اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ
اَمَّا بَعْدُ
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال نمبر 1:
حضرت جی! مجھے تین باتیں دریافت کرنی ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ کیا مراقبہ نبی کریم ﷺ سے ثابت ہے؟ دوسری بات یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے: ’’اَفْضَلُ الذِّکْرِ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘ تو آپ ’’اَللہ، اَللہ‘‘ کا ذکر کیوں تجویز کرتے ہیں؟ اور تیسری بات یہ کہ لطیفۂ قلب وغیرہ پر مراقبہ کہاں سے ثابت ہے؟
ان تمام سوالات سے مقصود آپ پر اعتراض یا آپ کی گستاخی نہیں ہے بلکہ میں جب بھی مراقبہ کرنے لگتی ہوں تو یہ سب باتیں میرے ذہن میں آتی ہیں یہاں تک کہ ان خیالات کی وجہ سے میں مراقبہ کم کرتی ہوں، نبی کریم ﷺ کے بتائے ہوئے اعمال بہت محبت اور شوق سے کرتی ہوں، بزرگوں سے بھی محبت ہے، کسی پر جھوٹ کا گمان بھی نہیں ہے، لیکن مسنون اعمال سے محبت کی وجہ شاید یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ سے میرا تعلق زیادہ ہے۔ ان شاء اللہ۔
جواب:
میرا خیال ہے کہ آپ ہمارے بیانات باقاعدگی سے نہیں سنتیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ باتیں میں پہلے کئی بیانات میں عرض کر چکا ہوں لیکن چوں کہ آپ کو اب تک ان باتوں کا علم نہیں ہوا، اس لئے پوچھنے کی ضرورت پڑ گئی۔
اصل میں ذریعہ اور مقصد کو سمجھنا چاہیے کہ مقصد کیا ہے؟ اور ذریعہ کیا ہے؟ مقصد نہیں بدلتا، ذرائع بدلتے رہتے ہیں، مقصد بدلنے سے اگر وہ دین کا کام ہے تو وہ بدعت بن جاتا ہے، اگر آپ اس مقصد کو بدل لیں گے تو بدعت بن جائے گی اور اگر آپ ذریعہ کو مقصد بنانا شروع کر لیں گے تو یہ بھی بدعت ہو جائے گا، اس لئے ذریعہ کو ذریعہ سمجھ کر کیا جائے اور مقصد کو مقصد سمجھ کر کیا جائے تو وہ بدعت نہیں ہے، مقصد مستقل ہوتا ہے جب کہ ذرائع تبدیل ہوتے رہتے ہیں، ذرائع تبدیل ہونے کی وجہ یہ ہے کہ حالات تبدیل ہوتے رہتے ہیں، لوگوں کے مزاج بدلتے رہتے ہیں، جس کی وجہ سے بیماریاں بھی تبدیل ہوتی رہتی ہیں، جب بیماریاں بدل جاتی ہیں تو علاج بھی بدل جاتا ہے۔
یہ ساری چیزیں معالجہ کے قبیل سے ہیں، مراقبہ بھی ایک معالجہ ہے لہذا اس کو ہم لوگ اسی معنی میں اختیار کریں گے، وہ جو مسنون مراقبات ہیں جو قرآن میں بیان کیے گئے ہیں، وہ اس مراقبہ کا نتیجہ ہوتے ہیں جن میں اس مراقبے کا فائدہ ہونے لگتا ہے۔ جیسے اللہ پاک نے فرمایا ہے کہ انسان جب کوئی بات زبان سے نکالتا ہے تو اس بات کو اچکنے والا موجود ہوتا ہے، اگر کسی شخص کو اللہ پاک کے اس فرمان کا خیال ہو گا تو وہ کبھی بھی غلط بات منہ سے نہیں نکالے گا۔ اسی طرح دوسرے مواقع پر بھی ایسی چیزوں کا ذکر ہے۔
ہم لوگ جو مراقبہ کراتے ہیں، یہ معالجہ ہے، ذریعہ ہے، اگر آپ اس کو مقصد سمجھ کر کریں گے تو ہم آپ کو منع کریں گے، مقصد سمجھ کر نہیں کرنا بلکہ ذریعہ سمجھ کر کرنا ہے، اور ذریعہ سب کے لئے ایک نہیں ہوتا، اسی وجہ سے بعض لوگوں کو ہم یہ مراقبہ نہیں بتاتے، ان کو دوسرے ذرائع سے فائدہ ہوتا ہے۔
نیز یہ بات بھی سمجھیں کہ ہمارے کچھ اعتقادات ہیں، عقائد ہیں، جن کا پختہ ہونا ضروری ہے۔ مثلاً ہمارا عقیدہ ہے کہ سب کچھ اللہ کرتے ہیں، اگر اس عقیدے کو پختہ کرنے کے لئے آپ یہ سوچیں کہ اللہ جل شانہ سب کچھ کرتے ہیں اور اس کا فیض اللہ تعالیٰ کی جانب سے آپ ﷺ کے واسطے سے شیخ کی طرف اور شیخ کی طرف سے میرے قلب پر آ رہا ہے تو اس سے وہ عقیدہ پختہ ہو جائے اور واقعی آپ ہر چیز کو اللہ پاک سے سمجھنے لگیں گی تو فائدہ ہو گا یا نقصان؟ ظاہر ہے کہ فائدہ ہو گا۔ اگر کوئی کہے کہ مجھے اس مراقبہ کے بغیر بھی یہ چیز حاصل ہے تو ہم اس کو کہتے ہیں کہ تم نہ کرو۔
حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اصل تین چیزیں ہیں: علم، عمل اور اخلاص۔ اگر یہ تین چیزیں کسی کی درست ہیں تو اس کو کچھ بھی کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ علم نافع اس کے پاس موجود ہو پھر اس علم پر عملِ صالح حاصل ہو اور عملِ صالح سے اللہ کو راضی کرنے کی نیت ہو تو پھر اور کیا چاہیے؟ لیکن اگر ان چیزوں میں کچھ خرابی ہے تو جن چیزوں کی وجہ سے خرابی ہے، انہیں درست کرنا تو ضروری ہے اور انہیں درست کرنے کا جو طریقہ کار ہے، وہ یہ طریقت اور تصوف ہے۔
ہم سب جانتے ہیں کہ شیطان ہے، شیطان کا وجود قرآن سے بھی ثابت ہے اور حدیث سے بھی ثابت ہے، شیطان کا وسوسہ ڈالنا اور گمراہ کرنا بھی ثابت ہے۔ نفس کا شر بھی قرآن و حدیث سے ثابت ہے۔ اب نفس کے شر کو کیسے دور کیا جائے؟ اس کا طریقہ ہر شخص کے لئے الگ الگ ہے، میں اس کی مثال دیتا ہوں کہ ایک شخص کو مال کے ساتھ محبت ہے تو وہ اس کے لئے لذت بھی قربان کر دے گا، اپنے اوپر بھی خرچ نہیں کرے گا۔ ایک کہاوت ہے کہ ’’چمڑی جائے، پَر دمڑی نہ جائے‘‘۔ جیسے بعض بنیوں کو پیسوں کے ساتھ اتنی محبت ہوتی ہے کہ وہ اپنے اوپر بھی خرچ نہیں کر سکتے، مال کے لئے وہ لذت بھی قربان کر دیتے ہیں اور عزت بھی۔ یہ جو ڈوم وغیرہ ہیں، ان کی کوئی عزت نہیں ہوتی کیوں کہ انہوں نے مال کے لئے وہ عزت قربان کی ہوتی ہے اور بعض لوگ عزت کے لئے مال اور لذت دونوں قربان کر دیتے ہیں اور بعض لوگ لذات کے لئے مال اور عزت قربان کردیتے ہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہر ایک کی بیماری الگ الگ ہے، جب ہر ایک کی بیماری الگ الگ ہے تو علاج بھی مخلتف بتایا جائے گا، ٹی بی والے کو کینسر کا علاج نہیں بتایا جائے گا اور کینسر والے کو فالج کا علاج نہیں بتایا جائے گا، ہر شخص کو اپنی اپنی بیماری کا علاج بتایا جائے گا۔
بہرحال یہ ساری چیزیں تجرباتی ہیں، علاج معالجہ ہیں، اگر کسی کو ضرورت نہیں ہے تو ہم اس کو نہیں بتائیں گے، لوگ جو اپنے احوال بتاتے ہیں تو ان کے احوال سے ضرورت کا پتا چلتا ہے کہ کس کو کس چیز کی ضرورت ہے، آپ کو ان باتوں کی ضرورت تھی، اس لئے ہم نے یہ باتیں آپ کو بتائیں۔ ہر شخص کی جو ضرورت ہوتی ہے، وہ اسے بتائی جاتی ہے۔
باقی وہ مجربات جن کا تعلق بزرگوں کی عملیات کے ساتھ ہے، ان کا استعمال ضروری نہیں ہے لیکن جو مجربات اصلاح سے متعلق ہیں، ان کا استعمال تو لازمی ہے کیوں کہ ان کے بغیر علاج نہیں ہو سکتا اور تصوف سے مقصود تو علاج ہے، اس لئے بزرگوں کے وہ مجربات جن سے ہماری اصلاح ہوتی ہو، ہم ان سے ضرور فائدہ اٹھاتے ہیں حتیٰ کہ بعض چیزیں ایسی بھی ہیں جو بزرگوں سے نہیں بلکہ ہندؤوں سے لی گئی ہیں، جیسے: حبسِ دم جوگیوں سے لیا گیا ہے، ہمیں اس کا فائدہ معلوم ہوا ہے، اس لئے ہم اس کو بھی استعمال میں لاتے ہیں۔
آخر آپ اپنے علاج کے لئے انگریزی ادویات استعمال نہیں کرتے؟ کسی مفتی نے اسے نا جائز کہا ہے؟ پس معلوم ہوا کہ علاج کے لئے ان چیزوں کا استعمال ہو سکتا ہے۔
دوسری بات، آپ نے ’’اَللہ، اَللہ‘‘ کے ذکر کے بارے میں پوچھا ہے کہ افضل ذکر تو ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘ کا ذکر ہے تو آپ ’’اللہ، اللہ‘‘ کا ذکر کیوں کراتے ہیں؟ دیکھیں! ’’اَللہ، اَللہ‘‘ کا ذکر بھی بعد میں ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘ کے ذکر تک پہنچاتا ہے یعنی ’’اَللہ، اَللہ‘‘ کا ذکر ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘ کے ذکر تک پہنچانے کے لئے ہے، چوں کہ ’’اللہ، اللہ‘‘ کا ذکر دل کے ساتھ کرنا آسان ہے، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘ کا ذکر دل پر ہر کوئی آسانی کے ساتھ نہیں کر سکتا کیوں کہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘ میں تفصیل ہے اور دل پر ذکر کرنے کے لئے مختصر ذکر چاہیے۔ جیسے: ’’ھُو‘‘ کا ذکر ہے، ’’اَللہ، اَللہ‘‘ کا ذکر ہے، ’’حَقْ‘‘ کا ذکر ہے، ایسا ذکر آسانی کے ساتھ دل پر ہو سکتا ہے اور انسان آسانی سے مشکل کی طرف جاتا ہے، مشکل سے آسانی کی طرف نہیں آتا، اس لئے ہم لوگ یہ ذکر کرتے ہیں۔
باقی یہ تجربہ کی چیزیں ہیں اور تجربہ کی چیزیں تجربہ ہی سے معلوم ہوتی ہیں، آپ ان کا مقابلہ سنت کے ساتھ کیوں کرتی ہیں؟ ہم نے نہ ان کو سنت سمجھا ہے اور نہ ان کو سنت سمجھتے ہیں، لہذا ان کا مقابلہ سنت کے ساتھ نہ کریں، ان کا مقابلہ تجرباتی چیزوں کے ساتھ کریں۔ تجرباتی چیز کیا ہے؟ نقشبندیہ بھی تجرباتی ہے، چشتیہ بھی تجرباتی ہے، سہروردی بھی تجرباتی ہے، قادریہ بھی، اس لئے ہم ان کا تو آپس میں مقابلہ کر سکتے ہیں کہ کس کے لئے کون سا طریقہ بہتر ہے؟ لیکن یہ کیا بات ہوئی کہ ہم یہ کہیں کہ مسنون عمل بہتر ہے یا یہ بہتر ہے؟ بہتر تو مسنون عمل ہی ہے لیکن مسنون عمل تک پہنچنے کے لئے تو یہ مراقبہ وغیرہ کیا جاتا ہے، اس لئے تصوف کے اعمال کا تو مسنون اعمال کے ساتھ مقابلہ ہے ہی نہیں۔
میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ آپ کو پانی چاہیے یا پیراسیٹامول؟ ظاہر ہے کہ پانی بھی چاہیے اور اگر آپ بیمار ہیں تو پیراسیٹامول بھی چاہیے۔ اب پانی کا پیراسیٹامول کے ساتھ مقابلہ ہے ہی نہیں، پانی الگ ایک چیز ہے جو ہم سب کی ضرورت ہے اور پیراسیٹامول صرف اور صرف بیمار کی ضرورت ہے یعنی ان دونوں چیزوں کا آپس میں مقابلہ نہیں بنتا، اسی طرح مسنون عمل اور تجرباتی چیزوں کا بھی مقابلہ نہیں ہو سکتا۔ تجرباتی کو تجرباتی سمجھنا ہی کافی ہوتا ہے۔
سوال نمبر 2:
حضرت! جمعہ کے بیان میں آپ نے فرمایا کہ دین کو آخرت کے لئے اپنایا جائے۔ حضرت! میں اس مسئلہ میں بری طرح گرفتار تھا کہ نماز اور ذکر ذہنی سکون اور دنیا کے لئے کر رہا تھا اور اس سے نکلنے کی سمجھ نہیں آ رہی تھی حتیٰ کہ میرے ذہن اور بدن پر اس کے منفی اثرات پڑ رہے تھے، جیسے ہی آپ کی آخرت والی بات سنی تو یوں محسوس ہوا کہ مجھ سے بہت بڑا بوجھ اتر گیا، حضرت جی! جمعہ کی نماز آخرت کی نیت سے پڑھی اور اپنے آپ کو بہت ہلکا محسوس کیا۔
پہلے میں اصلاحی ذکر کے بارے میں سوچتا رہا کہ اس میں آخرت کی کیا نیت کروں؟ اب سمجھ آئی کہ آخرت کی سب سے بڑی نعمت اللہ پاک کا دیدار ہو گا، اللہ پاک کے دیدار کا سوال کرنا اللہ پاک کی رضا ہے یا نہیں؟ کیا یہ آخرت کی نعمتوں میں سے سب سے بہترین نعمت ہے؟ کیا اصلاحی ذکر اللہ پاک کے دیدار کے لئے کرنا ٹھیک ہے؟ کیا یہ نیت کافی ہو سکتی ہے؟
جواب:
آپ نے جو بات کی ہے، اس پر اگرچہ اصولی طور پر کچھ بات کی جا سکتی ہے لیکن میرے خیال میں اس کو بالکل غلط بھی نہیں کہا جا سکتا بلکہ مناسب انداز میں اس کی تشریح کی ضرورت ہے۔
سب سے پہلی بات یہ ہے کہ ہر وہ عمل جو دین کا ہو، اسے آخرت کے لئے کرنا ضروری ہے اور جو دنیا کا کام ہو وہ دنیا کے لئے بھی کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً اگر میں میڈیکل کالج میں دنیا کے لئے پڑھ رہا ہوں تو ٹھیک ہے، اس میں کوئی گناہ نہیں ہے۔ تاہم اعلیٰ نیت یہ ہے کہ میں لوگوں کی خدمت کی نیت سے پڑھوں کہ اسے پڑھنے کے بعد لوگوں کی خدمت کرنے سے اللہ پاک مجھ سے راضی ہو جائیں گے، یہ اونچی نیت ہے اور یقیناً یہ زیادہ مفید بھی ہے لیکن اگر کوئی شخص دنیا کے لئے پڑھ رہا ہے تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔
سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اگر رزقِ حلال کے لئے میں کوئی کام کرتا ہوں تو اللہ تعالیٰ تو اس پر خوش ہوتا ہے، اس لئے اس پر تو کوئی پابندی نہیں ہے۔ البتہ جو دین کا کام ہے مثلاً نماز وغیرہ، وہ اگر میں دنیا کے لئے کروں گا تو جائز نہیں ہو گا۔ یہی حکم روزہ، زکوٰۃ اور حج کا بھی ہے، غرض جو بھی دین کا کام ہے، مثلاً مسجد بنانا، راستہ بنانا، اسے اللہ کی رضا کے لئے کیا جائے، دنیا کے لئے نہ کیا جائے۔ یہ بات بالکل صحیح ہے۔
ما شاء اللہ! اگر آپ کو اس بات سے فائدہ ہو گیا ہے تو بہت اچھی بات ہے، باقی اصلاحی ذکر اصلاح کے لئے ہے اور اصلاح اس لئے ضروری ہے کہ میں اپنے علم، عمل اور اخلاص ان تین چیزوں کو درست کر لوں، انہی تین چیزوں میں خرابی ہوتی ہے اور اس خرابی کو درست کر لینا اصلاح ہے۔ مثلاً: اگر علم میں خرابی ہے تو اسے درست کرنا، اگر عمل خراب ہے تو اسے درست کرنا اور اگر اخلاص نہیں ہے تو اخلاص پیدا کرنا، یہ اصلاح ہے اور تصوف سے یہی اصلاح ہوتی ہے، لہذا اصلاحی ذکر میں اصلاح کی نیت کرنی چاہیے اور اللہ کی محبت حاصل کرنے کی نیت کرنی چاہیے، کیوں کہ اللہ کی محبت حاصل کرنا ہی اصل میں اصلاح ہے کیوں کہ اللہ کی محبت کے ذریعہ دنیا کی محبت کو نکالا جاتا ہے، اس لئے اللہ کی محبت دل کی اصلاح ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا ہے کہ: ہر چیز کے لئے ایک سقالہ ہوتا ہے اور دلوں کے لئے سقالہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘ ہے، یہ اللہ کا ذکر ہے۔
اللہ پاک کا دیدار بھی اللہ سے مانگنا چاہیے کیوں کہ شوقِ لقاء تو ما شاء اللہ بہت بڑی چیز ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو نصیب فرمائے۔ تاہم جب آپ اللہ کی رضا مانگتے ہیں تو اس میں یہ چیز بھی خود بخود داخل ہو جاتی ہے کیوں کہ جس شخص سے اللہ پاک راضی ہوں گے، اسے اپنا دیدار بھی کروائیں گے۔
سوال نمبر 3:
(سائل نے اپنا سابقہ ذکر بتایا ہے جس پر حضرت والا نے اس کے بعد کا ذکر تلقین فرمایا ہے)
جواب:
اب ایک مہینہ کے لئے 200 مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘، 200 ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘، 200 مرتبہ ’’حَقْ‘‘ اور 100 مرتبہ ’’اَللہ‘‘ کا ذکر کریں اور آئندہ کے لئے کاغذ اس طرح نہ بھیجیں کہ وہ موڑ جائے، کیوں کہ اس سے پڑھنا مشکل ہو جاتا ہے۔
سوال نمبر 4:
حضرت میرا سابقہ ذکر پورا ہو گیا ہے، اب آگے کے لئے رہنمائی فرمائیں۔
جواب:
ما شاء اللہ! اللہ جل شانہ آپ کو مزید توفیقات سے نوازے، اب ایک مہینہ کے لئے 8000 مرتبہ زبانی طور پر ’’اَللہ، اَللہ‘‘ کا ذکر کریں۔
سوال نمبر 5:
حضرت! آپ نے جو اذکار تلقین کیے تھے، الحمد للہ ان کا ایک مہینہ مکمل ہو گیا ہے، اب مزید رہنمائی کی درخواست ہے۔ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘ 200 مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ 400 مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ 600 مرتبہ اور ’’اَللہ‘‘ 8000 مرتبہ۔ اس کے ساتھ پانچ منٹ کے لئے یہ تصور کرنا ہوتا ہے کہ دل ’’اَللہ، اَللہ‘‘ کر رہا ہے۔ لیکن حضرت! ابھی تک ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ دل ’’اَللہ، اَللہ‘‘ کر رہا ہو۔
جواب:
کوئی بات نہیں، اب آپ 8500 مرتبہ ’’اَللہ، اَللہ‘‘ کر لیا کریں اور باقی ذکر پہلے کی طرح جاری رکھیں۔
سوال نمبر 6:
جناب محترم شاہ صاحب! اللہ تعالیٰ آپ کو خیر و عافیت والی زندگی عطا فرمائے۔ حضرت! آپ کا بتایا ہوا ذکر یعنی تیسرا کلمہ، درود شریف، استغفار 100، 100 مرتبہ اور ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘ 200 مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ 400 مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ 600 مرتبہ اور ’’اَللہ‘‘ 3000 مرتبہ، الحمد للہ یہ ذکر کرتے ہوئے دو جنوری کو ایک مہینہ مکمل ہو گیا ہے، آئندہ کے لئے جو آپ کا حکم ہو، ارشاد فرمائیں۔
جواب:
ابھی آپ اس طرح کریں کہ باقی اذکار تو پہلے کی طرح ہی جاری رکھیں، البتہ ’’اَللہ‘‘ کا ذکر 3500 مرتبہ کرلیں۔
سوال نمبر 7:
حضرت جی! میرے وظیفہ کا مہینہ مکمل ہو گیا ہے، 4000 مرتبہ زبان پر ’’اَللہ‘‘ کا ذکر، تین مرتبہ ’’آیت الکرسی‘‘ اور دس منٹ دل پر ’’اَللہ، اَللہ‘‘ کا مراقبہ کرنا تھا، حضرت جی! میں مراقبہ پر توجہ دیتا ہوں لیکن مجھے دل کی بجائے گلے میں ’’اَللہ، اَللہ‘‘ کا ورد محسوس ہوتا ہے، ساس کا وظیفہ 1000 مرتبہ زبان پر ’’اَللہ، اَللہ‘‘ کا ذکر تھا۔ اس مہینہ مجھے صحیح اندازہ نہیں ہوا کہ ان کا مراقبہ تھا یا نہیں؟ لیکن میں ان کو پہلے کی طرح دس منٹ ’’اَللہ، اَللہ‘‘ کراتی رہی۔ اب آئندہ کے لئے ہمارے لئے کیا حکم ہے؟
جواب:
چوں کہ آپ کو ’’اَللہ، اَللہ‘‘ کا ورد محسوس ہونا شروع ہو گیا ہے اگرچہ جگہ مختلف ہے، اس لئے اب آپ اس طرح کریں کہ دل کے اوپر اپنا انگوٹھا رکھ لیا کریں اور تصور کیا کریں کہ اس انگوٹھے کے نیچے ’’اَللہ، اَللہ‘‘ ہو رہا ہے تاکہ توجہ مرتکز ہو جائے، دس منٹ کے لئے یہ مراقبہ کریں، مراقبہ سے پہلے 4000 مرتبہ زبان سے ’’اَللہ، اَللہ‘‘ کر لیا کریں اور تین مرتبہ ’’آیت الکرسی‘‘ پڑھ لیا کریں۔
اور آپ اپنی ساس سے پوچھ لیجئے کہ اس کو ’’اَللہ، اَللہ‘‘ محسوس ہوتا ہے یا نہیں؟ اگر محسوس ہوتا ہے تو ٹھیک اور اگر محسوس نہیں ہوتا تو پھر ان کو ’’اَللہ، اَللہ‘‘ کا ذکر 1500 مرتبہ بتا دیں۔
سوال نمبر 8:
حضرت! میں آپ سے بیعت ہونے کے لئے کب فون کروں؟
جواب:
بیعت کے لئے کل آپ دوپہر کے بعد ٹھیک تین بجے ٹیلی فون کر لیں، ان شاء اللہ بیعت ہو جائے گی۔
سوال نمبر 9:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
(1) تمام لطائف پر پانچ منٹ ذکر، مراقبہ صفات سلبیہ پر پندرہ منٹ، تینوں کہتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی صفات سلبیہ پر عقیدہ پختہ ہو گیا ہے اور ہر ایک کہتی ہے کہ مجھے تہجد کی توفیق بھی نصیب ہو گئی اور درود شریف کی کثرت بھی اور تیسری کہتی ہیں کہ مجھے نیک اعمال پر مواظبت نصیب ہو گئی۔
جواب:
ما شاء اللہ! اب ایسا کریں کہ چاروں مراقبات یعنی قلب، روح، سِر اور خفی پر تجلیات افعالیہ اور صفات ثبوتیہ اور شیونات ذاتیہ اور صفات سلبیہ کا مراقبہ کریں یعنی یہ سوچیں کہ ان چاروں کا جامع فیض اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ ﷺ کی طرف اور آپ ﷺ کی طرف سے شیخ کی طرف اور شیخ کی طرف سے آپ کے لطیفہ اخفیٰ پر آ رہا ہے۔ یہ مراقبہ ان کو بتا دیجئے گا۔
(2) تمام لطائف پر پانچ منٹ ذکر اور مراقبہ حقیقتِ قرآن پندرہ منٹ، قرآن میں تدبر کرنا نصیب ہوا، قرآن پڑھتے اور سنتے ہوئے لطف محسوس ہوتا ہے۔
جواب:
ماشاء اللہ! اسی ذکر کو ایک مہینہ مزید کر لیں۔
(3) تمام لطائف پر پانچ منٹ ذکر اور مراقبہ حقیقتِ کعبہ پندرہ منٹ۔ مراقبہ حقیقتِ کعبہ کا فائدہ یہ محسوس ہوا کہ نماز پڑھتے ہوئے جائے نماز پر خانہ کعبہ کی تصویر بن جاتی ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا خانہ کعبہ کے سامنے نماز پڑھ رہی ہوں۔
جواب:
ان سے پوچھیں کہ مراقبہ حقیقتِ قرآن یا حقیقتِ صلوٰۃ کیا ہے یا نہیں؟ اگر نہیں کیا ہو تو پھر ان کو یہ مراقبہ بتا دیجئے۔
جن کو مراقبہ حقیقتِ کعبہ کا فائدہ محسوس نہیں ہوا، ان کو کہہ دیں کہ وہ اس کو دوبارہ کر لیں اور جو دوسرے نمبر پر ہیں، ان کو آگے بڑھائیں اور انہیں مراقبہ حقیقتِ قرآن بتا دیں، نیز نمبر تین کی آڈیو بھی دوبارہ بھیج دیں۔
(4) پہلے جب میں مراقبہ کرتی تھی تو نماز میں محسوس ہوتا کہ خانہ کعبہ میرے سامنے ہے لیکن اب یہ محسوس ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تجلی مسجودی کے سامنے نماز پڑھ رہی ہوں اور اس بات کا ادراک ذرا سی توجہ سے حاصل ہو جاتا ہے لیکن پھر جب توجہ دوسری طرف ہوتی ہے تو پھر کچھ محسوس نہیں ہوتا، اس کے علاوہ خارج میں یہ تبدیلی محسوس ہوتی ہے کہ جب کوئی نیکی کرتی ہوں تو یہ غم رہتا ہے کہ اس میں اخلاص کی کمی ہے، معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس کو قبول فرمائے گا یا نہیں، نیز یہ احوال کو بیان کرتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے کہ کہیں یہ احساس جھوٹا نہ ہو۔
جواب:
ماشاء اللہ! بہت اچھی بات ہے، آپ یہ مراقبہ جاری رکھیں۔
(5) لطیفہ قلب پر پانچ منٹ، حصولِ رحمت کا تصور دونوں کو محسوس ہوتا ہے۔
جواب:
ما شاء اللہ! اللہ تعالیٰ کی رحمت کا تصور تو بہت بڑی دولت ہے، اس کے ساتھ ساتھ وہ زبان سے بھی درود شریف پڑھنا شروع کر لیں۔
(6) زبانی ذکر 1500 مرتبہ اور پندرہ منٹ لطیفہ قلب پر ذکر ہورہا ہے لیکن محسوس نہیں ہوتا۔
جواب:
آپ اسی ذکر کو دوبارہ کروا دیں۔
(7) تمام لطائف پر پانچ پانچ منٹ ذکر اور مراقبہ شیونات ذاتیہ پر پندرہ منٹ ذکر ہو رہا ہے لیکن محسوس نہیں ہوتا۔
جواب:
اسی ذکر کو دوبارہ چلایئے۔
(8) لطیفہ قلب دس منٹ، لطیفہ روح پندرہ منٹ، الحمد للہ ذکر محسوس ہوتا ہے۔
جواب:
اس کو تیسرا لطیفہ دے دیجئے اور یہ دونوں لطائف بھی دس دس منٹ کے لئے جاری رکھیں، تیسرا لطیفہ پندرہ منٹ کے لئے کریں۔
سوال نمبر 10:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
I pray you are well حضرت جی. This is فلاں from UK. الحمد للہ I came back from my week long travels and meeting family and thanks for your blessed advice. I will prepare for next time ان شاء اللہ. Unfortunately since arriving back I feel a scertain distance from اللہ تعالیٰ. I am not enjoying my telawat or Salah like I did before traveling and I struggle to focus in my مراقبہ and sometimes feel like my heart has died. My intention while traveling was to connect with my family but I worried that I have been affected by their دنیاوی company or that I committed such a sin which has made اللہ تعالیٰ displeased with me or perhaps if something is wrong after every namaz I do توبہ and استغفار and feel merciful غفلت. I would be very grateful for your advice. I also wanted to ask a question. In our small local masjid where there are only four regular nimazi, they wanted me to start a short taleem after Esha, three of them already students for the time being and the fourth is the father of them. Should I start taleem and if so, which kitab?
جواب:
ما شاء اللہ! اصل میں جائز چیز کا بھی ایک اثر ہوتا ہے جسے انگریزی میں Side effect کہتے ہیں، لوگوں کے ساتھ ملنے سے ان کے اثرات ہم پر پڑتے ہیں اور ہمارے اثرات ان پر پڑتے ہیں، مولانا الیاس رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ جب کبھی میں میوات جاتا ہوں تو صلحاء کی ایک جماعت کو بھی اپنے ساتھ لے جاتا ہوں تاکہ میں محفوظ رہوں، اس کے باوجود میرے دل پر اثر ہو جاتا ہے، اس اثر کو دور کرنے کے لئے یا تو میں مسجد میں اعتکاف کرتا ہوں یا پھر رائے پور اور سہارن پور کی خانقاہوں میں سے کسی خانقاہ میں چلا جاتا ہوں، معلوم ہوا کہ لوگوں سے ملاقات کرنا ایک ایسی چیز ہے کہ جس سے حضرت مولانا الیاس رحمۃ اللہ علیہ کے دل جیسا صاف دل بھی متاثر ہو جاتا ہے، یہ معاملہ سب کے ساتھ ہو سکتا ہے، آپ اگرچہ اچھی نیت کے ساتھ وہاں گئے تھے، جیسے حضرت مولانا الیاس رحمۃ اللہ علیہ بھی اچھی نیت لے کر جاتے تھے لیکن یہ ایک فطری چیز ہے، لہذا آپ اس اثر کو دور کرنے کے لئے مولانا الیاس رحمۃ اللہ علیہ کے طریقے پہ عمل کر لیں، آپ جہاں پر ہیں، وہاں کی خانقاہوں کا تو مجھے علم نہیں ہے کہ کون سی خانقاہ زیادہ مؤثر ہے، البتہ اگر آپ مسجد میں کم از کم تین روزہ اعتکاف کر سکیں تو یہ زیادہ بہتر ہو گا، اعتکاف کے ساتھ روزہ بھی رکھیں، ویسے بھی آج کل روزہ رکھنا آسان ہے، لہذا روزہ بھی رکھیں اور اعتکاف بھی کریں، اس سے ان شاء اللہ العزیز فائدہ ہو گا۔
جہاں تک تعلیم کی بات ہے تو مجھے معلوم نہیں کہ انہوں نے پہلے کیا پڑھا ہے، اگر وہ اپنی سابقہ تعلیم کے بارے میں کچھ بتا دیں تو پھر اس کے بعد میں کچھ عرض کر سکوں گا۔
سوال نمبر 11:
اللہ پاک سے آپ کی صحت، تندرستی اور درازئ عمر کے لئے دعا گو ہوں۔ حضرت جی! الحمد للہ میرا ذکر مکمل ہو گیا ہے، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘ 200 مرتبہ، ’’اِلَّا اللہُ‘‘ 400 مرتبہ، ’’اَللہُ اَللہ‘‘ 600 مرتبہ، ’’اَللہ‘‘ 500 مرتبہ۔
اس کے علاوہ پیامِ سحر میں پڑھا کہ بعض اصحاب رسول رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین کو بھی تنگی اور سختی قبر کے حالات پیش آتے تھے، اس وقت سے طبیعت میں بے چینی ہے کہ جب امت کے بہترین لوگوں کے ساتھ ایسے معاملات پیش آ سکتے ہیں تو میرا شمار تو گناہ گار ترین لوگوں میں ہوتا ہے، اس وجہ سے پریشانی ہے، براہ مہربانی رہنمائی فرمادیں۔
جواب:
دیکھیں! جس چیز کا نتیجہ اچھا ہو تو اسے اچھا کہا جاتا ہے، لہذا آپ ایسا کریں کہ اس سے اچھا نتیجہ حاصل کرنے کی کوشش کریں اور وہ یہ ہے کہ جب انسان کو ان چیزوں سے گھبراہٹ ہو تو گھبراہٹ دور ہونے کا جو ذریعہ ہو گا، انسان وہ ذریعہ اختیار کرے۔ وہ ذریعہ کیا ہے؟ وہ گناہوں سے حفاظت اور نیک کاموں کی کثرت ہے۔ نیک کاموں میں سب سے آسان کام اللہ کی یاد ہے، لہذا ذکر اللہ کی کثرت کریں، نیز اس طرح کے معاملات میں بالخصوص استغفار کی فضیلت زیادہ ہے، اس لئے استغفار کی بھی کثرت کریں، اس کے ساتھ ساتھ گناہوں سے بچنے کی بھی کوشش کریں، ان شاء اللہ اس کا اچھا اثر ہو گا۔
باقی اگر صرف اس سے ڈپریشن دور ہو جائے اور انسان ڈر کی وجہ سے کچھ کام کرنے کے قابل نہ رہے تو یہ اس کا منفی اثر ہے، اس کا اچھا اور صحیح اثر یہی ہے کہ انسان گناہوں سے بچے اور اچھے کاموں کی طرف متوجہ ہو جائے۔
باقی دنیا امید پر قائم ہے، ’’ظُنُّوْا بِالْمُؤْمِنِیْنَ خَیْرًا‘‘ والی بات کہ امید اچھی رکھنی چاہیے، اللہ پاک فرماتے ہیں: ’’اَنَا عِنْدَ ظَنِّ عِبْدِیْ بِیْ‘‘ (صحیح بخاری، حدیث نمبر: 7405) یعنی میں اپنے بندے کے ساتھ ویسا معاملہ کرتا ہوں جیسا وہ میرے بارے میں گمان کرتا ہے۔ لہذا اللہ تعالی سے اچھی امید رکھنی چاہیے کہ ہم کمزور لوگ ہیں، ہمارے ساتھ بڑوں والا معاملہ نہیں ہوتا، اس لئے اللہ پاک سے اچھی امید رکھنی چاہیے لیکن اچھی امید کا مطلب یہ بھی نہیں کہ انسان عمل چھوڑ دے، عمل کر کے اچھی امید رکھنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ اس کی توفیق نصیب فرما دے۔
سوال نمبر 12:
شاہ صاحب! اللہ تعالیٰ آپ کو خیر و عافیت کے ساتھ لمبی زندگی عطا فرمائے۔ میں صبح آذان سے پندرہ بیس منٹ پہلے تہجد پڑھتی ہوں پھر نماز کے بعد اذکار اور ایک وظیفہ یعنی گیارہ بار ’’درود پاک‘‘، گیارہ مرتبہ ’’آیت الکرسی‘‘ اور پھر گیارہ مرتبہ ’’درود‘‘ پڑھتی ہوں، پھر ’’سورۂ یٰس‘‘ اور پھر اشراق کی نماز ادا کرتی ہوں، چاشت کی نماز 9 سے 11 کے درمیان پڑھتی ہوں، ’’سورۂ بقرہ‘‘ تمام شرور سے حفاظت کے لئے پڑھتی ہوں، ظہر، شام کے اذکار عصر، مغرب اور عشاء کے اذکار، سورۂ ملک، سورۂ حشر رشتے کی نیت سے، یہ اعمال بھی کرتی ہوں لیکن یہ اعمال آپ نے تلقین نہیں فرمائے، بلکہ مردان میں ایک آنٹی نے یہ اعمال بتائے ہیں، ’’آیت الکرسی‘‘ والا وظیفہ بھی، درود ہزار دفعہ استغفار اور سو مرتبہ تیسرا کلمہ بھی پڑھتی ہوں، اوّابین کی صرف دو رکعتیں ادا کرتی ہوں، عشاء کے ساتھ نفل نماز بھی پڑھ لیتی ہوں، چہل درود اور مناجات مقبول روزانہ نہیں پڑھتی، جمعہ کو صلوٰۃ التسبیح سورۂ کہف اور جمعہ کے دن خانقاہ میں جو ختمِ قرآن ہوتا ہے، اس کے لئے انتیس پارہ پڑھتی ہوں۔ اللہ پاک آپ کی زندگی میں برکت ڈالے۔ اس کے علاوہ مزید کیا کروں؟ معمولات والا چارٹ چوں کہ فِل نہیں ہو پاتا، اس لئے میں آپ کو وہ سینڈ نہیں کرسکی۔
جواب:
دیکھیں! معمولات جیسے بھی ہوں لیکن معمولات کا چارٹ ہر صورت بھیجنا چاہیے، کیوں کہ اس سے احوال کا علم ہوتا ہے، جس کی وجہ سے صحیح طور پر انسان کی حالت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
باقی جو اعمال آپ کر رہی ہیں، ان میں استقامت کی ضرورت ہے، اگرچہ مقدار کم ہو لیکن عمل باقاعدگی سے ہونا چاہیے، کیوں کہ عمل زیادہ ہو اور اس پر استقامت نہ ہو، اس سے بہتر یہ ہے کہ عمل کم ہو لیکن باقاعدگی سے ہو۔ عمل کم ہونے سے مراد یہ نہیں ہے کہ فرائض و واجبات میں بھی کمی ہو، کیوں کہ فرائض و واجبات میں کمی نہیں ہو سکتی البتہ نفلی اعمال کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ اگرچہ مقدار میں کم ہوں لیکن دائمی ہوں۔ لہذا آپ اس طرح کریں کہ اعمال کی ایک مناسب مقدار مقرر کر لیں اور پھر اسے باقاعدگی سے کریں، ایسا نہ ہو کہ کبھی کر لیں اور کبھی نہ کریں، اعمال میں ناغہ کرنا درست نہیں ہے۔
سوال نمبر 13:
حضرت جی! ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘ 200 مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ 400 مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ 600 مرتبہ اور ’’اَللہ‘‘ 3500 مرتبہ، اس ذکر کو تقریباً دو ماہ ہو چکے ہیں، مگر دوسرے شہر میں تبادلہ ملازمت میں پھنسے ہونے کی وجہ سے ناغے ہوئے ہیں، ڈر کی وجہ سے بتا نہیں سکا۔ اللہ پاک سے معافی اور استقامت کی توفیق مانگتا ہوں۔
جواب:
اللہ پاک توفیق عطا فرمائیں۔ لیکن ڈر کی وجہ سے رابطہ نہیں چھوڑنا چاہیے کیوں کہ یہ شیطان کا وار ہے، اسی ذریعہ سے شیطان انسان کو دور کرتا ہے۔ اب آپ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘ 200 مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ 400 مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ 600 مرتبہ اور ’’اَللہ‘‘ کا ذکر 4000 مرتبہ کر لیا کریں۔
سوال نمبر 14:
حضرت! مناجات مقبول کی دعائیں اگر مغرب کے بعد پڑھی جائیں تو یہ اگلے دن کے لئے ہوں گی یا اسی پچھلے دن کے لئے؟ یا صبح سویرے اس کا اہتمام ہو تو وہ زیادہ بہتر رہے گا؟
جواب:
میرا خیال یہ ہے کہ رات جس دن کے بعد آئے، اسی دن کی رات شمار ہوتی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک حدیث شریف میں ہے کہ اگر کسی کا رات میں وظیفہ پورا نہ ہو سکے تو کل صبح اٹھتے ہی پورا کر لے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ کل کا دن رات سے مختلف ہے لیکن رخصت دے دی گئی ہے کیوں کہ اگر کل کا دن رات سے معتلق ہوتا تو پھر یہ بات کہنے کی ضرورت ہی نہیں تھی، چنانچہ جب تک انسان سوتا نہیں ہے، اس وقت تک تسلسل قائم رہتا ہے، پھر جب انسان سو جاتا ہے تو بیدار ہونے کے بعد نیا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ اگر صبح سویرے اس کا معمول بنایا جائے تو بھی بالکل درست ہے۔
سوال نمبر 15:
حضرت صاحب! حدیث میں آیا ہے کہ قوم کے امام کو چاہیے کہ وہ دعا میں جمع کا صیغہ استعمال کرے۔ ہم جو مناجات مقبول یا اس طرح کی دیگر دعائیں پڑھتے ہیں، ان میں تو واحد کے صیغے ہوتے ہیں اور دعا ہم جمع میں کرتے ہیں تو اس کا کیا حل ہو گا؟
جواب:
بعض مرتبہ تو ہم کوشش کرتے ہیں کہ دعا جمع کے صیغے سے مانگتے ہیں، جیسے: ’’لَآ إِلٰهَ إِلَّآ أَنْتَ سُبْحٰنَكَ إِنِّا كُنَّا مِنَ الظَّالِمِيْنَ‘‘ لیکن بعض مرتبہ روانگی میں اس چیز کا خیال نہیں رہتا، اگر مجمع میں جمع کے صیغے سے دعا کی جائے تو یہ زیادہ بہتر ہے یعنی مجمع میں دعا کرتے وقت سب کو دعا میں شامل کرنا چاہیے لیکن اگر آپ واحد کے صیغے سے دعا کر رہے ہیں اور دوسرا شخص آمین کہہ رہا ہے تو آمین کہنے والے کے لئے بھی دعا ہو جاتی ہے، وہ بھی دعا میں شامل ہو جاتا ہے۔
سوال نمبر 16:
اکثر مخالف جماعتوں کے لوگ ذکر بالجہر کے بارے میں اشکال کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿وَ اِذَا سَاَلَكَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ﴾ (البقرہ: 186)
ترجمہ: ’’اور (اے پیغمبر!) جب میرے بندے آپ سے میرے بارے میں پوچھیں تو (آپ ان سے کہہ دیجئے کہ) میں قریب ہوں‘‘۔
﴿وَ نَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ﴾ (ق: 16)
ترجمہ: ’’اور ہم اس کی شہہ رگ سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں‘‘۔
﴿وَ اذْكُرْ رَّبَّكَ فِیْ نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَّ خِیْفَةً﴾ (الاعراف: 205)
ترجمہ: ’’اور اپنے رب کا ذکر کیا کرو، اپنے دل میں بھی، عاجزی اور خوف کے (جذبات کے) ساتھ‘‘۔
اگر یہ کہا جائے کہ یہ سب آیات ثوابی ذکر کے لئے ہیں، علاجی ذکر کے لئے قانون الگ ہے پھر یہ اشکال کیا جاتا ہے کہ اگر یہ علاجی ذکر ہے تو حضور ﷺ نے شرک کا علاج بھی کیا تو آپ ﷺ نے یہ ذکر کیوں تجویز نہیں کیا؟
جواب:
دیکھیں! میں آپ کو ایک بات بتاتا ہوں، حالات بدلتے رہتے ہیں اور لوگ بھی تبدیل ہوتے رہتے ہیں اور سب لوگوں کا علاج ایک جیسا نہیں ہوتا، اتنی بات کافی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ہر چیز کے لئے صفائی کا آلہ ہوتا ہے، دلوں کی صفائی کا آلہ اللہ کا ذکر ہے۔ اللہ کے ذکر میں ہر قسم کے اذکار شامل ہو گئے، اب یہ ایک تجرباتی چیز بن گئی کہ کس کو کس سے زیادہ فائدہ ہوتا ہے؟ کسی کو ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘ سے زیادہ فائدہ ہوتا ہے، کسی کو اسم ذات کے ذکر سے زیادہ فائدہ ہوتا ہے، کسی کو ’’حَقْ‘‘ کے ذکر سے زیادہ فائدہ ہوتا ہے، ابھی آپ کے ساتھ بیٹھنے والے ایک صاحب نے مجھے کہا کہ آپ نے ’’حَقْ اَللہ‘‘ کا ذکر جب شروع کیا تو میرے تمام لطائف پر ذکر شروع ہو گیا، ظاہر ہے کہ یہ ایک اثر ہے، جس شخص پر جس ذکر کا زیادہ اثر ہوتا ہے، اسے وہی بتایا جاتا ہے، اس وجہ سے سب کے لئے ایک جیسا قانون نہیں ہے۔
علاجی ذکر کے معاملہ میں صرف اور صرف یہ دیکھنا چاہیے کہ اس سے علاج ہو رہا ہے یا نہیں؟ علاجی ذکر کو اس نظر سے نہیں دیکھا جائے گا کہ وہ مسنون ہے یا نہیں؟ کیوں کہ مسنون تو وہ ہے ہی نہیں، صرف تجرباتی چیز ہے لہذا اس میں صرف نتیجہ کو دیکھا جائے گا، پیراسیٹامول کو سنت سے ثابت کرنے کی ضرورت نہیں، بلکہ صرف یہ دیکھا جائے گا کہ اس سے بخار اترتا ہے یا نہیں؟ اگر بخار اترتا ہے تو بس یہی کافی ہے۔
سوال نمبر 17:
حضرت! بعض اوقات ذکر بالجھر سے طبیعت کی مناسبت نہیں ہوتی اور اس طرح ذکر کرنے کو دل نہیں چاہتا، اس کی کیا وجہ ہوتی ہے؟
جواب:
اصل میں بات یہ ہے کہ ہم لوگ اپنے مزے کے لئے تو ذکر نہیں کرتے ہیں کہ مزہ آئے تب تو ذکر کریں اور مزہ نہ آئے تو ذکر نہ کریں، اس کا تعلق علاج کے ساتھ ہے، لہذا اگر دل نہ بھی چاہے، تب بھی ہمیں ذکر کرنا چاہیے کیوں کہ اس کا علاج کے ساتھ تعلق ہے، اگر آپ کا دل کسی دوائی کھانے کو نہ چاہے تو کیا خیال ہے کہ آپ حکیم صاحب یا ڈاکٹر صاحب کو کہیں گے کہ میرا دل یہ کھانے کو نہیں چاہتا؟ ڈاکٹر جواب میں کیا کہے گا؟ ڈاکٹر جواب میں جو کہے گا ہم بھی وہی بات کہیں گے۔
اتنی بات میں مانتا ہوں کہ مسنون اذکار کو خاموشی کے ساتھ کیا جائے، لیکن دوسرے کو بلند آواز کے ساتھ ذکر کرنے سے منع کرنا بھی تو ضروری نہیں ہے کیوں کہ نبی کریم ﷺ کے عہد مبارک میں بعض حضرات بلند آواز سے ذکر کر رہے تھے، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کو روکنا چاہا تو آپ ﷺ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو منع فرمایا اور فرمایا کہ یہ حضرات اوّابین میں سے ہیں۔ مطلب یہ ہوا کہ دوسروں کو ذکر بالجھر سے روکنا ٹھیک نہیں ہے، خود اپنی طبیعت کے مطابق ذکر کرو، کوئی مسئلہ نہیں۔
بعض لوگوں کا مزاج ایسا ہوتا ہے کہ ان کی طبیعت ذکر بالجھر کو پسند کرتی ہے جیسے: حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بلند آواز سے تلاوت کرتے تھے اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ آہستہ تلاوت کرتے تھے، ہر ایک کی طبیعت کی بات تھی۔ ہمارے احباب میں سے بھی بعض آہستہ تلاوت کرتے ہیں اور بعض ذرا جہر کے ساتھ پڑھتے ہیں، جب تک وہ بلند آواز سے نہ پڑھیں، ان کا دل متوجہ ہی نہیں ہوتا۔ پس لوگوں کا مزاج مختلف ہوتا ہے، کسی کا مزاج کچھ ہے اور کسی کا کچھ۔
البتہ علاجی ذکر میں مشائخ کے تجربات کا لحاظ کیا جائے گا کہ وہ اس بارے میں کیا فرماتے ہیں؟ مجھے حضرت نے ایک مرتبہ بارہ تسبیح کے ذکر پر ڈانٹا تھا کہ بزرگوں کے کتنے عرصہ کا تجربہ اس میں شامل ہے اور ان کی بات تحقیقی ہے لہذا اس بارے میں آپ کا اجتہاد نہیں چلے گا۔
سوال نمبر 18:
حضرت! ذکر بالجہر کرانے والے بندے کو ذکر کے الفاظ ایک ہی آواز میں کہنے چاہئیں یا آواز میں کچھ تبدیلی یا اتار چڑھاؤ کرنا چاہیے؟
جواب:
یہ بات بھی لوگوں کی حالت سے تعلق رکھتی ہے، میں نے اپنا ایک واقعہ بتایا ہے کہ کوئی صاحب آؤٹ ہو گئے تھے تو پھر اسے کنٹرول کرنے کے لئے میں آواز کو تبدیل کرتا رہا، یہ ایک تجربہ کی بات ہے، لہذا جو حضرات ذکر کرا رہے ہوں، انہیں اس کا تجربہ ہونا چاہیے، اسی وجہ سے تو کہتے ہیں کہ ذکر کروانے والا شیخ ہونا چاہیے، شیخ کے علاوہ کوئی نہ کرائے کیوں کہ اس کا تجربہ ہر ایک کو نہیں ہوتا۔
سوال نمبر 19:
بعض آدمی ایسے ہوتے ہیں کہ انہوں نے کسی شیخ کے ساتھ ذکر کیا اور پھر یک دم یہ کیفیت پیدا ہو گئی کہ چلتے پھرتے وہ اونچی آواز سے ذکر کرتے رہتے ہیں اور پھر ان کو ذکر بالجہر میں مزہ آتا ہے یا ذکر بالجھر کے ساتھ ان کی طبیعت مانوس ہو جاتی ہے اور پھر ذکر کرتے ہوئے وہ آؤٹ ہو جاتے ہیں تو ایسے لوگوں کو ذکر کرتے رہنا چاہیے یا چھوڑا دینا چاہیے؟
جواب:
اگر ایسا شخص خود شیخ ہے تو اس کے لئے گنجائش ہے کیوں کہ وہ جانتا ہو گا کہ اس کیفیت کو کیسے کنٹرول کیا جائے گا اور اگر وہ خود شیخ نہیں ہے تو پھر شیخ سے پوچھ کر کرے، جو کچھ بھی کرے، شیخ سے پوچھ لے۔
سوال نمبر 20:
اونچا ذکر کرنے والے لوگ بسا اوقات مساجد میں بھی ہوتے ہیں اور مساجد میں ذکر کرنے لگتے ہیں جب کہ مساجد میں اکثر لوگ نماز پڑھنے کے لئے آئے ہوتے ہیں، تو ان کا یہ طریقہ کیسا ہے؟
جواب:
دیکھیں! یہ مسئلہ ایسا ہے کہ اس میں اولی اور غیر اولی والی بات ہے، مسئلہ یہ ہے کہ اگر لوگ فرض یا واجب نماز پڑھ رہے ہوں، جیسے: وتر، یا سنت مؤکدہ پڑھ رہے ہوں تو اس وقت ذاکرین کو نمازیوں کی رعایت کرنی چاہیے، اور نفل نماز پڑھنے والوں کو ذاکرین کا خیال کرنا چاہیے کیوں کہ نفل گھر میں پڑھنے چاہئیں یعنی مسجد نفل نماز پڑھنے کی جگہ نہیں ہے، آج کل لوگوں نے نفل کو مسجد کے ساتھ لازم کر رکھا ہے، اب نفل کوئی شخص لمبی ادا کرتا ہے اور کوئی آہستہ رفتار سے پڑھتا ہے تو کب تک ان کا انتظار کیا جائے گا؟ اس لئے فرض، واجب اور سنت مؤکدہ پڑھنے کے بعد اگر کسی نے نفل پڑھنے ہیں تو وہ گھر چلا جائے، پھر وہاں جتنا جی چاہے، نوافل پڑھ لے۔
آپ مجھے بتائیں کہ جس مسجد میں قرآن پاک کا درس دیا جاتا ہے یا قرآن پاک بچوں کو پڑھایا جاتا ہے تو وہاں کیا ہوتا ہے؟ اس وقت درس دینے والے اور قرآن پڑھنے والے بچوں کو نمازیوں کا خیال رکھنا چاہیے یا نہیں؟ لیکن اگر کوئی نمازی نوافل شروع کر لے تو کیا ان پر اس کی رعایت کرنا بھی ضروری ہو گا؟ پس جو حکم قرآن پڑھنے والے بچوں اور نمازیوں کے لئے ہے، وہی حکم ذاکرین اور نمازیوں کا ہے۔
سوال نمبر 21:
حضرت جی! دستاربندی کے جلسوں میں یا اس طرح کی دیگر مجالس میں جو خانقاہی مجالس نہ ہوں، اگر ان میں کوئی شیخ چلا جائے اور وہاں پر ہر قسم کے لوگ ہوں تو سب کے سامنے بھرے مجمع میں علاجی ذکر کرانا کیسا ہے؟
جواب:
ایسے جلسوں میں یہ دیکھنا چاہیے کہ فتنہ کا اندیشہ ہے یا نہیں؟ مدار صرف اسی بات پر ہے، اگر کسی جلسے میں مخالفین کا غلبہ ہو تو پھر اس میں فتنہ کا اندیشہ ہو گا، لہذا ایسے جلسوں میں یہ ذکر نہیں کرانا چاہیے کیوں کہ اس سے نقصان ہو گا، ہمارا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ جب میں کسی جگہ جاتا ہوں تو جو لوگ پہلے سے مجھے ذکر کروانے کا کہہ دیتے ہیں یا جس جگہ میں منتظمین سے اجازت لے لوں تو وہاں میں ذکر کرواتا ہوں لیکن اگر کوئی نئی جگہ ہو جہاں کے احوال کا مجھے علم نہ ہو تو وہاں میں ذکر نہیں کرواتا، صرف بیان کے بعد دعا کر کے چلا آتا ہوں کیوں کہ میرا کام لوگوں میں فتنہ ڈالنا نہیں ہے۔
مولانا حاشر صاحب کی جگہ پر مجھ سے غلطی ہوئی تھی، میرا طریقہ تو یہ نہیں تھا لیکن میں بھول گیا اور ذکر شروع کر دیا تو مولانا غصہ سے باہر چلے گئے کہ یہ کیا بات ہوئی؟ کہنے لگے کہ یہ آپ نے کیا کیا؟ میں نے سوچا کہ اب تو شروع کر لیا ہے، اب اگر چھوڑتا ہوں تو پھر دوبارہ بحث چھڑ جائے گی کہ ذکر شروع کیوں کیا اور پھر ختم کیوں کیا؟ اس لئے میں نے سوچا کہ جو بھی ہوا، سو ہو گیا، پھر جب ذکر پورا ہو گیا تو مولانا میرے پاس آئے اور مجھے کہا کہ شاہ صاحب! یہ آپ نے کیا کیا؟ میں نے کہا کہ ذکر کرایا ہے، کہنے لگے کہ کیا صحابہ نے اس طرح ذکر کیا ہے جس طرح آپ کرا رہے ہیں؟ میں نے کہا کہ صحابہ کو اس کی ضرورت ہی نہیں تھی، نیز ہم اس کو مقصد نہیں سمجھتے، بلکہ ذریعہ سمجھتے ہیں اور ذریعہ ہر شخص کے لئے مختلف ہو سکتا ہے، ہاں اگر آپ نے اس کو مقصد اور دین سمجھ لیا تو پھر میں بھی آپ کو بدعتی کہوں گا، لیکن چوں کہ ہم اس کو ذریعہ سمجھتے ہیں، مقصد نہیں سمجھتے، اس لئے یہ دین میں اضافہ نہیں، لہذا آپ اس کو بدعت نہیں کہہ سکتے، خیر! بات ان کی سمجھ میں آگئی تو پھر انہوں نے کچھ نہیں کہا بلکہ اس کے بعد ہمیشہ ہمارے ساتھ بیٹھ کر وہ خود بھی ذکر کرتے رہتے، پھر تو اللہ پاک کی قدرت ایسی ظاہر ہوئی کہ اب ان کی مسجد میں روزانہ ذکر ہوتا ہے۔
سوال نمبر 22:
حضرت جی! آپ بیان میں اکثر ذکر کرتے رہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہم پر ہم سے زیادہ مہربان ہے، جب اللہ پاک ہم پر ہم سے زیادہ مہربان ہے تو پھر انسان پر جو مصیبت اور مشکل آتی ہے تو اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اس کے ہاتھوں کی کمائی ہے، کیا اس وقت بھی بندے کو یہی تصور کرنا چاہیے کہ اللہ ہم پر ہم سے زیادہ مہربان ہے؟
جواب:
تکلیف کی وجہ سے اگر اللہ تعالیٰ آپ کے گناہوں کو معاف کر دیں تو کیا اللہ پاک مہربان نہیں ہیں؟ اگر وہ آپ کو اس تکلیف کے ذریعے آخرت کی تکلیف سے بچائے تو کیا یہ مہربانی نہیں ہے؟ یہ بھی تو مہربانی ہے۔
صرف دنیا ہی تو نہیں ہے، آخرت بھی تو ہے، لہذا اللہ تعالی ہر صورت میں ہم پر ہم سے زیادہ مہربان ہیں، اس پر میں قسم کھا سکتا ہوں، اس میں ذرا بھی مبالغہ نہیں ہے۔
ہم تو اپنے دشمن ہیں، اللہ تعالیٰ ہمارا دوست ہے، اگر ہم اپنے دشمن نہیں ہیں پھر گناہ کیوں کرتے ہیں؟ کیا گناہ کرنا اپنے ساتھ دشمنی نہیں ہے؟ اللہ پاک ہمیں گناہ سے روک رہے ہیں تو اللہ ہم پر ہم سے زیادہ مہربان ہوا یا نہیں؟ اگر ہم گناہ نہ کریں تو اللہ تعالیٰ کی خدائی میں کیا اضافہ ہو گا؟ حدیث شریف میں آتا ہے کہ اگر سارے لوگوں کے دل بہترین دل کی طرح ہو جائیں یعنی آپ ﷺ کے دل کی طرح ہو جائیں تو اللہ کی خدائی میں ذرا بھی اضافہ نہیں ہو گا اور اگر سارے لوگوں کے دل شیطان کے دل کی طرح ہو جائیں تو اللہ کی خدائی میں ذرا بھی کمی نہیں آئے گی، مطلب یہ ہے کہ ہم جو کچھ بھی کر رہے ہیں، اپنے لئے کر رہے ہیں اور پھر اللہ تعالی اس میں ہماری مدد کر رہے ہیں تو اللہ ہم پر ہم سے زیادہ مہربان ہوئے یا نہیں؟ یقیناً اللہ ہم پر ہم سے زیادہ مہربان ہیں۔ اللہ پاک جتنے مہربان ہیں، ہمارے الفاظ اس کی حقیقت بیان کرنے سے قاصر ہیں، ہمارے الفاظ اس حقیقت کو مکمل طور پر بیان نہیں کر سکتے بلکہ ہم تصور بھی نہیں کر سکتے کہ اللہ پاک کتنے زیادہ مہربان ہیں، آپ سوچیں کہ جس وقت آپ دنیا میں آ رہے تھے تو کیا آپ نے اللہ تعالی سے درخواست کی تھی کہ مجھے ایسا بنا دو؟ میری دونوں آنکھیں ٹھیک ہوں، میرے دونوں کان ٹھیک ہوں، میری زبان ٹھیک ہو، میرا دماغ ٹھیک ہو، کیا آپ نے یہ چیزیں اللہ تعالیٰ سے مانگیں تھیں؟ بن مانگے اللہ پاک نے یہ سب چیزیں دی ہیں تو اللہ ہم پر ہم سے زیادہ مہربان ہے یا نہیں ہے؟ ان سب چیزوں کا مل جانا اللہ پاک کی مہربانی ہی ہے۔
سوال نمبر 23:
سات ہزار مرتبہ ’’اَللہ، اَللہ‘‘ کرنے کا میرا وظیفہ چھ تاریخ کو مکمل ہو گیا ہے۔
جواب:
اب ساڑھے سات ہزار مرتبہ کر لیا کریں۔
سوال نمبر 24:
اکثر آپ کہتے ہیں کہ بعض لوگ محبوب ہوتے ہیں، پوچھنا یہ تھا کہ محبوب کون لوگ ہوتے ہیں؟
جواب:
بعض لوگ مقبول ہوتے ہیں اور بعض محبوب ہوتے ہیں، مقبول کا مطلب یہ ہے کہ جسے اللہ جل شانہ قبول فرما لے، اور محبوب وہ ہوتے ہیں جو پہلے سے چنے ہوئے ہوتے ہیں یعنی اللہ تعالی نے ان سے کام لینا ہوتا ہے، اس لئے پہلے سے ہی ان کو چن لیا جاتا ہے، جیسے اللہ پاک نے فرشتوں کو پیدا کیا ہے حالانکہ انہوں نے اس کے واسطے کوئی کسب نہیں کیا، اسی طرح انبیاء کرام نے بھی نبوت کے لئے کوئی کسب نہیں کیا، تو فرشتے اور انبیاء اللہ پاک کے محبوب ہیں یعنی اللہ کے چنے ہوئے ہیں۔
سوال نمبر 25:
حضرت جی! مسجد میں جو اجتماعی عمل ہوتا ہے، مثلاً جماعت ہو رہی ہے، تو جماعت ایک اجتماعی عمل ہے، اس لئے سب لوگوں کو اس کی رعایت کرنی چاہیے، اب جماعت ختم ہو گئی اور سنتوں کے بعد ذکر شروع ہو گیا تو اس کے بعد آنے والے لوگوں کو اس اجتماعی عمل (یعنی ذکر) کی رعایت کرنی چاہیے یا نہیں؟ جب کہ بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ میں نماز پڑھ رہا ہوں، لہذا ذکر والے میری نماز کی رعایت کریں، حضرت جی! اگر ایسا ہے تو پھر تو لوگ آخر تک نماز پڑھتے ہی رہتے ہیں، ایسی صورت میں کیا حکم ہے؟
جواب:
جماعت کے بعد آنے والے لوگوں کے لئے اللہ پاک نے زمین کھلی رکھی ہے، جماعت تو ان سے رہ گئی ہے، ایک مرتبہ جماعت ہو جانے کے بعد اگر کوئی شخص مسجد میں دوبارہ جماعت کروانا بھی چاہے تو مسجد میں دوسری جماعت کرانا ہمارے احناف کے نزدیک مکروہ ہے، لہذا بعد میں آنے والوں کو اجتماعی عمل کی رعایت کرنی چاہیے، خواہ وہ اجتماعی عمل ذکر ہو یا قرآن پاک کا درس ہو، لہذا بعد میں آنے والا شخص اجتماعی عمل سے ایک طرف ہو کر اپنی نماز ادا کرے۔
دیکھیں! جتنے بھی اجتماعی اعمال ہیں، مثلاً درس، تعلیم، اجتماعی ذکر یا وعظ و نصیحت، بعد میں آنے والے حضرات کو ان کا خیال رکھنا چاہیے کیوں کہ یہ اعمال اگر مسجد میں نہیں کریں گے تو کہاں کریں گے؟ یعنی نیک کام اچھی اور پاک جگہ میں ہونا چاہیے اور مسجد ایک محترم جگہ ہے، جہاں پر لوگوں کے دل اللہ پاک کی طرف مائل ہوتے ہیں، اس لئے ان اعمال کے لئے موزون جگہ مسجد ہی ہے۔
باقی جو شخص جماعت کے بعد مسجد میں آئے تو وہ اپنی نماز دوسری جگہ میں پڑھ لے تاکہ اجتماعی عمل متاثر نہ ہو۔
سوال نمبر 26:
حضرت! اگر ہم سے کوئی شخص یہ کہے کہ مساجد کی بنیاد نماز کے لئے ہے یعنی مسجد اصلاً نماز کے لئے بنائی گئی ہے، اسی وجہ سے تو فرض نماز جماعت سے مسجد میں ادا کی جاتی ہے، اب اگر کوئی شخص جماعت ہو جانے کے بعد باہر سے آئے اور ہم اجتماعی عمل کررہے ہوں، وہ ہمیں کہے کہ میں فرض نماز پڑھنے لگا ہوں لہذا تم لوگ اپنا اجتماعی عمل موقوف کرو، تو اس صورت میں ہمارے واسطے کیا حکم ہے؟
جواب:
جو لوگ بھی اس طرح کے اعتراضات کرتے ہیں، آپ دیکھیں گے کہ جب ان کا اپنا کوئی مسئلہ ہو تو وہ ان چیزوں کی پروا نہیں کرتے، مثلاً جو تبلیغ والے یہ اعتراض کرتے ہیں، وہ اپنی تعلیم کے بارے میں اس بات کا خیال نہیں کرتے، اگر مسجد میں کسی کا جلسہ ہو تو جلسہ کے وقت لوگ مسجد کے تقدس اور نمازی کی نماز کی پروا نہیں کرتے، وہ تو نعرے بھی لگاتے ہیں، نعرے لگانے کی کہاں اجازت ہے؟ اسی طرح اعتراض کرنے والے جو دوسرے حضرات ہیں، وہ بھی اپنے اپنے کاموں کی طرف نہیں دیکھتے کہ وہ جائز ہیں یا نہیں؟ لیکن دوسرے کے کاموں پر اعتراض کرتے ہیں، لہذا معلوم ہوا کہ ان کا اعتراض مسئلہ کی وجہ سے نہیں ہوتا بلکہ نفس کی وجہ سے ہوتا ہے، وہ کوئی علمی بات نہیں کرتے کیوں کہ علمی بات تو مفتیوں سے پوچھی جاتی ہے اور میرے پاس اس مسئلے پر مفتیوں کے فتاوی بھی موجود ہیں۔
وَ آخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ