سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 641

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال نمبر 1:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! حضرت جی ذکر کو تین مہینے ہوگئے ہیں۔ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ دو سو دفعہ، ’’اِلَّا اللّٰہْ‘‘ چار سو دفعہ، ’’اَللّٰہُ اَللّٰہ‘‘ چھ سو دفعہ اور ’’اَللّٰہْ‘‘ تین سو دفعہ۔ کیفیات بہت عجیب ہیں، دل میں یہ ہے کہ اس وقت ایمان بچانا بھی بہت بڑی بات ہے جو کہ یقیناً شیطانی وسوسہ ہے۔ معاملات ٹھیک ہیں سوائے آفس کے اوقات میں نماز باجماعت کی کمزوری ہے، لاپرواہی بہت ہورہی ہے، معمول میں بھی کبھی کبھار ناغہ ہوجاتا ہے، منزل اہتمام سے پڑھ رہا ہوں، خلوت میں نفس وشیطان کا زور بڑھ جاتا ہے، حضرت جی رہنمائی کی درخواست ہے۔

جواب:

سُبْحَانَ اللہ! ذکر تو آپ اس طرح کریں کہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ دو سو دفعہ، ’’اِلَّا اللّٰہْ‘‘ چار سو دفعہ ’’اَللّٰہُ اَللّٰہ‘‘ چھ سو دفعہ اور ’’اَللّٰہْ‘‘ پانچ سو دفعہ کرلیں۔ باقی وسوسے کی پروا نہیں کرنی چاہیے، وسوسے کا جواب دینا ہمارے ذمہ نہیں ہے، البتہ وسوسے پر عمل نہ کرنا یہ ہمارا کام ہے۔ شیطان کے کید (مکر) کو قرآن میں ضعیف کہا گیا ہے، ہم اگر اس کی بات نہ مانیں تو وہ ہمارا کچھ بھی نہیں change کرسکتا، لہٰذا اس کی پروا نہ کریں۔ معاملات ٹھیک رکھنے چاہئیں، نماز باجماعت کی کمزوری کو دور کرنا چاہیے اور یہ اختیاری چیز ہے، اختیاری چیز میں اختیار سے کام لینا چاہیے۔ لاپرواہی سے بچنا چاہیے اور معمول میں بھی کبھی بھی ناغہ نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اس سے انسان بہت پیچھے ہوجاتا ہے، اچھی بات ہے کہ آپ منزل اہتمام سے پڑھ رہے ہیں۔ اور خلوت میں انسان اپنے نفس کا خیال رکھے تو اس وقت انسان کا test ہوجاتا ہے، اللہ جل شانہ ہم سب کو اپنا خیرخواہ بنائیں کہ ہم وہ کام کریں جس میں ہمارا فائدہ ہو اور ان کاموں سے بچیں جس سے ہمارا نقصان ہو، چاہے وہ تنہائی میں ہوں یا ظاہر میں ہوں۔

سوال نمبر 2:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

I hope and pray my مرشد مربی سیدی and شیخ is in good health اِنْ شَاءَ اللہ. I am فلاں nephew of فلاں from UK. Week updates. اَلْحَمْدُ لِلّٰہ upon my return from خانقاہ I felt amazing. I was punctual with my اذکار and Salah. But now I feel I am losing track. I have missed nine Salah which I have made قضا. I have missed my علاجی ذکر twice. I feel that I am becoming disconnected from Allah سبحانہٗ وتعالیٰ especially when studying in university. I try to do ذکر when free but I easily get distracted. I feel that I have lost what I gained from spending time with you in خانقاہ.

جواب:

مَاشَاءَ اللہ آپ نے جو کچھ حاصل کیا ہے، اگر آپ تھوڑا سا خیال رکھیں تو وہ ابھی بھی آپ کے پاس ہے اور وہ یہ ہے کہ جو کچھ آپ نے یہاں سے سیکھا ہے اس کو برقرار رکھنے کے لئے دو کام کریں۔ ایک تو یہ ہے کہ آپ اپنا اصلاحی ذکر بالکل نہ چھوڑیں کیونکہ اصلاحی ذکر کی حفاظت خانقاہ کے اثرات کو باقی رکھنے کے لئے بہت ضروری ہے، ورنہ آپ نے جو خانقاہ میں حاصل کیا ہے وہ اس طرح آپ lose کرتے رہیں گے۔ لہٰذا اب آپ کے خانقاہ کے ساتھ connection کے دو ذریعے ہیں، ایک یہ ہے کہ آپ اپنے اصلاحی اذکار باقاعدگی کے ساتھ کریں اور دوسرا یہ کہ رابطہ باقاعدگی کے ساتھ رکھیں، یعنی رابطہ اور معمولات اگر کسی کے صحیح ہیں تو جو چیز انعکاسی طور پر حاصل ہوچکی ہے وہ القائی میں بدل جاتی ہے۔ یہ بہت اہم بات ہے کہ جو انعکاسی کیفیت شیخ کی موجودگی میں خانقاہ میں ہوتی ہے، اس کو برقرار رکھنے کے لئے اور اس کو القائی کیفیت میں بدلنے کے لئے یہ دو کام ضروری ہیں، ایک یہ کہ اپنا علاجی ذکر باقاعدگی کے ساتھ کرتے رہیں، اس میں کوئی ناغہ نہ ہو اور دوسرا یہ کہ اپنے شیخ کے ساتھ رابطے میں رہیں۔ بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ اصلاحی ذکر ایک بوجھ ہے۔ لہٰذا چلیں اس کو بوجھ ہی سمجھ لیں لیکن اس بوجھ میں بھی فائدہ ہے، کیونکہ یہ بوجھ نفس کے خلاف ہے۔ اگر آپ اس صورت میں اپنا علاجی ذکر جاری رکھیں گے تو دونوں فائدے ہوں گے، ایک تو ذکر کا اپنا فائدہ ہے جس سے دل کی اصلاح ہوتی ہے اور دوسرا بوجھ برداشت کرنا یہ نفس کے خلاف ہے، لہٰذا اس سے نفس کا علاج ہوگا، اس وجہ سے آپ اپنے اصلاحی ذکر میں ناغہ نہ ہونے دیں۔ اور جو نمازیں قضا ہوئی ہیں تو ہمارے ہاں طریقہ یہ ہے کہ ہر نماز کی قضا پر تین روزوں کا کفارہ ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ نفس پھر اس سے آزادی حاصل کرتا ہے، تو نفس کو پابند کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اس کو ہم سزا دیں اور اس کی سزا یہی ہے کہ ایک نماز کی قضا پر تین روزے رکھیں۔ اب چونکہ آپ کو پہلی دفعہ پتا چلا ہے تو آپ فی الحال ان سب کے لئے پانچ روزے رکھ لیں، لیکن آئندہ کے لئے آپ اپنے نفس کو سمجھا دیں کہ جب بھی مجھ سے نماز قضا ہوگی تو میں تین روزے رکھوں گا، اِنْ شَاءَ اللہُ الْعَزِیْز اس کے ذریعے سے آپ اپنی حفاظت کرسکیں گے۔ باقی جو اختیاری اعمال ہیں اس میں اختیار سے کام لینا ہوتا ہے اور جو غیر اختیاری ہیں ان کے پیچھے نہیں بھاگنا۔ یونیورسٹی میں آپ کے لئے دین کے کاموں کو کرنا جتنا مشکل ہوگا، ان کو کرنے سے آپ کے نفس کا اتنا ہی علاج ہوگا، جیسے میں نے پہلے نماز اور ذکر کے بارے میں کہا تھا تو اس وجہ سے آپ وہاں پر باہمت ہوکر اپنے کام جاری رکھیں۔ ہمارے جو لوگ یورپ جاتے ہیں، جن کے اندر جان ہوتی ہے بے شک وہ یہاں کمزور ہی کیوں نہ ہوں وہاں پر مَاشَاءَ اللہ دین میں بڑے پکے ہوجاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں مخالفت ہے اور اس مخالفت کی وجہ سے مجاہدہ کرنا پڑتا ہے، پھر مجاہدے کی وجہ سے نفس کی اصلاح اور علاج ہوجاتا ہے، نتیجتاً وہ بہت زیادہ اچھے ہوجاتے ہیں۔ آپ تو پہلے سے ادھر ہیں، لہٰذا آپ اس سے فائدہ اٹھائیں اور اپنے آپ کو کمزور نہ ہونے دیں۔

سوال نمبر 3:

السلام علیکم! حضرت بدگمانی بھی ہے اور اس سے بچنے کے لئے کافی محنت کرنی پڑتی ہے۔

جواب:

﴿اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ وَّلَا تَجَسَّسُوْا﴾ (الحجرات: 12)

ترجمہ: ’’بعض گمان گناہ ہوتے ہیں، اور کسی کی ٹوہ میں نہ لگو‘‘

اس کا تو قرآن پاک میں حکم ہے۔ لہٰذا کبھی بھی کسی پہ بدگمانی نہیں کرنی چاہیے، اپنے ساتھ بدگمانی کرنی چاہیے اور دوسرے کے ساتھ اچھا گمان رکھنا چاہیے۔ ’’ظُنُّوْا بِالْمُؤْمِنِیْنَ خَیْراً‘‘ یہ دوسروں کے لئے ہے اور اپنے لئے سوء ظن بہتر ہے۔ اس وجہ سے اگر اس میں محنت بھی کرنی پڑتی ہے تو یہ محنت ہی اصل کام ہے اور اس میں پیچھے نہ ہوں۔

سوال نمبر 4:

السلام علیکم! آپ نے جو ذکر بتایا ہوا ہے: ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ دو سو دفعہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ چار سو دفعہ، ’’حَقْ‘‘ چھ سو دفعہ، ’’اَللّٰہ‘‘ پانچ سو دفعہ۔ دس منٹ کے لئے یہ تصور کہ لطیفہ قلب ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کررہا ہے، دس منٹ کے لئے یہ تصور کہ لطیفہ روح ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کررہا ہے اور اس طرح لطیفۂ سِر، لطیفۂ خفی، لطیفۂ اخفیٰ بھی، پانچوں لطائف سے ہلکی ہلکی ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کی آواز محسوس ہورہی ہے اور پندرہ منٹ مراقبۂ معیت، ساتھ قلبی دعا اور امت کے لئے دعائیں ہیں، ایک مہینہ مزید ہوگیا ہے۔ اور تین دن طبیعت خراب ہونے کی وجہ سے ذکر کا ناغہ ہوگیا تھا، کبھی کبھی دل ودماغ پریشان سا رہتا ہے ہر وقت ایسا نہیں ہوتا، آگے آپ guide کردیں۔

جواب:

مَاشَاءَ اللہ یہ بڑا اچھا ہے اور یہ قلبی دعائیں آپ جاری رکھیں، بالخصوص نماز پہ آپ محنت شروع کریں تاکہ نماز میں خشوع اور خضوع قائم رہے یعنی خضوع سے مراد یہ ہے کہ اپنے اعضاء بالکل جس طرح نماز میں ہونے چاہئیں اس طرح ہوں اور دل کا رخ بھی صرف اللہ پاک کی طرف ہو، لہٰذا اب یہ ساتھ شروع کرلیں۔

سوال نمبر 5:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! حضرت جی میں پشاور سے آپ کی مرید فلاں عرض کررہی ہوں۔ ایک سوال پوچھنا تھا کہ میں صبح اٹھنے کے ساتھ ہر کام میں ثواب کی اور اللہ کی رضا کی نیت کرتی ہوں اور تمام دن کے سارے معاملات اللہ کے سپرد کرتی ہوں اور اس کے ساتھ ہی تمام دن اپنے ہر سانس کے ساتھ درودِ پاک اور استغفار پڑھنے کی بھی نیت کرتی ہوں۔ اب اللہ کا شکر ہے کہ درودِ پاک سارا دن پڑھتی ہوں لیکن اگر گھر کے کاموں میں مصروف رہنے کی وجہ سے کسی ٹائم درودِ پاک نہ پڑھ پاؤں، تو کیا مجھے یہ نیت کرنے کی وجہ سے ہر سانس کے ساتھ درودِ پاک پڑھنے کا ثواب ملتا رہے گا؟ حالانکہ اگر میں کسی وقت نہ بھی پڑھ پاؤں تو پھر بھی میری توجہ اس طرف ہی رہتی ہے۔

جواب:

درودِ پاک کے بارے میں آپ یاد رکھیں کہ ہر سانس کے ساتھ ضروری نہیں ہے، البتہ زبانی طور پر درود شریف آپ پڑھتی رہیں۔ جیسے اگر کوئی قرآنِ پاک ویسے اپنے اپنے طور پہ پڑھتا ہے تو اس کو تلاوت کا ثواب نہیں ملتا، تدبر کا ثواب مل سکتا ہے۔ یعنی علماء کرام اگر اس میں تدبر کریں، معنی جانتے ہوں، اس کی تفسیر جانتے ہوں اور اس میں غور وفکر کررہے ہوں، بے شک زبان نہ بھی ہل رہی ہو تو ان کو تدبر کا ثواب ملے گا، لیکن ان کو تلاوت کا ثواب نہیں ملے گا۔ کیونکہ تلاوت کا ثواب ہونٹوں کے ساتھ ہے، لب، زبان یہ سب متحرک ہوں، اس کے مخارج وغیرہ سب درست ہوں تو پھر تلاوت کا ثواب ملتا ہے، اسی طرح درود شریف بھی ہے۔ لیکن جو سانس کے ساتھ ہے وہ ذکر ہے، جیسے کچھ حضرات ’’اَللہُ‘‘ کرتے ہیں، کچھ حضرات ’’ھُوْ اَللہ‘‘ کرتے ہیں، کچھ حضرات ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ اور کچھ حضرات صرف ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کرتے ہیں۔ لہٰذا جو آپ کو دیا گیا ہے آپ وہی کریں، درودِ پاک اور استغفار پڑھا کریں یعنی باقاعدہ زبان سے پڑھا کریں یہ ضروری ہے۔ باقی اگر آپ کسی ایسی جگہ پر ہیں جہاں پر نہیں پڑھ سکتیں، جیسے toilet وغیرہ ہے تو وہاں پر دل میں جو ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ ہوتا رہے تو یہ کافی ہے۔

سوال نمبر 6:

نمبر 1:

حضرت جی بعض اوقات میری کیفیت ایسی ہوتی ہے جیسے میرے اندر میری روح جھوم رہی ہو۔

جواب:

ٹھیک ہے بالکل صحیح کیفیت ہے۔

نمبر 2:

ایک اور بات بھی بتانی ہے کہ جب شیطان میرے دل میں کوئی وسوسہ ڈالتا ہے تو میں جان جاتی ہوں اور اس سے کہتی ہوں کہ چپ ہوجاؤ، میں جانتی ہوں کہ یہ تم ہو اور میں تمہاری بات نہیں مانوں گی۔

جواب:

اس طرح مقابلہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، بس آپ اس کی بات نہ مانیں یہ کافی ہے، اس کے ساتھ لڑنے کی ضرورت ہی نہیں ہے بلکہ وہ بعض دفعہ خود سے بھی لڑاتا ہے تاکہ آپ کا رخ اس طرف ہوجائے۔ یہ ایسی ذلیل چیز ہے کہ اس کو گالی بھی دو تو اس سے خوش ہوتا ہے، کیونکہ آپ کے منہ کو تو خراب کرتا ہے، لہٰذا اس سے اسی کا کام ہوتا ہے۔ بعض لوگ جو جمرات پر شیطان کو کنکریاں مارتے ہیں تو ساتھ گالیاں بھی دیتے ہیں، وہ تو شیطان کا کام کررہے ہیں کیوںکہ اس سے شیطان خوش ہوتا ہے۔ ہاں اگر آپ مسنون طریقے سے کنکریاں ماریں تو اس سے شیطان مرتا ہے، لہٰذا اس طرح ہمیں بھی اس کی بات کی پروا نہیں کرنی چاہیے۔ ہماری پشتو میں اس کے لئے بہت خوب ضرب المثل ہے، کہتے ہیں: ’’کہ سپی به غاپی اؤ کارغان به پرې تیریږی‘‘ یعنی کوّے آرام سے جارہے ہوتے ہیں اور کتے بھونک رہے ہوتے ہیں، تو کتوں کے بھونکنے کی کوے کو کیا پروا، ظاہر ہے کوّے کچھ کہہ تو سکتا نہیں ہے کیونکہ وہ ہوا میں ہے۔ لہٰذا کتے بھونک بھی رہے ہوں تو کیا کرسکتے ہیں۔ اس لئے بس شیطان کچھ بھی نہیں ہے۔ ہم جب I-10 میں walk کے لئے جاتے تھے تو بعض لوگوں نے بڑے موٹے موٹے کتے پالے ہوتے تھے اور وہ ان کے گھروں میں زنجیروں میں بندھے ہوتے تھے، لیکن کتے کی اپنی فطرت ہے جب بھی کوئی چیز اس کے سامنے آتی ہے تو بھونکتا ہے۔ وہ کتے بڑے زور سے بھونکتے تو میں اپنے ساتھیوں سے کہتا کہ یہ وسوسہ ہے جیسے وسوسے سے انسان بہت ڈر جاتا ہے کہ یہ کیا ہوا، حالانکہ وہ کچھ بھی نہیں کہہ سکتا، لہٰذا پروا نہیں کرنی چاہیے۔

نمبر 3:

باقی اللہ کا شکر ہے کہ دعائیں ایسے قبول ہوتی ہیں اور ہر مشکل اس طرح آسان ہوتی ہے کہ میں حیران رہ جاتی ہوں، یہاں تک کہ ابھی دعا مانگی بھی نہیں ہوتی میرے دل میں ہوتی ہے کہ اللہ قبول کردیتے ہیں آمین اَلْحَمْدُ لِلّٰہ۔ اور آپ نے پندرہ منٹ کے لئے مراقبۂ معیت کرنے کا کہا تھا اور پانچ منٹ لطائف کا ذکر بھی، اس کے علاوہ ہر وقت دعائیں کرنے کا فرمایا تھا اور یہ مراقبہ تقریباً میں ایک سال سے کررہی ہوں۔ اب میرے لئے مزید کیا حکم ہے؟

جواب:

مزید یہ ہے کہ آپ غور کرکے دیکھیں کہ میں کون سا ایسا کام کرسکتی ہوں جس سے اللہ پاک راضی ہوں، اب اس پہ غور کرکے جو چیز آپ کو سمجھ آئے وہ پھر مجھے بتا دیا کریں۔ اگر آپ کو پھر بتا دیا جائے تو آپ وہ کام کرلیا کریں۔ ابھی فی الحال آپ یہی کریں۔

سوال نمبر 7:

بَارَکَ اللہُ فِیْکُمْ شیخ!

Well, I understand you.

جواب:

مَاشَاءَ اللہ continue your اذکار اِنْ شَاءَ اللہ. This will benefit you of course. It's the right track اِنْ شَاءَ اللہ. It will benefit you a lot.

سوال نمبر 8:

السلام علیکم! حضرت جی میرے دل کو سکون ہی نہیں مل رہا، اپنا آپ بہت گناہ گار نظر آتا ہے، خود کو بہت بے بس محسوس کرتی ہوں اور اپنے گناہ پہاڑ کی طرح نظر آتے ہیں، جیسے ہر راستہ اس نے بند کیا ہو اور میں لاکھ توبہ بھی کروں گی تو یہ نہیں ہٹنے والے، اور میرے ساتھ نہ کچھ اچھا ہوگا۔ ہر وقت سوچتی ہوں کہ کاش مجھے پتا ہوتا تو کبھی غیبت نہ کرتی، کبھی بدگمانی نہ کرتی، حضرت جی میرے نفس کی اصلاح نہیں ہورہی، مجھ سے مسلسل گناہ ہورہے ہیں۔ میں کس طرح خود کو اس سے بچاؤں، میں اپنی زبان کو کس طرح control کروں؟ مراقبے میں کچھ بھی محسوس نہیں ہورہا۔

جواب:

اس میں آپ کی کچھ باتیں اچھی ہیں اور کچھ باتیں ٹھیک نہیں ہیں۔ جو باتیں اچھی ہیں وہ یہ کہ اپنے آپ کا گناہ گار نظر آنا، اپنے اوپر بدگمانی کرنا یہ اچھی بات ہے، لیکن اس سے مایوسی نہیں ہونی چاہیے، کیونکہ جس چیز کا علاج ہو اس میں انسان کیوں مایوس ہو۔ ایک آدمی کے سامنے روٹی پڑی ہو اور وہ رو رہا ہو، کوئی اس سے پوچھے کہ کیوں رو رہے ہو؟ وہ کہے بھوک لگی ہے۔ انہوں نے کہا بھائی سامنے روٹی پڑی ہے کھاؤ، کس نے آپ کو روکا ہوا ہے۔ لہٰذا جو چیز بالکل آپ کے سامنے ہے اور آپ کو اختیار ہے، آپ کرسکتے ہیں تو آپ اس کو کریں۔ اور جو نہیں کرسکتے، اس میں اللہ پاک آپ کو نہیں پکڑیں گے۔

﴿لَا یُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَاؕ (البقرۃ: 286)

ترجمہ1: ’’اللہ کسی بھی شخص کو اس کی وسعت سے زیادہ ذمہ داری نہیں سونپتا‘‘۔

یہ آپ کی بات سو فیصد غلط ہے کہ میں لاکھ توبہ کروں یہ نہیں ہٹنے والے، کیونکہ:

﴿لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِؕ اِنَّ اللّٰهَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًاؕ (الزمر: 53)

ترجمہ: ’’اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں، یقین جانو اللہ سارے کے سارے گناہ معاف کردیتا ہے‘‘۔

لہٰذا آپ کی بات بالکل غلط ہے کیونکہ توبہ سے گناہ معاف ہوجاتے ہیں اور نہ کبھی میرے ساتھ کچھ اچھا ہوگا، یہ بھی بالکل سو فیصد غلط بات ہے۔ اللہ کے ساتھ اچھا گمان رکھنا چاہیے۔ حدیث مبارکہ میں ہے:

’’أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِيْ بِيْ‘‘ (صحیح بخاری حدیث نمبر: 7405)

ترجمہ: ’’میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ ہوں جو وہ میرے ساتھ رکھ رہا ہے‘‘۔

ہاں! یہ آپ کی بات اچھی ہے کہ کاش مجھے پتا ہوتا تو کبھی غیبت نہ کرتی، اب تو پتا چل گیا لہٰذا اب غیبت نہ کریں اور گزشتہ پہ توبہ کرلیں۔ اس میں توبہ کا طریقہ یہ ہے کہ چونکہ غیبت کا تعلق انسان کے ساتھ بھی ہے جس کی آپ نے غیبت کی ہے، لہٰذا ان سے کبھی باتوں باتوں میں کہہ دیں کہ کہا سنا معاف کردیں، تو آپ کی معافی اس میں آجائے گی اور پھر آئندہ غیبت نہ کریں۔ یہ جو آپ نے کہا کہ حضرت جی! میرے نفس کی اصلاح نہیں ہورہی۔ یہ بھی آپ کی بات غلط ہے:

﴿وَالَّذِیْنَ جَاهَدُوْا فِیْنَا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَاؕ (العنکبوت: 69)

ترجمہ: ’’جن لوگوں نے ہماری خاطر کوشش کی ہے، ہم انہیں ضرور بالضرور اپنے راستوں پر پہنچائیں گے‘‘۔

یہ تو کوئی بات ہی نہیں کہ میری اصلاح نہیں ہورہی، اگر آپ کوشش کررہی ہیں تو ضرور بالضرور آپ کی اصلاح ہورہی ہوگی۔ ایسا نہیں ہے کہ نہ ہو۔ اور اگر آپ کوشش نہیں کررہیں تو پھر آپ کی اپنی غلطی ہے، لہٰذا آپ کوشش کرنا شروع کریں۔ آپ نے کہا کہ مجھ سے مسلسل گناہ ہورہے ہیں۔ تو گناہ رکنے چاہئیں۔ آپ نے کہا کہ میں اس سے خود کو کس طرح بچاؤں؟ اختیار سے کام لیتے ہوئے۔ آپ نے کہا کہ میں اپنی زبان کو کس طرح control کروں؟ اسی طرح جس طرح اپنے ہاتھ کو control کرتے ہیں، جس طرح ہاتھ پہ اختیار ہے اس طرح زبان پر بھی اختیار ہے، اپنی زبان کو روکو۔ ہاں! مراقبے میں کچھ بھی محسوس نہیں ہورہا، تو ٹھیک ہے آپ اپنی کوشش جاری رکھیں، اللہ تعالیٰ فضل فرمائیں گے اِنْ شَاءَ اللہ محسوس ہونے لگے گا۔

سوال نمبر 9:

السلام علیکم حضرت شاہ صاحب اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند فرمائیں اور آپ کا سایہ تادیر قائم رکھیں۔ میری چھوٹی بھابھی کا ابتدائی چالیس دن کا ذکر آپ کی برکت سے بالکل مکمل ہوگیا ہے، مزید رہنمائی فرمائیں۔

جواب:

ان کو بتا دیں کہ اب تیسرا کلمہ، درود شریف، استغفار سو سو دفعہ روزانہ اور ہر نماز کے بعد والا ذکر بھی روزانہ، یہ شروع کرلیں اور ساتھ دس منٹ کے لئے بیٹھ کر زبان بند، آنکھیں بند اور قبلہ رخ بیٹھ کے یہ تصور کرنا کہ میرا دل ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کررہا ہے، آپ نے کروانا نہیں ہے کیوںکہ کوئی دل سے کروا نہیں سکتا، البتہ اس طرح تصور کرلیں کہ جب شروع ہو تو مجھے معلوم ہوجائے، بس اس تصور میں آپ بیٹھ جائیں۔ ایک مہینے کے بعد پھر مجھے بتا دیں۔

سوال نمبر 10:

السلام علیکم! حضرت جی میں اسلام آباد آئی ایٹ سے فلاں بھائی کی بہن فلاں ہوں۔ اصلاحی ذکر کی اطلاع کرنی تھی، اَلْحَمْدُ لِلّٰہ اصلاحی ذکر باقاعدگی سے کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔ اس ماہ کچھ دن ناغہ بھی ہوا، کوشش تو ہوتی ہے کہ ناغہ نہ ہو، چار پانچ دن کا ناغہ ہوگیا۔

جواب:

ناغے سے بچنے کی کوشش کریں، آپ تو خود ڈاکٹر ہیں تو پھر اپنی ڈاکٹری کو آپ challenge کریں کہ آپ مریض کو کوئی دوائی دیں اور اگر وہ ناغہ کرے تو آپ اس کو کیا کہتی ہیں؟

سوال نمبر 11:

دس منٹ قلب، پندرہ منٹ روح اور دس منٹ سِر پر ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ محسوس کرنے کا ملا ہے اَلْحَمْدُ لِلّٰہ ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ تینوں جگہ محسوس ہورہا ہے، قلب پر زیادہ محسوس ہوتا ہے، روح پر اس سے کم اور پھر سِر پر۔ ابھی آخری بار خواتین کے جوڑ میں فلاں کے بیان کے دوران قلبی ذکر جاری ہوگیا تھا۔ خواتین کے جوڑ میں بیان سنتے ہوئے یہ دھیان تو نہیں ہوتا کہ سلسلے کا فیض آپ کے قلب سے ہے، پھر بیان کرنے والی خواتین کے ذریعے ہم تک پہنچتا ہے۔

جواب:

ماشاء اللہ بالکل ٹھیک ہے۔ یہ تو پکی بات ہے، اس کی مثال یوں سمجھ لیں کہ بجلی ہمیں grid سے ملتی ہے یعنی grid سے آرہی ہوتی ہے، جہاں generator لگا ہوتا ہے وہاں generate ہوتی ہے۔ گویا کہ فیض اللہ تعالیٰ کی طرف سے آرہا ہوتا ہے اور پھر grid سے آتا ہے اور پھر اس کے بعد جس switch کے ساتھ آپ کا تعلق ہے تو اس پہ آرہا ہے۔ لہٰذا ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ فیض اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ ﷺ کی طرف آرہا ہے اور آپ ﷺ کی طرف سے شیخ کی طرف اور شیخ کی طرف سے آپ کے قلب پر۔ طریقہ تو یہی ہے لہٰذا یہی تصور ہونا چاہیے۔

سوال نمبر 12:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! علاجی ذکر کے پہلے چالیس دن کے بالکل اخیر میں ناغہ ہوگیا تھا، میں نے اس کو معمولی سمجھا لیکن اب نہیں۔ کیا میں چالیس دن کا ذکر پھر شروع کروں؟

جواب:

جی بالکل پھر شروع کریں اور آئندہ کے لئے ناغہ نہ کریں۔

سوال نمبر 13:

السلام علیکم! شیخ

As per your instructions, I am praying every morning to do certain حسنات (virtuous deeds) and keep a check on them in the evening. I was able to do the following in the last month.

No. 1: Memorize two to three ayah everyday. I can memorize Surah یٰس now

No. 2: Read two pages of تفسیر daily

No. 3: Fast on Monday and Thursday

No. 4: Pray تہجد before فجر

No. 5: Sharing one to two حدیث to the others in the learning group everyday. After doing the above, I feel more peaceful, confident and patient. فلاں from China.

جواب:

مَاشَاءَ اللہ very good. Continue this. It's a very good job. May Allah سبحانہٗ وتعالیٰ grant you توفیق to get even more.

سوال نمبر 14:

Sheikh !السلام علیکم. I have been focusing on the following حسنات (virtuous deeds) in the last month.

No. 1: Reciting one page of Quran daily

No. 2: Memorization of two to three ayat from سورۂ کہف.

اَلْحَمْدُ لِلّٰہ I feel that we can’t achieve anything without the help of Allah سبحانہٗ وتعالیٰ. We should not follow selfish desires and pay thanks to Allah سبحانہٗ وتعالیٰ . Sheikh kindly tell what type of حسنات I can do for others?

جَزَاکَ اللہُ خَیْرًا wife of فلاں China.


جواب:

Very good! You should continue these deeds and I think you can yourself suggest and before doing that you can send it to me. When I confirm then you should continue. So you should first think about what you can do for others.

سوال نمبر 15:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

Respected حضرت صاحب I pray you and your loved ones are well. Ameen! I have these questions

No. 1: In the last question answer session, you instructed me that along with my five قضا Salah of the day I should read two رکعت اشراق two رکعت اوابین and four رکعت تہجد.

اَلْحَمْدُ لِلّٰہ I have been doing this with استقامت since then. Can I join multiple نیت of other نوافل to these نوافل that I have started like صلوٰۃ التوبہ?

جواب:

Yes you can.

No. 2: This month, I have started to feel closer to Allah سبحانہٗ وتعالیٰ again and for the past three weeks or so, I gained توفیق to do extra اعمال. Now, I also have a routine to do these daily and there is very little miss ناغہ in these. مَاشَاءَ اللہ

No. 1: Fifteen minutes study of بہشتی زیور, fifteen minutes study of ,معارف القرآن listening to an audio of yours, if not long بیان than at least a short بیان.

No. 04: Read ملفوظات of حضرت تھانوی رحمہ اللہ علیہ. I have a pdf on my phone and try to read instead of wasting time on other things on the phone.

No. 05: Have تلاوت of جزو Quran.


Answer: سُبْحَانَ اللہ Yes, you can continue this.

Question No 02: Should I make any changes in the above. Answer: You can continue this for some time.

Question No. 03: When I was young I had memorized the back of the Quran up to round Surah فتح. This memorization is weak due to lack of revision. There is potential for recovery but now I am getting توفیق to read half جزو daily normal تلاوت. So should I make time for this too and how much?

جواب:

Yes, very good. It is very important to maintain حفظِ قرآن. It is a must. Therefore, you should make it fifty fifty. It means you should do normal تلاوت fifty percent and memorize the past Quran for fifty percent. May Allah سبحانہٗ وتعالیٰ grant you توفیق to complete this and to us as well.

سوال نمبر 16:

حضرت کچھ تو بتائیں دل بہت غمگین ہے، اکتوبر کا مہینہ ہے۔

جواب:

میں تو یہ عرض کروں گا کہ شاعری کو ہمیں تھوڑا سا روکنا چاہیے اور حقیقت کی دنیا میں آنا چاہیے، حقیقت کی دنیا یہ ہے کہ سامنے ایک بہت بڑا پہاڑ ہے جس پہ چڑھنا ہے یعنی نفس کو فتح کرنا ہے اور اس کی اصلاح کرنی ہے۔ اور اس کی اصلاح کے ساتھ شریعت کے جو اعمال ہم پر لاگو ہیں ان کو کرنا ہے۔ اصل بہار تو جنت میں ہے، یہاں کیا ہے؟ یہاں تو صرف نقل ہے۔ بہرحال ہمیں وہاں کا سوچنا ہے، اللہ پاک ہم سب کو وہاں کے سوچنے کی توفیق عطا فرمائیں۔

سوال نمبر 17:

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! اپنے گھر پر مجلس کی کارگزاری۔ ستمبر کے مہینے میں تین دفعہ اپنے گھر پر مجلس ہوئی، دو دفعہ دو حضرات اور ایک دفعہ ایک صاحب نے شرکت کی۔ یہ دو حضرات مستقل طور پہ مجلس میں شرکت کرتے ہیں، دونوں حضرات کا تبلیغی جماعت کے ساتھ بھی تعلق ہے، دونوں پٹھان ہیں۔ ایک صاحب نے ایک دفعہ کہا کہ آپ ہمارے ساتھ تبلیغی بیانات میں شرکت کیوں نہیں کرتے؟ میں نے کہا میرے پاس اتنا وقت نہیں کہ دونوں کام کرسکوں، تو انہوں نے کہا کہ تبلیغی بیانات میں قرآنِ پاک کی آیات اور احادیث شریفہ ہوتی ہیں اور آپ تصوف والی کتاب پڑھاتے ہیں۔ بہرحال یہ صاحب اس دن بھی مجلس میں آگئے اور ساتھ ہی ایک اور تبلیغی ساتھی کو بھی لے آئے، اس دن میں نے کہا کہ آج ہم فضائلِ اعمال سے تعلیم دیں گے اور اس دن فضائلِ تبلیغ کی تعلیم دی۔ چنانچہ ایک دن اسی صاحب نے کہا کہ مجلس میں کچھ دیر درود شریف بھی پڑھیں تو اچھا ہوگا، اگلی مجلس میں ہم نے تعلیم کے بعد کچھ دیر درود شریف پڑھا پھر ذکر کرلیا۔ اب یہی معمول ہے کہ تعلیم کے بعد کچھ دیر درود شریف پڑھتے ہیں، پھر ذکر کرلیتے ہیں۔ ربیع الاول میں ابھی تک ایک ہی مجلس ایسی ہوئی ہے کہ اس میں ہم نے ’’نَشْرُ الطِّیْب فِیْ ذِکْرِ الْحَبِیْب‘‘ حضرت تسنیم الحق صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی پشتو کتاب سے تعلیم کرائی، پھر ’’د منی شاہراہ‘‘ سے دو نعتیں پڑھیں، درود شریف، ذکر اور پھر دعا کی۔ ایک ہفتہ جو ناغہ ہوا تھا وہ میری چچا زاد بہن کا آپریشن ہوا تھا، اس کی عیادت کے لئے والد صاحب کے ساتھ گیا تھا والسلام۔


جواب:

مَاشَاءَ اللہ! اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائیں، استقامت نصیب فرمائیں۔ بالکل صحیح ہے اور حالات کے مطابق کام کرنا چاہیے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ حضرت شیخ الحدیث رحمۃ اللہ علیہ بھی ہمارے ہیں، تبلیغی جماعت بھی ہماری ہے، ہم تو سارے اچھے کاموں کو اچھا سمجھتے ہیں اور اس میں تو ہمارا کوئی اختلاف نہیں ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ ہم لوگ سب کو اچھا سمجھتے ہیں اور اسی وجہ سے کم ازکم قلبی طور پر سب کے ساتھ ہیں، کیونکہ عملی طور پر تو انسان کوئی ایک کام کرسکتا ہے، دو کرسکتے ہوں گے لیکن قلبی طور پر انسان سارے کاموں کے ساتھ ہوسکتا ہے، لہٰذا قلبی طور پر سب کے ساتھ ہیں۔ چونکہ آپ کی دفتر کی ذمہ داریاں بھی ہیں، پھر بچے کے حفظ کا بھی ہے اور آپ کے مَاشَاءَ اللہ خانقاہ کے معمولات بھی ہیں تو اس وجہ سے ان سے کہتے رہیں کہ ان حالات میں تو میں یہی کرسکتا ہوں، بہرحال قلبی طور پر میں آپ سب کے ساتھ ہوں مَاشَاءَ اللہ۔

سوال نمبر 18:

السلام علیکم حضرت

My Question is, what is the reality of hanging from tree and well during چلہ related to حضرت شاہ عبدالقدوس گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ and حضرت بابا فرید رحمۃ اللہ علیہ?

یہ اصل میں سوال یہ تھا کہ ایک درخت سے اپنے آپ کو کنویں میں لٹکانا، اس کو معکوس چلہ کہتے تھے۔ یہ حضرت شاہ عبدالقدوس گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت بابا فرید رحمۃ اللہ علیہ نے کیا تھا، اس کی کیا تفصیل ہے؟

جواب:

میں نے تو ان کو جواب دیا ہے کہ کیا آپ کو ایسا کرنے کو کہا گیا ہے، جب آپ کو کرنے کو نہیں کہا گیا تو آپ کو کیا فکر ہے؟ جن کو کہا گیا تھا انہوں نے کرلیا۔ یہ جواب اس لئے ہے کہ سالک کو غیر ضروری باتوں میں نہیں پڑنا چاہیے اور دوسروں کی اصلاح کی تو بالکل بھی فکر نہیں کرنی چاہیے، کیونکہ پہلے اپنی اصلاح ہے۔ مجھے بڑی حیرت ہوتی ہے کہ ہسپتال میں اپنی پرچی ساتھ لے کر جو لائن لگی ہوتی ہے، وہاں کوئی بھی آدمی جو پانچویں نمبر پر ہو وہ بیسویں نمبر والے کو اپنی پرچی دیتا ہے کہ آپ پہلے چلے جائیں، آپ نے کبھی اس طرح دیکھا ہے؟ کہ جی آپ بوڑھے ہیں، آپ زیادہ مستحق ہیں، میں بعد میں چلا جاؤں گا، میں آپ کے بیسویں نمبر پہ کھڑا ہوجاتا ہوں۔ کوئی کرتا ہے اس طرح؟ کوئی نہیں کرتا، کیوںکہ ہر ایک کو اپنی پڑی ہوتی ہے کہ میں صحتمند ہوجاؤں، میری بیماری جاتی رہے بلکہ سفارشیں لڑاتے ہیں کہ میرا کام جلدی ہوجائے۔ وہاں تو ہمارا یہ معاملہ ہوتا ہے اور یہاں پر ہم دوسروں کی اصلاح کرکے اپنی اصلاح سے بے فکر ہوجاتے ہیں، یہ غلط بات ہے۔ لہٰذا پہلے اپنی اصلاح کے بارے میں سوچنا چاہیے۔ ہم تو اپنے شیخ کے سامنے جب کبھی دوسروں کے اصلاح کی بات کرتے تو حضرت ہمیں ڈانٹ دیتے تھے، فرماتے کیوں آپ نے اس کے ساتھ کیا کرنا ہے؟ آپ کون ہیں؟ حضرت تھانوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ بھی ڈانٹ دیتے تھے، فرماتے تجھ کو پرائے کی کیا پڑی ہے تو اپنی نبیڑ۔ اپنا کام پہلے جاری کرو اس کے بعد کسی کا سوچو، اور حضرت تو یہاں تک فرماتے تھے کہ دوسروں کے جوتوں کی حفاظت کے لئے اپنی گٹھڑی کو گم نہ کریں، کیونکہ آپ دوسروں کی فکر کرتے ہوئے اپنی اصلاح چھوڑ دیں تو یہ غلط بات ہے، اس سے بڑا نقصان ہوتا ہے۔

But some people are against sufism and show this type of things that is not in Sharia.

تو یہ کہتے ہیں کہ نہیں بلکہ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو کہ sufism کے خلاف ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ یہ چیزیں شریعت کے خلاف ہیں۔ ایک تو اس کا یہی جواب ہے ان کو کہہ دیں کہ ہمارے ساتھ رابطہ کرلیں کیونکہ ایسی باتوں سے آپ خود confuse ہوں گے، اگر وہ واقعی مطمئن ہونا چاہیں گے تو رابطہ کرلیں گے اِنْ شَاءَ اللہ، یعنی ان کو تو یہ جواب دیں۔ ویسے اطمینان کے لئے میں کہتا ہوں کہ یہ شریعت کی چیزیں نہیں ہیں، یہ اصلاحی چیزیں ہیں۔ جیسے ہم جو علاجی ذکر کرتے ہیں یہ بھی شریعت کی بات نہیں ہے، اس میں بھی ہم اس کی نیت نہیں کرتے کہ ہمیں ثواب ملے بلکہ ہم اصلاح کے متمنی ہیں، کیونکہ نفس کی اصلاح فرضِ عین ہے اور فرض کو چھوڑ کر کوئی نفل پہ جائے گا؟ لہٰذا سب سے پہلے اپنا فرض علاج ہونا چاہیے۔ حضرت صوفی اقبال صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ ہم ذکرِ علاجی میں ثواب نہیں سمجھتے، لیکن اگر کوئی اس کو کرے گا تو اِنْ شَاءَ اللہ وہ ثواب کے دہانے پہ بیٹھ جائے گا۔ ثواب کے دہانے پہ کیسے بیٹھ جائے گا؟ مثلاً اگر کسی کو اخلاص نصیب ہوگیا تو اب جب اخلاص سے ایک روپیہ بھی خرچ کرے گا تو اس کو پتا نہیں کتنے پیسے خرچ کرنے کا ثواب ملے گا، نماز پڑھے گا تو قبول بھی ہوجائے گی اور پتا نہیں اس کا ثواب کتنا زیادہ ہوگا، کوئی بھی کام کرے گا تو اس کا ثواب بہت زیادہ ہوگا، کم ازکم ضائع تو نہیں ہوگا۔ اور اگر اخلاص نہیں ہوگا تو ریا سے اعمال ضائع ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ اگر ہم لوگ اپنے علاج پر سوچیں تو علاج سے مَاشَاءَ اللہ ثواب کے دہانے پہ بیٹھ جاتے ہیں، لیکن اس میں ہماری نیت اصلاح کی ہوتی ہے۔ کیوں ڈاکٹر صاحب! آپ Study time میں دوسروں کا علاج کریں گے یا سیکھیں گے؟ سیکھیں گے۔ اگر اس وقت آپ نے سیکھا ہے اور لوگوں کو انجیکشن لگانے شروع کریں تو یقیناً آپ کو انجیکشن لگانا آتا ہوگا۔ لیکن اگر آپ سارے محلے کو انجیکشن لگانے شروع کردیں اور پڑھائی چھوڑ دیں تو یہ کام اچھا ہوگا یا برا؟ بس یہی بات ہے۔ اس لئے ہمیں پہلے اپنی اصلاح کرنی چاہیے اور وہ یہ ہے کہ اگر کوئی آدمی بیمار ہے تو پہلے اپنے آپ کو ٹھیک کرے گا پھر اس کے بعد دوسرے کو۔

میں آپ کو اس کی ایک آسان عقلی دلیل دیتا ہوں، جو بھی جہاز پر سفر کرچکا ہے اور اس میں جو ہدایات دی جاتی ہیں کہ اگر جہاز میں Pressure drop ہوگیا تو آپ کے سامنے خود بخود Oxygen mask گر جائے گا، اس کو پکڑ کے اپنے ناک پہ رکھیں اور normal سانس لیتے رہیں۔ اگر آپ کے ساتھ کوئی infant ہے اس صورت میں پہلے اپنے آپ کو mask لگائیں پھر infant کو لگائیں۔ یہ کیوں کہتے ہیں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر آپ پہلے infant کو لگاتے ہیں اور اس دوران آپ بیہوش ہوگئے تو infant بھی گیا اور آپ بھی گئے۔ لیکن اگر آپ اپنے آپ کو لگاتے ہیں تو آپ تو بچ ہی جائیں گے اور infant کے لئے بھی تو آپ کا بچنا ضروری ہے۔ اسی طریقے سے آپ جو اپنا علاج کریں گے تو اس میں دوسروں کا بھی فائدہ ہے، ورنہ نہ دوسرے ٹھیک ہوں گے اور نہ آپ ٹھیک ہوں گے۔ چنانچہ آپ دوسروں کی اصلاح کی فکر چھوڑ دیں، اپنی اصلاح کی فکر کریں اور جو بھی آپ کے ساتھ بحث کرے تو ان سے کہیں بھائی میں بحث نہیں کرتا، بات پوچھنی ہے تو ان سے پوچھیں جن کو اس بات کا جواب آتا ہے۔ آپ ان کو کسی عالم کا address دے سکتے ہیں، ہمارا address ان کو دے سکتے ہیں، بلکہ بہتر ہے کہ یہاں تشریف لے آئیں، ان سے ملاقات بھی ہوجائے گی اور ان کی خدمت بھی کریں گے بس یہی ہمارا کام ہے۔ تو اس طریقے سے اِنْ شَاءَ اللہُ الْعَزِیْز کام بن جائے گا۔ اور باقی یہ چیزیں نفس کے علاج کے لئے ہیں تاکہ نفس قابو میں آجائے۔ چونکہ یہ اجتہادی چیزیں ہیں اور اجتہادی چیزوں میں اختلاف ہوا کرتا ہے، تو جن کو اختلاف ہے، وہ اس کی بات پر عمل کرلیں جس کے ساتھ اس کو اختلاف نہیں ہے، بس بات ختم ہوگئی۔ لڑنے جھگڑنے کی ضرورت ہی کیا ہے، ان سے کہیں کہ آپ چشتیہ سلسلہ میں نہ جائیں، آپ نقشبندیہ میں چلے جائیں، بس بات ختم ہوگئی۔ یہ تو علاجی چیزیں ہیں، یہ شرعی چیزیں نہیں ہیں، اللہ پاک ہم سب کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائیں۔

سوال نمبر 19:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

I pray you are well dear Sheikh. My مراقبہ is still going on. I have sent my معمولات chart for the last month below. I want to say big things for advice about it. It has made me realize the importance of consistency and discipline. I made additional changes to the chart. Please advise if that is Ok. I was ill on the first few days so did not complete entries for those. I added section for no youtube and checking whatsapp only once a day as I was wasting time on these. This has helped me greatly for daily تلاوت. I added section for daily Surahs and 1.2 para daily. I also added to the section one منزل جدید in morning and protection duas. I added a section for Sunnah مقدس and daily محاسبہ. I changed the جوڑ section for two صلوٰۃ الحاجۃ which I pray on Thursday night. I have always had a section for five sunnah to implement from اسوۂ حسنہ but sadly I didn’t learn any new ones this month. اِنْ شَاءَ اللہ I will make effort from now. At the moment, I have implemented all the Sunnah until the end of the مسواک section. I recite سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِہٖ‘‘ سُبْحَانَ اللهِ الْعَظِیْمِ’’ one hundred times daily on top of ثوابی ذکر. Besides this, I listen to make notes of آج کی بات daily while traveling to work and use my weekend and longer journey to listen and make notes of the other blessed بیانات for my جمعہ بیانات. I delivered it based on the notes I make from your blessed ones اَلْحَمْدُ لِلّٰہ. Through your duas and برکات of deleting youtube, I have been able to keep this regular routine going throughout the month. مَاشَاءَ اللہ، بَارَکَ اللہُ فِیْک. Kindly advise for the next. I also wanted to ask for advice when raising children, especially daughters in the UK.

جواب:

اِنْ شَاءَ اللہ I shall tell you later about the ذکر and this thing whatever is good اِنْ شَاءَ اللہ. May Allah سبحانہٗ وتعالیٰ grant you توفیق to do more accordingly.

سوال نمبر 20:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! مولانا

I pray that you are well اِنْ شَاءَ اللہ. I perform the ذکر you had given to me. ‘‘لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ’’ two hundred times, ‘‘لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ’’ four hundred times, ‘‘حَقْ’’ six hundred times and ‘‘اَللّٰہ’’ thousands times. I feel very peaceful and joyful when doing it. I really feel something in my heart اَلْحَمْدُ لِلّٰہ. May Allah سبحانہٗ وتعالیٰ bless you and preserve you ya maulana.

From France.

جواب:

Yes. May Allah سبحانہٗ وتعالیٰ grant you توفیق. Do it for one more month.

سوال نمبر 21:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! احوال: حضرت جی معمولات اَلْحَمْدُ لِلّٰہ معمول کے مطابق ہیں، میرا ذکر ایک مہینے کے لئے ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ دو سو مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ چار سو مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ چھ سو مرتبہ، اور ’’اَللّٰہ‘‘ پندرہ ہزار مرتبہ، اللہ کے فضل اور آپ کی دعاؤں کی برکت سے مکمل ہوگیا ہے۔ حضرت جی کیفیت میں کچھ خاص تبدیلی محسوس نہیں ہوئی، اس کے علاوہ ہر مہینے تیس ہزار دفعہ کا ہدف ہے لیکن اس سے بھی کچھ اوپر درود شریف پڑھنے پر اللہ پاک نے استقامت عطا فرمائی۔ اس طرح تہجد، اشراق، چاشت اور اوابین اور منزلِ جدید، مناجاتِ مقبول، بلاناغہ آدھا پارہ قرآن کی تلاوت، اللہ کے فضل اور آپ کی دعاؤں اور تربیت کی برکت سے معمول کے مطابق جاری ہے۔ ﴿سَلٰمٌ قَوْلًا مِّنْ رَّبٍّ رَّحِیْمٍ (یس: 55) 313 مرتبہ اور تین مرتبہ سورۂ فاتحہ بمع سورۃ قل اور 313 مرتبہ ’’حَسْبُنَا اللہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْل، نِعْمَ الْمَوْلٰی وَنِعْمَ الْنَّصِیْر‘‘ کرونا کے وقت سے بلاناغہ معمول میں شامل ہے۔

جواب:

یہ جو 313 مرتبہ ’’حَسْبُنَا اللهُ وَنِعْمَ الْوَكِيْلُ‘‘ ہے اس کو میرے خیال سے آپ تبدیل کرسکتے ہیں، جو ہمارا صبح سویرے ڈینگی اور وبائی امراض کے لئے معمول ہے وہ اس کے لئے کافی ہے، باقی ’’اَللّٰہ‘‘ کا ذکر ساڑھے پندرہ ہزار کرلیں۔

سوال نمبر 22:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! میرے ستمبر کے معمولات: نمازیں ساری پڑھی ہیں، تین تسبیحات میں کوئی ناغہ نہیں ہے، مراقبے میں چار دن ناغے ہیں، قرآن کی تلاوت بھی نہیں کی صرف سورۂ ملک کی تلاوت کرتی ہوں، درود شریف روزانہ سات ہزار مرتبہ۔

جواب:

اب میں آپ کو حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک مکتوب سناتا ہوں، میرے خیال میں وہی جواب ہے۔ حضرت نے فرمایا کہ عام ذکر سے درود شریف پڑھنا افضل ہے، کیونکہ اس میں دعا بھی ہے، ذکر بھی ہے اور درود بھی ہے۔ لیکن شیخ اگر کوئی ذکر دے تو وہ درود شریف سے بھی زیادہ افضل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اصلاح کے لئے ہے اور اصلاح فرضِ عین ہے، لہٰذا آپ نے جو فرمایا کہ مراقبے میں چار دن ناغے ہوئے ہیں اور آپ درود شریف روزانہ سات ہزار مرتبہ پڑھتی ہیں، اس میں ناغہ نہیں ہے۔ تو اس کو آپ کیسے justify کریں گے؟ یعنی اس کو justify کرنا پڑے گا کہ اس میں تو ناغہ نہیں ہونا چاہیے، باقی میں مزید اس پہ بات نہیں کرتا۔

سوال نمبر 23:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ! حضرت جی میرے وظیفہ کا مہینہ پورا ہوگیا ہے۔ میرا وظیفہ چار ہزار پانچ سو مرتبہ زبان پر ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کا ذکر، تین مرتبہ آیت الکرسی، دس منٹ ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کا مراقبہ دل پر تھا۔ حضرت مراقبے میں توجہ بالکل نہیں رہتی بس دس منٹ پورے ہوجاتے ہیں اور دل ایسے خالی ہوتا ہے۔ حضرت جی message کرنے میں، میں نے ایک ہفتے کی تاخیر کردی، اس پر معافی چاہتی ہوں۔ حضرت جی میرے لئے آگے کیا حکم ہے؟

جواب:

مَاشَاءَ اللہ! اللہ تعالیٰ مزید توفیقات سے نوازیں۔ آپ پورے پانچ ہزار مرتبہ ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کرلیا کریں اور جو پانچ ہزار مرتبہ آپ ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کررہی ہیں، بےشک آپ محسوس نہ کریں لیکن اس سے بہت کچھ مل رہا ہے۔ باقی اگر آپ کو مراقبے کے ساتھ مناسبت نہیں ہے تو اللہ پاک کے دینے کے اور بھی طریقے ہیں جن کے بارے میں ہم عرض کررہے ہیں۔ لہٰذا آپ دل کو خالی خالی محسوس نہ کریں، آپ کو مل رہا ہے لیکن آپ کو پتا نہیں چل رہا۔ اگر خدانخواستہ یہ چلا جائے تو پھر آپ کو پتا چلے گا کہ یہ کیا چیز ہے۔ تو اس کا خیال رکھیں کہ اپنا ذکر باقاعدگی کے ساتھ کرلیا کریں اور اپنے معمولات کی اطلاع باقاعدگی کے ساتھ دے دیا کریں اِنْ شَاءَ اللہ۔ اس سے آگے خود بخود بات بن جائے گی اِنْ شَاءَ اللہ۔ باقی آپ نے جو کہا کہ صرف دس منٹ پورے ہوجاتے ہیں۔ ایسے نہیں ہے، بلکہ آپ دس منٹ ایک فکر میں بیٹھی ہوتی ہیں۔ وہ فکر یہ ہے کہ میری اصلاح ہوجائے، میرا دل ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ میرا پورا جسم اللہ پاک کے دئیے گئے اعمال کا پابند ہوجائے، یہ اس لئے کررہی ہیں، یہ فکر ویسے نہیں ہے لہٰذا آپ اس فکر کو ضروری سمجھ کر اس کو جاری رکھیں اِنْ شَاءَ اللہ، اللہ پاک مدد فرمائے گا۔

سوال نمبر 24:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! حضرت جی میرا ذکر دو سو، چار سو، چھ سو اور دو ہزار ہے، جس میں چند ناغے ہوئے ہیں جو کہ اگلے دن پورے کیے۔ فجر کی چند نمازیں قضا ہوئی ہیں، گزشتہ ماہ بندہ اپنے ادارے کی طرف سے وفود کے ساتھ مختلف دوروں پر رہا، اس دوران ہوٹلوں اور ہوائی جہاز کی مراعات اور آزادانہ اختلاط سے دل پر بوجھ سا رہا۔ اس کے لئے ویب سائٹ سے کچھ کلام بھی سنتا رہا، حبِ باہ کا تو پہلے ہی مسئلہ تھا، اب حبِ جاہ کا بھی اندیشہ لاحق ہے۔

جواب:

اللہ جل شانہٗ حفاظت فرمائیں۔ بہرحال آپ کو اگر ان چیزوں کا احساس ہے تو یہ احساس بھی اللہ تعالیٰ کا فضل ہے، اس پر اللہ کا شکر ادا کریں تاکہ مزید ملے۔ اور اختیاری طور پر جن چیزوں سے آپ کو بچنے کا حکم ہے اس میں اختیار کو استعمال کرتے ہوئے بچنے کی کوشش کریں اور غیر اختیاری چیزوں کی پروا نہ کریں۔

سوال نمبر 25:

السلام علیکم! حضرت شیخ ومرشدی دامت برکاتہم۔ شیخ ومربی سے کسبِ فیض کی عملی شکل کیا بنتی ہے اور مرید وسالک کے کون کون سے حقوق شیخ کی خدمت میں حاضری کے وقت اور غائب اوقات میں مستحضر رکھنے چاہئیں؟ ہر نفل عمل میں اپنے شیخ کے ساتھ ثواب کی نیت کرتا ہوں، یہ عمل کافی عرصے سے ہے۔ البتہ کچھ دنوں سے وسوسہ آیا کہ اس نیت میں اخلاص کی کمی ہے، نوافل صرف اللہ کی محبت اور اس کی رضا کے لئے پڑھوں اور ایصالِ ثواب الگ سے کیا کروں۔

جواب:

آپ کی یہ آخری بات صحیح ہے، مثلاً آپ کوئی قربانی کرنا چاہتے ہیں تو کس کے نام پر کریں گے، شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے نام پر؟ نہیں! اللہ کے نام پر۔ پھر آپ بے شک شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کو ایصالِ ثواب کریں۔ اور اگر آپ شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے نام پر ذبح کریں تو نہ آپ خود کھا سکتے ہیں اور نہ کسی اور کو کھلا سکتے ہیں کیونکہ وہ حرام ہوجائے گا۔ اسی طریقے سے آپ جو بھی نفلی کام کریں وہ اللہ کے لئے کریں اور پھر بعد میں اپنے شیخ کے لئے ایصالِ ثواب کردیں۔ سُبْحَانَ اللہ آپ کی بڑی مہربانی ہے، اَلْحَمْدُ لِلّٰہ اس سے ہمیں یقیناً بہت خوشی ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ آپ کو مزید توفیق عطا فرمائیں اور اجر بھی نصیب فرمائیں۔ بہرحال آپ یہ ٹھیک کریں، باقی شیخ اور مربی سے کسبِ فیض کی عملی شکل کیا بنتی ہے؟ نمبر ایک: سب سے پہلے جو بتائے اس پہ عمل کرنا اور جس سے روکے اس سے رک جانا، ایک عجیب بات بتاتا ہوں کہ یہ کام تو شریعت کے لئے ہے۔ شریعت میں کیا ہوتا ہے؟ اوامر اور نواہی کو شریعت کہتے ہیں یعنی جس چیز کا حکم ہے اس کو پورا کرنا اور جس چیز سے منع کیا ہے اس سے بچنا، شریعت بھی یہی ہے اور شیخ بھی یہی کہتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شیخ شریعت پر لانے کے لئے ذریعہ ہے، لہٰذا اللہ جل شانہٗ نے یہ نظام رکھا ہے کہ جس کے ساتھ محبت ہوتی ہے اس محبت کی وجہ سے اس کا بتایا ہوا کام ہوجاتا ہے۔ لیکن دوسری ذرا تھوڑی سی پیچیدہ بات ہے اور وہ یہ ہے کہ جب آپ شیخ منتخب کرتے ہیں تو گویا کہ آپ اللہ پاک سے علاج کے طالب ہیں اور شیخ کو ذریعہ بناتے ہیں۔ میں نے ذریعہ اس لئے کہا کہ بعض لوگوں کو وسیلے کے لفظ سے چِڑ ہے ورنہ صحیح لفظ وسیلہ ہے۔ بہرحال جب شیخ کو ذریعہ بناتے ہیں تو اللہ جل شانہٗ جو آپ کو دینا چاہتے ہیں وہ آپ کے لئے شیخ کے قلب میں ڈال دیں گے لیکن آپ کو شیخ کے ذریعے سے ملے گا، جب شیخ کے ذریعے سے ملے گا تو جو شریعت کے کام آپ کے لئے مشکل تھے اس وسیلے کے ذریعے سے آپ کے لئے آسان ہوجائیں گے۔ اس وجہ سے بعض باتیں خود انسان کو شریعت کی معلوم ہوتی ہیں لیکن عمل نہیں کرسکتے اور جب شیخ بتاتا ہے تو عمل شروع کردیتا ہے، اسی لئے تو یہ سب کچھ کیا جاتا ہے۔ لہٰذا شیخ جس چیز کا بتائیں اس کو کرنا اور جس چیز سے روکیں اس سے رکنا۔ دوسری بات یہ ہے کسی ایسے شخص سے رابطہ نہیں رکھنا جس سے آپ کے شیخ کی مناسبت نہیں ہے یعنی صحبتِ ناجنس نہیں ہونی چاہیے، اس سے پھر نقصان ہوجاتا ہے۔ اور تیسری بات یہ ہے کہ شیخ کے لئے دعا کرنا اور اپنے لئے شیخ کے طریقے پہ چلنے کی دعا کرنا، اور اس کے ساتھ ایسی محبت کرنا کہ شیخ جو شریعت والے اعمال کررہا ہے، اس کو دیکھ دیکھ کر وہ خود بخود آپ میں آجائیں۔ باقی تفصیلات کتابوں میں بھی موجود ہیں، ظاہر ہے پوری کتاب بیان نہیں کی جاسکتی، ہماری کتاب فہم التصوف میں بھی موجود ہیں اگر کوئی پڑھنا چاہے تو وہیں سے پڑھ سکتا ہے۔

سوال نمبر 26:

صحبتِ ناجنس کے بارے میں تھوڑی تفصیل بتا دیں؟

جواب:

جن کے ساتھ بیٹھنے سے آپ کے شیخ سے آنے والا نظامِ فیض متاثر ہورہا ہو وہ صحبتِ ناجنس ہے۔ یعنی بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو confusion ڈالتے ہیں یا شکوک ڈالتے ہیں، آپ کے شیخ کی باتوں سے متفق نہیں ہیں تو اس میں وحدتِ مطلب میں مسئلہ آجاتا ہے جس سے پھر نقصان ہونے لگتا ہے۔ اس لئے یہ نہیں ہونا چاہیے۔ جیسے حضرت تسنیم الحق صاحب رحمۃ اللہ علیہ ایک دن مجھے فرمانے لگے کہ آپ مرید تو مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے ہیں لیکن میں اِنْ شَاءَ اللہ ایسی کوئی بات نہیں کروں گا جو کہ حضرت کے خلاف ہو، لہٰذا آپ کو نقصان نہیں ہوگا۔ اُس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے خواب میں میری تربیت کے لئے ان کی تشکیل فرمائی تھی اور ان کے کہنے پر میں مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے بیعت ہوا تھا۔ اگرچہ ان کے کہنے پر میں بیعت ہوا تھا لیکن اس کے باوجود حضرت نے اس چیز کا خیال رکھا کہ اصول کی خلاف ورزی نہ ہوجائے۔

سوال نمبر 27:

انسان کی جبلت تبدیل ہوتی ہے، جبلت کی تعریف کیا ہے اور اس میں کیا کیا چیزیں آتی ہیں؟

جواب:

مجھے بتائیں امریکہ جا کر پٹھان تبدیل ہوسکتا ہے؟ بس یہی جبلت ہے۔ پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹ جائے گا، اگر کوئی کہہ دے تو مان لیں لیکن جبلت تبدیل نہیں ہوگی، البتہ نفس کا شر ختم ہوسکتا ہے۔ اس کی ایک مثال دیتا ہوں کہ ایک برتن کا material کالا ہے اور اس کے اوپر کالک یعنی میل چڑھی ہوئی ہے اور آپ اس کو صاف کرنا چاہتے ہیں، آپ چاہے کوئی بھی chemical وغیرہ استعمال کریں یا برش یا کوئی بھی چیز ہو وہ زیادہ سے زیادہ میل ہی دور کرسکتی ہے، جو اس کے material کی اپنی کالک ہے وہ تو دور نہیں ہوسکتی وہ تو ایسے ہی رہے گا۔ جیسے کسی برتن میں خون پڑا ہے اور وہ برتن بھی سرخ ہے تو جو خون والا حصہ ہے وہ تو آپ صاف کرسکتے ہیں لیکن جو برتن کا سرخ material ہے اس کو تو آپ change نہیں کرسکتے۔ لہٰذا جو change نہیں ہوسکتا وہ جبلت ہے اور جو change ہوسکتا ہے وہ نفس کا شر ہے، آپ نفسِ امارہ کو نفسِ مطمئنہ بنا سکتے ہیں لیکن جبلت کو change نہیں کرسکتے۔ ایسے ہی پٹھان کا نفسِ امارہ، وہ نفسِ مطمئنہ میں تبدیل ہوجائے گا یعنی اس کی activities تبدیل ہوجائیں گی لیکن اس کی پٹھانیت نہیں جائے گی، وہ اپنی جگہ پہ قائم رہے گی۔ پنجاب والا پنجابی ہی رہے گا، ہندوستان کا ہندوستانی ہی رہے گا اور عرب والا عربی ہی رہے گا۔ ایک جرمن تھے میں ان کا کرایہ دار تھا، وہ landlord تھے، وہاں قانون ہے کہ آپ اگر contract سے پہلے جانا چاہتے ہیں تو پھر آپ کو contract میں جو conditions ہیں وہ پوری کرنی پڑیں گے، renovation وغیرہ سب کچھ کرکے پھر جاسکتے ہیں ورنہ اس کے اخراجات دینے پڑیں گے۔ تو میں نے ان سے کہا کہ آپ calculate کرلیں کہ میں نے آپ کو کتنا دینا ہے؟ I shall pay for that میں تقریباً ہر ہفتے ان سے پوچھتا کہ کیا آپ نے calculate کیا ہے؟ وہ کہتے نہیں ابھی نہیں کیا، تو جب بار بار میں پوچھتا تو کہتے کہ I am German. I can't come out of my skill. I shall calcuate exactly میں جرمن ہوں، میں اپنے کام سے باہر نہیں آسکتا، میں اس کو exact calculate کروں گا۔ میں نے کہا ٹھیک ہے پھر exact calculate کرلیں، اب اگلی دفعہ جب میں گیا تو اس نے کہا کہ You have to pay nothing میں نے کہا: ?Why

Because some person has come and he took this as it is کہتے کہ ایک آدمی آیا اور اس نے اس کو اسی طریقے سے لے لیا تھا جس طریقہ سے ہے، لہٰذا آپ کو کچھ بھی نہیں pay کرنا، جرمن ایسے ہوتے ہیں یعنی انگریز قوم کی اپنی nature ہے کہ وہ تبدیل نہیں ہوتے، اسی طرح Americans بھی۔


وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ


  1. ۔ (آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب)

    نوٹ! تمام آیات کا ترجمہ آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم سے لیا گیا ہے۔

سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات - مجلسِ سوال و جواب