کثیر تعداد میں ہونے کے باوجود مسلمانوں کا اپنے دشمنوں پر غلبہ نہیں ہو رہا۔ اس کی کیا وجہ ہے؟

سوال نمبر 1266

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی




اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال:

آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی جماعت تیار کی، پھر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے تابعین کی جماعت تیار کی، اور انہوں نے تبع تابعین کی جماعت تیار کی۔ ان میں سے ہر جماعت کے افراد نے دین کے مختلف شعبوں میں اپنی خدمات سر انجام دیں اور ہر جماعت کے افراد نے اپنے اپنے دور میں مسلمانوں کے دشمنوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور ان ادوار میں اکثر مسلمانوں کا اپنے دشمنوں پر غلبہ رہا۔ ہمارے اس دور میں بھی دین کے ہر شعبے کے ہر بڑے فرد سے ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں نئے نئے افراد کسبِ فیض کر رہے ہیں اور اس طرح دین کا وہ شعبہ مسلسل ترقی کر رہا ہے، لیکن اس کے باوجود مسلمانوں کا اپنے دشمنوں پر غلبہ نہیں ہو رہا۔ اس کی کیا وجہ ہے؟

جواب:

اصل میں سارے شعبے اپنے اپنے طور پر مکمل ہونے چاہئیں، ان میں کمی نہیں ہونی چاہئے۔ مثلاً: ایک شعبہ بہت اچھا جا رہا ہو اور دوسرا شعبہ کمزور ہو، تو اس کی کمزوری کی وجہ سے کام گڑبڑ ہو جائے گا۔ مثلاً: ایک پیَّہ ٹھیک ہو اور دوسرا ٹھیک نہ ہو، تو گاڑی کیسے چلے گی!

تعلیم اور تربیت ایسے الفاظ تھے، جو بالکل اکٹھے چلے آ رہے تھے، یعنی جب کوئی تعلیم کا لفظ بولتا تھا، تو ساتھ تربیت کا لفظ بھی ہوتا تھا۔ ان میں کوئی فرق نہیں تھا۔ مگر آج کل تعلیم پر تو زور ہے، لیکن تربیت شاید ہی کہیں کہیں ہو۔ تربیت کا معاملہ بہت پیچھے رہ گیا۔ کسی کالج، کسی یونیورسٹی، کسی مسجد، کسی جگہ پہ تربیت کا نظام نہیں ہے، یعنی اگر ہے، تو بہت کم ہے، جو نہ ہونے کے برابر ہے۔ جہاں تک خانقاہوں کی بات ہے، تو خانقاہیں ہیں ہی تربیت گاہیں۔ اور خانقاہ بنتی ہے کسی اللہ والے کی توجہ، فکر اور محنت سے۔ جب اللہ جل شانہ ان کو اس کی توفیق دیتے ہیں، تو ان کے گرد لوگ جمع ہو جاتے ہیں اور تربیت کا نظام شروع ہو جاتا ہے۔ لیکن ہمارے پاکستان اور ہندوستان میں ایک بڑا مسئلہ ہے، شاید اور جگہ بھی ہو، وَاللہُ اَعْلَمُ، اس کا تجربہ ہمیں نہیں ہے۔ وہ مسئلہ یہ ہے کہ لوگ بزرگ کی وفات کے بعد اس کی اولاد پہ جمع ہوتے ہیں، کسی اور پہ جمع نہیں ہوتے۔ چنانچہ اگر اولاد کی تربیت ہو چکی ہو، تو سُبْحَانَ اللہ! پھر تو بالکل ٹھیک ہے۔ لیکن اگر تربیت نہ ہو چکی ہو اور باگ ڈور سنبھال لی، تو وہ خانقاہ اپنی اصل حالت پہ نہیں رہے گی۔ خانقاہ کا نام تو رہے گا، لیکن حقیقی خانقاہ نہیں ہو گی۔ وہاں صرف رسومات ہوں گی۔ اور یہ چیز multiply ہو رہی ہے۔ چنانچہ پرانی خانقاہوں میں یہ مسئلہ ہے اور نئی خانقاہیں نہیں بن رہیں۔ نتیجتاً تربیت کا عنصر کم سے کم ہو رہا ہے۔ اور تعلیم بغیر تربیت کے تعلِّی پیدا کرتی ہے، یعنی انسان اپنے آپ کو کچھ سمجھتا ہے کہ میں تو عالم ہوں، میں تو یوں ہوں۔ یہ مسئلہ صرف دینی تعلیم میں نہیں ہے، دنیوی تعلیم میں بھی ہے۔ میں ڈاکٹر ہوں، انجینئر ہوں، پروفیسر ہوں، فلاں ہوں۔ یہی تعلِّی ہے۔ ہم میٹنگوں میں شرکت کرتے رہے ہیں، وہاں ایسی تعلِّی ہوتی ہے کہ آدمی حیران ہو جاتا ہے۔ بات کرنے کا ایسا انداز کہ ان سے استفادہ بڑا مشکل ہوتا ہے۔ یہ تعلِّی تربیت سے ہی ختم ہو سکتی ہے۔ لیکن تربیت کا سامان ہی نہیں ہے۔ تربیت کا سامان بھی اگر کوئی کرتا ہے، تو لوگ اس کو بھی دنیاوی مقاصد کے لحاظ سے استعمال کرتے ہیں۔ اور یہ بہت بڑا مسئلہ ہے۔ جب میں عقل، دل اور نفس کے موضوع پر یونیورسٹیوں میں لیکچر دے رہا تھا، تو انہوں نے یہ ساری باتیں قبول کیں۔ انہوں نے کہا کہ واقعی یہ بنیادی چیزیں ہیں، لیکن وہ ان (عقل، دل اور نفس) کے دنیا کے استعمال میں interested تھے۔ سکول بنتے ہیں، اوپر نام لکھا جاتا ہے: اسلامی سکول، اسلامی ماحول کے مطابق۔ جب اندر جائیں گے، تو وہی انگریز کے طریقے ہوں گے۔ جب آپ کہیں گے کہ یہ کیا ہے؟ کہتے ہیں: مجبوری ہے، کیا کریں۔ اب بتائیں کہ کہاں جائیں، پھر نتیجہ سامنے ہے۔ لہٰذا اس سے پھر گِلہ نہیں ہونا چاہئے کہ نتیجہ کیا ہو۔ آپ گندم بوئیں گے، تو گندم ہی نکلے گی۔ جَو بوئیں گے، تو جَو ہی نکلیں گے۔ گندم کی جگہ جَو نہیں آ سکتی، جَو کی جگہ گندم نہیں آ سکتی۔ چنانچہ ہمارے ہاں یہ مسئلہ ہے۔ اس لئے ہمیں خانقاہوں کو آباد کرنا پڑے گا اور خانقاہوں کو صحیح کرنا پڑے گا۔ حضرت شیخ الحدیث رحمۃ اللہ علیہ نے اس فکر کی وجہ سے اخیر میں یہ مسئلہ اس طرح حل کرنے کی کوشش کی کہ اعتکاف کو خانقاہ کا نعمُ البدل بنایا جائے۔ حضرت اعتکاف ہماری طرح دس دن کا نہیں کرتے تھے، چالیس دن کا اعتکاف ہوتا تھا۔ اور چالیس دن میں تبدیلی آ جاتی ہے۔ اب خانقاہیں نہیں ہیں، اگر ہیں تو بہت تھوڑی ہیں، اور صحیح خانقاہیں تو اور بھی تھوڑی ہیں۔ ہمارے سامنے کئی خانقاہیں برباد ہو گئیں۔ چنانچہ یہی بنیادی وجہ ہے کہ ہم اس چیز سے غافل ہیں۔ خانقاہوں کا صحیح نظام نہیں بن رہا، جس کی وجہ سے مدرسوں میں لوگ بغیر تربیت کے پاس ہو رہے ہیں۔ مساجد میں بغیر اخلاص کے لوگ نماز پڑھ رہے ہیں۔ بغیر اخلاص کے لوگ جہاد کر رہے ہیں۔ بغیر اخلاص کے لوگ دعوت و تبلیغ میں چل رہے ہیں۔ آج کل کون سی چیز ٹھیک ہو رہی ہے؟ ہر جگہ مسائل ہیں۔ اور یہ مسائل اسی وجہ سے ہیں کہ یہ بنیادی عنصر کم ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ باقی چیزیں ضروری نہیں ہیں۔ مدرسہ بھی ضروری ہے، کیونکہ اس کا علم سے تعلق ہے۔ لہٰذا اگر خانقاہیں بہت زیادہ ہو جائیں اور مدرسے کم ہو گئے، تو علمی نقصان ہو گا، پھر جہالت پھیلے گی۔ اور یہ دوسرا نقصان ہو گا۔ اسی طرح دعوت و تبلیغ کم ہو گی، تو اس کا اپنا نقصان ہے۔ اگر دینی سیاست کی بات کم ہو گی، تو اس کا اپنا نقصان ہے۔ یعنی ہر شعبہ اپنے لحاظ سے مکمل ہونا چاہئے۔ سارے شعبوں کی ضرورت ہے۔ میں نے خانقاہوں کی بات اس لئے کی کہ باقی شعبوں میں کسی نہ کسی درجے میں کام ہو رہا ہے، لیکن خانقاہوں کا کام کمزور ہے۔ اسی وجہ سے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ جیسے شخص جو کہ ہر فن میں یدِ طولیٰ رکھتے ہیں، فرماتے ہیں کہ میرا دل چاہتا ہے کہ لوگ مجھے صرف تصوف کے کام کے لئے چھوڑ دیں، کیونکہ باقی شعبوں میں لوگ ہیں، اس میں بہت کم ہیں، اس لئے میں چاہتا ہوں کہ میں اس شعبہ کی خدمت کروں۔ حضرت تھانوی رحمہ اللہ علیہ نے ہزار سے زیادہ کتابیں لکھی ہیں اور ہر شعبے میں ان کا ایک مقام ہے، وہ فرماتے ہیں کہ مجھے تمام شعبوں سے disconnect کر دو، صرف ایک شعبے کے ساتھ connected رہنے دو۔ تو ہم جیسے لوگ تو دوسرے کام جانتے بھی نہیں ہیں، اس کے باوجود ہم درس بھی دینے لگیں اور جہاد بھی کرنے لگیں، اس طرح اور بھی دینی شعبے ہیں۔ ایک تو یہ ہے کہ جہاد فرض ہو جائے، جس کو نفیرِ عام کہتے ہیں، اس میں تو سب کو جانا پڑے گا، اس میں تو کوئی بات نہیں ہے۔ اسی طرح دعوت و تبلیغ کا بھی یہی معاملہ ہے۔ ہمارے پاس خانقاہ میں تبلیغی جماعت کا ایک عالم ساتھی آیا تھا، وہ مجھے کہتا ہے کہ حضرت! میں بھی مدرسہ چلاتا ہوں، میں نے مدرسہ کسی اور کے حوالہ کیا ہے، وہ ما شاء اللہ ادھر پڑھا رہے ہیں۔ آپ بھی اس طرح کریں۔ میں نے کہا: خانقاہ اور مدرسہ ایک جیسے نہیں ہوتے، میں اپنے مریدوں کو کس کے حوالے کروں؟ اس میں یہ طریقہ ہے ہی نہیں۔ میں نے کہا: آپ مدرسے کی بات کر رہے ہیں، مدرسے کے لئے یہ طریقہ ٹھیک ہے، لیکن خانقاہ کے لئے ٹھیک نہیں ہے۔ پھر میں نے ﴿عَبَسَ وَتَوَلّٰۤى اَنْ جَآءَهُ الْاَعْمٰى (عبس: 1-2) والی بات کی۔ گویا یہ بات لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتی، اس کی اہمیت لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتی۔ نتیجتاً یہی کچھ ہوتا ہے، جو ہو رہا ہے، جو بالکل سامنے ہے۔ اللہ جل شانہ ہم سب کو ان باتوں کی سمجھ عطا فرما دے اور پھر اس کے مطابق عمل بھی عطا فرمائے۔

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ