار ہزار اسم ذات ’’اَللّٰہ‘‘ کا ذکر اور لطیفۂ قلب، روح، سر، خفی اور اخفیٰ پانچ پانچ منٹ اور مراقبہ شیونات ذاتیہ پندرہ منٹ لطیفۂ سر پر جاری ہے۔ مہینہ مکمل ہونے کے بعد آپ نے دس دنوں کا اضافہ فرمایا تھا، اب دس دن بلاناغہ مکمل ہوچکے ہیں۔ معمول میں یکسوئی ابھی تک نصیب نہیں ہوسکی، ان دس دنوں میں مراقبہ آگے پیچھے ہوتا رہا۔ باوجود بے ترتیبی کے درج ذیل کیفیات ہیں: گناہوں سے بچنے کی کوشش اور استغفار کا اہتمام اور ویڈیو سے پرہیز اَلْحَمْدُ للہ! نصیب ہوا ہے اور اپنے عیوب میں تعفن اور علاج زدہ ہونے کا احساس ہوا ہے اور یکسوئی حاصل کرنے کے لئے دعا کا اہتمام نصیب ہوا ہے۔ آئندہ کے لئے آپ رہنمائی فرمائیں۔
جواب:
ماشاء اللہ! اب مراقبہ تنزیہ آپ شروع کرلیں یعنی پندرہ منٹ مراقبہ شیونات ذاتیہ کے بجائے مراقبہ تنزیہ آپ شروع کرلیں۔ مراقبہ تنزیہ میں یہ ہوتا ہے کہ جو اللہ پاک کی صفات ہیں، وہ مخلوق کی صفات سے مختلف ہیں یعنی کچھ چیزیں مخلوق کی ہیں، لیکن اللہ پاک کے لئے وہ ثابت نہیں ہیں، جیسے اللہ پاک ہمیشہ زندہ ہوتا ہے، اللہ پاک کھاتے نہیں، پیتے نہیں، اس کی اولاد نہیں، بیوی نہیں یعنی ایسی صفات جو مخلوق کی ہیں، لیکن اللہ پاک کی نہیں ہیں، اس کو تنزیہ کہتے ہیں۔ لہٰذا ان صفات کا جو فیض ہے، وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ ﷺ کی طرف آرہا ہے، آپ ﷺ کی طرف سے شیخ کے پاس آرہا ہے اور شیخ سے پھر آپ کے لطیفۂ خفی پر آرہا ہے۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ
۔ (آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب)
نوٹ! تمام آیات کا ترجمہ آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم سے لیا گیا ہے۔