سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 643

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال نمبر 1:

نماز پڑھنا آسان ہوگیا ہے، نوافل پڑھنے میں نفس کی رکاوٹ کم ہوگئی ہے، کوئی جسمانی تکلیف نہ ہو اور کوئی کام بھی نہ ہو تو بیس رکعت نوافل کھلے دل سے پڑھ لیتی ہوں۔ اس مراقبے سے پہلے یہ بات نصیب تھی کہ نماز میں تھوڑی سی توجہ سے اس بات کا ادراک ہوجاتا تھا کہ اللہ تعالیٰ میرے سامنے ہیں، لیکن جب آپ نے یہ مراقبہ دیا کہ خانہ کعبہ میرے سامنے ہے، آپ کی بات پر عمل تو شروع کردیا تھا لیکن عجیب سا محسوس ہوتا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے بجائے خانہ کعبہ کا تصور کرلیا کروں۔ ایک غلطی مجھ سے یہ ہوگئی تھی کہ آپ سے اس بات کا ذکر پہلے نہیں کیا تھا، بس آپ کی بات پر عمل کرتے ہوئے یہ سوچتی ہوں کہ خانہ کعبہ میرے سامنے ہے۔ پھر کچھ عرصہ محسوس ہوا کہ خانہ کعبہ پر جو تجلیاتِ مسجودی پڑتی ہیں ان کی شعائیں مجھ پر بھی پڑتی ہیں، لیکن اب اس قسم کا کچھ محسوس نہیں ہوتا، بلکہ تھوڑی سی توجہ سے یہی محسوس ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑی ہوں اور جس لمحے یہ احساس ہوتا ہے تو شرمندگی اور خوف محسوس کرنے لگتی ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی عظیم ذات کے سامنے اتنی غفلت سے کیسے کھڑی ہوں اور پھر دل ہی دل میں اللہ تعالیٰ سے معافی مانگنے لگتی ہوں، لیکن یہ احوال کم ہی نصیب ہوتے ہیں، نماز میں خشوع وخضوع کی کمی رہتی ہے۔

جواب:

مَاشَاءَ اللہ! بڑی اچھی بات ہے، آپ یہی تصور کرلیں کہ میں اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑی ہوں، یہ بالکل ٹھیک ہے۔ اصل میں یہ تو اس صورت میں ہوتا ہے کہ جب انسان بتدریج آگے بڑھتا ہے تو خانہ کعبہ کا تصور کرنا آسان ہے، بالخصوص جنہوں نے خانہ کعبہ کی زیارت کی ہو ان کے لئے یہ تصور کرنا آسان ہوتا ہے اور اللہ پاک کی ذات چونکہ وراء الوراء ہے، لہٰذا اس کا تصور کرنا مشکل ہوتا ہے۔ لیکن اگر آپ کو یہ محسوس ہورہا ہے تو پھر یہی افضل ہے اور آپ یہی کریں، کیونکہ کیفیتِ احسان میں یہی مانگا گیا ہوتا ہے:

’’اَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَاَنَّکَ تَرَاہُ فَاِنْ لَّمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَاِنَّہٗ یَرَاکَ‘‘ (صحیح بخاری حدیث نمبر: 50)

ترجمہ: ’’(احسان یہ ہے) کہ تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا کہ تم اسے دیکھ رہے ہو، اگر یہ درجہ حاصل نہ ہو تو پھر یہ سمجھو کہ وہ تم کو دیکھ رہا ہے‘‘۔

باقی اللہ جل شانہٗ کی ذات کا دیدار دنیا میں تو ہو نہیں سکتا، البتہ یہ تصور ہوسکتا ہے کہ میں اللہ کے سامنے کھڑا ہوں، آپ کو اگر اللہ نے یہ نصیب فرمایا ہے تو آپ اس کو جاری رکھیں۔ باقی آپ نے فرمایا کہ تینوں حقیقتوں کو طے کرلیا ہے اَلْحَمْدُ لِلّٰہ، حقیقتِ کعبہ، حقیقتِ قرآن اور حقیقتِ صلوٰۃ۔ اب معیتِ الہٰی کا تصور کرتے ہوئے اس میں دعا کرنا شروع کردیں، بالخصوص آج کل فلسطین کے جو حالات ہیں اور ہمارے ملکی حالات کے لئے تو دعائیں بہت ضروری ہیں تو وہ دعائیں کرتی رہیں۔

سوال نمبر 2:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! فلاں کا ابتدائی وظیفہ بلاناغہ مکمل ہوگیا ہے۔

جواب:

ان کو قلب کا پہلا وظیفہ دس منٹ کا دے دیں۔

سوال نمبر 3:

السلام علیکم! میں فلاں، صادق آباد میں آپ سے بیعت کی تھی۔ مَاشَاءَ اللہ میرا داخلہ لاہور میں ہوا ہے، کچھ پہلے ہی آگیا ہوں، لیکن لاہور میں کچھ طبیعت ناساز رہتی ہے۔ مہربانی کرکے میرے لئے دعا کیجئے، اللہ تعالیٰ مجھے نیک مقاصد میں کامیاب وکامران فرمائیں اور ثابت قدم رہنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ اگر لاہور میں آپ کا کوئی اجتماع یا پروگرام ہو تو مہربانی کرکے ضرور بتائیے گا اِنْ شَاءَ اللہ حاضری کا شرف نصیب ہوگا۔

جواب:

اِنْ شَاءَ اللہ جب بھی ہوگا تو آپ کو بتا دیا جائے گا، بس آپ اپنے معمولات میں کوئی کوتاہی نہ کریں اور WhatsApp کے ذریعے رابطہ بھی رکھیں، اِنْ شَاءَ اللہ آپ کو فائدہ ہوتا رہے گا۔

سوال نمبر 4:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! حضرت جی میں فلاں کراچی سے دورہ حدیث میں پڑھنے والا طالبعلم ہوں۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ میرا ذکر ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ دو سو بار، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ چار سو مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ چار سو مرتبہ اور ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ سو مرتبہ ہے۔ اس کے ساتھ دس منٹ کا مراقبہ، ایک مہینہ مکمل ہوگیا ہے۔ برائے مہربانی آگے رہنمائی فرمائیں۔ دوسرا یہ کہ میں دعاؤں کا محتاج ہوں، مجھے اپنی دعاؤں میں ضرور یاد رکھیں، اللہ پاک جزائے خیر عطا فرمائیں۔

جواب:

اب ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ دو سو مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ چار سو مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ چھ سو مرتبہ اور سو مرتبہ ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کا ذکر کرلیا کریں اِنْ شَاءَ اللہ اور دعاؤں میں مجھے بھی یاد رکھیں۔

سوال نمبر 5:

ایک سالک کا سوال آیا تھا جو کہ حضرت نے مجلس میں نہیں سُنایا، بلکہ اُس کا صرف جواب حضرت نے دیا ہے۔

جواب:

آپ نے جو سر کے بال رکھے ہوئے ہیں ان کو تول کر اس کے برابر چاندی کی قیمت صدقہ کردیں اور سر کے بال دفن کردیں۔

سوال نمبر 6:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! اللہ کے فضل اور آپ کی دعاؤں کی برکت سے میرے تیسرے کلمہ کا ذکر تین سو اور دو سو، چالیس دن کے لئے بلاناغہ مکمل ہوگیا ہے۔ میرے لئے آگے کیا حکم ہے؟ طالبِ دعا فلاں ڈاکٹر صاحب کا بیٹا۔

جواب:

مَاشَاءَ اللہ مبارک ہو۔ اب آپ اس طرح کریں کہ تیسرا کلمہ پورا سو مرتبہ، درود شریف سو مرتبہ، استغفار سو مرتبہ یہ تو عمر بھر کے لئے ہے اور جو نمازوں کے بعد کا ذکر بتایا تھا وہ بھی عمر بھر کے لئے ہوگا۔ البتہ ذکرِ جہری جو میں ابھی عرض کرتا ہوں وہ آپ سو سو مرتبہ کرلیں، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ سو مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ سو مرتبہ، اسی طرح آواز سے ’’حَقْ‘‘ سو مرتبہ اور ’’اَللّٰہ‘‘ سو مرتبہ، یہ ایک مہینہ کرکے پھر مجھے اطلاع کر دیجئے گا۔

سوال نمبر 7:

السلام علیکم حضرت امید ہے آپ خیریت سے ہوں گے۔ حضرت میں کسی کو قرآن یا حدیث سے اچھی بات کہوں تو مجھے ایسا لگتا ہوں کہ میں ریاکاری کررہا ہوں۔ حضرت ایسی condition میں، میں چپ رہوں یا کیا کروں؟ اور حضرت میں نے اپنی تربیت کروانی ہے، میں کدھر سے شروع کروں اور کیا کروں؟ جَزَاکَ اللہُ۔

جواب:

آپ کہاں پر ہوتے ہیں یہ مجھے بتا دیجئے۔ اور جو آپ ریاکاری والی بات فرما رہے ہیں، ریا ایک عمل ہے جو نیت سے ہوتا ہے یعنی جب آپ کی نیت اس کے ساتھ شامل نہیں ہے تو یہ محض ریا کا وسوسہ ہوسکتا ہے وہ ریا نہیں ہوتی۔ البتہ قرآن وحدیث کی بات میں اس بات کا خیال رکھیں کہ اس میں کوئی کچی بات نہ ہو، علماء کرام سے سنی ہوئی پکی بات ہو تو پھر آپ کسی اور سے کرسکتے ہیں لیکن اس کا risk لینا آسان نہیں ہے، لہٰذا اس کے لئے کوشش کریں کہ کسی مستند کتاب کا حوالہ بتا دیا کریں، اس سے اِنْ شَاءَ اللہ فائدہ ہوگا اور علماء سے ان کا تعلق کروا دیا کریں، یہ اچھی بات ہے۔ باقی آپ مجھے بتا دیں کہ آپ کہاں ہیں؟ اگر آپ یہیں پنڈی، اسلام آباد میں ہیں تو یہیں تشریف لائیے پھر اِنْ شَاءَ اللہ آپ سے عرض کروں گا اور اگر یہاں نہیں ہیں تو پھر بھی مجھے بتا دیں تاکہ پھر میں آپ سے تفصیل سے بات عرض کرسکوں۔

سوال نمبر 8:

السلام علیکم حضرت جی فلاں جہلم سے عرض گزار ہے۔ میری والدہ اور میری بیوی کی آپس میں نہیں بنتی، میری بیوی میں سمجھ بوجھ کی کمی ہے، جبکہ میری والدہ کی طبیعت گھر کے معاملے میں کچھ سخت ہے۔ میرے سسرال والے تبلیغی جماعت کے ہیں، میری بیوی کے کہنے پر وہ لوگ صرف یہ سوچتے ہیں کہ ہمارے گھر کے معاملات صرف میری والدہ کی وجہ سے خراب رہتے ہیں، اس وجہ سے میری اپنے سسرال والوں سے بھی ٹھیک نہیں بنی، انہوں نے مجھے اس سلسلے میں بدتمیزی کرتے ہوئے کچھ دھمکی دی، جس کی وجہ سے ایک سال سے زیادہ ہوگیا ہے میں نے ان لوگوں سے رابطہ نہیں کیا۔ کچھ ماہ پہلے میری بیوی نے بھی وہی دھمکی دہرائی، جس پر میں نے اسے لکھ کردیا کہ میری والدہ سے تم نے بدسلوکی کی تھی تو میری طرف سے تمھیں ایک طلاق۔ میری والدہ کے ساتھ میری family ہی رہ سکتی ہے کیونکہ میرے دو بھائی Canada رہتے ہیں، انہی پریشانی کے حالات میں مجھے بھائی نے کہا کہ تم Canada آجاؤ۔ اس پر میں نے سوچ کر تیاری شروع کی، میری بیوی بچے میری والدہ کے ساتھ یہاں ہی رہتے ہیں اور میں باہر جانے کی کوشش کررہا ہوں۔ اس وقت میرے ذہن میں بس یہی تھا کہ میں گھر رہ کر بھی گھر کے معاملات درست نہیں کرسکا۔ میری بہت غلطی ہے کہ آپ سے رہنمائی نہیں لے سکا، آپ سے عاجزانہ درخواست ہے کہ میری رہنمائی فرمائیے، جس سے اِنْ شَاءَ اللہ میرے معاملات درست ہوجائیں گے۔ اللہ پاک مجھ عاصی پر آپ کا سایہ مبارک قائم رکھے آمین۔ گستاخی کے لئے معذرت۔


جواب:

ہاں یہ تو بات صحیح ہے کہ اس معاملے میں انسان کو کافی سمجھ بوجھ سے کام لینا چاہیے اور جن پر اعتماد ہو، جو آپ کا غمگسار ہو، جو آپ کے حالات کو سمجھ سکتے ہوں، ان سے مشورہ کرنے میں ہی خیر ہے، ورنہ یہ نازک معاملات ہیں پھر بعد میں انسان پچھتاتا رہتا ہے۔ بعض دفعہ صرف معمولی سی بات ہوتی ہے جس کا حل کیا جاسکتا ہے لیکن اس سے جب معاملہ بگڑ جاتا ہے پھر سمجھ نہیں آتی کہ اس کو کہاں سے سلجھایا جائے۔ لہٰذا اگر بگڑنے سے پہلے کوئی اچھا مشورہ سمجھ میں آجائے اور اس پہ کام کیا جائے تو بہتری ہوتی ہے، یہ بارہا ہم نے دیکھا ہے کہ جانبین میں misunderstanding کی وجہ سے بڑے مسائل پیدا ہوجاتے ہیں اور تھوڑی سی کوشش سے وہ ٹھیک ہوسکتے ہیں، بشرطیکہ درمیان میں کچھ لوگ patch-up کرنے والے ہوں، ورنہ پھر مسائل بگڑتے جاتے ہیں۔ بہرحال اگر آپ کو اس کا احساس ہوگیا ہے تو آئندہ کے لئے ایسی بات زبان سے نکالتے ہوئے محتاط رہیں۔ ہاں یہ بات ہے کہ اس کے بارے میں مشورہ کرلیں، لہٰذا آپ مجھے تفصیل بتا دیں، اگر مجھ سے ہوسکا تو ٹھیک ہے ورنہ جس سے بھی ہوسکے گا اس کے بارے میں عرض کروں گا اِنْ شَاءَ اللہ۔

سوال نمبر 9:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

I have one question for you. What is it with seeing رسول اللہ ﷺ in dream? What do both Deobandis and Barelvis claim about this? They are like soul enemies of one another in declaring others کافر. So how do we reconcile دیدارِ مصطفیٰ ﷺ for both parties? Surely that means both are upon حق and the differences they have between one another are not on the level of تکفیر?

جَزَاکَ اللہُ خَیْراً and I hope you are well. I am doing the forty days of the beginners اسباق. I completed it a long time ago but sometimes out of reasons known to me I fail to hear my alarm or anything around me and miss فجر or in a state of sleep I will turn the alarm off. I never miss prayer intentionally اَلْحَمْدُ لِلّٰہ.

جواب:

I think one should clearly understand this thing that dream is not the thing on the basis of which we can decide about عقائد because it is ظنی. It means its not certain. Both possibilities may be there. First, maybe it is true. Second, maybe it is not true. For example, some person may be lying about it. He would not have seen رسول اللہ ﷺ in dream but he is claiming. There are people we know they have done it and there is no actual relation between different dreams they are claiming about رسول اللہ ﷺ. So it is very difficult to understand that. So, we can’t base our عقائد on these things and عقائد should solely be based upon قرآن and حدیث صحیح, nothing else. This is not actually easy to depend upon dreams Ok. we know that seeing رسول اللہ ﷺ if true then he is really رسول اللہ ﷺ but if it is true. It is subject to condition. Therefore, you can’t ask this question for this reason because there might be some people who are telling lie. We understand there are people who are telling this so bravely that we are surprised how they can do it so bravely? For example, غلام احمد قادیانی has many dreams, so should we depend upon that? No. Its not the case. The people belonging to that group or people belonging to the other group is not the issue at hand. There is one sitting in Canada and he is saying many things about رسول اللہ ﷺ and nothing is true. Therefore, do not depend upon these things for عقائد. We should understand that there should be some real basis which is Quran and صحیح احادیث اَلْحَمْدُ لِلّٰہ. We are collecting this and we have collected this in one article. اَلْحَمْدُ لِلّٰہ There are strong basis for this and if you like I will send it to you اِنْ شَاءَ اللہ. You will understand.

If you have completed the first اسباق of forty days continuously, then you should do hundred times third کلمہ ’’سُبْحَانَ اللہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ وَلَآ إِلٰہَ إِلَّا اللہُ وَاللہُ أَکْبَرُ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللّٰهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيْم’’ combined and hundred times صلوٰۃ علی النبی maybe smaller one ‘‘صَلَّی اللہُ عَلَی الْنَّبِیِّ الْاُمِّی’’ and hundred times استغفار ’’اَسْتَغْفِرُ اللهَ رَبِّىْ مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ وَّاَتُوْبُ اِلَيْہ. Those اسباق after Salah which I have told you already plu this one will be forever, I mean third کلمہ صلوۃ علی النبی and استغفار hundred hundred times and اسباق after each Salah. The thing which I am explaining to you now will be for one month with a loud voice.It is hundred times ‘‘لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ’’ hundred times ‘‘لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ’’ hundred times ‘‘حَقْ’’ and hundred times ‘‘اَللّٰہ’’. After one month you will tell me اِنْ شَاءَ اللہ.


سوال نمبر 10:

دو سو، چار سو، چھ سو، تین ہزار والا ذکر مکمل ہوگیا ہے، اگلا ذکر ارشاد فرمائیں۔

جواب:

اب دو سو، چار سو، چھ سو اور ساڑھے تین ہزار اِنْ شَاءَ اللہ۔

سوال نمبر 11:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! اللہ پاک آپ کو اپنے حفظ وامان میں رکھیں۔ میرا سوال فلسطین کے بارے میں ہے کہ کیا فلسطینیوں کے لئے دعا کرنے کے ساتھ ساتھ ریلی میں جا کے نعرے لگانا مفید ہے؟ ان ریلیوں میں بہت بڑا مجمع ہوتا ہے، حکومت اور بی بی سی کی عمارتوں کے باہر جا کے احتجاج کرتے ہیں لیکن ان میں مرد اور عورتوں میں کوئی فاصلہ نہیں ہوتا، میں پچھلے ہفتے تو گیا تھا اور ارادہ کررہا تھا کہ اس ہفتے بھی جاؤں، آپ تھوڑی رہنمائی فرمائیں۔

جواب:

اصل میں شریعت کی بات فوقیت رکھتی ہے اور جس چیز میں کسی غلطی کا امکان ہو جیسے خواتین کے ساتھ اختلاط کا معاملہ ہے، تو اس سے بچنا چاہیے، کیونکہ وہ مضرت ہے، لہٰذا جلبِ منفعت سے دفعِ مضرت لازمی ہے۔ بہرحال آپ اس طرح کریں کہ ان کی جتنی help کرسکتے ہیں، دامے دِر٘مے قَدَمے سُخَنے، وہ ٹھیک ہے، جو ان چیزوں سے پاک ہو، باقی میرے خیال میں اپنے آپ کو بچانا ضروری ہے۔

سوال نمبر 12:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! اللہ تعالیٰ سے دعا اور امید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں، میں فلاں کی زوجہ ہوں۔ آپ نے دس منٹ مراقبہ کے لئے کہا تھا، بچپن سے والدہ صاحبہ نے عادت ڈالی تھی کہ سونے سے پہلے ہر سانس کے ساتھ ’’اَللہُ‘‘ کی مشق کرنی ہے، سانس اندر جائے تو ’’اَلْ‘‘ اور باہر آئے تو ’’لَہُ‘‘۔ اب جب آنکھ بند کرکے مراقبہ کرتی ہوں تو خود بخود ہر سانس کے ساتھ ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ ہوتا ہے، اب یہی دل کی آواز ہے یعنی یہ سمجھ میں آرہا ہے۔ باقی اَلْحَمْدُ لِلّٰہ تسبیحات بلاناغہ جاری ہیں۔

جواب:

ٹھیک ہے مَاشَاءَ اللہ! اگر آپ کا دل اَللہ اَللہ کررہا ہے یہ وہی ہے جو کہ میں نے بتایا تھا اور اگر آپ کے سانس میں یہ چیز آرہی ہے تو یہ بھی بری بات نہیں ہے اس کو پاسِ انفاس کہتے ہیں۔ لیکن اس کو پھر صحیح طریقے سے کرنا پڑے گا وہ اِنْ شَاءَ اللہ بعد میں بتاؤں گا، ابھی صرف یہ کریں کہ آپ تصور کریں کہ آپ کا دل ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ محسوس کررہا ہے یا نہیں، پہلے اس کو کرلیں اس کے بعد وہ بتاؤں گا اِنْ شَاءَ اللہ۔

سوال نمبر 13:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! امید ہے آپ خیریت سے ہیں۔ حضرت جی اس مہینے کے سارے اذکار پورے ہوگئے ہیں، دو، چار، چھ اور چار ہزار۔ تمام لطائف پر دس دس منٹ مراقبہ، آیت الکرسی کا مفہوم پندرہ منٹ، دو ماہ سے جاری ہے۔ اس مراقبے کے بعد مجھے نماز میں اپنا سارا جسم نماز کی حالت میں محسوس ہوتا ہے یعنی تمام لطائف سے لے کر بدن کا ہر جزو نماز میں concentrate کررہا ہوتا ہے، نماز کے دوران میرے بدن کی اوپر کی جانب کھنچ بھی ہونے لگ جاتی ہے گویا کہ میرا جسم اوپر کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے۔

جواب:

مَاشَاءَ اللہ! اب اس طرح کریں کہ اس کی جگہ ’’لَّاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنْتَ سُبْحٰنَكَ اِنِّیْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ‘‘ (الانبیاء: 87) کا مفہوم پندرہ منٹ کے لئے تصور کریں اِنْ شَاءَ اللہ۔

سوال نمبر 14:

السلام علیکم! حضرت جی احوال: کچھ دنوں سے اعمال disturb ہیں، ذکر اور مراقبہ میں ناغے ہورہے ہیں۔

جواب:

ناغوں سے بچنا ضروری ہے، باقی آپ کے احوال ٹھیک ہیں۔

سوال نمبر 15:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! جناب حضرت محترم شاہ صاحب اللہ تعالیٰ آپ کو خیر وعافیت والی زندگی عطا فرمائیں آمین۔ حضرت آپ کا دیا ہوا ذکر تیسرا کلمہ، درود شریف اور استغفار۔ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ دو سو مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ چار سو مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ چھ سو مرتبہ اور ’’اَللّٰہ‘‘ چھ ہزار مرتبہ، اَلْحَمْدُ لِلّٰہ جنابِ محترم شاہ صاحب مہینہ پورا ہوا، آگے جو حضرت کا حکم ہے۔

جواب:

اب مَاشَاءَ اللہ ساڑھے چھ ہزار ’’اَللّٰہ‘‘ اور باقی یہی کریں۔

سوال نمبر 16:

السلام علیکم! حضرت معمولات کا چارٹ اور اپنے احوال کس وقت بھیج سکتے ہیں اور حضرت جواب کب تک مل جاتا ہے؟

جواب:

معمولات کا چارٹ وغیرہ یا اپنے احوال کسی وقت بھی اس نمبر پر send کرسکتے ہیں، اگر فوری ضرورت ہوئی تو فوری جواب ورنہ پھر جیسے پیر کے دن ہمارا معمول ہے اس وقت جواب دیا جاتا ہے۔

سوال نمبر 17:

السلام علیکم حضرت شاہ صاحب اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند فرمائے آمین۔

نمبر 1:

ذکر: آپ کی برکت اور فیض سے دو سو، چار سو، چھ سو، آٹھ ہزار اور دس منٹ کا مراقبۂ قلب ہے۔ ذکر کو دو ماہ ہوگئے ہیں، مراقبہ میں کچھ محسوس نہیں ہوتا، ذکر میں کچھ جو مشقت ہوتی تھی وہ آپ کی برکت سے کم ہوگئی ہے۔

نمبر 2:

ساس محترمہ کا ذکر دس منٹ لطیفۂ قلب، دس منٹ لطیفۂ روح، پندرہ منٹ لطیفۂ سِر تھا، جس کو دو مہینے سے زیادہ ہوگئے ہیں۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ تینوں جگہ اَللہ محسوس ہوتا ہے۔

جواب:

مَاشَاءَ اللہ ان کو چوتھی جگہ یعنی لطیفۂ خفی پندرہ منٹ کا بتا دیں اور باقی لطائف قلب، روح اور سِر پر دس دس منٹ کرلیں۔

نمبر 3:

اور بیگم کی خالہ صاحبہ کا دس منٹ کا لطیفۂ قلب کا ذکر تھا ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ محسوس نہیں ہوتا، ملنے جلنے کا شوق کم ہوگیا ہے۔

جواب:

اب ان کو اس کی جگہ پندرہ منٹ کا لطیفۂ قلب کا ذکر بتا دیں۔ اور آپ ساڑھے آٹھ ہزار مرتبہ ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کریں، باقی چیزیں وہی رکھیں۔

سوال نمبر 18:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! حضرت ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ دو سو مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ چار سو مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ چھ سو مرتبہ اور ساڑھے چار ہزار مرتبہ اسمِ ذات ’’اَللّٰہ‘‘ کا ذکر اور لطیفۂ قلب، لطیفۂ سِر، لطیفۂ خفی، لطیفۂ اخفیٰ پانچ منٹ اور مراقبۂ شیوناتِ ذاتیہ پندرہ منٹ لطیفۂ سِر پر جاری ہے۔ تین ناغے ہوئے اور مکمل ہونے میں دو دن باقی ہیں۔ ذکر ومراقبہ عموماً صبح آپ کی ہدایت کے مطابق ایک وقت ہوجاتے ہیں، البتہ مراقبے میں اب تک یکسوئی نصیب نہیں ہورہی، لیکن اس عرصہ کے دوران مندرجہ ذیل کیفیات رہیں: گناہوں سے بچنے کی کوشش اور استغفار کا اہتمام، ویڈیو سے پرہیز اَلْحَمْدُ لِلّٰہ نصیب ہورہا ہے۔ ملک سے باہر ملازمت تلاش کرنے کی جستجو ہے لیکن آپ کی صحبت سے محروم ہونے کا خیال آتا ہے تو یہ کوشش ترک کردیتا ہوں، آئندہ کے لئے آپ سے رہنمائی کی درخواست ہے۔

جواب:

بہرحال ایسے کام بغیر استخارہ کے نہیں کرنے چاہئیں، بہت risk والی بات ہوتی ہے۔ اور اپنا معمول مَاشَاءَ اللہ آپ جاری رکھیں۔ آپ نے فرمایا کہ تین دن مکمل ہونے میں دو دن باقی ہیں تو دو دن پورے ہوجائیں پھر مجھے اطلاع کردیں اِنْ شَاءَ اللہ اس کے بعد میں بتاتا ہوں۔

سوال نمبر 19:

سیدی وسندی ومولانا حضرت شاہ صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! اللہ پاک سے دعا اور امید ہے کہ آپ سب خیریت سے ہوں گے۔ اللہ پاک کے فضل وکرم اور آپ کی دعا سے میری تسبیحات یہ ہیں: ایک تسبیح درود شریف کی، ایک تیسرے کلمے کی، ایک استغفار کی مسلسل جاری ہے، ایک دن بیماری میں بھول گئی جسے اگلے دن کرلیا تھا۔ نماز کے بعد تین مرتبہ درود شریف، تین مرتبہ پہلا کلمہ، تین مرتبہ استغفار اور ایک مرتبہ آیت الکرسی اور جو مسنون اذکار ہیں بلاناغہ جاری ہیں، اَلْحَمْدُ لِلّٰہ۔ دس منٹ مراقبہ کہ دل ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کررہا ہے اور پندرہ منٹ لطیفۂ روح پر مراقبہ کرنا کہ ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کی آواز آرہی ہے، اَلْحَمْدُ لِلّٰہ جاری ہے۔ بعض دفعہ ناغہ ہوا جسے اگلے دن پورا کرلیا، کیونکہ جب تک مراقبہ نہ کرلوں بے چینی رہتی ہے۔ کبھی صاف سنائی دیتا ہے کبھی بالکل ذہن منتشر رہتا ہے، لیکن اللہ پاک کے سامنے حاضری کی نیت سے خاموش بیٹھی رہتی ہوں، آپ سے صحت کی دعا اور توجہ کی درخواست ہے۔

جواب:

مَاشَاءَ اللہ۔ لطیفۂ روح پر آپ پندرہ منٹ کررہی تھیں تو اب قلب اور روح پر دس دس منٹ اور لطیفۂ سِر پر پندرہ منٹ کرلیں اِنْ شَاءَ اللہ، باقی چیزیں یہی جاری رکھیں۔ اللہ جل شانہٗ مزید توفیقات سے نوازیں۔

سوال نمبر 20:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

I pray you are well dear Sheikh. اَلْحَمْدُ لِلّٰہ I started قنوتِ نازلہ at my local مسجد. My daily تلاوت has gotten better but still far from consistent. Also I agree to say I have still not manage to restart تہجد صلاہ اِنْ شَاءَ اللہ I will start from tomorrow and inform you next week. A big issue I am having right now is that I have youngest siblings and whenever I see them do anything wrong like not coming to the مسجد for صلاہ it makes me very angry. I first try to tell them nicely but some of them take advantage. They show disrespect which affects my mode. No matter how hard I try and leave me to the stick. I also feel like it is affecting my relationship with them but at the same time اللہ تعالیٰ commands us to instruct our family to pray so I get confused as to what is the best thing to do. I am far from perfect but I have noticed that whenever anyone steps outside the limits of Sharia it makes me very upset and I feel like I have to say something. Kindly advise dear Sheikh.

جواب:

اصل میں کام مقصود ہے، اپنا لہجہ، اپنا طریقہ مقصود نہیں ہے، لہٰذا جس طریقے سے ان کو فائدہ ہوتا ہو اس طریقے سے ان کو نصیحت کرنی چاہیے، آپ کو انہیں لے کے چلنا چاہیے۔ بعض دفعہ سختی کے ساتھ کام کرنے سے کام بگڑ جاتا ہے اور نرمی کے ساتھ کام ہوجاتا ہے۔ یہ بہت اچھی بات ہے کہ انسان کارگزاری کے انداز میں جیسے دوسرے لوگوں کے بارے میں مذاکرہ کے طور پر بتائے کہ فلاں اس طرح کررہا ہے، فلاں اس طرح کررہا ہے اور یہ فائدہ ہوتا ہے، وہ فائدہ ہوتا ہے، اس سے ترغیب کی شکل بن جاتی ہے اور اس میں ماننا آسان ہوجاتا ہے۔ لیکن اگر ایک طرف سے سختی کی جائے تو دوسری طرف سے بھی اس قسم کی باتیں ہونے لگتی ہیں، اس وجہ سے حکمت کو سامنے رکھنا ضروری ہے۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ سختی کا موقع ہو تو سختی بھی کی جاسکتی ہے، لیکن حکمت کے ساتھ، طریقے کے ساتھ۔ اللہ پاک ہم سب کو صحیح طور سے کام کرنے کی توفیق عطا فرمائیں۔

سوال نمبر 21:

حضرت کینیڈا میں ایک پیر آتے تھے اور ان کے شیخ اللہ یار خان کے نام سے مشہور تھے، ان کا claim تھا کہ میں نے directly حضور پاک ﷺ سے بیعت کی ہے اور بظاہر ان کے جو خلفاء آئے تھے اور لوگوں نے بتایا تھا کہ ان کے چہرے پہ بہت نور ہوتا تھا اور کافی لوگ بھی ان سے بیعت ہوئے تھے۔ اس کے متعلق کافی عرصے سے ذہن میں سوال تھا، میں نے کہا ابھی موقع ہے تو آپ سے پوچھ لیتا ہوں۔

جواب:

اصل میں آپ ﷺ سے جو بیعت ہیں اس کا مطلب کیا ہے؟ جو باقی مشائخ بیعت لیتے ہیں تو کس سے لیتے ہیں؟ اپنے سے بیعت کرواتے ہیں۔ باقاعدہ کہتے ہیں کہ میں آپ ﷺ سے آپ ﷺ کے خلفاء کے ذریعے سے بیعت کرتا ہوں اور فلاں فلاں کو فلاں کے ذریعے سے ہاتھ میں ہاتھ دیتا ہوں۔ مثلاً میں حدیث شریف سنتا ہوں، تو کیا میں حدیث شریف آپ ﷺ سے سن رہا ہوں؟ نہیں! بلکہ میں اپنے استاد سے سن رہا ہوں یا جو میرے شیخ ہوں ان سے سنتا ہوں، پھر انہوں نے جن سے سنا ہے، پھر آگے انہوں نے جن سے سنا ہے، تو یہ سلسلہ وہاں تک پہنچ جاتا ہے اس کو کہتے ہیں سلسلہ۔ لہٰذا یہ سلسلۂ حدیث ہے، اس طرح سلسلۂ صحبت بھی ہے، سلسلۂ بیعت بھی ہے۔ چنانچہ یہ سلسلے مَاشَاءَ اللہ certain ہیں، ان کا ثبوت موجود ہے، ان کے اندر کوئی imigination نہیں ہے یعنی ظنی بات نہیں ہے، real بات ہے۔ کیونکہ جس پہ فیصلہ ہو کہ یہ حدیث صحیح ہے یا غلط ہے تو یہ certain بات ہوگی یا نہیں ہوگی؟ کیونکہ اس پہ پورا دین ہی depend کررہا ہے۔ تو یہ پکی بات ہے۔ لہٰذا پکی بات کو چھوڑ کر انسان کچی بات پہ کیوں جائے! ایک آدمی claim کرتا ہے تو اس کا claim اسی کے ساتھ ہے، ہم اس کے claim پہ نہیں جائیں گے کیونکہ وہ ایک hidden چیز ہے، ظنی چیز ہے، لہٰذا ہم کسی کی hidden چیز پر نہیں جاتے۔ ہاں البتہ ان کی بعض چیزیں جن کا آپ نے نام لیا ہے، میں ان کی بات کررہا ہوں۔ بعض چیزیں تصوف کے لحاظ سے objectionable ہیں، وہ کیا ہیں؟ وہ کہتے ہیں کہ اویسی سلسلہ ہے، اویسی سلسلہ Doesn't exist۔ کیونکہ اویسی نسبت ہوسکتی ہے لیکن اویسی سلسلہ نہیں ہوتا۔

دراصل تین قسم کے Heat transfer modes ہیں Conduction, convection ,radiation.

conduction میں ذرّے سے ذرّہ لیتا ہے بالکل sequentially یعنی heat جہاں سے شروع ہو کے وہاں تک پہنچے، درمیان میں medium ہوتا ہے اس medium سے گزرتے ہوئے۔ جیسے آپ قریب قریب تقریباً دس فٹ تک اینٹیں کھڑی کردیں، ایک اینٹ کو آپ دھکا دیں گے تو وہ دوسری اینٹ کو پھر وہ تیسری کو اس طرح ہوتے ہوتے ساری اینٹیں گرجائیں گی، یہ سلسلہ ہے۔ اور سلسلہ کہتے ہی زنجیر کو ہیں کیونکہ اس کی کَڑیاں آپس میں ملی ہوتی ہیں اس وجہ سے اس کو سلسلہ کہتے ہیں۔ دوسرا طریقہ convection کا ہے کہ ایک چیز move کرجاتی ہے۔ مثلاً ایک چیز ٹھنڈی ہے وہ گرم چیز کے پاس جا کر گرم ہوکر جگہ تبدیل کرلیتی ہے۔ پھر اس میں ٹھنڈی چیز آتی ہے، اس کے سامنے پھر وہ گرم ہوکر چلی جاتی ہے، جیسے پانی گرم ہوتا ہے۔ اور تیسرا طریقہ radiation ہے، radiation میں سورج کی مثال لے لیں، جیسے سورج اور ہمارے درمیان خلاء ہے لیکن جو fotons آرہے ہیں وہ direct زمین کے اوپر پڑتے ہیں درمیان میں کوئی conduction نہیں ہے، convection نہیں ہے بلکہ سیدھے زمین پر پڑتے ہیں۔ لہٰذا سورج کو کیا ضرورت ہے کہ وہ conduction والا یا convection والا ذریعہ اختیار کرے، کوئی ضرورت ہی نہیں ہے۔ چنانچہ اویسی نسبت کے لئے سلسلے کی ضرورت نہیں ہے اور یہ عام نہیں ہے، یہ انسان خود نہیں کرسکتا بلکہ اُدھر سے decide ہوتا ہے کہ یہ فلاں پاس چلا جائے۔ بہرحال یہ اویسی نسبت exist کرتی ہے کہ انسان آپ ﷺ سے براہِ راست فیض حاصل کرسکتا ہے، اگر اللہ چاہے تو کوئی بھی حاصل کرسکتا ہے، کسی نبی سے بھی، کسی ولی سے بھی، کسی صحابی سے بھی لیکن وہ اویسی نسبت ہوتی ہے، اویسی سلسلہ نہیں ہوتا اس کو آپ آگے communicate نہیں کرسکتے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے کسی نے خواب میں آپ ﷺ کی زیارت کی اور آپ ﷺ نے ان کو کوئی بات بتائی، اب علماء کرام بتائیں کہ جس نے خواب میں زیارت کی کیا اس کو صحابی کہیں گے؟ حالانکہ صحیح حدیث شریف ہے:

’’مَنْ رَاٰنِيْ فِيْ الْمَنَامِ فَسَيَرَانِيْ فِيْ الْيَقَظَةِ، أَوْ لَكَأَنَّمَا رَاٰنِيْ فِيْ الْيَقَظَةِ، لَا يَتَمَثَّلُ الشَّيْطَانُ بِيْ‘‘ (مسلم شریف حدیث نمبر: 5920)

ترجمہ: ’’جس شخص نے خواب میں مجھے دیکھا وہ عنقریب بیداری میں بھی مجھے دیکھ لے گا یا (فرمایا:) گویا اس نے مجھے بیداری کے عالم میں دیکھا، شیطان میری صورت اختیار نہیں کرسکتا‘‘۔

لیکن اس کو ہم صحابی نہیں کہتے۔ اور آپ ﷺ نے خواب میں جو بات بتائی، کیا اس کو حدیث شریف کہیں گے؟ نہیں کہیں گے۔ لہٰذا ہم اس کو سلسلہ نہیں کہیں گے، نہ اس کو آگے بڑھا سکتے ہیں، بس جس تک آگیا اس تک آگیا اس سے نسبت میں قوت آجاتی ہے۔ کیونکہ نسبت تو سلسلے کے ذریعے سے حاصل ہوتی ہے، البتہ اس میں اویسی ذریعے سے تقویت ہوجاتی ہے۔ جو اویسی ذریعے سے نسبت حاصل ہوتی ہے، اس میں سلسلے کی نسبت تو آگے نہیں بڑھا سکتے ممنوع ہوتا ہے، یعنی وہ اس کی بنیاد نہیں ہے۔ جیسے آپ نے خواب میں آپ ﷺ سے کوئی بات سن لی اور اس کی بنیاد پر کوئی فقہ قائم کرلی، فقہ تو اس پر نہیں چل سکتی۔ لہٰذا یہ تمام اصولی باتیں ہیں اور اُن کا claim غلط ہے کیونکہ اس کو اس وقت کے اللہ والوں نے غلط قرار دیا ہے، جن میں میرے شیخ مولانا محمد اشرف سلیمانی رحمۃ اللہ علیہ نے سختی کے ساتھ یہ الفاظ فرمائے: فرمایاکھنڈ بنایا ہوا ہے) پھر میں نے حضرت سے اجازت لی، میں نے کہا حضرت آپ نے جو اس کے بارے میں ہمیں فرمایا، کیا اس کو آگے بتا سکتے ہیں؟ فرمایا: ہاں اگر کسی کو اس سے بچانا ہو تو بتا سکتے ہیں۔ چنانچہ یہ اصولی باتیں ہیں، ہمیں وہ نہیں کرنا چاہیے۔ جو اس کے through آئے اور پھر اس قسم کے claim کریں، تو پھر ہم محتاط رہیں۔

ان کے لطائف اور ہیں ہماری طرح نہیں ہیں، ویسے تو ہندو بھی جاری کرتے ہیں، پھر کیا ان کو بھی بزرگ کہیں گے؟ ہندو لطائف کو چکر کہتے ہیں۔ تو اس کا مطلب ہے کہ یہ ہندو بھی کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ شیطان ہمارے لطائف کو استعمال کرتا ہے، کہتے ہیں جب انسان music سنتا ہے تو ہمارے لطیفۂ قلب اور لطیفۂ روح پر شیطان اپنے پیر رکھ کر اس کو دباتا ہے۔ تو اس سے انسان کے اندر جوش پیدا ہوتا ہے۔ ظاہر ہے اس قسم کی چیزیں بھی ہیں۔ بہرحال ایک تو یہ بات ہے کہ ان کے لطائف اس طرح نہیں ہوتے وہ سانس کے ذریعے سے پاسِ انفاس کا ذکر کرتے ہیں، لیکن وہ بھی ہمارے مشائخ کی طرح نہیں کرتے ہیں۔ ہمارے مشائخ اس طریقے سے پاسِ انفاس کرتے ہیں کہ وہ بغیر کسی محنت کے خود بخود ہورہا ہوتا ہے، اس میں کوئی ارادہ نہیں ہوتا۔ جیسے قلبی ذکر خود بخود ہوتا ہے اس طرح پاسِ انفاس بھی ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ یا ’’اَللہُ‘ یا ’’ھُوْ اَللّٰهْ‘‘ یہ اس طریقے سے خود بخود ہورہا ہوتا ہے اور وہ تو باقاعدہ اختیاری طور پہ کرتے ہیں جس سے ناک کی گندگی باہر آتی ہے، تو یہ بڑا مسئلہ ہوتا ہے، وہ تو عجیب چیزیں ہیں، آدمی حیران ہوتا ہے۔ اس وجہ سے ان چیزوں میں نہیں پھنسنا چاہیے۔

سوال نمبر 22:

حضرت معمولات و تسبیحات وغیرہ ذکر واذکار میں کافی دیر لگتی ہے۔ سوال و جواب کی مجالس میں سنتے ہیں کہ بعض حضرات بہت زیادہ کرتے ہیں اور پھر آہستہ آہستہ اس میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ یہ دیکھ کر طبیعت پریشان ہوجاتی ہے کہ اتنا زیادہ مجاہدہ کیسے کریں گے۔

جواب:

جی بالکل! اصل میں ہم نے اپنے بزرگوں کے قصے تو سن لیے ہیں لیکن انہوں نے جتنی محنت کی تھی وہ ہم نے نہیں سنا۔ مولانا الیاس رحمۃ اللہ علیہ نے کتنی محنت کی، مولانا زکریا صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے کتنی محنت کی، ہمارے شیخ مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے کتنی محنت کی، مولانا حسین مدنی رحمۃ اللہ علیہ نے کتنی محنت کی، حضرت تھانوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے کتنی محنت کی، حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ نے کتنی محنت کی۔ لوگوں نے اتنی محنت کی ہے کہ ہم سنیں تو شاید انکار کر دیں کہ ایسا نہیں ہوسکتا۔ ہمارے ڈاکٹر ارشد صاحب ہیں، ابھی بھی موجود ہیں، کہتے ہیں کہ میں عشاء کے بعد مراقبہ شروع کرتا اور فجر کی آذان ہوجاتی۔ تو لوگوں نے بڑی محنتیں کی ہیں اور محنت سے ہی کچھ ملتا ہے یعنی اس طرح تو نہیں ہوتا کہ تمنا سے ساری چیزیں مل جاتی ہیں، بڑی بڑی محنتیں ہوئی ہیں۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ ’’اَللّٰہ‘‘ کا چوبیس ہزار صبح اور چوبیس ہزار شام کا ذکر بتاتے تھے۔ میں بھی بتاتا ہوں لیکن ہر ایک کو نہیں، پھر اس کے حساب سے ان کی promotion بھی ہوتی ہے، ہر چیز میں انسان کو اللہ ہی یاد آئے یہ ایک stage ہے جو کچھ کرنے کے بعد ہی آتی ہے۔ البتہ ہم سب کو اس طرح نہیں بتاتے لیکن جن کو بتاتے ہیں ان میں جگہ ہوتی ہے اور وہ کر بھی لیتے ہیں، Subject to condition ہے ہر آدمی ایک جیسا نہیں ہوتا۔

سوال نمبر 23:

اگر ذکر تیزی سے کرنا چاہیں تو اس پہ رہنمائی فرما دیں۔

جواب:

speed بالکل بڑھا سکتے ہیں اگر اس کا اثر زائل نہ ہوتا ہو، بلکہ بعض دفعہ تو بڑھانا پڑتا ہے اور وہ جلدی جلدی کرنا ہوتا ہے کیونکہ اسی سے effect پڑتا ہے، جیسے ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ اسمِ ذات کا میں نے آپ کو بتایا تھا کہ ایک سانس میں اس کو جلدی جلدی کرنا ہوتا ہے، وہ تو ہے ہی جلدی جلدی کرنے کا، لیکن باقی Subject to condition ہیں، کیونکہ صرف سَر سے گزروانا ٹھیک نہیں ہے، بلکہ اس کا اثر لینا ہوتا ہے۔ لہٰذا اثر لینے کے لئے جس طریقے سے وہ زیادہ مؤثر ہو اس طریقے سے کرنا چاہیے، چاہے آہستہ زیادہ مؤثر ہو یا جلدی زیادہ مؤثر ہو۔ حضرت سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ کا کلام ہے:

ابھی تو مشقِ فغان کنج میں ہزار کرے

اثر کے واسطے کچھ اور انتظار کرے

جو آج لذتِ درد نہاں کا جویا ہے

وہ پہلے سوز سے دل کو تو داغدار کرے

انہیں کے دینے سے ملتا ہے جس کو ملتا ہے

وہی نہ چاہیں تو کوشش کوئی ہزار کرے

ادب سے دیکھ لیں مشتاق دور سے ان کو

مجال ہے جو انہیں کوئی ہمکنار کرے

سنا تو دے اسے افسانۂ غمِ ہجراں

وہ اعتبار کرے یا نہ اعتبار کرے

وہ اپنے کان سے سنتے ہیں میرے نالوں کو

وہ طرزِ نالہ ہو جو ان کو بے قرار کرے

تیری نظر میں سے تاثیرِ مستیٔ صہبا

تیری نگاہ جسے چاہے بادہ خوار کرے

تیری نگاہ میں دونوں خواص رکھے ہیں

وہ چاہے مست کرے، چاہے ہوشیار کرے

ابھی تو مشقِ فغان کنج میں ہزار کرے

حضرت کو جب خلافت ملی تھی اس پر یہ اشعار کہے تھے یعنی میں تو کچھ بھی نہیں ابھی تو یہ کرنا ہے، یہ کرنا ہے وغیرہ۔ لہٰذا کیفیت یہ ہونی چاہیے کہ انسان جو بھی کرے اس کو ناکافی سمجھے، کیونکہ target بہت اونچا ہے، معاملہ simple نہیں ہے بس وہی چاہے تو ہوجاتا ہے، انسان کے بس میں نہیں ہے انسان تو اپنی کوششیں تمام کر دے پھر بھی وہ نہ چاہے تو نہیں ہوسکتا۔ لیکن اپنی کوششوں کو کافی سمجھنا درست بات نہیں ہے، جو بھی ہے اس کے فضل سے ہے اور ہم کوشش کریں، اس کے حساب سے اتنے target کو ذہن میں رکھتے ہوئے۔ اللہ بچائے، اللہ نصیب فرمائیں۔

سوال نمبر 24:

السلام علیکم۔ حضرت ہمارے ہاں ابھی ربیع الاول کا آخری روز ہے ابھی مغرب نہیں ہوئی، کیا ہم مغرب سے پہلے پہلے درود پاک بھیج سکتے ہیں؟ کیونکہ آپ کے ہاں ربیع الاول ختم ہوگیا ہے۔

جواب:

جی پیش کرسکتے ہیں، کیونکہ آپ کے ہاں جب تک مغرب کا وقت نہیں ہوگا تو آپ کا ربیع الاول جاری ہے، لہٰذا مَاشَاءَ اللہ اس میں آپ شامل کرسکتے ہیں، ہماری مغرب تو standard نہیں ہے، ان کی اپنی مغرب ہوگی۔ ویسے میں عرض کرتا ہوں کہ یہ تو ایک ذریعہ ہے، ورنہ صحیح بات میں عرض کرتا ہوں کہ درودِ پاک کا تو Never ending یعنی اس کا تو کوئی آخر نہیں ہے۔ البتہ اس کو ہم صرف اس لئے کررہے ہیں کہ ایک اچھا start لے لیں اور پھر اس کو مَاشَاءَ اللہ maintain رکھیں اور اَلْحَمْدُ لِلّٰہ یہ ہوا ہے۔ کیونکہ پہلے وقت میں جو مجھے یاد ہے پہلے سال ہمارے ساتھیوں نے ایک کروڑ پڑھا تھا، پھر اگلی دفعہ تقریباً چار کروڑ پڑھا تھا، پھر اگلی دفعہ آٹھ کروڑ expect کررہے تھے، لیکن سولہ کروڑ ہوگیا تھا، اس کے بعد میرے خیال میں مجھے یاد نہیں ہے کوئی step نہیں تھا، لیکن تریسٹھ کروڑ تک پہنچ گیا تھا۔ درمیان میں Corona آگیا تھا تو Corona کی وجہ سے بہت ساری چیزیں متاثر ہوئیں تو یہ بھی متاثر ہوگیا تھا۔ پھر Corona کے بعد دوبارہ شروع ہوا ہے تو اَلْحَمْدُ لِلّٰہ ابھی جو ہماری معلومات ہیں فی الحال پورا نہیں ہوا، لیکن اطلاعات ابھی جاری ہیں، تو ابھی تک جو اطلاعات آئی ہیں اس کے حساب سے تقریباً سینتیس، اڑتیس کروڑ تک ہوگیا ہے اَلْحَمْدُ لِلّٰہ۔ یہ اچھی بات ہے کہ لوگوں نے اس کو چھوڑا نہیں ہے، ربیع الاول کے بعد گزشتہ جو مہینہ تھا اس میں بھی غالباً دو کروڑ ہوگیا تھا۔ بہرحال میں اکثر عرض کرتا رہتا ہوں کہ بہت سارے لوگوں کو اللہ تعالیٰ درود شریف پڑھنے کی توفیق دے رہے ہیں اور مستقل طور پر ہزار، دس ہزار، پانچ ہزار لوگوں کا معمول ہے اس طرح پڑھتے ہیں، یہ چیزیں کہاں سے شروع ہوئیں؟ یہ ہماری درود شریف کی مجالس سے شروع ہوئیں، لہٰذا فائدہ ہوا ہے۔

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ

سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات - مجلسِ سوال و جواب